حدثنا يحيى بن آدم , حدثنا زهير , حدثنا إبراهيم بن عقبة , اخبرني كريب , انه سال اسامة بن زيد , قال: قلت: اخبرني كيف صنعتم عشية ردفت رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: جئنا الشعب الذي ينيخ فيه الناس للمغرب , فاناخ رسول الله صلى الله عليه وسلم ناقته , ثم بال ماء , قال: اهراق الماء , ثم دعا بالوضوء فتوضا وضوءا ليس بالبالغ جدا , قال: قلت: يا رسول الله , الصلاة , قال: " الصلاة امامك" , قال: فركب حتى قدم المزدلفة فاقام المغرب , ثم اناخ الناس في منازلهم , ولم يحلوا حتى اقام العشاء فصلى , ثم حل الناس , قال: فقلت: كيف فعلتم حين اصبحتم , قال: ردفه الفضل بن عباس , وانطلقت انا في سباق قريش على رجلي.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ , حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ , حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُقْبَةَ , أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ , أَنَّهُ سَأَلَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ , قَالَ: قُلْتُ: أَخْبِرْنِي كَيْفَ صَنَعْتُمْ عَشِيَّةَ رَدِفْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: جِئْنَا الشِّعْبَ الَّذِي يُنِيخُ فِيهِ النَّاسُ لِلْمَغْرِبِ , فَأَنَاخَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاقَتَهُ , ثُمَّ بَالَ مَاءً , قَالَ: أَهْرَاقَ الْمَاءَ , ثُمَّ دَعَا بِالْوَضُوءِ فَتَوَضَّأَ وُضُوءًا لَيْسَ بِالْبَالِغِ جِدًّا , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , الصَّلَاةَ , قَالَ: " الصَّلَاةُ أَمَامَكَ" , قَالَ: فَرَكِبَ حَتَّى قَدِمَ الْمُزْدَلِفَةَ فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ , ثُمَّ أَنَاخَ النَّاسُ فِي مَنَازِلِهِمْ , وَلَمْ يَحُلُّوا حَتَّى أَقَامَ الْعِشَاءَ فَصَلَّى , ثُمَّ حَلَّ النَّاسُ , قَالَ: فَقُلْتُ: كَيْفَ فَعَلْتُمْ حِينَ أَصْبَحْتُمْ , قَالَ: رَدِفَهُ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ , وَانْطَلَقْتُ أَنَا فِي سُبَّاقِ قُرَيْشٍ عَلَى رِجْلَيَّ.
کریب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا یہ بتائیے کہ جس رات آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف بنے تھے آپ نے کیا کیا تھا؟ انہوں نے فرمایا ہم مغرب کے لئے اس گھاٹی میں پہنچے جہاں لوگ اپنی سواریوں کو بٹھایا کرتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی وہاں اپنی اونٹنی کو بٹھایا پھر پیشاب کیا اور پانی سے استنجاء کیا پھر وضو کا پانی منگوا کر وضو کیا جو بہت زیادہ مبالغہ آمیز نہ تھا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! نماز کا وقت ہوگیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز تمہارے آگے ہے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہو کر مزدلفہ پہنچے وہاں مغرب کی نماز پڑھی پھر لوگوں نے اپنے اپنے مقام پر سواریوں کو بٹھایا اور ابھی سامان کھولنے نہیں پائے تھے کہ نماز عشاء کھڑی ہوگئی، نماز پڑھی اور لوگ آرام کرنے لگے میں نے پوچھا کہ جب صبح ہوئی تو پھر آپ نے کیا کیا؟ انہوں نے فرمایا کہ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ تھے اور میں قریش کے لوگوں میں پیدل چل رہا تھا۔
حدثنا عفان , حدثنا ابان , حدثنا يحيى بن ابي كثير , حدثني عمر بن ابي الحكم , عن مولى قدامة بن مظعون , عن مولى اسامة بن زيد , انه انطلق مع اسامة إلى وادي القرى يطلب مالا له , وكان يصوم يوم الاثنين ويوم الخميس , فقال له مولاه: لم تصوم يوم الاثنين والخميس , وانت شيخ كبير قد رققت , قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصوم يوم الاثنين ويوم الخميس , فسئل عن ذلك , فقال: " إن اعمال الناس تعرض يوم الاثنين ويوم الخميس" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ , حَدَّثَنَا أَبَانُ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ , حَدَّثَنِي عَمْرُ بْنُ أَبِي الْحَكَمِ , عَنْ مَوْلَى قُدَامَةَ بْنِ مَظْعُونٍ , عَنْ مَوْلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , أَنَّهُ انْطَلَقَ مَعَ أُسَامَةَ إِلَى وَادِي الْقُرَى يَطْلُبُ مَالًا لَهُ , وَكَانَ يَصُومُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ , فَقَالَ لَهُ مَوْلَاهُ: لِمَ تَصُومُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ , وَأَنْتَ شَيْخٌ كَبِيرٌ قَدْ رَقَقْتَ , قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَصُومُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ , فَسُئِلَ عَنْ ذَلِكَ , فَقَالَ: " إِنَّ أَعْمَالَ النَّاسِ تُعْرَضُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ" .
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے ایک آزاد کردہ غلام سے مروی ہے کہ ایک دن وہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اپنے مال کی تلاش میں وادی قری گیا ہوا تھا حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ وہ پیر اور جمعرات کے دن روزہ رکھا کرتے تھے ان کے غلام نے ان سے پوچھا کہ آپ اس قدر بوڑھے اور کمزور ہونے کے باوجود بھی پیر اور جمعرات کا روزہ اتنی پابندی سے کیوں رکھتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی پیر اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے کسی نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پیر اور جمعرات کے دن لوگوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة مولي قدامة ومولي أسامة، والمرفوع منه صحيح بطرقة وشواهده
حدثنا هشيم بن بشير , حدثنا حصين , عن ابي ظبيان , قال: سمعت اسامة بن زيد يحدث , قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الحرقة من جهينة , قال: فصبحناهم فقاتلناهم , فكان منهم رجل إذا اقبل القوم كان من اشدهم علينا , وإذا ادبروا كان حاميتهم , قال: فغشيته انا ورجل من الانصار , قال: فلما غشيناه , قال: لا إله إلا الله , فكف عنه الانصاري وقتلته , فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فقال:" يا اسامة اقتلته بعدما قال: لا إله إلا الله؟!" قال: قلت: يا رسول الله , إنما كان متعوذا , من القتل , فكررها علي حتى تمنيت اني لم اكن اسلمت إلا يومئذ .حَدَّثَنَا هُشَيْمُ بْنُ بَشِيرٍ , حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ , عَنْ أَبِي ظِبْيَانَ , قَالَ: سَمِعْتُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ يُحَدِّثُ , قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْحُرَقَةِ مِنْ جُهَيْنَةَ , قَالَ: فَصَبَّحْنَاهُمْ فَقَاتَلْنَاهُمْ , فَكَانَ مِنْهُمْ رَجُلٌ إِذَا أَقْبَلَ الْقَوْمُ كَانَ مِنْ أَشَدِّهِمْ عَلَيْنَا , وَإِذَا أَدْبَرُوا كَانَ حَامِيَتَهُمْ , قَالَ: فَغَشِيتُهُ أَنَا وَرَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ , قَالَ: فَلَمَّا غَشِينَاهُ , قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , فَكَفَّ عَنْهُ الْأَنْصَارِيُّ وَقَتَلْتُهُ , فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" يَا أُسَامَةُ أَقَتَلْتَهُ بَعْدَمَا قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ؟!" قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّمَا كَانَ مُتَعَوِّذًا , مِنَ الْقَتْلِ , فَكَرَّرَهَا عَلَيَّ حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ أَسْلَمْتُ إِلَّا يَوْمَئِذٍ .
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جہینہ کے ریتلے علاقوں میں سے ایک قبیلے کی طرف بھیجا، ہم نے صبح کے وقت ان پر حملہ کیا اور قتال شروع کردیا ان میں سے ایک آدمی جب بھی ہمارے سامنے آتا تو وہ ہمارے سامنے سب سے زیادہ بہادری کے ساتھ لڑتا تھا اور جب وہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگتے تو وہ پیچھے سے ان کی حفاظت کرتا تھا میں نے ایک انصاری کے ساتھ مل کر اسے گھیر لیا جوں ہی ہم نے اس کے گرد گھیرا تنگ کیا تو اس نے فوراً " لا الہ الا اللہ " کہہ لیا اس پر انصاری نے اپنے ہاتھ کو کھینچ لیا لیکن میں نے اسے قتل کردیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو فرمایا اسامہ! جب اس نے لا الہ الا اللہ کہہ لیا تھا تو تم نے پھر بھی اسے قتل کردیا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس نے جان بچانے کے لئے یہ کلمہ پڑھا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو اتنی مرتبہ دہرایا کہ میں یہ خواہش کرنے لگا کہ کاش! میں نے اسلام ہی اس دن قبول کیا ہوتا۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں نے اپنے پیچھے اپنی امت کے مردوں پر عورتوں سے زیادہ شدید فتنہ کوئی نہیں چھوڑا۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی مسلمان کسی کافر کا اور کوئی کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا۔
حدثنا سفيان , عن الزهري , عن عروة , عن اسامة بن زيد , ان النبي صلى الله عليه وسلم اشرف على اطم من آطام المدينة , فقال: " هل ترون ما ارى , إني لارى مواقع الفتن خلال بيوتكم كمواقع القطر" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشْرَفَ عَلَى أُطُمٍ مِنْ آطَامِ الْمَدِينَةِ , فَقَالَ: " هَلْ تَرَوْنَ مَا أَرَى , إِنِّي لَأَرَى مَوَاقِعَ الْفِتَنِ خِلَالَ بُيُوتِكُمْ كَمَوَاقِعِ الْقَطْرِ" .
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے کسی ٹیلے پر چڑھے تو فرمایا کہ جو میں دیکھ رہا ہوں کیا تم بھی وہ دیکھ رہے ہو؟ میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے گھروں میں فتنے اس طرح رونما ہو رہے ہیں جیسے بارش کے قطرے برستے ہیں۔
حدثنا سفيان , عن إبراهيم بن عقبة , عن كريب , عن ابن عباس , قال: اخبرني اسامة بن زيد , ان النبي صلى الله عليه وسلم اردفه من عرفة , فلما اتى الشعب نزل فبال ولم يقل: اهراق الماء , فصببت عليه فتوضا وضوءا خفيفا , فقلت: الصلاة , فقال: " الصلاة امامك" , قال: ثم اتى المزدلفة فصلى المغرب , ثم حلوا رحالهم واعنته , ثم صلى العشاء .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ , عَنْ كُرَيْبٍ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ: أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْدَفَهُ مِنْ عَرَفَةَ , فَلَمَّا أَتَى الشِّعْبَ نَزَلَ فَبَالَ وَلَمْ يَقُلْ: أَهْرَاقَ الْمَاءَ , فَصَبَبْتُ عَلَيْهِ فَتَوَضَّأَ وُضُوءًا خَفِيفًا , فَقُلْتُ: الصَّلَاةَ , فَقَالَ: " الصَّلَاةُ أَمَامَكَ" , قَالَ: ثُمَّ أَتَى الْمُزْدَلِفَةَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ , ثُمَّ حَلُّوا رِحَالَهُمْ وَأَعَنْتُهُ , ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ .
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عرفہ سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے پیچھے بٹھا لیا گھاٹی میں پہنچ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نیچے اترے اور پیشاب کیا راوی نے پانی بہانے کی تعبیر اختیار نہیں کی پھر میں نے ان پر پانی ڈالا اور ہلکا سا وضو کیا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! نماز کا وقت ہوگیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز تمہارے آگے ہے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہو کر مزدلفہ پہنچے وہاں مغرب کی نماز پڑھی پھر لوگوں نے اپنے اپنے مقام پر سواریوں کو بٹھایا اور ابھی سامان کھولنے نہیں پائے تھے کہ نماز عشاء کھڑی ہوگئی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 139، م: 1280، وقد خولف سفيان بن عيينة
حدثنا سفيان بن عيينة , حدثنا عمرو يعني ابن دينار , عن ابي صالح , قال: سمعت ابا سعيد يقول: " الذهب بالذهب وزنا بوزن" . قال: قال: فلقيت ابن عباس , فقلت: ارايت ما تقول اشيء وجدته في كتاب الله , او سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: ليس بشيء وجدته في كتاب الله , او سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم , ولكن اخبرني اسامة بن زيد , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " الربا في النسيئة" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , حَدَّثَنَا عَمْرٌو يَعْنِي ابْنَ دِينَارٍ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , قَال: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ يَقُولُ: " الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ وَزْنًا بِوَزْنٍ" . قَالَ: قَالَ: فَلَقِيتُ ابْنَ عَبَّاسٍ , فَقُلْتُ: أَرَأَيْتَ مَا تَقُولُ أَشَيءً وَجَدْتَهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ , أَوْ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: لَيْسَ بِشَيْءٍ وَجَدْتُهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ , أَوْ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَلَكِنْ أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الرِّبَا فِي النَّسِيئَةِ" .
ابوصالح کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سونے کو سونے کے بدلے برابر وزن کے ساتھ بیچاجائے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ جو بات کہتے ہیں یہ بتائیے کہ اس کا ثبوت آپ کو قرآن میں ملتا ہے یا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کچھ سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ چیز نہ تو مجھے کتاب اللہ میں ملی ہے اور نہ ہی میں نے براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے البتہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سود کا تعلق ادھار سے ہوتا ہے۔
حدثنا سفيان , عن عمرو , عن عامر بن سعد , قال: جاء رجل يسال سعدا عن الطاعون , فقال اسامة بن زيد : انا احدثك عنه , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إن هذا عذاب , او كذا ارسله الله على ناس قبلكم , او طائفة من بني إسرائيل , فهو يجيء احيانا ويذهب احيانا , فإذا وقع بارض فلا تدخلوا عليه , وإذا وقع بارض فلا تخرجوا فرارا منه" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ عَمْرٍو , عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ , قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ يَسْأَلُ سَعْدًا عَنِ الطَّاعُونِ , فَقَالَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ : أَنَا أُحَدِّثُكَ عَنْهُ , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ هَذَا عَذَابٌ , أَوْ كَذَا أَرْسَلَهُ اللَّهُ عَلَى نَاسٍ قَبْلَكُمْ , أَوْ طَائِفَةٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ , فَهُوَ يَجِيءُ أَحْيَانًا وَيَذْهَبُ أَحْيَانًا , فَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوا عَلَيْهِ , وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ" .
عامر بن سعد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس طاعون کے حوالے سے سوال پوچھنے کے لئے آیا تو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کے متعلق میں تمہیں بتاتا ہوں، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ طاعون ایک عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے لوگوں (بنی اسرائیل) پر مسلط کیا تھا، کبھی یہ آجاتا ہے اور کبھی چلا جاتا ہے لہٰذا جس علاقے میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہو تو تم اس علاقے میں مت جاؤ اور جب کسی علاقے میں یہ وباء پھیلے اور تم پہلے سے وہاں موجود ہو تو اس سے بھاگ کر وہاں سے نکلو مت۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کل ہم ان شاء اللہ کہاں پڑاؤ کریں گے؟ یہ فتح مکہ کے موقع کی بات ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا عقیل نے ہمارے لئے بھی کوئی گھر چھوڑا ہے؟ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی مسلمان کسی کافر کا اور کوئی کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا۔
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي , حدثنا ثابت بن قيس ابو غصن , حدثني ابو سعيد المقبري , حدثني اسامة بن زيد , قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم الايام يسرد حتى يقال: لا يفطر , ويفطر الايام , حتى لا يكاد ان يصوم إلا يومين من الجمعة , إن كانا في صيامه وإلا صامهما , ولم يكن يصوم من شهر من الشهور ما يصوم من شعبان , فقلت: يا رسول الله , إنك تصوم لا تكاد ان تفطر , وتفطر حتى لا تكاد ان تصوم , إلا يومين إن دخلا في صيامك وإلا صمتهما , قال:" اي يومين؟" , قال: قلت: يوم الاثنين ويوم الخميس , قال: " ذانك يومان تعرض فيهما الاعمال على رب العالمين , واحب ان يعرض عملي وانا صائم" , قال: قلت: ولم ارك تصوم من شهر من الشهور ما تصوم من شعبان , قال:" ذاك شهر يغفل الناس عنه بين رجب ورمضان , وهو شهر يرفع فيه الاعمال إلى رب العالمين , فاحب ان ترفع عملي وانا صائم" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ , حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ أَبُو غُصْنٍ , حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ , حَدَّثَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ , قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ الْأَيَّامَ يَسْرُدُ حَتَّى يُقَالَ: لَا يُفْطِرُ , وَيُفْطِرُ الْأَيَّامَ , حَتَّى لَا يَكَادَ أَنْ يَصُومَ إِلَّا يَوْمَيْنِ مِنَ الْجُمُعَةِ , إِنْ كَانَا فِي صِيَامِهِ وَإِلَّا صَامَهُمَا , وَلَمْ يَكُنْ يَصُومُ مِنْ شَهْرٍ مِنَ الشُّهُورِ مَا يَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّكَ تَصُومُ لَا تَكَادُ أَنْ تُفْطِرَ , وَتُفْطِرَ حَتَّى لَا تَكَادَ أَنْ تَصُومَ , إِلَّا يَوْمَيْنِ إِنْ دَخَلَا فِي صِيَامِكَ وَإِلَّا صُمْتَهُمَا , قَالَ:" أَيُّ يَوْمَيْنِ؟" , قَالَ: قُلْتُ: يَوْمُ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمُ الْخَمِيسِ , قَالَ: " ذَانِكَ يَوْمَانِ تُعْرَضُ فِيهِمَا الْأَعْمَالُ عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ , وَأُحِبُّ أَنْ يُعْرَضَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ" , قَالَ: قُلْتُ: وَلَمْ أَرَكَ تَصُومُ مِنْ شَهْرٍ مِنَ الشُّهُورِ مَا تَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ , قَالَ:" ذَاكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ , وَهُوَ شَهْرٌ يُرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ , فَأُحِبُّ أَنْ ترْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ" .
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنے تسلسل کے ساتھ روزے رکھتے کہ لوگ کہتے اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ناغہ نہیں کریں گے اور بعض اوقات اتنے تسلسل کے ساتھ ناغہ فرماتے کہ یوں محسوس ہوتا کہ اب روزہ رکھیں گے ہی نہیں، البتہ ہفتہ میں دو دن ایسے تھے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان میں روزے سے ہوتے تو بہت اچھا، ورنہ ان کا روزہ رکھ لیتے تھے اور کسی مہینے میں نفلی روزے اتنی کثرت سے نہیں رکھتے تھے جتنی کثرت سے ماہ شعبان میں رکھتے تھے یہ دیکھ کر ایک دن میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ بعض اوقات اتنے روزے رکھتے ہیں کہ افطار کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے اور بعض اوقات اتنے ناغے کرتے ہیں کہ روزے رکھتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے، البتہ دو دن ایسے ہیں کہ اگر آپ کے روزوں میں آجائیں تو بہتر ورنہ آپ ان کا روزہ ضرور رکھتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کون سے دو دن؟ میں نے عرض کی پیر اور جمعرات، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان دو دنوں میں رب العالمین کے سامنے تمام اعمال پیش کئے جاتے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش ہوں تو میں روزے سے ہوں۔ پھر میں نے عرض کیا کہ جتنی کثرت سے میں آپ کو ماہ شعبان کے نفلی روزے رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں، کسی اور مہینے میں نہیں دیکھتا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رجب اور رمضان کے درمیان اس مہینے کی اہمیت سے لوگ غافل ہوتے ہیں حالانکہ اس مہینے میں رب العالمین کے سامنے اعمال پیش کئے جاتے ہیں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش ہوں تو میں روزے سے ہوں۔
حدثنا عبد الرزاق , اخبرنا ابن جريج , قال: قلت لعطاء : اسمعت ابن عباس , فذكر قصة , ولكني سمعته يقول: اخبرني اسامة بن زيد , ان النبي صلى الله عليه وسلم لما دخل البيت دعا في نواحيه كلها , ولم يصل فيه حتى خرج , فلما خرج ركع ركعتين في قبل الكعبة , وقال:" هذه القبلة" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَخبرنا ابْنُ جُرَيْجٍ , قَالَ: قُلْتُ لِعَطَاءٍ : أَسَمِعْتَ ابْنَ عَبَّاسٍ , فَذَكَرَ قِصَّةً , وَلَكِنِّي سَمِعْتُهُ يَقُولُ: أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَخَلَ الْبَيْتَ دَعَا فِي نَوَاحِيهِ كُلِّهَا , وَلَمْ يُصَلِّ فِيهِ حَتَّى خَرَجَ , فَلَمَّا خَرَجَ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ فِي قِبَلِ الْكَعْبَةِ , وَقَالَ:" هَذِهِ الْقِبْلَةُ" .
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ میں داخل ہوئے تو اس کے سارے کونوں میں دعاء فرمائی لیکن وہاں نماز نہیں پڑھی بلکہ باہر آکر خانہ کعبہ کی جانب رخ کر کے دو رکعتیں پڑھیں اور فرمایا یہ ہے قبلہ۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب مرض الوفات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت بوجھل ہوئی تو میں اور میرے ساتھ کچھ لوگ مدینہ منورہ آگئے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش تھے اور کسی سے بات نہیں کر رہے تھے، مجھے دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور مجھ پر پھیر دیئے میں سمجھ گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے دعاء فرما رہے تھے۔
حدثنا عفان , حدثنا حماد بن سلمة , اخبرنا قيس بن سعد , عن عطاء , عن ابن عباس , عن اسامة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم افاض من عرفة , ورديفه اسامة , فجعل يكبح راحلته حتى ان ذفراها لتكاد ان تمس , وربما قال حماد: ان تصيب قادمة الرحل , وهو يقول:" يا ايها الناس عليكم بالسكينة والوقار , فإن البر ليس في إيضاع الإبل" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , أَخبرنا قَيْسُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ عَطَاءٍ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , عَنْ أُسَامَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفَاضَ مِنْ عَرَفَةَ , وَرَدِيفُهُ أُسَامَةُ , فَجَعَلَ يَكْبَحُ رَاحِلَتَهُ حَتَّى أَنَّ ذِفْرَاهَا لَتَكَادُ أَنْ تَمَسَّ , وَرُبَّمَا قَالَ حَمَّادٌ: أَنْ تُصِيبَ قَادِمَةَ الرَّحْلِ , وَهُوَ يَقُولُ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ وَالْوَقَارِ , فَإِنَّ الْبِرَّ لَيْسَ فِي إِيضَاعِ الْإِبِلِ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے روانہ ہوئے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری کو لگام سے پکڑ کر کھینچنے لگے حتٰی کہ اس کے کان کجاوے کے اگلے حصے کے قریب آگئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جا رہے تھے لوگو! اپنے اوپر سکون اور وقار کو لازم پکڑو، اونٹوں کو تیز دوڑانے میں کوئی نیکی نہیں ہے۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (رئیس المنافقین) عبداللہ بن ابی کی عیادت کرنے کے لئے گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا میں تمہیں یہودیوں سے محبت کرنے سے منع کرتا تھا وہ کہنے لگا کہ اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے ان سے نفرت کرلی (بس وہی کافی ہے) یہ کہہ کر کچھ عرصے بعد وہ مرگیا۔
حدثنا يعقوب , حدثنا ابي , عن ابن إسحاق , حدثني هشام بن عروة , عن ابيه , عن اسامة بن زيد , قال: كنت رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم عشية عرفة , قال: فلما وقعت الشمس دفع رسول الله صلى الله عليه وسلم , فلما سمع حطمة الناس خلفه , قال:" رويدا ايها الناس , عليكم السكينة , فإن البر ليس بالإيضاع" , قال: فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا التحم عليه الناس اعنق , فإذا وجد فرجة , نص , حتى اتى المزدلفة , فجمع فيها بين الصلاتين المغرب والعشاء الآخرة .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , حَدَّثَنَا أَبِي , عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ , حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: كُنْتُ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ , قَالَ: فَلَمَّا وَقَعَتْ الشَّمْسُ دَفْعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَلَمَّا سَمِعَ حَطْمَةَ النَّاسِ خَلْفَهُ , قَالَ:" رُوَيْدًا أَيُّهَا النَّاسُ , عَلَيْكُمْ السَّكِينَةَ , فَإِنَّ الْبِرَّ لَيْسَ بِالْإِيضَاعِ" , قَالَ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا الْتَحَمَ عَلَيْهِ النَّاسُ أَعْنَقَ , فَإِذَا وَجَدَ فُرْجَةً , نَصَّ , حتى أََتى المُزدلِفةَ , فجَمَعَ فيها بين الصلاتين المغربِ والعِشاء الآخرةِ .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شب عرفہ کو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا جب سورج غروب ہوگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میدان عرفات سے روانہ ہوئے، اچانک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پیچھے لوگوں کی بھاگ دوڑ کی وجہ سے شور کی آوازیں آئیں تو فرمایا لوگو! آہستہ تم اپنے اوپر سکون کو لازم کرلو، کیونکہ سواریوں کو تیز دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے پھر جہاں لوگوں کا رش ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری کی رفتار ہلکی کرلیتے اور جہاں راستہ کھلا ہوا ملتا تو رفتار تیز کردیتے، یہاں تک کہ مزدلفہ آپہنچے اور وہاں مغرب اور عشاء دونوں نمازیں اکٹھی ادا فرمائیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1666، م: 1286، وهذا إسناد حسن
حدثنا يعقوب , حدثنا ابي , عن محمد بن إسحاق , حدثني إبراهيم بن عقبة , عن كريب مولى عبد الله بن عباس , عن اسامة بن زيد , قال: كنت ردف رسول الله صلى الله عليه وسلم عشية عرفة , فلما وقعت الشمس دفع رسول الله صلى الله عليه وسلم , فلما سمع حطمة الناس خلفه , قال:" رويدا ايها الناس عليكم السكينة , فإن البر ليس بالإيضاع" , قال: فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا التحم عليه الناس اعنق , وإذا وجد فرجة , نص , حتى مر بالشعب الذي يزعم كثير من الناس انه صلى فيه , فنزل به فبال , ما يقول: اهراق الماء كما يقولون , ثم جئته بالإداوة فتوضا , ثم قال: قلت: الصلاة يا رسول الله , قال: فقال:" الصلاة امامك" , قال: فركب رسول الله صلى الله عليه وسلم وما صلى حتى اتى المزدلفة , فنزل بها , فجمع بين الصلاتين المغرب والعشاء الآخرة .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , حَدَّثَنَا أَبِي , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ , حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُقْبَةَ , عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ , فَلَمَّا وَقَعَتْ الشَّمْسُ دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَلَمَّا سَمِعَ حَطْمَةَ النَّاسِ خَلْفَهُ , قَالَ:" رُوَيْدًا أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْكُمْ السَّكِينَةَ , فَإِنَّ الْبِرَّ لَيْسَ بِالْإِيضَاعِ" , قَالَ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا الْتَحَمَ عَلَيْهِ النَّاسُ أَعْنَقَ , وَإِذَا وَجَدَ فُرْجَةً , نَصَّ , حَتَّى مَرَّ بِالشِّعْبِ الَّذِي يَزْعُمُ كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ أَنَّهُ صَلَّى فِيهِ , فَنَزَلَ بِهِ فَبَالَ , مَا يَقُولُ: أَهْرَاقَ الْمَاءَ كَمَا يَقُولُونَ , ثُمَّ جِئْتُهُ بِالْإِدَاوَةِ فَتَوَضَّأَ , ثُمَّ قَالَ: قُلْتُ: الصَّلَاةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ: فَقَالَ:" الصَّلَاةُ أَمَامَكَ" , قَالَ: فَرَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا صَلَّى حَتَّى أَتَى الْمُزْدَلِفَةَ , فَنَزَلَ بِهَا , فَجَمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ الْآخِرَةِ .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شب عرفہ کو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا جب سورج غروب ہوگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میدان عرفات سے روانہ ہوئے، اچانک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پیچھے لوگوں کی بھاگ دوڑ کی وجہ سے شور کی آوازیں آئیں تو فرمایا لوگو! آہستہ تم اپنے اوپر سکون کو لازم کرلو، کیونکہ سواریوں کو تیز دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے پھر جہاں لوگوں کا رش ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری کی رفتار ہلکی کرلیتے اور جہاں راستہ کھلا ہوا ملتا تو رفتار تیز کردیتے یہاں تک کہ اس گھاٹی میں پہنچے جہاں لوگ اپنی سورایوں کو بٹھایا کرتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی وہاں اپنی اونٹنی کو بٹھایا پھر پیشاب کیا اور پانی سے استنجاء کیا پھر وضو کا پانی منگوا کر وضو کیا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! نماز کا وقت ہوگیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز تمہارے آگے ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہو کر مزدلفہ پہنچے وہاں مغرب اور عشاء کی نماز اکٹھے پڑھی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 139، م: 1280، وهذا إسناد حسن
حدثنا ابو سلمة الخزاعي , اخبرنا مالك , عن محمد بن المنكدر , وابي النضر مولى عمر بن عبيد الله بن معمر , عن عامر بن سعد بن ابي وقاص , عن ابيه , سال اسامة بن زيد: ماذا سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم في الطاعون؟ فقال اسامة : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " رجز ارسل على طائفة من بني إسرائيل , او على طائفة ممن كان قبلكم , الشك في الحديث , فإذا سمعتم به بارض , فلا تقدموا عليه , وإذا وقع بارض وانتم بها , فلا تخرجوا فرارا منه" , قال ابو النضر في حديثه: لا يخرجكم إلا فرارا منه.حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ الْخُزَاعِيُّ , أَخبرنَا مَالِكٌ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ , وَأَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْمَرٍ , عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ , عَنْ أَبِيهِ , سَأَلَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ: مَاذَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الطَّاعُونِ؟ فَقَالَ أُسَامَةُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " رِجْزٌ أُرْسِلَ عَلَى طَائِفَةٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ , أَوْ عَلَى طَائِفَةٍ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ , الشَّكُّ فِي الْحَدِيثِ , فَإِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ , فَلَا تَقْدَمُوا عَلَيْهِ , وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا , فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ" , قَالَ أَبُو النَّضْرِ فِي حَدِيثِهِ: لَا يُخْرِجُكُمْ إِلَّا فِرَارًا مِنْهُ.
عامربن سعد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس طاعون کے حوالے سے سوال پوچھنے کے لئے آیا تو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کے متعلق میں تمہیں بتاتا ہوں، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ طاعون ایک عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے لوگوں (بنی اسرائیل) پر مسلط کیا تھا، کبھی یہ آجاتا ہے اور کبھی چلا جاتا ہے لہٰذا جس علاقے میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہو تو تم اس علاقے میں مت جاؤ اور جب کسی علاقے میں یہ وباء پھیلے اور تم پہلے سے وہاں موجود ہو تو اس سے بھاگ کر وہاں سے نکلو مت۔
حدثنا حسين بن محمد , حدثنا ابو معشر , عن سليم مولى ليث , وكان قديما قال: مر مروان بن الحكم , على اسامة بن زيد وهو يصلي , فحكاه مروان , قال ابو معشر: وقد لقيهما جميعا , فقال اسامة : يا مروان , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إن الله لا يحب كل فاحش متفحش" .حَدَّثَنَا حَسيَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ , عَنْ سُلَيْمٍ مَوْلًى لَيْثٍ , وَكَانَ قَدِيمًا قَالَ: مَرَّ مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ , عَلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ وَهُوَ يُصَلِّي , فَحَكَاهُ مَرْوَانُ , قَالَ أَبُو مَعْشَرٍ: وَقَدْ لَقِيَهُمَا جَمِيعًا , فَقَالَ أُسَامَةُ : يَا مَرْوَانُ , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ فَاحِشٍ مُتَفَحِّشٍ" .
مروان بن حکم ایک مرتبہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذرا وہ نماز پڑھ رہے تھے، مروان کہانیاں بیان کرنے لگا ایک مرتبہ جب ان دونوں کی ملاقات ہوئی تو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا مروان! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ تعالیٰ کسی بےحیائی اور بہیودہ گوئی کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف الضعف أبى المعشر. سليم مجهول
حدثنا عبد الرزاق , اخبرنا معمر , عن الزهري , عن علي بن حسين , عن عمرو بن عثمان , عن اسامة بن زيد , قال: قلت: يا رسول الله , اين ننزل غدا؟ في حجته , قال:" وهل ترك لنا عقيل منزلا" , ثم قال:" نحن نازلون غدا إن شاء الله بخيف بني كنانة , يعني المحصب , حيث قاسمت قريش على الكفر" , وذلك ان بني كنانة حالفت قريشا على بني هاشم , ان لا يناكحوهم , ولا يبايعوهم , ولا يؤوهم , ثم قال عند ذلك: " لا يرث الكافر المسلم , ولا المسلم الكافر" . قال الزهري: والخيف الوادي.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَخبرنا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ , عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَيْنَ نَنْزِلُ غَدًا؟ فِي حَجَّتِهِ , قَالَ:" وَهَلْ تَرَكَ لَنَا عَقِيلٌ مَنْزِلًا" , ثُمَّ قَالَ:" نَحْنُ نَازِلُونَ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِخَيْفِ بَنِي كِنَانَةَ , يَعْنِي الْمُحَصَّبَ , حَيْثُ قَاسَمَتْ قُرَيْشٌ عَلَى الْكُفْرِ" , وَذَلِكَ أَنَّ بَنِي كِنَانَةَ حَالَفَتْ قُرَيْشًا عَلَى بَنِي هَاشِمٍ , أَنْ لَا يُنَاكِحُوهُمْ , وَلَا يُبَايِعُوهُمْ , وَلَا يُؤْوُهُمْ , ثُمَّ قَالَ عِنْدَ ذَلِكَ: " لَا يَرِثُ الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ , وَلَا الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ" . قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَالْخَيْفُ الْوَادِي.
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! کل آپ کہاں منزل کریں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا عقیل نے ہمارے لئے بھی کوئی منزل چھوڑی ہے؟ پھر فرمایا کل ان شاء اللہ ہم خیف بنوکنانہ میں پڑاؤ کریں گے جہاں قریش نے کفر پر معاہدہ کر کے قسمیں کھائی تھیں، اس کی تفصیل یہ ہے کہ بنو کنانہ نے بنو ہاشم کے خلاف قریش سے یہ معاہدہ کرلیا تھا کہ بنوہاشم کے ساتھ نکاح، بیع وشراء اور انہیں ٹھکانہ دینے کا کوئی معاملہ نہیں کریں گے، پھر فرمایا کوئی کافر کسی مسلمان کا اور کوئی مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں ہوسکتا۔
حدثنا عبد الرزاق , حدثنا معمر , عن الزهري , عن عروة بن الزبير , ان اسامة بن زيد اخبره , ان النبي صلى الله عليه وسلم ركب حمارا عليه إكاف تحته قطيفة فدكية , واردف وراءه اسامة بن زيد , وهو يعود سعد بن عبادة في بني الحارث بن الخزرج , وذلك قبل وقعة بدر , حتى مر بمجلس فيه اخلاط من المسلمين , والمشركين عبدة الاوثان , واليهود , فيهم عبد الله بن ابي , وفي المجلس عبد الله بن رواحة , فلما غشيت المجلس عجاجة الدابة , خمر عبد الله بن ابي انفه بردائه , ثم قال: لا تغبروا علينا , فسلم عليهم النبي صلى الله عليه وسلم ثم وقف , فنزل فدعاهم إلى الله , وقرا عليهم القرآن , فقال له عبد الله بن ابي: ايها المرء لا احسن من هذا إن كان ما تقول حقا , فلا تؤذينا في مجالسنا , وارجع إلى رحلك , فمن جاءك منا فاقصص عليه , قال عبد الله بن رواحة: اغشنا في مجالسنا فإنا نحب ذلك , قال: فاستب المسلمون , والمشركون , واليهود , حتى هموا ان يتواثبوا , فلم يزل النبي صلى الله عليه وسلم يخفضهم , ثم ركب دابته حتى دخل على سعد بن عبادة , فقال:" اي سعد , الم تسمع ما قال ابو حباب يريد عبد الله بن ابي؟ قال: كذا وكذا" , فقال: اعف عنه يا رسول الله واصفح , فوالله لقد اعطاك الله الذي اعطاك , ولقد اصطلح اهل هذه البحيرة ان يتوجوه , فيعصبوه بالعصابة , فلما رد الله ذلك بالحق الذي اعطاكه , شرق بذلك , فذاك فعل به ما رايت , فعفا عنه النبي صلى الله عليه وسلم ..حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ أَخْبَرَهُ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ حِمَارًا عَلَيْهِ إِكَافٌ تَحْتَهُ قَطِيفَةٌ فَدَكِيَّةٌ , وَأَرْدَفَ وَرَاءَهُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ , وَهُوَ يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ , وَذَلِكَ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ , حَتَّى مَرَّ بِمَجْلِسٍ فِيهِ أَخْلَاطٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ , وَالْمُشْرِكِينَ عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ , وَالْيَهُودِ , فِيهِمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ , وَفِي الْمَجْلِسِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ , فَلَمَّا غَشِيَتْ الْمَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ , خَمَّرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ , ثُمَّ قَالَ: لَا تُغَبِّرُوا عَلَيْنَا , فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ وَقَفَ , فَنَزَلَ فَدَعَاهُمْ إِلَى اللَّهِ , وَقَرَأَ عَلَيْهِمْ الْقُرْآنَ , فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ: أَيُّهَا الْمَرْءُ لَا أَحْسَنَ مِنْ هَذَا إِنْ كَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا , فَلَا تُؤْذِينَا فِي مَجَالِسِنَا , وَارْجِعْ إِلَى رَحْلِكَ , فَمَنْ جَاءَكَ مِنَّا فَاقْصُصْ عَلَيْهِ , قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ: اغْشَنَا فِي مَجَالِسِنَا فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِكَ , قَالَ: فَاسْتَبَّ الْمُسْلِمُونَ , وَالْمُشْرِكُونَ , وَالْيَهُودُ , حَتَّى هَمُّوا أَنْ يَتَوَاثَبُوا , فَلَمْ يَزَلْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّضُهُمْ , ثُمَّ رَكِبَ دَابَّتَهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ , فَقَالَ:" أَيْ سَعْدُ , أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ يُرِيدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ؟ قَالَ: كَذَا وَكَذَا" , فَقَالَ: اعْفُ عَنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاصْفَحْ , فَوَاللَّهِ لَقَدْ أَعْطَاكَ اللَّهُ الَّذِي أَعْطَاكَ , وَلَقَدْ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ الْبُحَيْرَةِ أَنْ يُتَوِّجُوهُ , فَيُعَصِّبُوهُ بِالْعِصَابَةِ , فَلَمَّا رَدَّ اللَّهُ ذَلِكَ بِالْحَقِّ الَّذِي أَعْطَاكَهُ , شَرِقَ بِذَلِكَ , فَذَاكَ فَعَلَ بِهِ مَا رَأَيْتَ , فَعَفَا عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ..
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان بھی تھا اور اس کے نیچے فد کی چادر تھی اور اپنے پیچھے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو بٹھالیا، اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنوحارث بن خزرج میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے جا رہے تھے، یہ واقعہ عزوہ بدر سے پہلے کا ہے راستے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ایک ایسی مجلس پر ہوا جس میں مسلمان، بتوں کے پجاری مشرک اور یہودی سب ہی تھے اور جن میں عبداللہ بن ابی بھی موجود تھا اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی۔ جب اس مجلس میں سواری کا گردوغبار اڑا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک پر اپنی چادر رکھی اور کہنے لگا کہ ہم پر گردوعبار نہ اڑاؤ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں رک کر انہیں سلام کیا اور تھوڑی دیر بعد سواری سے نیچے اتر کر انہیں اللہ کی طرف بلانے اور قرآن پڑھ کر سنانے لگے یہ دیکھ کر عبداللہ بن ابی کہنے لگا اے بھائی! جو بات آپ کہہ رہے ہیں اگر یہ برحق ہے تو اس سے اچھی کوئی بات ہی نہیں لیکن آپ ہماری مجلسوں میں آکر ہمیں تکلیف نہ دیا کریں، آپ اپنے ٹھکانے پر واپس چلے جائیں اور وہاں جو آدمی آئیں اس کے سامنے یہ چیزیں بیان کیا کریں، اس پر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ آپ ہماری مجالس میں ضرور تشریف لایا کریں کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں، اس طرح مسلمانوں اور مشرکین و یہود کے درمیان تلخ کلامی ہونے لگی اور قریب تھا کہ وہ ایک دوسرے سے بھڑجاتے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مسلسل خاموش کراتے رہے۔ جب وہ لوگ پرسکون ہوگئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہو کر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے یہاں چلے گئے اور ان سے فرمایا سعد! تم نے سنا کہ ابوحباب (عبداللہ بن ابی) نے کیا کہا ہے؟ اس نے اس طرح کہا ہے؟ اس نے اس طرح کہا ہے حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اسے معاف کردیا کریں اور اس سے درگذر فرمایا کریں، بخدا! اللہ نے جو مقام آپ کو دینا تھا وہ دے دی اور نہ یہاں کے لوگ اسے تاج شاہی پہنانے پر متفق ہوچکے تھے لیکن اللہ نے جب اس حق کے ذریعے اسے رد کردیا جو اس نے آپ کو عطاء کیا تو یہ اس پر ناگوار گذرا، اس وجہ سے اس نے ایسی حرکت کی، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف فرما دیا۔
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں اپنی بیوی سے عزل کرنا چاہتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے وجہ سے پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس کے بچوں کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر صرف اس وجہ سے کرنا چاہتے ہو تو ایسا مت کرو کیونکہ اس چیز سے تو اہل فارس وروم کو بھی نقصان نہیں ہوا۔
حدثنا هيثم , قال عبد الله: وسمعته انا من الهيثم بن خارجة , حدثنا رشدين بن سعد , عن عقيل , عن ابن شهاب , عن عروة بن الزبير , عن اسامة بن زيد , عن النبي صلى الله عليه وسلم:" ان جبريل عليه السلام لما نزل على النبي صلى الله عليه وسلم , فعلمه الوضوء , فلما فرغ من وضوئه , اخذ حفنة من ماء فرش بها نحو الفرج , قال: فكان النبي صلى الله عليه وسلم يرش بعد وضوئه" .حَدَّثَنَا هَيْثَمٌ , قَالَ عَبْد اللَّهِ: وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْ الْهَيْثَمِ بْنِ خَارِجَةَ , حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ عُقَيْلٍ , عَنِ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم:" أَنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام لَمَّا نَزَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَعَلَّمَهُ الْوُضُوءَ , فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ وُضُوئِهِ , أَخَذَ حَفْنَةً مِنْ مَاءٍ فَرَشَّ بِهَا نَحْوَ الْفَرْجِ , قَالَ: فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُشُّ بَعْدَ وُضُوئِهِ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی لے کر نازل ہوئے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرنا بھی سکھایا تھا اور جب وضو سے فارغ ہوئے تو ایک چلو میں پانی لے کر شرمگاہ کے قریب اسے چھڑک لیا، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی وضو کے بعد اسی طرح کرتے تھے۔
حدثنا عثمان بن عمر , حدثنا ابن ابي ذئب , عن الحارث , عن كريب مولى ابن عباس , عن اسامة بن زيد , قال: دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعليه الكآبة , فسالته ما له؟ فقال: " لم ياتني جبريل منذ ثلاث" , قال: فإذا جرو كلب بين بيوته , فامر به فقتل , فبدا له جبريل عليه السلام , فبهش إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم حين رآه , فقال:" لم تاتني!" , فقال: إنا لا ندخل بيتا فيه كلب , ولا تصاوير ..حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ , عَنِ الْحَارِثِ , عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ الْكَآبَةُ , فَسَأَلْتُهُ مَا لَهُ؟ فَقَالَ: " لَمْ يَأْتِنِي جِبْرِيلُ مُنْذُ ثَلَاثٍ" , قَالَ: فَإِذَا جِرْوُ كَلْبٍ بَيْنَ بُيُوتِهِ , فَأَمَرَ بِهِ فَقُتِلَ , فَبَدَا لَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام , فَبَهَشَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَآهُ , فَقَالَ:" لَمْ تَأْتِنِي!" , فَقَالَ: إِنَّا لَا نَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ , وَلَا تَصَاوِيرُ ..
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور پر غم اور کسی کمرے میں آثار دیکھے میں نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ تین دن سے میرے پاس جبرائیل نہیں آئے دیکھا تو کتے کا ایک پلاّ کسی کمرے میں چھپا ہوا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور اسے قتل کردیا گیا تھوڑی ہی دیر میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نمودار ہوگئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر خوش ہوئے اور فرمایا آپ میرے پاس کیوں نہیں آ رہے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کتے یا تصویریں ہوں۔
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مرض الوفات میں ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو میرے پاس بلا کر لاؤ جب وہ آگئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ (چادر کو) ہٹایا اور فرمایا یہودونصاری پر اللہ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات وشواهد لأجل قيس
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن عاصم الاحول , قال: سمعت ابا عثمان يحدث , عن اسامة بن زيد , قال: ارسلت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بعض بناته , ان صبيا لها ابنا , او ابنة قد احتضرت , فاشهدنا قال: فارسل إليها يقرا السلام , ويقول: " إن لله ما اخذ وما اعطى , وكل شيء عنده إلى اجل مسمى , فلتصبر ولتحتسب" , فارسلت تقسم عليه , فقام وقمنا , فرفع الصبي إلى حجر , او في حجر رسول الله صلى الله عليه وسلم ونفسه تقعقع , وفي القوم سعد بن عبادة , وابي احسب , ففاضت عينا رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال له سعد: ما هذا يا رسول الله؟ قال:" هذه رحمة يضعها الله في قلوب من يشاء من عباده , وإنما يرحم الله من عباده الرحماء" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ يُحَدِّثُ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: أَرْسَلَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضُ بَنَاتِهِ , أَنَّ صَبِيًّا لَهَا ابْنًا , أَوْ ابْنَةً قَدْ احْتُضِرَتْ , فَاشْهَدْنَا قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا يَقْرَأُ السَّلَامَ , وَيَقُولُ: " إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَمَا أَعْطَى , وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى , فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ" , فَأَرْسَلَتْ تُقْسِمُ عَلَيْهِ , فَقَامَ وَقُمْنَا , فَرُفِعَ الصَّبِيُّ إِلَى حِجْرِ , أَوْ فِي حِجْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَفْسُهُ تَقَعْقَعُ , وَفِي الْقَوْمِ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ , وَأُبَيٌّ أَحْسِبُ , فَفَاضَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ: مَا هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" هَذِهِ رَحْمَةٌ يَضَعُهَا اللَّهُ فِي قُلُوبِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ , وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی صاحبزادی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ پیغام بھیجا کہ ان کے بچہ پر نزع کا عالم طاری ہے آپ ہمارے یہاں تشریف لائیے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کہلوایا اور فرمایا جو لیا وہ بھی اللہ کا ہے اور جو دیا وہ بھی اللہ کا ہے اور ہر چیز کا اس کے یہاں ایک وقت مقرر ہے لہٰذا تمہیں صبر کرنا چاہئے اور اس پر ثواب کی امید رکھنی چاہئے، انہوں نے دوبارہ قاصد کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قسم دے کر بھیجا، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے اور ہم بھی ساتھ ہی کھڑے ہوگئے۔
اس بچے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں لا کر رکھا گیا، اس کی جان نکل رہی تھی لوگوں میں اس وقت حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اور غالباً حضرت ابی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جسے دیکھ کر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ کیا ہے؟ فرمایا یہ رحمت ہے جو اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہتا ہے ڈال دیتا ہے اور اللہ اپنے بندوں میں سے رحم دل بندوں پر ہی رحم کرتا ہے۔
حدثنا احمد بن عبد الملك , حدثنا محمد بن سلمة , عن محمد بن إسحاق , عن يزيد بن عبد الله بن قسيط , عن محمد بن اسامة , عن ابيه , قال: اجتمع جعفر , وعلي , وزيد بن حارثة , فقال جعفر: انا احبكم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال علي: انا احبكم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , وقال زيد: انا احبكم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقالوا: انطلقوا بنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى نساله , فقال اسامة بن زيد: فجاءوا يستاذنونه , فقال:" اخرج فانظر من هؤلاء" فقلت: هذا جعفر , وعلي , وزيد , ما اقول: ابي , قال:" ائذن لهم" ودخلوا فقالوا: من احب إليك؟ قال:" فاطمة" , قالوا: نسالك عن الرجال , قال: " اما انت يا جعفر , فاشبه خل?قك خلقي , واشبه خلقي خلقك , وانت مني وشجرتي , واما انت يا علي , فختني وابو ولدي , وانا منك وانت مني , واما انت يا زيد , فمولاي ومني وإلي , واحب القوم إلي" .حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أُسَامَةَ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: اجْتَمَعَ جَعْفَرٌ , وَعَلِيٌّ , وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ , فَقَالَ جَعْفَرٌ: أنَا أَحَبُّكُمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ عَلِيٌّ: أَنَا أَحَبُّكُمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَقَالَ زَيْدٌ: أَنَا أَحَبُّكُمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالُوا: انْطَلِقُوا بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى نَسْأَلَهُ , فَقَالَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ: فَجَاءُوا يَسْتَأْذِنُونَهُ , فَقَالَ:" اخْرُجْ فَانْظُرْ مَنْ هَؤُلَاءِ" فَقُلْتُ: هَذَا جَعْفَرٌ , وَعَلِيٌّ , وَزَيْدٌ , مَا أَقُولُ: أَبِي , قَالَ:" ائْذَنْ لَهُمْ" وَدَخَلُوا فَقَالُوا: مَنْ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ:" فَاطِمَةُ" , قَالُوا: نَسْأَلُكَ عَنِ الرِّجَالِ , قَالَ: " أَمَّا أَنْتَ يَا جَعْفَرُ , فَأَشْبَهَ خَل?قُكَ خَلْقِي , وَأَشْبَهَ خُلُقِي خُلُقُكَ , وَأَنْتَ مِنِّي وَشَجَرَتِي , وَأَمَّا أَنْتَ يَا عَلِيُّ , فَخَتَنِي وَأَبُو وَلَدِي , وَأَنَا مِنْكَ وَأَنْتَ مِنِّي , وَأَمَّا أَنْتَ يَا زَيْدُ , فَمَوْلَايَ وَمِنِّي وَإِلَيَّ , وَأَحَبُّ الْقَوْمِ إِلَيَّ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ایک جگہ اکٹھے تھے دوران گفتگو حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میں تم سب سے زیادہ محبوب ہوں، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہی بات اپنے متعلق کہی اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے اپنے متعلق کہی، فیصلہ کرنے کے لئے وہ کہنے لگے کہ آؤ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چل کر ان سے پوچھ لیتے ہیں چنانچہ وہ آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت چاہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ دیکھو، یہ کون لوگ آئے ہیں؟ میں نے دیکھ کر عرض کیا کہ جعفر علی اور زید آئے ہیں، میں نے یہ نہیں کہا کہ میرے والد آئے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں اندر آنے کی اجازت دے دو۔
وہ اندر آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! آپ کو سب سے زیادہ کس سے محبت ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فاطمہ سے، انہوں نے کہا ہم آپ سے مردوں کے حوالے سے پوچھ رہے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے جعفر! تمہاری صورت میری صورت سے اور تمہاری سیرت میری سیرت سے سب سے زیادہ مشابہہ ہے تم مجھ سے ہو اور میرا شجرہ ہو اور علی! تم میرے داماد اور میرے بچوں (نواسوں) کے باپ ہو، میں تم سے ہوں اور تم مجھ سے ہو اور اے زید! تم ہمارے مولیٰ ہو اور مجھ سے ہو اور میری طرف ہو اور تمام لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہو۔
حدثنا ابو معاوية , حدثنا عاصم , عن ابي عثمان النهدي , عن اسامة بن زيد , قال: اتي رسول الله صلى الله عليه وسلم باميمة ابنة زينب , ونفسها تقعقع كانها في شن , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لله ما اخذ , ولله ما اعطى , وكل إلى اجل مسمى" , فدمعت عيناه , فقال له سعد بن عبادة: يا رسول الله , اتبكي اولم تنه عن البكاء؟! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنما هي رحمة جعلها الله في قلوب عباده , وإنما يرحم الله من عباده الرحماء" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , حَدَّثَنَا عَاصِمٌ , عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأُمَيْمَةَ ابْنَةِ زَيْنَبَ , وَنَفْسُهَا تَقَعْقَعُ كَأَنَّهَا فِي شَنٍّ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِلَّهِ مَا أَخَذَ , وَلِلَّهِ مَا أَعْطَى , وَكُلٌّ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى" , فَدَمَعَتْ عَيْنَاهُ , فَقَالَ لَهُ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَتَبْكِي أَوَلَمْ تَنْهَ عَنِ الْبُكَاءِ؟! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا هِيَ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللَّهُ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ , وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (ان کی نواسی) امیمہ بنت زینب کو لایا گیا اس کی روح اس طرح نکل رہی تھی جیسے کسی مشکیزے میں ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو لیا وہ بھی اللہ کا ہے اور جو دیا وہ اللہ کا ہے اور ہر چیز کا اس کے یہاں ایک وقت مقرر ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جسے دیکھ کر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ بھی رو رہے ہیں؟ فرمایا یہ رحمت ہے جو اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہتا ہے ڈال دیتا ہے اور اللہ اپنے بندوں میں سے رحم دل بندوں پر ہی رحم کرتا ہے۔
حدثنا ابو معاوية , حدثنا الاعمش , عن عمارة , عن ابي الشعثاء , قال:" خرجت حاجا فدخلت البيت , فلما كنت عند الساريتين , مضيت حتى لزقت بالحائط , قال: وجاء ابن عمر , حتى قام إلى جنبي فصلى اربعا , قال: فلما صلى , قلت له: اين صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من البيت؟ قال: فقال: هاهنا , اخبرني اسامة بن زيد , انه صلى , قال: قلت: فكم صلى؟ قال: على هذا اجدني الوم نفسي اني مكثت معه عمرا , ثم لم اساله كم صلى , فلما كان العام المقبل قال: خرجت حاجا , قال: فجئت حتى قمت في مقامه , قال: فجاء ابن الزبير , حتى قام إلى جنبي , فلم يزل يزاحمني حتى اخرجني منه , ثم صلى فيه اربعا" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ عُمَارَةَ , عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ , قَالَ:" خَرَجْتُ حَاجًّا فَدَخَلْتُ الْبَيْتَ , فَلَمَّا كُنْتُ عِنْدَ السَّارِيَتَيْنِ , مَضَيْتُ حَتَّى لَزِقْتُ بِالْحَائِطِ , قَالَ: وَجَاءَ ابْنُ عُمَرَ , حَتَّى قَامَ إِلَى جَنْبِي فَصَلَّى أَرْبَعًا , قَالَ: فَلَمَّا صَلَّى , قُلْتُ لَهُ: أَيْنَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْبَيْتِ؟ قَالَ: فَقَالَ: هَاهُنَا , أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ , أَنَّهُ صَلَّى , قَالَ: قُلْتُ: فَكَمْ صَلَّى؟ قَالَ: عَلَى هَذَا أَجِدُنِي أَلُومُ نَفْسِي أَنِّي مَكَثْتُ مَعَهُ عُمُرًا , ثُمَّ لَمْ أَسْأَلْهُ كَمْ صَلَّى , فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ قَالَ: خَرَجْتُ حَاجًّا , قَالَ: فَجِئْتُ حَتَّى قُمْتُ فِي مَقَامِهِ , قَالَ: فَجَاءَ ابْنُ الزُّبَيْرِ , حَتَّى قَامَ إِلَى جَنْبِي , فَلَمْ يَزَلْ يُزَاحِمُنِي حَتَّى أَخْرَجَنِي مِنْهُ , ثُمَّ صَلَّى فِيهِ أَرْبَعًا" .
ابوالشعثاء کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حج کے ارادے سے نکلا، بیت اللہ شریف میں داخل ہوا جب دو ستونوں کے درمیان پہنچا تو جا کر ایک دیوار سے چمٹ گیا اتنی دیر میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما آگئے اور میرے پہلو میں کھڑے ہو کر چار رکعتیں پڑھیں، جب وہ نماز سے فارغ ہوگئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ میں کہاں نماز پڑھی تھی انہوں نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہاں مجھے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بتایا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ہے میں نے ان سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی رکعتیں پڑھی تھیں تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا اسی پر تو آج تک میں اپنے آپ کو ملامت کرتا ہوں کہ میں نے ان کے ساتھ ایک طویل عرصہ گذارا لیکن یہ نہ پوچھ سکا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی رکعتیں پڑھی تھیں۔
اگلے سال میں پھر حج کے ارادے سے نکلا اور اسی جگہ پر جا کر کھڑا ہوگیا جہاں پچھلے سال کھڑا ہوا تھا اتنی دیر میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ آگئے اور میرے پہلو میں کھڑے ہوگئے پھر وہ مجھ سے مزاحمت کرتے رہے حتیٰ کہ مجھے وہاں سے باہر کردیا اور پھر اس میں چار رکعتیں پڑھیں۔
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے ایک آزاد کردہ غلام سے مروی ہے کہ ایک دن وہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اپنے مال کی تلاش میں وادی قری گیا ہوا تھا حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ وہ پیر اور جمعرات کے دن روزہ رکھا کرتے تھے ان کے غلام نے ان سے پوچھا کہ آپ اس قدر بوڑھے اور کمزور ہونے کے باوجود بھی پیر اور جمعرات کو روزہ رکھنے میں اتنی پابندی کیوں رکھتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی پیر اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے کسی نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایا کہ پیر اور جمعرات کے دن لوگوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة مولي قدامة، وجهالة مولي أسامة، والمرفوع منه صحيح بطرقه وشواهده
حدثنا إسماعيل بن إبراهيم , عن سليمان التيمي , عن ابي عثمان النهدي , عن اسامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قمت على باب الجنة , فإذا عامة من دخلها المساكين , وإذا اصحاب الجد وقال يحيى بن سعيد , وغيره: إلا اصحاب الجد محبوسون , إلا اصحاب النار , فقد امر بهم إلى النار , وقمت على باب النار , فإذا عامة من يدخلها النساء" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ , عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ , عَنْ أُسَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قُمْتُ عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ , فَإِذَا عَامَّةُ مَنْ دَخَلَهَا الْمَسَاكِينُ , وَإِذَا أَصْحَابُ الْجَدِّ وَقَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , وَغَيْرُهُ: إِلَّا أَصْحَابَ الْجَدِّ مَحْبُوسُونَ , إِلَّا أَصْحَابَ النَّارِ , فَقَدْ أُمِرَ بِهِمْ إِلَى النَّارِ , وَقُمْتُ عَلَى بَابِ النَّارِ , فَإِذَا عَامَّةُ مَنْ يَدْخُلُهَا النِّسَاءُ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تو دیکھا کہ اس میں داخل ہونے والوں کی اکثریت مساکین کی ہے جبکہ مالداروں کو (حساب کتاب کے لئے فرشتوں نے) روکا ہوا ہے البتہ جو جہنمی ہیں انہیں جہنم میں داخل کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے اور جہنم کے دروازے پر کھڑا ہوا تو دیکھا کہ اس میں داخل ہونے والوں کی اکثریت عورتوں کی ہے۔
حدثنا يحيى بن سعيد , حدثنا هشام , حدثني ابي , قال: سئل اسامة , عن سير رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع وانا شاهد , قال: " كان سيره العنق , فإذا وجد فجوة نص , والنص فوق العنق , وانا رديفه" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا هِشَامٌ , حَدَّثَنِي أَبِي , قَالَ: سُئِلَ أُسَامَةُ , عَنْ سَيْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَأَنَا شَاهِدٌ , قَالَ: " كَانَ سَيْرُهُ الْعَنَقَ , فَإِذَا وَجَدَ فَجْوَةً نَصَّ , وَالنَّصُّ فَوْقَ الْعَنَقِ , وَأَنَا رَدِيفُهُ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شب عرفہ کو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار درمیانی تھی جہاں لوگوں کا رش ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری کی رفتار ہلکی کرلیتے اور جہاں راستہ کھلا ہوا ملتا تو رفتار تیز کردیتے۔
حدثنا يعلى بن عبيد , حدثنا الاعمش , عن ابي وائل , قال: قيل لاسامة : الا تكلم عثمان؟ فقال: إنكم ترون ان لا اكلمه إلا سمعكم , إني لا اكلمه فيما بيني وبينه , ما دون ان افتتح امرا لا احب ان اكون اول من افتتحه , والله لا اقول لرجل: إنك خير الناس , وإن كان علي اميرا , بعد إذ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: قالوا: وما سمعته يقول؟ قال: سمعته يقول: " يجاء بالرجل يوم القيامة , فيلقى في النار , فتندلق به اقتابه , فيدور بها في النار كما يدور الحمار برحاه , فيطيف به اهل النار , فيقولون: يا فلان ما لك ما اصابك؟ الم تكن تامرنا بالمعروف وتنهانا عن المنكر؟ فقال: كنت آمركم بالمعروف ولا آتيه , وانهاكم عن المنكر وآتيه" .حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ أَبِي وَائِلٍ , قَال: قِيلَ لِأُسَامَةَ : أَلَا تُكَلِّمُ عُثْمَان؟ فَقَالَ: إِنَّكُمْ تَرَوْنَ أَنْ لَا أُكَلِّمَهُ إِلَّا سَمْعَكُمْ , إِنِّي لَا أُكَلِّمُهُ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَهُ , مَا دُونَ أَنْ أَفْتَتِحَ أَمْرًا لَا أُحِبُّ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ افْتَتَحَهُ , وَاللَّهِ لَا أَقُولُ لِرَجُلٍ: إِنَّكَ خَيْرُ النَّاسِ , وَإِنْ كَانَ عَلَيَّ أَمِيرًا , بَعْدَ إِذْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: قَالُوا: وَمَا سَمِعْتَهُ يَقُولُ؟ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: " يُجَاءُ بِالرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ , فَيُلْقَى فِي النَّارِ , فَتَنْدَلِقُ بِهِ أَقْتَابُهُ , فَيَدُورُ بِهَا فِي النَّارِ كَمَا يَدُورُ الْحِمَارُ بِرَحَاهُ , فَيُطِيفُ بِهِ أَهْلُ النَّارِ , فَيَقُولُون: يَا فُلَانُ مَا لَكَ مَا أَصَابَكَ؟ أَلَمْ تَكُنْ تَأْمُرُنَا بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَانَا عَنِ الْمُنْكَرِ؟ فَقَالَ: كُنْتُ آمُرُكُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا آتِيهِ , وَأَنْهَاكُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَآتِيهِ" .
ابو وائل کہتے ہیں کہ کسی نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بات کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا تم سمجھتے ہو کہ میں ان سے جو بھی بات کروں گا وہ تمہیں بھی بتاؤں گا میں ان سے جو بات بھی کرتا ہوں وہ میرے اور ان کے درمیان ہوتی ہے میں اس بات کو کھولنے میں خود پہل کرنے کو پسند نہیں کرتا اور بخدا! کسی آدمی کے متعلق میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم سب سے بہترین آدمی ہو خواہ وہ مجھ پر حکمران ہی ہو، جبکہ میں نے اس حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے بھی سنا ہے کہ قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا جس سے اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں گی اور وہ انہیں لے کر اس طرح گھومے گا جیسے گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے یہ دیکھ کر تمام جہنمی اس کے پاس جمع ہوں گے اور اس سے کہیں گے کہ اے فلاں! تجھ پر کیا مصیبت آئی؟ کیا تو ہمیں نیکی کا حکم اور برائی سے رکنے کی تلقین نہیں کرتا تھا؟ وہ جواب دے گا کہ میں تمہیں تو نیکی کرنے کا حکم دیتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا اور تمہیں گناہوں سے روکتا تھا اور خود کرتا تھا۔
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے " ابنی " نامی ایک بستی کی طرف بھیجا اور فرمایا صبح کے وقت وہاں پہنچ کر اسے آگ لگا دو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف صالح بن أبى الأخضر، لكنه لم ينفرد به
حدثنا ابو عامر , حدثنا زهير يعني ابن محمد , عن عبد الله يعني ابن محمد بن عقيل , عن ابن اسامة بن زيد , ان اباه اسامة , قال: كساني رسول الله صلى الله عليه وسلم قبطية كثيفة كانت مما اهداها دحية الكلبي , فكسوتها امراتي , فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما لك لم تلبس القبطية" , قلت: يا رسول الله كسوتها امراتي , فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " مرها فلتجعل تحتها غلالة , إني اخاف ان تصف حجم عظامها" .حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ , حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ , عَنِ ابْنِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , أَنَّ أَبَاهُ أُسَامَةَ , قَالَ: كَسَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبْطِيَّةً كَثِيفَةً كَانَتْ مِمَّا أَهْدَاهَا دِحْيَةُ الْكَلْبِيُّ , فَكَسَوْتُهَا امْرَأَتِي , فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا لَكَ لَمْ تَلْبَسْ الْقُبْطِيَّةَ" , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَسَوْتُهَا امْرَأَتِي , فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مُرْهَا فَلْتَجْعَلْ تَحْتَهَا غِلَالَةً , إِنِّي أَخَافُ أَنْ تَصِفَ حَجْمَ عِظَامِهَا" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک موٹی قبطی چادر عطا فرمائی جو اس ہدیئے میں سے تھی جو حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تھا، میں نے وہ اپنی بیوی کو دے دی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کیا بات ہے؟ تم نے وہ چادر نہیں پہنی؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے وہ اپنی بیوی کو دے دی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے کہنا کہ اس کے نیچے شمیض لگائے کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ اس سے اس کے اعضاء جسم نمایاں ہوں گے۔
حكم دارالسلام: حديث محتمل للتحسين، عبدالله بن محمد يعتبر به فى المتابعات والشواهد
حدثنا عارم بن الفضل , حدثنا معتمر , عن ابيه , قال سمعت ابا تميمة يحدث , عن ابي عثمان النهدي , يحدثه ابو عثمان , عن اسامة بن زيد , قال: كان نبي الله صلى الله عليه وسلم ياخذني , فيقعدني على فخذه , ويقعد الحسن بن علي على فخذه الاخرى , ثم يضمنا , ثم يقول: " اللهم ارحمهما فإني ارحمهما" , قال علي بن المديني: هو السلي من عنزة إلى ربيعة يعني ابا تميمة السلي.حَدَّثَنَا عَارِمُ بْنُ الْفَضْلِ , حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ سَمِعْتُ أَبَا تَمِيمَةَ يُحَدِّثُ , عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ , يُحَدِّثُهُ أَبُو عُثْمَانَ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: كَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُنِي , فَيُقْعِدُنِي عَلَى فَخِذِهِ , وَيُقْعِدُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ عَلَى فَخِذِهِ الْأُخْرَى , ثُمَّ يَضُمُّنَا , ثُمَّ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ ارْحَمْهُمَا فَإِنِّي أَرْحَمُهُمَا" , قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: هُوَ السَّلِّيُّ مِنْ عَنَزَةَ إِلَى رَبِيعَةَ يَعْنِي أَبَا تَمِيمَةَ السَّلِّيَّ.
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات مجھے پکڑ کر اپنی ایک ران پر بٹھا لیتے اور دوسری پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو بھر ہمیں بھینچ کر فرماتے اے اللہ! میں چونکہ ان دونوں پر رحم کھاتا ہوں لہٰذا تو بھی ان پر رحم فرما۔
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک موٹی قبطی چادر عطا فرمائی جو اس ہدیئے میں سے تھی جو حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تھا، میں نے وہ اپنی بیوی کو دے دی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کیا بات ہے؟ تم نے وہ چادر نہیں پہنی؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے وہ اپنی بیوی کو دے دی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے کہنا کہ اس کے نیچے شمیض لگائے کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ اس سے اس کے اعضاء جسم نمایاں ہوں گے۔
حكم دارالسلام: حديث محتمل للتحسين، عبدالله بن محمد يعتبر به فى المتابعات والشواهد
حدثنا عبد الرزاق , اخبرنا سفيان , عن عاصم , عن ابي عثمان النهدي , عن اسامة بن زيد , قال: ارسلت ابنة النبي صلى الله عليه وسلم: ان ابني يقبض فاتنا , فارسل يقرا السلام , ويقول: " لله ما اخذ , ولله ما اعطى , وكل شيء عنده باجل مسمى" , قال: فارسلت إليه تقسم عليه لياتين , قال: فقام وقمنا معه معاذ بن جبل , وابي بن كعب , وسعد بن عبادة , قال: فاخذ الصبي ونفسه تقعقع , قال: فدمعت عيناه , فقال سعد: يا رسول الله ما هذا؟ قال:" هذه رحمة جعلها الله في قلوب عباده , وإنما يرحم الله من عباده الرحماء" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ , عَنْ عَاصِمٍ , عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: أَرْسَلَتْ ابْنَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ ابْنِي يُقْبَضُ فَأْتِنَا , فَأَرْسَلَ يِقْرَأِ السَّلَامِ , وَيَقُولُ: " لِلَّهِ مَا أَخَذَ , وَلِلَّهِ مَا أَعْطَى , وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى" , قَالَ: فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ تُقْسِمُ عَلَيْهِ لَيَأْتِيَنَّ , قَالَ: فَقَامَ وَقُمْنَا مَعَهُ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ , وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ , وَسَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ , قَالَ: فَأَخَذَ الصَّبِيَّ وَنَفْسُهُ تَقَعْقَعُ , قَالَ: فَدَمَعَتْ عَيْنَاهُ , فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هَذَا؟ قَالَ:" هَذِهِ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللَّهُ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ , وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی صاحبزادی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ پیغام بھیجا کہ ان کے بچہ پر نزع کا عالم طاری ہے آپ ہمارے یہاں تشریف لائیے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کہلوایا اور فرمایا جو لیا وہ بھی اللہ کا ہے اور جو دیا وہ بھی اللہ کا ہے اور ہر چیز کا اس کے یہاں ایک وقت مقرر ہے لہٰذا تمہیں صبر کرنا چاہئے اور اس پر ثواب کی امید رکھنی چاہئے، انہوں نے دوبارہ قاصد کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قسم دے کر بھیجا، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے اور ہم بھی ساتھ ہی کھڑے ہوگئے۔
اس بچے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں لا کر رکھا گیا، اس کی جان نکل رہی تھی لوگوں میں اس وقت حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اور غالباً حضرت ابی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جسے دیکھ کر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ کیا ہے؟ فرمایا یہ رحمت ہے جو اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہتا ہے ڈال دیتا ہے اور اللہ اپنے بندوں میں سے رحم دل بندوں پر ہی رحم کرتا ہے۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عرفہ سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے پیچھے بٹھا لیا گھاٹی میں پہنچ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نیچے اترے اور پیشاب کیا پھر میں نے ان پر پانی ڈالا اور ہلکا سا وضو کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر سوار ہو کر مزدلفہ پہنچے اور راستے میں نماز نہیں پڑھی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 139، م: 1280، وهذا إسناد ضعيف لضعف شبعة بن دينار
حدثنا يزيد , حدثنا ابن ابي ذئب , عن الزبرقان , ان رهطا من قريش مر بهم زيد بن ثابت وهم مجتمعون , فارسلوا إليه غلامين لهم يسالانه عن الصلاة الوسطى , فقال: هي العصر , فقام إليه رجلان منهم فسالاه , فقال: هي الظهر , ثم انصرفا إلى اسامة بن زيد فسالاه , فقال: هي الظهر , إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي الظهر بالهجير , ولا يكون وراءه إلا الصف , والصفان من الناس في قائلتهم , وفي تجارتهم , فانزل الله تعالى: حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وقوموا لله قانتين سورة البقرة آية 238 قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لينتهين رجال او لاحرقن بيوتهم" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , حدَّثَنَا ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ , عَنِ الزِّبْرِقَانِ , أَنَّ رَهْطًا مِنْ قُرَيْشٍ مَرَّ بِهِمْ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَهُمْ مُجْتَمِعُونَ , فَأَرْسَلُوا إِلَيْهِ غُلَامَيْنِ لَهُمْ يَسْأَلَانِهِ عَنِ الصَّلَاةِ الْوُسْطَى , فَقَالَ: هِيَ الْعَصْرُ , فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلَانِ مِنْهُمْ فَسَأَلَاهُ , فَقَالَ: هِيَ الظُّهْرُ , ثُمَّ انْصَرَفَا إِلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ فَسَأَلَاهُ , فَقَالَ: هِيَ الظُّهْرُ , إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي الظُّهْرَ بِالْهَجِيرِ , وَلَا يَكُونُ وَرَاءَهُ إِلَّا الصَّفُّ , وَالصَّفَّانِ مِنَ النَّاسِ فِي قَائِلَتِهِمْ , وَفِي تِجَارَتِهِمْ , فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ سورة البقرة آية 238 قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيَنْتَهِيَنَّ رِجَالٌ أَوْ لَأُحَرِّقَنَّ بُيُوتَهُمْ" .
زبرقان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ قریش کا ایک گروہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذرا وہ سب لوگ اکٹھے تھے انہوں نے اپنے دو غلاموں کو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس یہ پوچھنے کے لئے بھیجا کہ " صلوٰۃ وسطی " سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے فرمایا عصر کی نماز مراد ہے پھر دو آدمی کھڑے ہوئے اور انہوں نے یہی سوال پوچھا تو فرمایا کہ اس سے مراد ظہر کی نماز ہے، پھر وہ دونوں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے یہی سوال پوچھا تو انہوں نے بھی ظہر کی نماز بتایا اور فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز دوپہر کی گرمی میں پڑھا کرتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صرف ایک یا دو صفیں ہوتی تھیں اور لوگ قیلولہ یا تجارت میں مصروف ہوتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی " تمام نمازوں کی عموماً اور درمیانی نماز کی خصوصاً پابندی کیا کرو اور اللہ کے سامنے عاجزی سے کھڑے رہا کرو " پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ اس حرکت سے باز آجائیں ورنہ میں ان کے گھروں کو آگ لگا دوں گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه ، فإن الزبرقان لم يدرك القصة التى رواها
حدثنا عبد الصمد , حدثنا همام , عن قتادة , عن عزرة , عن الشعبي , عن اسامة انه حدثه , قال:" كنت ردف رسول الله صلى الله عليه وسلم حين افاض من عرفات , فلم ترفع راحلته رجلها عادية حتى بلغ جمعا" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , حَدَّثَنَا هَمَّامٌ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ عَزْرَةَ , عَنِ الشَّعْبِيِّ , عَنْ أُسَامَةَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ , قَالَ:" كُنْتُ رِدْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أَفَاضَ مِنْ عَرَفَاتٍ , فَلَمْ تَرْفَعْ رَاحِلَتُهُ رِجْلَهَا عَادِيَةً حَتَّى بَلَغَ جَمْعًا" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے واپس ہوئے ہیں تو میں ان کا ردیف تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری نے دوڑتے ہوئے اپنا پاؤں بلند نہیں کیا یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ پہنچ گئے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، الشعبي لم يسمع من اسامة شياء
حدثنا عبد الصمد , حدثنا حماد , عن عاصم , عن ابي وائل , قال: قيل لاسامة بن زيد , قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " يؤتى بالرجل الذي كان يطاع في معاصي الله تعالى , فيقذف في النار , فتندلق به اقتابه , فيستدير فيها كما يستدير الحمار في الرحا , فياتي عليه اهل طاعته من الناس , فيقولون: اي فل , اين ما كنت تامرنا به؟ فيقول: إني كنت آمركم بامر , واخالفكم إلى غيره" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ , عَنْ عَاصِمٍ , عَنْ أَبِي وَائِلٍ , قَالَ: قِيلَ لِأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يُؤْتَى بِالرَّجُلِ الَّذِي كَانَ يُطَاعُ فِي مَعَاصِي اللَّهِ تَعَالَى , فَيُقْذَفُ فِي النَّارِ , فَتَنْدَلِقُ بِهِ أَقْتَابُهُ , فَيَسْتَدِيرُ فِيهَا كَمَا يَسْتَدِيرُ الْحِمَارُ فِي الرَّحَا , فَيَأْتِي عَلَيْهِ أَهْلُ طَاعَتِهِ مِنَ النَّاسِ , فَيَقُولُونَ: أَيْ فُلَ , أَيْنَ مَا كُنْتَ تَأْمُرُنَا بِهِ؟ فَيَقُولُ: إِنِّي كُنْتُ آمُرُكُمْ بِأَمْرٍ , وَأُخَالِفُكُمْ إِلَى غَيْرِهِ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے بھی سنا ہے کہ قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا جس سے اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں گی اور وہ انہیں لے کر اس طرح گھومے گا جیسے گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے یہ دیکھ کر تمام جہنمی اس کے پاس جمع ہوں گے اور اس سے کہیں گے کہ اے فلاں! تجھ پر کیا مصیبت آئی؟ کیا تو ہمیں نیکی کا حکم اور برائی سے رکنے کی تلقین نہیں کرتا تھا؟ وہ جواب دے گا کہ میں تمہیں تو نیکی کرنے کا حکم دیتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا اور تمہیں گناہوں سے روکتا تھا اور خود کرتا تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3267، م: 2989، وهذا إسناد حسن
حدثنا محمد بن بكر , اخبرنا يحيى بن قيس الماربي , قال: سالت عطاء عن الدينار بالدينار وبينهما فضل , والدرهم بالدرهم , قال: كان ابن عباس يحله , فقال ابن الزبير: إن ابن عباس يحدث بما لم يسمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم , فبلغ ابن عباس , فقال: إني لم اسمعه من رسول الله صلى الله عليه وسلم , ولكن اسامة بن زيد حدثني , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ليس الربا إلا في النسيئة" او" النظرة".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ , أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ قَيْسٍ الْمَأْرِبِي , قَالَ: سَأَلْتُ عَطَاءً عَنِ الدِّينَارِ بِالدِّينَارِ وَبَيْنَهُمَا فَضْلٌ , وَالدِّرْهَمِ بِالدِّرْهَمِ , قَالَ: كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يُحِلُّهُ , فَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ يُحَدِّثُ بِمَا لَمْ يَسْمَعْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَبَلَغَ ابْنَ عَبَّاسٍ , فَقَالَ: إِنِّي لَمْ أَسْمَعْهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَلَكِنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ حَدَّثَنِي , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَيْسَ الرِّبَا إِلَّا فِي النَّسِيئَةِ" أَوْ" النظرَةِ".
یحییٰ بن قیس کہتے کہ میں نے عطاء سے دینار کے بدلے دینار اور درہم کے بدلے درہم کے تبالے کے متعلق پوچھا جبکہ ان کے درمیان کچھ اضافی چیز بھی ہو تو انہوں نے کہا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اسے حلال قرار دیتے ہیں اس پر حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابن عباس وہ بات بیان کر رہے ہیں جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود نہیں سنی، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو معلوم ہوا تو انہوں نے فرمایا یہ چیز میں نے براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی ہے، البتہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سود کا تعلق تو ادھار یا تاخیر سے ہوتا ہے۔
حدثنا يحيى بن ابي بكير , حدثنا شعبة , قال: حبيب بن ابي ثابت اخبرنا , قال: سمعت إبراهيم بن سعد يحدث , انه سمع اسامة بن زيد يحدث سعدا , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إذا سمعتم بالطاعون بارض فلا تدخلوها , وإذا وقع بارض وانتم بها فلا تخرجوا منها" قال: قلت: انت سمعته يحدث سعدا , وهو لا ينكر؟ قال: نعم.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , قَالَ: حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ أَخْبَرَنَا , قَالَ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ بْنَ سَعْدٍ يُحَدِّثُ , أَنَّهُ سَمِعَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ يُحَدِّثُ سَعْدًا , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا سَمِعْتُمْ بِالطَّاعُونِ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوهَا , وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا مِنْهَا" قَالَ: قُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ يُحَدِّثُ سَعْدًا , وَهُوَ لَا يُنْكِرُ؟ قَالَ: نَعَمْ.
عامربن سعد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس طاعون کے حوالے سے سوال پوچھنے کے لئے آیا تو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کے متعلق میں تمہیں بتاتا ہوں، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ طاعون ایک عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے لوگوں (بنی اسرائیل) پر مسلط کیا تھا، کبھی یہ آجاتا ہے اور کبھی چلا جاتا ہے لہٰذا جس علاقے میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہو تو تم اس علاقے میں مت جاؤ اور جب کسی علاقے میں یہ وباء پھیلے اور تم پہلے سے وہاں موجود ہو تو اس سے بھاگ کر وہاں سے نکلو مت۔
حدثنا ابو معاوية , حدثنا عاصم , حدثني ابو عثمان النهدي , عن اسامة بن زيد , قال: اتي رسول الله صلى الله عليه وسلم باميمة بنت زينب , ونفسها تقعقع كانها في شن , فقال: " لله ما اخذ , ولله ما اعطى , وكل إلى اجل مسمى" قال: فدمعت عيناه , فقال له سعد بن عبادة: يا رسول الله , اتبكي اولم تنه عن البكاء؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنما هي رحمة جعلها الله في قلوب عباده , وإنما يرحم الله من عباده الرحماء" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , حَدَّثَنَا عَاصِمٌ , حَدَّثَنِي أَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأُمَيْمَةَ بِنْتِ زَيْنَبَ , وَنَفْسُهَا تَقَعْقَعُ كَأَنَّهَا فِي شَنٍّ , فَقَال: " لِلَّهِ مَا أَخَذَ , وَلِلَّهِ مَا أَعْطَى , وَكُلٌّ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى" قَالَ: فَدَمَعَتْ عَيْنَاهُ , فَقَالَ لَهُ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَتَبْكِي أَوَلَمْ تَنْهَ عَنِ الْبُكَاءِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا هِيَ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللَّهُ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ , وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (ان کی نواسی) امیمہ بنت زینب کو لایا گیا اس کی روح اس طرح نکل رہی تھی جیسے کسی مشکیزے میں ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو لیا وہ بھی اللہ کا ہے اور جو دیا وہ اللہ کا ہے اور ہر چیز کا اس کے یہاں ایک وقت مقرر ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جسے دیکھ کر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ بھی رو رہے ہیں؟ فرمایا یہ رحمت ہے جو اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہتا ہے ڈال دیتا ہے اور اللہ اپنے بندوں میں سے رحم دل بندوں پر ہی رحم کرتا ہے۔
حدثنا ابو معاوية , حدثنا الاعمش , عن شقيق , عن اسامة بن زيد , قال: قالوا له: الا تدخل على هذا الرجل فتكلمه؟ قال: فقال: الا ترون اني لا اكلمه إلا اسمعكم؟ والله لقد كلمته فيما بيني وبينه ما دون ان افتح امرا لا احب ان اكون انا اول من فتحه , ولا اقول لرجل ان يكون علي اميرا: إنه خير الناس , بعد ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " يؤتى بالرجل يوم القيامة فيلقى في النار , فتندلق اقتاب بطنه فيدور بها في النار كما يدور الحمار بالرحى , قال: فيجتمع اهل النار إليه , فيقولون: يا فلان اما كنت تامرنا بالمعروف , وتنهانا عن المنكر , قال: فيقول: بلى قد كنت آمر بالمعروف ولا آتيه , وانهى عن المنكر وآتيه" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ شَقِيقٍ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: قَالُوا لَه: أَلَا تَدْخُلُ عَلَى هَذَا الرَّجُلِ فَتُكَلِّمُهُ؟ قَالَ: فَقَالَ: أَلَا تَرَوْنَ أَنِّي لَا أُكَلِّمُهُ إِلَّا أُسْمِعُكُمْ؟ وَاللَّهِ لَقَدْ كَلَّمْتُهُ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَهُ مَا دُونَ أَنْ أَفْتَحَ أَمْرًا لَا أُحِبُّ أَنْ أَكُونَ أَنَا أَوَّلَ مَنْ فَتَحَهُ , وَلَا أَقُولُ لِرَجُلٍ أَنْ يَكُونَ عَلَيَّ أَمِيرًا: إِنَّهُ خَيْرُ النَّاسِ , بَعْدَ مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يُؤْتَى بِالرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُلْقَى فِي النَّارِ , فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُ بَطْنِهِ فَيَدُورُ بِهَا فِي النَّارِ كَمَا يَدُورُ الْحِمَارُ بِالرَّحى , قَالَ: فَيَجْتَمِعُ أَهْلُ النَّارِ إِلَيْهِ , فَيَقُولُونَ: يَا فُلَانُ أَمَا كُنْتَ تَأْمُرُنَا بِالْمَعْرُوفِ , وَتَنْهَانَا عَنِ الْمُنْكَرِ , قَالَ: فَيَقُولُ: بَلَى قَدْ كُنْتُ آمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا آتِيهِ , وَأَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ وَآتِيهِ" .
ابو وائل کہتے ہیں کہ کسی نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بات کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا تم سمجھتے ہو کہ میں ان سے جو بھی بات کروں گا وہ تمہیں بھی بتاؤں گا میں ان سے جو بات بھی کرتا ہوں وہ میرے اور ان کے درمیان ہوتی ہے میں اس بات کو کھولنے میں خود پہل کرنے کو پسند نہیں کرتا اور بخدا! کسی آدمی کے متعلق میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم سب سے بہترین آدمی ہو خواہ وہ مجھ پر حکمران ہی ہو، جبکہ میں نے اس حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے بھی سنا ہے کہ قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا جس سے اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں گی اور وہ انہیں لے کر اس طرح گھومے گا جیسے گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے یہ دیکھ کر تمام جہنمی اس کے پاس جمع ہوں گے اور اس سے کہیں گے کہ اے فلاں! تجھ پر کیا مصیبت آئی؟ کیا تو ہمیں نیکی کا حکم اور برائی سے رکنے کی تلقین نہیں کرتا تھا؟ وہ جواب دے گا کہ میں تمہیں تو نیکی کرنے کا حکم دیتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا اور تمہیں گناہوں سے روکتا تھا اور خود کرتا تھا۔
حدثنا ابو معاوية , حدثنا الاعمش , عن عمارة , عن ابي الشعثاء قال:" خرجت حاجا , فجئت حتى دخلت البيت , فلما كنت بين الساريتين مضيت , حتى لزقت بالحائط , فجاء ابن عمر فصلى إلى جنبي , فصلى اربعا , فلما صلى قلت له: اين صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من البيت؟ قال: اخبرني اسامة بن زيد انه صلى هاهنا , فقلت: كم صلى؟ قال: هذا اجدني الوم نفسي اني مكثت معه عمرا لم اساله كم صلى , ثم حججت من العام المقبل , فجئت حتى قمت في مقامه , فجاء ابن الزبير حتى قام إلى جنبي , ولم يزل يزاحمني حتى اخرجني منه , ثم صلى فيه اربعا" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ عُمَارَةَ , عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ قَال:" خَرَجْتُ حَاجًّا , فَجِئْتُ حَتَّى دَخَلْتُ الْبَيْتَ , فَلَمَّا كُنْتُ بَيْنَ السَّارِيَتَيْنِ مَضَيْتُ , حَتَّى لَزِقْتُ بِالْحَائِطِ , فَجَاءَ ابْنُ عُمَرَ فَصَلَّى إِلَى جَنْبِي , فَصَلَّى أَرْبَعًا , فَلَمَّا صَلَّى قُلْتُ لَهُ: أَيْنَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْبَيْتِ؟ قَالَ: أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ أَنَّهُ صَلَّى هَاهُنَا , فَقُلْتُ: كَمْ صَلَّى؟ قَالَ: هَذَا أَجِدُنِي أَلُومُ نَفْسِي أَنِّي مَكَثْتُ مَعَهُ عُمْرًا لَمْ أَسْأَلْهُ كَمْ صَلَّى , ثُمَّ حَجَجْتُ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ , فَجِئْتُ حَتَّى قُمْتُ فِي مَقَامِهِ , فَجَاءَ ابْنُ الزُّبَيْرِ حَتَّى قَامَ إِلَى جَنْبِي , وَلَمْ يَزَلْ يُزَاحِمُنِي حَتَّى أَخْرَجَنِي مِنْهُ , ثُمَّ صَلَّى فِيهِ أَرْبَعًا" .
ابوالشعثاء کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حج کے ارادے سے نکلا، بیت اللہ شریف میں داخل ہوا جب دو ستونوں کے درمیان پہنچا تو جا کر ایک دیوار سے چمٹ گیا اتنی دیر میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما آگئے اور میرے پہلو میں کھڑے ہو کر چار رکعتیں پڑھیں، جب وہ نماز سے فارغ ہوگئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ میں کہاں نماز پڑھی تھی انہوں نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہاں مجھے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بتایا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ہے میں نے ان سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی رکعتیں پڑھی تھیں تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا اسی پر تو آج تک میں اپنے آپ کو ملامت کرتا ہوں کہ میں نے ان کے ساتھ ایک طویل عرصہ گذارا لیکن یہ نہ پوچھ سکا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی رکعتیں پڑھی تھیں۔
اگلے سال میں پھر حج کے ارادے سے نکلا اور اسی جگہ پر جا کر کھڑا ہوگیا جہاں پچھلے سال کھڑا ہوا تھا اتنی دیر میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ آگئے اور میرے پہلو میں کھڑے ہوگئے پھر وہ مجھ سے مزاحمت کرتے رہے حتیٰ کہ مجھے وہاں سے باہر کردیا اور پھر اس میں چار رکعتیں پڑھیں۔
حدثنا يعلى , حدثنا الاعمش , عن ابي ظبيان , حدثنا اسامة بن زيد , قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية إلى الحرقات , فنذروا بنا فهربوا , فادركنا رجلا , فلما غشيناه قال: لا إله إلا الله , فضربناه حتى قتلناه , فعرض في نفسي من ذلك شيء , فذكرته لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " من لك بلا إله إلا الله يوم القيامة؟" , قال: قلت: يا رسول الله , إنما قالها مخافة السلاح والقتل , فقال:" الا شققت عن قلبه حتى تعلم من اجل ذلك ام لا! من لك بلا إله إلا الله يوم القيامة؟" , قال: فما زال يقول ذلك حتى وددت اني لم اسلم إلا يومئذ .حَدَّثَنَا يَعْلَى , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ , حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ , قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً إِلَى الْحُرَقَاتِ , فَنَذِرُوا بِنَا فَهَرَبُوا , فَأَدْرَكْنَا رَجُلًا , فَلَمَّا غَشِينَاهُ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , فَضَرَبْنَاهُ حَتَّى قَتَلْنَاهُ , فَعَرَضَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ , فَذَكَرْتُهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " مَنْ لَكَ بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟" , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّمَا قَالَهَا مَخَافَةَ السِّلَاحِ وَالْقَتْلِ , فَقَالَ:" أَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ حَتَّى تَعْلَمَ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ أَمْ لَا! مَنْ لَكَ بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟" , قَالَ: فَمَا زَالَ يَقُولُ ذَلِكَ حَتَّى وَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أُسْلِمْ إِلَّا يَوْمَئِذٍ .
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جہینہ کے ریتلے علاقوں میں سے ایک قبیلے کی طرف بھیجا، ہم نے صبح کے وقت ان پر حملہ کیا اور قتال شروع کردیا ان میں سے ایک آدمی جب بھی ہمارے سامنے آتا تو وہ ہمارے سامنے سب سے زیادہ بہادری کے ساتھ لڑتا تھا اور جب وہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگتے تو وہ پیچھے سے ان کی حفاظت کرتا تھا میں نے ایک انصاری کے ساتھ مل کر اسے گھیر لیا جوں ہی ہم نے اس کے گرد گھیرا تنگ کیا تو اس نے فوراً " لا الہ الا اللہ " کہہ لیا اس پر انصاری نے اپنے ہاتھ کو کھینچ لیا لیکن میں نے اسے قتل کردیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو فرمایا اسامہ! جب اس نے لا الہ الا اللہ کہہ لیا تھا تو تم نے پھر بھی اسے قتل کردیا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس نے جان بچانے کے لئے یہ کلمہ پڑھا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو اتنی مرتبہ دہرایا کہ میں یہ خواہش کرنے لگا کہ کاش! میں نے اسلام ہی اس دن قبول کیا ہوتا۔
حدثنا ابو كامل , حدثنا حماد , عن قيس بن سعد , عن عطاء , عن ابن عباس , عن اسامة بن زيد , قال: افاض رسول الله صلى الله عليه وسلم من عرفة , وانا رديفه , فجعل يكبح راحلته حتى ان ذفرها لتكاد تصيب قادمة الرحل , وهو يقول:" يا ايها الناس عليكم السكينة والوقار , فإن البر ليس في إيضاع الإبل" .حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ , عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ , عَنْ عَطَاءٍ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عَرَفَةَ , وَأَنَا رَدِيفُه , فَجَعَلَ يَكْبَحُ رَاحِلَتَهُ حَتَّى أَنَّ ذِفْرَهَا لَتَكَادُ تُصِيبُ قَادِمَةَ الرَّحْلِ , وَهُوَ يَقُولُ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْكُمْ السَّكِينَةَ وَالْوَقَارَ , فَإِنَّ الْبِرَّ لَيْسَ فِي إِيضَاعِ الْإِبِلِ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے روانہ ہوئے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری کو لگام سے پکڑ کر کھینچنے لگے حتٰی کہ اس کے کان کجاوے کے اگلے حصے کے قریب آگئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جارہے تھے لوگو! اپنے اوپر سکون اور وقار کو لازم پکڑو، اونٹوں کو تیز دوڑانے میں کوئی نیکی نہیں ہے۔
حدثنا ابو كامل , حدثنا إبراهيم بن سعد , حدثنا ابن شهاب , عن ابن عم لاسامة بن زيد يقال له: عياض وكانت بنت اسامة تحته , قال: ذكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم رجل خرج من بعض الارياف , حتى إذا كان قريبا من المدينة ببعض الطريق , اصابه الوباء , قال: فافزع ذلك الناس , قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " إني لارجو ان لا يطلع علينا نقابها" يعني المدينة. وحدثناه الهاشمي , ويعقوب , وقالا جميعا: إنه سمع اسامة ..حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ , حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ , حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ , عَنِ ابْنِ عَمٍّ لِأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ يُقَالُ لَهُ: عِيَاضٌ وَكَانَتْ بِنْتُ أُسَامَةَ تَحْتَهُ , قَالَ: ذُكِرَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ خَرَجَ مِنْ بَعْضِ الْأَرْيَافِ , حَتَّى إِذَا كَانَ قَرِيبًا مِنَ الْمَدِينَةِ بِبَعْضِ الطَّرِيقِ , أَصَابَهُ الْوَبَاءُ , قَالَ: فَأَفْزَعَ ذَلِكَ النَّاسَ , قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ لَا يَطْلُعَ عَلَيْنَا نِقَابُهَا" يَعْنِي الْمَدِينَة. وحَدَّثَنَاه الْهَاشِمِيُّ , وَيَعْقُوبُ , وَقَالَا جَمِيعًا: إِنَّهُ سَمِعَ أُسَامَةَ ..
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے ایک چچا زاد بھائی " جن کا نام عیاض تھا " سے مروی ہے " جن کے نکاح میں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی بھی تھیں " کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی کا تذکرہ ہوا جو کسی شاداب علاقے سے نکلا، جب وہ مدینہ منورہ کے قریب پہنچا تو اسے وباء نے آگھیرا یہ سن کر لوگ خوفزادہ ہوگئے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے امید ہے کہ یہ وباء مدینہ منورہ کے سوراخوں سے نکل کر ہم تک نہیں پہنچے گی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عياض ابن عم أسامة
حدثنا عبد الله حدثنا ابو معمر , حدثنا إبراهيم بن سعد , حدثنا ابن شهاب , عن ابن عم لاسامة بن زيد , يقال له: عياض , وكانت ابنة اسامة عنده , وذكر الحديث مثله , قال ابو عبد الرحمن: وقال بعضهم: عياض بن ضمرى.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ , حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ , حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ , عَنِ ابْنِ عَمٍّ لِأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , يُقَالُ لَهُ: عِيَاضٌ , وَكَانَتْ ابْنَةُ أُسَامَةَ عِنْدَهُ , وَذَكَرَ الْحَدِيثَ مِثْلَهُ , قَال أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَقَالَ بَعْضُهُمْ: عِيَاضُ بْنُ ضَمْرَى.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبن عم لأسامة ابن زيد
حدثنا عبد الرزاق , حدثنا معمر , عن الزهري , عن عامر بن سعد بن ابي وقاص , عن اسامة بن زيد , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن هذا الوباء رجز , اهلك الله به الامم قبلكم , وقد بقي منه في الارض شيء يجيء احيانا , ويذهب احيانا , فإذا وقع بارض فلا تخرجوا منها , وإذا سمعتم به في ارض فلا تاتوها" ..حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ هَذَا الْوَبَاءَ رِجْزٌ , أَهْلَكَ اللَّهُ بِهِ الْأُمَمَ قَبْلَكُمْ , وَقَدْ بَقِيَ مِنْهُ فِي الْأَرْضِ شَيْءٌ يَجِيءُ أَحْيَانًا , وَيَذْهَبُ أَحْيَانًا , فَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ فَلَا تَخْرُجُوا مِنْهَا , وَإِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ فِي أَرْضٍ فَلَا تَأْتُوهَا" ..
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا طاعون ایک عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے لوگوں (بنی اسرائیل) پر مسلط کیا تھا، کبھی یہ آجاتا ہے اور کبھی چلا جاتا ہے لہٰذا جس علاقے میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہو تو تم اس علاقے میں مت جاؤ اور جب کسی علاقے میں یہ وباء پھیلے اور تم پہلے سے وہاں موجود ہو تو اس سے بھاگ کر وہاں سے نکلو مت۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی مسلمان کسی کافر کا اور کوئی کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا۔
حدثنا عبد الرزاق , اخبرنا ابن جريج . وروح , قالا: حدثنا ابن جريج , قال: قلت لعطاء : سمعت ابن عباس , يقول: إنما امرتم بالطواف ولم تؤمروا بالدخول , قال: لم يكن ينهى عن دخوله , ولكني سمعته يقول: اخبرني اسامة بن زيد ان النبي صلى الله عليه وسلم لما دخل البيت دعا في نواحيه كلها , ولم يصل فيه حتى خرج , فلما خرج ركع ركعتين في قبل الكعبة , قال عبد الرزاق: وقال:" هذه القبلة".حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أخبرنا ابْنُ جُرَيْجٍ . وَرَوْحٌ , قَالَا: حدثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ , قَالَ: قُلْتُ لِعَطَاءٍ : سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ , يَقُولُ: إِنَّمَا أُمِرْتُمْ بِالطَّوَافِ وَلَمْ تُؤْمَرُوا بِالدُّخُولِ , قَالَ: لَمْ يَكُنْ يَنْهَى عَنْ دُخُولِهِ , وَلَكِنِّي سَمِعْتُهُ يَقُولُ: أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَخَلَ الْبَيْتَ دَعَا فِي نَوَاحِيهِ كُلِّهَا , وَلَمْ يُصَلِّ فِيهِ حَتَّى خَرَجَ , فَلَمَّا خَرَجَ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ فِي قِبَلِ الْكَعْبَةِ , قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: وَقَالَ:" هَذِهِ الْقِبْلَةُ".
ابن جریج کہتے ہیں کہ میں عطاء سے پوچھا کیا آپ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تمہیں طواف کا حکم دیا گیا ہے بیت اللہ میں داخل ہونے کا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ وہ اس میں داخل ہونے سے نہیں روکتے تھے البتہ میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ مجھے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بتایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ شریف میں داخل ہوئے تو اس کے سارے کونوں میں دعاء فرمائی لیکن وہاں نماز نہیں پڑھی بلکہ باہر آکر خانہ کعبہ کی جانب رخ کر کے دو رکعتیں پڑھیں اور فرمایا یہ ہے قبلہ۔
حدثنا عبد الرزاق , حدثنا معمر , عن الزهري , عن عروة , عن اسامة , قال: اشرف النبي صلى الله عليه وسلم على اطم من آطام المدينة , فقال:" هل ترون ما ارى؟" , قالوا: لا , قال: " إني لارى الفتن تقع خلال بيوتكم كوقع المطر" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ أُسَامَةَ , قَالَ: أَشْرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أُطُمٍ مِنْ آطَامِ الْمَدِينَةِ , فَقَالَ:" هَلْ تَرَوْنَ مَا أَرَى؟" , قَالُوا: لَا , قَالَ: " إِنِّي لَأَرَى الْفِتَنَ تَقَعُ خِلَالَ بيوتكمِ كَوَقْعِ الْمَطَرِ" .
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے کسی ٹیلے پر چڑھے تو فرمایا کہ جو میں دیکھ رہا ہوں کیا تم بھی وہ دیکھ رہے ہو؟ لوگوں نے کہا نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے گھروں میں فتنے اس طرح رونما ہو رہے ہیں جیسے بارش کے قطرے برستے ہیں۔
عامربن سعد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس طاعون کے حوالے سے سوال پوچھنے کے لئے آیا تو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کے متعلق میں تمہیں بتاتا ہوں، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ طاعون ایک عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے لوگوں (بنی اسرائیل) پر مسلط کیا تھا، کبھی یہ آجاتا ہے اور کبھی چلا جاتا ہے لہٰذا جس علاقے میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہو تو تم اس علاقے میں مت جاؤ اور جب کسی علاقے میں یہ وباء پھیلے اور تم پہلے سے وہاں موجود ہو تو اس سے بھاگ کر وہاں سے نکلو مت۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3473، م: 2218، وهذا إسناد حسن
حدثنا وكيع , حدثنا عمر بن ذر , عن مجاهد , عن اسامة بن زيد , ان النبي صلى الله عليه وسلم اردفه من عرفة , قال: فقال الناس: سيخبرنا صاحبنا ما صنع , قال: قال اسامة:" لما دفع من عرفة , فوقع كف راس راحلته حتى اصاب راسها واسطة الرحل , او كاد يصيبه , يشير إلى الناس بيده: السكينة السكينة السكينة , حتى اتى جمعا" , ثم اردف الفضل بن عباس , قال: فقال الناس: يخبرنا صاحبنا بما صنع رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال الفضل:" لم يزل يسير سيرا لينا كسيره بالامس , حتى اتى على وادي محسر فدفع فيه حتى استوت به الارض" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ , عَنْ مُجَاهِدٍ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْدَفَهُ مِنْ عَرَفَةَ , قَالَ: فَقَالَ النَّاسُ: سَيُخْبِرُنَا صَاحِبُنَا مَا صَنَعَ , قَالَ: قَالَ أُسَامَةُ:" لَمَّا دَفَعَ مِنْ عَرَفَةَ , فَوَقَعَ كَفَّ رَأْسَ رَاحِلَتِهِ حَتَّى أَصَابَ رَأْسُهَا وَاسِطَةَ الرَّحْلِ , أَوْ كَادَ يُصِيبُهُ , يُشِيرُ إِلَى النَّاسِ بِيَدِهِ: السَّكِينَةَ السَّكِينَةَ السَّكِينَةَ , حَتَّى أَتَى جَمْعًا" , ثُمَّ أَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ , قَالَ: فَقَالَ النَّاسُ: يُخْبِرُنَا صَاحِبُنَا بِمَا صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ الْفَضْلُ:" لَمْ يَزَلْ يَسِيرُ سَيْرًا لَيِّنًا كَسَيْرِهِ بِالْأَمْسِ , حَتَّى أَتَى عَلَى وَادِي مُحَسِّرٍ فَدَفَعَ فِيهِ حَتَّى اسْتَوَتْ بِهِ الْأَرْضُ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عرفہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر پیچھے بٹھالیا لوگ کہنے لگے کہ ہمارا یہ ساتھی ہمیں بتادے گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا؟ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وقوف عرفات کے بعد روانہ ہوئے تو اپنی سواری کا سر اتنا کھینچا کہ وہ کجاوے کے درمیانے حصے سے لگ گیا یا لگنے کے قریب ہوگیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اشارے سے لوگوں کو پرسکون رہنے کی تلقین کرنے لگے، یہاں تک کہ مزدلفہ آپہنچے اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو اپنا ردیف بنا لیا لوگ کہنے لگے کہ ہمارا یہ ساتھی ہمیں بتادے گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا؟ چنانچہ انہوں نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کل گزشتہ کی طرح آہستہ آہستہ چلتے رہے البتہ جب وادی محسر پر پہنچے تو رفتار تیز کردی یہاں تک کہ وہاں سے گذر گئے۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی مسلمان کسی کافر کا اور کوئی کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 6764، م: 1614، وهذا إسناد وهم فيه مالك فقال: عن عمر بن عثمان بدل قوله: عن عمرو
قال: قرات على عبد الرحمن : مالك , عن موسى بن عقبة . ح وحدثنا روح , عن مالك , عن موسى بن عقبة , عن كريب مولى ابن عباس , عن اسامة بن زيد , انه سمعه يقول: دفع رسول الله صلى الله عليه وسلم من عرفة , حتى إذا كان بالشعب نزل , فبال ثم توضا ولم يسبغ الوضوء , فقلت له: الصلاة , فقال: " الصلاة امامك" , فركب , فلما جاء المزدلفة نزل فتوضا , فاسبغ الوضوء , ثم اقيمت الصلاة فصلى المغرب , ثم اناخ كل إنسان بعيره في منزله , ثم اقيمت الصلاة , فصلاها ولم يصل بينهما شيئا .قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ : مَالِكٌ , عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ . ح وَحَدَّثَنَا رَوْحٌ , عَنْ مَالِكٍ , عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ , عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عَرَفَةَ , حَتَّى إِذَا كَانَ بِالشِّعْبِ نَزَلَ , فَبَالَ ثُمَّ تَوَضَّأَ وَلَمْ يُسْبِغْ الْوُضُوءَ , فَقُلْتُ لَهُ: الصَّلَاةَ , فَقَالَ: " الصَّلَاةُ أَمَامَكَ" , فَرَكِبَ , فَلَمَّا جَاءَ الْمُزْدَلِفَةَ نَزَلَ فَتَوَضَّأَ , فَأَسْبَغَ الْوُضُوءَ , ثُمَّ أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ , ثُمَّ أَنَاخَ كُلُّ إِنْسَانٍ بَعِيرَهُ فِي مَنْزِلِهِ , ثُمَّ أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ , فَصَلَّاهَا وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا .
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے روانہ ہوئے اور اس گھاٹی میں پہنچے جہاں لوگ اپنی سواریوں کو بٹھایا کرتے تھے، نبی کریم نے بھی وہاں اپنی اونٹنی کو بٹھایا پھر پیشاب کیا اور پانی سے استنجاء کیا پھر وضو کا پانی منگوا کر وضو کیا جو بہت زیادہ مبالغہ آمیز نہ تھا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! نماز کا وقت ہوگیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز تمہارے آگے ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہو کر مزدلفہ پہنچے وہاں مغرب کی نماز پڑھی پھر لوگوں نے اپنے اپنے مقام پر سواریوں کو بٹھایا اور ابھی سامان کھولنے نہیں پائے تھے کہ نماز عشاء کھڑی ہوگئی، نماز پڑھی اور ان دونوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے ایک آزاد کردہ غلام سے مروی ہے کہ ایک دن وہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اپنے مال کی تلاش میں وادی قری گیا ہوا تھا حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ وہ پیر اور جمعرات کے دن روزہ رکھا کرتے تھے ان کے غلام نے ان سے پوچھا کہ آپ اس قدر بوڑھے اور کمزور ہونے کے باوجود بھی پیر اور جمعرات کا روزہ اتنی پابندی سے کیوں رکھتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی پیر اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے کسی نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پیر اور جمعرات کے دن لوگوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں۔
حكم دارالسلام: المرفوع منه صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لجهالة مولي قدامة بن مظعون، وجهالة مولي أسامة
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن عمرو بن دينار , عن ذكوان , قال: ارسلني ابو سعيد الخدري , إلى ابن عباس , قال: قل له في الصرف: اسمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لم نسمع؟ او قرات في كتاب الله , ما لم نقرا؟ قال: بكل لا اقول , ولكني سمعت اسامة بن زيد يحدث , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا ربا إلا في الدين" , او قال:" في النسيئة" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ , عَنْ ذَكْوَانَ , قَالَ: أَرْسَلَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ , إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ: قُلْ لَهُ فِي الصَّرْفِ: أَسَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَمْ نَسْمَعْ؟ أَوْ قَرَأْتَ فِي كِتَابِ اللَّهِ , مَا لَمْ نَقْرَأْ؟ قَالَ: بِكُلٍّ لَا أَقُولُ , وَلَكِنِّي سَمِعْتُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ يُحَدِّثُ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا رِبًا إِلَّا فِي الدَّيْنِ" , أَوْ قَالَ:" فِي النَّسِيئَةِ" .
ذکوان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے مجھے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس یہ پوچھنے کے لئے بھیجا کہ بیع صرف کے متعلق آپ جو بات کہتے ہیں، یہ بتائیے کہ اس کا ثبوت آپ کو قرآن میں ملتا ہے یا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کچھ سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ چیز نہ تو مجھے کتاب اللہ میں ملی ہے اور نہ ہی میں نے براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے البتہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سود کا تعلق ادھار سے ہوتا ہے۔
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن حبيب بن ابي ثابت , قال: كنت بالمدينة فبلغني ان الطاعون بالكوفة , قال: فذكر لي عطاء بن يسار , وغير واحد من اهل المدينة هذا الحديث , قال: فقلت: من يحدثه؟ قال: فقالوا: عامر بن سعد , وكان غائبا , قال: فلقيت إبراهيم بن سعد , قال: فسالته عن ذلك , فقال: سمعت اسامة يحدث سعدا , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن هذا الوجع رجس وعذاب , او بقية عذاب , حبيب شك , فيه عذب به ناس قبلكم , فإذا كان بارض وانتم بها , فلا تخرجوا منها , وإذا سمعتم به في ارض , فلا تدخلوها" قال: فقلت له: آنت سمعت اسامة يحدث سعدا , فلم ينكر , قال: نعم.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ , قَالَ: كُنْتُ بِالْمَدِينَةِ فَبَلَغَنِي أَنَّ الطَّاعُونَ بِالْكُوفَةِ , قَالَ: فَذَكَرَ لِي عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ , وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ هَذَا الْحَدِيثَ , قَالَ: فَقُلْتُ: مَنْ يُحَدِّثُهُ؟ قَالَ: فَقَالُوا: عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ , وَكَانَ غَائِبًا , قَالَ: فَلَقِيتُ إِبْرَاهِيمَ بْنَ سَعْدٍ , قَالَ: فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ , فَقَالَ: سَمِعْتُ أُسَامَةَ يُحَدِّثُ سَعْدًا , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ هَذَا الْوَجَعَ رِجْسٌ وَعَذَابٌ , أَوْ بَقِيَّةُ عَذَابٍ , حَبِيبٌ شَكَّ , فِيهِ عُذِّبَ بِهِ نَاسٌ قَبْلَكُمْ , فَإِذَا كَانَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا , فَلَا تَخْرُجُوا مِنْهَا , وَإِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ فِي أَرْضٍ , فَلَا تَدْخُلُوهَا" قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: آنْتَ سَمِعْتَ أُسَامَةَ يُحَدِّثُ سَعْدًا , فَلَمْ يُنْكِرْ , قَالَ: نَعَمْ.
عامربن سعد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس طاعون کے حوالے سے سوال پوچھنے کے لئے آیا تو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کے متعلق میں تمہیں بتاتا ہوں، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ طاعون ایک عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے لوگوں (بنی اسرائیل) پر مسلط کیا تھا، کبھی یہ آجاتا ہے اور کبھی چلا جاتا ہے لہٰذا جس علاقے میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہو تو تم اس علاقے میں مت جاؤ اور جب کسی علاقے میں یہ وباء پھیلے اور تم پہلے سے وہاں موجود ہو تو اس سے بھاگ کر وہاں سے نکلو مت۔
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن سليمان , قال: سمعت ابا وائل , قال: قيل لاسامة : الا تكلم هذا؟ قال: قد كلمته , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " يجاء برجل فيطرح في النار , فيطحن فيها كطحن الحمار برحاه , فيطيف به اهل النار فيقولون: يا فلان الست كنت تامر بالمعروف وتنهى عن المنكر؟ فيقول: إني كنت آمر بالمعروف ولا افعله , وانهى عن المنكر وافعله" , قال شعبة : وحدثني منصور , عن ابي وائل , عن اسامة , بنحو منه , إلا انه زاد فيه:" فتندلق اقتاب بطنه".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ سُلَيْمَانَ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ , قَالَ: قِيلَ لِأُسَامَةَ : أَلَا تُكَلِّمُ هَذَا؟ قَالَ: قَدْ كَلَّمْتُهُ , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يُجَاءُ بِرَجُلٍ فَيُطْرَحُ فِي النَّارِ , فَيَطْحَنُ فِيهَا كَطَحْنِ الْحِمَارِ بِرَحَاهُ , فَيُطِيفُ بِهِ أَهْلُ النَّارِ فَيَقُولُونَ: يَا فُلَانُ أَلَسْتَ كُنْتَ تَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ؟ فَيَقُولُ: إِنِّي كُنْتُ آمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا أَفْعَلُهُ , وَأَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ وَأَفْعَلُهُ" , قَالَ شُعْبَةُ : وَحَدَّثَنِي مَنْصُورٌ , عَنْ أَبِي وَائِلٍ , عَنْ أُسَامَةَ , بِنَحْوٍ مِنْهُ , إِلَّا أَنَّهُ زَادَ فِيهِ:" فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُ بَطْنِهِ".
ابو وائل کہتے ہیں کہ کسی نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بات کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا تم سمجھتے ہو کہ میں ان سے جو بھی بات کروں گا وہ تمہیں بھی بتاؤں گا میں ان سے جو بات بھی کرتا ہوں وہ میرے اور ان کے درمیان ہوتی ہے میں اس بات کو کھولنے میں خود پہل کرنے کو پسند نہیں کرتا اور بخدا! کسی آدمی کے متعلق میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم سب سے بہترین آدمی ہو خواہ وہ مجھ پر حکمران ہی ہو، جبکہ میں نے اس حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے بھی سنا ہے کہ قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا جس سے اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں گی اور وہ انہیں لے کر اس طرح گھومے گا جیسے گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے یہ دیکھ کر تمام جہنمی اس کے پاس جمع ہوں گے اور اس سے کہیں گے کہ اے فلاں! تجھ پر کیا مصیبت آئی؟ کیا تو ہمیں نیکی کا حکم اور برائی سے رکنے کی تلقین نہیں کرتا تھا؟ وہ جواب دے گا کہ میں تمہیں تو نیکی کرنے کا حکم دیتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا اور تمہیں گناہوں سے روکتا تھا اور خود کرتا تھا۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی مسلمان کسی کافر کا اور کوئی کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا۔
حدثنا هشيم , اخبرنا عبد الملك , حدثنا عطاء , قال: قال اسامة بن زيد :" كنت رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفات فرفع يديه يدعو فمالت به ناقته , فسقط خطامها , قال: فتناول الخطام بإحدى يديه وهو رافع يده الاخرى" .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ , أخبرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ , حَدَّثَنَا عَطَاءٌ , قَالَ: قَالَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ :" كُنْتُ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَاتٍ فَرَفَعَ يَدَيْهِ يَدْعُو فَمَالَتْ بِهِ نَاقَتُهُ , فَسَقَطَ خِطَامُهَا , قَالَ: فَتَنَاوَلَ الْخِطَامَ بِإِحْدَى يَدَيْهِ وَهُوَ رَافِعٌ يَدَهُ الْأُخْرَى" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میدان عرفات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف میں تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاء کے لئے ہاتھ اٹھائے تو اونٹنی ایک طرف کو جھکنے لگی اور اس کی لگام گرگئی، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ سے رسی کو پکڑ لیا اور دوسرے ہاتھ کو اٹھائے رکھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، عطاء لم يسمع من أسامة شيئا، بينهما ابن عباس
حدثنا هشيم , حدثنا عبد الملك , عن عطاء , قال: قال اسامة بن زيد : رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم حين خرج من البيت اقبل بوجهه نحو الباب , فقال: " هذه القبلة , هذه القبلة" .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ , عَنْ عَطَاءٍ , قَالَ: قَالَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ : رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ خَرَجَ مِنَ الْبَيْتِ أَقْبَلَ بِوَجْهِهِ نَحْوَ الْبَابِ , فَقَالَ: " هَذِهِ الْقِبْلَةُ , هَذِهِ الْقِبْلَةُ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ شریف سے باہر آئے تو دروازے کی طرف رخ کر کے دو مرتبہ فرمایا یہ ہے قبلہ۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، عطاء لم يسمع من أسامة شيئا، بينهما ابن عباس
حدثنا هشيم , اخبرنا عبد الملك , عن عطاء , قال: قال اسامة : دخلت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم البيت فجلس , فحمد الله واثنى عليه , وكبر وهلل , ثم قام إلى ما بين يديه من البيت , فوضع صدره عليه , وخده , ويديه , قال: ثم كبر , وهلل , ودعا , ثم فعل ذلك بالاركان كلها , ثم خرج فاقبل على القبلة , وهو على الباب , فقال: " هذه القبلة , هذه القبلة" مرتين او ثلاثا .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ , أَخبرنا عَبْدُ الْمَلِكِ , عَنْ عَطَاءٍ , قَالَ: قَالَ أُسَامَةُ : دَخَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ فَجَلَسَ , فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ , وَكَبَّرَ وَهَلَّلَ , ثُمَّ قَامَ إِلَى مَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْبَيْتِ , فَوَضَعَ صَدْرَهُ عَلَيْهِ , وَخَدَّهُ , وَيَدَيْهِ , قَالَ: ثُمَّ كَبَّرَ , وَهَلَّلَ , وَدَعَا , ثُمَّ فَعَلَ ذَلِكَ بِالْأَرْكَانِ كُلِّهَا , ثُمَّ خَرَجَ فَأَقْبَلَ عَلَى الْقِبْلَةِ , وَهُوَ عَلَى الْبَابِ , فَقَالَ: " هَذِهِ الْقِبْلَةُ , هَذِهِ الْقِبْلَةُ" مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیت اللہ میں داخل ہوا (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا اور انہوں نے دروازہ بند کرلیا، اس وقت بیت اللہ چھ ستونوں پر مشتمل تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے ان دو ستونوں کے قریب پہنچے جو باب کعبہ کے قریب تھے) اور بیٹھ کر اللہ کی حمدوثناء کی، تکبیروتہلیل کہی (دعاء و استغفار کیا) پھر کھڑے ہو کر بیت اللہ کے سامنے والے حصے کے پاس گئے اور اس پر اپنا سینہ مبارک، رخسار اور مبارک ہاتھ رکھ دیئے، پھر تکبیروتہلیل اور دعاء کرتے رہے پھر ہر کونے پر اسی طرح کیا اور باہر نکل کر باب کعبہ پر پہنچ کر قبلہ کی طرف رخ کر کے دو تین مرتبہ فرمایا یہ ہے قبلہ۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع ، عطاء لم يسمع من أسامة شيئا، بينهما ابن عباس
حدثنا محمد بن عبد الله بن المثنى , حدثني صالح ابى الاخضر , حدثني الزهري , عن عروة , عن اسامة , ان النبي صلى الله عليه وسلم كان وجهه وجهة , فقبض النبي صلى الله عليه وسلم , فساله ابو بكر رضي الله عنه , ما الذي عهد إليك؟ قال: " عهد إلي ان اغير على ابنى صباحا , ثم احرق" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُثَنَّى , حَدَّثَنِي صَالِحُ أبى الْأَخْضَرِ , حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ أُسَامَةَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ وَجَّهَهُ وِجْهَةً , فَقُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَسَأَلَهُ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , مَا الَّذِي عَهِدَ إِلَيْكَ؟ قَالَ: " عَهِدَ إِلَيَّ أَنْ أُغِيرَ عَلَى أُبْنَى صَبَاحًا , ثُمَّ أُحَرِّقَ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کسی جانب لشکر دے کر روانہ فرمایا تھا لیکن اسی دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں کیا حکم دیا تھا؟ انہوں نے عرض کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں صبح کے وقت " ابنی " پر حملہ کروں اور اسے آگ لگا دوں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف صالح ابن أبى الأخضر
حدثنا يحيى بن سعيد , حدثنا التيمي , عن ابي عثمان , عن اسامة بن زيد , عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " قمت على باب الجنة , فإذا عامة من يدخلها الفقراء , إلا ان اصحاب الجد محبوسون , إلا اهل النار , فقد امر بهم إلى النار , ووقفت على باب النار , فإذا عامة من دخلها النساء" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا التَّيْمِيُّ , عَنْ أَبِي عُثْمَانَ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " قُمْتُ عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ , فَإِذَا عَامَّةُ مَنْ يَدْخُلُهَا الْفُقَرَاءُ , إِلَّا أَنَّ أَصْحَابَ الْجَدِّ مَحْبُوسُونَ , إِلَّا أَهْلَ النَّارِ , فَقَدْ أُمِرَ بِهِمْ إِلَى النَّارِ , وَوَقَفْتُ عَلَى بَابِ النَّارِ , فَإِذَا عَامَّةُ مَنْ دَخَلَهَا النِّسَاءُ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تو دیکھا کہ اس میں داخل ہونے والوں کی اکثریت مساکین کی ہے جبکہ مالداروں کو (حساب کتاب کے لئے فرشتوں نے) روکا ہوا ہے البتہ جو جہنمی ہیں انہیں جہنم میں داخل کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور جہنم کے دروازے پر کھڑا ہوا تو دیکھا کہ اس میں داخل ہونے والوں کی اکثریت عورتوں کی ہے۔
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس علاقے میں طاعون کی وباء پھیلی ہوئی ہو تو تم اس علاقے میں مت جاؤ اور جب کسی علاقے میں یہ وباء پھیلے اور تم پہلے سے وہاں موجود ہو تو اس سے بھاگ کر وہاں سے نکلو مت۔
حدثنا يحيى بن سعيد , عن التيمي , عن ابي عثمان , عن اسامة بن زيد , قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم ياخذني والحسن , فيقول: " اللهم إني احبهما , فاحبهما" . قال يحيى: قال التيمي: كنت احدث به , فدخلني منه , فقلت: انا احدث به منذ كذا وكذا , فوجدته مكتوبا عندي.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , عَنِ التَّيْمِيِّ , عَنْ أَبِي عُثْمَانَ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُنِي وَالْحَسَنُ , فَيَقُولُ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا , فَأَحِبَّهُمَا" . قَالَ يَحْيَى: قَالَ التَّيْمِيُّ: كُنْتُ أُحَدِّثُ بِهِ , فَدَخَلَنِي مِنْهُ , فَقُلْتُ: أَنَا أُحَدِّثُ بِهِ مُنْذُ كَذَا وَكَذَا , فَوَجَدْتُهُ مَكْتُوبًا عِنْدِي.
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات مجھے پکڑ کر اپنی ران پر بٹھا لیتے اور دوسری پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو پھر ہمیں بھینچ کر فرماتے اے اللہ! میں چونکہ ان دونوں سے محبت کرتا ہوں لہٰذا تو بھی ان سے محبت فرما۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں نے اپنے پیچھے اپنی امت کے مردوں پر عورتوں سے زیادہ سخت فتنہ کوئی نہیں چھوڑا۔
حدثنا يحيى , عن عبد الملك , حدثنا عطاء , عن اسامة بن زيد , انه دخل هو ورسول الله صلى الله عليه وسلم البيت , فامر بلالا فاجاف الباب والبيت إذ ذاك على ستة اعمدة , فمضى حتى اتى اللتين تليان الباب , باب الكعبة , فجلس , فحمد الله , واثنى عليه , وساله , واستغفره , ثم قام حتى اتى ما استقبل من دبر الكعبة , فوضع وجهه وجسده على الكعبة , فحمد الله , واثنى عليه , وساله , واستغفره , ثم انصرف , حتى اتى كل ركن من اركان البيت فاستقبله بالتكبير , والتهليل , والتسبيح , والثناء على الله عز وجل , والاستغفار , والمسالة , ثم خرج فصلى ركعتين خارجا من البيت مستقبل وجه الكعبة , ثم انصرف , فقال: " هذه القبلة , هذه القبلة" .حَدَّثَنَا يَحْيَى , عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ , حَدَّثَنَا عَطَاءٌ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , أَنَّهُ دَخَلَ هُوَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ , فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَجَافَ الْبَابَ وَالْبَيْتَ إِذْ ذَاكَ عَلَى سِتَّةِ أَعْمِدَةٍ , فَمَضَى حَتَّى أَتَى اللَّتَيْنِ تَلِيَانِ الْبَابَ , بَابَ الْكَعْبَةِ , فَجَلَسَ , فَحَمِدَ اللَّهَ , وَأَثْنَى عَلَيْهِ , وَسَأَلَهُ , وَاسْتَغْفَرَهُ , ثُمَّ قَامَ حَتَّى أَتَى مَا اسْتَقْبَلَ مِنْ دُبُرِ الْكَعْبَةِ , فَوَضَعَ وَجْهَهُ وَجَسَدَهُ عَلَى الْكَعْبَةِ , فَحَمِدَ اللَّهَ , وَأَثْنَى عَلَيْهِ , وَسَأَلَهُ , وَاسْتَغْفَرَهُ , ثُمَّ انْصَرَفَ , حَتَّى أَتَى كُلَّ رُكْنٍ مِنْ أَرْكَانِ الْبَيْتِ فَاسْتَقْبَلَهُ بِالتَّكْبِيرِ , وَالتَّهْلِيلِ , وَالتَّسْبِيحِ , وَالثَّنَاءِ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ , وَالِاسْتِغْفَارِ , وَالْمَسْأَلَةِ , ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَارِجًا مِنَ الْبَيْتِ مُسْتَقْبِلَ وَجْهِ الْكَعْبَةِ , ثُمَّ انْصَرَفَ , فَقَالَ: " هَذِهِ الْقِبْلَةُ , هَذِهِ الْقِبْلَةُ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیت اللہ میں داخل ہوا (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا اور انہوں نے دروازہ بند کرلیا، اس وقت بیت اللہ چھ ستونوں پر مشتمل تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے ان دو ستونوں کے قریب پہنچے جو باب کعبہ کے قریب تھے) اور بیٹھ کر اللہ کی حمدوثناء کی، تکبیروتہلیل کہی (دعاء و استغفار کیا) پھر کھڑے ہو کر بیت اللہ کے سامنے والے حصے کے پاس گئے اور اس پر اپنا سینہ مبارک، رخسار اور مبارک ہاتھ رکھ دیئے، پھر تکبیروتہلیل اور دعاء کرتے رہے پھر ہر کونے پر اسی طرح کیا اور باہر نکل کر باب کعبہ پر پہنچ کر قبلہ کی طرف رخ کر کے دو تین مرتبہ فرمایا یہ ہے قبلہ۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، عطاء لم يسمع من أسامة شيئا، بينهما ابن عباس
حدثنا يحيى , عن سفيان , حدثني إبراهيم بن عقبة , عن كريب , عن اسامة بن زيد , ان النبي صلى الله عليه وسلم لما دفع او افاض من عرفة , فاتى النقب الذي ينزله الامراء والخلفاء , قال: فبال , فاتيته بماء فتوضا وضوءا حسنا بين الوضوءين , ثم ركب راحلته , قلت: الصلاة يا نبي الله , قال: " الصلاة امامك" , قال: فاتى جمعا , فاقام فصلى المغرب , ثم لم يحل بقية الناس حتى اقام فصلى العشاء ..حَدَّثَنَا يَحْيَى , عَنْ سُفْيَانَ , حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُقْبَةَ , عَنْ كُرَيْبٍ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَفَعَ أَوْ أَفَاضَ مِنْ عَرَفَةَ , فَأَتَى النَّقْبَ الَّذِي يَنْزِلُهُ الْأُمَرَاءُ وَالْخُلَفَاءُ , قَالَ: فَبَالَ , فَأَتَيْتُهُ بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ وُضُوءًا حَسَنًا بَيْنَ الْوُضُوءَيْنِ , ثُمَّ رَكِبَ رَاحِلَتَهُ , قُلْتُ: الصَّلَاةَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ , قَالَ: " الصَّلَاةُ أَمَامَكَ" , قَالَ: فَأَتَى جَمْعًا , فَأَقَامَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ , ثُمَّ لَمْ يَحُلَّ بَقِيَّةُ النَّاسِ حَتَّى أَقَامَ فَصَلَّى الْعِشَاءَ ..
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے روانہ ہوئے اور اس گھاٹی میں پہنچے جہاں لوگ اپنی سواریوں کو بٹھایا کرتے تھے، نبی کریم نے بھی وہاں اپنی اونٹنی کو بٹھایا پھر پیشاب کیا اور پانی سے استنجاء کیا پھر وضو کا پانی منگوا کر وضو کیا جو بہت زیادہ مبالغہ آمیز نہ تھا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! نماز کا وقت ہوگیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز تمہارے آگے ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہو کر مزدلفہ پہنچے وہاں مغرب کی نماز پڑھی پھر لوگوں نے اپنے اپنے مقام پر سواریوں کو بٹھایا اور ابھی سامان کھولنے نہیں پائے تھے کہ نماز عشاء کھڑی ہوگئی، نماز پڑھی اور ان دونوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی۔
حدثنا وكيع , حدثنا هشام بن عروة , عن ابيه , قال: كنت جالسا عند اسامة , فسئل عن مسير النبي صلى الله عليه وسلم حين دفع من عرفة , فقال: " كان يسير العنق فإذا وجد فجوة نص" , يعني: فوق العنق.حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ أُسَامَةَ , فَسُئِلَ عَنْ مَسِيرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ دَفَعَ مِنْ عَرَفَةَ , فَقَالَ: " كَانَ يَسِيرُ الْعَنَقَ فَإِذَا وَجَدَ فَجْوَةً نَصَّ" , يَعْنِي: فَوْقَ الْعَنَقِ.
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شب عرفہ کو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار درمیانی تھی جہاں لوگوں کا رش ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری کی رفتار ہلکی کرلیتے اور جہاں راستہ کھلا ہوا ملتا تو رفتار تیز کردیتے۔