حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت نعمان رضی اللہ عنہ کو عامل مقرر کیا۔۔۔۔۔۔ پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی حضرت نعمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوات میں شرکت کی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر دن کے اول حصے میں قتال نہ کرتے تو اسے مؤخر کردیتے یہاں تک کہ زوال آفتاب ہوجاتا ہوائیں چلنے لگتیں اور نصرت الہٰیہ نازل ہوجاتی۔
حدثنا اسود بن عامر ، انبانا ابو بكر ، عن الاعمش ، عن ابي خالد الوالبي ، عن النعمان بن مقرن ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، وسب رجل رجلا عنده، قال: فجعل الرجل المسبوب يقول: عليك السلام، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اما إن ملكا بينكما يذب عنك كلما يشتمك هذا، قال له: بل انت وانت احق به، وإذا قال له: عليك السلام، قال: لا بل لك انت، انت احق به" .حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، أَنْبَأَنَا أَبُو بَكْرٍ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ الْوَالِبِيِّ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَبَّ رَجُلٌ رَجُلًا عِنْدَهُ، قَالَ: فَجَعَلَ الرَّجُلُ الْمَسْبُوبُ يَقُولُ: عَلَيْكَ السَّلَامُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَا إِنَّ مَلَكًا بَيْنَكُمَا يَذُبُّ عَنْكَ كُلَّمَا يَشْتُمُكَ هَذَا، قَالَ لَهُ: بَلْ أَنْتَ وَأَنْتَ أَحَقُّ بِهِ، وَإِذَا قَالَ لَهُ: عَلَيْكَ السَّلَامُ، قَالَ: لَا بَلْ لَكَ أَنْتَ، أنت أَحَقُّ بِهِ" .
حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک آدمی نے دوسرے کے ساتھ تلخ کلامی کی وہ دوسرا آدمی " علیک السلام " ہی کہتا رہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم دونوں کے درمیان ایک فرشتہ موجود ہے یہ شخص جب بھی تمہیں برا بھلا کہتا ہے تو وہ تمہارا دفاع کرتا ہے اور اسے جواب دیتا ہے کہ تم ہی ایسے ہو اور تم ہی اس کے زیادہ حقدار ہو۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد منقطع، أبو خالد الوالبي روايته عن النعمان بن مقرن مرسلة
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حرب يعني ابن شداد ، حدثنا حصين ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن النعمان بن مقرن ، قال: قدمنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم في اربع مائة من مزينة، فامرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بامره، فقال بعض القوم: يا رسول الله، ما لنا طعام نتزوده! فقال النبي صلى الله عليه وسلم لعمر: " زودهم"، فقال: ما عندي إلا فاضلة من تمر، وما اراها تغني عنهم شيئا، فقال:" انطلق فزودهم"، فانطلق بنا إلى علية له، فإذا فيها تمر مثل البكر الاورق، فقال: خذوا، فاخذ القوم حاجتهم، قال: وكنت انا في آخر القوم، قال: فالتفت وما افقد موضع تمرة، وقد احتمل منه اربع مائة رجل .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حَرْبٌ يَعْنِي ابْنَ شَدَّادٍ ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ ، قَالَ: قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَرْبَعِ مِائَةٍ مِنْ مُزَيْنَةَ، فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَمْرِهِ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَنَا طَعَامٌ نَتَزَوَّدُهُ! فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ: " زَوِّدْهُمْ"، فَقَالَ: مَا عِنْدِي إِلَّا فَاضِلَةٌ مِنْ تَمْرٍ، وَمَا أُرَاهَا تُغْنِي عَنْهُمْ شَيْئًا، فَقَالَ:" انْطَلِقْ فَزَوِّدْهُمْ"، فَانْطَلَقَ بِنَا إِلَى عُلِّيَّةٍ لَهُ، فَإِذَا فِيهَا تَمْرٌ مِثْلُ الْبَكْرِ الْأَوْرَقِ، فَقَالَ: خُذُوا، فَأَخَذَ الْقَوْمُ حَاجَتَهُمْ، قَالَ: وَكُنْتُ أَنَا فِي آخِرِ الْقَوْمِ، قَالَ: فَالْتَفَتُّ وَمَا أَفْقِدُ مَوْضِعَ تَمْرَةٍ، وَقَدْ احْتَمَلَ مِنْهُ أَرْبَعُ مِائَةِ رَجُلٍ .
حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مزینہ کے ہم چار سو افراد حاضر ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جو احکام دینے تھے سو دے دیئے پھر کچھ لوگ کہنے لگے یا رسول اللہ! ہمارے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں ہے جو ہم زاد راہ کے طور پر استعمال کرسکیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ انہیں زاد راہ دے دو انہوں نے عرض کیا کہ میرے پاس تو بچی کچھی تھوڑی سی کھجوریں ہیں اور میرا خیال نہیں ہے کہ وہ انہیں کچھ بھی کفایت کرسکیں گی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم جا کر انہیں وہی دے دو چناچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہمیں لے کر اپنے ایک بالا خانے کی طرف چل پڑے جہاں خاکستری اونٹ کی طرح کچھ کھجوریں پڑی ہوئی تھیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اٹھا لو چناچہ سب لوگ اپنی اپنی ضرورت کے مطابق کھجوریں اٹھانے لگے میں سب سے آخر میں تھا میں نے دیکھا کہ اس میں سے ایک کھجور کی جگہ بھی خالی نہیں ہوئی تھی حالانکہ وہاں سے چار سو آدمیوں نے کھجوریں اٹھائی تھیں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد منقطع، سالم ابن أبى الجعد لم يدرك النعمان