مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ
1132. حَدِيثُ صُهَيْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
حدیث نمبر: 23924
Save to word اعراب
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، عن ثابت ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن صهيب ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " عجبت من قضاء الله للمؤمن، إن امر المؤمن كله خير، وليس ذلك إلا للمؤمن، إن اصابته سراء فشكر، كان خيرا له، وإن اصابته ضراء فصبر، كان خيرا له" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ صُهَيْبٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَجِبْتُ مِنْ قَضَاءِ اللَّهِ لِلْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَ الْمُؤْمِنِ كُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَلِكَ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ فَشَكَرَ، كَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ فَصَبَرَ، كَانَ خَيْرًا لَهُ" .
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے تو مسلمانوں کے معاملات پر تعجب ہوتا ہے کہ اس کے معاملے میں سراسر خیر ہی خیر ہے اور یہ سعادت مؤمن کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے کہ اگر اسے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے جو کہ اس کے لئے سراسر خیر ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور یہ بھی سراسر خیر ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2999
حدیث نمبر: 23925
Save to word اعراب
حدثنا يزيد ، انبانا حماد بن سلمة ، عن ثابت البناني ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن صهيب ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا دخل اهل الجنة الجنة، نودوا: يا اهل الجنة، إن لكم عند الله موعدا لم تروه، فقالوا: وما هو؟ الم يبيض وجوهنا، ويزحزحنا عن النار، ويدخلنا الجنة؟ قال: فيكشف الحجاب، قال: فينظرون إليه، فوالله ما اعطاهم الله شيئا احب إليهم منه"، ثم قرا للذين احسنوا الحسنى وزيادة سورة يونس آية 26 ، وقال مرة:" إذا دخل اهل الجنة".حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أنبأنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ صُهَيْبٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، نُودُوا: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، إِنَّ لَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ مَوْعِدًا لَمْ تَرَوْهُ، فَقَالُوا: وَمَا هُوَ؟ أَلَمْ يُبَيِّضْ وُجُوهَنَا، وَيُزَحْزِحْنَا عَنِ النَّارِ، وَيُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ؟ قَالَ: فَيُكْشَفُ الْحِجَابُ، قَالَ: فَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِ، فَوَاللَّهِ مَا أَعْطَاهُمْ اللَّهُ شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنْهُ"، ثُمَّ قَرَأَ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ سورة يونس آية 26 ، وَقَالَ مَرَّةً:" إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ".
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب جنتی جنت میں ہوجائیں گے تو انہیں پکار کر کہا جائے گا کہ اے اہل جنت! اللہ کا تم سے ایک وعدہ باقی ہے جو ابھی تک تم نے نہیں دیکھا جنتی کہیں گے کہ وہ کیا ہے؟ کیا آپ نے ہمارے چہروں کو روشن نہیں کیا اور ہمیں جہنم سے بچا کر جنت میں داخل نہی کیا؟ اس کے جواب میں حجاب اٹھا دیا جائے گا اور جنتی اپنے پروردگار کی زیارت کرسکیں گے بخدا! اللہ نے انہیں جنتی نعمتیں عطاء کر رکھی ہوں گی انہیں اس نعت سے زیادہ محبوب کوئی نعمت نہ ہوگی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی " ان لوگوں کے لئے جنہوں نے نیکیاں کیں عمدہ بدلہ اور مزید اضافہ " ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 181
حدیث نمبر: 23926
Save to word اعراب
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، عن زهير ، عن عبد الله بن محمد بن عقيل ، عن حمزة بن صهيب ، ان صهيبا كان يكنى ابا يحيى، ويقول: إنه من العرب، ويطعم الطعام الكثير، فقال له عمر: يا صهيب، ما لك تكنى ابا يحيى وليس لك ولد؟ وتقول: إنك من العرب، وتطعم الطعام الكثير، وذلك سرف في المال؟ فقال صهيب : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كناني ابا يحيى، واما قولك في النسب، فانا رجل من النمر بن قاسط من اهل الموصل، ولكني سبيت غلاما صغيرا قد غفلت اهلي وقومي، واما قولك في الطعام، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم، كان يقول: " خياركم من اطعم الطعام ورد السلام" ، فذلك الذي يحملني على ان اطعم الطعام.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ زُهَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ صُهَيْبٍ ، أَنَّ صُهَيْبًا كَانَ يُكَنَّى أَبَا يَحْيَى، وَيَقُولُ: إِنَّهُ مِنَ الْعَرَبِ، وَيُطْعِمُ الطَّعَامَ الْكَثِيرَ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: يَا صُهَيْبُ، مَا لَكَ تُكَنَّى أَبَا يَحْيَى وَلَيْسَ لَكَ وَلَدٌ؟ وَتَقُولُ: إِنَّكَ مِنَ الْعَرَبِ، وَتُطْعِمُ الطَّعَامَ الْكَثِيرَ، وَذَلِكَ سَرَفٌ فِي الْمَالِ؟ فَقَالَ صُهَيْبٌ : إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَنَّانِي أَبَا يَحْيَى، وَأَمَّا قَوْلُكَ فِي النَّسَبِ، فَأَنَا رَجُلٌ مِنَ النَّمِرِ بْنِ قَاسِطٍ مِنْ أَهْلِ الْمَوْصِلِ، وَلَكِنِّي سُبِيتُ غُلَامًا صَغِيرًا قَدْ غَفَلْتُ أَهْلِي وَقَوْمِي، وَأَمَّا قَوْلُكَ فِي الطَّعَامِ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقُولُ: " خِيَارُكُمْ مَنْ أَطْعَمَ الطَّعَامَ وَرَدَّ السَّلَامَ" ، فَذَلِكَ الَّذِي يَحْمِلُنِي عَلَى أَنْ أُطْعِمَ الطَّعَامَ.
زید بن اسلم (رح) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے فرمایا اگر تم میں تین چیزیں نہ ہوتیں تو تم میں کوئی عیب نہ ہوتا، انہوں نے پوچھا وہ کیا ہیں کیونکہ ہم نے تو کبھی آپ کو کسی چیز میں عیب نکالتے ہوئے دیکھا ہی نہیں انہوں نے فرمایا ایک تو یہ کہ تم اپنی کنیت ابو یحییٰ رکھتے ہو حالانکہ تمہارے یہاں کوئی اولاد ہی نہیں ہے دوسرا یہ کہ تم اپنی نسبت نمر بن قاسط کی طرف کرتے ہو جبکہ تمہاری زبان میں لکنت ہے اور تم مال نہیں رکھتے۔ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ جہاں تک میری کنیت " ابو یحییٰ " کا تعلق ہے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی ہے لہٰذا اسے تو میں کبھی نہیں چھوڑ سکتا یہاں تک کہ ان سے جاملوں، رہی نمر بن قاسط کی طرف میری نسبت تو یہ صحیح ہے کیونکہ میں ان ہی کا ایک فرد ہوں لیکن چونکہ میری رضاعت " ایلہ " میں ہوئی تھی، اس وجہ سے یہ لکنت پیدا ہوگئی اور باقی رہا مال تو کیا کبھی آپ نے مجھے ایسی جگہ خرچ کرتے ہوئے دیکھا ہے جو ناحق ہو۔

حكم دارالسلام: هذا الاثر اسناده ضعيف على اضطراب فى متنه
حدیث نمبر: 23927
Save to word اعراب
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، عن ثابت ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن صهيب ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صلى همس شيئا لا افهمه ولا يخبرنا به، قال:" افطنتم لي؟" قلنا: نعم، قال: " إني ذكرت نبيا من الانبياء اعطي جنودا من قومه، فقال: من يكافئ هؤلاء او من يقوم لهؤلاء؟! او غيرها من الكلام، فاوحي إليه: ان اختر لقومك إحدى ثلاث: إما ان نسلط عليهم عدوا من غيرهم، او الجوع، او الموت، فاستشار قومه في ذلك، فقالوا: انت نبي الله، فكل ذلك إليك، خر لنا، فقام إلى الصلاة، وكانوا إذا فزعوا، فزعوا إلى الصلاة، فصلى ما شاء الله"، قال: ثم قال:" اي رب، اما عدو من غيرهم فلا، او الجوع فلا، ولكن الموت، فسلط عليهم الموت، فمات منهم سبعون الفا، فهمسي الذي ترون اني اقول: اللهم بك اقاتل، وبك اصاول، ولا حول ولا قوة إلا بالله" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ صُهَيْبٍ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى هَمَسَ شَيْئًا لَا أَفْهَمُهُ وَلَا يُخْبِرُنَا بِهِ، قَالَ:" أَفَطِنْتُمْ لِي؟" قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: " إِنِّي ذَكَرْتُ نَبِيًّا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ أُعْطِيَ جُنُودًا مِنْ قَوْمِهِ، فَقَالَ: مَنْ يُكَافِئُ هَؤُلَاءِ أَوْ مَنْ يَقُومُ لِهَؤُلَاءِ؟! أَوْ غَيْرَهَا مِنَ الْكَلَامِ، فَأُوحِيَ إِلَيْهِ: أَنْ اخْتَرْ لِقَوْمِكَ إِحْدَى ثَلَاثٍ: إِمَّا أَنْ نُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ، أَوْ الْجُوعَ، أَوْ الْمَوْتَ، فَاسْتَشَارَ قَوْمَهُ فِي ذَلِكَ، فَقَالُوا: أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ، فَكُلُّ ذَلِكَ إِلَيْكَ، خِرْ لَنَا، فَقَامَ إِلَى الصَّلَاةِ، وَكَانُوا إِذَا فَزِعُوا، فَزِعُوا إِلَى الصَّلَاةِ، فَصَلَّى مَا شَاءَ اللَّهُ"، قَالَ: ثُمَّ قَالَ:" أَيْ رَبِّ، أَمَّا عَدُوٌّ مِنْ غَيْرِهِمْ فَلَا، أَوْ الْجُوعُ فَلَا، وَلَكِنْ الْمَوْتُ، فَسُلِّطَ عَلَيْهِمْ الْمَوْتُ، فَمَاتَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ أَلْفًا، فَهَمْسِي الَّذِي تَرَوْنَ أَنِّي أَقُولُ: اللَّهُمَّ بِكَ أُقَاتِلُ، وَبِكَ أُصَاوِلُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ" .
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ حنین کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹ ہلتے رہتے تھے اس سے پہلے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا تھا بعد میں فرمایا کہ پہلی امتوں میں ایک پیغمبر تھے انہیں اپنی امت کی تعداد پر اطمینان اور خوشی ہوئی اور ان کے منہ سے یہ جملہ نکل گیا کہ یہ لوگ کبھی شکست نہیں کھا سکتے اللہ تعالیٰ نے اس پر ان کی طرف وحی بھیجی اور انہیں تین میں سے کسی ایک بات کا اختیار دیا کہ یا تو ان پر کسی دشمن کو مسلط کر دوں جو ان کا خون بہائے یا بھوک کو مسلط کر دوں یا موت کو؟ وہ کہنے لگے کہ قتل اور بھوک کی تو ہم میں طاقت نہیں ہے البتہ موت ہم پر مسلط کردی جائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صرف تین دن میں ان کے ستر ہزار آدمی مرگئے اس لئے اب میں یہ کہتا ہوں کہ اے اللہ! میں تری ہی مدد سے حیلہ کرتا ہوں، تیری ہی مدد سے حملہ کرتا ہوں اور تیری ہی مدد سے قتال کرتا ہوں۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 23928
Save to word اعراب
حدثنا روح ، حدثنا حماد ، عن ثابت ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن صهيب ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول إذا لقي العدو: " اللهم بك احول، وبك اصول، وبك اقاتل" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ صُهَيْبٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ إِذَا لَقِيَ الْعَدُوَّ: " اللَّهُمَّ بِكَ أَحُولُ، وَبِكَ أَصُولُ، وَبِكَ أُقَاتِلُ" .
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دشمن سے آمنا سامنا ہونے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعاء کرتے تھے کہ اے اللہ! میں تیری ہی مدد سے حیلہ کرتا ہوں تیری ہی مدد سے حملہ کرتا ہوں اور تیری ہی مدد سے قتال کرتا ہوں۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 23929
Save to word اعراب
حدثنا زكريا بن عدي ، حدثنا عبيد الله بن عمرو ، عن عبد الله بن محمد بن عقيل ، عن حمزة بن صهيب ، عن ابيه ، قال: فقال لعمر: اما قولك: اكتنيت وليس لك ولد، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كناني ابا يحيى، واما قولك: فيك سرف في الطعام، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " خيركم من اطعم الطعام" او" الذين يطعمون الطعام" .حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ صُهَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: فَقَالَ لِعُمَرَ: أَمَّا قَوْلُكَ: اكْتَنَيْتَ وَلَيْسَ لَكَ وَلَدٌ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَنَّانِي أَبَا يَحْيَى، وأَمَّا قَوْلُكَ: فِيكَ سَرَفٌ فِي الطَّعَامِ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " خَيْرُكُمْ مَنْ أَطْعَمَ الطَّعَامَ" أَوْ" الَّذِينَ يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ" .
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ جہاں تک میری کنیت " ابو یحییٰ " کا تعلق ہے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی ہے لہٰذا اسے تو میں کبھی نہیں چھوڑ سکتا یہاں تک کہ ان سے جاملوں رہی کھانے میں اسراف کی بات تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے تم میں سے بہترین آدمی وہ ہے جو دوسروں کو کھانا کھلائے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف على اضطراب فى متنه
حدیث نمبر: 23930
Save to word اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، حدثنا ثابت ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن صهيب ، قال: بينا رسول الله صلى الله عليه وسلم قاعد مع اصحابه إذ ضحك، فقال:" الا تسالوني مم اضحك؟" قالوا: يا رسول الله، ومم تضحك؟ قال: " عجبت لامر المؤمن، إن امره كله خير، إن اصابه ما يحب، حمد الله وكان له خير، وإن اصابه ما يكره فصبر، كان له خير، وليس كل احد امره كله له خير إلا المؤمن" ، قال ابي: وحدثناه عفان ايضا، حدثناه سليمان ، حدثنا ثابت هذا اللفظ بعينه، واراه وهم، هذا لفظ حماد، وقد حدثنا به قال: حدثنا سليمان، حدثنا ثابت نحوا من لفظ عبد الرحمن، عن سليمان، وذلك من كتابه قراءة علينا.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ صُهَيْبٍ ، قَالَ: بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ مَعَ أَصْحَابِهِ إِذْ ضَحِكَ، فَقَالَ:" أَلَا تَسْأَلُونِي مِمَّ أَضْحَكُ؟" قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمِمَّ تَضْحَكُ؟ قَالَ: " عَجِبْتُ لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، إِنْ أَصَابَهُ مَا يُحِبُّ، حَمِدَ اللَّهَ وَكَانَ لَهُ خَيْرٌ، وَإِنْ أَصَابَهُ مَا يَكْرَهُ فَصَبَرَ، كَانَ لَهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ كُلُّ أَحَدٍ أَمْرُهُ كُلُّهُ لَهُ خَيْرٌ إِلَّا الْمُؤْمِنُ" ، قَالَ أَبِي: وحَدَّثَنَاه عَفَّانُ أَيْضًا، حَدَّثَنَاهُ سُلَيْمَانُ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ هَذَا اللَّفْظَ بِعَيْنِهِ، وَأُرَاهُ وَهِمَ، هَذَا لَفْظُ حَمَّادٍ، وَقَدْ حَدَّثَنَا به قَالَ: حدثنا سُلَيْمَانُ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ نَحْوًا مِنْ لَفْظِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُلَيْمَانَ، وَذَلِكَ مِنْ كِتَابِهِ قَرَاءة عَلَيْنَا.
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ مسکرانے لگے پھر فرمایا تم مجھ سے پوچھتے کیوں نہیں ہو کہ میں کیوں ہنس رہا ہوں؟ صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے تو مسلمانوں کے معاملات پر تعجب ہوتا ہے کہ اس کے معاملے میں سراسر خیر ہی خیر ہے اور یہ سعادت مؤمن کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے کہ اگر اسے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے جو کہ اس کے لئے سراسر خیر ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور یہ بھی سراسر خیر ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2999
حدیث نمبر: 23931
Save to word اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا ثابت ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن صهيب ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " كان ملك فيمن كان قبلكم، وكان له ساحر، فلما كبر الساحر، قال للملك: إني قد كبرت سني، وحضر اجلي، فادفع إلي غلاما فلاعلمه السحر، فدفع إليه غلاما، فكان يعلمه السحر، وكان بين الساحر وبين الملك راهب، فاتى الغلام على الراهب، فسمع من كلامه فاعجبه نحوه وكلامه، فكان إذا اتى الساحر ضربه، وقال: ما حبسك؟ وإذا اتى اهله ضربوه، وقالوا: ما حبسك؟ فشكا ذلك إلى الراهب، فقال: إذا اراد الساحر ان يضربك، فقل: حبسني اهلي، وإذا اراد اهلك ان يضربوك، فقل: حبسني الساحر، وقال: فبينما هو كذلك إذ اتى ذات يوم على دابة فظيعة عظيمة وقد حبست الناس، فلا يستطيعون ان يجوزوا، فقال: اليوم اعلم امر الراهب احب إلى الله ام امر الساحر؟ فاخذ حجرا، فقال: اللهم إن كان امر الراهب احب إليك وارضى لك من الساحر، فاقتل هذه الدابة حتى يجوز الناس، ورماها فقتلها، ومضى الناس، فاخبر الراهب بذلك، فقال: اي بني، انت افضل مني، وإنك ستبتلى، فإن ابتليت، فلا تدل علي، فكان الغلام يبرئ الاكمه وسائر الادواء ويشفيهم، وكان جليس للملك فعمي، فسمع به، فاتاه بهدايا كثيرة، فقال: اشفني ولك ما هاهنا اجمع، فقال: ما اشفي انا احدا، إنما يشفي الله عز وجل، فإن انت آمنت به، دعوت الله فشفاك، فآمن فدعا الله له فشفاه، ثم اتى الملك، فجلس منه نحو ما كان يجلس، فقال له الملك: يا فلان، من رد عليك بصرك، فقال: ربي، قال: انا؟ قال: لا، لكن ربي وربك الله، قال: اولك رب غيري؟! قال: نعم، فلم يزل يعذبه حتى دله على الغلام، فبعث إليه، فقال: اي بني، قد بلغ من سحرك ان تبرئ الاكمه والابرص وهذه الادواء؟ قال: ما اشفي انا احدا، ما يشفي غير الله عز وجل، قال: انا؟ قال: لا، قال: اولك رب غيري؟! قال: نعم، ربي وربك الله، فاخذه ايضا بالعذاب، فلم يزل به حتى دل على الراهب، فاتى بالراهب، فقال: ارجع عن دينك فابى، فوضع المنشار في مفرق راسه حتى وقع شقاه، وقال للاعمى: ارجع عن دينك فابى، فوضع المنشار في مفرق راسه حتى وقع شقاه في الارض، وقال للغلام: ارجع عن دينك فابى، فبعث به مع نفر إلى جبل كذا وكذا، فقال: إذا بلغتم ذروته فإن رجع عن دينه، وإلا فدهدهوه من فوقه، فذهبوا به، فلما علوا به الجبل، قال: اللهم اكفنيهم بما شئت، فرجف بهم الجبل فدهدهوا اجمعون، وجاء الغلام يتلمس حتى دخل على الملك، فقال: ما فعل اصحابك؟ فقال: كفانيهم الله عز وجل، فبعثه مع نفر في قرقور، فقال: إذا لججتم به البحر فإن رجع عن دينه وإلا فغرقوه، فلججوا به البحر، فقال الغلام: اللهم اكفنيهم بما شئت، فغرقوا اجمعون، وجاء الغلام يتلمس حتى دخل على الملك، فقال: ما فعل اصحابك؟ قال: كفانيهم الله عز وجل، ثم قال للملك: إنك لست بقاتلي حتى تفعل ما آمرك به، فإن انت فعلت ما آمرك به قتلتني، وإلا فإنك لا تستطيع قتلي، قال: وما هو؟ قال: تجمع الناس في صعيد، ثم تصلبني على جذع فتاخذ سهما من كنانتي، ثم قل: بسم الله رب الغلام، فإنك إذا فعلت ذلك قتلتني، ففعل ووضع السهم في كبد قوسه ثم رمى، فقال: بسم الله رب الغلام، فوضع السهم في صدغه، فوضع الغلام يده على موضع السهم ومات، فقال الناس: آمنا برب الغلام، فقيل للملك: ارايت ما كنت تحذر؟ فقد والله نزل بك، قد آمن الناس كلهم، فامر بافواه السكك فخددت فيها الاخدود، واضرمت فيها النيران، وقال: من رجع عن دينه فدعوه وإلا فاقحموه فيها، قال: فكانوا يتعادون فيها ويتدافعون، فجاءت امراة بابن لها ترضعه، فكانها تقاعست ان تقع في النار، فقال الصبي: يا امه، اصبري، فإنك على الحق" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أخبرنا ثَابِتٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ صُهَيْبٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " كَانَ مَلِكٌ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، وَكَانَ لَهُ سَاحِرٌ، فَلَمَّا كَبِرَ السَّاحِرُ، قَالَ لِلْمَلِكِ: إِنِّي قَدْ كَبِرَتْ سِنِّي، وَحَضَرَ أَجَلِي، فَادْفَعْ إِلَيَّ غُلَامًا فَلَأُعَلِّمُهُ السِّحْرَ، فَدَفَعَ إِلَيْهِ غُلَامًا، فَكَانَ يُعَلِّمُهُ السِّحْرَ، وَكَانَ بَيْنَ السَّاحِرِ وَبَيْنَ الْمَلِكِ رَاهِبٌ، فَأَتَى الْغُلَامُ عَلَى الرَّاهِبِ، فَسَمِعَ مِنْ كَلَامِهِ فَأَعْجَبَهُ نَحْوُهُ وَكَلَامُهُ، فَكَانَ إِذَا أَتَى السَّاحِرَ ضَرَبَهُ، وَقَالَ: مَا حَبَسَكَ؟ وَإِذَا أَتَى أَهْلَهُ ضَرَبُوهُ، وَقَالُوا: مَا حَبَسَكَ؟ فَشَكَا ذَلِكَ إِلَى الرَّاهِبِ، فَقَالَ: إِذَا أَرَادَ السَّاحِرُ أَنْ يَضْرِبَكَ، فَقُلْ: حَبَسَنِي أَهْلِي، وَإِذَا أَرَادَ أَهْلُكَ أَنْ يَضْرِبُوكَ، فَقُلْ: حَبَسَنِي السَّاحِرُ، وَقَالَ: فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ أَتَى ذَاتَ يَوْمٍ عَلَى دَابَّةٍ فَظِيعَةٍ عَظِيمَةٍ وَقَدْ حَبَسَتْ النَّاسَ، فَلَا يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يَجُوزُوا، فَقَالَ: الْيَوْمَ أَعْلَمُ أَمْرُ الرَّاهِبِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ أَمْ أَمْرُ السَّاحِرِ؟ فَأَخَذَ حَجَرًا، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ أَمْرُ الرَّاهِبِ أَحَبَّ إِلَيْكَ وَأَرْضَى لَكَ مِنَ السَّاحِرِ، فَاقْتُلْ هَذِهِ الدَّابَّةَ حَتَّى يَجُوزَ النَّاسُ، وَرَمَاهَا فَقَتَلَهَا، وَمَضَى النَّاسُ، فَأَخْبَرَ الرَّاهِبَ بِذَلِكَ، فَقَالَ: أَيْ بُنَيَّ، أَنْتَ أَفْضَلُ مِنِّي، وَإِنَّكَ سَتُبْتَلَى، فَإِنْ ابْتُلِيتَ، فَلَا تَدُلَّ عَلَيَّ، فَكَانَ الْغُلَامُ يُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَسَائِرَ الْأَدْوَاءِ وَيَشْفِيهِمْ، وَكَانَ جَلِيسٌ لِلْمَلِكِ فَعَمِيَ، فَسَمِعَ بِهِ، فَأَتَاهُ بِهَدَايَا كَثِيرَةٍ، فَقَالَ: اشْفِنِي وَلَكَ مَا هَاهُنَا أَجْمَعُ، فَقَالَ: مَا أَشْفِي أَنَا أَحَدًا، إِنَّمَا يَشْفِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِنْ أَنْتَ آمَنْتَ بِهِ، دَعَوْتُ اللَّهَ فَشَفَاكَ، فَآمَنَ فَدَعَا اللَّهَ لَهُ فَشَفَاهُ، ثُمَّ أَتَى الْمَلِكَ، فَجَلَسَ مِنْهُ نَحْوَ مَا كَانَ يَجْلِسُ، فَقَالَ لَهُ الْمَلِكُ: يَا فُلَانُ، مَنْ رَدَّ عَلَيْكَ بَصَرَكَ، فَقَالَ: رَبِّي، قَالَ: أَنَا؟ قَالَ: لَا، لَكِنْ رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ، قَالَ: أَوَلَكَ رَبٌّ غَيْرِي؟! قَالَ: نَعَمْ، فَلَمْ يَزَلْ يُعَذِّبُهُ حَتَّى دَلَّهُ عَلَى الْغُلَامِ، فَبَعَثَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: أَيْ بُنَيَّ، قَدْ بَلَغَ مِنْ سِحْرِكَ أَنْ تُبْرِئَ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَهَذِهِ الْأَدْوَاءَ؟ قَالَ: مَا أَشْفِي أَنَا أَحَدًا، مَا يَشْفِي غَيْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: أَنَا؟ قَالَ: لَا، قَالَ: أَوَلَكَ رَبٌّ غَيْرِي؟! قَالَ: نَعَمْ، رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ، فَأَخَذَهُ أَيْضًا بِالْعَذَابِ، فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّى دَلَّ عَلَى الرَّاهِبِ، فَأَتَى بِالرَّاهِبِ، فَقَالَ: ارْجِعْ عَنْ دِينِكِ فَأَبَى، فَوَضَعَ الْمِنْشَارَ فِي مَفْرِقِ رَأْسِهِ حَتَّى وَقَعَ شِقَّاهُ، وَقَالَ لِلْأَعْمَى: ارْجِعْ عَنْ دِينِكَ فَأَبَى، فَوَضَعَ الْمِنْشَارَ فِي مَفْرِقِ رَأْسِهِ حَتَّى وَقَعَ شِقَّاهُ فِي الْأَرْضِ، وَقَالَ لِلْغُلَامِ: ارْجِعْ عَنْ دِينِكَ فَأَبَى، فَبَعَثَ بِهِ مَعَ نَفَرٍ إِلَى جَبَلِ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ: إِذَا بَلَغْتُمْ ذُرْوَتَهُ فَإِنْ رَجَعَ عَنْ دِينِهِ، وَإِلَّا فَدَهْدِهُوهُ مِنْ فَوْقِهِ، فَذَهَبُوا بِهِ، فَلَمَّا عَلَوْا بِهِ الْجَبَلَ، قَالَ: اللَّهُمَّ اكْفِنِيهِمْ بِمَا شِئْتَ، فَرَجَفَ بِهِمْ الْجَبَلُ فَدُهْدِهُوا أَجْمَعُونَ، وَجَاءَ الْغُلَامُ يَتَلَمَّسُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى الْمَلِكِ، فَقَالَ: مَا فَعَلَ أَصْحَابُكَ؟ فَقَالَ: كَفَانِيهِمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَبَعَثَهُ مَعَ نَفَرٍ فِي قُرْقُورٍ، فَقَالَ: إِذَا لَجَجْتُمْ بِهِ الْبَحْرَ فَإِنْ رَجَعَ عَنْ دِينِهِ وَإِلَّا فَغَرِّقُوهُ، فَلَجَّجُوا بِهِ الْبَحْرَ، فَقَالَ الْغُلَامُ: اللَّهُمَّ اكْفِنِيهِمْ بِمَا شِئْتَ، فَغَرِقُوا أَجْمَعُونَ، وَجَاءَ الْغُلَامُ يَتَلَمَّسُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى الْمَلِكِ، فَقَالَ: مَا فَعَلَ أَصْحَابُكَ؟ قَالَ: كَفَانِيهِمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ قَالَ لِلْمَلِكِ: إِنَّكَ لَسْتَ بِقَاتِلِي حَتَّى تَفْعَلَ مَا آمُرُكَ بِهِ، فَإِنْ أَنْتَ فَعَلْتَ مَا آمُرُكَ بِهِ قَتَلْتَنِي، وَإِلَّا فَإِنَّكَ لَا تَسْتَطِيعُ قَتْلِي، قَالَ: وَمَا هُوَ؟ قَالَ: تَجْمَعُ النَّاسَ فِي صَعِيدٍ، ثُمَّ تَصْلُبُنِي عَلَى جِذْعٍ فَتَأْخُذُ سَهْمًا مِنْ كِنَانَتِي، ثُمَّ قُلْ: بِسْمِ اللَّهِ رَبِّ الْغُلَامِ، فَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ قَتَلْتَنِي، فَفَعَلَ وَوَضَعَ السَّهْمَ فِي كَبِدِ قَوْسِهِ ثُمَّ رَمَى، فَقَالَ: بِسْمِ اللَّهِ رَبِّ الْغُلَامِ، فَوَضَعَ السَّهْمَ فِي صُدْغِهِ، فَوَضَعَ الْغُلَامُ يَدَهُ عَلَى مَوْضِعِ السَّهْمِ وَمَات، فَقَالَ النَّاسُ: آمَنَّا بِرَبِّ الْغُلَامِ، فَقِيلَ لِلْمَلِكِ: أَرَأَيْتَ مَا كُنْتَ تَحْذَرُ؟ فَقَدْ وَاللَّهِ نَزَلَ بِكَ، قَدْ آمَنَ النَّاسُ كُلُّهُمْ، فَأَمَرَ بِأَفْوَاهِ السِّكَكِ فَخُدِّدَتْ فِيهَا الْأُخْدُودُ، وَأُضْرِمَتْ فِيهَا النِّيرَانُ، وَقَالَ: مَنْ رَجَعَ عَنْ دِينِهِ فَدَعُوهُ وَإِلَّا فَأَقْحِمُوهُ فِيهَا، قَالَ: فَكَانُوا يَتَعَادَوْنَ فِيهَا وَيَتَدَافَعُونَ، فَجَاءَتْ امْرَأَةٌ بِابْنٍ لَهَا تُرْضِعُهُ، فَكَأَنَّهَا تَقَاعَسَتْ أَنْ تَقَعَ فِي النَّارِ، فَقَالَ الصَّبِيُّ: يَا أُمَّهْ، اصْبِرِي، فَإِنَّكِ عَلَى الْحَقِّ" .
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سے پہلی (قوموں میں) ایک بادشاہ تھا جس کے پاس ایک جادوگر تھا جب وہ جادوگر بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور میرا آخری وقت قریب آرہا ہے تو آپ میری پاس ایک لڑکے کو بھیج دیں تاکہ میں اسے جادو سکھا دوں بادشاہ نے ایک لڑکا جادو سیکھنے کے لئے اس بوڑھے جادوگر کی طرف بھیج دیا اور وہ اسے جادو سکھانے لگا اس کے راستے میں ایک راہب تھا تو وہ لڑکا اس راہب کے پاس بیٹھا اور اس کی باتیں سننے لگا جو کہ اسے پسند آئیں پھر جب وہ بھی جادوگر کے پاس آتا اور راہب کے پاس سے گذرتا تو اس کے پاس بیٹھتا (دیر سے آنے کی وجہ سے) جادوگر اس لڑکے کو مارتا اس لڑکے نے اس کی شکایت راہب سے کی تو راہب نے کہا کہ اگر تجھے جادوگر سے ڈر ہو تو کہہ دیا کر کہ مجھے میرے گھر والوں نے (کسی کام کے لئے) روک لیا تھا اور جب تجھے گھر والوں سے ڈر ہو تو کہہ دیا کر کہ مجھے جادوگر نے روک لیا تھا۔ اسی دوران ایک بہت بڑے درندے نے لوگوں کا راستہ روک لیا (جب لڑکا اس طرف آیا) تو اس نے کہا میں آج جاننا چاہوں گا کہ جادوگر کا کام اللہ کا زیادہ پسند ہے یا راہب کا؟ اور پھر ایک پتھر پکڑا اور کہنے لگا اے اللہ! اگر تجھے جادوگر کے معاملے سے راہب کا معاملہ زیادہ پسندیدہ ہے تو اس درندے کا مار دے تاکہ (یہاں راستہ سے) لوگوں کا آناجانا (شروع) ہو اور پھر وہ پتھر اس درندے کو مار کر اسے قتل کردیا اور لوگ گذرنے لگے پھر وہ لڑکا راہب کے پاس آیا اور اسے اس کی خبر دی تو راہب نے اس لڑکے سے کہا اے بیٹے! آج تو مجھ سے افضل ہے کیونکہ تیرا معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ جس کی وجہ سے تو عنقریب ایک مصیبت میں مبتلا کردیا جائے گا پھر اگر تو کسی مصیبت میں مبتلا ہوجائے تو میرے متعلق کسی کو نہ بتانا وہ لڑکا پیدائشی اندھے اور کوڑھی کو صحیح کردیتا تھا بلکہ لوگوں کی ہر بیماری کا علاج کردیتا تھا بادشاہ کا ایک ہم نشین اندھا ہوگیا اس نے لڑکے کے بارے میں سنا تو وہ بہت سے تحفے لے کر اس کے پاس آیا اور اسے کہنے لگا اگر تم مجھے شفا دے دو تو یہ سارے تحفے جو میں یہاں لے کر آیا ہوں وہ سارے تمہارے لئے ہیں اس لڑکے نے کہا میں تو کسی کو شفا نہیں دے سکتا بلکہ شفاء تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے اگر تو اللہ پر ایمان لے آئے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ وہ تجھے شفا دے دے پھر وہ (شخص) اللہ پر ایمان لے آیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے شفا عطا فرما دی۔ پھر وہ آدمی (جسے شفا ہوئی) بادشاہ کے پاس آیا اور اس کے پاس بیٹھ گیا جس طرح کہ وہ پہلے بیٹھا کرتا تھا بادشاہ نے اس سے کہا کہ کس نے تجھے تیری بینائی واپس لوٹا دی؟ اس نے کہا میرے رب نے اس نے کہا کیا میرے علاوہ تیرا اور کوئی رب بھی ہے؟ اس نے کہا میرا اور تیرا رب اللہ ہے پھر بادشاہ اس کو پکڑ کر اسے عذاب دینے لگا تو اس نے بادشاہ کو اس لڑکے کے بارے میں بتادیا (اس لڑکے کو بلایا گیا) پھر جب وہ لڑکا آیا تو بادشاہ نے اس لڑکے سے کہا اے بیٹے! کیا تیرا جادو اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ اب تو مادرزاد اندھے اور کوڑھی کو بھی صحیح کرنے لگ گیا ہے؟ اور ایسے ایسے کرتا ہے؟ لڑکے نے کہا میں تو کسی کو شفاء نہیں دیتا بلکہ شفاء تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے بادشاہ نے اسے پکڑ کر عذاب دیا یہاں تک کہ اس نے راہب کے بارے میں بادشاہ کو بتادیا (پھر راہب کو بلوایا گیا) راہب آیا تو اس سے کہا گیا کہ تو اپنے مذہب سے پھر جا۔ راہب نے انکار کردیا پھر بادشاہ نے آرہ منگوایا اور اس راہب کے سر پر رکھ کر اس کا سر چیر کر اس کے دو ٹکڑے کردیئے پھر بادشاہ کے ہم نشین کو لایا گیا اور اس سے بھی کہا، گیا کہ تو اپنے مذہب سے پھر جا۔ اس نے بھی انکار کردیا بادشاہ نے اس کے سر پر بھی آرہ رکھ کر سر کو چیر کر اس کے دو ٹکڑے کروا دیئے (پھر اس لڑکے کو بلایا گیا) وہ آیا تو اس سے بھی یہی کہا گیا کہ اپنے مذہب سے پھر جا اس نے بھی انکار کردیا تو بادشاہ نے اس لڑکے کو اپنے کچھ ساتھیوں کے حوالے کر کے کہا کہ اسے فلاں پہاڑ پر لے جاؤ اور اسے اس پہاڑ کی چوٹی پر چڑھاؤ اگر یہ اپنے مذہب سے پھر جائے تو اسے چھوڑ دینا اور اگر انکار کر دے تو اسے پہاڑ کی چوٹی سے نیچے پھینک دینا۔ چنانچہ بادشاہ کے ساتھی اس لڑکے کو پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے تو اس لڑکے نے کہا اے اللہ جس طرح تو چاہے مجھے ان سے بچا لے اس پہاڑ پر فوراً ایک زلزلہ آیا جس سے بادشاہ کے وہ سارے ساتھی گرگئے اور وہ لڑکاچلتے ہوئے بادشاہ کی طرف آگیا بادشاہ نے اس لڑکے سے پوچھا کہ تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا؟ لڑکے نے کہا اللہ پاک نے مجھے ان سے بچا لیا ہے۔ بادشاہ نے پھر اس لڑکے کو اپنے کچھ ساتھیوں کے حوالے کر کے کہا اسے ایک چھوٹی کشتی میں لے جاکر سمندر کے درمیان میں پھینک دینا اگر یہ اپنے مذہب سے نہ پھرے بادشاہ کے ساتھی اس لڑکے کو لے گئے تو اس ل

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 3005

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.