مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ
1028. حَدِيثُ أَبِي مَالِكٍ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
حدیث نمبر: 22796
Save to word اعراب
حدثنا سفيان ، عن ابي حازم ، عن سهل ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " بعثت انا والساعة كهذه من هذه" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَذِهِ مِنْ هَذِهِ" .
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے اور قیامت کو اس طرح بھیجا گیا ہے جیسے یہ انگلی اس انگلی کے قریب ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5301، م: 2950
حدیث نمبر: 22797
Save to word اعراب
حدثنا سفيان ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لموضع سوط في الجنة، خير من الدنيا وما فيها" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمَوْضِعُ سَوْطٍ فِي الْجَنَّةِ، خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا" .
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جنت میں کسی شخص کے کوڑے کی جگہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3250
حدیث نمبر: 22798
Save to word اعراب
حدثنا سفيان ، حدثنا ابو حازم ، قال: سمعت سهل بن سعد , يقول: انا في القوم إذ دخلت امراة، فقالت: يا رسول الله، إنها قد وهبت نفسها لك، فر فيها رايك فقال رجل: زوجنيها فلم يجبه حتى قامت الثالثة، فقال له: " عندك شيء؟ قال: لا , قال: اذهب فاطلب , قال: لم اجد , قال: فاذهب فاطلب ولو خاتما من حديد , قال: ما وجدت خاتما من حديد , قال: هل معك من القرآن شيء؟ قال: نعم، سورة كذا وسورة كذا , قال: قد انكحتكها على ما معك من القرآن" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ , يَقُولُ: أَنَا فِي الْقَوْمِ إِذْ دَخَلَتْ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا قَدْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لَكَ، فَرَ فِيهَا رَأْيَكَ فَقَالَ رَجُلٌ: زَوِّجْنِيهَا فَلَمْ يُجِبْهُ حَتَّى قَامَتْ الثَّالِثَةَ، فَقَالَ لَهُ: " عِنْدَكَ شَيْءٌ؟ قَالَ: لَا , قَالَ: اذْهَبْ فَاطْلُبْ , قَالَ: لَمْ أَجِدْ , قَالَ: فَاذْهَبْ فَاطْلُبْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ , قَالَ: مَا وَجَدْتُ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ , قَالَ: هَلْ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ شَيْءٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، سُورَةُ كَذَا وَسُورَةُ كَذَا , قَالَ: قَدْ أَنْكَحْتُكَهَا عَلَى مَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ" .
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں لوگوں کے ساتھ تھا کہ ایک عورت بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے اپنے آپ کو آپ کے لئے ہبہ کردیا ہے اب جو آپ کی رائے ہو (وہ کافی دیر تک کھڑی رہی) پھر ایک آدمی کھڑا ہو کر کہنے لگا یا رسول اللہ! (اگر آپ کو اس کی ضرورت نہ ہو تو) مجھ سے ہی اس کا نکاح کرا دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ تین مرتبہ وہ عورت کھڑی ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس اسے مہر میں دینے کے لئے کچھ ہے؟ اس نے کہا کچھ نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اور کچھ تلاش کر کے لاؤ اس نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہی ملے تو وہی لے آؤ وہ کہنے لگا کہ مجھے تو لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ملی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تمہیں قرآن بھی کچھ آتا ہے؟ اس نے کہا جی ہاں! فلاں فلاں سورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اس عورت کے ساتھ تمہارا نکاح قرآن کریم کی ان سورتوں کی وجہ سے کردیا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5149، م: 1425
حدیث نمبر: 22799
Save to word اعراب
حدثنا سفيان ، عن ابي حازم ، عن سهل باي شيء دووي جرح رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: " كان علي يجيء بالماء في ترسه، وفاطمة تغسل الدم عن وجهه، واخذ حصيرا فاحرقه، فحشا به جرحه" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلٍ بِأَيِّ شَيْءٍ دُووِيَ جُرْحُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: " كَانَ عَلِيٌّ يَجِيءُ بِالْمَاءِ فِي تُرْسِهِ، وَفَاطِمَةُ تَغْسِلُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ، وَأَخَذَ حَصِيرًا فَأَحْرَقَهُ، فَحَشَا بِهِ جُرْحَهُ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم کا علاج کسی طرح کیا گیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی ڈھال میں پانی لاتے تھے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ چہرہ مبارک سے خون دھوتی جاتی تھیں پھر انہوں نے ایک چٹائی لے کر اسے جلایا اور اس کی راکھ زخم میں بھر دی (جس سے خون رک گیا)

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 243، م: 1790
حدیث نمبر: 22800
Save to word اعراب
حدثنا سفيان ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: " كان من اثل الغابة" , يعني: منبر النبي صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: " كَانَ مِنْ أَثْلِ الْغَابَةِ" , يَعْنِي: مِنْبَرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر غابہ نامی جگہ کے جھاؤ کے درخت سے بنایا گیا تھا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 377، م: 544
حدیث نمبر: 22801
Save to word اعراب
حدثنا سفيان ، عن ابي حازم ، سمع سهل بن سعد ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من نابه شيء في صلاته، فليقل سبحان الله، إنما التصفيح للنساء، والتسبيح للرجال" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، سَمِعَ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ نَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلَاتِهِ، فَلْيَقُلْ سُبْحَانَ اللَّهِ، إِنَّمَا التَّصْفِيحُ لِلنِّسَاءِ، وَالتَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو نماز میں کسی غلطی کا احساس ہو تو اسے " سبحان اللہ کہنا چاہئے کیونکہ تالی بجانے کا حکم عورتوں کے لئے ہے اور سبحان اللہ کہنا مردوں کے لئے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1204، م: 421
حدیث نمبر: 22802
Save to word اعراب
حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن سهل بن سعد , اطلع رجل من جحر في حجرة النبي صلى الله عليه وسلم ومعه مدرى يحك به راسه، فقال: " لو اعلمك تنظر لطعنت به عينك، إنما جعل الاستئذان من اجل البصر" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ , اطَّلَعَ رَجُلٌ مِنْ جُحْرٍ فِي حُجْرَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ مِدْرًى يَحُكُّ بِهِ رَأْسَهُ، فَقَالَ: " لَوْ أَعْلَمُكَ تَنْظُرُ لَطَعَنْتُ بِهِ عَيْنَكَ، إِنَّمَا جُعِلَ الِاسْتِئْذَانُ مِنْ أَجْلِ الْبَصَرِ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک میں کسی سوراخ سے جھانکنے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں اس وقت ایک کنگھی تھی جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر میں کنگھی فرما رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر مجھے یقین ہوتا کہ تم دیکھ رہے ہو تو میں یہ کنگھی تمہاری آنکھوں پردے مارتا اجازت کا حکم نظر ہی کی وجہ سے تو دیا گیا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 6241، م: 2156
حدیث نمبر: 22803
Save to word اعراب
حدثنا سفيان ، عن الزهري ، سمع سهل بن سعد ," شهد النبي صلى الله عليه وسلم في المتلاعنين، فتلاعنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وانا ابن خمس عشرة، قال: يا رسول الله، إن امسكتها، فقد كذبت عليها , قال: فجاءت به للذي كان يكره .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، سَمِعَ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ ," شَهِدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمُتَلَاعِنَيْنِ، فَتَلَاعَنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ أَمْسَكْتُهَا، فَقَدْ كَذَبْتُ عَلَيْهَا , قَالَ: فَجَاءَتْ بِهِ لِلَّذِي كَانَ يَكْرَهُ .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے جب دو میاں بیوی نے ایک دوسرے سے لعان کیا اس وقت میری عمر پندرہ سال تھی اس آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ! اگر میں نے اسے اپنے پاس ہی رکھا تو گویا میں نے اس پر جھوٹا الزام لگایا پھر اس عورت کے یہاں پیدا ہونے والا بچہ اس شکل و صورت کا تھا جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسندیدگی ظاہر کی تھی۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 22804
Save to word اعراب
حدثنا وكيع ، حدثنا جرير بن حازم , عن الحسن , وسفيان ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ , عن الحسن , وَسُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت اس وقت تک خیر پر قائم رہے گی جب تک وہ افطاری میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرتی رہے گی۔

حكم دارالسلام: هذا الحديث له اسنادان، الاول: طريق الحسن، وهو مرسل، والثاني متصل، خ: 1957، م: 1098
حدیث نمبر: 22805
Save to word اعراب
حدثنا وكيع ، حدثنا ربيعة بن عثمان التيمي ، عن عمران بن ابي انس ، عن سهل بن سعد ، قال:" اختلف رجلان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد الذي اسس على التقوى، فقال احدهما: هو مسجد الرسول , وقال الآخر: هو مسجد قباء فاتيا النبي صلى الله عليه وسلم، فسالاه، فقال: هو مسجدي هذا" , حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني ابو حازم الافزر مولى الاسود بن سفيان المخزومي، عن سهل بن سعد الساعدي من بني عمرو في منازعة، فذكر الحديث.حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا رَبِيعَةُ بْنُ عُثْمَانَ التَّيْمِيُّ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي أَنَسٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ:" اخْتَلَفَ رَجُلَانِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: هُوَ مَسْجِدُ الرَّسُولِ , وَقَالَ الْآخَرُ: هُوَ مَسْجِدُ قُبَاءٍ فَأَتَيَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَاهُ، فَقَالَ: هُوَ مَسْجِدِي هَذَا" , حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ الْأَفْزَرُ مَوْلَى الْأَسْوَدِ بْنِ سُفْيَانَ الْمَخْزُومِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ مِنْ بَنِي عَمْرٍو فِي مُنَازَعَةٍ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ بنو خدرہ اور بنو عمرو بن عوف کے دو آدمیوں کے درمیان اس مسجد کی تعیین میں اختلاف رائے پیدا ہوگیا جس کی بنیاد پہلے دن سے ہی تقویٰ پر رکھی گئی عمری کی رائے مسجد قباء کے متعلق تھی اور خدری کی مسجد نبوی کے متعلق تھی وہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے مراد میری مسجد ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد جيد
حدیث نمبر: 22806
Save to word اعراب
حدثنا يعقوب حدثنا ابي عن ابن إسحاق حدثني ابو حازم الافزر مولى الاسود بن سفيان المخزومي عن سهل بن سعد الساعدي من بني عمرو في منازعة فذكر الحديثحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ الْأَفْزَرُ مَوْلَى الْأَسْوَدِ بْنِ سُفْيَانَ الْمَخْزُومِيِّ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ مِنْ بَنِي عَمْرٍو فِي مُنَازَعَةٍ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد جيد
حدیث نمبر: 22807
Save to word اعراب
حدثنا يزيد ، اخبرنا المسعودي ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: كان بين ناس من الانصار شيء، فانطلق إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلح بينهم، فحضرت الصلاة، فجاء بلال إلى ابي بكر، فقال: يا ابا بكر، قد حضرت الصلاة، وليس رسول الله صلى الله عليه وسلم هاهنا، فاؤذن واقيم فتتقدم وتصلي؟ قال: ما شئت فافعل فتقدم ابو بكر فاستفتح الصلاة وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصفح الناس بابي بكر، فذهب ابو بكر يتنحى، فاوما إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، اي مكانك، فتاخر ابو بكر، وتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى، فلما قضى الصلاة، قال:" يا ابا بكر، ما منعك ان تثبت؟" قال: ما كان لابن ابي قحافة ان يتقدم امام رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" فانتم لم صفحتم؟" , قالوا: لنعلم ابا بكر , قال: " إن التصفيح للنساء، والتسبيح للرجال" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: كَانَ بَيْنَ نَاسٍ مِنَ الْأَنْصَارِ شَيْءٌ، فَانْطَلَقَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ، فَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ، فَجَاءَ بِلَالٌ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ، قَدْ حَضَرَتْ الصَّلَاةُ، وَلَيْسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَاهُنَا، فَأُؤَذِّنُ وَأُقِيمُ فَتَتَقَدَّمَ وَتُصَلِّيَ؟ قَالَ: مَا شِئْتَ فَافْعَلْ فَتَقَدَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَاسْتَفْتَحَ الصَّلَاةَ وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَفَّحَ النَّاسُ بِأَبِي بَكْرٍ، فَذَهَبَ أَبُو بَكْرٍ يَتَنَحَّى، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيْ مَكَانَكَ، فَتَأَخَّرَ أَبُو بَكْرٍ، وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى، فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ، قَالَ:" يَا أَبَا بَكْرٍ، مَا مَنَعَكَ أَنْ تَثْبُتَ؟" قَالَ: مَا كَانَ لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يَتَقَدَّمَ أَمَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" فَأَنْتُمْ لِمَ صَفَّحْتُمْ؟" , قَالُوا: لِنُعْلِمَ أَبَا بَكْرٍ , قَالَ: " إِنَّ التَّصْفِيحَ لِلنِّسَاءِ، وَالتَّسْبِيحَ لِلرِّجَالِ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کچھ انصاری لوگوں کے درمیان کچھ رنجش ہوگئی تھی جن کے درمیان صلح کرانے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے نماز کا وقت آیا تو حضرت بلال سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور عرض کیا اے ابوبکر! نماز کا وقت ہوچکا ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں موجود نہیں ہیں کیا میں اذان دے کر اقامت کہوں تو آپ آگے بڑھ کر نماز پڑھا دیں گے؟ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نماز سے فارغ ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر! تمہیں اپنی جگہ ٹھہرنے سے کس چیز نے منع کیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ ابن ابی قحافہ کی یہ جرأت کہاں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا تم لوگوں نے تالیاں کیوں بجائیں؟ انہوں نے عرض کیا تاکہ ابوبکر کو مطلع کرسکیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تالیاں بجانے کا حکم عورتوں کے لئے ہے اور سبحان اللہ کہنے کا حکم مردوں کے لئے ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1201، م: 421
حدیث نمبر: 22808
Save to word اعراب
حدثنا انس بن عياض ، حدثني ابو حازم ، لا اعلمه إلا عن سهل بن سعد ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إياكم ومحقرات الذنوب، كقوم نزلوا في بطن واد، فجاء ذا بعود، وجاء ذا بعود، حتى انضجوا خبزتهم، وإن محقرات الذنوب متى يؤخذ بها صاحبها تهلكه" .حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ ، لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِيَّاكُمْ وَمُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ، كَقَوْمٍ نَزَلُوا فِي بَطْنِ وَادٍ، فَجَاءَ ذَا بِعُودٍ، وَجَاءَ ذَا بِعُودٍ، حَتَّى أَنْضَجُوا خُبْزَتَهُمْ، وَإِنَّ مُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ مَتَى يُؤْخَذْ بِهَا صَاحِبُهَا تُهْلِكْهُ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا معمولی اور حقیر گناہوں سے بھی بچا کرو اس لئے کہ ان کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو کسی وادی میں اتری ایک آدمی ایک لکڑی لائے اور دوسرا دوسری لکڑی لائے اور اس طرح وہ اپنی روٹیاں پکالیں اور حقیر گناہوں پر جب انسان کا مؤ اخذہ ہوگا تو وہ اسے ہلاک کر ڈالیں گے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 22809
Save to word اعراب
وقال ابو حازم : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قال ابو ضمرة : لا اعلمه إلا عن سهل بن سعد ، قال " مثلي ومثل الساعة كهاتين" , وفرق بين اصبعيه الوسطى والتي تلي الإبهام، ثم قال:" مثلي ومثل الساعة كمثل فرسي رهان"، ثم قال:" مثلي ومثل الساعة كمثل رجل بعثه قومه طليعة، فلما خشي ان يسبق الاح بثوبه اتيتم اتيتم"، ثم يقول رسول الله صلى الله عليه وسلم" انا ذلك" .وقَالَ أَبُو حَازِمٍ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ أَبُو ضَمْرَةَ : لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ " مَثَلِي وَمَثَلُ السَّاعَةِ كَهَاتَيْنِ" , وَفَرَّقَ بَيْنَ أُصْبُعَيْهِ الْوُسْطَى وَالَّتِي تَلِي الْإِبْهَامَ، ثُمَّ قَالَ:" مَثَلِي وَمَثَلُ السَّاعَةِ كَمَثَلِ فَرَسَيْ رِهَانٍ"، ثُمَّ قَالَ:" مَثَلِي وَمَثَلُ السَّاعَةِ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَعَثَهُ قَوْمُهُ طَلِيعَةً، فَلَمَّا خَشِيَ أَنْ يُسْبَقَ أَلَاحَ بِثَوْبِهِ أُتِيتُمْ أُتِيتُمْ"، ثُمَّ يَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنَا ذَلِكَ" .
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری اور قیامت کی مثال ان دو انگلیوں کی طرح ہے یہ کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے درمیانی انگلی اور انگوٹھے کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا۔ اور فرمایا کہ میری اور قیامت کی مثال دو ایک جیسے گھوڑوں کی سی ہے۔ پھر فرمایا کہ میری اور قیامت کی مثال اس شخص کی سی ہے جسے اس کی قوم نے ہر اول کے طور پر بھیجا ہو جب اسے اندیشہ ہو کہ دشمن اس سے آگے بڑھ جائے گا تو وہ اپنے کپڑے ہلا ہلا کر لوگوں کو خبردار کرے کہ تم پر دشمن آپہنچا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ آدمی میں ہوں۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 22810
Save to word اعراب
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا سفيان ، عن ابي حازم ، قال: سمعت سهل بن سعد ، يقول: " كان رجال يصلون مع النبي صلى الله عليه وسلم عاقدي ازرهم على رقابهم كهيئة الصبيان، فيقال للنساء: لا ترفعن رءوسكن حتى يستوي الرجال جلوسا" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ ، يَقُولُ: " كَانَ رِجَالٌ يُصَلُّونَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَاقِدِي أُزُرِهِمْ عَلَى رِقَابِهِمْ كَهَيْئَةِ الصِّبْيَانِ، فَيُقَالُ لِلنِّسَاءِ: لَا تَرْفَعْنَ رُءُوسَكُنَّ حَتَّى يَسْتَوِيَ الرِّجَالُ جُلُوسًا" .
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ان لوگوں کو دیکھا ہے جو اپنے تہبند کی تنگی کی وجہ سے بچوں کی طرح اپنے تہبند کی گرہیں اپنی گردن میں لگایا کرتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اسی حال میں نماز پڑھا کرتے تھے ایک دن کسی شخص نے کہہ دیا کہ اے گروہ خواتین! سجدے سے اس وقت تک سر نہ اٹھایا کرو جب تک مرد اپنا سر نہ اٹھالیں۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 22811
Save to word اعراب
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ارتج احد وعليه النبي صلى الله عليه وسلم وابو بكر , وعمر , وعثمان، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " اثبت احد، ما عليك إلا نبي وصديق وشهيدان" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ارْتَجَّ أُحُدٌ وَعَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ , وَعُمَرُ , وَعُثْمَانُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اثْبُتْ أُحُدُ، مَا عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيدَانِ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ احد پہاڑ لرزنے لگا جس پر اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہ موجود تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے احد! تھم جا تجھ پر ایک نبی ایک صدیق اور دو شہیدوں کے علاوہ کوئی نہیں۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 22812
Save to word اعراب
حدثنا ابو عبد الرحمن ، حدثنا عياش يعني ابن عقبة ، حدثني يحيى بن ميمون . وابو الحسين زيد بن الحباب ، قال: وحدثني عياش يعني ابن عقبة ، قال: حدثني يحيى بن ميمون ، المعنى، قال: وقف علينا سهل بن سعد، فقال سهل : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من جلس في المسجد ينتظر الصلاة، فهو في صلاة" .حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا عَيَّاشٌ يَعْنِي ابْنَ عُقْبَةَ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مَيْمُونٍ . وَأَبُو الْحُسَيْنِ زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي عَيَّاشٌ يَعْنِي ابْنَ عُقْبَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مَيْمُونٍ ، الْمَعْنَى، قَالَ: وَقَفَ عَلَيْنَا سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ، فَقَالَ سَهْلٌ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ جَلَسَ فِي الْمَسْجِدِ يَنْتَظِرُ الصَّلَاةَ، فَهُوَ فِي صَلَاةٍ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص نماز کا انتظار کرتے ہوئے مسجد میں بیٹھا رہے وہ نماز ہی میں شمار ہوتا ہے۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد قوي
حدیث نمبر: 22813
Save to word اعراب
حدثنا ابو النضر ، حدثنا عبد الرحمن يعني ابن عبد الله بن دينار ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل في بعض مغازيه، فابلى بلاء حسنا، فعجب المسلمون من بلائه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما إنه من اهل النار" , قلنا: في سبيل الله مع رسول الله! الله ورسوله اعلم , قال: فجرح الرجل، فلما اشتدت به الجراح وضع ذباب سيفه بين ثدييه، ثم اتكا عليه، فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقيل له: الرجل الذي قلت له ما قلت، قد رايته يتضرب والسيف بين اضعافه , فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " إن الرجل ليعمل بعمل اهل الجنة فيما يبدو للناس، وإنه لمن اهل النار، وإنه ليعمل عمل اهل النار فيما يبدو للناس، وإنه لمن اهل الجنة" .حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ، فَأَبْلَى بَلَاءً حَسَنًا، فَعَجِبَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ بَلَائِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَا إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ" , قُلْنَا: فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ! اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ: فَجُرِحَ الرَّجُلُ، فَلَمَّا اشْتَدَّتْ بِهِ الْجِرَاحُ وَضَعَ ذُبَابَ سَيْفِهِ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ، ثُمَّ اتَّكَأَ عَلَيْهِ، فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ لَهُ: الرَّجُلُ الَّذِي قُلْتَ لَهُ مَا قُلْتَ، قَدْ رَأَيْتُهُ يَتَضَرَّبُ وَالسَّيْفُ بَيْنَ أَضْعَافِهِ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فِيمَا يَبْدُوَ لِلنَّاسِ، وَإِنَّهُ لَمِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّهُ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ، وَإِنَّهُ لَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک غزوے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک آدمی تھا جس نے خوب جوانمردی کے ساتھ میدان جنگ میں کار ہائے نمایاں سر انجام دیئے مسلمان اس سے بہت خوش تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ آدمی جہنمی ہے ہم نے عرض کیا کہ اللہ کے راستے میں اور اللہ کے پیغمبر کے ساتھ ہونے کے باوجود؟ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں دوران جنگ اس آدمی کو ایک زخم لگا جب زخم کی تکلیف شدت اختیار کرگئی تو اس نے اپنی تلوار اپنی چھاتی پر رکھی اور اسے آرپار کردیا یہ دیکھ کر ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر بتایا کہ جس آدمی کے متعلق آپ نے وہ بات فرمائی تھی اسے میں نے اپنے جسم میں تلوار پیوست کرتے ہوئے دیکھا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان بظاہر لوگوں کی نظروں میں اہل جنت والے اعمال کر رہا ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہ اہل جہنم میں ہوتا ہے اسی طرح انسان بظاہر لوگوں کی نظروں میں اہل جہنم والے اعمال کر رہا ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہ جنتی ہوتا ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2898، م: 112، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل عبدالرحمن بن عبدالله
حدیث نمبر: 22814
Save to word اعراب
حدثنا عبد الصمد ، قال: حدثنا عبد الرحمن يعني ابن عبد الله بن دينار ، حدثنا ابو حازم ، عن سهل بن سعد ، انه قيل له: هل راى رسول الله صلى الله عليه وسلم النقي قبل موته بعينه يعني: الحوارى؟ قال: " ما راى رسول الله صلى الله عليه وسلم النقي بعينه حتى لقي الله عز وجل , فقيل له: هل كان لكم مناخل على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: ما كانت لنا مناخل , قيل له: فكيف كنتم تصنعون بالشعير؟ قال: ننفخه فيطير منه ما طار" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، أَنَّهُ قِيلَ لَهُ: هَلْ رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّقِيَّ قَبْلَ مَوْتِهِ بِعَيْنِهِ يَعْنِي: الْحُوَّارَى؟ قَالَ: " مَا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّقِيَّ بِعَيْنِهِ حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ , فَقِيلَ لَهُ: هَلْ كَانَ لَكُمْ مَنَاخِلُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: مَا كَانَتْ لَنَا مَنَاخِلُ , قِيلَ لَهُ: فَكَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ بِالشَّعِيرِ؟ قَالَ: نَنْفُخُهُ فَيَطِيرُ مِنْهُ مَا طَارَ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال سے قبل اپنی آنکھوں سے میدے کو دیکھا تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آنکھوں سے کبھی میدے کو نہیں دیکھا یہاں تک کہ اللہ سے جا ملے سائل نے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں کے پاس عہد نبوت میں چھلنیاں ہوتی تھیں؟ انہوں نے فرمایا ہمارے پاس چھلنیاں نہیں تھیں سائل نے پوچھا پھر آپ لوگ جو کے ساتھ کیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہم اسے پھونکیں مارتے تھے جتنا اڑنا ہوتا تھا وہ اڑ جاتا تھا۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد
حدیث نمبر: 22815
Save to word اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم ، عن ابيه ، عن سهل بن سعد ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالخندق وهم يحفرون، ونحن ننقل التراب على اكتافنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اللهم لا عيش إلا عيش الآخرة، فاغفر للمهاجرين , والانصار" .حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَالْخَنْدَقِ وَهُمْ يَحْفِرُونَ، وَنَحْنُ نَنْقُلُ التُّرَابَ عَلَى أَكْتَافِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَةِ، فَاغْفِرْ لِلْمُهَاجِرِينَ , وَالْأَنْصَارِ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ غزوہ خندق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ خندق کھود رہے تھے اور اپنے کندھوں پر اٹھا اٹھا کر مٹی نکال کر لیجا رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر فرمانے لگے اے اللہ! اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے اے اللہ! مہاجرین و انصار کی بخشش فرما۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3797، م: 1804
حدیث نمبر: 22816
Save to word اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن زيد ، حدثنا ابو حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: كان قتال بين بني عمرو بن عوف، فبلغ النبي صلى الله عليه وسلم، فاتاهم بعد الظهر ليصلح بينهم، وقال:" يا بلال، إن حضرت الصلاة ولم آت، فمر ابا بكر فليصل بالناس" , قال: فلما حضرت العصر اقام بلال الصلاة، ثم امر ابا بكر فتقدم بهم، وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بعدما دخل ابو بكر في الصلاة، فلما راوه صفحوا، وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يشق الناس حتى قام خلف ابي بكر، قال: وكان ابو بكر إذا دخل في الصلاة لم يلتفت، فلما راى التصفيح لا يمسك عنه، فالتفت فراى النبي صلى الله عليه وسلم خلفه، فاوما إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده ان امضه، فقام ابو بكر هنية، فحمد الله على ذلك، ثم مشى القهقرى، قال: فتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم , فصلى بالناس، فلما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاته، قال:" يا ابا بكر، ما منعك إذ اومات إليك ان لا تكون مضيت؟" , قال: فقال ابو بكر لم يكن لابن ابي قحافة ان يؤم رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال للناس: " إذا نابكم في صلاتكم شيء، فليسبح الرجال، وليصفح النساء" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: كَانَ قِتَالٌ بَيْنَ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَاهُمْ بَعْدَ الظُّهْرِ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ، وَقَالَ:" يَا بِلَالُ، إِنْ حَضَرَتْ الصَّلَاةُ وَلَمْ آتِ، فَمُرْ أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ" , قَالَ: فَلَمَّا حَضَرَتْ الْعَصْرُ أَقَامَ بِلَالٌ الصَّلَاةَ، ثُمَّ أَمَرَ أَبَا بَكْرٍ فَتَقَدَّمَ بِهِمْ، وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَمَا دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ فِي الصَّلَاةِ، فَلَمَّا رَأَوْهُ صَفَّحُوا، وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشُقُّ النَّاسَ حَتَّى قَامَ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ لَمْ يَلْتَفِتْ، فَلَمَّا رَأَى التَّصْفِيحَ لَا يُمْسَكُ عَنْهُ، فَالْتَفَتَ فَرَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلْفَهُ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ أَنْ امْضِهْ، فَقَامَ أَبُو بَكْرٍ هُنَيَّةً، فَحَمِدَ اللَّهَ عَلَى ذَلِكَ، ثُمَّ مَشَى الْقَهْقَرَى، قَالَ: فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ، قَالَ:" يَا أَبَا بَكْرٍ، مَا مَنَعَكَ إِذْ أَوْمَأْتُ إِلَيْكَ أَنْ لَا تَكُونَ مَضَيْتَ؟" , قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ لَمْ يَكُنْ لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يَؤُمَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ لِلنَّاسِ: " إِذَا نَابَكُمْ فِي صَلَاتِكُمْ شَيْءٌ، فَلْيُسَبِّحْ الرِّجَالُ، وَلْيُصَفِّحْ النِّسَاءُ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کچھ انصاری لوگوں کے درمیان کچھ رنجش ہوگئی تھی جن کے درمیان صلح کرانے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے نماز کا وقت آیا تو حضرت بلال سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور عرض کیا اے ابوبکر! نماز کا وقت ہوچکا ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں موجود نہیں ہیں کیا میں اذان دے کر اقامت کہوں تو آپ آگے بڑھ کر نماز پڑھا دیں گے؟ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمہاری مرضی چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان و اقامت کہی اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر نماز شروع کردی۔ اسی دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے لوگ تالیاں بجانے لگے جسے محسوس کر کے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارے سے فرمایا کہ اپنی ہی جگہ رہو لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے آگے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھا دی نماز سے فارغ ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر! تمہیں اپنی جگہ ٹھہرنے سے کس چیز نے منع کیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ ابن ابی قحافہ کی یہ جرأت کہاں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا تم لوگوں نے تالیاں کیوں بجائیں؟ انہوں نے عرض کیا تاکہ ابوبکر کو مطلع کرسکیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تالیاں بجانے کا حکم عورتوں کے لئے ہے اور سبحان اللہ کہنے کا حکم مردوں کے لئے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 7190، م: 421
حدیث نمبر: 22817
Save to word اعراب
حدثنا يونس بن محمد ، حدثنا حماد ، حدثني عبيد الله بن عمر ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: حماد: ثم لقيت ابا حازم فحدثني به، فلم انكر مما حدثني شيئا، قال: كان قتال بين بني عمرو بن عوف، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم بعد الظهر، فاتاهم ليصلح بينهم، وقال لبلال:" إن حضرت الصلاة ولم آت، فمر ابا بكر فليصل بالناس" , قال: فلما حضرت الصلاة، اذن، ثم اقام، فامر ابا بكر فتقدم، فلما تقدم جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما جاء صفح الناس، قال: وكان ابو بكر إذا دخل في الصلاة لم يلتفت، قال: فلما رآهم لا يمسكون التفت فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فاوما إليه بيده ان امضه، قال: فرجع ابو بكر القهقرى، قال: وتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة، قال:" يا ابا بكر، ما منعك إذ اومات إليك ان تمضي في صلاتك؟" قال: فقال: ما كان لابن ابي قحافة ان يؤم رسول الله صلى الله عليه وسلم , ثم قال: " إذا نابكم في الصلاة شيء فليسبح الرجال، وليصفق النساء" .حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: حَمَّادٌ: ثُمَّ لَقِيتُ أَبَا حَازِمٍ فَحَدَّثَنِي بِهِ، فَلَمْ أُنْكِرْ مِمَّا حَدَّثَنِي شَيْئًا، قَالَ: كَانَ قِتَالٌ بَيْنَ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الظُّهْرِ، فَأَتَاهُمْ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ، وَقَالَ لِبِلَالٍ:" إِنْ حَضَرَتْ الصَّلَاةُ وَلَمْ آتِ، فَمُرْ أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ" , قَالَ: فَلَمَّا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ، أَذَّنَ، ثُمَّ أَقَامَ، فَأَمَرَ أَبَا بَكْرٍ فَتَقَدَّمَ، فَلَمَّا تَقَدَّمَ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا جَاءَ صَفَّحَ النَّاسُ، قَالَ: وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ لَمْ يَلْتَفِتْ، قَالَ: فَلَمَّا رَآهُمْ لَا يُمْسِكُونَ الْتَفَتَ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ بِيَدِهِ أَنْ امْضِهْ، قَالَ: فَرَجَعَ أَبُو بَكْرٍ الْقَهْقَرَى، قَالَ: وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ، قَالَ:" يَا أَبَا بَكْرٍ، مَا مَنَعَكَ إِذْ أَوْمَأْتُ إِلَيْكَ أَنْ تَمْضِيَ فِي صَلَاتِكَ؟" قَالَ: فَقَالَ: مَا كَانَ لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يَؤُمَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ قَالَ: " إِذَا نَابَكُمْ فِي الصَّلَاةِ شَيْءٌ فَلْيُسَبِّحْ الرِّجَالُ، وَلْيُصَفِّقْ النِّسَاءُ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کچھ انصاری لوگوں کے درمیان کچھ رنجش ہوگئی تھی جن کے درمیان صلح کرانے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے نماز کا وقت آیا تو حضرت بلال سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور عرض کیا اے ابوبکر! نماز کا وقت ہوچکا ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں موجود نہیں ہیں کیا میں اذان دے کر اقامت کہوں تو آپ آگے بڑھ کر نماز پڑھا دیں گے؟ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمہاری مرضی چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان و اقامت کہی اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر نماز شروع کردی۔ اسی دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے لوگ تالیاں بجانے لگے جسے محسوس کر کے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارے سے فرمایا کہ اپنی ہی جگہ رہو لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے آگے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھا دی نماز سے فارغ ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر! تمہیں اپنی جگہ ٹھہرنے سے کس چیز نے منع کیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ ابن ابی قحافہ کی یہ جرأت کہاں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا تم لوگوں نے تالیاں کیوں بجائیں؟ انہوں نے عرض کیا تاکہ ابوبکر کو مطلع کرسکیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تالیاں بجانے کا حکم عورتوں کے لئے ہے اور سبحان اللہ کہنے کا حکم مردوں کے لئے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1201، م: 421
حدیث نمبر: 22818
Save to word اعراب
حدثنا احمد بن عبد الملك ، حدثنا حماد بن زيد ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إن للجنة بابا يقال له: الريان , قال: يقال يوم القيامة: اين الصائمون؟ هلموا إلى الريان، فإذا دخل آخرهم، اغلق ذلك الباب" .حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ لِلْجَنَّةِ بَابًا يُقَالُ لَهُ: الرَّيَّانُ , قَالَ: يُقَالُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: أَيْنَ الصَّائِمُونَ؟ هَلُمُّوا إِلَى الرَّيَّانِ، فَإِذَا دَخَلَ آخِرُهُمْ، أُغْلِقَ ذَلِكَ الْبَابُ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جنت کا ایک دروازہ ہے جس کا نام " ریان " ہے قیامت کے دن یہ اعلان کیا جائے گا کہ روزے دار کہاں ہیں؟ ریان کی طرف آؤ جب ان کا آخری آدمی بھی اندر داخل ہوچکے گا تو وہ دروازہ بند کردیا جائے گا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1896، م: 1152
حدیث نمبر: 22819
Save to word اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا بشر بن المفضل ، حدثنا عبد الرحمن بن إسحاق ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن للجنة بابا يدعى: الريان، يقال يوم القيامة: اين الصائمون؟ فإذا دخلوه اغلق، فلم يدخل منه غيرهم" , قال: فلقيت ابا حازم فسالته فحدثني به، غير اني لحديث عبد الرحمن احفظ.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ لِلْجَنَّةِ بَابًا يُدْعَى: الرَّيَّانُ، يُقَالُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: أَيْنَ الصَّائِمُونَ؟ فَإِذَا دَخَلُوهُ أُغْلِقَ، فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ غَيْرُهُمْ" , قَالَ: فَلَقِيتُ أَبَا حَازِمٍ فَسَأَلْتُهُ فَحَدَّثَنِي بِهِ، غَيْرَ أَنِّي لِحَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَحْفَظُ.
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جنت کا ایک دروازہ ہے جس کا نام " ریان " ہے قیامت کے دن یہ اعلان کیا جائے گا کہ روزے دار کہاں ہیں؟ ریان کی طرف آؤ جب ان کا آخری آدمی بھی اندر داخل ہوچکے گا تو وہ دروازہ بند کردیا جائے گا۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 22820
Save to word اعراب
حدثنا سعيد بن منصور ، حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " انا وكافل اليتيم كهاتين في الجنة" , واشار بالسبابة والوسطى، وفرق بينهما قليلا.حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ كَهَاتَيْنِ فِي الْجَنَّةِ" , وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى، وَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا قَلِيلًا.
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں ان دو انگلیوں کی طرح ہوں گے یہ کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت والی اور درمیانی انگلی میں کچھ فاصلہ رکھتے ہوئے اشارہ فرمایا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5304
حدیث نمبر: 22821
Save to word اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن ، عن ابي حازم ، اخبرني سهل بن سعد ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال يوم خيبر: " لاعطين هذه الراية غدا رجلا يفتح الله على يديه، يحب الله ورسوله، ويحبه الله ورسوله" , قال: فبات الناس يدوكون ليلتهم ايهم يعطاها، فلما اصبح الناس، غدوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، كلهم يرجو ان يعطاها، فقال:" اين علي بن ابي طالب؟ فقال: هو يا رسول الله يشتكي عينيه , قال: فارسلوا إليه فاتي به، فبصق رسول الله صلى الله عليه وسلم في عينيه ودعا له، فبرا حتى كان لم يكن به وجع، فاعطاه الراية، فقال علي: يا رسول الله , اقاتلهم حتى يكونوا مثلنا؟ فقال: انفذ على رسلك حتى تنزل بساحتهم، ثم ادعهم إلى الإسلام، واخبرهم بما يجب عليهم من حق الله فيه، فوالله لان يهدي الله بك رجلا واحدا، خير لك من ان يكون لك حمر النعم" .حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، أَخْبَرَنِي سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ: " لَأُعْطِيَنَّ هَذِهِ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلًا يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَى يَدَيْهِ، يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ" , قَالَ: فَبَاتَ النَّاسُ يَدُوكُونَ لَيْلَتَهُمْ أَيُّهُمْ يُعْطَاهَا، فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ، غَدَوْا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كُلُّهُمْ يَرْجُو أَنْ يُعْطَاهَا، فَقَالَ:" أَيْنَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ؟ فَقَالَ: هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ يَشْتَكِي عَيْنَيْهِ , قَالَ: فَأَرْسِلُوا إِلَيْهِ فَأُتِيَ بِهِ، فَبَصَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَيْنَيْهِ وَدَعَا لَهُ، فَبَرَأَ حَتَّى كَأَنْ لَمْ يَكُنْ بِهِ وَجَعٌ، فَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ، فَقَالَ عَلِيٌّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أُقَاتِلُهُمْ حَتَّى يَكُونُوا مِثْلَنَا؟ فَقَالَ: انْفُذْ عَلَى رِسْلِكَ حَتَّى تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ مِنْ حَقِّ اللَّهِ فِيهِ، فَوَاللَّهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِكَ رَجُلًا وَاحِدًا، خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ" .
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کل میں یہ جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں اللہ خیبر پر فتح عطاء فرما دے گا وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا لوگوں کی رات اسی اشتیاق میں گذر گئی کہ دیکھیں جھنڈا کس کو ملتا ہے؟ صبح ہوئی تو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ہر ایک کی خواہش یہی تھی کہ جھنڈا اسے ملے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ تو بیمار ہیں چنانچہ انہیں قاصد بھیج کر بلایا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں پر لعاب دہن لگایا اور ان کے لئے دعاء کی تو وہ ٹھیک ہوگئے اور یوں لگتا تھا کہ جیسے وہ کبھی بیمار ہی نہیں ہوئے تھے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جھنڈا انہیں دے دیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں ان سے اس وقت تک قتال کروں جب تک وہ ہم جیسے نہ ہوجائیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رکو جب تم ان کے علاقے میں پہنچو تو انہیں اسلام کی طرف دعوت دو اور انہیں اللہ کے حقوق سے آگاہ کرو، بخدا! تمہارے ذریعے کسی ایک آدمی کو ہدایت مل جانا تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3009، م: 2406
حدیث نمبر: 22822
Save to word اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن ، عن ابي حازم ، قال: سمعت سهلا ، يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: " انا فرطكم على الحوض، من ورد، شرب، ومن شرب، لم يظما بعده ابدا، وليردن علي اقوام اعرفهم ويعرفونني، ثم يحال بيني وبينهم" , قال ابو حازم : فسمعني النعمان بن ابي عياش وانا احدثهم هذا الحديث، فقال: هكذا سمعت سهلا يقول؟ قال: فقلت: نعم , قال: وانا اشهد على ابي سعيد الخدري لسمعت يزيد، فيقول:" إنهم مني، فيقال: إنك لا تدري ما عملوا بعدك , فاقول: سحقا سحقا لمن بدل بعدي".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَهْلًا ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " أَنَا فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ، مَنْ وَرَدَ، شَرِبَ، وَمَنْ شَرِبَ، لَمْ يَظْمَأْ بَعْدَهُ أَبَدًا، وَلَيَرِدَنَّ عَلَيَّ أَقْوَامٌ أَعْرِفُهُمْ وَيَعْرِفُونَنِي، ثُمَّ يُحَالُ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ" , قَالَ أَبُو حَازِمٍ : فَسَمِعَنِي النُّعْمَانُ بْنُ أَبِي عَيَّاشٍ وَأَنَا أُحَدِّثُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالَ: هَكَذَا سَمِعْتَ سَهْلًا يَقُولُ؟ قَالَ: فَقُلْتُ: نَعَمْ , قَالَ: وَأَنَا أَشْهَدُ عَلَى أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ لَسَمِعْتُ يَزِيدَ، فَيَقُولُ:" إِنَّهُمْ مِنِّي، فَيُقَالُ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا عَمِلُوا بَعْدَكَ , فَأَقُولُ: سُحْقًا سُحْقًا لِمَنْ بَدَّلَ بَعْدِي".
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حوض کوثر پر تمہارا انتظار کروں گا جو شخص وہاں آئے گا وہ اس کا پانی بھی پئے گا اور جو اس کا پانی پی لے گا وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا اور میرے پاس کچھ ایسے لوگ بھی آئیں گے جنہیں میں پہنچانوں گا اور وہ مجھے پہچانیں گے لیکن پھر ان کے اور میرے درمیان رکاوٹ کھڑی کردی جائے گی۔ ابوحازم کہتے ہیں کہ حضرت نعمان بن ابی عیاش نے مجھے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا تو کہنے لگے کیا تم نے حضرت سہل رضی اللہ عنہ کو اسی طرح فرماتے ہوئے سنا ہے میں نے عرض کیا جی ہاں! انہوں نے کہا کہ میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے متعلق گواہی دیتا ہوں کہ میں نے انہیں یہ اضافہ نقل کرتے ہوئے سنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے یہ میرے امتی ہیں تو کہا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے انہوں نے آپ کے بعد کیا اعمال سر انجام دیئے تھے؟ میں کہوں گا کہ دور ہوجائیں وہ لوگ جنہوں نے میرے بعد میرے دین کو بدل دیا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 7050، م: 2290
حدیث نمبر: 22823
Save to word اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا عمر بن علي ، قال: سمعت ابا حازم ، عن سهل بن سعد ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من توكل لي ما بين لحييه وما بين رجليه، توكلت له بالجنة" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ تَوَكَّلَ لِي مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ، تَوَكَّلْتُ لَهُ بِالْجَنَّةِ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص مجھے اپنے دونوں جبڑوں اور دونوں ٹانگوں کے درمیان والی چیزوں کی ضمانت دے دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 6474
حدیث نمبر: 22824
Save to word اعراب
حدثني إسحاق بن عيسى ، حدثنا مالك ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد الانصاري , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي بشراب فشرب منه، وعن يمينه غلام، وعن يساره الاشياخ، فقال للغلام: " اتاذن لي ان اعطي هؤلاء , فقال: لا والله، لا اوثر بنصيبي منك احدا , قال: فتله رسول الله صلى الله عليه وسلم في يده" .حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيِّ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَ مِنْهُ، وَعَنْ يَمِينِهِ غُلَامٌ، وَعَنْ يَسَارِهِ الْأَشْيَاخُ، فَقَالَ لِلْغُلَامِ: " أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أُعْطِيَ هَؤُلَاءِ , فَقَالَ: لَا وَاللَّهِ، لَا أُوثِرُ بِنَصِيبِي مِنْكَ أَحَدًا , قَالَ: فَتَلَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَدِهِ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مرتبہ کوئی مشروب لایا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نوش فرمایا آپ کی دائیں جانب ایک لڑکا تھا اور بائیں جانب عمر رسیدہ افراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکے سے پوچھا کیا تم مجھے اس بات کی اجازت دیتے ہو کہ اپنا پس خودرہ انہیں دے دوں؟ اس لڑکے نے " نہیں " کہا اور کہنے لگا اللہ کی قسم! میں آپ کے حصے پر کسی کو ترجیح نہیں دوں گا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ برتن اس کے ہاتھ پر پٹک دیا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2451، م: 2030
حدیث نمبر: 22825
Save to word اعراب
حدثنا سريج بن النعمان ، حدثنا ابن ابي حازم ، قال: اخبرني ابي ، عن سهل بن سعد الساعدي , ان امراة اتت رسول الله صلى الله عليه وسلم ببردة منسوجة، فيها حاشيتاها، قال سهل: وهل تدرون ما البردة؟ قالوا: نعم، هي الشملة , قال: نعم، فقالت: يا رسول الله، نسجت هذه بيدي، فجئت بها لاكسوكها فاخذها النبي صلى الله عليه وسلم محتاجا إليها، فخرج علينا، وإنها لإزاره، فجسها فلان بن فلان رجل سماه، فقال: ما احسن هذه البردة! اكسنيها يا رسول الله، قال:" نعم" , فلما دخل طواها وارسل بها إليه، فقال له القوم: والله ما احسنت، كسيها رسول الله صلى الله عليه وسلم محتاجا إليها، ثم سالته إياها، وقد علمت انه لا يرد سائلا! فقال: والله إني ما سالته لالبسها، ولكن سالته إياها لتكون كفني يوم اموت" , قال سهل: فكانت كفنه يوم مات".حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ , أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبُرْدَةٍ مَنْسُوجَةٍ، فِيهَا حَاشِيَتَاهَا، قَالَ سَهْلٌ: وَهَلْ تَدْرُونَ مَا الْبُرْدَةُ؟ قَالُوا: نَعَمْ، هِيَ الشَّمْلَةُ , قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَسَجْتُ هَذِهِ بِيَدِي، فَجِئْتُ بِهَا لِأَكْسُوَكَهَا فَأَخَذَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْتَاجًا إِلَيْهَا، فَخَرَجَ عَلَيْنَا، وَإِنَّهَا لَإِزَارُهُ، فَجَسَّهَا فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ رَجُلٌ سَمَّاهُ، فَقَالَ: مَا أَحْسَنَ هَذِهِ الْبُرْدَةَ! اكْسُنِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" نَعَمْ" , فَلَمَّا دَخَلَ طَوَاهَا وَأَرْسَلَ بِهَا إِلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ الْقَوْمُ: وَاللَّهِ مَا أَحْسَنْتَ، كُسِيَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْتَاجًا إِلَيْهَا، ثُمَّ سَأَلْتَهُ إِيَّاهَا، وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّهُ لَا يَرُدُّ سَائِلًا! فَقَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي مَا سَأَلْتُهُ لِأَلْبَسَهَا، وَلَكِنْ سَأَلْتُهُ إِيَّاهَا لِتَكُونَ كَفَنِي يَوْمَ أَمُوتُ" , قَالَ سَهْلٌ: فَكَانَتْ كَفَنَهُ يَوْمَ مَاتَ".
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بنی ہوئی چادر " جس پر دونوں طرف کناری لگی ہوئی تھی " لے کر آئی (حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو چادر کی وضاحت بھی بتائی) اور کہنے لگی یا رسول اللہ! یہ میں اپنے ہاتھ سے بن کر آپ کے پاس لائی ہوں تاکہ آپ اسے پہن لیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ ضرورت تھی اس لئے وہ چادر اس سے لے لی، تھوڑی دیر بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب باہر آئے تو وہ چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر تھی ایک آدمی نے " جس کا نام حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے بتایا تھا " اسے چھو کر دیکھا اور کہنے لگا کہ کیسی عمدہ چادر ہے یا رسول اللہ! یہ مجھے پہننے کے لئے دے دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا، گھر جا کر اسے لپیٹا اور اس آدمی کے پاس اسے بھجوا دیا۔ لوگوں نے اس سے کہا بخدا! تم نے اچھا نہیں کیا یہ چادر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی نے دی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی ضرورت بھی تھی پھر تم نے ان سے مانگ لی جب کہ تم جانتے بھی کہ وہ کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے اس نے جواب دیا واللہ میں نے یہ چادر پہننے کے لئے نہیں مانگی بلکہ اس لئے مانگی ہے کہ دم واپسی یہ میرا کفن بنایا جائے چنانچہ جس دن وہ فوت ہوا اس کا کفن وہی چادر تھی۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1277
حدیث نمبر: 22826
Save to word اعراب
حدثنا عبد الله، حدثني ابي، حدثنا هارون بن معروف , وسمعته انا من هارون بن معروف ، اخبرنا ابن وهب ، حدثني ابو صخر، ان ابا حازم حدثه، قال: سمعت سهل بن سعد ، يقول: شهدت من رسول الله صلى الله عليه وسلم مجلسا وصف فيه الجنة حتى انتهى، ثم قال في آخر حديثه: " فيها ما لا عين رات، ولا اذن سمعت، ولا على قلب بشر خطر، ثم قرا هذه الآية: تتجافى جنوبهم عن المضاجع يدعون ربهم خوفا وطمعا ومما رزقناهم ينفقون فلا تعلم نفس ما اخفي لهم من قرة اعين جزاء بما كانوا يعملون سورة السجدة آية 16 - 17" .حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَي أَبِي، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ , وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْ هَارُونَ بْنِ مَعْرُوفٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو صَخْرٍ، أَنَّ أَبَا حَازِمٍ حَدَّثَهُ، قَالَ: سَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ ، يَقُولُ: شَهِدْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَجْلِسًا وَصَفَ فِيهِ الْجَنَّةَ حَتَّى انْتَهَى، ثُمَّ قَالَ فِي آخِرِ حَدِيثِهِ: " فِيهَا مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ، وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ خَطَرَ، ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ: تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ سورة السجدة آية 16 - 17" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مجلس میں شریک ہوا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنت کے احوال بیان فرما رہے تھے جب گفتگو کا اختتام ہونے لگا تو آخر میں فرمایا وہاں ایسی چیزیں ہوں گی جنہیں کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا اور نہ کسی کان نے سنا ہوگا اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گذرا ہوگا پھر یہ آیت تلاوت فرمائی " تتجافی جنوبہم عن المضاجع یدعون ربہم خوفا وطمعا و مما رزقناہم ینفقون فلاتعلم نفس ما اخفی لہم من قرۃ اعین جزاء بماکانوایعملون "۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 2825، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 22827
Save to word اعراب
حدثنا نوح بن ميمون ، اخبرنا مالك ، عن ابن شهاب ، اخبرني سهل بن سعد ، عن النبي صلى الله عليه وسلم" انه كره المسائل وعابها" .حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ مَيْمُونٍ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنَّهُ كَرِهَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کرنے کو ناپسند اور معیوب قرار دیا ہے (مکمل تفصیل کے لئے حدیث نمبر ٢٣٢١٨ دیکھئے)

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 22828
Save to word اعراب
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت اس وقت تک خیر پر قائم رہے گی جب تک وہ افطاری میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرتی رہے گی۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1957، م: 1098
حدیث نمبر: 22829
Save to word اعراب
حدثنا ربعي بن إبراهيم ، حدثنا عبد الرحمن بن إسحاق ، عن ابي حازم ، ان سهل بن سعد ، قال: رايت فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم احد " احرقت قطعة من حصير، ثم اخذت تجعله على جرح رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي بوجهه، قال: واتي بترس فيه ماء فغسلت عنه الدم" .حَدَّثَنَا رِبْعِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ ، قَالَ: رَأَيْتُ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ " أَحْرَقَتْ قِطْعَةً مِنْ حَصِيرٍ، ثُمَّ أَخَذَتْ تَجْعَلُهُ عَلَى جُرْحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي بِوَجْهِهِ، قَالَ: وَأُتِيَ بِتُرْسٍ فِيهِ مَاءٌ فَغَسَلَتْ عَنْهُ الدَّمَ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم کا علاج کسی طرح کیا گیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی ڈھال میں پانی لاتے تھے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ چہرہ مبارک سے خون دھوتی جاتی تھیں پھر انہوں نے ایک چٹائی لے کر اسے جلایا اور اس کی راکھ زخم میں بھر دی (جس سے خون رک گیا)

حكم دارالسلام: حديث صحيح، إسناده حسن
حدیث نمبر: 22830
Save to word اعراب
حدثنا ابو كامل ، حدثنا إبراهيم يعني ابن سعد ، حدثنا ابن شهاب ، عن سهل بن سعد ، قال: جاء عويمر إلى عاصم بن عدي، قال: فقال سل رسول الله صلى الله عليه وسلم ارايت رجلا وجد رجلا مع امراته فقتله، ايقتل به، ام كيف يصنع؟ قال: فسال عاصم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فعاب رسول الله صلى الله عليه وسلم المسائل، قال: فلقيه عويمر، فقال: ما صنعت؟ قال: ما صنعت! إنك لم تاتني بخير، سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم فعاب المسائل , فقال عويمر: والله لآتين رسول الله صلى الله عليه وسلم فلاسالنه فاتاه فوجده قد انزل عليه فيهما، قال: فدعا بهما فلاعن بينهما، قال: فقال عويمر: لئن انطلقت بها يا رسول الله، لقد كذبت عليها , قال: ففارقها قبل ان يامره رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فصارت سنة في المتلاعنين , قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ابصروها، فإن جاءت به اسحم، ادعج العينين عظيم الاليتين، فلا اراه إلا قد صدق، وإن جاءت به احمر كانه وحرة، فلا اراه إلا كاذبا" , قال: فجاءت به على النعت المكروه.حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: جَاءَ عُوَيْمِرٌ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ، قَالَ: فَقَالَ سَلْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ رَجُلًا مَعَ امْرَأَتِهِ فَقَتَلَهُ، أَيُقْتَلُ بِهِ، أَمْ كَيْفَ يَصْنَعُ؟ قَالَ: فَسَأَلَ عَاصِمٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ، قَالَ: فَلَقِيَهُ عُوَيْمِرٌ، فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ؟ قَالَ: مَا صَنَعْتُ! إِنَّكَ لَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ، سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَابَ الْمَسَائِلَ , فَقَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ لَآتِيَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَأَسْأَلَنَّهُ فَأَتَاهُ فَوَجَدَهُ قَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ فِيهِمَا، قَالَ: فَدَعَا بِهِمَا فَلَاعَنَ بَيْنَهُمَا، قَالَ: فَقَالَ عُوَيْمِرٌ: لَئِنْ انْطَلَقْتُ بِهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَقَدْ كَذَبْتُ عَلَيْهَا , قَالَ: فَفَارَقَهَا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَصَارَتْ سُنَّةً فِي الْمُتَلَاعِنَيْنِ , قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَبْصِرُوهَا، فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَسْحَمَ، أَدْعَجَ الْعَيْنَيْنِ عَظِيمَ الْأَلْيَتَيْنِ، فَلَا أُرَاهُ إِلَّا قَدْ صَدَقَ، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَحْمَرَ كَأَنَّهُ وَحَرَةٌ، فَلَا أُرَاهُ إِلَّا كَاذِبًا" , قَالَ: فَجَاءَتْ بِهِ عَلَى النَّعْتِ الْمَكْرُوهِ.
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عویمر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھئے کہ اگر ایک آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی اور آدمی کو پائے اور اسے قتل کر دے تو کیا بدلے میں اسے بھی قتل کردیا جائے گا یا اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ عاصم رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کو اچھا نہیں سمجھا۔ پھر عویمر رضی اللہ عنہ کی عاصم رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو عویمر نے پوچھا کیا بنا؟ عاصم رضی اللہ عنہ نے کہا بننا کیا تھا؟ تم نے مجھے اچھا کام نہیں بتایا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کو ہی اچھا نہیں سمجھا عویمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ بخدا! میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا اور ان سے یہ سوال پوچھ کر رہوں گا چنانچہ وہ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے تو اس وقت تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس سلسلے میں وحی نازل ہوچکی تھی اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میاں بیوی کو بلا کر ان کے درمیان لعان کرا دیا پھر عویمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! اگر میں اسے اپنے ساتھ لے گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں نے اس پر ظلم کیا ہے چنانچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے ہی اپنی بیوی کو جدا کردیا (طلاق دے دی) اور یہ چیز لعان کرنے والوں کے درمیان رائج ہوگئی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس عورت کا خیال رکھنا اگر اس کے یہاں سیاہ رنگ سیاہ آنکھوں اور بڑی سرینوں والا بچہ پیدا ہوا تو میں عویمر کو سچا ہی سمجھوں گا اور اگر اس کے یہاں سرخ رنگت والا اور چھپکلی کی مانند بچہ پیدا ہوا تو میں اسے جھوٹا سمجھوں گا چنانچہ اس کے یہاں جو بچہ پیدا ہوا وہ ناپسندیدہ صفات کے ساتھ تھا (جس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر ان صفات پر بچہ پیدا ہوا تو میں عویمر کو سچا سمجھوں گا)

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 423، م: 1492
حدیث نمبر: 22831
Save to word اعراب
حدثنا ابن إدريس ، حدثنا ابن إسحاق ، عن الزهري ، عن سهل بن سعد الساعدي ، قال:" لما لاعن عويمر اخو بني العجلان امراته، قال: يا رسول الله، ظلمتها إن امسكتها، هي الطلاق، هي الطلاق، هي الطلاق"..حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، قَالَ:" لَمَّا لَاعَنَ عُوَيْمِرٌ أَخُو بَنِي الْعَجْلَانِ امْرَأَتَهُ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ظَلَمْتُهَا إِنْ أَمْسَكْتُهَا، هِيَ الطَّلَاقُ، هِيَ الطَّلَاقُ، هِيَ الطَّلَاقُ"..
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے جب عویمر نے ابنی بیوی سے لعان کیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! اگر میں نے اسے اپنے پاس ہی رکھا تو گویا میں نے اس پر جھوٹا الزام لگایا لہٰذا میں اسے طلاق دیتا ہوں طلاق، طلاق۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لعنعنة ابن إسحاق، لكنه متابع
حدیث نمبر: 22832
Save to word اعراب
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: سمعته يحدث , ان امراة جاءت النبي صلى الله عليه وسلم، فذكر الحديث، قال: " فهل تقرا من القرآن شيئا؟ قال: نعم , قال: ماذا؟ قال: سورة كذا، وسورة كذا، وسورة كذا قال: فقد املكتكها بما معك من القرآن" , قال: فرايته يمضي وهي تتبعه.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ , أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: " فَهَلْ تَقْرَأُ مِنَ الْقُرْآنِ شَيْئًا؟ قَالَ: نَعَمْ , قَالَ: مَاذَا؟ قَالَ: سُورَةَ كَذَا، وَسُورَةَ كَذَا، وَسُورَةَ كَذَا قَالَ: فَقَدْ أَمْلَكْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ" , قَالَ: فَرَأَيْتُهُ يَمْضِي وَهِيَ تَتْبَعُهُ.
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں لوگوں کے ساتھ تھا کہ ایک عورت بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تمہیں قرآن بھی کچھ آتا ہے؟ اس نے کہا جی ہاں! فلاں فلاں سورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اس عورت کے ساتھ تمہارا نکاح قرآن کریم کی ان سورتوں کی وجہ سے کردیا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5149، م: 1425
حدیث نمبر: 22833
Save to word اعراب
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن سهل بن سعد , ان رجلا اطلع على النبي صلى الله عليه وسلم من ستر حجرته، وفي يد النبي صلى الله عليه وسلم مدرى، فقال: " لو اعلم ان هذا ينظرني حتى آتيه لطعنت بالمدرى في عينه وهل جعل الاستئذان إلا من اجل البصر؟!" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ , أَنَّ رَجُلًا اطَّلَعَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سِتْرِ حُجْرَتِهِ، وَفِي يَدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِدْرًى، فَقَالَ: " لَوْ أَعْلَمُ أَنَّ هَذَا يَنْظُرُنِي حَتَّى آتِيَهُ لَطَعَنْتُ بِالْمِدْرَى فِي عَيْنِهِ وَهَلْ جُعِلَ الِاسْتِئْذَانُ إِلَّا مِنْ أَجْلِ الْبَصَرِ؟!" .
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک میں کسی سوراخ سے جھانکنے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں اس وقت ایک کنگھی تھی جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر میں کنگھی فرما رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر مجھے یقین ہوتا کہ تم دیکھ رہے ہو تو میں یہ کنگھی تمہاری آنکھوں پردے مارتا اجازت کا حکم نظر ہی کی وجہ سے تو دیا گیا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5924، م: 1456
حدیث نمبر: 22834
Save to word اعراب
حدثنا سفيان ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " بعثت انا والساعة كهذه من هذه" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَذِهِ مِنْ هَذِهِ" .
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے اور قیامت کو اس طرح بھیجا گیا ہے جیسے یہ انگلی اس انگلی کے قریب ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5301، م: 2950
حدیث نمبر: 22835
Save to word اعراب
حدثنا يزيد ، حدثنا ابو غسان محمد بن مطرف ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الرجل ليعمل بعمل اهل النار، وإنه لمن اهل الجنة، وإن الرجل ليعمل بعمل اهل الجنة، وإنه لمن اهل النار، وإنما الاعمال بالخواتيم" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ مُحَمَّدُ بْنُ مُطَرِّفٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّهُ لَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنَّهُ لَمِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِيمِ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان بظاہر لوگوں کی نظروں میں اہل جنت والے اعمال کر رہا ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہ اہل جہنم میں ہوتا ہے اسی طرح انسان بظاہر لوگوں کی نظروں میں اہل جہنم والے اعمال کر رہا ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہ جنتی ہوتا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 6493، م: 112
حدیث نمبر: 22836
Save to word اعراب
حدثنا روح , وإسماعيل بن عمر , قالا: حدثنا مالك ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد الساعدي ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إن كان، ففي الفرس، والمراة، وفي المسكن" , يعني: الشؤم.حَدَّثَنَا رَوْحٌ , وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ عُمَرَ , قَالَا: حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنْ كَانَ، فَفِي الْفَرَسِ، وَالْمَرْأَةِ، وَفِي الْمَسْكَنِ" , يَعْنِي: الشُّؤْمَ.
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نحوست اگر کسی چیز میں ہوتی تو گھوڑے عورت اور گھر میں ہوتی۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2859، م: 2226
حدیث نمبر: 22837
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا محمد بن إسحاق , ويعقوب , حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني عباس بن سهل بن سعد ، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعاصم بن عدي: " اقبضها إليك حتى تلد عندك، فإن تلده احمر، فهو لابيه الذي انتفى منه، لعويمر، وإن ولدته قطط الشعر اسود اللسان، فهو لابن السحماء" , قال عاصم: فلما وقع، اخذته إلي، فإذا راسه مثل فروة الحمل الصغير، ثم اخذت، قال يعقوب: بفقميه، فإذا هو احيمر مثل النبقة، واستقبلني لسانه اسود مثل التمرة، قال: فقلت: صدق الله ورسوله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ , وَيَعْقُوبُ , حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ: " اقْبِضْهَا إِلَيْكَ حَتَّى تَلِدَ عِنْدَكَ، فَإِنْ تَلِدْهُ أَحْمَرَ، فَهُوَ لِأَبِيهِ الَّذِي انْتَفَى مِنْهُ، لِعُوَيْمِرٍ، وَإِنْ وَلَدَتْهُ قَطَطَ الشَّعْرِ أَسْوَدَ اللِّسَانِ، فَهُوَ لِابْنِ السَّحْمَاءِ" , قَالَ عَاصِمٌ: فَلَمَّا وَقَعَ، أَخَذْتُهُ إِلَيَّ، فَإِذَا رَأْسُهُ مِثْلُ فَرْوَةِ الْحَمَلِ الصَّغِيرِ، ثُمَّ أَخَذْتُ، قَالَ يَعْقُوبُ: بِفُقْمَيْهِ، فَإِذَا هُوَ أُحَيْمِرٌ مِثْلُ النَّبْقَةِ، وَاسْتَقْبَلَنِي لِسَانُهُ أَسْوَدُ مِثْلُ التَّمْرَةِ، قَالَ: فَقُلْتُ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے فرمایا اس عورت کو اپنے ساتھ لے جاؤ تاکہ تمہارے یہاں یہ اپنے بچے کو جنم دے اگر اس کا بچہ سرخ رنگت کا ہوا تو اس کا باپ وہی ہوگا جس نے اپنے نسب کی اس سے نفی کردی یعنی عویمر کا اور اگر اس کے گھنگھریالے بالوں اور کالی زبان والا بچہ پیدا ہو تو وہ ابن سحماء کا ہوگا۔ عاصم کہتے ہیں کہ جب اس کے یہاں بچہ پیدا ہوا تو میں نے اسے اٹھایا اس کا سر بکری کے چھوٹے بچے کی پوستین جیسا تھا پھر میں نے اس کا منہ پکڑا تو وہ بیر کی طرح سرخ تھا اور اس کی زبان کھجور کی طرح کالی تھی میں نے یہ دیکھ کر بےساختہ کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 22838
Save to word اعراب
حدثنا عبد الله بن الحارث ، حدثني الاسلمي يعني عبد الله بن عامر , عن عمران بن ابي انس ، عن سهل بن سعد ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سئل عن المسجد الذي اسس على التقوى، قال:" هو مسجدي" .حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنِي الْأَسْلَمِيُّ يَعْنِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرٍ , عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي أَنَسٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سُئِلَ عَنْ الْمَسْجِدِ الَّذِي أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى، قَالَ:" هُوَ مَسْجِدِي" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مسجد کی متعلق " جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی " پوچھا گیا تو فرمایا وہ میری مسجد ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف الضعف عبدالله بن عامر، وقد توبع
حدیث نمبر: 22839
Save to word اعراب
حدثنا عبد الله، حدثنا يحيى بن معين ، حدثنا هشام بن يوسف ، عن معمر . وحدثنا ابي، حدثنا علي بن بحر ، حدثنا هشام بن يوسف ، حدثنا معمر ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " يدخل الجنة من امتي سبعون الفا , او قال: سبع مائة الف بغير حساب" .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ ، عَنْ مَعْمَرٍ . وحَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعُونَ أَلْفًا , أَوْ قَالَ: سَبْعُ مِائَةِ أَلْفٍ بِغَيْرِ حِسَابٍ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میری امت کے ستر ہزار آدمی جنت میں بلاحساب کتاب داخل ہوں گے۔

حكم دارالسلام: إسناداه صحيحان، خ: 3247، م: 219
حدیث نمبر: 22840
Save to word اعراب
حدثنا علي بن بحر ، حدثنا عيسى بن يونس ، حدثنا مصعب بن ثابت ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد الساعدي , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " المؤمن مالفة، ولا خير فيمن لا يالف ولا يؤلف" .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمُؤْمِنُ مَأْلَفَةٌ، وَلَا خَيْرَ فِيمَنْ لَا يَأْلَفُ وَلَا يُؤْلَفُ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مؤمن محبت کا مرکز ہوتا ہے اس شخص میں کوئی خیر نہیں ہے جو لوگوں سے محبت کرے اور نہ لوگ اس سے محبت کریں۔

حكم دارالسلام: متن الحديث حسن لكن من حديث ابي هريرة، وهذا إسناد ضعيف جدا ، مصعب بن ثابت متفق على ضعفه ، ثم هو قد خولف
حدیث نمبر: 22841
Save to word اعراب
حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا محمد بن مطرف ، عن ابي حازم ، عن سهل ، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " منبري على ترعة من ترع الجنة" , فقلت له: ما الترعة يا ابا العباس؟ قال: الباب.حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُطَرِّفٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مِنْبَرِي عَلَى تُرْعَةٍ مِنْ تُرَعِ الْجَنَّةِ" , فَقُلْتُ لَهُ: مَا التُّرْعَةُ يَا أَبَا الْعَبَّاسِ؟ قَالَ: الْبَابُ.
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرا منبر جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہوگا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 22842
Save to word اعراب
حدثنا , سليمان بن داود الهاشمي , وإسحاق بن عيسى , قالا: حدثنا سعيد بن عبد الرحمن ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن للصائمين بابا في الجنة يقال له: الريان، لا يدخل منه غيرهم، إذا دخل آخرهم اغلق، من دخل منه شرب، ومن شرب منه لم يظما ابدا" .حَدَّثَنَا , سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ , وَإِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى , قَالَا: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ لِلصَّائِمِينَ بَابًا فِي الْجَنَّةِ يُقَالُ لَهُ: الرَّيَّانُ، لَا يَدْخُلُ مِنْهُ غَيْرُهُمْ، إِذَا دَخَلَ آخِرُهُمْ أُغْلِقَ، مَنْ دَخَلَ مِنْهُ شَرِبَ، وَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ لَمْ يَظْمَأْ أَبَدًا" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جنت کا ایک دروازہ ہے جس کا نام " ریان " ہے قیامت کے دن یہ اعلان کیا جائے گا کہ روزے دار کہاں ہیں؟ ریان کی طرف آؤ جب ان کا آخری آدمی بھی اندر داخل ہوچکے گا تو وہ دروازہ بند کردیا جائے گا۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 22843
Save to word اعراب
حدثنا ابو نوح ، حدثنا مالك بن انس ، عن الزهري ، عن سهل بن سعد الساعدي ، قال: " كره رسول الله صلى الله عليه وسلم المسائل وعابها" .حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، قَالَ: " كَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کرنے کو ناپسند اور معیوب قرار دیا ہے (مکمل تفصیل کے لئے حدیث نمبر ٢٣٢١٨ دیکھئے)

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 22844
Save to word اعراب
حدثنا وكيع بن الجراح ، حدثنا سفيان ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد , وعبد الرحمن , حدثنا سفيان ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد الساعدي ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " غدوة او روحة في سبيل الله، خير من الدنيا وما فيها" .حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ , وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " غَدْوَةٌ أَوْ رَوْحَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا" .
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ! نے ارشاد فرمایا اللہ کے راستے میں ایک صبح یا ایک شام کے لئے نکلنا دنیا ومافیہا سے بہتر ہے اور جنت میں کسی شخص کے کوڑے کی جگہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 22845
Save to word اعراب
حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد , وعبد الرحمن , حدثنا سفيان ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " التسبيح في الصلاة للرجال، والتصفيق للنساء" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ , وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " التَّسْبِيحُ فِي الصَّلَاةِ لِلرِّجَالِ، وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو نماز میں کسی غلطی کا احساس ہو تو اسے " سبحان اللہ کہنا چاہئے کیونکہ تالی بجانے کا حکم عورتوں کے لئے ہے اور سبحان اللہ کہنا مردوں کے لئے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1204، م: 421
حدیث نمبر: 22846
Save to word اعراب
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي , وإسحاق بن يوسف الازرق , قالا: حدثنا سفيان ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ , وَإِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ , قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت اس وقت تک خیر پر قائم رہے گی جب تک وہ افطاری میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرتی رہے گی۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1957، م: 1098
حدیث نمبر: 22847
Save to word اعراب
حدثنا بشر بن المفضل ، حدثنا ابو حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: " كنا نقيل ونتغدى بعد الجمعة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم" .حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: " كُنَّا نَقِيلُ وَنَتَغَدَّى بَعْدَ الْجُمُعَةِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" .
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ جمعہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ پڑھنے کے بعد قیلولہ کرتے اور کھانا کھاتے تھے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 939، م: 859
حدیث نمبر: 22848
Save to word اعراب
حدثنا بهز ، حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، اخبرنا ابو حازم ، عن سهل بن سعد , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتى بني عمرو بن عوف في لحاء اي خصام كان بينهم، ليصلح بينهم، فحانت الصلاة، فقال بلال لابي بكر: اقيم وتصلي بالناس؟ فقال ابو بكر: نعم , فاقام بلال، وتقدم ابو بكر ليصلي بالناس، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرق الصفوف، فصفح القوم، وكان ابو بكر لا يكاد يلتفت في الصلاة، فلما اكثروا التفت ابو بكر، فإذا هو برسول الله صلى الله عليه وسلم يخرق الصفوف، فتاخر ابو بكر واوما إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ان مكانك، فتاخر ابو بكر، وتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى بهم، فلما قضى صلاته، قال:" يا ابا بكر، ما بالك إذ اومات إليك لم تقم؟" قال: ما كان لابن ابي قحافة ان يؤم رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما لكم إذا نابكم امر صفحتم، سبحوا، فإن التصفيح للنساء" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ فِي لِحَاءٍ أَيْ خِصَامٍ كَانَ بَيْنَهُمْ، لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ، فَحَانَتْ الصَّلَاةُ، فَقَالَ بِلَالٌ لِأَبِي بَكْرٍ: أُقِيمُ وَتُصَلِّي بِالنَّاسِ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: نَعَمْ , فَأَقَامَ بِلَالٌ، وَتَقَدَّمَ أَبُو بَكْرٍ لِيُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرِقُ الصُّفُوفَ، فَصَفَّحَ الْقَوْمُ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لَا يَكَادُ يَلْتَفِتُ فِي الصَّلَاةِ، فَلَمَّا أَكْثَرُوا الْتَفَتَ أَبُو بَكْرٍ، فَإِذَا هُوَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرِقُ الصُّفُوفَ، فَتَأَخَّرَ أَبُو بَكْرٍ وَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ مَكَانَكَ، فَتَأَخَّرَ أَبُو بَكْرٍ، وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِهِمْ، فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ، قَالَ:" يَا أَبَا بَكْرٍ، مَا بَالُكَ إِذْ أَوْمَأْتُ إِلَيْكَ لَمْ تَقُمْ؟" قَالَ: مَا كَانَ لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يَؤُمَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا لَكُمْ إِذَا نَابَكُمْ أَمْرٌ صَفَّحْتُمْ، سَبِّحُوا، فَإِنَّ التَّصْفِيحَ لِلنِّسَاءِ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کچھ انصاری لوگوں کے درمیان کچھ رنجش ہوگئی تھی جن کے درمیان صلح کرانے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے نماز کا وقت آیا تو حضرت بلال سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور عرض کیا اے ابوبکر! نماز کا وقت ہوچکا ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں موجود نہیں ہیں کیا میں اذان دے کر اقامت کہوں تو آپ آگے بڑھ کر نماز پڑھا دیں گے؟ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمہاری مرضی چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان و اقامت کہی اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر نماز شروع کردی۔ اسی دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے لوگ تالیاں بجانے لگے جسے محسوس کر کے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارے سے فرمایا کہ اپنی ہی جگہ رہو لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے آگئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھا دی نماز سے فارغ ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر! تمہیں اپنی جگہ ٹھہرنے سے کس چیز نے منع کیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ ابن ابی قحافہ کی یہ جرأت کہاں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا تم لوگوں نے تالیاں کیوں بجائیں؟ انہوں نے عرض کیا تاکہ ابوبکر کو مطلع کرسکیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تالیاں بجانے کا حکم عورتوں کے لئے ہے اور سبحان اللہ کہنے کا حکم مردوں کے لئے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1201، م: 421
حدیث نمبر: 22849
Save to word اعراب
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، عن مالك ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، قال:" كان الناس يؤمرون ان يضعوا اليمنى على اليسرى في الصلاة" , قال ابو حازم: ولا اعلم إلا ينمي ذلك , قال ابو عبد الرحمن:" ينمي": يرفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ:" كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعُوا الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ" , قَالَ أَبُو حَازِمٍ: وَلَا أَعْلَمُ إِلَّا يُنْمِي ذَلِكَ , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ:" يُنْمِي": يَرْفَعُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دوران نماز لوگوں کو داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنے کا حکم دیا جاتا تھا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 22850
Save to word اعراب
قرات على عبد الرحمن : مالك ، وحدثنا إسحاق ، اخبرنا مالك ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد , ان النبي صلى الله عليه وسلم جاءته امراة، فقالت: يا رسول الله، إني قد وهبت نفسي لك فقامت قياما طويلا، فقام رجل، فقال: يا رسول الله، زوجنيها إن لم يكن لك بها حاجة , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " هل عندك من شيء تصدقها إياه؟" فقال: ما عندي إلا إزاري هذا , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" إن اعطيتها إزارك جلست لا إزار لك، فالتمس شيئا" , فقال: ما اجد شيئا , فقال: التمس ولو خاتما من حديد , فالتمس فلم يجد شيئا، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" هل معك من القرآن شيء؟" قال: نعم، سورة كذا، وسورة كذا لسور يسميها، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" قد زوجتكها بما معك من القرآن" .قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ : مَالِكٍ ، وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَتْهُ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ وَهَبْتُ نَفْسِي لَكَ فَقَامَتْ قِيَامًا طَوِيلًا، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، زَوِّجْنِيهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكَ بِهَا حَاجَةٌ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ عِنْدَكَ مِنْ شَيْءٍ تُصْدِقُهَا إِيَّاهُ؟" فَقَالَ: مَا عِنْدِي إِلَّا إِزَارِي هَذَا , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنْ أَعْطَيْتَهَا إِزَارَكَ جَلَسْتَ لَا إِزَارَ لَكَ، فَالْتَمِسْ شَيْئًا" , فَقَالَ: مَا أَجِدُ شَيْئًا , فَقَالَ: الْتَمِسْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ , فَالْتَمَسَ فَلَمْ يَجِدْ شَيْئًا، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ شَيْءٌ؟" قَالَ: نَعَمْ، سُورَةُ كَذَا، وَسُورَةُ كَذَا لِسُوَرٍ يُسَمِّيهَا، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ زَوَّجْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ" .
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں لوگوں کے ساتھ تھا کہ ایک عورت بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے اپنے آپ کو آپ کے لئے ہبہ کردیا ہے اب جو آپ کی رائے ہو (وہ کافی دیر تک کھڑی رہی) پھر ایک آدمی کھڑا ہو کر کہنے لگا یا رسول اللہ! (اگر آپ کو اس کی ضرورت نہ ہو تو) مجھ سے ہی اس کا نکاح کرا دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ تین مرتبہ وہ عورت کھڑی ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس اسے مہر میں دینے کے لئے کچھ ہے؟ اس نے کہا کچھ نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اور کچھ تلاش کر کے لاؤ اس نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہی ملے تو وہی لے آؤ وہ کہنے لگا کہ مجھے تو لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ملی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تمہیں قرآن بھی کچھ آتا ہے؟ اس نے کہا جی ہاں! فلاں فلاں سورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اس عورت کے ساتھ تمہارا نکاح قرآن کریم کی ان سورتوں کی وجہ سے کردیا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2310، م: 1425
حدیث نمبر: 22851
Save to word اعراب
قرات على عبد الرحمن : مالك ، عن ابن شهاب , وحدثنا إسحاق بن عيسى ، اخبرني مالك ، عن ابن شهاب ، ان سهل بن سعد اخبره: ان عويمرا العجلاني جاء إلى عاصم بن عدي الانصاري، فقال: يا عاصم، ارايت رجلا وجد مع امراته رجلا، ايقتله فتقتلونه، ام كيف يفعل؟ سل لي عن ذلك يا عاصم رسول الله صلى الله عليه وسلم فسال عاصم النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك، " فكره رسول الله صلى الله عليه وسلم المسائل وعابها، حتى كبر على عاصم مما يسمع، قال إسحاق: ما سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما رجع عاصم إلى اهله، جاءه عويمر، فقال: يا عاصم، ماذا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال عاصم لعويمر لم تاتني بخير، فكره رسول الله صلى الله عليه وسلم المسالة التي سالته عنها , فقال عويمر: والله لا انتهي حتى اساله عنها , فاقبل عويمر حتى اتى النبي صلى الله عليه وسلم وسط الناس، فقال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: ارايت رجلا وجد مع امراته رجلا، ايقتله فتقتلونه، ام كيف يفعل؟ فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قد انزل الله فيك وفي صاحبتك، فاذهب فات بها" , قال سهل ابن سعد: فتلاعنا وانا مع الناس عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما فرغا، قال عويمر: كذبت عليها يا رسول الله إن امسكتها , فطلقها ثلاثا قبل ان يامره رسول الله صلى الله عليه وسلم" ..قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ : مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ , وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى ، أَخْبَرَنِي مَالِكٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ أَخْبَرَهُ: أَنَّ عُوَيْمِرًا الْعَجْلَانِيَّ جَاءَ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ الْأَنْصَارِيِّ، فَقَالَ: يَا عَاصِمُ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ سَلْ لِي عَنْ ذَلِكَ يَا عَاصِمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَ عَاصِمٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، " فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا، حَتَّى كَبُرَ عَلَى عَاصِمٍ مِمَّا يَسْمَعُ، قَالَ إِسْحَاقُ: مَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَجَعَ عَاصِمٌ إِلَى أَهْلِهِ، جَاءَهُ عُوَيْمِرٌ، فَقَالَ: يَا عَاصِمُ، مَاذَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ عَاصِمٌ لِعُوَيْمِرٍ لَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ، فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْأَلَةَ الَّتِي سَأَلْتُهُ عَنْهَا , فَقَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ لَا أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَهُ عَنْهَا , فَأَقْبَلَ عُوَيْمِرٌ حَتَّى أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسْطَ النَّاسِ، فَقَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ، فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا" , قَالَ سَهْلُ ابْنُ سَعْدٍ: فَتَلَاعَنَا وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا فَرَغَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا , فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" ..
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عویمر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھئے کہ اگر ایک آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی اور آدمی کو پائے اور اسے قتل کر دے تو کیا بدلے میں اسے بھی قتل کردیا جائے گا یا اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ عاصم رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کو اچھا نہیں سمجھا۔ پھر عویمر رضی اللہ عنہ کی عاصم رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو عویمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا بنا؟ عاصم رضی اللہ عنہ نے کہا بننا کیا تھا؟ تم نے مجھے اچھا کام نہیں بتایا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کو ہی اچھا نہیں سمجھا عویمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ بخدا! میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا اور ان سے یہ سوال پوچھ کر رہوں گا چنانچہ وہ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے تو اس وقت تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس سلسلے میں وحی نازل ہوچکی تھی اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میاں بیوی کو بلا کر ان کے درمیان لعان کرا دیا پھر عویمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! اگر میں اسے اپنے ساتھ لے گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں نے اس پر ظلم کیا ہے چنانچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے ہی اپنی بیوی کو جدا کردیا (طلاق دے دی) اور یہ چیز لعان کرنے والوں کے درمیان رائج ہوگی۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5259، م: 1492
حدیث نمبر: 22852
Save to word اعراب
قرات على عبد الرحمن : مالك ، عن ابي حازم بن دينار ، عن سهل بن سعد , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ذهب إلى بني عمرو بن عوف ليصلح بينهم فذكر الحديث، قال: فاشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ان امكث مكانك، فرفع ابو بكر يديه إلى السماء، فحمد الله على ما امره به رسول الله صلى الله عليه وسلم من ذلك، ثم استاخر ابو بكر حتى استوى في الصف، وتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى، فذكر مثل معنى حديث حماد بن سلمة.قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ : مَالِكٌ ، عَنْ أَبِي حَازِمِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَهَبَ إِلَى بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ امْكُثْ مَكَانَكَ، فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ، فَحَمِدَ اللَّهَ عَلَى مَا أَمَرَهُ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ، ثُمَّ اسْتَأْخَرَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى اسْتَوَى فِي الصَّفِّ، وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى، فَذَكَرَ مِثْلَ مَعْنَى حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ.
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کچھ انصاری لوگوں کے درمیان کچھ رنجش ہوگئی تھی جن کے درمیان صلح کرانے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارے سے فرمایا کہ اپنی ہی جگہ رہو لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے آگئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھا دی۔۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 684، م: 421
حدیث نمبر: 22853
Save to word اعراب
حدثنا حجاج ، حدثنا ليث بن سعد ، حدثني عقيل بن خالد ، عن ابن شهاب ، عن سهل ، انه قال: إن رجلا من الانصار جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله , ارايت رجلا وجد مع امراته رجلا، ايقتله؟ قال: فانزل الله عز وجل في شانه ما ذكر في القرآن من التلاعن، فقال:" قد قضي فيك وفي امراتك" , قال: فتلاعنا وانا شاهد، ثم فارقها عند رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَهْلٍ ، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ جَاءَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ؟ قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي شَأْنِهِ مَا ذُكِرَ فِي الْقُرْآنِ مِنَ التَّلَاعُنِ، فَقَالَ:" قَدْ قُضِيَ فِيكَ وَفِي امْرَأَتِكَ" , قَالَ: فَتَلَاعَنَا وَأَنَا شَاهِدٌ، ثُمَّ فَارَقَهَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک انصاری صحابی بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! اگر ایک آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی اور آدمی کو پائے اور اسے قتل کر دے تو کیا بدلے میں اسے بھی قتل کردیا جائے گا یا اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ اس پر اللہ نے لعان کا حکم نازل کردیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے متعلق اپنا حکم نازل کردیا ہے چنانچہ میرے سامنے ان دونوں نے لعان کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جدا کردیا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 423، م: 1492
حدیث نمبر: 22854
Save to word اعراب
حدثنا حماد بن خالد ، حدثنا عبد الله يعني ابن عمر ، عن العباس بن سهل الساعدي ، عن ابيه , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يستند إلى جذع، فقال:" قد كثر الناس ولو كان لي شيء" , يعني: اقعد عليه , قال عباس: فذهب ابي فقطع عيدان المنبر من الغابة، قال: فما ادري عملها ابي او استعملها؟.حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ سَهْلٍ السَّاعِدِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَسْتَنِدُ إِلَى جِذْعٍ، فَقَالَ:" قَدْ كَثُرَ النَّاسُ وَلَوْ كَانَ لِي شَيْءٌ" , يَعْنِي: أَقْعُدُ عَلَيْهِ , قَالَ عَبَّاسٌ: فَذَهَبَ أَبِي فَقَطَعَ عِيدَانَ الْمِنْبَرِ مِنَ الْغَابَةِ، قَالَ: فَمَا أَدْرِي عَمِلَهَا أَبِي أَوْ اسْتَعْمَلَهَا؟.
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لئے ایک تنے کے ساتھ ٹیک لگایا کرتے تھے ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کی تعداد اب زیادہ ہوگئی ہے اگر کوئی چیز ہوتی تو میں اس پر بیٹھ جایا کرتا حضرت سہل رضی اللہ عنہ کے بیٹھے عباس کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب گئے اور غابہ نامی جگہ سے منبر کے لئے لکڑیاں کاٹیں اب مجھے یاد نہیں کہ اسے والد صاحب نے خود بنایا تھا یا کسی سے مزدوری پر بنوایا تھا۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالله بن عمر العمري
حدیث نمبر: 22855
Save to word اعراب
حدثنا ربعي بن إبراهيم ، حدثنا عبد الرحمن بن إسحاق ، عن عبد الرحمن بن معاوية ، عن ابن ابي ذباب ، عن سهل بن سعد ، قال:" ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم شاهرا يديه قط يدعو على منبر ولا غيره، ما كان يدعو إلا يضع يديه حذو منكبيه، ويشير بإصبعه إشارة" ..حَدَّثَنَا رِبْعِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُعَاوِيَةَ ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذُبَابٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ:" مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاهِرًا يَدَيْهِ قَطُّ يَدْعُو عَلَى مِنْبَرٍ وَلَا غَيْرِهِ، مَا كَانَ يَدْعُو إِلَّا يَضَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَيُشِيرُ بِإِصْبَعِهِ إِشَارَةً" ..
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر یا کسی اور جگہ ہاتھ پھیلا کر دعا کرتے ہوئے نہیں دیکھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی دعاء فرماتے تو اپنے ہاتھ کندھوں کے سامنے برابر رکھتے اور انگلی سے اشارہ فرماتے تھے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عبدالرحمن بن معاوية
حدیث نمبر: 22856
Save to word اعراب
حدثنا هاشم ، حدثنا عبد العزيز يعني ابن ابي سلمة ، عن الزهري ، عن سهل بن سعد الساعدي ، عن عاصم بن عدي ، قال: جاءه عويمر رجل من بني عجلان، فقال: يا عاصم، ارايت رجلا وجد مع امراته رجلا ايقتله فيقتلونه، ام كيف يصنع؟ سل لي يا عاصم رسول الله صلى الله عليه وسلم , فسال عاصم رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فكره رسول الله صلى الله عليه وسلم المسائل وعابها، حتى كبر على عاصم ما سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر معنى حديث مالك، إلا انه قال: فطلقها قبل ان يامره النبي صلى الله عليه وسلم , قال: فكان فراقه إياها سنة في المتلاعنين.حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ ، قَالَ: جَاءَهُ عُوَيْمِرٌ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَجْلَانَ، فَقَالَ: يَا عَاصِمُ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ فَيَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَصْنَعُ؟ سَلْ لِي يَا عَاصِمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَسَأَلَ عَاصِمٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا، حَتَّى كَبُرَ عَلَى عَاصِمٍ مَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ مَالِكٍ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: فَطَلَّقَهَا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: فَكَانَ فِرَاقُهُ إِيَّاهَا سُنَّةً فِي الْمُتَلَاعِنَيْنِ.
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عویمر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھئے کہ اگر ایک آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی اور آدمی کو پائے اور اسے قتل کر دے تو کیا بدلے میں اسے بھی قتل کردیا جائے گا یا اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ عاصم رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کو اچھا نہیں سمجھا۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے ہی اپنی بیوی کو جدا کردیا (طلاق دے دی) اور یہ چیز لعان کرنے والوں کے درمیان رائج ہوگئی۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 22857
Save to word اعراب
حدثنا يونس ، حدثنا العطاف بن خالد ، حدثنا ابو حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقول: " غدوة في سبيل الله خير من الدنيا وما فيها، وروحة في سبيل الله خير من الدنيا وما فيها، وموضع سوط في الجنة خير من الدنيا وما فيها" ..حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا الْعَطَّافُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ: " غَدْوَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَرَوْحَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَمَوْضِعُ سَوْطٍ فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا" ..
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ! نے ارشاد فرمایا اللہ کے راستے میں ایک صبح یا ایک شام کے لئے نکلنا دنیا ومافیہا سے بہتر ہے اور جنت میں کسی شخص کے کوڑے کی جگہ دنیا وما فیہا سے بہتر ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 22858
Save to word اعراب
حدثنا حسين ، حدثنا محمد بن مطرف ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" روحة في سبيل الله" فذكر معناه.حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُطَرِّفٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" رَوْحَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ" فَذَكَرَ مَعْنَاهُ.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 22859
Save to word اعراب
حدثنا إسماعيل بن عمر ، حدثنا مالك ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت اس وقت تک خیر پر قائم رہے گی جب تک وہ افطاری میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرتی رہے گی۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1957، م: 1098
حدیث نمبر: 22860
Save to word اعراب
حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا الفضيل يعني ابن سليمان ، حدثنا محمد يعني ابن ابي يحيى ، عن امه , قالت: سمعت سهل بن سعد الساعدي ، يقول: " سقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم بيدي من بضاعة" .حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي يَحْيَى ، عَنْ أُمِّهِ , قَالَتْ: سَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ ، يَقُولُ: " سَقَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيَّ مِنْ بُضَاعَةَ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اپنے ہاتھوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیربضاعہ کا پانی پلایا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أم محمد بن أبى يحيي
حدیث نمبر: 22861
Save to word اعراب
حدثنا حسين ، حدثنا الفضيل يعني ابن سليمان ، حدثنا محمد بن ابي يحيى ، عن العباس بن سهل بن سعد الساعدي ، عن ابيه ، قال: كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم بالخندق فاخذ الكرزين فحفر به، فصادف حجرا، فضحك، قيل: ما يضحكك يا رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: " ضحكت من ناس يؤتى بهم من قبل المشرق في النكول يساقون إلى الجنة" .حَدَّثَنَا حُسَيْنُ ، حَدَّثَنَا الْفُضَيْلِ يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي يَحْيَى ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَالْخَنْدَقِ فَأَخَذَ الْكِرْزِينَ فَحَفَرَ بِهِ، فَصَادَفَ حَجَرًا، فَضَحِكَ، قِيلَ: مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: " ضَحِكْتُ مِنْ نَاسٍ يُؤْتَى بِهِمْ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ فِي النُّكُولِ يُسَاقُونَ إِلَى الْجَنَّةِ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں غزوہ خندق کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑی کدال پکڑی اور خندق کھودنے لگے اچانک ایک پتھر سامنے آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنسنے لگے کسی نے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو فرمایا میں ان لوگوں پر ہنس رہا ہوں جنہیں مشرق کی جانب سے بیڑیوں میں جکڑ کر لایا گیا اور جنت کی طرف ہانک دیا گیا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف الفضيل بن سليمان
حدیث نمبر: 22862
Save to word اعراب
حدثنا حسين ، حدثنا محمد بن مطرف ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " بعثت والساعة هكذا"، واشار بإصبعيه السبابة والوسطى .حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُطَرِّفٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " بُعِثْتُ وَالسَّاعَةُ هَكَذَا"، وَأَشَارَ بِإِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى .
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے اور قیامت کو اس طرح بھیجا گیا ہے جیسے یہ انگلی اس انگلی کے قریب ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5301، م: 2950
حدیث نمبر: 22863
Save to word اعراب
حدثنا حجين بن المثنى ، حدثنا عبد العزيز يعني ابن ابي سلمة ، عن ابي حازم القاص ، عن سهل بن سعد الساعدي صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم آت، فقال: إن بني عمرو بن عوف قد اقتتلوا وتراموا بالحجارة، فخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلح بينهم، وحانت الصلاة، فجاء بلال إلى ابي بكر الصديق رضي الله تعالى عنه، فقال: اتصلي فاقيم الصلاة؟ قال: نعم , قال: فاقام بلال الصلاة، وتقدم ابو بكر، فلما دخل في الصلاة وصف الناس وراءه، جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم من حيث ذهب، فجعل يتخلل الصفوف حتى بلغ الصف الاول، ثم وقف وجعل الناس يصفقون ليؤذنوا ابا بكر برسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان ابو بكر لا يلتفت في الصلاة، فلما اكثروا عليه التفت فإذا هو برسول الله صلى الله عليه وسلم خلفه مع الناس، فاشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ان اثبت، فرفع يديه كانه يدعو، ثم استاخر القهقرى حتى جاء الصف، فتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى بالناس، فلما فرغ من صلاته، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما بالكم ونابكم شيء في صلاتكم فجعلتم تصفقون؟ إذا ناب احدكم شيء في صلاته فليسبح، فإنما التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء"، ثم قال لابي بكر:" لم رفعت يديك؟ ما منعك ان تثبت حين اشرت إليك؟" قال: رفعت يدي لاني حمدت الله على ما رايت منك، ولم يكن ينبغي لابن ابي قحافة ان يؤم رسول الله صلى الله عليه وسلم .حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ الْقَاصِّ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آتٍ، فَقَالَ: إِنَّ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ قَدْ اقْتَتَلُوا وَتَرَامَوْا بِالْحِجَارَةِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ، وَحَانَتْ الصَّلَاةُ، فَجَاءَ بِلَالٌ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، فَقَالَ: أَتُصَلِّي فَأُقِيمَ الصَّلَاةَ؟ قَالَ: نَعَمْ , قَالَ: فَأَقَامَ بِلَالٌ الصَّلَاةَ، وَتَقَدَّمَ أَبُو بَكْرٍ، فَلَمَّا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ وَصَفَّ النَّاسُ وَرَاءَهُ، جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ حَيْثُ ذَهَبَ، فَجَعَلَ يَتَخَلَّلُ الصُّفُوفَ حَتَّى بَلَغَ الصَّفَّ الْأَوَّلَ، ثُمَّ وَقَفَ وَجَعَلَ النَّاسُ يُصَفِّقُونَ لِيُؤْذِنُوا أَبَا بَكْرٍ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لَا يَلْتَفِتُ فِي الصَّلَاةِ، فَلَمَّا أَكْثَرُوا عَلَيْهِ الْتَفَتَ فَإِذَا هُوَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلْفَهُ مَعَ النَّاسِ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ اثْبُتْ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ كَأَنَّهُ يَدْعُو، ثُمَّ اسْتَأْخَرَ الْقَهْقَرَى حَتَّى جَاءَ الصَّفَّ، فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا بَالُكُمْ وَنَابَكُمْ شَيْءٌ فِي صَلَاتِكُمْ فَجَعَلْتُمْ تُصَفِّقُونَ؟ إِذَا نَابَ أَحَدَكُمْ شَيْءٌ فِي صَلَاتِهِ فَلْيُسَبِّحْ، فَإِنَّمَا التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ، وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ"، ثُمَّ قَالَ لِأَبِي بَكْرٍ:" لِمَ رَفَعْتَ يَدَيْكَ؟ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَثْبُتَ حِينَ أَشَرْتُ إِلَيْكَ؟" قَالَ: رَفَعْتُ يَدَيَّ لِأَنِّي حَمِدْتُ اللَّهَ عَلَى مَا رَأَيْتُ مِنْكَ، وَلَمْ يَكُنْ يَنْبَغِي لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يَؤُمَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کچھ انصاری لوگوں کے درمیان کچھ رنجش ہوگئی تھی جن کے درمیان صلح کرانے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے نماز کا وقت آیا تو حضرت بلال سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور عرض کیا اے ابوبکر! نماز کا وقت ہوچکا ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں موجود نہیں ہیں کیا میں اذان دے کر اقامت کہوں تو آپ آگے بڑھ کر نماز پڑھا دیں گے؟ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمہاری مرضی چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان و اقامت کہی اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر نماز شروع کردی۔ اسی دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے لوگ تالیاں بجانے لگے جسے محسوس کر کے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارے سے فرمایا کہ اپنی ہی جگہ رہو لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے آگئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھا دی نماز سے فارغ ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر! تمہیں اپنی جگہ ٹھہرنے سے کس چیز نے منع کیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ ابن ابی قحافہ کی یہ جرأت کہاں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا تم لوگوں نے تالیاں کیوں بجائیں؟ انہوں نے عرض کیا تاکہ ابوبکر کو مطلع کرسکیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تالیاں بجانے کا حکم عورتوں کے لئے ہے اور سبحان اللہ کہنے کا حکم مردوں کے لئے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 684، م: 421
حدیث نمبر: 22864
Save to word اعراب
حدثنا يحيى بن إسحاق ، حدثنا ابن لهيعة ، عن محمد بن عبد الله بن مالك ، عن سهل بن سعد الانصاري , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" كان يسلم في صلاته عن يمينه وعن يساره حتى يرى بياض خديه" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيِّ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يُسَلِّمُ فِي صَلَاتِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ حَتَّى يُرَى بَيَاضُ خَدَّيْهِ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرتے ہوئے اپناچہرہ اس قدر پھیرتے کہ رخسار مبارک کی سفید نظر آتی تھی۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة ولجهالة محمد بن عبدالله
حدیث نمبر: 22865
Save to word اعراب
حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا بكر بن سوادة ، عن وفاء الحميري ، عن سهل بن سعد ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " فيكم كتاب الله يتعلمه الاسود والاحمر والابيض، تعلموه قبل ان ياتي زمان يتعلمه اناس، ولا يجاوز تراقيهم، ويقومونه كما يقوم السهم، فيتعجلون اجره ولا يتاجلونه" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ سَوَادَةَ ، عَنْ وَفَاءِ الحِمْيَريِ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " فِيكُمْ كِتَابُ اللَّهِ يَتَعَلَّمُهُ الْأَسْوَدُ وَالْأَحْمَرُ وَالْأَبْيَضُ، تَعَلَّمُوهُ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَ زَمَانٌ يَتَعَلَّمُهُ أُنَاسٌ، وَلَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، وَيُقَوِّمُونَهُ كَمَا يُقَوَّمُ السَّهْمُ، فَيَتَعَجَّلُونَ أَجْرَهُ وَلَا يَتَأَجَّلُونَهُ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں اللہ کی کتاب موجود ہے جو سیاہ سرخ اور سفید سب ہی سیکھیں گے تم وہ زمانہ آنے سے پہلے اسے سیکھ لو جبکہ کچھ لوگ اسے سیکھیں گے اور وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا اور اسے تیر کے طرح سیدھا کریں گے اور اس کا ثواب آخرت پر رکھنے کی بجائے دنیا ہی طلب کریں گے۔

حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة
حدیث نمبر: 22866
Save to word اعراب
حدثنا ابو المنذر ، حدثنا مالك ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إن كان الشؤم، ففي المراة والفرس والمسكن" .حَدَّثَنَا أَبُو المُنْذِرِ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنْ كَانَ الشُّؤْمُ، فَفِي الْمَرْأَةِ وَالْفَرَسِ وَالْمَسْكَنِ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نحوست اگر کسی چیز میں ہوتی تو گھوڑے عورت اور گھر میں ہوتی۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2859، م: 2226
حدیث نمبر: 22867
Save to word اعراب
حدثنا موسى بن داود ، قال: قرئ على مالك ابو حازم ، عن سهل بن سعد , ان النبي صلى الله عليه وسلم اتي بشراب فشرب منه، وعن يمينه غلام، وعن شماله الاشياخ، فقال للغلام: " اتاذن في ان اعطيه هؤلاء؟" فقال: والله يا رسول الله، ما كنت لاوثر بنصيبي منك احدا .حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ ، قَالَ: قُرِئَ عَلَى مَالِكٍ أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَ مِنْهُ، وَعَنْ يَمِينِهِ غُلَامٌ، وَعَنْ شِمَالِهِ الْأَشْيَاخُ، فَقَالَ لِلْغُلَامِ: " أَتَأْذَنُ فِي أَنْ أُعْطِيَهُ هَؤُلَاءِ؟" فَقَالَ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا كُنْتُ لِأُوثِرَ بِنَصِيبِي مِنْكَ أَحَدًا .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مرتبہ کوئی مشروب لایا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نوش فرمایا آپ کے دائیں جانب ایک لڑکا تھا اور بائیں جانب عمر رسیدہ افراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکے سے پوچھا کیا تم مجھے اس بات کی اجازت دیتے ہو کہ اپنا پس خودرہ انہیں دے دوں؟ اس لڑکے نے " نہیں " کہا اور کہنے لگا اللہ کی قسم! میں آپ کے حصے پر کسی کو ترجیح نہیں دوں گا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ برتن اس کے ہاتھ پر پٹک دیا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2351، م: 2030
حدیث نمبر: 22868
Save to word اعراب
حدثنا عصام بن خالد , وابو النضر , قالا: حدثنا العطاف بن خالد ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال ابو النضر: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " غدوة في سبيل الله خير من الدنيا وما فيها، وروحة في سبيل الله خير من الدنيا وما فيها، وموضع سوط في الجنة، قال ابو النضر: من الجنة خير من الدنيا وما فيها" .حَدَّثَنَا عِصَامُ بْنُ خَالِدٍ , وَأَبُو النَّضْرِ , قَالَا: حَدَّثَنَا الْعَطَّافُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو النَّضْرِ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " غَدْوَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَرَوْحَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَمَوْضِعُ سَوْطٍ فِي الْجَنَّةِ، قَالَ أَبُو النَّضْرِ: مِنَ الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا" .
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ! نے ارشاد فرمایا اللہ کے راستے میں ایک صبح یا ایک شام کے لئے نکلنا دنیا ومافیہا سے بہتر ہے اور جنت میں کسی شخص کے کوڑے کی جگہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 22869
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن عبد الله بن الزبير ، حدثنا عبد الرحمن ابن الغسيل ، عن حمزة بن ابي اسيد ، عن ابيه , وعباس بن سهل ، عن ابيه ، قالا: مر بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحاب له، فخرجنا حتى انطلقنا إلى حائط يقال له: الشوط، حتى إذا انتهينا إلى حائطين منها جلسنا بينهما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اجلسوا" , ودخل هو واتي بالجونية، فعزلت في بيت في النخل، اميمة بنت النعمان ابن شراحيل، ومعها داية لها، فلما دخل عليها رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" هبي لي نفسك" , قالت: وهل تهب الملكة نفسها للسوقة؟ وقال غير ابي احمد: امراة من بني الجون، يقال لها: امينة، قالت:" إني اعوذ بالله منك" , قال: لقد عذت بمعاذ ثم خرج علينا، فقال: يا ابا اسيد، اكسها فارسيتين، والحقها باهلها" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ابْنُ الْغَسِيلِ ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ , وَعَبَّاسِ بْنِ سَهْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَا: مَرَّ بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابٌ لَهُ، فَخَرَجْنَا حَتَّى انْطَلَقْنَا إِلَى حَائِطٍ يُقَالُ لَهُ: الشَّوْطُ، حَتَّى إِذَا انْتَهَيْنَا إِلَى حَائِطَيْنِ مِنْهَا جَلَسْنَا بَيْنَهُمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اجْلِسُوا" , وَدَخَلَ هُوَ وَأُتِيَ بِالْجَوْنِيَّةِ، فَعُزِلَتْ فِي بَيْتٍ فِي النَّخْلِ، أُمَيْمَةُ بِنْتُ النُّعْمَانِ ابْنِ شَرَاحِيلَ، وَمَعَهَا دَايَةٌ لَهَا، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" هَبِي لِي نَفْسَكِ" , قَالَتْ: وَهَلْ تَهَبُ الْمَلِكَةُ نَفْسَهَا لِلسُّوقَةِ؟ وَقَالَ غَيْرُ أَبِي أَحْمَدَ: امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي الْجَوْنِ، يُقَالُ لَهَا: أُمَيْنَةُ، قَالَتْ:" إِنِّي أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ" , قَالَ: لَقَدْ عُذْتِ بِمُعَاذٍ ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا، فَقَالَ: يَا أَبَا أُسَيْدٍ، اكْسُهَا فَارِسِيَّتَيْنِ، وَأَلْحِقْهَا بِأَهْلِهَا" .
حضرت ابو اسید رضی اللہ عنہ اور سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ہمارے پاس سے گذرے میں بھی ہمراہ ہوگیا حتیٰ کہ چلتے چلتے ہم " سوط " نامی ایک باغ میں پہنچے وہاں ہم بیٹھ گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ایک طرف بٹھا کر ایک گھر میں داخل ہوگئے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قبیلہ جون کی ایک خاتون کو لایا گیا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ امیمہ بنت نعمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں خلوت کی، اس خاتون کے ساتھ سواری کا جانور بھی تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس خاتون کے پاس پہنچے تو اس سے فرمایا کہ اپنی ذات کو میرے لئے ھبہ کردو اس پر (العیاذباللہ) وہ کہنے لگی کہ کیا ایک ملکہ اپنے آپ کو کسی بازاری آدمی کے حوالے کرسکتی ہے؟ میں تم سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے ایسی ذات سے پناہ چاہی جس سے پناہ مانگی جاتی ہے یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر آگئے اور فرمایا اے ابو اسید! اسے دو جوڑے دے کر اس کے اہل خانہ کے پاس چھوڑ آؤ بعض راویوں نے اس عورت کا نام امینہ بتایا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5257, 5256
حدیث نمبر: 22870
Save to word اعراب
حدثنا إسحاق بن عيسى ، اخبرني مالك ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر" .حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى ، أَخْبَرَنِي مَالِكٌ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت اس وقت تک خیر پر قائم رہے گی جب تک وہ افطاری میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرتی رہے گی۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1957، م: 1098
حدیث نمبر: 22871
Save to word اعراب
حدثنا إسحاق بن عيسى ، حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم ، عن ابيه ، عن سهل بن سعد , انه سئل عن المنبر من اي عود هو؟ قال: اما والله إني لاعرف من اي عود هو، واعرف من عمله، واي يوم صنع، واي يوم وضع، ورايت النبي صلى الله عليه وسلم اول يوم جلس عليه، ارسل النبي صلى الله عليه وسلم إلى امراة لها غلام نجار، فقال لها: " مري غلامك النجار ان يعمل لي اعوادا اجلس عليها إذا كلمت الناس"، فامرته فذهب إلى الغابة فقطع طرفاء فعمل المنبر ثلاث درجات، فارسلت به إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فوضع في موضعه هذا الذي ترون، فجلس عليه اول يوم وضع، فكبر وهو عليه، ثم ركع، ثم نزل القهقرى فسجد وسجد الناس معه، ثم عاد حتى فرغ، فلما انصرف، قال:" يا ايها الناس، إنما فعلت هذا لتاتموا بي ولتعلموا صلاتي" , فقيل لسهل: هل كان من شان الجذع ما يقول الناس؟ قال: قد كان منه الذي كان.حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ , أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الْمِنْبَرِ مِنْ أَيِّ عُودٍ هُوَ؟ قَالَ: أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْرِفُ مِنْ أَيِّ عُودٍ هُوَ، وَأَعْرِفُ مَنْ عَمِلَهُ، وَأَيُّ يَوْمٍ صُنِعَ، وَأَيُّ يَوْمٍ وُضِعَ، وَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلَ يَوْمٍ جَلَسَ عَلَيْهِ، أَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى امْرَأَةٍ لَهَا غُلَامٌ نَجَّارٌ، فَقَالَ لَهَا: " مُرِي غُلَامَكِ النَّجَّارَ أَنْ يَعْمَلَ لِي أَعْوَادًا أَجْلِسُ عَلَيْهَا إِذَا كَلَّمْتُ النَّاسَ"، فَأَمَرَتْهُ فَذَهَبَ إِلَى الْغَابَةِ فَقَطَعَ طَرْفَاءَ فَعَمِلَ الْمِنْبَرَ ثَلَاثَ دَرَجَاتٍ، فَأَرْسَلَتْ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوُضِعَ فِي مَوْضِعِهِ هَذَا الَّذِي تَرَوْنَ، فَجَلَسَ عَلَيْهِ أَوَّلَ يَوْمٍ وُضِعَ، فَكَبَّرَ وَهُوَ عَلَيْهِ، ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ نَزَلَ الْقَهْقَرَى فَسَجَدَ وَسَجَدَ النَّاسُ مَعَهُ، ثُمَّ عَادَ حَتَّى فَرَغَ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّمَا فَعَلْتُ هَذَا لِتَأْتَمُّوا بِي وَلِتَعْلَمُوا صَلَاتِي" , فَقِيلَ لِسَهْلٍ: هَلْ كَانَ مِنْ شَأْنِ الْجِذْعِ مَا يَقُولُ النَّاسُ؟ قَالَ: قَدْ كَانَ مِنْهُ الَّذِي كَانَ.
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر کس لکڑی کا بنا ہوا تھا؟ انہوں نے فرمایا بخدا! یہ بات سب سے زیادہ مجھے معلوم ہے کہ وہ کس لکڑی سے بنا ہوا تھا؟ کس نے اسے بنایا تھا؟ کس دن بنایا گیا تھا؟ کس دن مسجد نبوی میں لا کر رکھا گیا اور جس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلی مرتبہ اس پر رونق افروز ہوئے وہ بھی میں نے دیکھا ہے۔ ان تمام باتوں کی تفصیل یہ ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاتون کے پاس " جس کا ایک غلام بڑھئی تھا " پیغام بھیجا کر اپنے بڑھئی غلام سے کہو کہ میرے لئے کچھ لکڑیاں ٹھونک دے تاکہ میں دوران تقریر ان پر بیٹھ سکوں اس عورت نے اپنے غلام کو اس کا حکم دیا تو وہ " غابہ " چلا گیا اور ایک درخت کی لکڑیاں کاٹیں اور تین سیڑھیوں پر مشتمل منبر بنادیا اس عورت نے وہ منبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسی جگہ رکھوا دیا جہاں آج تم اسے دیکھ رہے ہو اور اسی دن پہلی مرتبہ اس پر تشریف فرما ہوئے اور اس پر تکبیر کہی پھر جھک کر الٹے پاؤں نیچے اتر اور سجدہ ریز ہوگئے لوگوں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سجدہ کیا حتیٰ کہ اس سے فارغ ہوگئے اور فرمایا لوگو! میں نے یہ اس لئے کیا ہے کہ تم میری اقتداء کرسکو اور میرا طریقہ نماز سیکھ لو ' کسی نے حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اس تنے کے متعلق لوگوں میں جو بات مشہور ہے کیا وہ صحیح ہے؟ انہوں نے فرمایا جو واقعہ رونما ہوا تھا وہ تو پیش آیا تھا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 377، م: 544
حدیث نمبر: 22872
Save to word اعراب
حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا عبد الرحمن يعني ابن عبد الله بن دينار ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد الساعدي ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " رباط يوم في سبيل الله خير من الدنيا وما عليها، والروحة يروحها العبد في سبيل الله او الغدوة خير من الدنيا وما عليها، وموضع سوط احدكم في الجنة خير من الدنيا وما عليها" .حَدَّثَنَا هَاشِمُ بنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " رِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا، وَالرَّوْحَةُ يَرُوحُهَا الْعَبْدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ الْغَدْوَةُ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا، وَمَوْضِعُ سَوْطِ أَحَدِكُمْ فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا" .
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ! نے ارشاد فرمایا اللہ کے راستے میں ایک دن کی پہرہ داری دنیا و ماعلیہا سے بہتر ہے اللہ کے راستے میں ایک صبح یا ایک شام کے لئے نکلنا دنیا ومافیہا سے بہتر ہے اور جنت میں کسی شخص کے کوڑے کی جگہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل عبدالرحمن بن عبدالله
حدیث نمبر: 22873
Save to word اعراب
حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا عبد الرحمن يعني ابن عبد الله بن دينار ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " انا فرطكم على الحوض، من ورد علي شرب، ومن شرب لم يظما ابدا، ابصرت ان لا يرد علي اقوام اعرفهم ويعرفونني، ثم يحال بيني وبينهم" , قال: فسمعني النعمان بن ابي عياش احدث به، فقال: واشهد ان ابا سعيد الخدري يزيد فيه، فيقول:" واقول: إنهم امتي، او مني، فيقال إنك لا تدري ما احدثوا بعدك، او ما بدلوا بعدك، فاقول: سحقا سحقا لمن بدل بعدي".حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَا فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ، مَنْ وَرَدَ عَلَيَّ شَرِبَ، وَمَنْ شَرِبَ لَمْ يَظْمَأْ أَبَدًا، أَبْصَرْتُ أَنْ لَا يَرِدَ عَلَيَّ أَقْوَامٌ أَعْرِفُهُمْ وَيَعْرِفُونَنِي، ثُمَّ يُحَالُ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ" , قَالَ: فَسَمِعَنِي النُّعْمَانُ بْنُ أَبِي عَيَّاشٍ أُحَدِّثُ بِهِ، فَقَالَ: وَأَشْهَدُ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَزِيدُ فِيهِ، فَيَقُولُ:" وَأَقُولُ: إِنَّهُمْ أُمَّتِي، أَوْ مِنِّي، فَيُقَالُ إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ، أَوْ مَا بَدَّلُوا بَعْدَكَ، فَأَقُولُ: سُحْقًا سُحْقًا لِمَنْ بَدَّلَ بَعْدِي".
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حوض کوثر پر تمہارا انتظار کروں گا جو شخص وہاں آئے گا وہ اس کا پانی بھی پئے گا اور جو اس کا پانی پی لے گا وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا اور میرے پاس کچھ ایسے لوگ بھی آئیں گے جنہیں میں پہچانوں گا اور وہ مجھے پہچانیں گے لیکن پھر ان کے اور میرے درمیان رکاوٹ کھڑی کردی جائے گی۔ ابو حازم کہتے ہیں کہ حضرت نعمان بن ابی عیاش نے مجھے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا تو کہنے لگے کیا تم نے حضرت سہل رضی اللہ عنہ کو اسی طرح فرماتے ہوئے سنا ہے میں نے عرض کیا جی ہاں! انہوں نے کہا کہ میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے متعلق گواہی دیتا ہوں کہ میں نے انہیں یہ اضافہ نقل کرتے ہوئے سنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے یہ میرے امتی ہیں تو کہا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے انہوں نے آپ کے بعد کیا اعمال سر انجام دیئے تھے؟ میں کہوں گا کہ دور ہوجائیں وہ لوگ جنہوں نے میرے بعد میرے دین کو بدل دیا۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 7050، م: 2290، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل عبدالرحمن بن عبدالله
حدیث نمبر: 22874
Save to word اعراب
حدثنا يونس ، حدثنا عمران بن يزيد القطان بصري ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن منبري هذا على ترعة من ترع الجنة" .حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ يَزِيدَ الْقَطَّانُ بَصْرِيٌّ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنْبَرِي هَذَا عَلَى تُرْعَةٍ مِنْ تُرَعِ الْجَنَّةِ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا منبر جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہوگا۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عمران بن يزيد
حدیث نمبر: 22875
Save to word اعراب
حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا مسلم ، عن عباد بن إسحاق ، عن ابي حازم ، حدثني سهل بن سعد , ان رجلا من اسلم جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " إنه قد زنى بامراة سماها، فارسل النبي صلى الله عليه وسلم إلى المراة فدعاها، فسالها عما قال، فانكرت، فحده وتركها" .حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، حَدَّثَنِي سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ , أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَسْلَمَ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِنَّهُ قَدْ زَنَى بِامْرَأَةٍ سَمَّاهَا، فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَرْأَةِ فَدَعَاهَا، فَسَأَلَهَا عَمَّا قَالَ، فَأَنْكَرَتْ، فَحَدَّهُ وَتَرَكَهَا" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قبیلہ اسلم کا ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اس نے ایک عورت سے بدکاری کی ہے جس کا نام بھی اس نے بتایا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو بلا بھیجا اور اس سے اس شخص کی بات کے متعلق پوچھا تو اس نے انکار کردیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی پر حد جاری فرما دی اور عورت کو چھوڑ دیا۔

حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف مسلم، وقد توبع
حدیث نمبر: 22876
Save to word اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إن اهل الجنة ليتراءون الغرفة في الجنة كما تراءون الكوكب في السماء" , قال: فحدثت بذلك النعمان بن ابي عياش ، فقال: سمعت ابا سعيد الخدري ، يقول:" كما تراءون الكوكب الدري في الافق الشرقي او الغربي".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ لَيَتَرَاءَوْنَ الْغُرْفَةَ فِي الْجَنَّةِ كَمَا تَرَاءَوْنَ الْكَوْكَبَ فِي السَّمَاءِ" , قَالَ: فَحَدَّثْتُ بِذَلِكَ النُّعْمَانَ بْنَ أَبِي عَيَّاشٍ ، فَقَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ، يَقُولُ:" كَمَا تَرَاءَوْنَ الْكَوْكَبَ الدُّرِّيَّ فِي الْأُفُقِ الشَّرْقِيِّ أَوْ الْغَرْبِيِّ".
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اہل جنت بالا خانوں کو جنت میں اس طرح دیکھیں گے جیسے تم آسمان پر ستارے دیکھتے ہو راوی کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث نعمان بن ابی عیاش سے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جیسے تم مشرقی یا مغربی افق میں ایک چمکدار ستارے کو دیکھتے ہو۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2830
حدیث نمبر: 22877
Save to word اعراب
حدثنا احمد بن الحجاج ، حدثنا عبد الله ، اخبرنا مصعب بن ثابت ، حدثني ابو حازم ، قال: سمعت سهل بن سعد الساعدي يحدث , عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إن المؤمن من اهل الإيمان بمنزلة الراس من الجسد، يالم المؤمن لاهل الإيمان، كما يالم الجسد لما في الراس" .حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَجَّاجِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا مُصْعَبُ بْنُ ثَابِتٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ يُحَدِّثُ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ الْمُؤْمِنَ مِنْ أَهْلِ الْإِيمَانِ بِمَنْزِلَةِ الرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ، يَأْلَمُ الْمُؤْمِنُ لِأَهْلِ الْإِيمَانِ، كَمَا يَأْلَمُ الْجَسَدُ لِمَا فِي الرَّأْسِ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مؤمن کا اہل ایمان میں وہی درجہ ہوتا ہے جو سر کا جسم میں ہوتا ہے اور ایک مومن تمام اہل ایمان کے لئے اسی طرح تڑپتا ہے جیسے سر کی تکلیف کے لئے تڑپتا ہے۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف مصعب بن ثابت، لكنه توبع
حدیث نمبر: 22878
Save to word اعراب
حدثنا يحيى بن إسحاق ، اخبرنا ابن لهيعة ، عن بكر بن سوادة ، عن سهل بن سعد الانصاري ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" والذي نفسي بيده، لتركبن سنن من كان قبلكم مثلا بمثل" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ بَكْرِ بْنِ سَوَادَةَ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَتَرْكَبُنَّ سُنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ مِثْلًا بِمِثْلٍ" .
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے تم لوگ پہلے لوگوں کے طریقوں پر پورا پورا چل کر رہو گے۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة
حدیث نمبر: 22879
Save to word اعراب
حدثنا حسن بن موسى ، اخبرنا ابن لهيعة ، حدثنا جميل الاسلمي ، عن سهل بن سعد ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " اللهم لا يدركني زمان و لا تدركوا زمانا لا يتبع فيه العليم، ولا يستحى فيه من الحليم، قلوبهم قلوب الاعاجم، والسنتهم السنة العرب" .حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا جَمِيلٌ الْأَسْلَمِيُّ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " اللَّهُمَّ لَا يُدْرِكْنِي زَمَانٌ وْ لَا تُدْرِكُوا زَمَانًا لَا يُتْبَعُ فِيهِ الْعَلِيمُ، وَلَا يُسْتَحَى فِيهِ مِنَ الْحَلِيمِ، قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الْأَعَاجِمِ، وَأَلْسِنَتُهُمْ أَلْسِنَةُ الْعَرَبِ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ دعا کرتے ہوئے فرمایا اے اللہ! میں ایسا دور کبھی نہ پاؤں اور تم بھی نہ پاؤ جس میں اہل علم کی پیروی نہ کی جائے بردبار لوگوں سے شرم نہ کی جائے جن کے دل عجمیوں کی طرح اور زبانیں اہل عرب کی طرح ہوں۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة جميل الأسلمي، وحديثه عن سهل معلول، وابن لهيعة سيئ الحفظ
حدیث نمبر: 22880
Save to word اعراب
حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا ابو زرعة عمرو بن جابر ، عن سهل بن سعد ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لا تسبوا تبعا، فإنه قد كان اسلم" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ عَمْرُو بْنُ جَابِرٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا تَسُبُّوا تُبَّعًا، فَإِنَّهُ قَدْ كَانَ أَسْلَمَ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تبع کو برا بھلا مت کہا کرو کیونکہ وہ مسلمان ہوگیا تھا۔

حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن الهيعة وأبي زرعة

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.