حدثنا عبد الله، حدثنا محمد بن ابي بكر المقدمي ، حدثنا حميد بن الاسود ، حدثنا الضحاك بن عثمان ، عن المقبري ، عن صفوان بن المعطل السلمي , انه سال النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا نبي الله، إني اسالك عما انت به عالم، وانا به جاهل من الليل والنهار ساعة تكره فيها الصلاة؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا صليت الصبح، فامسك عن الصلاة حتى تطلع الشمس، فإذا طلعت فصل، فإن الصلاة محضورة متقبلة حتى تعتدل على راسك مثل الرمح، فإذا اعتدلت على راسك، فإن تلك الساعة تسجر فيها جهنم وتفتح فيها ابوابها حتى تزول عن حاجبك الايمن، فإذا زالت عن حاجبك الايمن، فصل فإن الصلاة محضورة متقبلة حتى تصلي العصر" .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ الْأَسْوَدِ ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ الْمُعَطَّلِ السُّلَمِيِّ , أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنِّي أَسْأَلُكَ عَمَّا أَنْتَ بِهِ عَالِمٌ، وَأَنَا بِهِ جَاهِلٌ مِنَ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سَاعَةٌ تُكْرَهُ فِيهَا الصَّلَاةُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا صَلَّيْتَ الصُّبْحَ، فَأَمْسِكْ عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَإِذَا طَلَعَتْ فَصَلِّ، فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَحْضُورَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ حَتَّى تَعْتَدِلَ عَلَى رَأْسِكَ مِثْلَ الرُّمْحِ، فَإِذَا اعْتَدَلَتْ عَلَى رَأْسِكَ، فَإِنَّ تِلْكَ السَّاعَةَ تُسْجَرُ فِيهَا جَهَنَّمُ وَتُفْتَحُ فِيهَا أَبْوَابُهَا حَتَّى تَزُولَ عَنْ حَاجِبِكَ الْأَيْمَنِ، فَإِذَا زَالَتْ عَنْ حَاجِبِكَ الْأَيْمَنِ، فَصَلِّ فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَحْضُورَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ حَتَّى تُصَلِّيَ الْعَصْرَ" .
حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کے نبی! میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں جس سے آپ باخبر ہیں اور میں ناواقف ہوں اور وہ یہ کہ دن رات کے وہ کون سے اوقات ہیں جن میں آپ نماز کو مکروہ سمجھتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم فجر کی نماز پڑھ لیا کرو تو طلوع آفتاب تک نماز سے رکے رہا کرو جب سورج طلوع ہوجائے تو نماز پڑھا کرو کیونکہ اس نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور وہ قبول ہوتی ہے یہاں تک کہ سورج تمہارے سر پر نیزے کی مانند برابر ہوجائے جب ایسا ہوجائے تو یہی وہ گھڑی ہوتی ہے جس میں جہنم کو بھڑکایا جاتا ہے اور اس کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ تمہاری دائیں جانب سے ڈھل جائے جب ایسا ہوجائے تو نماز پڑھا کرو کیونکہ اس نماز میں بھی فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور وہ قبول ہوتی ہے یہاں تک کہ تم نماز عصر پڑھ لو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، المقبري لم يسمعه من صفوان
حدثنا عبد الله، حدثنا ابو حفص عمرو بن علي بن بحر بن كثير السقاء ، حدثنا ابو قتيبة ، حدثنا عمر بن نبهان ، حدثنا سلام ابو عيسى ، حدثنا صفوان بن المعطل ، قال: " خرجنا حجاجا، فلما كنا بالعرج إذا نحن بحية تضطرب، فلم تلبث ان ماتت، فاخرج لها رجل خرقة من عيبته فلفها فيها ودفنها، وخذ لها في الارض، فلما اتينا مكة، فإنا لبالمسجد الحرام، إذ وقف علينا شخص، فقال: ايكم صاحب عمرو بن جابر؟ قلنا: ما نعرفه , قال: ايكم صاحب الجان؟ قالوا: هذا قال: اما إنه جزاك الله خيرا، اما إنه قد كان من آخر التسعة موتا الذين اتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم يستمعون القرآن" .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيِّ بْنِ بَحْرِ بْنِ كَثِيرٍ السَّقَّاءُ ، حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ نَبْهَانَ ، حَدَّثَنَا سَلَّامٌ أَبُو عِيسَى ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ الْمُعَطَّلِ ، قَالَ: " خَرَجْنَا حُجَّاجًا، فَلَمَّا كُنَّا بِالْعَرْجِ إِذَا نَحْنُ بِحَيَّةٍ تَضْطَرِبُ، فَلَمْ تَلْبَثْ أَنْ مَاتَتْ، فَأَخْرَجَ لَهَا رَجُلٌ خِرْقَةً مِنْ عَيْبَتِهِ فَلَفَّهَا فِيهَا وَدَفَنَهَا، وَخَذَّ لَهَا فِي الْأَرْضِ، فَلَمَّا أَتَيْنَا مَكَّةَ، فَإِنَّا لَبِالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، إِذْ وَقَفَ عَلَيْنَا شَخْصٌ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ صَاحِبُ عَمْرِو بْنِ جَابِرٍ؟ قُلْنَا: مَا نَعْرِفُهُ , قَالَ: أَيُّكُمْ صَاحِبُ الْجَانِّ؟ قَالُوا: هَذَا قَالَ: أَمَا إِنَّهُ جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا، أَمَا إِنَّهُ قَدْ كَانَ مِنْ آخِرِ التِّسْعَةِ مَوْتًا الَّذِينَ أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ" .
حضرت صفوان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حج کے ارادے سے روانہ ہوئے جب مقام عرج میں پہنچے تو وہاں ایک سانپ تڑپتا ہوا نظر آیا اور تھوڑی ہی دیر میں مرگیا ایک آدمی نے اپنے سامان میں سے ایک کپڑا نکالا اور اسے اس میں لپیٹ کر زمین کھود کر اس میں دفن کردیا، جب ہم لوگ مکہ مکرمہ پہنچے تو مسجد حرام میں ہی تھے کہ ایک آدمی ہمارے پاس آکر رکا اور کہنے لگا کہ تم میں سے عمرو بن جابر کا ساتھی کون ہے؟ ہم نے کہا کہ ہم نہیں جانتے پھر اس نے پوچھا کہ اس سانپ کا کفن دفن کرنے والا کون ہے؟ لوگوں نے اس آدمی کی طرف اشارہ کردیا وہ کہنے لگا کہ اللہ تمہیں جزائے خیر عطا فرمائے یہ ان نو آدمیوں میں سب سے آخر میں مرنے والا تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قرآن کریم سننے کے لئے حاضر ہوئے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً، عمر بن نبهان ضعيف، وسلام مجهول
حدثنا عبد الله، حدثني عبيد الله بن عمر القواريري ، حدثنا عبد الله بن جعفر ، اخبرني محمد بن يوسف ، عن عبد الله بن الفضل ، عن ابي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث ، عن صفوان بن المعطل السلمي ، قال: كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر" فرمقت صلاته ليلة فصلى العشاء الآخرة، ثم نام، فلما كان نصف الليل استيقظ فتلا الآيات العشر آخر سورة آل عمران، ثم تسوك، ثم توضا ثم قام فصلى ركعتين، فلا ادري اقيامه ام ركوعه ام سجوده اطول؟ ثم انصرف فنام ثم استيقظ، فتلا الآيات ثم تسوك، ثم توضا، ثم قام فصلى ركعتين، لا ادري اقيامه ام ركوعه ام سجوده اطول؟ ثم انصرف فنام، ثم استيقظ ففعل ذلك، ثم لم يزل يفعل كما فعل اول مرة، حتى صلى إحدى عشرة ركعة" .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ الْمُعَطَّلِ السُّلَمِيِّ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ" فَرَمَقْتُ صَلَاتَهُ لَيْلَةً فَصَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ، ثُمَّ نَامَ، فَلَمَّا كَانَ نِصْفُ اللَّيْلِ اسْتَيْقَظَ فَتَلَا الْآيَاتِ الْعَشْرَ آخِرَ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ، ثُمَّ تَسَوَّكَ، ثُمَّ تَوَضَّأَ ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَلَا أَدْرِي أَقِيَامُهُ أَمْ رُكُوعُهُ أَمْ سُجُودُهُ أَطْوَلُ؟ ثُمَّ انْصَرَفَ فَنَامَ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ، فَتَلَا الْآيَاتِ ثُمَّ تَسَوَّكَ، ثُمَّ تَوَضَّأَ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، لَا أَدْرِي أَقِيَامُهُ أَمْ رُكُوعُهُ أَمْ سُجُودُهُ أَطْوَلُ؟ ثُمَّ انْصَرَفَ فَنَامَ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ فَفَعَلَ ذَلِكَ، ثُمَّ لَمْ يَزَلْ يَفْعَلُ كَمَا فَعَلَ أَوَّلَ مَرَّةٍ، حَتَّى صَلَّى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً" .
حضرت صفوان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھا تو رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز دیکھنے کا موقع ملا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء پڑھ کر سوگئے نصف رات کو بیدار ہوئے سورت آل عمران کی آخری دس آیات کی تلاوت کی، مسواک کی وضو فرمایا اور کھڑے ہو کردو رکعتیں پڑھیں اب مجھے معلوم نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام زیادہ لمبا تھا یا رکوع سجدہ پھر دوبارہ سوگئے تھوڑی دیر بعد اٹھے اور یہی سارا عمل دہرایا اور پھر اسی طرح کرتے رہے یہاں تک کہ گیارہ رکعتیں پڑھ لیں۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، عبدالله بن جعفر ضعيف، وأبو بكر بن عبدالرحمن لم يسمع من صفوان