حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے یہ بات حاصل کرلو مجھ سے یہ بات حاصل کرلو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے یہ راستہ متعین کردیا ہے کہ اگر کوئی کنوارا لڑکا کنواری لڑکی کے ساتھ بدکاری کرے تو اسے سو کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے اور اگر شادی شدہ مرد، شادی شدہ عورت کے ساتھ بدکاری کرے تو اسے سو کوڑے مارے جائیں اور رجم بھی کیا جائے۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شب قدر کے متعلق بتانے کے لئے گھر سے نکلے تو دو آدمی آپس میں تکرار کر رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں شب قدر کے متعلق بتانے کے لئے نکلا تو دو آدمی آپس میں تکرار کر رہے تھے اس کی وجہ سے اس کی تعین اٹھا لی گئی ہوسکتا ہے کہ تمہارے حق میں یہی بہتر ہو تم شب قدر کو (آخری عشرے کی) نویں ساتویں اور پانچویں رات میں تلاش کیا کرو۔
حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، اخبرنا خالد الحذاء ، عن ابي قلابة ، قال: خالد احسبه ذكره عن ابي اسماء ، قال: عبادة بن الصامت " اخذ علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم كما اخذ على النساء ستا: ان لا تشركوا بالله شيئا، ولا تسرقوا، ولا تزنوا، ولا تقتلوا اولادكم، ولا يعضد بعضكم بعضا، ولا تعصوني في معروف، فمن اصاب منكم منهن حدا فعجل له عقوبته، فهو كفارته، وإن اخر عنه، فامره إلى الله تعالى، إن شاء عذبه، وإن شاء رحمه" ..حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، قَالَ: خَالِدٌ أَحْسِبُهُ ذَكَرَهُ عَن ْ أَبِي أَسْمَاءَ ، قَالَ: عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ " أَخَذَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا أَخَذَ عَلَى النِّسَاءِ سِتًّا: أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ، وَلَا يَعْضِدْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا، وَلَا تَعْصُونِي فِي مَعْرُوفٍ، فَمَنْ أَصَابَ مِنْكُمْ مِنْهُنَّ حَدًّا فَعُجِّلَ لَهُ عُقُوبَتُهُ، فَهُوَ كَفَّارَتُهُ، وَإِنْ أُخِّرَ عَنْهُ، فَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى، إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ، وَإِنْ شَاءَ رَحِمَهُ" ..
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بھی اسی طرح چھ چیزوں پر بیعت لی تھی جیسے عورتوں سے لی تھی کہ تم نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے چوری نہیں کرو گے، بدکاری نہیں کرو گے اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے اور ایک دوسرے پر بہتان نہیں لگاؤ گے اور نیکی کے کسی کام میں میری نافرمانی نہیں کرو گے تم میں سے جو کوئی کسی عورت کے ساتھ قابل سزا جرم کا ارتکاب کرے اور اسے اس کی فوری سزا بھی مل جائے تو وہ اس کا کفارہ ہوگی اور اگر اسے مہلت مل گئی تو اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اگر اس نے چاہا تو عذاب دے دے گا اور اگر چاہا تو رحم فرما دے گا۔
حدثنا محمد بن سلمة ، عن ابن إسحاق ، عن مكحول ، عن محمود بن الربيع ، عن عبادة بن الصامت ، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقرا، فثقلت عليه القراءة، فلما فرغ، قال:" تقرءون؟" قلنا: نعم يا رسول الله , قال: " لا عليكم ان لا تفعلوا إلا بفاتحة الكتاب، فإنه لا صلاة إلا بها" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ مَكْحُولٍ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَرَأَ، فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةُ، فَلَمَّا فَرَغَ، قَالَ:" تَقْرَءُونَ؟" قُلْنَا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ: " لَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ إِلَّا بِهَا" .
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھائی دوران قرأت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طبیعت پر بوجھ محسوس ہوا نماز سے فارغ ہو کر ہم سے پوچھا کہ کیا تم بھی قراءت کرتے ہو؟ ہم نے عرض کیا جی یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم ایسا نہ کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہوگا الاّ یہ کہ سورت فاتحہ پڑھو کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
حدثنا محمد بن ابي عدي ، عن حميد ، عن انس ، عن عبادة بن الصامت ، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يريد ان يخبرنا بليلة القدر، فتلاحى رجلان، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خرجت وانا اريد ان اخبركم بليلة القدر، فتلاحى رجلان، فرفعت، وعسى ان يكون خيرا لكم، فالتمسوها في التاسعة او السابعة او الخامسة" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يُخْبِرَنَا بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ، فَتَلَاحَى رَجُلَانِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَرَجْتُ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُخْبِرَكُمْ بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ، فَتَلَاحَى رَجُلَانِ، فَرُفِعَتْ، وَعَسَى أَنْ يَكُونَ خَيْرًا لَكُمْ، فَالْتَمِسُوهَا فِي التَّاسِعَةِ أَوْ السَّابِعَةِ أَوْ الْخَامِسَةِ" .
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شب قدر کے متعلق بتانے کے لئے گھر سے نکلے تو دو آدمی آپس میں تکرار کر رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں شب قدر کے متعلق بتانے کے لئے نکلا تو دو آدمی آپس میں تکرار کر رہے تھے اس کی وجہ سے اس کی تعین اٹھالی گئی ہوسکتا ہے کہ تمہارے حق میں یہی بہتر ہو تم شب قدر کو (آخری عشرے کی) نویں ساتویں اور پانچویں رات میں تلاش کیا کرو۔
حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا الاوزاعي ، حدثني عمير بن هانئ العنسي ، حدثني جنادة بن ابي امية ، قال: حدثني عبادة بن الصامت ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من تعار من الليل، فقال: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، وهو على كل شيء قدير، سبحان الله، والحمد لله، والله اكبر، ولا حول ولا قوة إلا بالله، ثم قال: رب اغفر لي او قال: ثم دعاه استجيب له، فإن عزم فتوضا ثم صلى، تقبلت صلاته" ..حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنِي عُمَيْرُ بْنُ هَانِئٍ الْعَنْسِيُّ ، حَدَّثَنِي جُنَادَةُ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ تَعَارَّ مِنَ اللَّيْلِ، فَقَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: رَبِّ اغْفِرْ لِي أَوْ قَالَ: ثُمَّ دَعَاهُ اسْتُجِيبَ لَهُ، فَإِنْ عَزَمَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ صَلَّى، تُقُبِّلَتْ صَلَاتُهُ" ..
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص رات کو بیدار ہو اور یوں کہے اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی حکومت ہے اور اسی کی تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے سبحان اللہ والحمدللہ واللہ اکبر ولاحول ولاقوۃ الا باللہ پھر یہ دعا کرے کہ پروردگار! مجھے معاف فرما دے یا جو بھی دعاء کرے وہ ضرور قبول ہوگی پھر اگر وہ عزم کر کے اٹھتا ہے وضو کرتا ہے اور نماز پڑھتا ہے تو اس کی نماز بھی قبول ہوگی۔
حدثنا عفان ، حدثنا حماد ، اخبرنا ثابت البناني , وحميد , عن انس بن مالك ، عن عبادة بن الصامت , عن النبي صلى الله عليه وسلم انه خرج ذات ليلة على اصحابه وهو يريد ان يخبرهم بليلة القدر فذكر الحديث، إلا انه قال:" فاطلبوها في العشر الاواخر في تاسعة او سابعة او خامسة".حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ , وَحُمَيْدٌ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَن ْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ خَرَجَ ذَاتَ لَيْلَةٍ عَلَى أَصْحَابِهِ وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يُخْبِرَهُمْ بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ:" فَاطْلُبُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فِي تَاسِعَةٍ أَوْ سَابِعَةٍ أَوْ خَامِسَةٍ".
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شب قدر کے متعلق بتانے کے لئے گھر سے نکلے تو دو آدمی آپس میں تکرار کر رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں شب قدر کے متعلق بتانے کے لئے نکلا تو دو آدمی آپس میں تکرار کر رہے تھے اس کی وجہ سے اس کی تعین اٹھالی گئی ہوسکتا ہے کہ تمہارے حق میں یہی بہتر ہو تم شب قدر کو (آخری عشرے کی) نویں ساتویں اور پانچویں رات میں تلاش کیا کرو۔
حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا الاوزاعي ، حدثني عمير بن هانئ ، ان جنادة بن ابي امية حدثه، عن عبادة بن الصامت ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من شهد ان لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وان محمدا عبده ورسوله، وان عيسى عبد الله ورسوله وكلمته القاها إلى مريم وروح منه، وان الجنة حق والنار حق، ادخله الله تبارك وتعالى الجنة على ما كان من عمل" ..حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنِي عُمَيْرُ بْنُ هَانِئٍ ، أَنَّ جُنَادَةَ بْنَ أَبِي أُمَيَّةَ حَدَّثَهُ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، وَأَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَالنَّارَ حَقٌّ، أَدْخَلَهُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى الْجَنَّةَ عَلَى مَا كَانَ مِنْ عَمَلٍ" ..
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں اور یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے، رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے اس نے حضرت مریم کی طرف القاء کیا تھا اور روح اللہ ہیں اور یہ کہ جنت اور جہنم برحق ہے تو اللہ اسے جنت میں ضرور داخل فرمائے گا خواہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں۔
حدثنا الوليد ، حدثني ابن جابر ، انه سمع عمير بن هانئ يحدث بهذا الحديث، عن جنادة ، عن عبادة ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم , بمثله، إلا انه قال:" ادخله الله تبارك وتعالى الجنة من ابوابها الثمانية، من ايها شاء دخل".حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ ، حَدَّثَنِي ابْنُ جَابِرٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُمَيْرَ بْنَ هَانِئٍ يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، عَنْ جُنَادَةَ ، عَنْ عُبَادَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , بِمِثْلِهِ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ:" أَدْخَلَهُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى الْجَنَّةَ مِنْ أَبْوَابِهَا الثَّمَانِيَةِ، مِنْ أَيِّهَا شَاءَ دَخَلَ".
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے البتہ اس کے آخر میں جنت کے آٹھوں دروازوں سے داخل ہونے کا ذکر ہے۔
حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن ابي إدريس الخولاني ، عن عبادة بن الصامت ، قال: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم في مجلس، فقال: " تبايعوني على ان لا تشركوا بالله شيئا، ولا تسرقوا ولا تزنوا، ولا تقتلوا اولادكم، قرا الآية التي اخذت على النساء: إذا جاءك المؤمنات سورة الممتحنة آية 12 , فمن وفى منكم، فاجره على الله، ومن اصاب من ذلك شيئا، فعوقب به، فهو كفارة له، ومن اصاب من ذلك شيئا، فستره الله تبارك وتعالى عليه، فهو إلى الله، إن شاء غفر له، وإن شاء عذبه" , قال سفيان قال لي الهذلي: احفظ لي هذا الحديث، وهو عند الزهري قال لي الهذلي: ابو بكر لم يرو مثل هذا قط، يعني: الزهري.حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَجْلِسٍ، فَقَالَ: " تُبَايِعُونِي عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ، قَرَأَ الْآيَةَ الَّتِي أُخِذَتْ عَلَى النِّسَاءِ: إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ سورة الممتحنة آية 12 , فَمَنْ وَفَّى مِنْكُمْ، فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا، فَعُوقِبَ بِهِ، فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا، فَسَتَرَهُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى عَلَيْهِ، فَهُوَ إِلَى اللَّهِ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ، وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ" , قَالَ سُفْيَانُ قَالَ لِي الْهُذَلِيُّ: احْفَظْ لِي هَذَا الْحَدِيثَ، وَهُوَ عِنْدَ الزُّهْرِيِّ قَالَ لِي الْهُذَلِيُّ: أَبُو بَكْرٍ لَمْ يَرْوِ مِثْلَ هَذَا قَطُّ، يَعْنِي: الزُّهْرِيَّ.
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بھی اسی طرح چھ چیزوں پر بیعت لی تھی جیسے عورتوں سے لی تھی کہ تم نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے چوری نہیں کرو گے، بدکاری نہیں کرو گے اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے اور ایک دوسرے پر بہتان نہیں لگاؤ گے اور نیکی کے کسی کام میں میری نافرمانی نہیں کرو گے تم میں سے جو کوئی کسی عورت کے ساتھ قابل سزا جرم کا ارتکاب کرے اور اسے اس کی فوری سزا بھی مل جائے تو وہ اس کا کفارہ ہوگی اور اگر اسے مہلت مل گئی تو اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اگر اس نے چاہا تو عذاب دے دے گا اور اگر چاہا تو رحم فرما دے گا۔
حدثنا سفيان ، عن يحيى ، عن عبادة بن الوليد بن عبادة بن الصامت ، سمعه من جده، وقال سفيان مرة , عن جده عبادة ، قال: سفيان: وعبادة نقيب وهو من السبعة , " بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة في العسر واليسر، والمنشط والمكره، ولا ننازع الامر اهله، نقول بالحق حيثما كنا، لا نخاف في الله لومة لائم" قال سفيان: زاد بعض الناس ما لم تروا كفرا بواحا.حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، سَمِعَهُ مِنْ جَدِّهِ، وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً , عَنْ جَدِّهِ عُبَادَةَ ، قَالَ: سُفْيَانُ: وَعُبَادَةُ نَقِيبٌ وهو من السبعة , " بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي الْعُسْرِ وَالْيُسْرِ، وَالْمَنْشَطِ وَالْمَكْرَهِ، وَلَا نُنَازِعُ الْأَمْرَ أَهْلَهُ، نَقُولُ بِالْحَقِّ حَيْثُمَا كُنَّا، لَا نَخَافُ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ" قَالَ سُفْيَانُ: زَادَ بَعْضُ النَّاسِ مَا لَمْ تَرَوْا كُفْرًا بَوَاحًا.
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر تنگی اور آسانی اور چستی وسستی ہر حال میں بات سننے اور ماننے کی شرط پر بیعت کی تھی نیز یہ کہ کسی معاملے میں اس کے حقدار سے جھگڑا نہیں کریں گے جہاں بھی ہوں گے حق بات کہیں گے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کریں گے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، سماع عبادة بن الوليد من جده سواء صح أو لم يصح، فقدعرفت الواسطة بينهما
حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ اللہ کے راستہ میں جہاد کیا کرو کیونکہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ انسان کو غم اور پریشانی سے نجات عطا فرماتا ہے۔
حكم دارالسلام: حسن بمجموع طرقه، وهذا إسناد ضعيف، أبو بكر بن عبدالله ضعيف، والمقدام ابن معدي كرب خطأ، والصواب أنه مقدام الرهاوي فهو مجهول
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عنقریب ایسے امراء آئیں گے جنہیں بہت سی چیزیں غفلت میں مبتلا کردیں گی اور وہ نماز کو اس کے وقت مقررہ سے مؤخر کردیا کریں گے اس موقع پر تم لوگ وقت مقررہ پر نماز پڑھ لیا کرنا اور ان کے ساتھ نفل کی نیت سے شریک ہوجانا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، أبو المثني مجهول، وقد اضطرب فيه
حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، عن خالد ، عن ابي قلابة ، عن ابي الاشعث ، قال: كان اناس يبيعون الفضة من المغانم إلى العطاء , فقال عبادة بن الصامت :" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الذهب بالذهب، والفضة بالفضة، والتمر بالتمر، والبر بالبر، والشعير بالشعير، والملح بالملح، إلا سواء بسواء، مثلا بمثل، فمن زاد واستزاد فقد اربى" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ ، قَالَ: كَانَ أُنَاسٌ يَبِيعُونَ الْفِضَّةَ مِنَ الْمَغَانِمِ إِلَى الْعَطَاءِ , فَقَالَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ :" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الذَّهَبِ بِالذَّهَبِ، وَالْفِضَّةِ بِالْفِضَّةِ، وَالتَّمْرِ بِالتَّمْرِ، وَالْبُرِّ بِالْبُرِّ، وَالشَّعِيرِ بِالشَّعِيرِ، وَالْمِلْحِ بِالْمِلْحِ، إِلَّا سَوَاءً بِسَوَاءٍ، مِثْلًا بِمِثْلٍ، فَمَنْ زَادَ وَاسْتَزَادَ فَقَدْ أَرْبَى" .
ابوالاشعث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مال غنیمت سے حاصل ہونے والی چاندی کو لوگ وظیفہ کی رقم حاصل ہونے پر موقوف کر کے بیچا کرتے تھے یہ دیکھ کر حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی سونے کے بدلے چاندی کی چاندی کے بدلے، کجھور کی کجھور کے بدلے، گندم کی گندم کے بدلے، جو کی جو کے بدلے اور نمک کے بدلے نمک کی بیع سے منع فرمایا ہے۔ الاّ یہ کہ وہ برابر برابر ہو جو شخص اضافہ کرے یا اضافہ کی درخواست کرے تو اس نے سودی معاملہ کیا۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن شعبة ، قال: حدثني ابو بكر بن حفص ، عن ابن المصبح او ابي المصبح ، عن ابن السمط ، عن عبادة بن الصامت ، قال: عاد رسول الله صلى الله عليه وسلم عبد الله بن رواحة، فما تحوز له عن فراشه، فقال:" من شهداء امتي؟" قالوا: قتل المسلم شهادة , قال:" إن شهداء امتي إذا لقليل، قتل المسلم شهادة، والطاعون شهادة، والبطن، والغرق، والمراة يقتلها ولدها جمعاء" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ حَفْصٍ ، عَنِ ابْنِ الْمُصَبِّحِ أَوْ أَبِي الْمُصَبِّحِ ، عَنِ ابْنِ السِّمْطِ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: عَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ رَوَاحَةَ، فَمَا تَحَوَّزَ لَهُ عَنْ فِرَاشِهِ، فَقَالَ:" مَنْ شُهَدَاءُ أُمَّتِي؟" قَالُوا: قَتْلُ الْمُسْلِمِ شَهَادَةٌ , قَالَ:" إِنَّ شُهَدَاءَ أُمَّتِي إِذًا لَقَلِيلٌ، قَتْلُ الْمُسْلِمِ شَهَادَةٌ، وَالطَّاعُونُ شَهَادَةٌ، وَالْبَطْنُ، وَالْغَرَقُ، وَالْمَرْأَةُ يَقْتُلُهَا وَلَدُهَا جَمْعَاءَ" .
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے گئے ابھی ان کے بستر سے جدا نہیں ہوئے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ میری امت کے شہداء کون ہیں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ مسلمان کا میدان جنگ میں قتل ہونا شہادت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح تو میری امت کے شہداء بہت تھوڑے رہ جائیں گے مسلمان کا قتل ہونا بھی شہادت ہے طاعون میں مرنا بھی شہادت ہے اور وہ عورت بھی شہید ہے جسے اس کا بچہ مار دے (یعنی حالت نفاس میں پیدائش کی تکلیف برداشت نہ کرسکنے والی وہ عورت جو اس دوران فوت ہوجائے)
حدثنا وكيع ، قال: حدثنا هشام بن الغاز ، عن عبادة بن نسي ، عن عبادة بن الصامت ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ما تعدون الشهيد فيكم؟" قالوا: الذي يقاتل فيقتل في سبيل الله تعالى , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن شهداء امتي إذا لقليل، القتيل في سبيل الله تبارك وتعالى شهيد، والمطعون شهيد، والمبطون شهيد، والمراة تموت بجمع شهيد" , يعني: النفساء.حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ الْغَازِ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا تَعُدُّونَ الشَّهِيدَ فِيكُمْ؟" قَالُوا: الَّذِي يُقَاتِلُ فَيُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ شُهَدَاءَ أُمَّتِي إِذًا لَقَلِيلٌ، الْقَتِيلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى شَهِيدٌ، وَالْمَطْعُونُ شَهِيدٌ، وَالْمَبْطُونُ شَهِيدٌ، وَالْمَرْأَةُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شَهِيدٌ" , يَعْنِي: النُّفَسَاءَ.
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا تم لوگ اپنے درمیان شہید کسے سمجھتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ جو اللہ کے راستہ میں لڑے اور مارا جائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح تو میری امت کے شہداء بہت تھوڑے رہ جائیں گے اللہ تعالیٰ کے راستے میں مارا جانے والا بھی شہید ہے طاعون کی بیماری میں، پیٹ کی بیماری میں اور نفاس کی حالت میں مرنے والی عورت بھی شہید ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع بين عباد بن نسي وبين عبادة بن الصامت
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عنقریب ایسے امراء آئیں گے جنہیں بہت سی چیزیں غفلت میں مبتلا کردیں گی اور وہ نماز کو اس کے وقت مقررہ سے مؤخر کردیا کریں گے اس موقع پر تم لوگ وقت مقررہ پر نماز پڑھ لیا کرنا اور ان کے ساتھ نفل کی نیت سے شریک ہوجانا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: إن شئت ، والصواب فيه: نعم، وهذا إسناد ضعيف، أبو المثنى مجهول، وقد اضطرب فيه
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس ارشاد باری تعالیٰ " لہم البشری فی الحیاۃ الدنیاو فی الآخرہ " میں بشری کی تفسیر پوچھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے مراد اچھے خواب ہیں جو خود کوئی مسلمان دیکھے یا کوئی دوسرا مسلمان اس کے متعلق دیکھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد منقطع، أبو سلمة لم يسمع من عبادة
حدثنا عفان ، حدثنا ابان ، حدثني يحيى ، عن ابي سلمة ، عن عبادة بن الصامت , انه سال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، ارايت قول الله تبارك وتعالى:" لهم البشرى في الحياة الدنيا وفي الآخرة سورة يونس آية 64 , فقال: لقد سالتني عن شيء ما سالني عنه احد من امتي، او احد قبلك، قال: تلك الرؤيا الصالحة يراها الرجل الصالح او ترى له" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ , أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ قَوْلَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى:" لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ سورة يونس آية 64 , فَقَالَ: لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ شَيْءٍ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِي، أَوْ أَحَدٌ قَبْلَكَ، قَالَ: تِلْكَ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الرَّجُلُ الصَّالِحُ أَوْ تُرَى لَهُ" .
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس ارشاد باری تعالیٰ " لہم البشری فی الحیاۃ الدنیاو فی الآخرہ " میں بشری کی تفسیر پوچھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے مراد اچھے خواب ہیں جو خود کوئی مسلمان دیکھے یا کوئی دوسرا مسلمان اس کے متعلق دیکھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد منقطع، أبو سلمة لم يسمع من عبادة
حدثنا وكيع ، حدثنا مغيرة بن زياد ، عن عبادة بن نسي ، عن الاسود بن ثعلبة ، عن عبادة بن الصامت ، قال: علمت ناسا من اهل الصفة الكتابة والقرآن، فاهدى إلي رجل منهم قوسا، فقلت: ليست لي بمال، وارمي عنها في سبيل الله تبارك وتعالى، فسالت النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " إن سرك ان تطوق بها طوقا من نار فاقبلها" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ بْنُ زِيَادٍ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ ثَعْلَبَةَ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: عَلَّمْتُ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الصُّفَّةِ الْكِتَابَةَ وَالْقُرْآنَ، فَأَهْدَى إِلَيَّ رَجُلٌ مِنْهُمْ قَوْسًا، فَقُلْتُ: لَيْسَتْ لِي بِمَالٍ، وَأَرْمِي عَنْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِنْ سَرَّكَ أَنْ تُطَوَّقَ بِهَا طَوْقًا مِنْ نَارٍ فَاقْبَلْهَا" .
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اہل صفہ میں سے کچھ لوگوں کو لکھنا اور قرآن کریم پڑھنا سکھایا تو ان میں سے ایک آدمی نے مجھے ایک کمان ہدیئے میں پیش کی میں نے سوچا کہ میرے پاس مال و دولت تو ہے نہیں میں اسی سے اللہ کے راستہ میں تیر اندازی کیا کروں گا پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہیں یہ پسند ہو کہ تمہاری گردن میں آگے کا طوق ڈالا جائے تو اسے ضرور قبول کرلو۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف، الأسود بن ثعلبة مجهول، ومغيرة بن زياد فيه كلام، وقد خولف
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عنقریب ایسے امراء آئیں گے جنہیں بہت سی چیزیں غفلت میں مبتلا کردیں گی اور وہ نماز کو اس کے وقت مقررہ سے مؤخر کردیا کریں گے اس موقع پر تم لوگ وقت مقررہ پر نماز پڑھ لیا کرنا اور ان کے ساتھ نفل کی نیت سے شریک ہوجانا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، أبو المثنى مجهول، وقد اضطرب فيه
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ کے راستہ میں جہاد کرے لیکن اس کی نیت اس جہاد سے ایک رسی حاصل کرنا ہو تو اسے وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، يحيي بن الوليد مجهول
حدثنا يزيد ، اخبرنا يحيى يعني ابن سعيد ، عن محمد بن يحيى بن حبان ، ان ابن محيريز القرشي ثم الجمحي اخبره وكان بالشام، وكان قد ادرك معاوية فاخبره , ان المخدجي رجلا من بني كنانة اخبره , ان رجلا من الانصار كان بالشام يكنى ابا محمد اخبره: ان الوتر واجب، فذكر المخدجي , انه راح إلى عبادة بن الصامت، فذكر له ان ابا محمد، يقول: الوتر واجب! فقال عبادة بن الصامت : كذب ابو محمد، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " خمس صلوات كتبهن الله تبارك وتعالى على العباد، من اتى بهن لم يضيع منهن شيئا استخفافا بحقهن، كان له عند الله تبارك وتعالى عهد ان يدخله الجنة، ومن لم يات بهن، فليس له عند الله عهد، إن شاء عذبه، وإن شاء غفر له" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ ، أَنَّ ابْنَ مُحَيْرِيزٍ الْقُرَشِيَّ ثُمَّ الْجُمَحِيَّ أَخْبَرَهُ وَكَانَ بِالشَّامِ، وَكَانَ قَدْ أَدْرَكَ مُعَاوِيَةَ فَأَخْبَرَهُ , أَنَّ الْمُخْدَجِيَّ رَجُلًا مِنْ بَنِي كِنَانَةَ أَخْبَرَهُ , أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ كَانَ بِالشَّامِ يُكْنَى أَبَا مُحَمَّدٍ أَخْبَرَهُ: أَنَّ الْوَتْرَ وَاجِبٌ، فَذَكَرَ الْمُخْدَجِيّ , أَنَّهُ رَاحَ إِلَى عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، فَذَكَرَ لَهُ أَنَّ أَبَا مُحَمَّدٍ، يَقُولُ: الْوَتْرُ وَاجِبٌ! فَقَالَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ : كَذَبَ أَبُو مُحَمَّدٍ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " خَمْسُ صَلَوَاتٍ كَتَبَهُنَّ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى عَلَى الْعِبَادِ، مَنْ أَتَى بِهِنَّ لَمْ يُضَيِّعْ مِنْهُنَّ شَيْئًا اسْتِخْفَافًا بِحَقِّهِنَّ، كَانَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى عَهْدٌ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، وَمَنْ لَمْ يَأْتِ بِهِنَّ، فَلَيْسَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ، وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ" .
مخدجی " جن کا تعلق بنو کنانہ سے تھا کہتے ہیں کہ شام میں ایک انصاری آدمی تھا جس کی کنیت ابو محمد تھی اس کا یہ کہنا تھا کہ وتر واجب (فرض) ہیں وہ " مخدجی " حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ابومحمد وتر کو واجب قرار دیتے ہیں حضرت عبادہ نے فرمایا کہ ابو محمد سے غلطی ہوئی میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کردی ہیں جو شخص انہیں اس طرح ادا کرے کہ ان میں سے کسی چیز کو ضائع نہ کرے اور ان میں کا حق معمولی نہ سمجھے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے گا اور جو انہیں اس طرح ادانہ کرے تو اللہ کا اس سے کوئی وعدہ نہیں چاہے تو اسے سزا دے اور چاہے تو اسے معاف فرما دے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة المخدجي
حدثنا يزيد ، قال: اخبرنا محمد بن إسحاق ، عن مكحول ، عن محمود بن الربيع ، عن عبادة بن الصامت ، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الغداة فثقلت عليه القراءة، فلما انصرف، قال:" إني لاراكم تقرءون وراء إمامكم! قالوا: نعم والله يا رسول الله، إنا لنفعل هذا , قال: فلا تفعلوا إلا بام القرآن، فإنه لا صلاة لمن لم يقرا بها" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ مَكْحُولٍ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْغَدَاةِ فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ:" إِنِّي لَأَرَاكُمْ تَقْرَءُونَ وَرَاءَ إِمَامِكُمْ! قَالُوا: نَعَمْ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا لَنَفْعَلُ هَذَا , قَالَ: فَلَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ، فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا" .
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی دوران قرأت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طبیعت پر بوجھ محسوس ہوا نماز سے فارغ ہو کر ہم سے پوچھا کہ کیا تم بھی قرأت کرتے ہو؟ ہم نے عرض کیا جی یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم ایسا نہ کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہوگا الاّ یہ کہ سورت فاتحہ پڑھو کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
حدثنا يزيد ، قال: حدثنا همام بن يحيى ، حدثنا عفان ، حدثنا همام ، حدثنا زيد بن اسلم ، عن عطاء بن يسار ، عن عبادة بن الصامت ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " الجنة مائة درجة، ما بين كل درجتين مسيرة مائة عام، وقال عفان: كما بين السماء إلى الارض، والفردوس اعلاها درجة، ومنها تخرج الانهار الاربعة، والعرش من فوقها، وإذا سالتم الله تبارك وتعالى، فاسالوه الفردوس" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْجَنَّةُ مِائَةُ دَرَجَةٍ، مَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ مَسِيرَةُ مِائَةِ عَامٍ، وَقَالَ عَفَّانُ: كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، وَالْفِرْدَوْسُ أَعْلَاهَا دَرَجَةً، وَمِنْهَا تَخْرُجُ الْأَنْهَارُ الْأَرْبَعَةُ، وَالْعَرْشُ مِنْ فَوْقِهَا، وَإِذَا سَأَلْتُمْ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، فَاسْأَلُوهُ الْفِرْدَوْسَ" .
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جنت کے سو درجے ہیں ہر دو درجوں کے درمیان سو سال کا فاصلہ ہے اور سب سے عالی رتبہ درجہ جنت الفردوس کا ہے اسی سے چاروں نہریں نکلتی ہیں اور اسی کے اوپر عرش الہٰی ہے لہٰذا جب تم اللہ سے سوال کیا کرو تو جنت الفردوس کا سوال کیا کرو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، واختلف فى هذا الإسناد على عطاء بن يسار
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ سے ملنے کو پسند کرتا ہے اللہ اس سے ملنے کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے اللہ اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے۔
حدثنا ابو اليمان , وإسحاق بن عيسى , قالا: حدثنا إسماعيل بن عياش ، عن ابي بكر بن عبد الله بن ابي مريم , عن ابي سلام ، قال إسحاق: الاعرج: عن المقدام بن معدي كرب الكندي , انه جلس مع عبادة بن الصامت , وابي الدرداء , والحارث بن معاوية الكندي، فتذاكروا حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال ابو الدرداء لعبادة: يا عبادة، كلمات رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة كذا وكذا في شان الاخماس؟ فقال عبادة: قال إسحاق في حديثه: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى بهم في غزوهم إلى بعير من المقسم، فلما سلم، قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فتناول وبرة بين انملتيه، فقال: " إن هذه من غنائمكم، وإنه ليس لي فيها إلا نصيبي معكم إلا الخمس، والخمس مردود عليكم، فادوا الخيط والمخيط، واكبر من ذلك واصغر، ولا تغلوا، فإن الغلول نار وعار على اصحابه في الدنيا والآخرة، وجاهدوا الناس في الله تبارك وتعالى القريب والبعيد، ولا تبالوا في الله لومة لائم، واقيموا حدود الله في الحضر والسفر، وجاهدوا في سبيل الله، فإن الجهاد باب من ابواب الجنة عظيم، ينجي الله تبارك وتعالى به من الغم والهم" .حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ , وَإِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى , قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ , عَنْ أَبِي سَلَّامٍ ، قَالَ إِسْحَاقُ: الْأَعْرَجِ: عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيّ , أَنَّهُ جَلَسَ مَعَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ , وَأَبِي الدَّرْدَاءِ , وَالْحَارِثِ بْنِ مُعَاوِيَةَ الْكِنْدِيِّ، فَتَذَاكَرُوا حَدِيثَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ لِعُبَادَةَ: يَا عُبَادَةُ، كَلِمَاتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ كَذَا وَكَذَا فِي شَأْنِ الْأَخْمَاسِ؟ فَقَالَ عُبَادَةُ: قَالَ إِسْحَاقُ فِي حَدِيثِهِ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِهِمْ فِي غَزْوِهِمْ إِلَى بَعِيرٍ مِنَ الْمَقْسِمِ، فَلَمَّا سَلَّمَ، قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَنَاوَلَ وَبَرَةً بَيْنَ أُنْمُلَتَيْهِ، فَقَالَ: " إِنَّ هَذِهِ مِنْ غَنَائِمِكُمْ، وَإِنَّهُ لَيْسَ لِي فِيهَا إِلَّا نَصِيبِي مَعَكُمْ إِلَّا الْخُمُسُ، وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَيْكُمْ، فَأَدُّوا الْخَيْطَ وَالْمَخِيطَ، وَأَكْبَرَ مِنْ ذَلِكَ وَأَصْغَرَ، وَلَا تَغُلُّوا، فَإِنَّ الْغُلُولَ نَارٌ وَعَارٌ عَلَى أَصْحَابِهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَجَاهِدُوا النَّاسَ فِي اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى الْقَرِيبَ وَالْبَعِيدَ، وَلَا تُبَالُوا فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ، وَأَقِيمُوا حُدُودَ اللَّهِ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ، وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَإِنَّ الْجِهَادَ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ عَظِيمٌ، يُنَجِّي اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بِهِ مِنَ الْغَمِّ وَالْهَمِّ" .
مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ عنہ، ابودرداء اور حارث بن معاویہ رضی اللہ عنہ بیٹھے احادیث کا مذاکرہ کر رہے تھے حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے عبادہ! فلاں فلاں غزوے میں خمس کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا باتیں کہی تھیں؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس غزوے میں مال غنیمت کے ایک اونٹ کو بطور سترہ سامنے کھڑے کر کے نماز پڑھائی جب سلام پھیر کر فارغ ہوئے تو کھڑے ہو کر اس کی اون اپنی دو انگلیوں کے درمیان لے کر فرمایا یہ تمہارا مال غنیمت ہے اور خمس کے علاوہ اس میں میرا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا تمہارا ہے اور خمس بھی تم ہی پر لوٹا دیا جاتا ہے لہٰذا اگر کسی کے پاس سوئی دھاگہ بھی ہو تو وہ لے آئے یا اس سے بڑی اور چھوٹی چیز ہو تو وہ بھی واپس کر دے اور مال غنیمت میں خیانت نہ کرو، کیونکہ خیانت دنیا و آخرت میں خائن کے لئے آگ اور شرمندگی کا سبب ہوگی اور لوگوں سے اللہ کے راستہ میں جہاد کیا کرو خواہ وہ قریب ہوں یا دور اور اللہ کے حوالے سے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کیا کرو اور سفر و حضر میں اللہ کی حدود قائم رکھا کرو اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو کیونکہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ انسان کو غم اور پریشانی سے نجات عطا فرماتا ہے۔
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر تنگی اور چستی وسستی ہر حال میں بات سننے اور ماننے کی شرط پر بیعت کی تھی نیز یہ کہ کسی معاملے میں اس کے حقدار سے جھگڑا نہیں کریں گے جہاں بھی ہوں گے حق بات کہیں گے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کریں گے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف، أبو بكر بن عبدالله ضعيف، والمقدام بن معدي كرب خطأ، والصواب أنه مقدام الرهاوي، فهو مجهول
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني عبادة بن الوليد بن عبادة بن الصامت ، عن ابيه الوليد ، عن جده عبادة بن الصامت وكان احد النقباء، قال: " بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بيعة الحرب، وكان عبادة من الاثني عشر الذين بايعوا في العقبة الاولى على بيعة النساء: في السمع والطاعة في عسرنا ويسرنا، ومنشطنا ومكرهنا، ولا ننازع في الامر اهله، وان نقول بالحق حيثما كنا لا نخاف في الله لومة لائم" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي عُبَادَةُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِيهِ الْوَلِيدِ ، عَنْ جَدِّهِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ وَكَانَ أَحَدَ النُّقَبَاءِ، قَالَ: " بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْعَةَ الْحَرْبِ، وَكَانَ عُبَادَةُ مِنَ الِاثْنَيْ عَشَرَ الَّذِينَ بَايَعُوا فِي الْعَقَبَةِ الْأُولَى عَلَى بَيْعَةِ النِّسَاءِ: فِي السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي عُسْرِنَا وَيُسْرِنَا، وَمَنْشَطِنَا وَمَكْرَهِنَا، وَلَا نُنَازِعُ فِي الْأَمْرِ أَهْلَهُ، وَأَنْ نَقُولَ بِالْحَقِّ حَيْثُمَا كُنَّا لَا نَخَافُ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر تنگی اور آسانی اور چستی و سستی سے ہر حال میں بات سننے اور ماننے کی شرط پر بیعت کی تھی، نیز یہ کہ کسی معاملے میں اس کے حقدار سے جھگڑا نہیں کریں گے، جہاں بھی ہوں گے حق بات کہیں گے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کی پرواہ نہیں کریں گے۔
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس شخص کے جسم پر کوئی زخم لگ جائے اور وہ صدقہ خیرات کر دے تو اس صدقے کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کا کفارہ فرما دیتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح بشواهده، وهذا إسناد ضعيف، الشعبي لم يسمع من عبادة
حدثنا سريج ، حدثنا المعافى ، حدثنا مغيرة بن زياد ، عن عبادة بن نسي ، عن الاسود بن ثعلبة ، عن عبادة بن الصامت ، قال: اتاني رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا مريض في ناس من الانصار يعودوني، فقال: " هل تدرون ما الشهيد؟" فسكتوا، فقال:" هل تدرون ما الشهيد؟" فسكتوا، قال:" هل تدرون ما الشهيد؟" فقلت لامراتي: اسنديني، فاسندتني، فقلت: من اسلم، ثم هاجر، ثم قتل في سبيل الله، فهو شهيد , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن شهداء امتي إذا لقليل، القتل في سبيل الله شهادة، والبطن شهادة، والغرق شهادة، والنفساء شهادة" .حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ ، حَدَّثَنَا الْمُعَافَى ، حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ بْنُ زِيَادٍ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ ثَعْلَبَةَ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: أَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَرِيضٌ فِي نَاسٍ مِنَ الْأَنْصَارِ يَعُودُونِي، فَقَالَ: " هَلْ تَدْرُونَ مَا الشَّهِيدُ؟" فَسَكَتُوا، فَقَالَ:" هَلْ تَدْرُونَ مَا الشَّهِيدُ؟" فَسَكَتُوا، قَالَ:" هَلْ تَدْرُونَ مَا الشَّهِيدُ؟" فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي: أَسْنِدِينِي، فَأَسْنَدَتْنِي، فَقُلْتُ: مَنْ أَسْلَمَ، ثُمَّ هَاجَرَ، ثُمَّ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَهُوَ شَهِيدٌ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ شُهَدَاءَ أُمَّتِي إِذًا لَقَلِيلٌ، الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ شَهَادَةٌ، وَالْبَطْنُ شَهَادَةٌ، وَالْغَرَقُ شَهَادَةٌ، وَالنُّفَسَاءُ شَهَادَةٌ" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں بیمار تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ انصاری لوگوں کے ساتھ میری عیادت کے لئے تشریف لائے وہاں موجود لوگوں سے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ شہید کون ہوتا ہے؟ لوگ خاموش رہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ سوال کیا لوگ پھر خاموش رہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ یہی سوال کیا تو میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ مجھے سہارا دے کر بٹھا دو اس نے ایسا ہی کیا اور میں نے عرض کیا جو شخص اسلام لائے ہجرت کرے پھر اللہ کے راستہ میں شہید ہوجائے تو وہ شہید ہوتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح تو میری امت کے شہداء بہت تھوڑے رہ جائیں گے اللہ کے راستے میں مارا جانا بھی شہادت ہے پیٹ کی بیماری میں مرنا بھی شہادت ہے غرق ہو کر مرجانا بھی شہادت ہے اور نفاس کی حالت میں عورت کا مرجانا بھی شہادت ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، الأسود بن ثعلبة مجهول، لكنه توبع
حدثنا عفان ، حدثنا حماد ، اخبرنا قتادة , وحميد , عن الحسن ، عن حطان بن عبد الله الرقاشي ، عن عبادة بن الصامت , ان النبي صلى الله عليه وسلم كان" إذا نزل عليه الوحي كرب له وتربد وجهه، وإذا سري عنه، قال: خذوا عني، خذوا عني ثلاث مرار قد جعل الله لهن سبيلا، الثيب بالثيب، والبكر بالبكر، الثيب جلد مائة والرجم، والبكر جلد مائة ونفي سنة" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، أَخْبَرَنَا قَتَادَةُ , وَحُمَيْدٌ , عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ كَرَبَ لَهُ وَتَرَبَّدَ وَجْهُهُ، وَإِذَا سُرِّيَ عَنْهُ، قَالَ: خُذُوا عَنِّي، خُذُوا عَنِّي ثَلَاثَ مِرَارٍ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا، الثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ، وَالْبِكْرُ بِالْبِكْرِ، الثَّيِّبُ جَلْدُ مِائَةٍ وَالرَّجْمُ، وَالْبِكْرُ جَلْدُ مِائَةٍ وَنَفْيُ سَنَةٍ" .
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت تکلیف ہوتی تھی اور روئے انور پر اس کے آثار نظر آتے تھے ایک مرتبہ یہ کیفیت دور ہونے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے یہ بات حاصل کرلو مجھ سے یہ بات حاصل کرلو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے یہ راستہ متعین کردیا ہے کہ اگر کوئی کنوارہ لڑکا کنواری لڑکی کے ساتھ بدکاری کرے تو اسے سو کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے اور اگر شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ بدکاری کرے تو اسے سو کوڑے مارے جائیں اور رجم بھی کیا جائے۔
حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا محمد بن مطرف ، عن زيد بن اسلم ، عن عطاء بن يسار ، عن عبد الله الصنابحي ، قال: زعم ابو محمد ان الوتر واجب! فقال عبادة بن الصامت : كذب ابو محمد، اشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " خمس صلوات افترضهن الله على عباده، من احسن وضوءهن، وصلاتهن لوقتهن، فاتم ركوعهن وسجودهن وخشوعهن، كان له عند الله عهد ان يغفر له، ومن لم يفعل، فليس له عند الله عهد، إن شاء غفر له، وإن شاء عذبه" .حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُطَرِّفٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الصُّنَابِحِيِّ ، قَالَ: زَعَمَ أَبُو مُحَمَّدٍ أَنَّ الْوَتْرَ وَاجِبٌ! فَقَالَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ : كَذَبَ أَبُو مُحَمَّدٍ، أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللَّهُ عَلَى عِبَادِهِ، مَنْ أَحْسَنَ وُضُوءَهُنَّ، وَصَلَاتَهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ، فَأَتَمَّ رُكُوعَهُنَّ وَسُجُودَهُنَّ وَخُشُوعَهُنَّ، كَانَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ، فَلَيْسَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ، وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ" .
مخدجی " جن کا تعلق بنو کنانہ سے تھا کہتے ہیں کہ شام میں ایک انصاری آدمی تھا جس کی کنیت ابو محمد تھی اس کا یہ کہنا تھا کہ وتر واجب (فرض) ہیں وہ " مخدجی " حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ابو محمد وتر کو واجب قرار دیتے ہیں حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابو محمد سے غلطی ہوئی میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کردی ہیں جو شخص انہیں اس طرح ادا کرے کہ ان میں سے کسی چیز کو ضائع نہ کرے اور ان میں کا حق معمولی نہ سمجھے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے گا اور جو انہیں اس طرح ادا نہ کرے تو اللہ کا اس سے کوئی وعدہ نہیں چاہے تو اسے سزا دے اور چاہے تو اسے معاف فرما دے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، عبدالله الصنابحي هو أبو عبدالله الصنابحي على الراجح
حدثنا حدثنا ابو العلاء الحسن بن سوار ، حدثنا ليث ، عن معاوية ، عن ايوب بن زياد ، حدثني عبادة بن الوليد بن عبادة ، حدثني ابي , قال: دخلت على عبادة وهو مريض اتخايل فيه الموت، فقلت: يا ابتاه، اوصني واجتهد لي , فقال: اجلسوني فلما اجلسوه، قال: يا بني، إنك لن تطعم طعم الإيمان، ولن تبلغ حق حقيقة العلم بالله تبارك وتعالى، حتى تؤمن بالقدر خيره وشره قال: قلت: يا ابتاه، فكيف لي ان اعلم ما خير القدر وشره؟ قال: تعلم ان ما اخطاك لم يكن ليصيبك، وما اصابك لم يكن ليخطئك، يا بني إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن اول ما خلق الله تبارك وتعالى القلم، ثم قال: اكتب، فجرى في تلك الساعة بما هو كائن إلى يوم القيامة" ، يا بني إن مت ولست على ذلك، دخلت النار.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَلَاءِ الْحَسَنُ بْنُ سَوَّارٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ زِيَادٍ ، حَدَّثَنِي عُبَادَةُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ ، حَدَّثَنِي أَبِي , قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عُبَادَةَ وَهُوَ مَرِيضٌ أَتَخَايَلُ فِيهِ الْمَوْتَ، فَقُلْتُ: يَا أَبَتَاهُ، أَوْصِنِي وَاجْتَهِدْ لِي , فَقَالَ: أَجْلِسُونِي فَلَمَّا أَجْلَسُوه، قَالَ: يَا بُنَيَّ، إِنَّكَ لَنْ تَطْعَمَ طَعْمَ الْإِيمَانِ، وَلَنْ تَبْلُغْ حَقَّ حَقِيقَةِ الْعِلْمِ بِاللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ قَالَ: قُلْتُ: يَا أَبَتَاهُ، فَكَيْفَ لِي أَنْ أَعْلَمَ مَا خَيْرُ الْقَدَرِ وَشَرُّهُ؟ قَالَ: تَعْلَمُ أَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، وَمَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، يَا بُنَيَّ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى الْقَلَمُ، ثُمَّ قَالَ: اكْتُبْ، فَجَرَى فِي تِلْكَ السَّاعَةِ بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ" ، يَا بُنَيَّ إِنْ مِتَّ وَلَسْتَ عَلَى ذَلِكَ، دَخَلْتَ النَّارَ.
ولید بن عبادہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ (اپنے والد) حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا وہ اس وقت بیمار تھے اور میں سمجھتا تھا کہ یہ ان کا مرض الوفات ہے میں نے ان سے عرض کیا اباجان! مجھے چھان پھٹک کر کوئی وصیت کر دیجئے انہوں نے فرمایا مجھے اٹھا کر بٹھا دو جب انہیں اٹھا کر بٹھا دیا گیا تو فرمایا بیٹا! تم اس وقت تک ایمان کا ذائقہ نہیں چکھ سکتے اور علم باللہ کی حقیقت نہیں جان سکتے جب تک تم اچھی بری تقدیر اللہ کی طرف سے ہونے پر ایمان نہ لاؤ میں نے عرض کیا اباجان! مجھے کیسے معلوم ہوگا کہ تقدیر کا کون سا فیصلہ میرے حق میں اچھا ہے اور کون سا برا؟ فرمایا تم اس بات کا یقین رکھو کہ جو چیز تم سے چوک گئی وہ تمہیں پیش آسکتی تھی اور جو پیش آگئی وہ چوک نہیں سکتی تھی بیٹا! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا لکھ چنانچہ اس نے قیامت تک ہونے والے واقعات کو لکھ دیا بیٹا! اگر تم مرتے وقت اس عقیدے پر نہ ہوئے تو تم جہنم میں داخل ہو گے۔
حدثنا موسى بن داود ، حدثنا ابن لهيعة ، عن الحارث بن يزيد ، عن علي بن رباح ، ان رجلا , سمع عبادة بن الصامت ، يقول: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال ابو بكر رضي الله عنه قوموا نستغيث برسول الله صلى الله عليه وسلم من هذا المنافق، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يقام لي، إنما يقام لله تبارك وتعالى" .حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ ، أَنَّ رَجُلًا , سَمِعَ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ ، يَقُولُ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قُومُوا نَسْتَغِيثُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ هَذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يُقَامُ لِي، إِنَّمَا يُقَامُ لِلَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ہمارے پاس تشریف لائے تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کھڑے ہوجاؤ، ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس منافق کے متعلق فریاد کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے سامنے کھڑا ہونے سے بچا جائے کھڑا ہونا تو اللہ کے لئے ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبن لهيعة، ولإبهام الراوي عن عبادة
حدثنا حدثنا موسى بن داود ، حدثنا ابن لهيعة ، عن يزيد بن ابي حبيب ، ان الوليد بن عبادة بن الصامت ، قال: اوصاني ابي رحمه الله تعالى، فقال: يا بني , اوصيك ان تؤمن بالقدر خيره وشره، فإنك إن لم تؤمن ادخلك الله تبارك وتعالى النار قال: وسمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" اول ما خلق الله تبارك وتعالى القلم، ثم قال له: اكتب , قال: وما اكتب؟ قال: القدر , قال: فاكتب ما يكون، وما هو كائن إلى ان تقوم الساعة" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَة ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، أَنَّ الْوَلِيدَ بْنَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: أَوْصَانِي أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى، فَقَالَ: يَا بُنَيَّ , أُوصِيكَ أَنْ تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ، فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُؤْمِنْ أَدْخَلَكَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى النَّارَ قَالَ: وَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى الْقَلَمُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ: اكْتُبْ , قَالَ: وَمَا أَكْتُبُ؟ قَالَ: القَدَرَ , قَالَ: فَاكْتُبْ مَا يَكُونُ، وَمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ" .
ولید بن عبادہ کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب نے مجھے وصیت کرتے ہوئے فرمایا میں تمہیں ہر اچھی بری تقدیر پر ایمان لانے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ تم تقدیر پر ایمان نہ لائے تو اللہ تعالیٰ تمہیں جہنم میں داخل کر دے گا اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا لکھ چنانچہ اس نے قیامت تک ہونے والے واقعات کو لکھ دیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة
عبداللہ بن عباد زرقی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ بئر ہاب نامی اپنے کنویں پر چڑیوں کا شکار کر رہے تھے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے مجھے دیکھ لیا، اس وقت میں نے کچھ چڑیاں پکڑ رکھی تھیں انہوں نے وہ میرے ہاتھ سے چھین کر چھوڑ دیں اور فرمایا بیٹا! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے دونوں کناروں کی درمیانی جگہ کو اسی طرح حرم قرار دیا ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو قرار دیا تھا۔
حكم دارالسلام: المرفوع منه صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، يعلى ابن عبدالرحمن مجهول، وعبدالله بن عباد - وفي مواضع: ابن عبادة - مجهول أيضاً
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روئے زمین پر مرنے والا کوئی انسان پروردگار کے یہاں جس کے متعلق اچھا فیصلہ ہو ایسا نہیں ہے جو تمہارے پاس واپس آنے کو اچھا سمجھے سوائے اللہ کے راستہ میں شہید ہونے والے کے کہ وہ دنیا میں دوبارہ آنے کی تمنا رکھتا ہے تاکہ دوبارہ شہادت حاصل کرلے۔
حدثنا يونس بن محمد ، حدثنا ليث ، عن ابن عجلان ، عن محمد بن يحيى بن حبان ، عن ابن محيريز ، عن الصنابحي ، انه قال: دخلت على عبادة بن الصامت وهو في الموت فبكيت، فقال: مهلا لم تبكي؟ فوالله لئن استشهدت لاشهدن لك، ولئن شفعت لاشفعن لك، ولئن استطعت لانفعنك، ثم قال: والله ما حديث سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم لكم فيه خير إلا حدثتكموه، إلا حديثا واحدا سوف احدثكموه اليوم، وقد احيط بنفسي، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من شهد ان لا إله إلا الله، وان محمدا رسول الله، حرم على النار" , حدثنا قتيبة مثله، قال:" حرم الله تبارك وتعالى عليه النار".حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ ، عَنِ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ ، عَنِ الصُّنَابِحِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ وَهُوَ فِي الْمَوْتِ فَبَكَيْتُ، فَقَالَ: مَهْلًا لِمَ تَبْكِي؟ فَوَاللَّهِ لَئِنْ اسْتُشْهِدْتُ لَأَشْهَدَنَّ لَكَ، وَلَئِنْ شُفِّعْتُ لَأَشْفَعَنَّ لَكَ، وَلَئِنْ اسْتَطَعْتُ لَأَنْفَعَنَّكَ، ثُمَّ قَالَ: وَاللَّهِ مَا حَدِيثٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَكُمْ فِيهِ خَيْرٌ إِلَّا حَدَّثْتُكُمُوهُ، إِلَّا حَدِيثًا وَاحِدًا سَوْفَ أُحَدِّثُكُمُوهُ الْيَوْمَ، وَقَدْ أُحِيطَ بِنَفْسِي، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حُرِّمَ عَلَى النَّارِ" , حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ مِثْلَهُ، قَالَ:" حَرَّمَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى عَلَيْهِ النَّارَ".
صنابحی کہتے ہیں کہ جس وقت حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے آخری لمحات زندگی تھے تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور رونے لگا اگر سفارش قبول کی گئی تو میں تمہارے حق میں سفارش کروں گا اور جہاں تک میرے بس میں ہوا تمہیں نفع پہنچاؤں گا پھر فرمایا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حدیث بھی سنی ہے اور تمہارے لئے اس میں کوئی خیر ہے بخدا! وہ میں نے تم سے بیان کردی ہے البتہ ایک حدیث ہے جو آج میں تم سے بیان کر رہا ہوں جبکہ میرا احاطہ کرلیا گیا ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں تو اللہ اس پر جہنم کی آگ کو حرام قرار دے دیتا ہے۔
حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، قال: حدثنا سعيد بن سلمة يعني ابن ابي الحسام ، حدثنا عبد الله بن محمد بن عقيل ، عن عمرو بن عبد الرحمن ، عن عبادة بن الصامت ، انه سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ليلة القدر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " في رمضان، فالتمسوها في العشر الاواخر، فإنها في وتر في إحدى وعشرين، او ثلاث وعشرين، او خمس وعشرين، او سبع وعشرين، او تسع وعشرين، او في آخر ليلة، فمن قامها ابتغاءها إيمانا واحتسابا، ثم وفقت له، غفر له ما تقدم من ذنبه وما تاخر" .حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سَلَمَةَ يَعْنِي ابْنَ أَبِي الْحُسَامِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فِي رَمَضَانَ، فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، فَإِنَّهَا فِي وَتْرٍ فِي إِحْدَى وَعِشْرِينَ، أَوْ ثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ، أَوْ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ، أَوْ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، أَوْ تِسْعٍ وَعِشْرِينَ، أَوْ فِي آخِرِ لَيْلَةٍ، فَمَنْ قَامَهَا ابْتِغَاءَهَا إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، ثُمَّ وُفِّقَتْ لَهُ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ" .
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شب قدر کے متعلق سوال کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ماہ رمضان میں ہوتی ہے اسے ماہ رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو کہ وہ اس کی طاق راتوں ٢١، ٢٣، ٣٥، ٢٧، ٢٩ ویں یا آخری رات میں ہوتی ہے اور جو شخص اس رات کو حاصل کرنے کے لئے ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کرے اور اسے یہ رات مل بھی جائے تو اس کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف ہوگئے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: وما تأخره ، وهذا إسناد ضعيف، سعيد بن سلمة لين، وقد توبع، وعبدالله ابن محمد ضعيف، وعمر بن عبدالرحمن مجهول
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی دھاگہ بھی ہو تو واپس کردو اور مال غنیمت میں خیانت سے بچو، کیونکہ یہ قیامت کے دن خائن کے لئے شرمندگی ہوگی۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل عبدالرحمن بن الحارث
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا سعيد ، عن قتادة ، عن الحسن ، عن حطان بن عبد الله الرقاشي ، عن ابن الصامت ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" إذا نزل عليه الوحي، اثر عليه كرب لذلك، وتربد وجهه عليه الصلاة والسلام، فانزل الله تبارك وتعالى ذات يوم، فلما سري عنه، قال:" خذوا عني، قد جعل الله لهن سبيلا، الثيب بالثيب، والبكر بالبكر، الثيب جلد مائة ورجم بالحجارة، والبكر جلد مائة ثم نفي سنة" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ ، عَنِ ابْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ، أَثَّرَ عَلَيْهِ كَرَبَ لِذَلِكَ، وَتَرَبَّدَ وَجْهُهُ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى ذَاتَ يَوْمٍ، فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْهُ، قَالَ:" خُذُوا عَنِّي، قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا، الثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ، وَالْبِكْرُ بِالْبِكْرِ، الثَّيِّبُ جَلْدُ مِائَةٍ وَرَجْمٌ بِالْحِجَارَةِ، وَالْبِكْرُ جَلْدُ مِائَةٍ ثُمَّ نَفْيُ سَنَةٍ" .
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کے وقت شدت کی کیفیت ہوتی تھی اور روئے انور کا رنگ بدل جاتا تھا ایک دن وحی نازل ہوئی اور وہ کیفیت دور ہونے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے یہ بات حاصل کرلو مجھ سے یہ بات حاصل کرلو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے یہ راستہ متعین کردیا ہے کہ اگر کوئی کنوارہ لڑکا کنواری لڑکی کے ساتھ بدکاری کرے تو اسے سو کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے اور اگر شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ بدکاری کرے تو اسے سو کوڑے مارے جائیں اور رجم بھی کیا جائے۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر تنگی اور آسانی اور چستی وسستی ہر حال میں بات سننے اور ماننے کی شرط پر بیعت کی تھی نیز یہ کہ کسی معاملے میں اس کے حقدار سے جھگڑا نہیں کریں گے جہاں بھی ہوں گے حق بات کہیں گے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کریں گے۔
حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا الحارث بن يزيد ، عن علي بن رباح ، انه سمع جنادة بن ابي امية ، يقول: سمعت عبادة بن الصامت ، يقول: إن رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا نبي الله، اي العمل افضل؟ قال: " الإيمان بالله، وتصديق به، وجهاد في سبيله , قال: اريد اهون من ذلك يا رسول الله , قال: السماحة والصبر , قال: اريد اهون من ذلك يا رسول الله , قال: لا تتهم الله تبارك وتعالى في شيء قضى لك به" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ جُنَادَةَ بْنَ أَبِي أُمَيَّةَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ ، يَقُولُ: إِنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: " الْإِيمَانُ بِاللَّهِ، وَتَصْدِيقٌ بِهِ، وَجِهَادٌ فِي سَبِيلِهِ , قَالَ: أُرِيدُ أَهْوَنَ مِنْ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ: السَّمَاحَةُ وَالصَّبْرُ , قَالَ: أُرِيدُ أَهْوَنَ مِنْ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ: لَا تَتَّهِمِ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي شَيْءٍ قَضَى لَكَ بِهِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اس کی تصدیق کرنا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا سائل نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں اس سے نچلے درجے کے متعلق پوچھ رہاہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا طبیعت کی نرمی اور صبر کرنا سائل نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں اس سے بھی نچلے درجے کے متعلق پوچھ رہا ہوں فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے جو فیصلہ فرما لیا ہو اس میں اللہ تعالیٰ کے متعلق برا گمان نہ رکھو۔
حكم دارالسلام: حديث محتمل للتحسين، وهذا إسناد ضعيف من أجل أبن لهيعة، وقد توبع
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹ کے پہلو سے ایک بال توڑا اور فرمایا لوگو! خمس کو نکال کر میرے مال غنیمت میں سے اتنی مقدار بھی حلال ہے اور خمس بھی تم پر ہی لوٹا دیا جاتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن فى المتابعات والشواهد من أجل عبدالرحمن بن عياش
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں کہ اللہ کے راستہ میں جہاد کیا کرو کیونکہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ انسان کو غم اور پریشانی سے نجات عطا فرماتا ہے۔
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد منقطع، مكحول لم يسمعه من أبى أمامة
حدثنا يحيى بن سعيد القطان ، عن يحيى بن سعيد الانصاري ، قال: " عبادة بن الصامت ابو الوليد بدري عقبي شجري وهو نقيب" . حدثنا يحيى بن سعيد القطان ، عن يحيى يعني ابن سعيد الانصاري ، قال: حدثني محمد بن يحيى بن حبان ، عن ابن محيريز ، عن رجل من بني كنانة يقال له المخدجي ، قال: كان بالشام رجل يقال له ابو محمد، قال: الوتر واجب , قال: فرحت إلى عبادة ، فقلت: إن ابا محمد يزعم ان الوتر واجب! قال: كذب ابو محمد، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " خمس صلوات كتبهن الله تعالى على العباد، من اتى بهن لم يضيع منهن شيئا، جاء وله عهد عند الله ان يدخله الجنة، ومن ضيعهن استخفافا جاء ولا عهد له، إن شاء عذبه وإن شاء ادخله الجنة" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ ، قَالَ: " عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ أَبُو الْوَلِيدِ بَدْرِيٌّ عَقَبِيٌّ شَجَرِيٌّ وَهُوَ نَقِيبٌ" . حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ ، عَنْ يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيَّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ ، عَنِ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي كِنَانَةَ يُقَالُ لَهُ الْمُخْدَجِيُّ ، قَالَ: كَانَ بِالشَّامِ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ أَبُو مُحَمَّدٍ، قَالَ: الْوَتْرُ وَاجِبٌ , قَالَ: فَرُحْتُ إِلَى عُبَادَةَ ، فَقُلْتُ: إِنَّ أَبَا مُحَمَّدٍ يَزْعُمُ أَنَّ الْوَتْرَ وَاجِبٌ! قَالَ: كَذَبَ أَبُو مُحَمَّدٍ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " خَمْسُ صَلَوَاتٍ كَتَبَهُنَّ اللَّهُ تَعَالَى عَلَى الْعِبَادِ، مَنْ أَتَى بِهِنَّ لَمْ يُضَيِّعْ مِنْهُنَّ شَيْئًا، جَاءَ وَلَهُ عَهْدٌ عِنْدَ اللَّهِ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، وَمَنْ ضَيَّعَهُنَّ اسْتِخْفَافًا جَاءَ وَلَا عَهْدَ لَهُ، إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ وَإِنْ شَاءَ أَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ" .
یحییٰ بن سعد انصاری کہتے ہیں کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو الولید ہے وہ بدری صحابی ہیں بیعت غقبہ اور بیعت رضوان میں شریک ہوئے اور نقباء مدینہ میں شامل تھے۔ مخدجی " جن کا تعلق بنو کنانہ سے تھا کہتے ہیں کہ شام میں ایک انصاری آدمی تھا جس کی کنیت ابو محمد تھی اس کا یہ کہنا تھا کہ وتر واجب (فرض) ہیں وہ مخدجی ' حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ابو محمد وتر کو واجب قرار دیتے ہیں حضرت عبادہ نے فرمایا کہ ابو محمد سے غلطی ہوئی میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کردی ہیں جو شخص انہیں اس طرح ادا کرے کہ ان میں سے کسی چیز کو ضائع نہ کرے اور ان میں کا حق معمولی نہ سمجھے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے گا اور جو انہیں اس طرح ادا نہ کرے تو اللہ کا اس سے کوئی وعدہ نہیں چاہے تو اسے سزا دے اور چاہے تو اسے معاف فرما دے۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا حميد ، عن انس ، عن عبادة بن الصامت ، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يريد ان يخبرنا بليلة القدر، فتلاحى رجلان، فرفعت، فقال:" خرجت وانا اريد ان اخبركم بليلة القدر فتلاحى رجلان فرفعت، فالتمسوها في التاسعة والسابعة والخامسة" , حدثنا عبيدة ، وقال:" التمسوها في التاسعة التي تبقى".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يُخْبِرَنَا بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ، فَتَلَاحَى رَجُلَانِ، فَرُفِعَتْ، فَقَالَ:" خَرَجْتُ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُخْبِرَكُمْ بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ فَتَلَاحَى رَجُلَانِ فَرُفِعَتْ، فَالْتَمِسُوهَا فِي التَّاسِعَةِ وَالسَّابِعَةِ وَالْخَامِسَةِ" , حَدَّثَنَا عُبَيْدَةُ ، وَقَالَ:" الْتَمِسُوهَا فِي التَّاسِعَةِ الَّتِي تَبْقَى".
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شب قدر کے متعلق بتانے کے لئے گھر سے نکلے تو دو آدمی آپس میں تکرار کر رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں شب قدر کے متعلق بتانے کے لئے نکلا تو دو آدمی آپس میں تکرار کر رہے تھے اس کی وجہ سے اس کی تعین اٹھالی گئی ہوسکتا ہے کہ تمہارے حق میں یہی بہتر ہو تم شب قدر کو (آخری عشرے کی) نویں ساتویں اور پانچویں رات میں تلاش کیا کرو۔
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، عن شعبة , وحجاج ، قال: حدثني شعبة ، عن قتادة ، عن انس ، عن عبادة بن الصامت، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال حجاج في حديثه: سمعت انسا، عن عبادة بن الصامت ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " رؤيا المؤمن او المسلم جزء من ستة واربعين جزءا من النبوة" ..حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ شُعْبَةَ , وَحَجَّاجٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ حَجَّاجٌ فِي حَدِيثِهِ: سَمِعْتُ أَنَسًا، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " رُؤْيَا الْمُؤْمِنِ أَوْ الْمُسْلِمِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ" ..
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مسلمان کا خواب اجزاء نبوت میں سے چھیالیسواں جزو ہوتا ہے۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن إسماعيل يعني ابن ابي خالد ، حدثنا حكيم بن جابر ، عن عبادة بن الصامت ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " الذهب بالذهب، والفضة بالفضة، مثلا بمثل" , حتى خص الملح , فقال معاوية: إن هذا لا يقول شيئا لعبادة، فقال عبادة: إني والله لا ابالي ان لا اكون بارض يكون فيها معاوية، اشهد اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ذلك.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ يَعْنِي ابْنَ أَبِي خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا حَكِيمُ بْنُ جَابِرٍ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ، مِثْلًا بِمِثْلٍ" , حَتَّى خَصَّ الْمِلْحَ , فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: إِنَّ هَذَا لَا يَقُولُ شَيْئًا لِعُبَادَةَ، فَقَالَ عُبَادَةُ: إِنِّي وَاللَّهِ لَا أُبَالِي أَنْ لَا أَكُونَ بِأَرْضٍ يَكُونُ فِيهَا مُعَاوِيَةُ، أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ذَلِكَ.
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سونے کو سونے کے بدلے اور چاندی کے کو چاندی کے بدلے برابر برابر بیچا جائے حتیٰ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ نمک کا بھی تذکرہ فرمایا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے فرمایا وہ اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہہ سکتے حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا بخدا! مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ میں اس علاقے میں نہ ہوں جہاں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہوں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح فرماتے ہوئے سنا ہے اور میں اس کی گواہی دیتا ہوں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وأشار البخاري إلى انقطاع بين حكيم بن جابر وعبادة
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر تنگی اور آسانی اور چستی و سستی ہر حال میں بات سننے اور ماننے کی شرط پر بیعت کی تھی نیز یہ کہ کسی معاملے میں اس کے حقدار سے جھگڑا نہیں کریں گے جہاں بھی ہوں گے حق بات کہیں گے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کریں گے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، سماع عبادة بن الوليد من جده سواء صح أو لم يصح، فقد عرفت الواسطة بينهما
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہات میں ایک چوتھائی مال غنیمت انعام میں تقسیم کردیا اور واپسی پر ایک تہائی تقسیم کردیا۔
فائدہ۔ مکمل وضاحت کے لئے حدیث نمبر ٢٣١٤٢ دیکھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وإسناد هذا الحديث قد اختلف فيه على عبدالرحمن بن الحارث، وهذا ليس بذاك القوي
حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن خالد الحذاء ، عن ابي قلابة ، عن ابي الاشعث الصنعاني ، عن عبادة بن الصامت ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الذهب بالذهب، والفضة بالفضة، والبر بالبر، والشعير بالشعير، والتمر بالتمر، والملح بالملح، مثلا بمثل، يدا بيد، فإذا اختلف فيه الاوصاف، فبيعوا كيف شئتم، إذا كان يدا بيد" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ، وَالْمِلْحِ بِالْمِلْحِ، مِثْلًا بِمِثْلٍ، يَدًا بِيَدٍ، فَإِذَا اخْتَلَفَ فِيهِ الْأَوْصَافُ، فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ، إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ" .
ابوالاشعث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مال غنیمت سے حاصل ہونے والی چاندی کو لوگ وظیفہ کی رقم حاصل ہونے پر موقوف کر کے بیچا کرتے تھے یہ دیکھ کر حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی سونے کے بدلے چاندی کی چاندی کے بدلے، کجھور کی کجھور کے بدلے، گندم کی گندم کے بدلے، جو کی جو کے بدلے اور نمک کے بدلے نمک کی بیع سے منع فرمایا ہے۔ الاّ یہ کہ وہ برابر برابر ہو جو شخص اضافہ کرے یا اضافہ کی درخواست کرے تو اس نے سودی معاملہ کیا۔
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ کے راستہ میں جہاد کرے لیکن اس کی نیت اس جہاد سے ایک رسی حاصل کرنا ہو تو اسے وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة ابن الوليد
حدثنا إسماعيل ، حدثنا سلمة بن علقمة ، عن ابن سيرين ، حدثنا مسلم بن يسار , وعبد الله بن عبيد وقد كان يدعى ابن هرمز , قال: جمع المنزل بين عبادة بن الصامت وبين معاوية إما في كنيسة وإما في بيعة، فقام عبادة، فقال:" نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الذهب بالذهب، والورق بالورق، والتمر بالتمر، والبر بالبر، والشعير بالشعير، وقال: احدهما والملح بالملح، ولم يقله الآخر، وقال: احدهما من زاد او ازداد، فقد اربى، ولم يقله الآخر , وامرنا ان نبيع الذهب بالفضة والفضة بالذهب، والبر بالشعير والشعير بالبر، يدا بيد كيف شئنا" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ يَسَارٍ , وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدٍ وَقَدْ كَانَ يُدْعَى ابْنَ هُرْمُزَ , قَالَ: جَمَعَ الْمَنْزِلُ بَيْنَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ وَبَيْنَ مُعَاوِيَةَ إِمَّا فِي كَنِيسَةٍ وَإِمَّا فِي بِيعَةٍ، فَقَامَ عُبَادَةُ، فَقَالَ:" نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الذَّهَبِ بِالذَّهَبِ، وَالْوَرِقِ بِالْوَرِقِ، وَالتَّمْرِ بِالتَّمْرِ، وَالْبُرِّ بِالْبُرِّ، وَالشَّعِيرِ بِالشَّعِيرِ، وَقَالَ: أَحَدُهُمَا وَالْمِلْحِ بِالْمِلْحِ، وَلَمْ يَقُلْهُ الْآخَرُ، وَقَالَ: أَحَدُهُمَا مَنْ زَادَ أَوْ ازْدَادَ، فَقَدْ أَرْبَى، وَلَمْ يَقُلْهُ الْآخَرُ , وَأَمَرَنَا أَنْ نَبِيعَ الذَّهَبَ بِالْفِضَّةِ وَالْفِضَّةَ بِالذَّهَبِ، وَالْبُرَّ بِالشَّعِيرِ وَالشَّعِيرَ بِالْبُرِّ، يَدًا بِيَدٍ كَيْفَ شِئْنَا" .
ایک مرتبہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کسی گرجے یا عبادت خانے میں جمع ہوئے حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سونے کی سونے کے بدلے چاندی کی چاندی کے بدلے، کجھور کی کجھور کے بدلے، گندم کی گندم کے بدلے، جو کی جو کے بدلے اور نمک کے بدلے نمک کی بیع سے منع فرمایا ہے۔ الاّ یہ کہ وہ برابر برابر ہو جو شخص اضافہ کرے یا اضافہ کی درخواست کرے تو اس نے سودی معاملہ کیا۔ البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس چیز کی اجازت دی ہے کہ سونے کو چاندی کے بدلے اور چاندی کو سونے کے بدلے گندم کو جو کے بدلے اور جو کو گندم کے بدلے ہاتھوں ہاتھ بیچ سکتے ہیں جیسے چاہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، عبدالله بن عبيد مجهول، ومسلم بن يسار لم يسمع هذا الحديث من عبادة
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے یہ بات حاصل کرلو مجھ سے یہ بات حاصل کرلو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے یہ راستہ متعین کردیا ہے کہ اگر کوئی کنوارا لڑکا کنواری لڑکی کے ساتھ بدکاری کرے تو اسے سو کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے اور اگر شادی شدہ مرد، شادی شدہ عورت کے ساتھ بدکاری کرے تو اسے سو کوڑے مارے جائیں اور رجم بھی کیا جائے۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن خالد ، قال: سمعت ابا قلابة يحدث، عن ابي الاشعث ، عن عبادة بن الصامت ، قال: اخذ علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم كما اخذ على النساء او الناس: ان لا نشرك بالله شيئا، ولا نسرق، ولا نزني، ولا نقتل اولادنا، ولا نغتب، ولا يعضه بعضنا بعضا، ولا نعصيه في معروف " فمن اتى منكم حدا مما نهي عنه، فاقيم عليه، فهو كفارة له، ومن اخر فامره إلى الله تبارك وتعالى، إن شاء عذبه، وإن شاء غفر له" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ خَالِدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا قِلَابَةَ يُحَدِّثُ، عَنِ أَبِي الْأَشْعَثِ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: أَخَذَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا أَخَذَ عَلَى النِّسَاءِ أَوْ النَّاسِ: أَنْ لَا نُشْرِكَ بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا نَسْرِقَ، وَلَا نَزْنِيَ، وَلَا نَقْتُلَ أَوْلَادَنَا، وَلَا نَغْتَبْ، وَلَا يَعْضَهَ بَعْضُنَا بَعْضًا، وَلَا نَعْصِيَهُ فِي مَعْرُوفٍ " فَمَنْ أَتَى مِنْكُمْ حَدًّا مِمَّا نُهِيَ عَنْهُ، فَأُقِيمَ عَلَيْهِ، فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ، وَمَنْ أُخِّرَ فَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ، وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ" .
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بھی اسی طرح چھ چیزوں پر بیعت لی تھی جیسے عورتوں سے لی تھی کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے چوری نہیں کرو گے، بدکاری نہیں کرو گے اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے اور ایک دوسرے پر بہتان نہیں لگاؤ گے اور نیکی کے کسی کام میں میری نافرمانی نہیں کرو گے تم میں سے جو کوئی کسی عورت کے ساتھ قابل سزا جرم کا ارتکاب کرے اور اسے اس کی فوری سزا بھی مل جائے تو وہ اس کا کفارہ ہوگی اور اگر اسے مہلت مل گئی تو اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اگر اس نے چاہا تو عذاب دے دے گا اور اگر چاہا تو رحم فرما دے گا۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا معمر ، حدثني ابن شهاب ، عن ابي إدريس الخولاني ، قال: سمعت عبادة بن الصامت ، قال: بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم في رهط، فقال: " ابايعكم على ان لا تشركوا بالله شيئا، ولا تسرقوا، ولا تزنوا، ولا تقتلوا اولادكم، ولا تاتوا ببهتان تفترونه بين ايديكم وارجلكم، ولا تعصونه في معروف، فمن وفى منكم فاجره على الله، ومن اصاب من ذلك شيئا فعوقب به، فهو له طهور، ومن ستره الله فذاك إلى الله تبارك وتعالى، إن شاء عذبه، وإن شاء غفر له" , قال عبد الرزاق:" فعوقب به في الدنيا فهو له طهور" , او قال:" كفارة".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ ، عَنِ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ ، قَالَ: بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ، فَقَالَ: " أُبَايِعُكُمْ عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ، وَلَا تَأْتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ، وَلَا تَعْصُونَهُ فِي مَعْرُوفٍ، فَمَنْ وَفَّى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَعُوقِبَ بِهِ، فَهُوَ لَهُ طُهُورٌ، وَمَنْ سَتَرَهُ اللَّهُ فَذَاكَ إِلَى اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ، وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ" , قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ:" فَعُوقِبَ بِهِ فِي الدُّنْيَا فَهُوَ لَهُ طُهُورٌ" , أَوْ قَالَ:" كَفَّارَةٌ".
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بھی اسی طرح چھ چیزوں پر بیعت لی تھی جیسے عورتوں سے لی تھی کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے چوری نہیں کرو گے، بدکاری نہیں کرو گے اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے اور ایک دوسرے پر بہتان نہیں لگاؤ گے اور نیکی کے کسی کام میں میری نافرمانی نہیں کرو گے تم میں سے جو کوئی کسی عورت کے ساتھ قابل سزا جرم کا ارتکاب کرے اور اسے اس کی فوری سزا بھی مل جائے تو وہ اس کا کفارہ ہوگی اور اگر اسے مہلت مل گئی تو اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اگر اس نے چاہا تو عذاب دے دے گا اور اگر چاہا تو رحم فرما دے گا۔
حدثنا عبد الله بن بكر ، حدثنا سعيد ، عن قتادة ، عن الحسن ، عن حطان بن عبد الله اخي بني رقاش، عن عبادة بن الصامت ، انه قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا نزل الوحي عليه كرب لذلك وتربد وجهه، فاوحي إليه ذات يوم، فلما سري عنه، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خذوا عني، قد جعل الله لهن سبيلا، الثيب بالثيب والبكر بالبكر، الثيب جلد مائة ثم رجما بالحجارة، والبكر بالبكر جلد مائة ثم نفي سنة" .حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَخِي بَنِي رَقَاشٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، أَنَّهُ قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَزَلَ الْوَحْيُ عَلَيْهِ كَرَبَ لِذَلِكَ وَتَرَبَّدَ وَجْهُهُ، فَأُوحِيَ إِلَيْهِ ذَاتَ يَوْمٍ، فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خُذُوا عَنِّي، قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا، الثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ وَالْبِكْرُ بِالْبِكْرِ، الثَّيِّبُ جَلْدُ مِائَةٍ ثُمَّ رَجْمًا بِالْحِجَارَةِ، وَالْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ ثُمَّ نَفْيُ سَنَةٍ" .
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت تکلیف ہوتی تھی اور روئے انور پر اس کے آثار نظر آتے تھے ایک مرتبہ یہ کیفیت دور ہونے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے یہ بات حاصل کرلو مجھ سے یہ بات حاصل کرلو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے یہ راستہ متعین کردیا ہے کہ اگر کوئی کنوارہ لڑکا کنواری لڑکی کے ساتھ بدکاری کرے تو اسے سو کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے اور اگر شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ بدکاری کرے تو اسے سو کوڑے مارے جائیں اور رجم بھی کیا جائے۔
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر تنگی اور آسانی اور چستی و سستی ہر حال میں بات سننے اور ماننے کی شرط پر بیعت کی تھی نیز یہ کہ کسی معاملے میں اس کے حقدار سے جھگڑا نہیں کریں گے جہاں بھی ہوں گے حق بات کہیں گے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کریں گے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 7055، 7056، م: 1709
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا همام ، حدثنا زيد بن اسلم ، عن عطاء بن يسار ، عن عبادة بن الصامت ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " الجنة مائة درجة، ما بين كل درجتين منهما كما بين السماء والارض، الفردوس اعلاها درجة، منها تفجر انهار الجنة الاربعة، ومن فوقها يكون العرش، وإذا سالتم الله، فاسالوه الفردوس" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْجَنَّةُ مِائَةُ دَرَجَةٍ، مَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ مِنْهُمَا كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، الْفِرْدَوْسُ أَعْلَاهَا دَرَجَةً، مِنْهَا تُفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ الْأَرْبَعَةُ، وَمِنْ فَوْقِهَا يَكُونُ الْعَرْشُ، وَإِذَا سَأَلْتُمْ اللَّهَ، فَاسْأَلُوهُ الْفِرْدَوْسَ" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جنت کے سو درجے ہیں ہر دو درجوں کے درمیان سو سال کا فاصلہ ہے اور سب سے عالی رتبہ درجہ جنت الفردوس کا ہے اسی سے چاروں نہریں نکلتی ہیں اور اسی کے اوپر عرش الہٰی ہے لہٰذا جب تم اللہ سے سوال کیا کرو تو جنت الفردوس کا سوال کیا کرو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد قد اختلف فيه على عطاء
حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا ابن مبارك ، عن حيوة . وعتاب , قال: حدثنا عبد الله ، اخبرنا حيوة ، عن عمر بن مالك المعافري ، ان رجلا من قومه اخبره , انه حضر ذلك عام المضيق , ان عبادة بن الصامت اخبر معاوية حين ساله عن الرجل الذي سال النبي صلى الله عليه وسلم عقالا قبل ان يقسم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " اتركه حتى يقسم، وقال عتاب: حتى نقسم، ثم إن شئت اعطيناك عقالا، وإن شئت اعطيناك مرارا" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَكٍ ، عَنْ حَيْوَةَ . وَعَتَّابٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مَالِكٍ الْمَعَافِرِيِّ ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ قَوْمِهِ أَخْبَرَهُ , أَنَّهُ حَضَرَ ذَلِكَ عَامَ الْمَضِيقِ , أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ أَخْبَرَ مُعَاوِيَةَ حِينَ سَأَلَهُ عَنِ الرَّجُلِ الَّذِي سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِقَالًا قَبْلَ أَنْ يَقْسِمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اتْرُكْهُ حَتَّى يُقْسَمَ، وَقَالَ عَتَّابٌ: حَتَّى نَقْسِمَ، ثُمَّ إِنْ شِئْتَ أَعْطَيْنَاكَ عِقَالًا، وَإِنْ شِئْتَ أَعْطَيْنَاكَ مِرَارًا" .
ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے اس آدمی کے متعلق پوچھا جس نے مال غنیمت کی تقسیم سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک رسی مانگی تھی تو حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابھی اس سوال کو چھوڑ دو یہاں تک کہ مال غنیمت تقسیم ہوجائے پھر اگر تمہاری مرضی ہوئی تو تمہیں رسی دے دیں گے اور اگر تمہاری مرضی ہوگی تو اس سے کئی گنا زیادہ دے دیں گے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف الإبهام الراوي عن عبادة
حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، حدثنا حرب ، حدثنا يحيى يعني ابن ابي كثير ، عن ابي سلمة ، عن عبادة بن الصامت , انه سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن هذه الآية: لهم البشرى في الحياة الدنيا وفي الآخرة سورة يونس آية 64 , قال: " هي الرؤيا الصالحة يراها العبد او ترى له" .حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا حَرْبٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ , أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ: لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ سورة يونس آية 64 , قَالَ: " هِيَ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الْعَبْدُ أَوْ تُرَى لَهُ" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس ارشاد باری تعالیٰ " لہم البشری فی الحیاۃ الدنیا وفی الآخرہ " میں بشری کی تفسیر پوچھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے مراد اچھے خواب ہیں جو خود کوئی مسلمان دیکھے یا کوئی دوسرا مسلمان اس کے متعلق دیکھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد منقطع، أبو سلمة لم يسمع من عبادة
حدثنا عبد الملك بن عمرو ، حدثنا زهير بن محمد ، عن عبد الله بن محمد يعني ابن عقيل ، عن عمر بن عبد الرحمن ، عن عبادة بن الصامت ، انه قال: يا رسول الله، اخبرنا عن ليلة القدر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هي في رمضان، التمسوها في العشر الاواخر، فإنها وتر، في إحدى وعشرين، او ثلاث وعشرين، او خمس وعشرين، او سبع وعشرين، او تسع وعشرين، او في آخر ليلة، فمن قامها إيمانا واحتسابا، غفر له ما تقدم من ذنبه وما تاخر" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ عَقِيلٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنَا عَنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هِيَ فِي رَمَضَانَ، الْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، فَإِنَّهَا وِتْرٌ، فِي إِحْدَى وَعِشْرِينَ، أَوْ ثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ، أَوْ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ، أَوْ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، أَوْ تِسْعٍ وَعِشْرِينَ، أَوْ فِي آخِرِ لَيْلَةٍ، فَمَنْ قَامَهَا إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ" .
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شب قدر کے متعلق سوال کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ماہ رمضان میں ہوتی ہے اسے ماہ رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو کہ وہ اس کی طاق راتوں ٢١، ٢٣، ٣٥، ٢٧، ٢٩ ویں یا آخری رات میں ہوتی ہے اور جو شخص اس رات کو حاصل کرنے کے لئے ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کرے اور اسے یہ رات مل بھی جائے تو اس کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف ہوگئے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن دون قوله: أو فى آخر ليلة ودون قوله: وما تأخر ، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عمر بن عبدالرحمن، ولضعف عبدالله بن محمد
حدثنا هاشم ، حدثنا ليث ، عن يزيد بن ابي حبيب ، عن ابي الخير ، عن الصنابحي ، عن عبادة بن الصامت ، انه قال: إني من النقباء الذين بايعوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" وبايعناه على ان لا نشرك بالله شيئا، ولا نزني، ولا نسرق، ولا نقتل النفس التي حرم الله، ولا ننهب، وإن غشينا من ذلك شيئا، كان قضاء ذلك إلى الله تبارك وتعالى" .حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنِ الصُّنَابِحِيِّ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، أَنَّهُ قَالَ: إِنِّي مِنَ النُّقَبَاءِ الَّذِينَ بَايَعُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" وَبَايَعْنَاهُ عَلَى أَنْ لَا نُشْرِكَ بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا نَزْنِيَ، وَلَا نَسْرِقَ، وَلَا نَقْتُلَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ، وَلَا نَنْهَبَ، وَإِنْ غَشِينَا مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا، كَانَ قَضَاءُ ذَلِكَ إِلَى اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى" .
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں ان (بارہ) نقباء میں سے تھا جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شرط پر بیعت کی تھی کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے، بدکاری نہیں کریں گے چوری نہیں کریں گے کسی ایسے شخص کو قتل نہیں کریں گے جسے قتل کرنا اللہ نے حرام قرار دیا ہو اور لوٹ مار نہیں کریں گے اگر ہم نے ایسا کیا تو اس کا فیصلہ اللہ کے سپرد۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا کہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورت فاتحہ کی تلاوت بھی نہ کرسکے۔
حدثنا عفان , وبهز , قالا: حدثنا همام ، اخبرنا قتادة ، عن انس ، عن عبادة بن الصامت ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من احب لقاء الله، احب الله لقاءه، ومن كره لقاء الله، كره الله لقاءه" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ , وَبَهْزٌ , قَالَا: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، أَخْبَرَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ، أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ، كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ" .
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ سے ملنے کو پسند کرتا ہے اللہ اس سے ملنے کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے اللہ اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے۔
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني مكحول ، عن محمود بن ربيع الانصاري ، عن عبادة بن الصامت ، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الصبح، فثقلت عليه فيها القراءة، فلما انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم من صلاته، اقبل علينا بوجهه، فقال:" إني لاراكم تقرءون خلف إمامكم إذا جهر" , قال: قلنا: اجل والله يا رسول الله، هذا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تفعلوا إلا بام القرآن، فإنه لا صلاة لمن لم يقرا بها" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي مَكْحُولٌ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ رَبِيعٍ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ، فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ فِيهَا الْقِرَاءَةُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلَاتِهِ، أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، فَقَالَ:" إِنِّي لَأَرَاكُمْ تَقْرَءُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ إِذَا جَهَرَ" , قَالَ: قُلْنَا: أَجَلْ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ، فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا" .
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی دوران قرأت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طبیعت پر بوجھ محسوس ہوا نماز سے فارغ ہو کر ہم سے پوچھا کہ کیا تم بھی قرأت کرتے ہو؟ ہم نے عرض کیا جی یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم ایسا نہ کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہوگا الاّ یہ کہ سورت فاتحہ پڑھو کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی دوران قرأت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طبیعت پر بوجھ محسوس ہوا نماز سے فارغ ہو کر ہم سے پوچھا کہ کیا تم بھی قرأت کرتے ہو؟ ہم نے عرض کیا جی یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم ایسا نہ کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہوگا الاّ یہ کہ سورت فاتحہ پڑھو کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سورت انفال کے متعلق حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ سورت ہم اصحاب بدر کے متعلق نازل ہوئی تھی جبکہ مال غنیمت کی تقسیم میں ہمارے درمیان اختلاف رائے ہوگیا تھا اور اس حوالے سے ہمارا رویہ مناسب نہ تھا چنانچہ اللہ نے اسے ہمارے درمیان سے کھینچ لیا اور اسے تقسیم کرنے کا اختیار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسلمانوں میں برابر برابر تقسیم کردیا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وإسناد هذا الحديث قد اختلف فيه على عبدالرحمن بن الحارث، وهذا ليس بذاك القوي
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، قال: قال سليمان بن موسى : حدثنا كثير بن مرة ، ان عبادة بن الصامت حدثهم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " ما على الارض من نفس تموت ولها عند الله عز وجل خير تحب ان ترجع إليكم، ولها الدنيا، إلا القتيل، فإنه يحب ان يرجع فيقتل مرة اخرى" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى : حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ مُرَّةَ ، أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ حَدَّثَهُمْ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا عَلَى الْأَرْضِ مِنْ نَفْسٍ تَمُوتُ وَلَهَا عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ خَيْرٌ تُحِبُّ أَنْ تَرْجِعَ إِلَيْكُمْ، وَلَهَا الدُّنْيَا، إِلَّا الْقَتِيلُ، فَإِنَّهُ يُحِبُّ أَنْ يَرْجِعَ فَيُقْتَلَ مَرَّةً أُخْرَى" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روئے زمین پر مرنے والا کوئی انسان پروردگار کے یہاں جس کے متعلق اچھا فیصلہ ہو " ایسا نہیں ہے جو تمہارے پاس واپس آنے کو اچھا سمجھے سوائے اللہ کے راستہ میں شہید ہونے والے کے کہ وہ دنیا میں دوبارہ آنے کی تمنا رکھتا ہے تاکہ دوبارہ شہادت حاصل کرلے۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورت فاتحہ یا مزید کسی اور سورت کی تلاوت بھی نہ کرسکے۔
حدثنا يعقوب ، حدثني ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني مكحول ، عن محمود بن ربيع الانصاري ، عن عبادة بن الصامت ، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الصبح، فثقلت عليه القراءة، فلما انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم من صلاته اقبل علينا بوجهه، فقال:" إني لاراكم تقرءون خلف إمامكم إذا جهر" , قال: قلنا: اجل والله يا رسول الله هذا قال: " فلا تفعلوا إلا بام القرآن، فإنه لا صلاة لمن لم يقرا بها" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي مَكْحُولٌ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ رَبِيعٍ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ، فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلَاتِهِ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، فَقَالَ:" إِنِّي لَأَرَاكُمْ تَقْرَءُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ إِذَا جَهَرَ" , قَالَ: قُلْنَا: أَجَلْ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا قَالَ: " فَلَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ، فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا" .
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی دوران قراءت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طبیعت پر بوجھ محسوس ہوا نماز سے فارغ ہو کر ہم سے پوچھا کہ کیا تم بھی قراءت کرتے ہو؟ ہم نے عرض کیا جی یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم ایسا نہ کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہوگا الاّ یہ کہ سورت فاتحہ پڑھو کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
حدثنا عبد الوهاب بن عطاء ، اخبرنا الحسن بن ذكوان ، عن عبد الواحد بن قيس ، عن عبادة بن الصامت ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " الابدال في هذه الامة ثلاثون مثل إبراهيم خليل الرحمن عز وجل، كلما مات رجل ابدل الله تبارك وتعالى مكانه رجلا" , قال ابي رحمه الله فيه: يعني حديث عبد الوهاب كلام غير هذا، وهو منكر , يعني: حديث الحسن بن ذكوان.حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ ، أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ ذَكْوَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " الْأَبْدَالُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ ثَلَاثُونَ مِثْلُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ، كُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مَكَانَهُ رَجُلًا" , قَالَ أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ فِيهِ: يَعْنِي حَدِيثَ عَبْدِ الْوَهَّابِ كَلَامٌ غَيْرُ هَذَا، وَهُوَ مُنْكَرٌ , يَعْنِي: حَدِيثَ الْحَسَنُ بْنُ ذَكْوَان.
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس امت میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی طرح تیس ابدال ہوں گے جب بھی ان میں سے کوئی ایک فوت ہوگا تو اس کی جگہ اللہ تعالیٰ کسی دوسرے کو مقرر فرما دیں گے۔
حكم دارالسلام: منكر، وإسناده ضعيف من أجل الحسن بن ذكوان وعبدالواحد بن قيس، لم يسمع من عبادة
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثنا محمد بن يحيى بن حبان ، عن عبد الله بن محيريز الجمحي ، عن المخدجي ، عن عبادة بن الصامت ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من فيه إلى في، لا اقول: حدثني فلان ولا فلان: " خمس صلوات افترضهن الله على عباده، فمن لقيه بهن لم يضيع منهن شيئا، لقيه وله عنده عهد يدخله به الجنة، ومن لقيه وقد انتقص منهن شيئا استخفافا بحقهن، لقيه ولا عهد له، إن شاء عذبه، وإن شاء غفر له" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَيْرِيزٍ الجُمَحِيِّ ، عَنِ الْمُخْدَجِيِّ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مِنْ فِيهِ إِلَى فِيَّ، لَا أَقُولُ: حَدَّثَنِي فُلَانٌ وَلَا فُلَانٌ: " خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللَّهُ عَلَى عِبَادِهِ، فَمَنْ لَقِيَهُ بِهِنَّ لَمْ يُضَيِّعْ مِنْهُنَّ شَيْئًا، لَقِيَهُ وَلَهُ عِنْدَهُ عَهْدٌ يُدْخِلُهُ بِهِ الْجَنَّةَ، وَمَنْ لَقِيَهُ وَقَدْ انْتَقَصَ مِنْهُنَّ شَيْئًا اسْتِخْفَافًا بِحَقِّهِنَّ، لَقِيَهُ وَلَا عَهْدَ لَهُ، إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ، وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ" .
مخدجی " جن کا تعلق بنو کنانہ سے تھا کہتے ہیں کہ شام میں ایک انصاری آدمی تھا جس کی کنیت ابو محمد تھی اس کا یہ کہنا تھا کہ وتر واجب (فرض) ہیں وہ مخدجی ' حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ابو محمد وتر کو واجب قرار دیتے ہیں حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابو محمد سے غلطی ہوئی میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کردی ہیں جو شخص انہیں اس طرح ادا کرے کہ ان میں سے کسی چیز کو ضائع نہ کرے اور ان میں کا حق معمولی نہ سمجھے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے گا اور جو انہیں اس طرح ادا نہ کرے تو اللہ کا اس سے کوئی وعدہ نہیں چاہے تو اسے سزا دے اور چاہے تو اسے معاف فرما دے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة المخدجي
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سورت انفال کے متعلق حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ سورت ہم اصحاب بدر کے متعلق نازل ہوئی تھی جبکہ مال غنیمت کی تقسیم میں ہمارے درمیان اختلاف رائے ہوگیا تھا اور اس حوالے سے ہمارا رویہ مناسب نہ تھا چنانچہ اللہ نے اسے ہمارے درمیان سے کھینچ لیا اور اسے تقسیم کرنے کا اختیار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسلمانوں میں برابر برابر تقسیم کردیا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وإسناد هذا الحديث قد اختلف فيه عبدالرحمن بن الحارث، وهذا ليس بذاك القوي
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني يزيد بن ابي حبيب ، عن مرثد بن عبد الله اليزني ، عن ابي عبد الله عبد الرحمن بن عسيلة الصنابحي , عن عبادة بن الصامت ، قال: كنت فيمن حضر العقبة الاولى، وكنا اثني عشر رجلا،" فبايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على بيعة النساء، وذلك قبل ان تفترض الحرب على: ان لا نشرك بالله شيئا، ولا نسرق، ولا نزني، ولا نقتل اولادنا، ولا ناتي ببهتان نفتره بين ايدينا وارجلنا، ولا نعصيه في معروف، فإن وفيتم، فلكم الجنة، وإن غشيتم من ذلك شيئا، فامركم إلى الله، إن شاء عذبكم، وإن شاء غفر لكم" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْيَزَنِيِّ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُسَيْلَةَ الصُّنَابِحِيِّ , عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: كُنْتُ فِيمَنْ حَضَرَ الْعَقَبَةَ الْأُولَى، وَكُنَّا اثْنَيْ عَشَرَ رَجُلًا،" فَبَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَيْعَةِ النِّسَاءِ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ تُفْتَرَضَ الْحَرْبُ عَلَى: أَنْ لَا نُشْرِكَ بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا نَسْرِقَ، وَلَا نَزْنِيَ، وَلَا نَقْتُلَ أَوْلَادَنَا، وَلَا نَأْتِيَ بِبُهْتَانٍ نَفْتَرِهِ بَيْنَ أَيْدِينَا وَأَرْجُلِنَا، وَلَا نَعْصِيَهُ فِي مَعْرُوفٍ، فَإِنْ وَفَّيْتُمْ، فَلَكُمْ الْجَنَّةُ، وَإِنْ غَشِيتُمْ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا، فَأَمْرُكُمْ إِلَى اللَّهِ، إِنْ شَاءَ عَذَّبَكُمْ، وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَكُمْ" .
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بھی اسی طرح چھ چیزوں پر بیعت لی تھی جیسے عورتوں سے لی تھی کہ تم نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے چوری نہیں کرو گے، بدکاری نہیں کرو گے اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے اور ایک دوسرے پر بہتان نہیں لگاؤ گے اور نیکی کے کسی کام میں میری نافرمانی نہیں کرو گے تم میں سے جو کوئی کسی عورت کے ساتھ قابل سزا جرم کا ارتکاب کرے اور اسے اس کی فوری سزا بھی مل جائے تو وہ اس کا کفارہ ہوگی اور اگر اسے مہلت مل گئی تو اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اگر اس نے چاہا تو عذاب دے دے گا اور اگر چاہا تو رحم فرما دے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 18، م: 1709، وهذا إسناد حسن
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شخص میری امت میں سے نہیں ہے جو ہمارے بڑوں کی عزت چھوٹوں پر شفقت اور عالم کا مقام نہ پہچانے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: ويعرف لعالمنا ، وإسناده منقطع، أبو قبيل لم يسمع من عبادة
حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، قال: ابو بكر بن حفص اخبرني، قال: سمعت ابا مصبح او ابن مصبح ، شك ابو بكر، عن ابن السمط ، عن عبادة بن الصامت , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم عاد عبد الله بن رواحة، قال: فما تحوز له عن فراشه، فقال: " اتدري من شهداء امتي؟ قالوا: قتل المسلم شهادة , قال: إن شهداء امتي إذا لقليل، قتل المسلم شهادة، والطاعون شهادة، والمراة يقتلها ولدها جمعاء شهادة" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: أَبُو بَكْرِ بْنُ حَفْصٍ أَخْبَرَنِي، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مُصَبِّحٍ أَوْ ابْنَ مُصَبِّحٍ ، شَكَّ أَبُو بَكْرٍ، عَنِ ابْنِ السِّمْطِ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَادَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ رَوَاحَةَ، قَالَ: فَمَا تَحَوَّزَ لَهُ عَنْ فِرَاشِهِ، فَقَالَ: " أَتَدْرِي مَنْ شُهَدَاءُ أُمَّتِي؟ قَالُوا: قَتْلُ الْمُسْلِمِ شَهَادَةٌ , قَالَ: إِنَّ شُهَدَاءَ أُمَّتِي إِذًا لَقَلِيلٌ، قَتْلُ الْمُسْلِمِ شَهَادَةٌ، وَالطَّاعُونُ شَهَادَةٌ، وَالْمَرْأَةُ يَقْتُلُهَا وَلَدُهَا جَمْعَاءَ شَهَادَةٌ" .
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے گئے ابھی ان کے بستر سے جدا نہیں ہوئے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ میری امت کے شہداء کون ہیں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ مسلمان کا میدان جنگ میں قتل ہونا شہادت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح تو میری امت کے شہداء بہت تھوڑے رہ جائیں گے مسلمان کا قتل ہونا بھی شہادت ہے طاعون میں مرنا بھی شہادت ہے اور وہ عورت بھی شہید ہے جسے اس کا بچہ مار دے (یعنی حالت نفاس میں پیدائش کی تکلیف برداشت نہ کرسکنے والی وہ عورت جو اس دوران فوت ہوجائے)
حدثنا سليمان بن داود الهاشمي ، اخبرنا إسماعيل ، اخبرنا عمرو ، عن المطلب ، عن عبادة بن الصامت ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " اضمنوا لي ستا من انفسكم اضمن لكم الجنة: اصدقوا إذا حدثتم، واوفوا إذا وعدتم، وادوا إذا اؤتمنتم، واحفظوا فروجكم، وغضوا ابصاركم، وكفوا ايديكم" .حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا عَمْرٌو ، عَنِ الْمُطَّلِبِ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " اضْمَنُوا لِي سِتًّا مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَضْمَنْ لَكُمْ الْجَنَّةَ: اصْدُقُوا إِذَا حَدَّثْتُمْ، وَأَوْفُوا إِذَا وَعَدْتُمْ، وَأَدُّوا إِذَا اؤْتُمِنْتُمْ، وَاحْفَظُوا فُرُوجَكُمْ، وَغُضُّوا أَبْصَارَكُمْ، وَكُفُّوا أَيْدِيَكُمْ" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دے دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں جب بات کرو تو سچ بولو، وعدہ کرو تو پورا کرو، امانت رکھوائی جائے تو اسے ادا کرو، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو، اپنی نگاہیں جھکا کر رکھو اور اپنے ہاتھوں کو روک کر رکھو۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد منقطع، المطلب لم يسمع من عبادة
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص بھی دس آدمیوں کا امیر رہا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے ہاتھ بندھے ہوں گے جنہیں اس کے عدل کے علاوہ کوئی چیز نہیں کھول سکے گی اور جس شخص نے قرآن کریم سیکھا پھر اسے بھول گیا تو وہ اللہ سے کوڑھی بن کر ملے گا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: وما من رجل تعلم القرآن ..... ، وهذا إسناد ضعيف، يزيد بن أبى زياد ضعيف، وقد اضطرب فى إسناده ، عيسي بن فائد مجهول وروايته عن الصحابة مرسلة
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا ثابت ، عن عاصم ، عن سلمان رجل من اهل الشام، عن جنادة ، عن عبادة بن الصامت ، قال: دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم اعوده، وبه من الوجع ما يعلم الله تبارك وتعالى بشدة، ثم دخلت عليه من العشي وقد برئ احسن برء، فقلت له: دخلت عليك غدوة وبك من الوجع ما يعلم الله بشدة! ودخلت عليك العشية وقد برئت! فقال:" يا ابن الصامت، إن جبريل عليه السلام رقاني برقية برئت، الا اعلمكها؟ قلت: بلى قال: بسم الله ارقيك، من كل شيء يؤذيك، من حسد كل حاسد وعين، بسم الله يشفيك" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ سَلْمَانَ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ، عَنْ جُنَادَةَ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعُودُهُ، وَبِهِ مِنَ الْوَجَعِ مَا يَعْلَمُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بِشِدَّةٍ، ثُمَّ دَخَلْتُ عَلَيْهِ مِنَ الْعَشِيِّ وَقَدْ بَرِئَ أَحْسَنَ بُرْءٍ، فَقُلْتُ لَهُ: دَخَلْتُ عَلَيْكَ غُدْوَةً وَبِكَ مِنَ الْوَجَعِ مَا يَعْلَمُ اللَّهُ بِشِدَّةٍ! وَدَخَلْتُ عَلَيْكَ الْعَشِيَّةَ وَقَدْ بَرِئْتَ! فَقَالَ:" يَا ابْنَ الصَّامِتِ، إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام رَقَانِي بِرُقْيَةٍ بَرِئْتُ، أَلَا أُعَلِّمُكَهَا؟ قُلْتُ: بَلَى قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ، مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيكَ، مِنْ حَسَدِ كُلِّ حَاسِدٍ وَعَيْنٍ، بِسْمِ اللَّهِ يَشْفِيكَ" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عیادت کے لئے حاضر خدمت ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی تکلیف تھی جس کی شدت اللہ ہی بہتر جانتا ہے جب شام کو دوبارہ حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بالکل ٹھیک ہوچکے تھے میں نے یہ دیکھ کر عرض کیا کہ صبح جب میں حاضر ہوا تھا تو آپ پر تکلیف کا اتنا غلبہ تھا جس کی شدت اللہ ہی جانتا ہے اور اب اس وقت حاضر ہوا ہوں تو آپ بالکل ٹھیک ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن صامت! حضرت جبرائیل علیہ السلام نے مجھے ایک منتر سے دم کیا جس سے میں ٹھیک ہوگیا کیا میں وہ تمہیں بھی سکھا نہ دوں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں؟ فرمایا وہ کلمات یہ ہیں اللہ کے نام سے میں تم پر ہر اس چیز کے شر سے بچاؤ کا دم کرتا ہوں جو تمہیں ایذاء پہنچا سکے مثلاً ہر حاسد کے حسد سے اور ہر نظربد سے اللہ کے نام سے اللہ تمہیں شفاء عطا فرمائے۔
حكم دارالسلام: صحيح الغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة سلمان الشامي، لكنه توبع
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عیادت کے لئے حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کانپ رہے تھے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان الفاظ میں دم کیا " اللہ کے نام سے میں تم پر ہر اس چیز کے شر سے بچاؤ کا دم کرتا ہوں جو تمہیں ایذاء پہنچا سکے مثلاً ہر حاسد کے حسد سے اور ہر نظر بد سے اللہ کے نام سے اللہ تمہیں شفاء عطا فرمائے۔
حدثناه علي بن عياش حدثنا ابن ثوبان فذكر مثله إلا انه قال:" من حسد حاسد ومن كل عين اسم الله يشفيك"حَدَّثَنَاه عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ حَدَّثَنَا ابْنُ ثَوْبَانَ فَذَكَرَ مِثْلَهُ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ:" مِنْ حَسَدِ حَاسِدٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ اسْمُ اللَّهِ يَشْفِيكَ"
حدثنا معاوية بن عمرو ، حدثنا ابو إسحاق ، عن عبد الرحمن بن عياش بن ابي ربيعة ، عن سليمان بن موسى ، عن ابي سلام، عن ابي امامة ، عن عبادة بن الصامت ، قال: خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم فشهدت معه بدرا، فالتقى الناس فهزم الله تبارك وتعالى العدو، فانطلقت طائفة في آثارهم يهزمون ويقتلون، فاكبت طائفة على العسكر يحوونه ويجمعونه، واحدقت طائفة برسول الله صلى الله عليه وسلم لا يصيب العدو منه غرة، حتى إذا كان الليل، وفاء الناس بعضهم إلى بعض، قال الذين جمعوا الغنائم: نحن حويناها وجمعناها، فليس لاحد فيها نصيب، وقال الذين خرجوا في طلب العدو: لستم باحق بها منا، نحن نفينا عنها العدو وهزمناهم، وقال الذين احدقوا برسول الله صلى الله عليه وسلم: لستم باحق بها منا، نحن احدقنا برسول الله صلى الله عليه وسلم , وخفنا ان يصيب العدو منه غرة واشتغلنا به، فنزلت: يسالونك عن الانفال قل الانفال لله والرسول فاتقوا الله واصلحوا ذات بينكم سورة الانفال آية 1 , فقسمها رسول الله صلى الله عليه وسلم على فواق بين المسلمين، قال:" وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اغار في ارض العدو نفل الربع، وإذا اقبل راجعا وكل الناس، نفل الثلث، وكان يكره الانفال، ويقول:" ليرد قوي المؤمنين على ضعيفهم" .حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَهِدْتُ مَعَهُ بَدْرًا، فَالْتَقَى النَّاسُ فَهَزَمَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى الْعَدُوَّ، فَانْطَلَقَتْ طَائِفَةٌ فِي آثَارِهِمْ يَهْزِمُونَ وَيَقْتُلُونَ، فَأَكَبَّتْ طَائِفَةٌ عَلَى الْعَسْكَرِ يَحْوُونَهُ وَيَجْمَعُونَهُ، وَأَحْدَقَتْ طَائِفَةٌ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُصِيبُ الْعَدُوُّ مِنْهُ غِرَّةً، حَتَّى إِذَا كَانَ اللَّيْلُ، وَفَاءَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، قَالَ الَّذِينَ جَمَعُوا الْغَنَائِمَ: نَحْنُ حَوَيْنَاهَا وَجَمَعْنَاهَا، فَلَيْسَ لِأَحَدٍ فِيهَا نَصِيبٌ، وَقَالَ الَّذِينَ خَرَجُوا فِي طَلَبِ الْعَدُوِّ: لَسْتُمْ بِأَحَقَّ بِهَا مِنَّا، نَحْنُ نَفَيْنَا عَنْهَا الْعَدُوَّ وَهَزَمْنَاهُمْ، وَقَالَ الَّذِينَ أَحْدَقُوا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَسْتُمْ بِأَحَقَّ بِهَا مِنَّا، نَحْنُ أَحْدَقْنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَخِفْنَا أَنْ يُصِيبَ الْعَدُوُّ مِنْهُ غِرَّةً وَاشْتَغَلْنَا بِهِ، فَنَزَلَتْ: يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ قُلِ الأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ سورة الأنفال آية 1 , فَقَسَمَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَوَاقٍ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ، قَالَ:" وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَغَارَ فِي أَرْضِ الْعَدُوِّ نَفَلَ الرُّبُعَ، وَإِذَا أَقْبَلَ رَاجِعًا وَكُلَّ النَّاسِ، نَفَلَ الثُّلُثَ، وَكَانَ يَكْرَهُ الْأَنْفَالَ، وَيَقُولُ:" لِيَرُدَّ قَوِيُّ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى ضَعِيفِهِمْ" .
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے میں غزوہ بدر میں شریک تھا فریقین کا آمنا سامنا ہوا تو اللہ نے دشمن کو شکت سے دوچار کردیا مسلمانوں کا ایک دستہ انہیں شکت دیتا ہوا قتل کرتا ہوا ان کے تعاقب میں چلا گیا اور ایک گروہ ان کے کیمپوں کی طرف متوجہ ہوا اور مال غنیمت جمع کرنے لگا اور ایک گروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتا رہا تاکہ دشمن اچانک حملہ کر کے انہیں نقصان نہ پہنچا سکے۔
جب رات ہوئی اور لوگ واپس آنے لگے تو مال غنیمت جمع کرنے والے کہنے لگے کہ یہ تو ہم نے جمع کیا ہے لہٰذا اس میں کسی کا حصہ نہیں ہے دشمن کی تلاش میں جانے والے کہنے لگے کہ تمہارا اس پر ہم سے زیادہ حق نہیں ہے ہم نے دشمن کو بھگا کر شکست سے دوچار کیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرنے والے کہنے لگے کہ تمہارا اس پر ہم سے زیادہ حق نہیں ہے ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی ہے کیونکہ ہمیں اندیشہ تھا کہ کہیں دشمن اچانک دھوکے سے ان پر حملہ نہ کر دے اور ہم غفلت میں پڑے رہ جائیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی، " یسألونک عن الأنفال۔۔۔۔ " چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تمام مسلمانوں کے درمیان برابر برابر تقسیم کردیا۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب دشمن کے علاقے پر حملہ فرماتے تھے تو چوتھائی حصہ انعام میں دے دیتے تھے اور جب وہاں سے واپس ہوتے تو تمام لوگوں میں ایک تہائی حصہ انعام میں تقسیم کردیتے تھے اس کے علاوہ انفال کو آپ نامناسب سمجھتے تھے اور فرماتے تھے طاقتور مسلمان کو کمزور کی مدد کرنی چاہیے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وإسناد هذا الحديث قد اختلف فيه على عبدالرحمن بن الحارث، وهذا ليس بذاك القوي
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شب قدر کے متعلق سوال کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ماہ رمضان میں ہوتی ہے اسے ماہ رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو کہ وہ اس کی طاق راتوں ٢١، ٢٣، ٣٥، ٢٧، ٢٩ ویں یا آخری رات میں ہوتی ہے اور جو شخص اس رات کو حاصل کرنے کے لئے ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کرے اور اسے یہ رات مل بھی جائے تو اس کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف ہوگئے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن دون قوله: أو فى آخر ليلة ، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالله بن محمد، ولجهالة عمر بن عبدالرحمن
حدثنا حيوة بن شريح , ويزيد بن عبد ربه , قالا: حدثنا بقية ، حدثني بحير بن سعد ، عن خالد بن معدان ، عن عمرو بن الاسود ، عن جنادة بن ابي امية انه حدثهم، عن عبادة بن الصامت , انه قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إني قد حدثتكم عن الدجال حتى خشيت ان لا تعقلوا، إن مسيح الدجال رجل قصير افحج، جعد اعور، مطموس العين ليس بناتئة ولا حجراء، فإن البس عليكم، قال يزيد: ربكم فاعلموا ان ربكم تبارك وتعالى ليس باعور، وانكم لن ترون ربكم تبارك وتعالى حتى تموتوا" , قال يزيد:" تروا ربكم حتى تموتوا".حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ , وَيَزِيدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ , قَالَا: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ ، حَدَّثَنِي بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ , أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنِّي قَدْ حَدَّثْتُكُمْ عَنِ الدَّجَّالِ حَتَّى خَشِيتُ أَنْ لَا تَعْقِلُوا، إِنَّ مَسِيحَ الدَّجَّالِ رَجُلٌ قَصِيرٌ أَفْحَجُ، جَعْدٌ أَعْوَرُ، مَطْمُوسُ الْعَيْنِ لَيْسَ بِنَاتِئَةٍ وَلَا حَجْراءَ، فَإِنْ أَلْبَسَ عَلَيْكُمْ، قَالَ يَزِيدُ: رَبَّكُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّ رَبَّكُمْ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَيْسَ بِأَعْوَرَ، وَأَنَّكُمْ لَنْ تَرَوْنَ رَبَّكُمْ تَبَارَكَ وَتَعَالَى حَتَّى تَمُوتُوا" , قَالَ يَزِيدُ:" تَرَوْا رَبَّكُمْ حَتَّى تَمُوتُوا".
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں دجال کے متعلق اتنی باتیں بتادی ہیں کہ مجھے خطرہ ہے کہیں تم بات سمجھے نہ ہو مسیح دجال ایک ٹھنگنے قد کا آدمی ہوگا، اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان میں غیر معمولی فاصلہ ہوگا اس کے بال گھنگھریالے ہوں گے وہ کانا ہوگا اس کی ایک آنکھ پونچھ دی گئی ہوگی، جو ابھری ہوگی اور نہ دھنسی ہوئی اگر تم پر اس کا معاملہ مشتبہ ہوجائے تو بس اتنی بات یاد رکھنا کہ تمہارا رب کانا نہیں ہے اور یہ کہ تم مرنے سے پہلے اپنے رب کو دیکھ نہیں سکتے۔
حدثنا حيوة بن شريح ، حدثنا بقية ، حدثني بحير بن سعد ، عن خالد بن معدان ، عن عبادة بن الصامت ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " ليلة القدر في العشر البواقي، من قامهن ابتغاء حسبتهن، فإن الله تبارك وتعالى يغفر له ما تقدم من ذنبه وما تاخر، وهي ليلة وتر تسع او سبع او خامسة او ثالثة او آخر ليلة" . وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن امارة ليلة القدر انها صافية بلجة، كان فيها قمرا ساطعا ساكنة ساجية، لا برد فيها ولا حر، ولا يحل لكوكب ان يرمى به فيها حتى تصبح، وإن امارتها ان الشمس صبيحتها تخرج مستوية ليس لها شعاع مثل القمر ليلة البدر، ولا يحل للشيطان ان يخرج معها يومئذ" .حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ ، حَدَّثَنِي بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَيْلَةُ الْقَدْرِ فِي الْعَشْرِ الْبَوَاقِي، مَنْ قَامَهُنَّ ابْتِغَاءَ حِسْبَتِهِنَّ، فَإِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَغْفِرُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، وَهِيَ لَيْلَةُ وِتْرٍ تِسْعٍ أَوْ سَبْعٍ أَوْ خَامِسَةٍ أَوْ ثَالِثَةٍ أَوْ آخِرِ لَيْلَةٍ" . وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَمَارَةَ لَيْلَةِ الْقَدْرِ أَنَّهَا صَافِيَةٌ بَلْجَةٌ، كَأَنَّ فِيهَا قَمَرًا سَاطِعًا سَاكِنَةٌ سَاجِيَةٌ، لَا بَرْدَ فِيهَا وَلَا حَرَّ، وَلَا يَحِلُّ لِكَوْكَبٍ أَنْ يُرْمَى بِهِ فِيهَا حَتَّى تُصْبِحَ، وَإِنَّ أَمَارَتَهَا أَنَّ الشَّمْسَ صَبِيحَتَهَا تَخْرُجُ مُسْتَوِيَةً لَيْسَ لَهَا شُعَاعٌ مِثْلَ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، وَلَا يَحِلُّ لِلشَّيْطَانِ أَنْ يَخْرُجَ مَعَهَا يَوْمَئِذٍ" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شب قدر ماہ رمضان کے آخری عشرے میں ہوتی ہے جو شخص اس کا ثواب حاصل کرنے کے لئے ان میں قیام کرے تو اللہ اس کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف فرما دے گا اور یہ طاق راتوں میں ہوتی ہے یعنی عشرہ اخیرہ کے نویں " ساتویں " پانچویں " تیسری یا آخری رات " نیز فرمایا کہ شب قدر کی علامت یہ ہے کہ وہ رات روشن اور چمکدار ہوتی ہے اس میں چاند کی روشنی بھی خوب اجلی ہوتی ہے وہ رات پرسکون اور گہری ہوتی ہے اس رات میں صبح تک ستارے توڑ کر نہیں مارے جاتے نیز اس کی علامت یہ ہے کہ اس کی صبح کو جب سورج روشن ہوتا ہے تو وہ سیدھا برابر نکلتا ہے جیسے چودھویں کا چاند ہوتا ہے اور اس کی کوئی شعاع نہیں ہوتی اور اس دن شیطان کے لئے سورج کے ساتھ نکلنا ممنوع ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: الشطر الأول من الحديث حسن، وأما الشطر الثاني فمحتمل للتحسين لشواهده، وإسناد هذا الحديث ضعيف، بقية يدلس تدليس التسوية، وخالد بن معدان لم من عبادة
حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا بشر بن عبد الله يعني ابن يسار السلمي ، قال: حدثني عبادة بن نسي ، عن جنادة بن ابي امية ، عن عبادة بن الصامت ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يشغل، فإذا قدم رجل مهاجر على رسول الله صلى الله عليه وسلم دفعه إلى رجل منا يعلمه القرآن، فدفع إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا، وكان معي في البيت اعشيه عشاء اهل البيت، فكنت اقرئه القرآن، فانصرف انصرافة إلى اهله، فراى ان عليه حقا، فاهدى إلي قوسا لم ار اجود منها عودا، ولا احسن منها عطفا، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: ما ترى يا رسول الله فيها؟ قال: " جمرة بين كتفيك تقلدتها او تعلقتها" .حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ يَسَارٍ السُّلَمِيَّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَادَةُ بْنُ نُسَيٍّ ، عَنْ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشْغَلُ، فَإِذَا قَدِمَ رَجُلٌ مُهَاجِرٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَفَعَهُ إِلَى رَجُلٍ مِنَّا يُعَلِّمُهُ الْقُرْآنَ، فَدَفَعَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا، وَكَانَ مَعِي فِي الْبَيْتِ أُعَشِّيهِ عَشَاءَ أَهْلِ الْبَيْتِ، فَكُنْتُ أُقْرِئُهُ الْقُرْآنَ، فَانْصَرَفَ انْصِرَافَةً إِلَى أَهْلِهِ، فَرَأَى أَنَّ عَلَيْهِ حَقًّا، فَأَهْدَى إِلَيَّ قَوْسًا لَمْ أَرَ أَجْوَدَ مِنْهَا عُودًا، وَلَا أَحْسَنَ مِنْهَا عِطْفًا، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: مَا تَرَى يَا رَسُولَ اللَّهِ فِيهَا؟ قَالَ: " جَمْرَةٌ بَيْنَ كَتِفَيْكَ تَقَلَّدْتَهَا أَوْ تَعَلَّقْتَهَا" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مصروفیات زیادہ تھیں اس لئے مہاجرین میں سے کوئی آدمی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے قرآن سکھانے کے لئے ہم میں سے کسی کے حوالے کردیتے تھے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو میرے حوالے کردیا وہ میرے ساتھ میرے گھر میں رہتا تھا اور میں اسے اپنے گھر والوں کے کھانے میں شریک کرتا تھا اور قرآن بھی پڑھاتا تھا جب وہ اپنے گھر واپس جانے لگا تو اس کے دل میں خیال آیا کہ اس پر میرا کچھ حق بنتا ہے چنانچہ اس نے مجھے ایک کمان ہدیئے میں پیش کی جس سے عمدہ لکڑی اور نرمی میں اس سے بہترین کمان میں نے پہلے نہیں دیکھی تھی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کے متعلق پوچھا یا رسول اللہ! آپ کی کیا رائے ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تمہارے کندھوں کے درمیان ایک انگارہ ہے جو تم نے لٹکا لیا ہے۔
حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا صفوان ، حدثني حميد بن عبد الرحمن اليزني ، ان رجلا سال عبادة بن الصامت عن قول الله: لهم البشرى في الحياة الدنيا سورة يونس آية 64 , فقال عبادة: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" لقد سالتني عن امر ما سالني عنه احد من امتي، تلك الرؤيا الصالحة يراها المؤمن او ترى له" .حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْيَزَنِيُّ ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ: لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا سورة يونس آية 64 , فَقَالَ عُبَادَةُ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ أَمْرٍ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِي، تِلْكَ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الْمُؤْمِنُ أَوْ تُرَى لَهُ" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس ارشادباری تعالیٰ " لہم البشری فی الحیاۃ الدنیا وفی الآخرہ " میں بشری کی تفسیر پوچھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے مراد اچھے خواب ہیں جو خود کوئی مسلمان دیکھے یا کوئی دوسرا مسلمان اس کے متعلق دیکھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن إن صح سماع حميد من عبادة
حدثنا ابو اليمان ، حدثنا ابن عياش ، عن عقيل بن مدرك السلمي ، عن لقمان بن عامر ، عن ابي راشد الحبراني ، عن عبادة بن الصامت ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من عبد الله لا يشرك به شيئا فاقام الصلاة، وآتى الزكاة، وسمع واطاع، فإن الله تعالى يدخله من اي ابواب الجنة شاء، ولها ثمانية ابواب، ومن عبد الله لا يشرك به شيئا، واقام الصلاة، وآتى الزكاة، وسمع وعصى، فإن الله تعالى من امره بالخيار، إن شاء رحمه، وإن شاء عذبه" .حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ عَقِيلِ بْنِ مُدْرِكٍ السُّلَمِيِّ ، عَنْ لُقْمَانَ بْنِ عَامِرٍ ، عَنْ أَبِي رَاشِدٍ الْحُبْرَانِيِّ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ عَبَدَ اللَّهَ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا فَأَقَامَ الصَّلَاةَ، وَآتَى الزَّكَاةَ، وَسَمِعَ وَأَطَاعَ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يُدْخِلُهُ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ شَاءَ، وَلَهَا ثَمَانِيَةُ أَبْوَابٍ، وَمَنْ عَبَدَ اللَّهَ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَأَقَامَ الصَّلَاةَ، وَآتَى الزَّكَاةَ، وَسَمِعَ وَعَصَى، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى مِنْ أَمْرِهِ بِالْخِيَارِ، إِنْ شَاءَ رَحِمَهُ، وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ کی عبادت اس طرح کرے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے " نماز قائم کرے " زکوٰۃ ادا کرے " بات سنے اور مانے " تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے داخل ہونے کا اختیار دیدے گا اور جو شخص اللہ کی عبادت تو اس طرح کرے کہ کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائے نماز بھی قائم کرے اور زکوٰۃ بھی ادا کرے اور بات بھی سنے لیکن نافرمانی کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے متعلق اختیار ہے کہ اگر چاہے تو اس پر رحم کر دے اور چاہے تو اسے سزا دے دے۔
حدثنا الحكم بن نافع ابو اليمان ، حدثنا إسماعيل بن عياش ، عن عبد الله بن عثمان بن خثيم ، حدثني إسماعيل بن عبيد الانصاري ، فذكر الحديث، فقال عبادة لابي هريرة: يا ابا هريرة، إنك لم تكن معنا إذ بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، إنا" بايعناه على السمع والطاعة في النشاط والكسل، وعلى النفقة في اليسر والعسر، وعلى الامر بالمعروف والنهي عن المنكر، وعلى ان نقول في الله تبارك وتعالى ولا نخاف لومة لائم فيه، وعلى ان ننصر النبي صلى الله عليه وسلم إذا قدم علينا يثرب، فنمنعه مما نمنع منه انفسنا وازواجنا وابناءنا ولنا الجنة، فهذه بيعة رسول الله صلى الله عليه وسلم التي بايعنا عليها، فمن نكث فإنما ينكث على نفسه، ومن اوفى بما بايع رسول الله، وفى الله تبارك وتعالى بما بايع عليه نبيه صلى الله عليه وسلم , فكتب معاوية إلى عثمان بن عفان: ان عبادة بن الصامت قد افسد علي الشام واهله، فإما تكن إليك عبادة، وإما اخلي بينه وبين الشام، فكتب إليه ان رحل عبادة حتى ترجعه إلى داره من المدينة، فبعث بعبادة حتى قدم المدينة، فدخل على عثمان في الدار، وليس في الدار غير رجل من السابقين او من التابعين، قد ادرك القوم، فلم يفجا عثمان إلا وهو قاعد في جنب الدار، فالتفت إليه، فقال: يا عبادة بن الصامت، ما لنا ولك؟ فقام عبادة بين ظهري الناس، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ابا القاسم محمدا صلى الله عليه وسلم، يقول:" إنه سيلي اموركم بعدي رجال يعرفونكم ما تنكرون، وينكرون عليكم ما تعرفون، فلا طاعة لمن عصى الله تبارك وتعالى، فلا تعتلوا بربكم" .حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ أَبُو الْيَمَانِ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُبَيْدٍ الْأَنْصَارِيُّ ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، فَقَالَ عُبَادَةُ لِأَبِي هُرَيْرَةَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، إِنَّكَ لَمْ تَكُنْ مَعَنَا إِذْ بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّا" بَايَعْنَاهُ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي النَّشَاطِ وَالْكَسَلِ، وَعَلَى النَّفَقَةِ فِي الْيُسْرِ وَالْعُسْرِ، وَعَلَى الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَعَلَى أَنْ نَقُولَ فِي اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَلَا نَخَافَ لَوْمَةَ لَائِمٍ فِيهِ، وَعَلَى أَنْ نَنْصُرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَدِمَ عَلَيْنَا يَثْرِبَ، فَنَمْنَعُهُ مِمَّا نَمْنَعُ مِنْهُ أَنْفُسَنَا وَأَزْوَاجَنَا وَأَبْنَاءَنَا وَلَنَا الْجَنَّةُ، فَهَذِهِ بَيْعَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي بَايَعْنَا عَلَيْهَا، فَمَنْ نَكَثَ فَإِنَّمَا يَنْكُثُ عَلَى نَفْسِهِ، وَمَنْ أَوْفَى بِمَا بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ، وَفَّى اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بِمَا بَايَعَ عَلَيْهِ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَكَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ: أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ قَدْ أَفْسَدَ عَلَيَّ الشَّامَ وَأَهْلَهُ، فَإِمَّا تُكِنُّ إِلَيْكَ عُبَادَةَ، وَإِمَّا أُخَلِّي بَيْنَهُ وَبَيْنَ الشَّامِ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ أَنْ رَحِّلْ عُبَادَةَ حَتَّى تُرْجِعَهُ إِلَى دَارِهِ مِنَ الْمَدِينَةِ، فَبَعَثَ بِعُبَادَةَ حَتَّى قَدِمَ الْمَدِينَةَ، فَدَخَلَ عَلَى عُثْمَانَ فِي الدَّارِ، وَلَيْسَ فِي الدَّارِ غَيْرُ رَجُلٍ مِنَ السَّابِقِينَ أَوْ مِنَ التَّابِعِينَ، قَدْ أَدْرَكَ الْقَوْمَ، فَلَمْ يَفْجَأْ عُثْمَانُ إِلَّا وَهُوَ قَاعِدٌ فِي جَنْبِ الدَّارِ، فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: يَا عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ، مَا لَنَا وَلَكَ؟ فَقَامَ عُبَادَةُ بَيْنَ ظَهْرَيْ النَّاسِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا الْقَاسِمِ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّهُ سَيَلِي أُمُورَكُمْ بَعْدِي رِجَالٌ يُعَرِّفُونَكُمْ مَا تُنْكِرُونَ، وَيُنْكِرُونَ عَلَيْكُمْ مَا تَعْرِفُونَ، فَلَا طَاعَةَ لِمَنْ عَصَى اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، فَلَا تَعْتَلُّوا بِرَبِّكُمْ" .
اسماعیل بن عبید انصاری رحمہ اللہ ایک حدیث ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ! آپ اس وقت ہمارے ساتھ نہ تھے جب ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر رہے تھے ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چستی اور سستی ہر حال میں بات سننے اور ماننے " کشادگی اور تنگی میں خرچ کرنے " امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے " اللہ کے متعلق صحیح بات کہنے اور اس معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہ کرنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ تشریف آوری پر ان کی مدد کرنے اور اپنی جان اور بیوی بچوں کی طرح ان کی حفاظت کرنے کی شرط پر بیعت کی تھی جس کے عوض ہم سے جنت کا وعدہ ہوا یہ ہے وہ بیعت جو ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کی ہے اب جو اسے توڑتا ہے وہ اپنا نقصان کرتا ہے اور جو اس بیعت کی پاسداری کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے کیا ہوا وعدہ پورا کرے گا۔
ادھرامیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی وجہ سے شام اور اہل شام میرے خلاف شورش برپا کر رہے ہیں اب یا تو آپ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس بلا لیجئے یا پھر میں ان کے اور شام کے درمیان سے ہٹ جاتا ہوں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس خط کے جواب میں انہیں لکھا کہ آپ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کو مکمل احترام کے ساتھ سوار کروا کر مدینہ منورہ میں ان کے گھر کی طرف روانہ کردو چنانچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں روانہ کردیا اور وہ مدینہ منورہ پہنچ گئے۔
وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے گھر چلے گئے جہاں سوائے ایک آدمی کے اگلے پچھلے لوگوں میں سے کوئی نہ تھا اس نے جماعت صحابہ رضی اللہ عنہ کو پایا تھا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جب آئے تو وہ مکان کے ایک کونے میں بیٹھے ہوئے تھے وہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا عبادہ! تمہارا اور ہمارا کیا معاملہ ہے؟ وہ لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر کہنے لگے۔
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے بعد ایسے لوگ تمہارے حکمران ہوں گے جو تمہیں ایسے کاموں کی پہچان کرائیں گے جنہیں تم ناپسند سمجھتے ہوگے اور ایسے کاموں کو ناپسند کریں گے جنہیں تم اچھا سمجھتے ہو گے سو جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے اس کی اطاعت ضروری نہیں اور تم اپنے رب سے نہ ہٹنا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن عياش ضعيف فى روايته عن غير أهل بلده، وهذا منها، وإسماعيل بن عبيد مجهول، وقد اختلف فى إسناده
حدثنا الحكم بن نافع ، حدثنا إسماعيل بن عياش ، عن يزيد بن سعيد ، عن ابي عطاء يزيد بن عطاء السكسكي ، عن معاذ بن سعد السكسكي ، عن جنادة بن ابي امية ، انه سمع عبادة بن الصامت يذكر , ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، ما مدة امتك من الرخاء؟ فلم يرد عليه شيئا، حتى ساله ثلاث مرار كل ذلك لا يجيبه، ثم انصرف الرجل، ثم إن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" اين السائل؟" فردوه عليه، فقال:" لقد سالتني عن شيء ما سالني عنه احد من امتي، مدة امتي من الرخاء مائة سنة" , قالها مرتين او ثلاثا، فقال الرجل: يا رسول الله، فهل لذلك من امارة او علامة او آية؟ فقال:" نعم، الخسف والرجف وإرسال الشياطين المجلبة على الناس" .حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي عَطَاءٍ يَزيدُ بْنُ عَطَاءُ السَّكْسَكِيِّ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ سَعْدٍ السَّكْسَكِيِّ ، عَنْ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ يَذْكُرُ , أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا مُدَّةُ أُمَّتِكَ مِنَ الرَّخَاءِ؟ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ شَيْئًا، حَتَّى سَأَلَهُ ثَلَاثَ مِرَارٍ كُلُّ ذَلِكَ لَا يُجِيبُهُ، ثُمَّ انْصَرَفَ الرَّجُلُ، ثُمَّ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَيْنَ السَّائِلُ؟" فَرَدُّوهُ عَلَيْهِ، فَقَالَ:" لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ شَيْءٍ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِي، مُدَّةُ أُمَّتِي مِنَ الرَّخَاءِ مِائَةُ سَنَةٍ" , قَالَهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَهَلْ لِذَلِكَ مِنْ أَمَارَةٍ أَوْ عَلَامَةٍ أَوْ آيَةٍ؟ فَقَالَ:" نَعَمْ، الْخَسْفُ وَالرَّجْفُ وَإِرْسَالُ الشَّيَاطِينِ الْمُجَلِّبَةِ عَلَى النَّاسِ" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! آپ کی امت پر آسانی کی مدت کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہیں دیا اس نے تین مرتبہ یہی سوال کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک مرتبہ بھی جواب نہ دیا یہاں تک کہ وہ واپس چلا گیا تھوڑی دیر بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ سائل کہاں ہے؟ لوگ اسے بلا لائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا تم نے مجھ سے ایسا سوال پوچھا ہے جو میری امت میں سے کسی نے نہیں پوچھا میری امت پر آسانی کی مدت سو سال ہے دو تین مرتبہ یہ بات دہرائی اس نے پوچھا کہ اس کے ختم ہونے کی کوئی علامت یا نشانی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! زمین میں دھنسنا زلزلے آنا اور شیاطین کو لوگوں پر مسلط کر دینا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى عطاء السكسكي ومعاذ بن سعد
حدثنا حدثنا الحكم بن نافع ، حدثنا إسماعيل بن عياش ، عن راشد بن داود الصنعاني ، عن عبد الرحمن بن حسان ، عن روح بن زنباع ، عن عبادة بن الصامت ، قال: فقد النبي صلى الله عليه وسلم ليلة اصحابه، وكانوا إذا نزلوا انزلوه اوسطهم، ففزعوا وظنوا ان الله تبارك وتعالى اختار له اصحابا غيرهم، فإذا هم بخيال النبي صلى الله عليه وسلم، فكبروا حين راوه، وقالوا: يا رسول الله، اشفقنا ان يكون الله تبارك وتعالى اختار لك اصحابا غيرنا! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا، بل انتم اصحابي في الدنيا والآخرة، إن الله تعالى ايقظني، فقال: يا محمد، إني لم ابعث نبيا ولا رسولا إلا وقد سالني مسالة اعطيتها إياه، فاسال يا محمد تعط، فقلت: مسالتي شفاعة لامتي يوم القيامة" , فقال ابو بكر: يا رسول الله، وما الشفاعة؟ قال:" اقول: يا رب، شفاعتي التي اختبات عندك، فيقول الرب تبارك وتعالى: نعم , فيخرج ربي تبارك وتعالى بقية امتي من النار، فينبذهم في الجنة" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ دَاوُدَ الصَّنْعَانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ رَوْحِ بْنِ زِنْبَاعٍ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: فَقَدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً أَصْحَابُهُ، وَكَانُوا إِذَا نَزَلُوا أَنْزَلُوهُ أَوْسَطَهُمْ، فَفَزِعُوا وَظَنُّوا أَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى اخْتَارَ لَهُ أَصْحَابًا غَيْرَهُمْ، فَإِذَا هُمْ بِخَيَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَبَّرُوا حِينَ رَأَوْهُ، وَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَشْفَقْنَا أَنْ يَكُونَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى اخْتَارَ لَكَ أَصْحَابًا غَيْرَنَا! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا، بَلْ أَنْتُمْ أَصْحَابِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَيْقَظَنِي، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي لَمْ أَبْعَثْ نَبِيًّا وَلَا رَسُولًا إِلَّا وَقَدْ سَأَلَنِي مَسْأَلَةً أَعْطَيْتُهَا إِيَّاهُ، فَاسْأَلْ يَا مُحَمَّدُ تُعْطَ، فَقُلْتُ: مَسْأَلَتِي شَفَاعَةٌ لِأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ" , فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الشَّفَاعَةُ؟ قَالَ:" أَقُولُ: يَا رَبِّ، شَفَاعَتِي الَّتِي اخْتَبَأْتُ عِنْدَكَ، فَيَقُولُ الرَّبُّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: نَعَمْ , فَيُخْرِجُ رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى بَقِيَّةَ أُمَّتِي مِنَ النَّارِ، فَيَنْبِذُهُمْ فِي الْجَنَّةِ" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک رات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ ملے حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول تھا کہ جب کسی جگہ پڑاؤ کرتے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے درمیان رکھتے تھے لوگ گھبرا گئے اور یہ گمان کرنے لگے کہ شاید اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ہمارے علاوہ کچھ اور ساتھیوں کا انتخاب فرما لیا ہے ابھی وہ انہی تفکرات میں غلطاں و بیچاں تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آتے ہوئے دکھائی دیئے لوگوں نے خوشی سے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور عرض کیا یا رسول اللہ! ہم تو ڈر ہی گئے تھے کہ کہیں اللہ نے ہمارے علاوہ آپ کے لئے کچھ اور ساتھیوں کا انتخاب نہ فرما لیا ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسی بات نہیں ہے بلکہ تم دنیا و آخرت میں میرے ساتھی ہو بات در اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جگا کر فرمایا اے محمد! میں نے جو بھی نبی یا رسول بھیجا اس نے ایک سوال کیا جو میں نے پورا کردیا اس لئے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ بھی مجھ سے مانگئے آپ کو بھی دیا جائے گا میں نے عرض کیا کہ میری درخواست یہ ہے کہ قیامت کے دن میری امت کے حق میں مجھے سفارش کی اجازت دی جائے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ! اس شفاعت کا ثمرہ کیا ہوگا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں بارگاہ الٰہی میں عرض کروں گا کہ پروردگار! میری وہ سفارش جو میں نے آپ کے پاس محفوظ کروائی تھی؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہاں! پھر میرا پروردگار میری بقیہ امت کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، راشد بن داود لين الحديث
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان کا گھر اس کا حرم ہوتا ہے جو آدمی تمہارے حرم میں (بلا اجازت) گھسنے کی کو شس کرے اسے مار ڈالو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير، ومحمد بن سيرين لم يسمع من عبادة
ایک مرتبہ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے نقباء کے نام شمار کروائے تو ان میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کا نام بھی لیا اور کہا کہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ بیعت عقبہ عزوہ بدر، احد اور بیعت رضوان میں شریک ہوئے اور وہ نقباء میں سے تھے۔
قرات على يعقوب بن إبراهيم ، عن ابيه ، عن ابن إسحاق ، قال: " عبادة بن الصامت بن قيس بن اصرم بن فهر بن ثعلبة بن غنم بن عوف بن الخزرج، في الاثني عشر الذين بايعوا رسول الله صلى الله عليه وسلم في العقبة الاولى" .قَرَأْتُ عَلَى يَعْقُوبَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: " عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ أَصْرَمَ بْنِ فِهْرِ بْنِ ثَعْلَبَةَ بْنِ غَنْم بْنِ عُوْف بْنِ الخَزْرَج، فِي الِاثْنَيْ عَشَرَ الَّذِينَ بَايَعُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعَقَبَةِ الْأُولَى" .
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بن قیس بن اصرام بن فہر بن ثعلبہ بن غنم بن عوف بن خزرج، ان بارہ افراد میں سے تھے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقبہ کی بیعت اولیٰ میں شرکت کی تھی۔
حدثنا عبد الله، حدثنا يحيى بن عثمان ابو زكريا البصري الحربي ، حدثنا إسماعيل بن عياش ، عن ابي بكر بن عبد الله ، عن ابي سلام ، عن المقدام بن معدي كرب الكندي , انه جلس مع عبادة بن الصامت , وابي الدرداء , والحارث بن معاوية الكندي، فتذاكروا حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال ابو الدرداء لعبادة: يا عبادة، كلمات رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة كذا في شان الاخماس، فقال عبادة: قال إسحاق يعني ابن عيسى في حديثه: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى بهم في غزوته إلى بعير من المقسم، فلما سلم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فتناول وبرة بين انملتيه، فقال:" إن هذه من غنائمكم، وإنه ليس لي فيها إلا نصيبي معكم إلا الخمس، والخمس مردود عليكم، فادوا الخيط والمخيط، واكبر من ذلك واصغر، لا تغلوا فإن الغلول نار وعار على اصحابه في الدنيا والآخرة، وجاهدوا الناس في الله تبارك وتعالى القريب والبعيد، ولا تبالوا في الله لومة لائم، واقيموا حدود الله في الحضر والسفر، وجاهدوا في سبيل الله، فإن الجهاد باب من ابواب الجنة عظيم، ينجي الله تبارك وتعالى به من الهم والغم" ..حَدَّثَنَا عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عُثْمَانَ أَبُو زَكَرِيَّا الْبَّصْرِيُّ الْحَرْبِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيّ , أَنَّهُ جَلَسَ مَعَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ , وَأَبِي الدَّرْدَاءِ , وَالْحَارِثِ بْنِ مُعَاوِيَةَ الْكِنْدِيِّ، فَتَذَاكَرُوا حَدِيثَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ لِعُبَادَةَ: يَا عُبَادَةُ، كَلِمَاتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ كَذَا فِي شَأْنِ الْأَخْمَاسِ، فَقَالَ عُبَادَةُ: قَالَ إِسْحَاقُ يَعْنِي ابْنَ عِيسَى فِي حَدِيثِهِ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِهِمْ فِي غَزْوَتِهِ إِلَى بَعِيرٍ مِنَ الْمُقَسَّمِ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَنَاوَلَ وَبَرَةً بَيْنَ أُنْمُلَتَيْهِ، فَقَالَ:" إِنَّ هَذِهِ مِنْ غَنَائِمِكُمْ، وَإِنَّهُ لَيْسَ لِي فِيهَا إِلَّا نَصِيبِي مَعَكُمْ إِلَّا الْخُمُسُ، وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَيْكُمْ، فَأَدُّوا الْخَيْطَ وَالْمَخِيطَ، وَأَكْبَرَ مِنْ ذَلِكَ وَأَصْغَرَ، لَا تَغُلُّوا فَإِنَّ الْغُلُولَ نَارٌ وَعَارٌ عَلَى أَصْحَابِهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَجَاهِدُوا النَّاسَ فِي اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى الْقَرِيبَ وَالْبَعِيدَ، وَلَا تُبَالُوا فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ، وَأَقِيمُوا حُدُودَ اللَّهِ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ، وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَإِنَّ الْجِهَادَ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ عَظِيمٌ، يُنَجِّي اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بِهِ مِنَ الْهَمِّ وَالْغَمِّ" ..
حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ ابو درداء اور حارث بن معاویہ رضی اللہ عنہ بیٹھے احادیث کا مذاکرہ کر رہے تھے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے عبادہ! فلاں فلاں غزوے میں خمس کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا باتیں کہی تھیں؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس غزوے میں مال غنیمت کے ایک اونٹ کو بطور سترہ سامنے کھڑے کر کے نماز پڑھائی جب سلام پھیر کر فارغ ہوئے تو کھڑے ہو کر اس کی اون اپنی دو انگلیوں کے درمیان لے کر فرمایا یہ تمہارا مال غنیمت ہے اور خمس کے علاوہ اس میں میرا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا تمہارا ہے اور خمس بھی تم ہی پر لوٹا دیا جاتا ہے لہٰذا اگر کسی کے پاس سوئی دھاگہ بھی ہو تو وہ لے آئے یا اس سے بڑی اور چھوٹی چیز ہو تو وہ بھی واپس کر دے اور مال غنیمت میں خیانت نہ کرو، کیونکہ خیانت دنیا و آخرت میں خائن کے لئے آگ اور شرمندگی کا سبب ہوگی اور لوگوں سے اللہ کے راستہ میں جہاد کیا کرو کہ خواہ وہ قریب ہوں یا دور اور اللہ کے حوالے سے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کیا کرو اور سفر و حضر میں اللہ کی حدود قائم رکھا کرو اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو کیونکہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ انسان کو غم اور پریشانی سے نجات عطا فرماتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى بكر بن عبدالله، والمقدام بن معدي كرب خطأ، صوابه: مقدام الرهاوي، فهو مجهول
حدثنا عبد الله حدثنا ابو كامل الجحدري حدثنا الفضيل بن سليمان حدثنا موسى بن عقبة عن إسحاق بن يحيى بن الوليد بن عبادة بن الصامت عن عبادة قال إن من قضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم ان المعدن جبار والبئر جبار والعجماء جرحها جبار والعجماء البهيمة من الانعام وغيرها والجبار هو الهدر الذي لا يغرم وقضى في الركاز الخمس وقضى ان تمر النخل لمن ابرها إلا ان يشترط المبتاع وقضى ان مال المملوك لمن باعه إلا ان يشترط المبتاع وقضى ان الولد للفراش وللعاهر الحجر وقضى بالشفعة بين الشركاء في الارضين والدور وقضى لحمل بن مالك الهذلي بميراثه عن امراته التي قتلتها الاخرى وقضى في الجنين المقتول بغرة عبد او امة قال فورثها بعلها وبنوها قال وكان له من امراتيه كلتيهما ولد قال فقال ابو القاتلة المقضي عليه يا رسول الله كيف اغرم من لا صاح ولا استهل ولا شرب ولا اكل فمثل ذلك بطل فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا من الكهان قال وقضى في الرحبة تكون بين الطريق ثم يريد اهلها البنيان فيها فقضى ان يترك للطريق فيها سبع اذرع قال وكان تلك الطريق سمي الميتاء وقضى في النخلة او النخلتين او الثلاث فيختلفون في حقوق ذلك فقضى ان لكل نخلة من اولئك مبلغ جريدتها حيز لها وقضى في شرب النخل من السيل ان الاعلى يشرب قبل الاسفل ويترك الماء إلى الكعبين ثم يرسل الماء إلى الاسفل الذي يليه فكذلك ينقضي حوائط او يفنى الماء وقضى ان المراة لا تعطي من مالها شيئا إلا بإذن زوجها وقضى للجدتين من الميراث بالسدس بينهما بالسواء وقضى ان من اعتق شركا في مملوك فعليه جواز عتقه إن كان له مال وقضى ان لا ضرر ولا ضرار وقضى انه ليس لعرق ظالم حق وقضى بين اهل المدينة في النخل لا يمنع نفع بئر وقضى بين اهل المدينة انه لا يمنع فضل ماء ليمنع فضل الكلإ وقضى في دية الكبرى المغلظة ثلاثين ابنة لبون وثلاثين حقة واربعين خلفة وقضى في دية الصغرى ثلاثين ابنة لبون وثلاثين حقة وعشرين ابنة مخاض وعشرين بني مخاض ذكورا ثم غلت الإبل بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم وهانت الدراهم فقوم عمر بن الخطاب إبل المدينة ستة آلاف درهم حساب اوقية لكل بعير ثم غلت الإبل وهانت الورق فزاد عمر بن الخطاب الفين حساب اوقيتين لكل بعير ثم غلت الإبل وهانت الدراهم فاتمها عمر اثني عشر الفا حساب ثلاث اواق لكل بعير قال فزاد ثلث الدية في الشهر الحرام وثلث آخر في البلد الحرام قال فتمت دية الحرمين عشرين الفا قال فكان يقال يؤخذ من اهل البادية من ماشيتهم لا يكلفون الورق ولا الذهب ويؤخذ من كل قوم ما لهم قيمة العدل من اموالهمحَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ يَحْيَى بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ عَنْ عُبَادَةَ قَالَ إِنَّ مِنْ قَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْمَعْدِنَ جُبَارٌ وَالْبِئْرَ جُبَارٌ وَالْعَجْمَاءَ جَرْحُهَا جُبَارٌ وَالْعَجْمَاءُ الْبَهِيمَةُ مِنْ الْأَنْعَامِ وَغَيْرِهَا وَالْجُبَارُ هُوَ الْهَدَرُ الَّذِي لَا يُغَرَّمُ وَقَضَى فِي الرِّكَازِ الْخُمُسَ وَقَضَى أَنَّ تَمْرَ النَّخْلِ لِمَنْ أَبَّرَهَا إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ وَقَضَى أَنَّ مَالَ الْمَمْلُوكِ لِمَنْ بَاعَهُ إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ وَقَضَى أَنَّ الْوَلَدَ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرَ وَقَضَى بِالشُّفْعَةِ بَيْنَ الشُّرَكَاءِ فِي الْأَرَضِينَ وَالدُّورِ وَقَضَى لِحَمَلِ بْنِ مَالِكٍ الْهُذَلِيِّ بِمِيرَاثِهِ عَنْ امْرَأَتِهِ الَّتِي قَتَلَتْهَا الْأُخْرَى وَقَضَى فِي الْجَنِينِ الْمَقْتُولِ بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ قَالَ فَوَرِثَهَا بَعْلُهَا وَبَنُوهَا قَالَ وَكَانَ لَهُ مِنْ امْرَأَتَيْهِ كِلْتَيْهِمَا وَلَدٌ قَالَ فَقَالَ أَبُو الْقَاتِلَةِ الْمَقْضِيُّ عَلَيْهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ أُغْرِمَ مَنْ لَا صَاحَ وَلَا اسْتَهَلَّ وَلَا شَرِبَ وَلَا أَكَلَ فَمِثْلُ ذَلِكَ بَطَلَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا مِنْ الْكُهَّانِ قَالَ وَقَضَى فِي الرَّحَبَةِ تَكُونُ بَيْنَ الطَّرِيقِ ثُمَّ يُرِيدُ أَهْلُهَا الْبُنْيَانَ فِيهَا فَقَضَى أَنْ يُتْرَكَ لِلطَّرِيقِ فِيهَا سَبْعُ أَذْرُعٍ قَالَ وَكَانَ تِلْكَ الطَّرِيقُ سُمِّيَ الْمِيتَاءُ وَقَضَى فِي النَّخْلَةِ أَوْ النَّخْلَتَيْنِ أَوْ الثَّلَاثِ فَيَخْتَلِفُونَ فِي حُقُوقِ ذَلِكَ فَقَضَى أَنَّ لِكُلِّ نَخْلَةٍ مِنْ أُولَئِكَ مَبْلَغَ جَرِيدَتِهَا حَيِّزٌ لَهَا وَقَضَى فِي شُرْبِ النَّخْلِ مِنْ السَّيْلِ أَنَّ الْأَعْلَى يَشْرَبُ قَبْلَ الْأَسْفَلِ وَيُتْرَكُ الْمَاءُ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ثُمَّ يُرْسَلُ الْمَاءُ إِلَى الْأَسْفَلِ الَّذِي يَلِيهِ فَكَذَلِكَ يَنْقَضِي حَوَائِطُ أَوْ يَفْنَى الْمَاءُ وَقَضَى أَنَّ الْمَرْأَةَ لَا تُعْطِي مِنْ مَالِهَا شَيْئًا إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا وَقَضَى لِلْجَدَّتَيْنِ مِنْ الْمِيرَاثِ بِالسُّدُسِ بَيْنَهُمَا بِالسَّوَاءِ وَقَضَى أَنَّ مَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا فِي مَمْلُوكٍ فَعَلَيْهِ جَوَازُ عِتْقِهِ إِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ وَقَضَى أَنْ لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ وَقَضَى أَنَّهُ لَيْسَ لِعِرْقٍ ظَالِمٍ حَقٌّ وَقَضَى بَيْنَ أَهْلِ الْمَدِينَةِ فِي النَّخْلِ لَا يُمْنَعُ نَفْعُ بِئْرٍ وَقَضَى بَيْنَ أَهْلِ الْمَدِينَةِ أَنَّهُ لَا يُمْنَعُ فَضْلُ مَاءٍ لِيُمْنَعَ فَضْلُ الْكَلَإِ وَقَضَى فِي دِيَةِ الْكُبْرَى الْمُغَلَّظَةِ ثَلَاثِينَ ابْنَةَ لَبُونٍ وَثَلَاثِينَ حِقَّةً وَأَرْبَعِينَ خَلِفَةً وَقَضَى فِي دِيَةِ الصُّغْرَى ثَلَاثِينَ ابْنَةَ لَبُونٍ وَثَلَاثِينَ حِقَّةً وَعِشْرِينَ ابْنَةَ مَخَاضٍ وَعِشْرِينَ بَنِي مَخَاضٍ ذُكُورًا ثُمَّ غَلَتِ الْإِبِلُ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهَانَتْ الدَّرَاهِمُ فَقَوَّمَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِبِلَ الْمَدِينَةِ سِتَّةَ آلَافِ دِرْهَمٍ حِسَابُ أُوقِيَّةٍ لِكُلِّ بَعِيرٍ ثُمَّ غَلَتِ الْإِبِلُ وَهَانَتْ الْوَرِقُ فَزَادَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَلْفَيْنِ حِسَابَ أُوقِيَّتَيْنِ لِكُلِّ بَعِيرٍ ثُمَّ غَلَتِ الْإِبِلُ وَهَانَتْ الدَّرَاهِمُ فَأَتَمَّهَا عُمَرُ اثْنَيْ عَشَرَ أَلْفًا حِسَابَ ثَلَاثِ أَوَاقٍ لِكُلِّ بَعِيرٍ قَالَ فَزَادَ ثُلُثُ الدِّيَةِ فِي الشَّهْرِ الْحَرَامِ وَثُلُثٌ آخَرُ فِي البَلَدِ الْحَرَامِ قَالَ فَتَمَّتْ دِيَةُ الْحَرَمَيْنِ عِشْرِينَ أَلْفًا قَالَ فَكَانَ يُقَالُ يُؤْخَذُ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ مِنْ مَاشِيَتِهِمْ لَا يُكَلَّفُونَ الْوَرِقَ وَلَا الذَّهَبَ وَيُؤْخَذُ مِنْ كُلِّ قَوْمٍ مَا لَهُمْ قِيمَةُ الْعَدْلِ مِنْ أَمْوَالِهِمْ
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں میں یہ فیصلہ بھی شامل ہے کہ کان کنی کرتے ہوئے مارے جانے والے کا خون ضائع گیا کنوئیں میں گر کر مرنے والے کا خون رائیگاں گیا اور جانور کے زخم سے مرجانے والے کا خون رائیگاں گیا نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دفینے کے متعلق بیت المال کے لئے خمس کا فیصلہ فرمایا ہے۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ درخت کی کھجوریں پیوندکاری کرنے والے کی ملکیت میں ہوں گی الاّ یہ کہ مشتری (خریدنے والا) شرط لگا دے۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ غلام کا مال اسے بیچنے والے آقا کی ملکیت تصور ہوگا۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ بچہ بستر والے کا ہوگا اور بدکار کیلئے پتھر ہوں گے۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ زمینوں اور مکانات میں شریک افراد کو حق شفعہ حاصل ہے۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ حمل بن مالک رضی اللہ عنہ کو ان کی اس بیوی کی وراثت ملے گی جسے دوسری عورت نے مار دیا تھا۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ پیٹ کے بچے کو مار ڈالنے کی صورت میں قاتل پر ایک غلام یا باندی واجب ہوگی جس کا وارث مقتولہ عورت کا شوہر اور بیٹے ہوں گے حمل بن مالک رضی اللہ عنہ کے یہاں دونوں بیویوں سے اولاد تھی تو قاتلہ کے باپ نے جس کے خلاف فیصلہ ہوا تھا "" نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! میں اس بچے کا تاوان کیونکر ادا کروں جو چیخا نہ چلایا "" جس نے کچھ کھایا اور نہ پیا ایسی چیزوں کو تو چھوڑ دیا جاتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کاہنوں میں سے ہے (جو مسجع اور مقفی عبارتیں بولتا ہے) نیز راستے کے درمیان وہ کشادہ حصہ جہاں مالکان اپنی تعمیر بڑھانا چاہتے ہیں اس کے متعلق یہ فیصلہ فرمایا کہ اس میں سے راستے کے لئے سات گز (چوڑائی) کی جگہ چھوڑ دی جائے اور اس راستے کو "" میتاء "" کا نام دیا جائے۔ (مردہ بےآباد ') نیز ایک دو یا تین باغات میں جن کے حقوق میں لوگوں کا اختلاف ہوگیا یہ فیصلہ فرمایا کہ ان میں سے ہر باغ یا درخت کی شاخیں جہاں تک پہنچتی ہیں وہ جگہ اس باغ میں شامل ہوگئی۔ نیز باغات میں پانی کی نالیوں کے متعلق یہ فیصلہ کہ پہلے والا اپنی زمین کو دوسرے والے سے پہلے سیراب کرے گا اور پانی کو ٹخنوں تک آنے دے گا اس کے بعد اپنے ساتھ والے کے لئے پانی چھوڑ دے گا یہاں تک کہ اسی طرح باغات ختم ہوجائیں یا پانی ختم ہوجائے۔ نیز یہ فیصلہ فرمایا کہ عورت اپنے مال میں سے کوئی چیز اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کو نہ دے۔ نیز یہ فیصلہ فرمایا کہ دو وادیوں کو میراث میں ایک چھٹا حصہ برابر برابر تقسیم ہوگا۔ نیز یہ فیصلہ فرمایا کہ جو شخص کسی غلام میں اپنے حصے کو ختم کر کے اسے آزاد کرتا ہے اور اس کے پاس مال ہو تو اس پر ضروری ہے کہ اسے مکمل آزادی دلائے۔ نیز یہ فیصلہ فرمایا کہ کوئی شخص ضرر اٹھائے اور نہ کسی کو ضرر پہنچائے۔ نیز یہ فیصلہ فرمایا کہ ظالم کی رگ کا کوئی حق نہیں ہے۔ نیز یہ فیصلہ فرمایا کہ شہر والے کھجور کے باغات میں کنوئیں کا جمع شدہ پانی لگانے سے نہیں روکے جائیں گے۔ نیز یہ فیصلہ فرمایا کہ دیہات والوں کو زائد پانی لینے سے نہیں روکا جائے گا کہ اس کے ذریعے زائد گھاس سے روکا جا سکے۔ نیز یہ فیصلہ فرمایا کہ دیت کبری مغلظہ تیس بنت لبون تیس حقوق اور چالیس حاملہ اونٹنیوں پر مشتمل ہوگی۔ نیزیہ فیصلہ فرمایا کہ دیت صغری تیس بنت لبون تیس حقوق اور بیس بنت مخاض اور بیس مذکر ابن مخاض پر مشتمل ہوگی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعدجب اونٹ مہنگے ہوگئے اور درہم ایک معمولی چیز بن کر رہ گئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دیت کے اونٹوں کی قیمت چھ ہزار درہم مقرر فرمادی جس میں ہر اونٹ کے بدلے میں ایک اوقیہ چاندی کا حساب رکھا گیا تھا کچھ عرصے بعد اونٹ مزید مہنگے ہوگئے اور دراہم مزید کم حیثیت ہوگئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہر اونٹ کے دو اوقیے حساب سے دو ہزار درہم کا اضافہ کرایا کچھ عرصے بعد مزید مہنگے ہوگئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہر اونٹ کے تین اوقیے کے حساب سے دیت کی رقم مکمل بارہ ہزار درہم مقرر کردی جس میں ایک تہائی دیت کا اضافہ اشہر حرم میں ہوا اور دوسری تہائی کا اضافہ بلد حرام (مکہ مکرمہ) میں ہوا اور یوں حرمین کی دیت مکمل بیس ہزار درہم ہوگئی اور کہا جاتا تھا کہ دیہاتیوں سے دیت میں جانور بھی لئے جاسکتے ہیں انہیں سونے اور چاندی کا مکلف نہ بنایا جائے اسی طرح ہر قوم سے اس کی قیمت کے برابر مالیت کی چیزیں لی جاسکتی ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، الفضيل ابن سليمان لين الحديث، وإسحاق بن يحيى مجهول الحال، ثم روايته عن جده منطقعة ، والحديث لكثير منه شواهد صحيحة
حدثنا عبد الله حدثنا الصلت بن مسعود حدثنا الفضيل بن سليمان حدثنا موسى بن عقبة عن إسحاق بن الوليد بن عبادة بن الصامت عن عبادة قال إن من قضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم المعدن جبار وذكر نحو حديث ابي كامل بطوله غير انهما اختلفا في الإسناد فقال ابو كامل في حديثه عن إسحاق بن يحيى بن الوليد بن عبادة ان عبادة قال من قضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال الصلت عن إسحاق بن الوليد بن عبادة عن عبادة ان من قضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم وذكر الحديثحَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مَسْعُودٍ حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ عَنْ عُبَادَةَ قَالَ إِنَّ مِنْ قَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَعْدِنُ جُبَارٌ وَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي كَامِلٍ بِطُولِهِ غَيْرَ أَنَّهُمَا اخْتَلَفَا فِي الْإِسْنَادِ فَقَالَ أَبُو كَامِلٍ فِي حَدِيثِهِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ يَحْيَى بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ أَنَّ عُبَادَةَ قَالَ مِنْ قَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ الصَّلْتُ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ عَنْ عُبَادَةَ أَنَّ مِنْ قَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرَ الْحَدِيثَ
حدثنا عبد الله، حدثنا شيبان بن ابي شيبة ، حدثنا جرير بن حازم ، حدثنا الحسن ، قال: قال عبادة بن الصامت : نزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم: واللاتي ياتين الفاحشة سورة النساء آية 15 , إلى آخر الآية، قال: ففعل ذلك بهن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فبينما رسول الله صلى الله عليه وسلم جالس ونحن حوله،" وكان إذا نزل عليه الوحي، اعرض عنا، واعرضنا عنه، وتربد وجهه، وكرب لذلك، فلما رفع عنه الوحي، قال:" خذوا عني" , قلنا: نعم يا رسول الله , قال:" قد جعل الله لهن سبيلا، البكر بالبكر جلد مائة ونفي سنة، والثيب بالثيب جلد مائة ثم الرجم" , قال الحسن: فلا ادري امن الحديث هو ام لا , قال:" فإن شهدوا انهما وجدا في لحاف لا يشهدون على جماع خالطها به جلد مائة، وجزت رءوسهما.حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ ، قَالَ: قَالَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ : نَزَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ سورة النساء آية 15 , إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، قَالَ: فَفَعَلَ ذَلِكَ بِهِنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ وَنَحْنُ حَوْلَهُ،" وَكَانَ إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ، أَعْرَضَ عَنَّا، وَأَعْرَضْنَا عَنْهُ، وَتَرَبَّدَ وَجْهُهُ، وَكَرَبَ لِذَلِكَ، فَلَمَّا رُفِعَ عَنْهُ الْوَحْيُ، قَالَ:" خُذُوا عَنِّي" , قُلْنَا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا، الْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ وَنَفْيُ سَنَةٍ، وَالثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ جَلْدُ مِائَةٍ ثُمَّ الرَّجْمُ" , قَالَ الْحَسَنُ: فَلَا أَدْرِي أَمِنَ الْحَدِيثِ هُوَ أَمْ لَا , قَالَ:" فَإِنْ شَهِدُوا أَنَّهُمَا وُجِدَا فِي لِحَافٍ لَا يَشْهَدُونَ عَلَى جِمَاعٍ خَالَطَهَا بِهِ جَلْدُ مِائَةٍ، وَجُزَّتْ رُءُوسُهُمَا.
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی وہ عورتیں جو بےحیائی کا کام کریں۔۔۔۔۔۔۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں کے ساتھ یہی سلوک کیا ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے ہم بھی ان کے گرد بیٹھے ہوئے تھے (کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے لگی) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب بھی وحی نازل ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ ہماری طرف سے ہٹ جاتی اور ہم بھی ہٹ جاتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ انور کا رنگ بدل جاتا اور سخت تکلیف ہوتی تھی، بہر حال! جب وحی کی کیفیت ختم ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے یہ بات حاصل کرلو مجھ سے یہ بات حاصل کرلو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے یہ راستہ متعین کردیا ہے کہ اگر کوئی کنوارہ لڑکا کنواری لڑکی کے ساتھ بدکاری کرے تو اسے سو کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے اور اگر شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ بدکاری کرے تو اسے سو کوڑے مارے جائیں اور رجم بھی کیا جائے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1690 دون قوله فى آخره: فإن شهدوا ..... ، وهذا إسناد منقطع، الحسن البصري لم يسمع من عبادة ابن الصامت
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص بھی دس آدمیوں کا امیر رہا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے ہاتھ بندھے ہوں گے جنہیں اس کے عدل کے علاوہ کوئی چیز نہیں کھول سکے گی اور جس شخص نے قرآن کریم سیکھا پھر اسے بھول گیا تو وہ اللہ سے کوڑھی بن کر ملے گا۔
حكم دارالسلام: صحيح الغيره دون قوله: ومن تعلم القرآن ..... وهذا إسناد ضعيف يزيد بن أبى زياد ضعيف، وعيسي مجهول، وروايته عن الصحابة مرسلة
حدثنا عبد الله، حدثنا ابو احمد مخلد بن الحسن بن ابي زميل إملاء من كتابه، حدثنا الحسن بن عمرو بن يحيى الفزاري ويكنى ابا عبد الله ولقبه ابو المليح يعني الرقي , عن حبيب بن ابي مرزوق ، عن عطاء بن ابي رباح ، عن ابي مسلم ، قال: دخلت مسجد حمص، فإذا فيه حلقة فيها اثنان وثلاثون رجلا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: وفيهم شاب اكحل براق الثنايا، محتب، فإذا اختلفوا في شيء سالوه فاخبرهم، فانتهوا إلى خبره، قال: قلت: من هذا؟ قالوا: هذا معاذ بن جبل قال: فقمت إلى الصلاة، قال: فاردت ان القى بعضهم، فلم اقدر على احد منهم، انصرفوا، فلما كان الغد دخلت، فإذا معاذ يصلي إلى سارية، قال: فصليت عنده، فلما انصرف جلست بيني وبينه السارية، ثم احتبيت فلبثت ساعة لا اكلمه ولا يكلمني، قال: ثم قلت: والله إني لاحبك لغير دنيا ارجوها اصيبها منك، ولا قرابة بيني وبينك، قال: فلاي شيء؟ قال: قلت: لله تبارك وتعالى , قال: فنثر حبوتي، ثم قال: فابشر إن كنت صادقا، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " المتحابون في الله تبارك وتعالى في ظل العرش يوم لا ظل إلا ظله، يغبطهم بمكانهم النبيون والشهداء" . قال: ثم خرجت فالقى عبادة بن الصامت، قال: فحدثته بالذي حدثني معاذ، قال: ثم خرجت فالقى عبادة بن الصامت، قال: فحدثته بالذي حدثني معاذ، فقال عبادة : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يروي عن ربه تبارك وتعالى، انه قال: " حقت محبتي على المتحابين في، وحقت محبتي على المتناصحين في، على منابر من نور، يغبطهم بمكانهم النبيون والصديقون" .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مَخْلَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ أَبِي زُمَيْلٍ إِمْلَاءً مِنْ كِتَابِهِ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى الْفَزَارِيُّ وَيُكْنَى أَبَا عَبْدِ اللَّهِ وَلَقَبُهُ أَبُو الْمَلِيحِ يَعْنِي الرَّقِّيَّ , عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي مَرْزُوقٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ ، عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ ، قَالَ: دَخَلْتُ مَسْجِدَ حِمْصَ، فَإِذَا فِيهِ حَلْقَةٌ فِيهَا اثْنَانِ وَثَلَاثُونَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَفِيهِمْ شَابٌّ أَكْحَلُ بَرَّاقُ الثَّنَايَا، مُحْتَبٍ، فَإِذَا اخْتَلَفُوا فِي شَيْءٍ سَأَلُوهُ فَأَخْبَرَهُمْ، فَانْتَهَوْا إِلَى خَبَرِهِ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ قَالَ: فَقُمْتُ إِلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: فَأَرَدْتُ أَنْ أَلْقَى بَعْضَهُمْ، فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ، انْصَرَفُوا، فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ دَخَلْتُ، فَإِذَا مُعَاذٌ يُصَلِّي إِلَى سَارِيَةٍ، قَالَ: فَصَلَّيْتُ عِنْدَهُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ جَلَسْتُ بَيْنِي وَبَيْنَهُ السَّارِيَةُ، ثُمَّ احْتَبَيْتُ فَلَبِثْتُ سَاعَةً لَا أُكَلِّمُهُ وَلَا يُكَلِّمُنِي، قَالَ: ثُمَّ قُلْتُ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ لِغَيْرِ دُنْيَا أَرْجُوهَا أُصِيبُهَا مِنْكَ، وَلَا قَرَابَةَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ، قَالَ: فَلِأَيِّ شَيْءٍ؟ قَالَ: قُلْتُ: لِلَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى , قَالَ: فَنَثَرَ حِبْوَتِي، ثُمَّ قَالَ: فَأَبْشِرْ إِنْ كُنْتَ صَادِقًا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " الْمُتَحَابُّونَ فِي اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي ظِلِّ الْعَرْشِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ، يَغْبِطُهُمْ بِمَكَانِهِمْ النَّبِيُّونَ وَالشُّهَدَاءُ" . قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ فَأَلْقَى عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ، قَالَ: فَحَدَّثْتُهُ بِالَّذِي حَدَّثَنِي مُعَاذٌ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ فَأَلْقَى عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ، قَالَ: فَحَدَّثْتُهُ بِالَّذِي حَدَّثَنِي مُعَاذٌ، فَقَالَ عُبَادَةُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْوِي عَنْ رَبِّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، أَنَّهُ قَالَ: " حَقَّتْ مَحَبَّتِي عَلَى الْمُتَحَابِِينَ فِيَّ، وَحَقَّتْ مَحَبَّتِي عَلَى الْمُتَنَاصِِحِينَ فِيَّ، عَلَى مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ، يَغْبِطُهُمْ بِمَكَانِهِمْ النَّبِيُّونَ وَالصِّدِّيقُونَ" .
ابو مسلم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ایک مجلس میں شریک ہوا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ٢ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تشریف فرما تھے ان میں ایک نوجوان اور کم عمر صحابی بھی تھے ان کا رنگ کھلتا ہوا، بڑی اور سیاہ آنکھیں اور چمکدار دانت تھے، جب لوگوں میں کوئی اختلاف ہوتا اور وہ کوئی بات کہہ دیتے تو لوگ ان کی بات کو حرف آخر سمجھتے تھے، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں۔
اگلے دن میں دوبارہ حاضر ہوا تو وہ ایک ستون کی آڑ میں نماز پڑھ رہے تھے انہوں نے نماز کو مختصر کیا اور گوٹ مار کر خاموشی سے بیٹھ گئے میں نے آگے بڑھ کر عرض کیا بخدا! میں اللہ کے جلال کی وجہ سے آپ سے محبت کرتا ہوں انہوں نے قسم دے کر پوچھا واقعی؟ میں نے بھی قسم کھا کر جواب دیا انہوں نے غالباً یہ فرمایا کہ اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے اس دن عرش الہٰی کے سائے میں ہوں گے جس دن اس کے علاوہ کہیں سایہ نہ ہوگا، (اس کے بعد بقیہ حدیث میں کوئی شک نہیں) ان کے لئے نور کی کرسیاں رکھی جائیں گی اور ان کی نشست گاہ پروردگار عالم کے قریب ہونے کی وجہ سے انبیاء کرام (علیہم السلام) اور صدیقین وشہداء بھی ان پر رشک کریں گے۔
بعد میں وہاں سے نکل کر یہ حدیث میں نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کو سنائی۔
حدثنا عبد الله، حدثنا ابو صالح الحكم بن موسى ، حدثنا هقل يعني ابن زياد ، عن الاوزاعي ، حدثني رجل في مجلس يحيى بن ابي كثير، عن ابي إدريس الخولاني ، قال: دخلت مسجد حمص فجلست إلى حلقة فيها اثنان وثلاثون رجلا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، قال: يقول الرجل منهم: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فيحدث، ثم يقول الآخر سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فيحدث، قال: وفيهم رجل ادعج براق الثنايا، فإذا شكوا في شيء ردوه إليه ورضوا بما يقول فيه، قال: فلم اجلس قبله ولا بعده مجلسا مثله، فتفرق القوم وما اعرف اسم رجل منهم ولا منزله، قال: فبت بليلة ما بت بمثلها، قال: وقلت: انا رجل اطلب العلم، وجلست إلى اصحاب نبي الله صلى الله عليه وسلم لم اعرف اسم رجل منهم ولا منزله! فلما اصبحت غدوت إلى المسجد، فإذا انا بالرجل الذي كانوا إذا شكوا في شيء ردوه إليه، يركع إلى بعض اسطوانات المسجد، فجلست إلى جانبه، فلما انصرف، قلت: يا عبد الله، والله إني لاحبك لله تبارك وتعالى فاخذ بحبوتي حتى ادناني منه، ثم قال: إنك لتحبني لله؟ قال: قلت: إي والله إني لاحبك لله , قال: فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن المتحابين بجلال الله، في ظل الله وظل عرشه يوم لا ظل إلا ظله" . قال: فقمت من عنده , فإذا انا برجل من القوم الذين كانوا معه، قال: قلت: حديثا حدثنيه الرجل , قال: اما إنه لا يقول لك إلا حقا , قال: فاخبرته، فقال: قد سمعت ذلك وافضل منه، قال: فقمت من عنده , فإذا انا برجل من القوم الذين كانوا معه، قال: قلت: حديثا حدثنيه الرجل , قال: اما إنه لا يقول لك إلا حقا , قال: فاخبرته، فقال: قد سمعت ذلك وافضل منه، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو ياثر عن ربه تبارك وتعالى: " حقت محبتي للذين يتحابون في، وحقت محبتي للذين يتباذلون في، وحقت محبتي للذين يتزاورون في" , قال: قلت: من انت يرحمك الله؟ قال: انا عبادة بن الصامت قال: قلت: من الرجل؟ قال: معاذ بن جبل.حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا هِقْلٌ يَعْنِي ابْنَ زِيَادٍ ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ ، حَدَّثَنِي رَجُلٌ فِي مَجْلِسِ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ ، قَالَ: دَخَلْتُ مَسْجِدَ حِمْصَ فَجَلَسْتُ إِلَى حَلْقَةٍ فِيهَا اثْنَانِ وَثَلَاثُونَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَقُولُ الرَّجُلُ مِنْهُمْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيُحَدِّثُ، ثُمَّ يَقُولُ الْآخَرُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيُحَدِّثُ، قَالَ: وَفِيهِمْ رَجُلٌ أَدْعَجُ بَرَّاقُ الثَّنَايَا، فَإِذَا شَكُّوا فِي شَيْءٍ رَدُّوهُ إِلَيْهِ وَرَضُوا بِمَا يَقُولُ فِيهِ، قَالَ: فَلَمْ أَجْلِسْ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ مَجْلِسًا مِثْلَهُ، فَتَفَرَّقَ الْقَوْمُ وَمَا أَعْرِفُ اسْمَ رَجُلٍ مِنْهُمْ وَلَا مَنْزِلَهُ، قَالَ: فَبِتُّ بِلَيْلَةٍ مَا بِتُّ بِمِثْلِهَا، قَالَ: وَقُلْتُ: أَنَا رَجُلٌ أَطْلُبُ الْعِلْمَ، وَجَلَسْتُ إِلَى أَصْحَابِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ أَعْرِفْ اسْمَ رَجُلٍ مِنْهُمْ وَلَا مَنْزِلَهُ! فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَإِذَا أَنَا بِالرَّجُلِ الَّذِي كَانُوا إِذَا شَكُّوا فِي شَيْءٍ رَدُّوهُ إِلَيْهِ، يَرْكَعُ إِلَى بَعْضِ أُسْطُوَانَاتِ الْمَسْجِدِ، فَجَلَسْتُ إِلَى جَانِبِهِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قُلْتُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ لِلَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَأَخَذَ بِحُبْوَتِي حَتَّى أَدْنَانِي مِنْهُ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّكَ لَتُحِبُّنِي لِلَّهِ؟ قَالَ: قُلْتُ: إِي وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ لِلَّهِ , قَالَ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ الْمُتَحَابِّينَ بِجَلَالِ اللَّهِ، فِي ظِلِّ اللَّهِ وَظِلِّ عَرْشِهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ" . قَالَ: فَقُمْتُ مِنْ عِنْدِهِ , فَإِذَا أَنَا بِرَجُلٍ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَانُوا مَعَهُ، قَالَ: قُلْتُ: حَدِيثًا حَدَّثَنِيهِ الرَّجُلُ , قَالَ: أَمَا إِنَّهُ لَا يَقُولُ لَكَ إِلَّا حَقًّا , قَالَ: فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: قَدْ سَمِعْتُ ذَلِكَ وَأَفْضَلَ مِنْهُ، قَالَ: فَقُمْتُ مِنْ عِنْدِهِ , فَإِذَا أَنَا بِرَجُلٍ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَانُوا مَعَهُ، قَالَ: قُلْتُ: حَدِيثًا حَدَّثَنِيهِ الرَّجُلُ , قَالَ: أَمَا إِنَّهُ لَا يَقُولُ لَكَ إِلَّا حَقًّا , قَالَ: فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: قَدْ سَمِعْتُ ذَلِكَ وَأَفْضَلَ مِنْهُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَأْثِرُ عَنْ رَبِّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: " حَقَّتْ مَحَبَّتِي لِلَّذِينَ يَتَحَابُّونَ فِيَّ، وَحَقَّتْ مَحَبَّتِي لِلَّذِينَ يَتَبَاذَلُونَ فِيَّ، وَحَقَّتْ مَحَبَّتِي لِلَّذِينَ يَتَزَاوَرُونَ فِيَّ" , قَالَ: قُلْتُ: مَنْ أَنْتَ يَرْحَمُكَ اللَّهُ؟ قَالَ: أَنَا عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ قَالَ: قُلْتُ: مَنْ الرَّجُلُ؟ قَالَ: مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ.
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں بھی تم سے صرف وہی حدیث بیان کروں گا جو میں نے خود لسان نبوت سے سنی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے " میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں وہ نور کے منبروں پر رونق افروز ہوں گے اور ان کی نشستوں پر انبیاء و صدیقین بھی رشک کریں گے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، الرجل المبهم هو يونس بن ميسرة، وسماع أبى إدريس الخولاني من معاذ بن جبل مختلف فيه، وسمع من عبادة
حدثنا عبد الله، حدثنا ابو بحر عبد الواحد بن غياث ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ابي سنان ، عن يعلى بن شداد ، قال: سمعت عبادة بن الصامت ، يقول: عادني رسول الله صلى الله عليه وسلم في نفر من اصحابه، فقال: " هل تدرون من الشهداء من امتي؟" مرتين او ثلاثا، فسكتوا، فقال عبادة: اخبرنا يا رسول الله , فقال:" القتيل في سبيل الله شهيد، والمبطون شهيد، والمطعون شهيد، والنفساء شهيد، يجرها ولدها بسرره إلى الجنة" .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَحْرٍ عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ شَدَّادٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ ، يَقُولُ: عَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: " هَلْ تَدْرُونَ مَنْ الشُّهَدَاءُ مِنْ أُمَّتِي؟" مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، فَسَكَتُوا، فَقَالَ عُبَادَةُ: أَخْبِرْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَقَالَ:" الْقَتِيلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ شَهِيدٌ، وَالْمَبْطُونُ شَهِيدٌ، وَالْمَطْعُونُ شَهِيدٌ، وَالنُّفَسَاءُ شَهِيدٌ، يَجُرُّهَا وَلَدُهَا بِسُرَرِهِ إِلَى الْجَنَّةِ" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں بیمار تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ انصاری لوگوں کے ساتھ میری عیادت کے لئے تشریف لائے وہاں موجود لوگوں سے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ شہید کون ہوتا ہے؟ لوگ خاموش رہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ سوال کیا لوگ پھر خاموش رہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ یہی سوال کیا تو میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ مجھے سہارا دے کر بٹھا دو اس نے ایسا ہی کیا اور میں نے عرض کیا جو شخص اسلام لائے ہجرت کرے پھر اللہ کے راستہ میں شہید ہوجائے تو وہ شہید ہوتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح تو میری امت کے شہداء بہت تھوڑے رہ جائیں گے اللہ کے راستے میں مارا جانا بھی شہادت ہے پیٹ کی بیماری میں مرنا بھی شہادت ہے غرق ہو کر مرجانا بھی شہادت ہے اور نفاس کی حالت میں عورت کا مرجانا بھی شہادت ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى سنان
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا روئے زمین پر جو مسلمان آدمی بھی اللہ سے کوئی دعاء مانگتا ہے تو اللہ اسے وہی چیز عطاء فرما دیتا ہے یا اتنی پریشانی اور تکلیف کو دور کردیتا ہے تا وقتیکہ کسی گناہ میں یا قطع رحمی کی دعاء نہ کریں۔
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے بعد ایسے لوگ تمہارے حکمران ہوں گے جو تمہیں ایسے کاموں کی پہچان کرائیں گے جنہیں تم ناپسند سمجھتے ہو گے اور ایسے کاموں کو ناپسند کریں گے جنہیں تم اچھا سمجھتے ہوگے سو جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے اس کی اطاعت ضروری نہیں اور تم اپنے رب سے نہ ہٹنا۔
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عنقریب ایسے امراء آئیں گے جنہیں بہت سی چیزیں غفلت میں مبتلا کردیں گی اور وہ نماز کو اس کے وقت مقررہ سے مؤخر کردیا کریں گے اس موقع پر تم لوگ وقت مقررہ پر نماز پڑھ لیا کرنا اور ان کے ساتھ نفل کی نیت سے شریک ہوجانا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: إن شئت والصواب فيه: نعم، وهذا إسناده ضعيف لجهالة أبى المثني، وقد اضطرب فيه
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ کے راستہ میں جہاد کرے لیکن اس کی نیت اس جہاد سے ایک رسی حاصل کرنا ہو تو اسے وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة يحيى بن الوليد
عبداللہ بن عباد زرقی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ بئر اہاب نامی اپنے کنویں پر چڑیوں کا شکار کر رہے تھے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے مجھے دیکھ کرلیا، اس وقت میں نے کچھ چڑیاں پکڑ رکھی تھیں انہوں نے وہ میرے ہاتھ سے چھین کر چھوڑ دیں اور فرمایا بیٹا! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے دونوں کناروں کی درمیانی جگہ کو اسی طرح حرم قرار دیا ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو قرار دیا تھا۔
حكم دارالسلام: المرفوع منه صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة يعلى بن عبدالرحمن، وعبدالله بن عباد- وفي مواضع أخر: ابن عبادة - مجهول
مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے میری امت کا ایک گر وہ رات بھر کھانے پینے اور لہو ولعب میں مصروف رہے گا جب صبح ہوگی تو ان کی شکلیں بندروں اور خنزیروں کی شکل میں بدل چکی ہوں گی کیونکہ وہ شراب کو حلال سمجھتے ہوں گے دف (آلات موسیقی) بجاتے ہوں گے اور گانے والی عورتیں (گلوکارائیں) بنا رکھی ہوں گی۔
حكم دارالسلام: هذا الحديث له أربعة أسانيد، كلهم ضعيفة
حدثنا عبد الله، حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا محمد بن بشر ، حدثنا عبد العزيز بن عمر ، حدثني من لا اتهم من اهل الشام، عن عبادة بن الصامت ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا راى الهلال، قال: " الله اكبر، الحمد لله، لا حول ولا قوة إلا بالله، اللهم إني اسالك خير هذا الشهر، واعوذ بك من شر القدر، ومن سوء الحشر" .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنِي مَنْ لَا أَتَّهِمُ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَأَى الْهِلَالَ، قَالَ: " اللَّهُ أَكْبَرُ، الْحَمْدُ لِلَّهِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَ هَذَا الشَّهْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ الْقَدَرِ، وَمِنْ سُوءِ الْحَشْرِ" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب پہلی کا چاند دیکھتے تھے تو اللہ اکبر الحمد للہ اور لاحول ولاقوۃ الا باللہ کہہ کر یہ دعاء فرماتے تھے، اے اللہ! میں تجھ سے اس مہینے کا خیر کا سوال کرتا ہوں اور تقدیر کے برے فیصلوں اور برے انجام سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔
حدثنا عبد الله، حدثنا شجاع بن مخلد ، حدثنا هشيم ، عن مغيرة ، عن الشعبي ، قال: قال عبادة بن الصامت : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من جرح في جسده جراحة فتصدق بها، كفر الله عز وجل عنه بمثل ما تصدق به" .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، قَالَ: قَالَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ جُرِحَ فِي جَسَدِهِ جِرَاحَةً فَتَصَدَّقَ بِهَا، كَفَّرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنْهُ بِمِثْلِ مَا تَصَدَّقَ بِهِ" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس شخص کے جسم پر کوئی زخم لگ جائے اور وہ صدقہ خیرات کر دے تو اس صدقے کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کا کفارہ فرما دیتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح بشواهده، وهذا إسناد ضعيف، الشعبي لم يسمع من عبادة
حدثنا حدثنا يعمر بن بشر ، حدثنا عبد الله بن المبارك ، اخبرنا رشدين بن سعد ، حدثني ابو هانئ الخولاني ، عن عمرو بن مالك الجنبي ، ان فضالة بن عبيد , وعبادة بن الصامت حدثاه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا كان يوم القيامة وفرغ الله تعالى من قضاء الخلق، فيبقى رجلان، فيؤمر بهما إلى النار، فيلتفت احدهما، فيقول الجبار تعالى: ردوه، فيردوه، قال له: لم التفت؟ قال: إن كنت ارجو ان تدخلني الجنة، قال: فيؤمر به إلى الجنة، فيقول: لقد اعطاني الله عز وجل حتى لو اني اطعمت اهل الجنة ما نقص ذلك مما عندي شيئا" , قال: فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ذكره يرى السرور في وجهه.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَعْمَرُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ ، أَخْبَرَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو هَانِئٍ الْخَوْلَانِيُّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَالِكٍ الْجَنْبِيِّ ، أَنَّ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ , وَعُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ حَدَّثَاهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ وَفَرَغَ اللَّهُ تَعَالَى مِنْ قَضَاءِ الْخَلْقِ، فَيَبْقَى رَجُلَانِ، فَيُؤْمَرُ بِهِمَا إِلَى النَّارِ، فَيَلْتَفِتُ أَحَدُهُمَا، فَيَقُولُ الْجَبَّارُ تَعَالَى: رُدُّوهُ، فَيَرُدُّوهُ، قَالَ لَهُ: لِمَ الْتَفَتَّ؟ قَالَ: إِنْ كُنْتُ أَرْجُو أَنْ تُدْخِلَنِي الْجَنَّةَ، قَالَ: فَيُؤْمَرُ بِهِ إِلَى الْجَنَّةِ، فَيَقُولُ: لَقَدْ أَعْطَانِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى لَوْ أَنِّي أَطْعَمْتُ أَهْلَ الْجَنَّةِ مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِمَا عِنْدِي شَيْئًا" , قَالَ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَكَرَهُ يُرَى السُّرُورُ فِي وَجْهِهِ.
حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ مخلوق کے حساب سے فارغ ہوجائے گا تو دو آدمی رہ جائیں گے ان کے متعلق حکم ہوگا کہ انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے ان میں سے ایک جاتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھے گا اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اسے واپس لے کر آؤ چنانچہ فرشتے اسے واپس لائیں گے اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تو نے پیچھے مڑ کر کیوں دیکھا؟ وہ جواب دے گا کہ مجھے امید تھی کہ آپ مجھے جنت میں داخل فرمائیں گے چنانچہ اسے جنت میں لے جانے کا حکم دیا جائے گا اور وہ کہتا ہوں گا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنا دیا ہے کہ اگر میں تمام اہل جنت کو کھانے کی دعوت دوں تو میرے پاس سے کچھ بھی کم نہ ہوگا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی یہ بات ذکر فرماتے تھے تو چہرہ مبارک پر بشاشت کے اثرات دکھائی دیتے تھے۔
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس شخص کے جسم پر کوئی زخم لگ جائے اور وہ صدقہ خیرات کر دے تو اس صدقے کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کا کفارہ فرما دیتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح بشواهده ، هذا إسناد ضعيف، الشعبي لم يسمع من عبادة
حدثنا عبد الله، حدثني عبد الله بن سالم الكوفي المفلوج وكان ثقة، حدثنا عبيدة بن الاسود ، عن القاسم بن الوليد ، عن ابي صادق ، عن ربيعة بن ناجد ، عن عبادة بن الصامت , ان النبي صلى الله عليه وسلم كان ياخذ الوبرة من جنب البعير من المغنم، فيقول: " ما لي فيه إلا مثل ما لاحدكم منه، إياكم والغلول، فإن الغلول خزي على صاحبه يوم القيامة، ادوا الخيط والمخيط وما فوق ذلك، وجاهدوا في سبيل الله تعالى القريب والبعيد في الحضر والسفر، فإن الجهاد باب من ابواب الجنة، إنه لينجي الله تبارك وتعالى به من الهم والغم، واقيموا حدود الله في القريب والبعيد، ولا تاخذكم في الله لومة لائم" .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَالِمٍ الْكُوفِيُّ الْمَفْلُوجُ وَكَانَ ثِقَةً، حَدَّثَنَا عُبَيْدَةُ بْنُ الْأَسْوَدِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ الْوَلِيدِ ، عَنْ أَبِي صَادِقٍ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْخُذُ الْوَبَرَةَ مِنْ جَنْبِ الْبَعِيرِ مِنَ الْمَغْنَمِ، فَيَقُولُ: " مَا لِي فِيهِ إِلَّا مِثْلُ مَا لِأَحَدِكُمْ مِنْهُ، إِيَّاكُمْ وَالْغُلُولَ، فَإِنَّ الْغُلُولَ خِزْيٌ عَلَى صَاحِبِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، أَدُّوا الْخَيْطَ وَالْمَخِيطَ وَمَا فَوْقَ ذَلِكَ، وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى الْقَرِيبَ وَالْبَعِيدَ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ، فَإِنَّ الْجِهَادَ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، إِنَّهُ لَيُنَجِّي اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بِهِ مِنَ الْهَمِّ وَالْغَمِّ، وَأَقِيمُوا حُدُودَ اللَّهِ فِي الْقَرِيبِ وَالْبَعِيدِ، وَلَا تَأْخُذْكُمْ فِي اللَّهِ لَوْمَةُ لَائِمٍ" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ایک غزوے میں مال غنیمت کے ایک اونٹ کو بطور سترہ سامنے کھڑے کر کے نماز پڑھائی جب سلام پھیر کر فارغ ہوئے تو کھڑے ہو کر اس کی اون اپنی دو انگلیوں کے درمیان لے کر فرمایا یہ تمہارا مال غنیمت ہے اور خمس کے علاوہ اس میں میرا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا تمہارا ہے اور خمس بھی تم ہی پر لوٹا دیا جاتا ہے لہٰذا اگر کسی کے پاس سوئی دھاگہ بھی ہو تو وہ لے آئے یا اس سے بڑی اور چھوٹی چیز ہو تو وہ بھی واپس کر دے اور مال غنیمت میں خیانت نہ کرو، کیونکہ خیانت دنیا و آخرت میں خائن کے لئے آگ اور شرمندگی کا سبب ہوگی اور لوگوں سے اللہ کے راستہ میں جہاد کیا کرو کہ خواہ وہ قریب ہوں یا دور اور اللہ کے حوالے سے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کیا کرو اور سفر و حضر میں اللہ کی حدود قائم رکھا کرو اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو کیونکہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ انسان کو غم اور پریشانی سے نجات عطا فرماتا ہے۔