حدثنا يزيد ، انبانا الوليد يعني ابن عبد الله بن جميع ، عن ابي الطفيل ، قال: لما اقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم من غزوة تبوك امر مناديا فنادى: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم اخذ العقبة، فلا ياخذها احد، فبينما رسول الله صلى الله عليه وسلم يقوده حذيفة ويسوق به عمار إذ اقبل رهط متلثمون على الرواحل، غشوا عمارا وهو يسوق برسول الله صلى الله عليه وسلم، واقبل عمار يضرب وجوه الرواحل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لحذيفة:" قد، قد" حتى هبط رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما هبط رسول الله صلى الله عليه وسلم نزل ورجع عمار، فقال: يا عمار، " هل عرفت القوم؟" فقال: قد عرفت عامة الرواحل والقوم متلثمون، قال:" هل تدري ما ارادوا؟" قال: الله ورسوله اعلم، قال:" ارادوا ان ينفروا برسول الله صلى الله عليه وسلم فيطرحوه" ، قال: فسال عمار رجلا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: نشدتك بالله، كم تعلم كان اصحاب العقبة؟ فقال: اربعة عشر، فقال: إن كنت فيهم فقد كانوا خمسة عشر، فعدد رسول الله صلى الله عليه وسلم منهم ثلاثة، قالوا: والله ما سمعنا منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما علمنا ما اراد القوم، فقال عمار: اشهد ان الاثني عشر الباقين حرب لله ولرسوله في الحياة الدنيا ويوم يقوم الاشهاد، قال الوليد: وذكر ابو الطفيل في تلك الغزوة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال للناس، وذكر له ان في الماء قلة، فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم مناديا فنادى: ان لا يرد الماء احد قبل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فورده رسول الله صلى الله عليه وسلم فوجد رهطا وردوه قبله، فلعنهم رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ.حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَنْبَأَنَا الْوَلِيدُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُمَيْعٍ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، قَالَ: لَمَّا أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ أَمَرَ مُنَادِيًا فَنَادَى: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ الْعَقَبَةَ، فَلَا يَأْخُذْهَا أَحَدٌ، فَبَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُودُهُ حُذَيْفَةُ وَيَسُوقُ بِهِ عَمَّارٌ إِذْ أَقْبَلَ رَهْطٌ مُتَلَثِّمُونَ عَلَى الرَّوَاحِلِ، غَشَوْا عَمَّارًا وَهُوَ يَسُوقُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَقْبَلَ عَمَّارٌ يَضْرِبُ وُجُوهَ الرَّوَاحِلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحُذَيْفَةَ:" قَدْ، قَدْ" حَتَّى هَبَطَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا هَبَطَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ وَرَجَعَ عَمَّارٌ، فَقَالَ: يَا عَمَّارُ، " هَلْ عَرَفْتَ الْقَوْمَ؟" فَقَالَ: قَدْ عَرَفْتُ عَامَّةَ الرَّوَاحِلِ وَالْقَوْمُ مُتَلَثِّمُونَ، قَالَ:" هَلْ تَدْرِي مَا أَرَادُوا؟" قَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" أَرَادُوا أَنْ يَنْفِرُوا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَطْرَحُوهُ" ، قَالَ: فَسَأَلَ عَمَّارٌ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: نَشَدْتُكَ بِاللَّهِ، كَمْ تَعْلَمُ كَانَ أَصْحَابُ الْعَقَبَةِ؟ فَقَالَ: أَرْبَعَةَ عَشَرَ، فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ فِيهِمْ فَقَدْ كَانُوا خَمْسَةَ عَشَرَ، فَعَدَّدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ ثَلَاثَةً، قَالُوا: وَاللَّهِ مَا سَمِعْنَا مُنَادِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا عَلِمْنَا مَا أَرَادَ الْقَوْمُ، فَقَالَ عَمَّارٌ: أَشْهَدُ أَنَّ الِاثْنَيْ عَشَرَ الْبَاقِينَ حَرْبٌ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ، قَالَ الْوَلِيدُ: وَذَكَرَ أَبُو الطُّفَيْلِ فِي تِلْكَ الْغَزْوَةِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِلنَّاسِ، وَذُكِرَ لَهُ أَنَّ فِي الْمَاءِ قِلَّةً، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنَادِيًا فَنَادَى: أَنْ لَا يَرِدَ الْمَاءَ أَحَدٌ قَبْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَرَدَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ رَهْطًا وَرَدُوهُ قَبْلَهُ، فَلَعَنَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ.
حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ تبوک سے واپس آرہے تھے تو راستے میں منادی کو حکم دیا اس نے یہ اعلان کردیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھاٹی کا راستہ اختیار کیا ہے اس راستے پر کوئی نہ جائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ تھے اور پیچھے حضرت عمار رضی اللہ عنہ تھے کہ اچانک کچھ سواریوں پر ڈھاٹا باندھے ہوئے لوگوں کا ایک گروہ سامنے آگیا جنہوں نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو گھیر لیا حضرت عمار رضی اللہ عنہ پیچھے تھے وہ ان سواریوں کے چہروں پر مارنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطرے کا احساس ہوتے ہی حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے سواری روکنے کے لئے کہا اور نیچے اتر آئے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس گھاٹی سے اترنے لگے اسی دوران حضرت عمار رضی اللہ عنہ بھی واپس آگئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا عمار! کیا تم ان لوگوں کو پہچان سکے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ اکثر سواریوں کو تو میں نے پہچان لیا ہے لیکن لوگوں نے اپنے چہروں پر ڈھاٹا باندھا ہوا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہیں ان کا ارادہ معلوم ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کا ارادہ یہ تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لے جائیں اور اوپر سے نیچے دھکیل دیں۔
پھر حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کو سخت سست کہا اور کہا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس گھاٹی میں کتنے آدمی تھے؟ اس نے کہا چودہ انہوں نے کہا کہ اگر آپ بھی ان میں شامل ہوں تو وہ پندرہ ہوتے ہیں جن میں سے تین کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معذور قرار دیا تھا جن کا کہنا یہ تھا کہ بخدا! ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی کی آواز نہیں سنی تھی اور ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ان لوگوں کا کیا ارادہ تھا؟ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ بارہ آدمی جو باقی بچے وہ دنیوی زندگی اور گواہوں کے اٹھنے کے دن دونوں موقعوں پر اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والے ہیں۔
ولید کہتے ہیں کہ حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ نے اسی غزوے کے متعلق بتایا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے " جب پانی کی قلت کا علم ہوا تو " لوگوں سے فرما دیا تھا اور منادی نے یہ اعلان کردیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی شخص پانی پر نہ جائے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب وہاں پہنچے تو کچھ لوگوں کو وہاں موجود پایا جو ان سے پہلے وہاں پہنچ گئے تھے اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لعنت ملامت کی۔
حدثنا عبد الله، حدثني ابي من كتابه، حدثنا إبراهيم بن خالد ، حدثنا رباح بن زيد ، حدثني عمر بن حبيب ، عن عبد الله بن عثمان بن خثيم ، قال: دخلت على ابي الطفيل، فوجدته طيب النفس، فقلت: لاغتنمن ذلك منه، فقلت: يا ابا الطفيل، النفر الذين لعنهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، من بينهم، من هم؟ فهم ان يخبرني بهم، فقالت له امراته سودة : مه يا ابا الطفيل، اما بلغك ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " اللهم إنما انا بشر، فايما عبد من المؤمنين دعوت عليه دعوة، فاجعلها له زكاة ورحمة" .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي أَبِي مِنْ كِتَابِهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا رَبَاحُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ حَبِيبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي الطُّفَيْلِ، فَوَجَدْتُهُ طَيِّبَ النَّفْسِ، فَقُلْتُ: لَأَغْتَنِمَنَّ ذَلِكَ مِنْهُ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا الطُّفَيْلِ، النَّفَرُ الَّذِينَ لَعَنَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْ بَيْنِهِمْ، مَنْ هُمْ؟ فَهَمَّ أَنْ يُخْبِرَنِي بِهِمْ، فَقَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ سَوْدةٌ : مَهْ يَا أَبَا الطُّفَيْلِ، أَمَا بَلَغَكَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " اللَّهُمَّ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، فَأَيُّمَا عَبْدٍ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ دَعَوْتُ عَلَيْهِ دَعْوَةً، فَاجْعَلْهَا لَهُ زَكَاةً وَرَحْمَةً" .
عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابو الطفیل رضی اللہ عنہ کے گھر میں داخل ہوا تو انہیں خوشگوار موڈ میں پایا میں نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر فائدہ اٹھانے کی سوچی چناچہ میں نے ان سے عرض کیا کہ اے ابوالطفیل! وہ لوگ جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت ملامت کی تھی وہ کون تھے؟ ابھی انہوں نے مجھے ان کے متعلق بتانے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ ان کی اہلیہ سودہ نے کہا کہ اے ابوالطفیل! رک جائیے آپ کو معلوم نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اے اللہ! میں بھی ایک انسان ہوں اس لئے اگر کسی مسلمان کو میں نے کوئی بد دعا دی ہو تو اسے اس شخص کے حق میں تزکیہ اور رحمت کا سبب بنا دے۔
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن عبد الله بن عثمان بن خثيم ، عن ابي الطفيل ، قال:" لما بني البيت كان الناس ينقلون الحجارة والنبي صلى الله عليه وسلم ينقل معهم، فاخذ الثوب فوضعه على عاتقه، فنودي: لا تكشف عورتك، فالقى الحجر ولبس ثوبه صلى الله عليه وسلم" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، قَالَ:" لَمَّا بُنِيَ الْبَيْتُ كَانَ النَّاسُ يَنْقُلُونَ الْحِجَارَةَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْقُلُ مَعَهُمْ، فَأَخَذَ الثَّوْبَ فَوَضَعَهُ عَلَى عَاتِقِهِ، فَنُودِيَ: لَا تَكْشِفْ عَوْرَتَكَ، فَأَلْقَى الْحَجَرَ وَلَبِسَ ثَوْبَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" .
حضرت ابو الطفیل رضی اللہ عنہ سے (زمانہ جاہلیت میں بناء کعبہ کا تذکرہ کرتے ہوئے) مروی ہے کہ جب بیت اللہ کی تعمیر شروع ہوئی (تو قریش نے پہلے اسے مکمل منہدم کیا اور وادی کے پتھروں سے اس کی تعمیر شروع کردی) لوگ وہ پتھر اٹھا اٹھا کر لا رہے تھے جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل تھے (قریش نے اسے بیس گز لمبا رکھا تھا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونی چادر پہن رکھی تھی لیکن پتھر اٹھانے کے دوران اسے سنبھالنا مشکل ہوگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چادر کو اپنے کندھے پر ڈال لیا اس وقت کسی نے پکار کر کہا کہ اپنا ستر چھپائیے چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پتھر پھینکا اور اپنی چادر اوڑھ لی۔ صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد نبوت تو نہیں ہوگی البتہ " مبشرات " ہوں گے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! " مبشرات " سے کیا مراد ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھے خواب۔
حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، حدثنا مهدي بن عمران المازني ، قال: سمعت ابا الطفيل ، وسئل: هل رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم، قيل: فهل كلمته؟ قال: لا، ولكن رايته انطلق مكان كذا وكذا، ومعه عبد الله بن مسعود واناس من اصحابه، حتى اتى دار قوراء، فقال: " افتحوا هذا الباب"، ففتح ودخل النبي صلى الله عليه وسلم ودخلت معه، فإذا قطيفة في وسط البيت، فقال:" ارفعوا هذه القطيفة"، فرفعوا القطيفة، فإذا غلام اعور تحت القطيفة، فقال:" قم يا غلام"، فقام الغلام، فقال: يا غلام،" اتشهد اني رسول الله؟"، قال الغلام: اتشهد اني رسول الله؟ قال:" اتشهد اني رسول الله؟" قال الغلام: اتشهد اني رسول الله؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" تعوذوا بالله من شر هذا" مرتين .حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ عِمْرَانَ الْمَازِنِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ ، وَسُئِلَ: هَلْ رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ: فَهَلْ كَلَّمْتَهُ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنْ رَأَيْتُهُ انْطَلَقَ مَكَانَ كَذَا وَكَذَا، وَمَعَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ وَأُنَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، حَتَّى أَتَى دَارَ قَوْرَاءَ، فَقَالَ: " افْتَحُوا هَذَا الْبَابَ"، فَفُتِحَ وَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَخَلْتُ مَعَهُ، فَإِذَا قَطِيفَةٌ فِي وَسَطِ الْبَيْتِ، فَقَالَ:" ارْفَعُوا هَذِهِ الْقَطِيفَةَ"، فَرَفَعُوا الْقَطِيفَةَ، فَإِذَا غُلَامٌ أَعْوَرُ تَحْتَ الْقَطِيفَةِ، فَقَالَ:" قُمْ يَا غُلَامُ"، فَقَامَ الْغُلَامُ، فَقَالَ: يَا غُلَامُ،" أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟"، قَالَ الْغُلَامُ: أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ قَالَ:" أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟" قَالَ الْغُلَامُ: أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ هَذَا" مَرَّتَيْنِ .
حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں! سائل نے پوچھا کہ کیا بات بھی کی ہے؟ انہوں نے فرمایا نہیں البتہ میں نے فلاں جگہ جاتے ہوئے دیکھا تھا اس وقت ان کے ہمراہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہ تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک کشادہ مکان پر پہنچے اور دروازہ کھلوایا جب دروازہ کھلا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندر داخل ہوگئے میں بھی ان کے ساتھ ہی اندر چلا گیا وہاں گھر کے درمیان میں ایک چادر تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ چادر اٹھاؤ صحابہ رضی اللہ عنہ نے چادر اٹھائی تو اس کے نیچے سے ایک کانا لڑکا نکلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لڑکے! کھڑا ہوجا وہ لڑکا کھڑا ہوگیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا اے لڑکے! کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ اس لڑکے نے کہا کیا آپ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ دو مرتبہ یہی سوال جواب ہوئے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف من أجل مهدي بن عمران، وقد جاء نحو هذا الحديث فى ابن صياد أحاديث عديدة
حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا الجريري ، قال: كنت اطوف مع ابي الطفيل ، فقال: ما بقي احد راى رسول الله صلى الله عليه وسلم غيري، قال: قلت: ورايته؟ قال: نعم، قال: قلت: كيف كان صفته؟ قال:" كان ابيض مليحا مقصدا" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أخبرنا الْجُرَيْرِيُّ ، قَالَ: كُنْتُ أَطُوفُ مَعَ أَبِي الطُّفَيْلِ ، فَقَالَ: مَا بَقِيَ أَحَدٌ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرِي، قَالَ: قُلْتُ: وَرَأَيْتَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ كَانَ صِفَتُهُ؟ قَالَ:" كَانَ أَبْيَضَ مَلِيحًا مُقْصِدًا" .
جریری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ کے ہمراہ طواف کر رہا تھا کہ وہ کہنے لگے اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرنے والا میرے علاوہ کوئی شخص باقی نہیں بچا میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں میں نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ کیسا تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ گورا خوبصورت اور جسم معتدل تھا۔
حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے اس وقت میں بالکل نوجوان تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے اور اپنی چھڑی سے حجر اسود کا استلام کر رہے تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، م: 1275 ، وهذا إسناد حسن
حدثنا عبد الرزاق ، اخبر معمر ، عن ابن خثيم ، عن ابي الطفيل ، وذكر بناء الكعبة في الجاهلية، قال:" فهدمتها قريش، وجعلوا يبنونها بحجارة الوادي تحملها قريش على رقابها، فرفعوها في السماء عشرين ذراعا، فبينا النبي صلى الله عليه وسلم يحمل حجارة من اجياد وعليه نمرة، فضاقت عليه النمرة، فذهب يضع النمرة على عاتقه، فيرى عورته من صغر النمرة، فنودي: يا محمد، خمر عورتك، فلم يرى عريانا بعد ذلك" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أخبر مَعْمَرٌ ، عَنْ ابْنِ خُثَيْمٍ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، وَذَكَرَ بِنَاءَ الْكَعْبَةِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، قَالَ:" فَهَدَمَتْهَا قُرَيْشٌ، وَجَعَلُوا يَبْنُونَهَا بِحِجَارَةِ الْوَادِي تَحْمِلُهَا قُرَيْشٌ عَلَى رِقَابِهَا، فَرَفَعُوهَا فِي السَّمَاءِ عِشْرِينَ ذِرَاعًا، فَبَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُ حِجَارَةً مِنْ أَجْيَادٍ وَعَلَيْهِ نَمِرَةٌ، فَضَاقَتْ عَلَيْهِ النَّمِرَةُ، فَذَهَبَ يَضَعُ النَّمِرَةَ عَلَى عَاتِقِهِ، فَيُرَى عَوْرَتُهُ مِنْ صِغَرِ النَّمِرَةِ، فَنُودِيَ: يَا مُحَمَّدُ، خَمِّرْ عَوْرَتَكَ، فَلَمْ يُرَى عُرْيَانًا بَعْدَ ذَلِكَ" .
حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ سے (زمانہ جاہلیت میں بناء کعبہ کا تذکرہ کرتے ہوئے) مروی ہے کہ جب بیت اللہ کی تعمیر شروع ہوئی (تو قریش نے پہلے اسے مکمل منہدم کیا اور وادی کے پتھروں سے اس کی تعمیر شروع کردی) لوگ وہ پتھر اٹھا اٹھا کر لارہے تھے جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل تھے (قریش نے اسے بیس گز لمبا رکھا تھا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونی چادر پہن رکھی تھی لیکن پتھر اٹھانے کے دوران اسے سنبھالنا مشکل ہوگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چادر کو اپنے کندھے پر ڈال لیا اس وقت کسی نے پکار کر کہا کہ اپنا ستر چھپائیے چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پتھر پھینکا اور اپنی چادراوڑھ لی۔ صلی اللہ علیہ وسلم
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حماد بن سلمة ، حدثنا علي بن زيد ، عن ابي الطفيل ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " رايت فيما يرى النائم كاني انزع ارضا، وردت علي وغنم سود وغنم عفر، فجاء ابو بكر فنزع ذنوبا او ذنوبين وفيهما ضعف، والله يغفر له، ثم جاء عمر فنزع فاستحالت غربا فملا الحوض واروى الواردة، فلم ار عبقريا احسن نزعا من عمر، فاولت ان السود العرب، وان العفر العجم" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رَأَيْتُ فِيمَا يَرَى النَّائِمُ كَأَنِّي أَنْزِعُ أَرْضًا، وَرَدَتْ عَلَيَّ وَغَنَمٌ سُودٌ وَغَنَمٌ عُفْرٌ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَنَزَعَ ذَنُوبًا أَوْ ذَنُوبَيْنِ وَفِيهِمَا ضَعْفٌ، وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَهُ، ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ فَنَزَعَ فَاسْتَحَالَتْ غَرْبًا فَمَلَأَ الْحَوْضَ وَأَرْوَى الْوَارِدَةَ، فَلَمْ أَرَ عَبْقَرِيًّا أَحْسَنَ نَزْعًا مِنْ عُمَرَ، فَأَوَّلْتُ أَنَّ السُّودَ الْعَرَبُ، وَأَنَّ الْعُفْرَ الْعَجَمُ" .
حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے خواب میں دیکھا کہ جیسے میں ایک علاقے میں ہوں اور میرے پاس کچھ سیاہ اور کچھ سفید بکریاں آئی ہیں تھوڑی دیر بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے ایک دو ڈول کھینچے جن میں کچھ کمزوری تھی اللہ انہیں معاف کر دے پھر عمر رضی اللہ عنہ آئے اور وہ ان کے ہاتھ میں ڈول بن گیا اور انہوں نے حوض بھر دیا اور آنے والوں کو سیراب کردیا میں نے عمر سے زیادہ اچھا ڈول کھینچنے والا کوئی عقبری آدمی نہیں دیکھا اور میں نے اس خواب کی تعبیر یہ لی ہے کہ سیاہ بکریوں سے مراد عرب ہیں اور سفید بکریوں سے مراد اہل عجم ہیں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد
حدثنا ابو كامل مظفر بن مدرك ، حدثنا إبراهيم بن سعد ، حدثنا ابن شهاب ، عن ابي الطفيل عامر بن واثلة ، ان رجلا مر على قوم فسلم عليهم، فردوا عليه السلام، فلما جاوزهم، قال رجل منهم: والله إني لابغض هذا في الله، فقال اهل المجلس: بئس والله ما قلت، اما والله لننبئنه، قم يا فلان رجلا منهم فاخبره، قال: فادركه رسولهم، فاخبره بما قال، فانصرف الرجل حتى اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، مررت بمجلس من المسلمين فيهم فلان، فسلمت عليهم فردوا السلام، فلما جاوزتهم ادركني رجل منهم فاخبرني ان فلانا، قال: والله إني لابغض هذا الرجل في الله، فادعه فسله على ما يبغضني؟ فدعاه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فساله عما اخبره الرجل، فاعترف بذلك، وقال: قد قلت له ذلك يا رسول الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فلم تبغضه؟" قال: انا جاره وانا به خابر، والله ما رايته يصلي صلاة قط إلا هذه الصلاة المكتوبة التي يصليها البر والفاجر، قال الرجل: سله يا رسول الله: هل رآني قط اخرتها عن وقتها، او اسات الوضوء لها، او اسات الركوع والسجود فيها؟ فساله رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال: لا، ثم قال: والله ما رايته يصوم قط إلا هذا الشهر الذي يصومه البر والفاجر، قال: يا رسول الله، هل رآني قط افطرت فيه، او انتقصت من حقه شيئا؟ فساله رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: لا، ثم قال: والله ما رايته يعطي سائلا قط، ولا رايته ينفق من ماله شيئا في شيء من سبيل الله بخير إلا هذه الصدقة التي يؤديها البر والفاجر، قال: فسله يا رسول الله: هل كتمت من الزكاة شيئا قط، او ماكست فيها طالبها؟ قال: فساله رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال: لا، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قم، إن ادري لعله خير منك" ..حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ مُظَفَّرُ بْنُ مُدْرِكٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ ، أَنَّ رَجُلًا مَرَّ عَلَى قَوْمٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ، فَرَدُّوا عَلَيْهِ السَّلَامَ، فَلَمَّا جَاوَزَهُمْ، قَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُبْغِضُ هَذَا فِي اللَّهِ، فَقَالَ أَهْلُ الْمَجْلِسِ: بِئْسَ وَاللَّهِ مَا قُلْتَ، أَمَا وَاللَّهِ لَنُنَبِّئَنَّهُ، قُمْ يَا فُلَانُ رَجُلًا مِنْهُمْ فَأَخْبِرْهُ، قَالَ: فَأَدْرَكَهُ رَسُولُهُمْ، فَأَخْبَرَهُ بِمَا قَالَ، فَانْصَرَفَ الرَّجُلُ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَرَرْتُ بِمَجْلِسٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فِيهِمْ فُلَانٌ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِمْ فَرَدُّوا السَّلَامَ، فَلَمَّا جَاوَزْتُهُمْ أَدْرَكَنِي رَجُلٌ مِنْهُمْ فَأَخْبَرَنِي أَنَّ فُلَانًا، قَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُبْغِضُ هَذَا الرَّجُلَ فِي اللَّهِ، فَادْعُهُ فَسَلْهُ عَلَى مَا يُبْغِضُنِي؟ فَدَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ عَمَّا أَخْبَرَهُ الرَّجُلُ، فَاعْتَرَفَ بِذَلِكَ، وَقَالَ: قَدْ قُلْتُ لَهُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَلِمَ تُبْغِضُهُ؟" قَالَ: أَنَا جَارُهُ وَأَنَا بِهِ خَابِرٌ، وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُهُ يُصَلِّي صَلَاةً قَطُّ إِلَّا هَذِهِ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ الَّتِي يُصَلِّيهَا الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، قَالَ الرَّجُلُ: سَلْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ: هَلْ رَآنِي قَطُّ أَخَّرْتُهَا عَنْ وَقْتِهَا، أَوْ أَسَأْتُ الْوُضُوءَ لَهَا، أَوْ أَسَأْتُ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ فِيهَا؟ فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: لَا، ثُمَّ قَالَ: وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُهُ يَصُومُ قَطُّ إِلَّا هَذَا الشَّهْرَ الَّذِي يَصُومُهُ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ رَآنِي قَطُّ أَفْطَرْتُ فِيهِ، أَوْ انْتَقَصْتُ مِنْ حَقِّهِ شَيْئًا؟ فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: لَا، ثُمَّ قَالَ: وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُهُ يُعْطِي سَائِلًا قَطُّ، وَلَا رَأَيْتُهُ يُنْفِقُ مِنْ مَالِهِ شَيْئًا فِي شَيْءٍ مِنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِخَيْرٍ إِلَّا هَذِهِ الصَّدَقَةَ الَّتِي يُؤَدِّيهَا الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، قَالَ: فَسَلْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ: هَلْ كَتَمْتُ مِنَ الزَّكَاةِ شَيْئًا قَطُّ، أَوْ مَاكَسْتُ فِيهَا طَالِبَهَا؟ قَالَ: فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: لَا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قُمْ، إِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ خَيْرٌ مِنْكَ" ..
حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی کچھ لوگوں کے پاس سے گذرا اس نے انہیں سلام کیا لوگوں نے اس کے سلام کا جواب دیا جب وہ آدمی آگے بڑھ گیا تو ان لوگوں میں سے ایک نے کہا کہ بخدا! میں اللہ کی راہ میں اس سے بغض رکھتا ہوں اہل مجلس نے اس سے کہا کہ تم نے بہت بری بات کی ہے بخدا! ہم اسے یہ بات ضروربتائیں گے، پھر ایک آدمی سے کہا کہ اے فلاں! کھڑا ہو اور جا کر اسے یہ بات بتادے چناچہ قاصد نے اسے جالیا اور یہ بات بتادی وہ آدمی وہاں سے پلٹ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! مسلمانوں کی ایک مجلس پر میرا گذر ہوا میں نے انہیں سلام کیا ان میں فلاں آدمی بھی تھا ان سب نے میرے سلام کا جواب دیا جب میں آگے بڑھ گیا تو ان میں سے ایک آدمی میرے پاس آیا اور اس نے مجھے بتایا کہ فلاں آدمی کا یہ کہنا ہے کہ میں اس سے بغض فی اللہ رکھتا ہوں آپ اسے بلا کر پوچھئے کہ وہ مجھ سے کس بنا پر بغض رکھتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور اس بات کے متعلق دریافت فرمایا اس نے اپنی بات کا اعتراف کرلیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! میں نے یہ بات کہی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس سے بغض کیوں رکھتے ہو؟ اس نے کہا کہ میں اس کا پڑوسی ہوں اور اس کے حالات سے باخبر ہوں بخدا! میں نے اسے اس فرض نماز جسے نیک اور فاجر لوگ ہی پڑھتے ہیں کے علاوہ کبھی کوئی نماز نہیں پڑھتے ہوئے دیکھا اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس سے پوچھئے کہ کیا اس نے مجھے کبھی بھی نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ وضو غلط کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ یا رکوع و سجود میں کبھی غلطی کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پوچھنے پر اس نے کہا نہیں پھر کہنے لگا میں نے اسے کبھی روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے اس مہینے کے جس کا روزہ نیک اور فاجر ہی رکھتے ہیں اس نے کہا یا رسول اللہ! اس سے پوچھئے کہ کیا کبھی اس نے مجھے اس مہینے میں کسی دن روزے کا ناغہ کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ یا میں نے اس کے حق میں کوئی کمی کی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا نہیں۔ پھر اس نے کہا کہ واللہ میں نے اسے کبھی کسی سائل کو کچھ دیتے ہوئے نہیں دیکھا اور میں نے اسے اپنے مال میں سے اللہ کے راستہ میں کچھ خرچ کرتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے اس زکوٰۃ کے جو نیک اور فاجر ہی ادا کرتے ہیں اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اس سے پوچھئے کہ کی میں نے زکوٰۃ کا مال چھپایا ہے؟ یا اسے طلب کرنے والے کو کم دیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پوچھنے پر اس نے کہا نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معترض سے فرمایا کہ اٹھ جاؤ میں نہیں جانتا شاید یہی تم سے بہتر ہو۔
حكم دارالسلام: ضعيف لإرساله، فالصواب أنه من مراسيل الزهري
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن شهاب ، انه اخبره، ان رجلا في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على قوم.... ولم يذكر ابا الطفيل، قال عبد الله: بلغني ان إبراهيم بن سعد حدث بهذا الحديث من حفظه، وقال: عن ابي الطفيل، حدث به ابنه يعقوب، عن ابيه فلم يذكر ابا الطفيل، فاحسبه وهم، والصحيح رواية يعقوب، والله اعلم.حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَجُلًا فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى قَوْمٍ.... وَلَمْ يَذْكُرْ أَبَا الطُّفَيْلِ، قَالَ عَبْد اللَّهِ: بَلَغَنِي أَنَّ إِبْرَاهِيمَ بْنَ سَعْدٍ حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ مِنْ حِفْظِهِ، وَقَالَ: عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، حَدَّثَ بِهِ ابْنُهُ يَعْقُوبُ، عَنْ أَبِيهِ فَلَمْ يَذْكُرْ أَبَا الطُّفَيْلِ، فَأَحْسِبُهُ وَهِمَ، وَالصَّحِيحُ رِوَايَةُ يَعْقُوبَ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.
گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: ضعيف لإرساله، فالصواب أنه من مراسيل الزهري
حدثنا يونس ، وعفان ، قالا: حدثنا حماد بن سلمة ، عن علي بن زيد ، عن ابي الطفيل ، ان رجلا ولد له غلام على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم " فاخذ ببشرة وجهه ودعا له بالبركة"، قال: فنبتت شعرة في جبهته كهيئة القوس، وشب الغلام، فلما كان زمن الخوارج احبهم، فسقطت الشعرة عن جبهته، فاخذه ابوه فقيده وحبسه مخافة ان يلحق بهم، قال: فدخلنا عليه فوعظناه، وقلنا له فيما نقول: الم تر ان بركة دعوة رسول الله صلى الله عليه وسلم قد وقعت عن جبهتك؟ فما زلنا به حتى رجع عن رايهم، فرد الله عليه الشعرة بعد في جبهته وتاب .حَدَّثَنَا يُونُسُ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، أَنَّ رَجُلًا وُلِدَ لَهُ غُلَامٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " فَأَخَذَ بِبَشَرَةِ وَجْهِهِ وَدَعَا لَهُ بِالْبَرَكَةِ"، قَالَ: فَنَبَتَتْ شَعَرَةٌ فِي جَبْهَتِهِ كَهَيْئَةِ الْقَوْسِ، وَشَبَّ الْغُلَامُ، فَلَمَّا كَانَ زَمَنُ الْخَوَارِجِ أَحَبَّهُمْ، فَسَقَطَتْ الشَّعَرَةُ عَنْ جَبْهَتِهِ، فَأَخَذَهُ أَبُوهُ فَقَيَّدَهُ وَحَبَسَهُ مَخَافَةَ أَنْ يَلْحَقَ بِهِمْ، قَالَ: فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ فَوَعَظْنَاهُ، وَقُلْنَا لَهُ فِيمَا نَقُولُ: أَلَمْ تَرَ أَنَّ بَرَكَةَ دَعْوَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ وَقَعَتْ عَنْ جَبْهَتِكَ؟ فَمَا زِلْنَا بِهِ حَتَّى رَجَعَ عَنْ رَأْيِهِمْ، فَرَدَّ اللَّهُ عَلَيْهِ الشَّعَرَةَ بَعْدُ فِي جَبْهَتِهِ وَتَابَ .
حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عہد نبوت میں ایک آدمی کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا وہ شخص اپنے بچے کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیشانی پر ہاتھ پھیرا اور اس کے لئے برکت کی دعا کی چناچہ اس بچے کی پیشانی پر کمان کی طرح ایک بال اگ آیا وہ لڑکا جوان ہوگیا جب خوارج کا زمانہ آیا تو وہ خوراج سے محبت رکھنے لگا جس کی نحوست یہ ہوئی کہ اس کی پیشانی کا وہ بال جھڑ گیا اس کے باپ نے اسے پکڑ کر اسے پاؤں میں بیڑی ڈال کر بند کردیا تاکہ وہ خوارج کے ساتھ ہی جا نہ ملے ایک دن ہم لوگ اس کے پاس گئے اور اسے سمجھایا اور بہت ساری باتوں کے علاوہ اس سے یہ بھی کہا کہ تم یہ نہیں دیکھ رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت تمہاری پیشانی سے جھڑگئی ہے ہم اسے مسلسل سمجھاتے رہے حتٰی کہ وہ ان کی رائے سے باز آگیا اور کچھ عرصے بعد اللہ نے اس کی پیشانی پر دوبارہ وہ بال اگا دیا اور اس نے توبہ کرلی۔