حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا عوف ، عن الحسن ، عن عتي بن ضمرة ، عن ابي بن كعب ، ان رجلا اعتزى بعزاء الجاهلية، فاعضه، ولم يكنه، فنظر القوم إليه، فقال للقوم: إني قد ارى الذي في انفسكم، إني لم استطع إلا ان اقول هذا، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم " امرنا إذا سمعتم من يعتزي بعزاء الجاهلية فاعضوه، ولا تكنوا" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عُتَيِّ بْنِ ضَمْرَةَ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، أَنَّ رَجُلًا اعْتَزَى بِعَزَاءِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَعَضَّهُ، وَلَمْ يُكَنِّهِ، فَنَظَرَ الْقَوْمُ إِلَيْهِ، فَقَالَ لِلْقَوْمِ: إِنِّي قَدْ أَرَى الَّذِي فِي أَنْفُسِكُمْ، إِنِّي لَمْ أَسْتَطِعْ إِلَّا أَنْ أَقُولَ هَذَا، إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَمَرَنَا إِذَا سَمِعْتُمْ مَنْ يَعْتَزِي بِعَزَاءِ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَعِضُّوهُ، وَلَا تَكْنُوا" .
عتی بن ضمرہ سعدی کے ایک آدمی نے کسی کی طرف اپنی جھوٹی نسبت کی تو حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے اسے اس کے باپ کی شرمگاہ سے شرم دلائی لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ تو ایسی کھلی گفتگو نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا ہمیں اسی کا حکم دیا گیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جس آدمی کو جاہلیت کی نسبت کرتے ہوئے سنو تو اسے اس کے باپ کی شرمگاہ سے شرم دلاؤ۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد صالح للمتابعات والشواهد لأجل عتي بن ضمرة
حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا عوف ، عن الحسن ، عن عتي ، عن ابي بن كعب ، قال: رايت رجلا تعزى عند ابي بعزاء الجاهلية، افتخر بابيه، فاعضه بابيه ولم يكنه، ثم قال لهم: اما إني قد ارى الذي في انفسكم إني لا استطيع إلا ذلك، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من تعزى بعزاء الجاهلية فاعضوه ولا تكنوا" ..حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ عُتَيٍّ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ: رَأَيْتُ رَجُلًا تَعَزَّى عِنْدَ أُبَيٍّ بِعَزَاءِ الْجَاهِلِيَّةِ، افْتَخَرَ بِأَبِيهِ، فَأَعَضَّهُ بِأَبِيهِ وَلَمْ يُكَنِّهِ، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ: أَمَا إِنِّي قَدْ أَرَى الَّذِي فِي أَنْفُسِكُمْ إِنِّي لَا أَسْتَطِيعُ إِلَّا ذَلِكَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ تَعَزَّى بِعَزَاءِ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَعِضُّوهُ وَلَا تَكْنُوا" ..
عتی بن ضمرہ سعدی کے ایک آدمی نے کسی کی طرف اپنی جھوٹی نسبت کی تو حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے اسے اس کے باپ کی شرمگاہ سے شرم دلائی لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ تو ایسی کھلی گفتگو نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا ہمیں اسی کا حکم دیا گیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جس آدمی کو جاہلیت کی نسبت کرتے ہوئے سنو تو اسے اس کے باپ کی شرمگاہ سے شرم دلاؤ۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد صالح للمتابعات والشواهد لأجل عتي بن ضمرة
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ عتی بن ضمرہ سعدی کے ایک آدمی نے کسی کی طرف اپنی جھوٹی نسبت کی۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا انہوں نے فرمایا ہمیں اسی کا حکم دیا گیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جس آدمی کو جاہلیت کی نسبت کرتے ہوئے سنو تو اسے اس کے باپ کی شرمگاہ سے شرم دلاؤ۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وضو کا بھی شیطان ہوتا ہے جسے " ولہان " کہا جاتا ہے اس سے بچتے رہو۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ابن آدم کا کھانا ہی دنیا کی مثال قرار دیا گیا ہے کہ اس میں جتنے مرضی نمک مصالحے ڈال لو یہ دیکھو کہ اس کا انجام کیا ہوگا؟
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد صالح للمتابعات والشواهد لأجل عتي بن ضمرة
حدثنا حدثنا عبد الله، حدثنا هدبة بن خالد ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن حميد ، عن الحسن ، عن عتي ، قال: رايت شيخا بالمدينة يتكلم، فسالت عنه، فقالوا: هذا ابي بن كعب ، فقال: إن آدم عليه السلام لما حضره الموت، قال: لبنيه اي بني إني اشتهي من ثمار الجنة، فذهبوا يطلبون له، فاستقبلتهم الملائكة ومعهم اكفانه وحنوطه، ومعهم الفئوس والمساحي والمكاتل، فقالوا لهم: يا بني آدم، ما تريدون وما تطلبون او ما تريدون واين تذهبون؟ قالوا: ابونا مريض، فاشتهى من ثمار الجنة، قالوا: لهم ارجعوا فقد قضي قضاء ابيكم، فجاءوا فلما راتهم حواء عرفتهم، فلاذت بآدم، فقال: إليك عني فإني إنما اوتيت من قبلك، خلي بيني وبين ملائكة ربي تبارك وتعالى، فقبضوه، وغسلوه وكفنوه وحنطوه، وحفروا له والحدوا له، وصلوا عليه، ثم دخلوا قبره فوضعوه في قبره ووضعوا عليه اللبن، ثم خرجوا من القبر، ثم حثوا عليه التراب، ثم قالوا: يا بني آدم هذه سنتكم .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ عُتَيٍّ ، قَالَ: رَأَيْتُ شَيْخًا بِالْمَدِينَةِ يَتَكَلَّمُ، فَسَأَلْتُ عَنْهُ، فَقَالُوا: هَذَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، فَقَالَ: إِنَّ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَام لَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ، قَالَ: لِبَنِيهِ أَيْ بَنِيَّ إِنِّي أَشْتَهِي مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ، فَذَهَبُوا يَطْلُبُونَ لَهُ، فَاسْتَقْبَلَتْهُمْ الْمَلَائِكَةُ وَمَعَهُمْ أَكْفَانُهُ وَحَنُوطُهُ، وَمَعَهُمْ الْفُئُوسُ وَالْمَسَاحِي وَالْمَكَاتِلُ، فَقَالُوا لَهُمْ: يَا بَنِي آدَمَ، مَا تُرِيدُونَ وَمَا تَطْلُبُونَ أَوْ مَا تُرِيدُونَ وَأَيْنَ تَذْهَبُونَ؟ قَالُوا: أَبُونَا مَرِيضٌ، فَاشْتَهَى مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ، قَالُوا: لَهُمْ ارْجِعُوا فَقَدْ قُضِيَ قَضَاءُ أَبِيكُمْ، فَجَاءوا فَلَمَّا رَأَتْهُمْ حَوَّاءُ عَرَفَتْهُمْ، فَلَاذَتْ بِآدَمَ، فَقَالَ: إِلَيْكِ عَنِّي فَإِنِّي إِنَّمَا أُوتِيتُ مِنْ قِبَلِكِ، خَلِّي بَيْنِي وَبَيْنَ مَلَائِكَةِ رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى، فَقَبَضُوهُ، وَغَسَّلُوهُ وَكَفَّنُوهُ وَحَنَّطُوهُ، وَحَفَرُوا لَهُ وَأَلْحَدُوا لَهُ، وَصَلَّوْا عَلَيْهِ، ثُمَّ دَخَلُوا قَبْرَهُ فَوَضَعُوهُ فِي قَبْرِهِ وَوَضَعُوا عَلَيْهِ اللَّبِنَ، ثُمَّ خَرَجُوا مِنَ الْقَبْرِ، ثُمَّ حَثَوْا عَلَيْهِ التُّرَابَ، ثُمّ قَالُوا: يَا بَنِي آدَمَ هَذِهِ سُنَّتُكُمْ .
عتی کہتے ہیں کہ میں نے مدینہ منورہ میں ایک بزرگ کو گفتگو کرتے ہوئے دیکھا تو لوگوں سے ان کے متعلق پوچھا (یہ کون ہیں) لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں انہوں نے فرمایا کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کے دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنے بیٹوں سے فرمایا بچو! میرا دل جنت کا پھل کھانے کی خواہش کر رہا ہے چنانچہ ان کے بیٹے جنتی پھل کی تلاش میں نکل گئے سامنے سے فرشتے آتے ہوئے دکھائی دیئے ان کے ساتھ کفن اور حنوط تھی اور ان کے ہاتھوں میں کلہاڑیاں، پھاوڑے اور کسیاں بھی تھیں فرشتوں نے ان سے پوچھا کہ اے اولاد آدم کہاں کا ارادہ ہے اور کس چیز کو تلاش کر رہے ہو؟ انہوں نے بتایا کہ ہمارے والد بیمار ہیں اور ان کا دل جنتی پھل کھانے کو چاہ رہا ہے فرشتوں نے ان سے کہا کہ واپس چلے جاؤ کہ تمہارے والد کا وقت آخر قریب آگیا ہے۔
فرشتے جب حضرت آدم علیہ السلام کے پاس پہنچے تو حضرت حواء (علیہا السلام) انہیں دیکھتے ہی پہچان گئیں اور حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ چمٹ گئیں حضرت آدم علیہ السلام نے ان سے فرمایا پیچھے ہٹو تمہاری ہی وجہ سے میرے ساتھ یہ معاملات پیش آئے میرا اور میرے رب کے فرشتوں کا راستہ چھوڑ دو چنانچہ فرشتوں نے ان کی روح قبض کرلی انہیں غسل دیا کفن پہنایا، حنوط لگائی گڑھا کھود کر قبر تیار کی ان کی نماز جنازہ پڑھی پھر قبر میں اتر کر انہیں قبر میں لٹایا اور اس پر کچی اینٹیں برابر کردیں پھر قبر سے باہر نکل کر ان پر مٹی ڈالنے لگے اور اس کے بعد کہنے لگے اے بنی آدم! یہ ہے مردوں کو دفن کرنے کا طریقہ۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، وقد تفرد به عتي بن ضمرة، ومثله يضعف فيما يتفرد به، والحديث هنا موقوف، وقد اختلف فى رفعه ووقفه