حدثنا يحيى بن آدم ، قال: حدثنا زهير ، وابن إدريس ، عن محمد بن إسحاق ، عن يزيد بن ابي حبيب ، عن معمر بن ابي حبيبة ، عن عبيد بن رفاعة بن رافع ، عن ابيه ، قال زهير في حديثه: رفاعة بن رافع، وكان عقبيا بدريا، قال: كنت عند عمر، فقيل له: إن زيد بن ثابت يفتي الناس في المسجد، قال زهير في حديثه: الناس برايه في الذي يجامع ولا ينزل، فقال: اعجل به، فاتي به، فقال: يا عدو نفسه، اوقد بلغت ان تفتي الناس في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم برايك؟ قال: ما فعلت، ولكن حدثني عمومتي، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: اي عمومتك؟ قال: ابي بن كعب ، قال زهير وابو ايوب ورفاعة بن رافع ، فالتفت إلى ما يقول هذا الفتى؟ وقال زهير في حديثه ما يقول هذا الغلام؟، فقلت: كنا نفعله في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فسالتم عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: كنا نفعله على عهده، فلم نغتسل، قال فجمع الناس، واتفق الناس على ان الماء لا يكون إلا من الماء" إلا رجلين علي بن ابي طالب ، ومعاذ بن جبل ، قالا: إذا جاوز الختان الختان، فقد وجب الغسل، قال: فقال علي: يا امير المؤمنين، إن اعلم الناس بهذا ازواج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فارسل إلى حفصة، فقالت: لا علم لي، فارسل إلى عائشة ، فقالت:" إذا جاوز الختان الختان، وجب الغسل" قال: فتحطم عمر، يعني تغيظ، ثم قال: لا يبلغني ان احدا فعله، ولا يغتسل، إلا انهكته عقوبة..حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، وَابْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ مَعْمَرِ بْنِ أَبِي حَبِيبَةَ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ زُهَيْرٌ فِي حَدِيثِهِ: رِفَاعَةُ بْنُ رَافِعٍ، وَكَانَ عَقَبِيًّا بَدْرِيًّا، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عُمَرَ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ يُفْتِي النَّاسَ فِي الْمَسْجِدِ، قَالَ زُهَيْرٌ فِي حَدِيثِهِ: النَّاسَ بِرَأْيِهِ فِي الَّذِي يُجَامِعُ وَلَا يُنْزِلُ، فَقَالَ: أَعْجِلْ بِهِ، فَأُتِيَ بِهِ، فَقَالَ: يَا عَدُوَّ نَفْسِهِ، أَوَقَدْ بَلَغْتَ أَنْ تُفْتِيَ النَّاسَ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَأْيِكَ؟ قَالَ: مَا فَعَلْتُ، وَلَكِنْ حَدَّثَنِي عُمُومَتِي، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَيُّ عُمُومَتِكَ؟ قَالَ: أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، قَالَ زُهَيْرٌ وَأَبُو أَيُّوبَ وَرِفَاعَةُ بْنُ رَافِعٍ ، فَالْتَفَتُّ إِلَى مَا يَقُولُ هَذَا الْفَتَى؟ وَقَالَ زُهَيْرٌ فِي حَدِّيْثَهُ مَا يَقُولُ هَذَا الْغُلَامُ؟، فَقُلْتُ: كُنَّا نَفْعَلُهُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَسَأَلْتُمْ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: كُنَّا نَفْعَلُهُ عَلَى عَهْدِهِ، فَلَمْ نَغْتَسِلْ، قَالَ فَجَمَعَ النَّاسَ، وَاتَّفَقَ النَّاسُ عَلَى أَنَّ الْمَاءَ لَا يَكُونُ إِلَّا مِنَ الْمَاءِ" إِلَّا رَجُلَيْنِ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ، وَمُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ ، قَالَا: إِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ، فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ، قَالَ: فَقَالَ عَلِيٌّ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّ أَعْلَمَ النَّاسِ بِهَذَا أَزْوَاجُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ إِلَى حَفْصَةَ، فَقَالَتْ: لَا عِلْمَ لِي، فَأَرْسَلَ إِلَى عَائِشَةَ ، فَقَالَتْ:" إِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ، وَجَبَ الْغُسْلُ" قَالَ: فَتَحَطَّمَ عُمَرُ، يَعْنِي تَغَيَّظَ، ثُمَّ قَالَ: لَا يَبْلُغُنِي أَنَّ أَحَدًا فَعَلَهُ، وَلَا يَغْتَسِلُ، إِلَّا أَنْهَكْتُهُ عُقُوبَةً..
گزشتہ حدیث راویوں کی معمولی تقدیم و تاخیر کے ساتھ بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف العنعنة أبن إسحاق، لكنه توبع
حضرت رفاعہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا کسی نے ان سے کہا کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ مسجد میں بیٹھ کر اس شخص کے متعلق جو اپنی بیوی سے مجامعت کرے لیکن اسے انزال نہ ہو، اپنی رائے سے لوگوں کو فتویٰ دے رہے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جلدی سے جا کر انہیں میرے پاس بلا کر لاؤ، جب وہ آگئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا اے دشمن جان! مجھے پتہ چلا ہے کہ تم مسجد نبوی میں بیٹھ کر اپنی رائے سے لوگوں کو فتویٰ دے رہے ہو؟ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے تو ایسا نہیں کیا بلکہ یہ بات تو میرے چچاؤں نے مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ذکر کی ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ کون سا چچا؟ انہوں نے بتایا حضرت ابی کعب رضی اللہ عنہ (اور حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ اور حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی عنہ نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا یہ نوجوان کیا کہہ رہا ہے؟ میں نے کہا کہ ہم تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ایسا ہی کرتے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تھا؟ میں نے جواب دیا کہ ہم تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں ایسا ہی کرتے تھے (اس کا رواج عام تھا)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تمام لوگوں کو اکٹھا کیا اور دو آدمیوں یعنی حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے علاوہ سب نے اس بات پر اتفاق کرلیا کہ وجوب غسل انزال کی صورت میں ہی ہوگا مذکورہ دونوں حضرات کا کہنا تھا کہ جب ایک شرمگاہ دوسری شرمگاہ سے مل جائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا امیرالمؤمنین اس مسئلے کا سب سے زیادہ علم ازواج مطہرات کے پاس ہوسکتا ہے لہٰذا حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو بھیج کر معلوم کروا لیجئے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ مجھے اس کے متعلق کچھ علم نہیں پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس قاصد کو بھیجا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ جب ایک شرمگاہ دوسری شرمگاہ سے مل جائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو سخت غصہ آیا اور فرمایا اگر مجھے پتہ چلا کہ کسی نے ایسا کیا ہے اور غسل نہیں کیا تو اسے سخت سزا دوں گا۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف العنعنة أبن إسحاق، لكنه توبع