شرجیل کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے بازار میں لٹورے کی طرح کا ایک پرندہ پکڑ لیا، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو اسے میرے ہاتھ سے لے کر چھوڑ دیا (اور وہ اڑ گیا) اور فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے دونوں کناروں کے درمیان کی جگہ کو حرام قرار دیا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شرحبيل بن سعد
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے " بیع عرایا " میں اس بات کی اجازت دی ہے کہ اسے اندازے سے ناپ کر بیچ دیا جائے۔
فائدہ۔ بیع عرایا کی وضاحت کے لئے حدیث نمبر (٤٤٩٠) ملاحظہ کیجئے۔
حدثنا الاسود بن عامر ، حدثنا شريك ، عن الركين ، عن القاسم بن حسان ، عن زيد بن ثابت ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني تارك فيكم خليفتين كتاب الله، حبل ممدود ما بين السماء والارض او ما بين السماء إلى الارض، وعترتي اهل بيتي، وإنهما لن يتفرقا حتى يردا علي الحوض" .حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنِ الرُّكَيْنِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ خَلِيفَتَيْنِ كِتَابُ اللَّهِ، حَبْلٌ مَمْدُودٌ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَوْ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ" .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں تم میں اپنے دو نائب چھوڑ کر جارہا ہوں، ایک تو کتاب اللہ ہے جو کہ آسمان و زمین کے درمیان لٹکی ہوئی رسی ہے اور دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں اور یہ دونوں چیزیں کبھی جدا نہیں ہونگی یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر آپہنچیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بشواهده دون وقوله: و إنهما لن يتفرقا حتى يردا على الحوض، وهذا إسناد ضعيف لسوء حفظ شريك
حدثنا ابو احمد ، حدثنا كثير بن زيد ، عن المطلب بن عبد الله ، قال: دخل زيد بن ثابت على معاوية، فحدثه حديثا، فامر إنسانا ان يكتب، فقال: زيد ، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى ان نكتب شيئا من حديثه، فمحاه" .حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: دَخَلَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَحَدَّثَهُ حَدِيثًا، فَأَمَرَ إِنْسَانًا أَنْ يَكْتُبَ، فَقَالَ: زَيْدٌ ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى أَنْ نَكْتُبَ شَيْئًا مِنْ حَدِيثِهِ، فَمَحَاهُ" .
ایک مرتبہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ملاقات کے لئے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو ان سے کوئی حدیث بیان کی، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ اسے لکھ لے لیکن حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کوئی حدیث بھی لکھنے سے منع فرمایا ہے چنانچہ انہوں نے اسے مٹا دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، المطلب بن عبدالله لم يسمع من زيد بن ثابت
حدثنا ابو احمد ، حدثنا كثير بن زيد ، عن المطلب بن عبد الله ، قال: تماروا في القراءة في الظهر والعصر، فارسلوا إلى خارجة بن زيد ، قال: ابي قام، او كان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يطيل القيام، ويحرك شفتيه، فقد اعلم ذلك لم يكن إلا لقراءة، فانا افعل" .حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: تَمَارَوْا فِي الْقِرَاءَةِ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، فَأَرْسَلُوا إِلَى خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ: أَبِي قَامَ، أَوْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُطِيلُ الْقِيَامَ، وَيُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ، فَقَدْ أَعْلَمُ ذَلِكَ لَمْ يَكُنْ إِلَّا لِقِرَاءَةٍ، فَأَنَا أَفْعَلُ" .
مطلب بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کچھ لوگوں کے درمیان نماز ظہر و عصر میں قرأت کے متعلق اختلاف رائے ہونے لگا تو انہوں نے خارجہ بن زید رحمہ اللہ کے پاس ایک آدمی کو یہ مسئلہ معلوم کرنے کے لئے بھیجا، انہوں نے اپنے والد کے حوالے سے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طویل قیام فرماتے تھے اور اپنے ہونٹوں کو حرکت دیتے رہتے تھے میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ ایسا قراءت ہی کی وجہ سے ہوسکتا ہے اس لئے میں بھی قراءت کرتا ہوں۔
حضرت زید بن ثابت سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے " بیع عرایا " میں اس بات کی اجازت دی ہے کہ اسے اندازے سے ناپ کر بیچ دیا جائے۔
فائدہ۔ بیع عرایا کی وضاحت کے لئے حدیث نمبر (٤٤٩٠) ملاحظہ کیجئے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2173، م: 1539، وهذا إسناد حسن
حدثنا عفان ، حدثنا وهيب ، حدثنا موسى بن عقبة ، قال: سمعت ابا النضر يحدث، عن بسر بن سعيد ، عن زيد بن ثابت ، ان النبي صلى الله عليه وسلم اتخذ حجرة في المسجد من حصير، فصلى فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم ليالي، حتى اجتمع إليه ناس، ثم فقدوا صوته، فظنوا انه قد نام، فجعل بعضهم يتنحنح ليخرج إليهم، فقال: " ما زال بكم الذي رايت من صنيعكم حتى خشيت ان يكتب عليكم، ولو كتب عليكم، ما قمتم به، فصلوا ايها الناس في بيوتكم، فإن افضل صلاة المرء في بيته إلا الصلاة المكتوبة" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا النَّضْرِ يُحَدِّثُ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّخَذَ حُجْرَةً فِي الْمَسْجِدِ مِنْ حَصِيرٍ، فَصَلَّى فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَالِيَ، حَتَّى اجْتَمَعَ إِلَيْهِ نَاسٌ، ثُمَّ فَقَدُوا صَوْتَهُ، فَظَنُّوا أَنَّهُ قَدْ نَامَ، فَجَعَلَ بَعْضُهُمْ يَتَنَحْنَحُ لِيَخْرُجَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: " مَا زَالَ بِكُمْ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ صَنِيعِكُمْ حَتَّى خَشِيتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمْ، وَلَوْ كُتِبَ عَلَيْكُمْ، مَا قُمْتُمْ بِهِ، فَصَلُّوا أَيُّهَا النَّاسُ فِي بُيُوتِكُمْ، فَإِنَّ أَفْضَلَ صَلَاةِ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ" .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں چٹائی سے ایک خیمہ بنایا اور اس میں کئی راتیں نماز پڑھتے رہے حتٰی کہ لوگ بھی جمع ہونے لگے کچھ دنوں کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز نہ آئی تو لوگوں کا خیال ہوا کہ شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوگئے اس لئے کچھ لوگ اس کے قریب جا کر کھانسنے لگے تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر آجائیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں مسلسل تمہارا یہ عمل دیکھ رہا تھا حتٰی کہ مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ کہیں تم پر یہ نماز (تہجد) فرض نہ ہوجائے، کیونکہ اگر یہ نماز تم پر فرض ہوگئی تو تم اس کی پابندی نہ کرسکو گے اس لئے لوگو! اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو کیونکہ فرض نمازوں کو چھوڑ کر دوسری نمازیں گھر میں پڑھنا انسان کے لئے سب سے افضل ہے۔
حضرت زید بن ثابت سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے " بیع عرایا " میں اس بات کی اجازت دی ہے کہ اسے اندازے سے ناپ کر بیچ دیا جائے۔
فائدہ۔ بیع عرایا کی وضاحت کے لئے حدیث نمبر (٤٤٩٠) ملاحظہ کیجئے۔
حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابيه ، ان النبي صلى الله عليه وسلم" نهى عن بيع الثمر بالتمر" فاخبرهم زيد بن ثابت ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" رخص في العرايا" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ بَيْعِ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ" فَأَخْبَرَهُمْ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" رَخَّصَ فِي الْعَرَايَا" .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے درختوں پر لگی ہوئی کھجور کو کٹی ہوئی کھجور کے عوض بیچنے سے منع فرمایا ہے تو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے " عرایا " میں اس کی اجازت دے دی ہے۔
حدثنا يحيى ، عن هشام ، حدثنا قتادة ، عن انس ، عن زيد بن ثابت ، قال: تسحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فخرجنا إلى المسجد، فاقيمت الصلاة، قلت: كم كان بينهما؟ قال: " قدر ما يقرا الرجل خمسين آية" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ هِشَامٍ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ: تَسَحَّرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجْنَا إِلَى الْمَسْجِدِ، فَأُقِيمَتْ الصَّلَاةُ، قُلْتُ: كَمْ كَانَ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: " قَدْرُ مَا يَقْرَأُ الرَّجُلُ خَمْسِينَ آيَةً" .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نے نبی کریم، صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سحری کھائی پھر ہم مسجد کی طرف نکلے تو نماز کھڑی ہوگئی، راوی نے پوچھا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا وقفہ تھا؟ انہوں نے بتایا کہ جتنی دیر میں آدمی پچاس آیتیں پڑھ لیتا ہے۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے " عمری " (وہ مکان جسے عمر بھر کے لئے کسی کے حوالے کردیا جائے) وارث کا حق قرار دیا ہے۔
حدثنا جرير ، عن الاعمش ، عن ثابت بن عبيد ، قال: قال زيد بن ثابت ، قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تحسن السريانية؟ إنها تاتيني كتب"، قال: قلت: لا، قال:" فتعلمها" فتعلمتها في سبعة عشر يوما .حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُبَيْدٍ ، قَالَ: قَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ ، قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تُحْسِنُ السُّرْيَانِيَّةَ؟ إِنَّهَا تَأْتِينِي كُتُبٌ"، قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ:" فَتَعَلَّمْهَا" فَتَعَلَّمْتُهَا فِي سَبْعَةَ عَشَرَ يَوْمًا .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کیا تم سریانی زبان اچھی طرح جانتے ہو، کیونکہ میرے پاس خطوط آتے ہیں؟ میں نے عرض کیا نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے سیکھ لو، چنانچہ میں نے اسے صرف سترہ دن میں سیکھ لیا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح إن كان ثابت بن عبيد سمع من مولاه زيد بن ثابت
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرماتے ہیں کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے، بخدا! واللہ ان سے زیادہ اس حدیث کو میں جانتا ہوں دراصل ایک مرتبہ دو آدمی لڑتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہاری حالت یہی ہونی ہے تو تم زمین کو کرائے پر نہ دیا کرو، جس میں سے رافع رضی اللہ عنہ نے صرف اتنی بات سن لی کہ زمین کو کرائے پر مت دیا کرو۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا سفيان ، حدثنا ابو سنان سعيد بن سنان ، حدثنا وهب بن خالد ، عن ابن الديلمي ، قال: لقيت ابي بن كعب، فقلت: يا ابا المنذر، إنه قد وقع في نفسي شيء من هذا القدر، فحدثني بشيء، لعله يذهب من قلبي، قال: " لو ان الله عذب اهل سماواته واهل ارضه، لعذبهم وهو غير ظالم لهم، ولو رحمهم، كانت رحمته لهم خيرا من اعمالهم، ولو انفقت جبل احد ذهبا في سبيل الله، ما قبله الله منك حتى تؤمن بالقدر، وتعلم ان ما اصابك لم يكن ليخطئك، وما اخطاك لم يكن ليصيبك، ولو مت على غير ذلك، لدخلت النار"، قال: فاتيت حذيفة، فقال لي: مثل ذلك، واتيت ابن مسعود، فقال لي: مثل ذلك واتيت زيد بن ثابت فحدثني، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثل ذلك .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو سِنَانٍ سَعِيدُ بْنُ سِنَانٍ ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ ، قَالَ: لَقِيتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا الْمُنْذِرِ، إِنَّهُ قَدْ وَقَعَ فِي نَفْسِي شَيْءٌ مِنْ هَذَا الْقَدَرِ، فَحَدِّثْنِي بِشَيْءٍ، لَعَلَّهُ يَذْهَبُ مِنْ قَلْبِي، قَالَ: " لَوْ أَنَّ اللَّهَ عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ وَأَهْلَ أَرْضِهِ، لَعَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ، وَلَوْ رَحِمَهُمْ، كَانَتْ رَحْمَتُهُ لَهُمْ خَيْرًا مِنْ أَعْمَالِهِمْ، وَلَوْ أَنْفَقْتَ جَبَلَ أُحُدٍ ذَهَبًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، مَا قَبِلَهُ اللَّهُ مِنْكَ حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، وَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَمَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، وَلَوْ مِتَّ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ، لَدَخَلْتَ النَّارَ"، قَالَ: فَأَتَيْتُ حُذَيْفَةَ، فَقَالَ لِي: مِثْلَ ذَلِكَ، وَأَتَيْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ، فَقَالَ لِي: مِثْلَ ذَلِكَ وَأَتَيْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَحَدَّثَنِي، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ .
ابن دیلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لئے گیا اور عرض کیا کہ اے ابوالمنذر؟ میرے دل میں تقدیر کے متعلق کچھ وسوسے پیدار ہو رہے ہیں آپ مجھے کوئی ایسی حدیث سنائیے جس کی برکت سے میرے دل سے یہ وسوسے دور ہوجائیں انہوں نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ تمام آسمان و زمین والوں کو عذاب میں مبتلا کردیں تو اللہ تعالیٰ پھر بھی ان پر ظلم کرنے والے نہیں ہوں گے اور اگر ان پر رحم کردیں تو یہ رحمت ان کے اعمال سے بڑھ کر ہوگی اور اگر تم اللہ کے راستہ میں احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردو گے تو اللہ تعالیٰ اسے اس وقت تک تمہاری طرف سے قبول نہیں فرمائے گا جب تک تم تقدیر پر کامل ایمان نہ لے آؤ اور یہ یقین نہ کرلو کہ تمہیں جو چیز پیش آئی ہے وہ تم سے چوک نہیں سکتی تھی اور جو چیز تم سے چوک گئی ہے وہ تم پر آ نہیں سکتی تھی، اگر تمہاری موت اس کے علاوہ کسی اور عقیدے پر ہوئی تو تم جہنم میں داخل ہوگے۔
پھر میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے بھی مجھے یہی جواب دیا۔
پھر میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے بھی مجھے یہ جواب دیا۔
پھر میں حضرت زید بن ثابت کے پاس آیا تو انہوں نے بھی مجھے یہ جواب دیا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کیا۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا شعبة ، حدثنا عمر بن سليمان ، من ولد عمر بن الخطاب رضي الله، عن عبد الرحمن بن ابان بن عثمان ، عن ابيه ، ان زيد بن ثابت خرج من عند مروان نحوا من نصف النهار، فقلنا: ما بعث إليه الساعة إلا لشيء ساله عنه، فقمت إليه فسالته، فقال: اجل، سالنا عن اشياء سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " نضر الله امرا سمع منا حديثا، فحفظه حتى يبلغه غيره، فإنه رب حامل فقه ليس بفقيه، ورب حامل فقه إلى من هو افقه منه، ثلاث خصال لا يغل عليهن قلب مسلم ابدا إخلاص العمل لله، ومناصحة ولاة الامر، ولزوم الجماعة، فإن دعوتهم تحيط من ورائهم"، وقال:" من كان همه الآخرة، جمع الله شمله، وجعل غناه في قلبه، واتته الدنيا وهي راغمة، ومن كانت نيته الدنيا، فرق الله عليه ضيعته، وجعل فقره بين عينيه، ولم ياته من الدنيا إلا ما كتب له"، وسالنا عن الصلاة الوسطى، وهي الظهر .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، مِنْ وَلَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ خَرَجَ مِنْ عِنْدِ مَرْوَانَ نَحْوًا مِنْ نِصْفِ النَّهَارِ، فَقُلْنَا: مَا بَعَثَ إِلَيْهِ السَّاعَةَ إِلَّا لِشَيْءٍ سَأَلَهُ عَنْهُ، فَقُمْتُ إِلَيْهِ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: أَجَلْ، سَأَلَنَا عَنْ أَشْيَاءَ سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا، فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ غَيْرَهُ، فَإِنَّهُ رُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيهٍ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، ثَلَاثُ خِصَالٍ لَا يَغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ مُسْلِمٍ أَبَدًا إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ، وَمُنَاصَحَةُ وُلَاةِ الْأَمْرِ، وَلُزُومُ الْجَمَاعَةِ، فَإِنَّ دَعْوَتَهُمْ تُحِيطُ مِنْ وَرَائِهِمْ"، وَقَالَ:" مَنْ كَانَ هَمُّهُ الْآخِرَةَ، جَمَعَ اللَّهُ شَمْلَهُ، وَجَعَلَ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ، وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا وَهِيَ رَاغِمَةٌ، وَمَنْ كَانَتْ نِيَّتُهُ الدُّنْيَا، فَرَّقَ اللَّهُ عَلَيْهِ ضَيْعَتَهُ، وَجَعَلَ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ، وَلَمْ يَأْتِهِ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا مَا كُتِبَ لَهُ"، وَسَأَلَنَا عَنِ الصَّلَاةِ الْوُسْطَى، وَهِيَ الظُّهْرُ .
ابان بن عثمان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نصف النہار کے وقت مروان کے پاس سے نکلے ہم آپس میں کہنے لگے کہ مروان نے اس وقت اگر انہیں بلایا ہے تو یقینا کچھ پوچھنے کے لئے ہی بلایا ہوگا، چنانچہ میں اٹھ کر ان کے پاس گیا اور ان سے یہی سوال پوچھا تو انہوں نے فرمایا ہاں! اس نے مجھ سے کچھ چیزوں کے متعلق پوچھا تھا جو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جو ہم سے کوئی حدیث سنے اسے یاد کرے اور آگے تک پہنچا دے کیونکہ بہت سے لوگ " جو فقہ کی بات اٹھائے ہوتے ہیں " خود فقیہ نہیں ہوتے، البتہ ایسے لوگوں تک بات پہنچا دیتے ہیں جو ان سے زیادہ فقیہہ اور سمجھدار ہوتے ہیں۔
اور فرمایا جس شخص کا غم ہی آخرت ہو اللہ اس کے متفرقات کو جمع کردیتا ہے اور اس کے دل کو غنی کردیتا ہے اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر خود ہی آجاتی ہے اور جس شخص کا مقصد ہی دنیا ہو اللہ اس کے معاملات کو متقرق کردیتا ہے اس کی تنگدستی کو اس کی آنکھوں کے سامنے ظاہر کردیتا ہے اور دنیا پھر بھی اسے اتنی ہی ملتی ہے جتنی اس کے مقدر میں لکھی گئی ہوتی ہے۔
اور ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صلوٰۃ وسطیٰ کے متعلق سوال کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے مراد نماز ظہر ہے۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورت نجم کی تلاوت کی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ نہیں کیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوسلیم کے ایک علاقے میں جس کا نام " ذی قرد " تھا، نماز خوف پڑھائی، لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے دو صفیں بنالیں ایک صف دشمن کے سامنے کھڑی رہی اور ایک صف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز کے لئے کھڑی ہوگئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو ایک رکعت پڑھائی، پھر یہ لوگ دشمن کے سامنے ڈٹے ہوئے لوگوں کی جگہ الٹے پاؤں چلے گئے اور وہ لوگ ان کی جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آکر کھڑے ہوگئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوسری رکعت پڑھائی۔
حدثنا وكيع حدثنا سفيان عن الركين الفزاري عن القاسم بن حسان عن زيد بن ثابت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى صلاة الخوف فذكر مثل حديث ابن عباسحَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنِ الرُّكَيْنِ الْفَزَارِيِّ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى صَلَاةَ الْخَوْفِ فَذَكَرَ مِثْلَ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے میں تھے باہر آکر وہ اپنے حجرے میں نماز پڑھتے تھے لوگوں کو پتہ چل گیا تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں شریک ہونے لگے۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، حدثني عمرو بن ابي حكيم ، قال: سمعت الزبرقان يحدث، عن عروة بن الزبير ، عن زيد بن ثابت ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يصلي الظهر بالهاجرة، ولم يكن يصلي صلاة اشد على اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم منها، قال: فنزلت حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى سورة البقرة آية 238، وقال: إن قبلها صلاتين، وبعدها صلاتين" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ أَبِي حَكِيمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ الزِّبْرِقَانَ يُحَدِّثُ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي الظُّهْرَ بِالْهَاجِرَةِ، وَلَمْ يَكُنْ يُصَلِّي صَلَاةً أَشَدَّ عَلَى أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا، قَالَ: فَنَزَلَتْ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى سورة البقرة آية 238، وَقَالَ: إِنَّ قَبْلَهَا صَلَاتَيْنِ، وَبَعْدَهَا صَلَاتَيْنِ" .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز دوپہر کی گرمی میں پڑھتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے اس سے زیادہ سخت نماز کوئی نہ تھی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی " تمام نمازوں کی اور خصوصیت کے ساتھ درمیانی نماز کی پابندی کیا کرو " اور فرمایا اس سے پہلے بھی دو نمازیں ہیں اور اس کے بعد بھی دو نمازیں ہیں۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن قتادة ، عن يونس بن جبير ، عن كثير بن الصلت ، قال: كان ابن العاص، وزيد بن ثابت يكتبان المصاحف، فمروا على هذه الآية، فقال زيد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " الشيخ والشيخة إذا زنيا فارجموهما البتة"، فقال عمر: لما انزلت هذه اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: اكتبنيها، قال شعبة فكانه كره ذلك، فقال عمر الا ترى ان الشيخ إذا لم يحصن جلد، وان الشاب إذا زنى وقد احصن رجم .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ الصَّلْتِ ، قَالَ: كَانَ ابْنُ الْعَاصِ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ يَكْتُبَانِ الْمَصَاحِفَ، فَمَرُّوا عَلَى هَذِهِ الْآيَةِ، فَقَالَ زَيْدٌ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ إِذَا زَنَيَا فَارْجُمُوهُمَا الْبَتَّةَ"، فَقَالَ عُمَرُ: لَمَّا أُنْزِلَتْ هَذِهِ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: أَكْتِبْنِيهَا، قَالَ شُعْبَةُ فَكَأَنَّهُ كَرِهَ ذَلِكَ، فَقَالَ عُمَرُ أَلَا تَرَى أَنَّ الشَّيْخَ إِذَا لَمْ يُحْصَنْ جُلِدَ، وَأَنَّ الشَّابَّ إِذَا زَنَى وَقَدْ أُحْصِنَ رُجِمَ .
حضرت ابن عاص رضی اللہ عنہ اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ مصاحف قرآنی لکھنے پر مامور تھے لکھتے لکھتے جب وہ اس آیت پر پہنچے تو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا ہے کہ " جب کوئی شادی شدہ مرد و عورت بدکاری کریں تو بہرحال انہیں رجم کرو۔ " حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تھی تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اور عرض کیا تھا کہ مجھے یہ آیت لکھوا دیجئے (تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مناسب نہ سمجھا) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مزید فرمایا کہ اس آیت کے الفاظ میں " شیخ " کا لفظ دیکھو، اگر کوئی شیخ (معمر آدمی) شادی شدہ نہ ہو تو اسے کوڑے مارے جاتے ہیں اور کوئی نوجوان اگر شادی شدہ ہو کر بدکاری کرے تو اسے رجم کیا جاتا ہے۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک بھیڑیا کسی بکری کو لے کر بھاگ گیا جسے لوگوں نے چھڑا لیا اور اسے تیز دھار پتھر سے ذبح کرلیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھانے کی اجازت دے دی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، حاضر بن المهاجر مجهول
حدثنا بهز ، حدثنا شعبة ، قال: عدي بن ثابت اخبرني، عن عبد الله بن يزيد ، عن زيد بن ثابت ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى احد، فرجع اناس خرجوا معه، فكان اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فرقتين فرقة تقول: بقتلتهم، وفرقة تقول: لا، فانزل الله عز وجل فما لكم في المنافقين فئتين سورة النساء آية 88 فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنها طيبة، وإنها تنفي الخبث كما تنفي النار خبث الفضة" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ أَخْبَرَنِي، عَنْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى أُحُدٍ، فَرَجَعَ أُنَاسٌ خَرَجُوا مَعَهُ، فَكَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِرْقَتَيْنِ فِرْقَةٌ تَقُولُ: بِقِتْلَتِهِمْ، وَفِرْقَةٌ تَقُولُ: لَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ سورة النساء آية 88 فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّهَا طَيْبَةُ، وَإِنَّهَا تَنْفِي الْخَبَثَ كَمَا تَنْفِي النَّارُ خَبَثَ الْفِضَّةِ" .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد کے لئے روانہ ہوئے تو لشکر کے کچھ لوگ راستے ہی سے واپس آگئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے بارے میں دو گروہ ہوگئے، ایک گروہ کی رائے یہ تھی کہ انہیں قتل کردیا جائے اور گروہ ثانی کہتا تھا نہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ " تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ ہوگئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ طیبہ ہے یہ گندگی کو اسی طرح دور کردیتا ہے جیسے آگ چاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔
حدثنا عثمان بن عمر ، اخبرنا هشام ، عن محمد ، عن كثير بن افلح ، عن زيد بن ثابت ، قال: " امرنا ان نسبح دبر كل صلاة ثلاثا وثلاثين، ونحمد ثلاثا وثلاثين، ونكبر اربعا وثلاثين"، فاتي رجل في المنام من الانصار، فقيل له: امركم رسول الله صلى الله عليه وسلم ان تسبحوا في دبر كل صلاة كذا وكذا؟ قال الانصاري في منامه نعم، قال: فاجعلوها خمسا وعشرين خمسا وعشرين، واجعلوا فيها التهليل، فلما اصبح، غدا على النبي صلى الله عليه وسلم فاخبره، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فافعلوا" .حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ: " أُمِرْنَا أَنْ نُسَبِّحَ دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَنَحْمَدَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَنُكَبِّرَ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ"، فَأُتِيَ رَجُلٌ فِي الْمَنَامِ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقِيلَ لَهُ: أَمَرَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُسَبِّحُوا فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ كَذَا وَكَذَا؟ قَالَ الْأَنْصَارِيُّ فِي مَنَامِهِ نَعَمْ، قَالَ: فَاجْعَلُوهَا خَمْسًا وَعِشْرِينَ خَمْسًا وَعِشْرِينَ، وَاجْعَلُوا فِيهَا التَّهْلِيلَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ، غَدَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَافْعَلُوا" .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہر فرض نماز کے بعد ٣٣ مرتبہ سبحان اللہ ٣٣ مرتبہ الحمدللہ اور ٣٤ مرتبہ اللہ اکبر کہہ لیا کریں پھر ایک انصاری نے ایک خواب دیکھا جس میں کسی نے اس سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نماز کے بعد تمہیں اس طرح تسبیحات پڑھنے کا حکم دیا ہے؟ اس نے کہا جی ہاں! اس نے کہا کہ انہیں ٢٥، ٢٥ مرتبہ پڑھا کرو اور ان میں ٢٥ مرتبہ لا الہ الا اللہ کا اضافہ کرلو جب صبح ہوئی تو اس نے اپنا یہ خواب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی طرح کیا کرو۔
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن قبيصة بن ذؤيب ، عن زيد بن ثابت ، قال: كنت اكتب لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " اكتب" لا يستوي القاعدون والمجاهدون في سبيل الله"" فجاء عبد الله ابن ام مكتوم، فقال: يا رسول الله، إني احب الجهاد في سبيل الله، ولكن بي من الزمانة، وقد ترى وذهب بصري، قال زيد: فثقلت فخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم على فخذي، حتى خشيت ان ترضها، فقال:" اكتب لا يستوي القاعدون من المؤمنين غير اولي الضرر والمجاهدون في سبيل الله سورة النساء آية 95" ..حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ: كُنْتُ أَكْتُبُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " اكْتُبْ" لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ"" فَجَاءَ عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أُحِبُّ الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَلَكِنْ بِي مِنَ الزَّمَانَةِ، وَقَدْ تَرَى وَذَهَبَ بَصَرِي، قَالَ زَيْدٌ: فَثَقُلَتْ فَخِذُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَخِذِي، حَتَّى خَشِيتُ أَنْ تَرُضَّهَا، فَقَالَ:" اكْتُبْ لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ سورة النساء آية 95" ..
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وحی لکھا کرتا تھا (ایک دن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا کہ وحی نازل ہونے لگی اور سکینہ چھانے لگا اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران میری ران پر تھی، بخدا! میں نے اس سے زیادہ بھاری کوئی چیز محسوس نہیں کی پھر جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھ سے) فرمایا زید! لکھو (میں نے شانے کی ایک ہڈی پکڑی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ آیت لکھو) مسلمانوں میں سے جہاد کے انتظار میں بیٹھنے والے اور اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے برابر نہیں ہوسکتے، (میں نے اسے لکھ لیا) حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے یہ آیت سنی تو چلے آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! میں اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے کو پسند کرتا ہوں لیکن میرا اپاہج پن آپ کے سامنے ہے اور میری بینائی بھی چلی گئی ہے (یا رسول اللہ! وہ آدمی جو جہاد میں شریک نہیں ہوسکتا مثلاً نابینا وغیرہ تو وہ کیا کرے؟ (بخدا! ابھی ان کی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دوبارہ سکینہ چھانے لگا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران میری ران پر آگئی) اور اس کا بوجھ مجھ پر اتنا پڑا کہ مجھے اس کے ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہوگیا (حتٰی کہ یہ کیفیت ختم ہوگئی) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لکھو "" مسلمانوں میں جہاد کے انتظار میں بیٹھنے والے لوگ "" جو معذورومجبور نہ ہوں "" اور اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے برابر نہیں ہو سکتے۔
حدثنا محمد بن بشر ، حدثنا محمد بن عمرو ، حدثني موسى بن عقبة ، عن بسر بن سعيد ، عن زيد بن ثابت ، قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة، فسمع اهل المسجد صلاته، قال: فكثر الناس الليلة الثانية فخفي عليهم صوت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجعلوا يستانسون ويتنحنحون، قال: فاطلع عليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " ما زلتم بالذي تصنعون حتى خشيت ان يكتب عليكم، ولو كتبت عليكم ما قمتم بها، وإن افضل صلاة المرء في بيته، إلا صلاة المكتوبة" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً، فَسَمِعَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ صَلَاتَهُ، قَالَ: فَكَثُرَ النَّاسُ اللَّيْلَةَ الثَّانِيَةَ فَخَفِيَ عَلَيْهِمْ صَوْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلُوا يَسْتَأْنِسُونَ وَيَتَنَحْنَحُونَ، قَالَ: فَاطَّلَعَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " مَا زِلْتُمْ بِالَّذِي تَصْنَعُونَ حَتَّى خَشِيتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمْ، وَلَوْ كُتِبَتْ عَلَيْكُمْ مَا قُمْتُمْ بِهَا، وَإِنَّ أَفْضَلَ صَلَاةِ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ، إِلَّا صَلَاةَ الْمَكْتُوبَةِ" .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں چٹائی سے ایک خیمہ بنایا اور اس میں کئی راتیں نماز پڑھتے رہے حتٰی کہ لوگ بھی جمع ہونے لگے کچھ دنوں کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز نہیں آئی تو لوگوں کا خیال ہوا کہ شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوگئے اس لئے کچھ لوگ اس کے قریب جا کر کھانسنے لگے تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر آجائیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں مسلسل تمہارا یہ عمل دیکھ رہا تھا حتٰی کہ مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ کہیں تم پر یہ نماز (تہجد) فرض نہ ہوجائے، کیونکہ اگر یہ نماز تم پر فرض ہوگئی تو تم اس کی پابندی نہ کرسکو گے اس لئے لوگو! اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو کیونکہ فرض نمازوں کو چھوڑ کر دوسری نمازیں گھر میں پڑھنا انسان کے لئے سب سے افضل ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 731، م: 781، وهذا إسناد ضعيف الجهالة عقبة بن عبدالرحمن
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہودیوں پر اللہ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عقبة بن عبدالرحمن
حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا يزيد بن ابي حبيب ، عن ابن شماسة ، عن زيد بن ثابت ، قال: بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما حين، قال: " طوبى للشام، طوبى للشام"، قلت: ما بال الشام؟ قال:" الملائكة باسطو اجنحتها على الشام" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنِ ابْنِ شِمَاسَةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا حِينَ، قَالَ: " طُوبَى لِلشَّامِ، طُوبَى لِلشَّامِ"، قُلْتُ: مَا بَالُ الشَّامِ؟ قَالَ:" الْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَجْنِحَتِهَا عَلَى الشَّامِ" .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ ملک شام کے لئے خوشخبری ہے میں نے پوچھا کہ شام کی کیا خصوصیت ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ملک شام پر فرشتے اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ ملک شام کے لئے خوشخبری ہے میں نے پوچھا کہ شام کی کیا خصوصیت ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ملک شام پر فرشتے اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں سینگی لگوائی ہے راوی نے پوچھا کہ اپنے گھر کی مسجد مراد ہے؟ تو ابن لہیعہ نے بتایا کہ نہیں، اصل مسجد نبوی مراد ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح لكن بلفظ "احتجر"، وهذا إسناد ضعيف لسوء حفظ ابن لهيعة
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ یا حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ مروان سے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں کہ تم نے مغرب کی نماز بہت ہی مختصر پڑھائی ہے، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز مغرب میں سورت اعراف کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے۔
حدثنا سليمان بن داود ، حدثنا عمران ، عن قتادة ، عن انس بن مالك ، عن زيد بن ثابت ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اطلع قبل اليمن، فقال: " اللهم اقبل بقلوبهم" واطلع من قبل كذا، فقال:" اللهم اقبل بقلوبهم، وبارك لنا في صاعنا ومدنا" .حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اطَّلَعَ قِبَلَ الْيَمَنِ، فَقَالَ: " اللَّهُمَّ أَقْبِلْ بِقُلُوبِهِمْ" وَاطَّلَعَ مِنْ قِبَلِ كَذَا، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ أَقْبِلْ بِقُلُوبِهِمْ، وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَمُدِّنَا" .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کا رخ کر کے فرمایا اے اللہ! ان کے دلوں کو متوجہ فرما، پھر ایک اور جانب رخ کر کے فرمایا اے اللہ! ان کے دلوں کو متوجہ فرما اور ہمارے صاع میں اور مد میں برکت عطاء فرما۔
حدثنا إسحاق بن سليمان ، قال: سمعت ابا سنان يحدث، عن وهب بن خالد الحمصي ، عن ابن الديلمي ، قال: وقع في نفسي شيء من القدر، فاتيت زيد بن ثابت فسالته، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لو ان الله عذب اهل سماواته واهل ارضه، لعذبهم غير ظالم لهم، ولو رحمهم، كانت رحمته لهم خيرا من اعمالهم، ولو كان لك جبل احد او مثل جبل احد ذهبا، انفقته في سبيل الله، ما قبله الله منك حتى تؤمن بالقدر، وتعلم ان ما اصابك لم يكن ليخطئك، وان ما اخطاك لم يكن ليصيبك، وانك إن مت على غير هذا، دخلت النار" .حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سِنَانٍ يُحَدِّثُ، عَنْ وَهْبِ بْنِ خَالِدٍ الْحِمْصِيِّ ، عَنِ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ ، قَالَ: وَقَعَ فِي نَفْسِي شَيْءٌ مِنَ الْقَدَرِ، فَأَتَيْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَوْ أَنَّ اللَّهَ عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ وَأَهْلَ أَرْضِهِ، لَعَذَّبَهُمْ غَيْرَ ظَالِمٍ لَهُمْ، وَلَوْ رَحِمَهُمْ، كَانَتْ رَحْمَتُهُ لَهُمْ خَيْرًا مِنْ أَعْمَالِهِمْ، وَلَوْ كَانَ لَكَ جَبَلُ أُحُدٍ أَوْ مِثْلُ جَبَلِ أُحُدٍ ذَهَبًا، أَنْفَقْتَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، مَا قَبِلَهُ اللَّهُ مِنْكَ حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، وَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَأَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، وَأَنَّكَ إِنْ مِتَّ عَلَى غَيْرِ هَذَا، دَخَلْتَ النَّارَ" .
ابن دیلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لئے گیا اور عرض کیا کہ اے ابوالمنذر؟ میرے دل میں تقدیر کے متعلق کچھ وسوسے پیدار ہے ہیں آپ مجھے کوئی ایسی حدیث سنائیے جس کی برکت سے میرے دل سے یہ وسوسے دور ہوجائیں انہوں نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ تمام آسمان و زمین والوں کو عذاب میں مبتلا کردیں تو اللہ تعالیٰ پھر بھی ان پر ظلم کرنے والے نہیں ہوں گے اور اگر ان پر رحم کردیں تو یہ رحمت ان کے اعمال سے بڑھ کر ہوگی اور اگر تم اللہ کے راستہ میں احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردو گے تو اللہ تعالیٰ اسے اس وقت تک تمہاری طرف سے قبول نہیں فرمائے گا جب تک تم تقدیر پر کامل ایمان نہ لے آؤ اور یہ یقین نہ کرلو کہ تمہیں جو چیز پیش آئی ہے وہ تم سے چوک نہیں سکتی تھی اور جو چیز تم سے چوک گئی ہے وہ تم پر آ نہیں سکتی تھی، اگر تمہاری موت اس کے علاوہ کسی اور عقیدے پر ہوئی تو تم جہنم میں داخل ہوگے۔
حدثنا حسن بن موسى ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا عبد الله بن هبيرة ، قال: سمعت قبيصة بن ذؤيب ، يقول: إن عائشة اخبرت آل الزبير، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى عندها ركعتين بعد العصر، فكانوا يصلونها، قال قبيصة: فقال زيد بن ثابت يغفر الله لعائشة، نحن اعلم برسول الله صلى الله عليه وسلم من عائشة، إنما كان ذلك لان اناسا من الاعراب اتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم بهجير، فقعدوا يسالونه ويفتيهم، حتى صلى الظهر ولم يصل ركعتين، ثم قعد يفتيهم حتى صلى العصر فانصرف إلى بيته، فذكر انه لم يصل بعد الظهر شيئا، فصلاهما بعد العصر، يغفر الله لعائشة، نحن اعلم برسول الله صلى الله عليه وسلم من عائشة" نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الصلاة بعد العصر" ، حدثنا يحيى بن إسحاق ، حدثنا ابن لهيعة ، عن عبد الله بن هبيرة ، عن قبيصة بن ذؤيب ، عن عائشة انها اخبرت آل الزبير، فذكر معناه.حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هُبَيْرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَبِيصَةَ بْنَ ذُؤَيْبٍ ، يَقُولُ: إِنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْ آلَ الزُّبَيْرِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عِنْدَهَا رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَكَانُوا يُصَلُّونَهَا، قَالَ قَبِيصَةُ: فَقَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ يَغْفِرُ اللَّهُ لِعَائِشَةَ، نَحْنُ أَعْلَمُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عَائِشَةَ، إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ لِأَنَّ أُنَاسًا مِنَ الْأَعْرَابِ أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَجِيرٍ، فَقَعَدُوا يَسْأَلُونَهُ وَيُفْتِيهِمْ، حَتَّى صَلَّى الظُّهْرَ وَلَمْ يُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَعَدَ يُفْتِيهِمْ حَتَّى صَلَّى الْعَصْرَ فَانْصَرَفَ إِلَى بَيْتِهِ، فَذَكَرَ أَنَّهُ لَمْ يُصَلِّ بَعْدَ الظُّهْرِ شَيْئًا، فَصَلَّاهُمَا بَعْدَ الْعَصْرِ، يَغْفِرُ اللَّهُ لِعَائِشَةَ، نَحْنُ أَعْلَمُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عَائِشَةَ" نَهَي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ" ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هُبَيْرَةَ ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْ آلَ الزُّبَيْرِ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ.
قبیصہ بن ذؤیب کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آل زبیر کو بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے یہاں عصر کی نماز کے بعد دو رکعتیں (نفل کے طور پر) پڑھی ہیں، چنانچہ وہ لوگ بھی یہ دو رکعتیں پڑھنے لگے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو وہ فرمانے لگے کہ اللہ تعالیٰ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بخشش فرمائے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم لوگ زیادہ جانتے ہیں دراصل بات یہ ہے کہ ایک مرتبہ کچھ دیہاتی لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دوپہر کے وقت آئے اور سوالات کرنے بیٹھ گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جوابات دیتے رہے پھر ظہر کی نماز پڑھی اور بعد کی دو سنتیں نہیں پڑھیں اور انہیں مسائل بتانے لگے یہاں تک کہ نماز عصر کا وقت ہوگیا نماز پڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر چلے گئے اس وقت یاد آیا کہ انہوں نے تو ابھی تک ظہر کے بعد کی سنتیں نہیں پڑھیں چنانچہ وہ دو رکعتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد پڑھی تھیں اللہ تعالیٰ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مغفرت فرمائے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم لوگ زیادہ جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر کے بعد نوافل سے منع فرمایا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لسوء حفظ ابن لهيعة
حدثنا يحيى بن إسحاق حدثنا ابن لهيعة عن عبد الله بن هبيرة عن قبيصة بن ذؤيب عن عائشة انها اخبرت آل الزبير فذكر معناهحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هُبَيْرَةَ عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْ آلَ الزُّبَيْرِ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لسوء حفظ ابن لهيعة
حدثنا عفان ، حدثنا همام ، اخبرنا قتادة ، عن انس ، عن زيد بن ثابت ، انه تسحر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: ثم خرجنا إلى الصلاة، قال: قلت لزيد: كم بين ذلك؟ قال:" قدر قراءة خمسين آية" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، أَخْبَرَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، أَنَّهُ تَسَحَّرَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْنَا إِلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: قُلْتُ لِزَيْدٍ: كَمْ بَيْنَ ذَلِكَ؟ قَالَ:" قَدْرُ قِرَاءَةِ خَمْسِينَ آيَةً" .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سحری کھائی پھر ہم مسجد کی طرف نکلے تو نماز کھڑی ہوگئی راوی نے پوچھا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا وقفہ تھا؟ انہوں نے بتایا کہ جتنی دیر میں آدمی پچاس آیتیں پڑھ لیتا ہے۔
حدثنا عفان ، حدثنا وهيب ، حدثنا داود ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد الخدري ، قال: ذلما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم قام خطباء الانصار، فجعل منهم من يقول: يا معشر المهاجرين، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا استعمل رجلا منكم قرن معه رجلا منا ، فنرى ان يلي هذا الامر رجلان احدهما منكم، والآخر منا، قال: فتتابعت خطباء الانصار على ذلك، قال: فقام زيد بن ثابت ، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان من المهاجرين، وإنما الإمام يكون من المهاجرين، ونحن انصاره كما كنا انصار رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقام ابو بكر، فقال:" جزاكم الله خيرا من حي يا معشر الانصار، وثبت قائلكم، ثم قال: والله لو فعلتم غير ذلك لما صالحناكم".حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: ذلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ خُطَبَاءُ الْأَنْصَارِ، فَجَعَلَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ: يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اسْتَعْمَلَ رَجُلًا مِنْكُمْ قَرَنَ مَعَهُ رَجُلًا مِنَّا ، فَنَرَى أَنْ يَلِيَ هَذَا الْأَمْرَ رَجُلَانِ أَحَدُهُمَا مِنْكُمْ، وَالْآخَرُ مِنَّا، قَالَ: فَتَتَابَعَتْ خُطَبَاءُ الْأَنْصَارِ عَلَى ذَلِكَ، قَالَ: فَقَامَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، وَإِنَّمَا الْإِمَامُ يَكُونُ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، وَنَحْنُ أَنْصَارُهُ كَمَا كُنَّا أَنْصَارَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ:" جَزَاكُمْ اللَّهُ خَيْرًا مِنْ حَيٍّ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، وَثَبَّتَ قَائِلَكُمْ، ثُمَّ قَالَ: وَاللَّهِ لَوْ فَعَلْتُمْ غَيْرَ ذَلِكَ لَمَا صَالَحْنَاكُمْ".
حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا تو انصار کے خطباء کھڑے ہوگئے ان میں سے کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ اے گروہ مہاجرین! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تم میں سے کسی کو کسی کام یا عہدے پر مقرر فرماتے تھے تو ہم میں سے ایک آدمی کو بھی ساتھ ملاتے تھے اس لئے ہماری رائے یہ ہے کہ اس حکومت کے سربراہ بھی دو ہوں، ایک تم میں سے ہو اور ایک ہم میں سے ہو اور خطباء انصار مسلسل اسی بات کو دہرانے لگے۔
اس پر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین میں سے تھے لہٰذا حکمران بھی مہاجرین میں سے ہوگا، ہم اس کے معاون ہوں گے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاون تھے تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا اے گروہ انصار! اس قبیلے کی طرف سے اللہ تمہیں جزائے خیر عطاء فرمائے اور تمہارے اس کہنے والے کو ثابت قدم رکھے پھر فرمایا بخدا! اگر تم اس کے علاوہ کوئی اور راہ اختیار کرتے تو ہم تم سے متفق نہ ہوتے۔
حدثنا سليمان بن داود ، حدثنا عبد الرحمن بن ابي الزناد ، عن خارجة بن زيد ، ان اباه زيدا اخبره، انه لما قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة، قال زيد: ذهب بي إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاعجب بي، فقالوا: يا رسول الله، هذا غلام من بني النجار، معه مما انزل الله عليك بضع عشرة سورة، فاعجب ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، وقال: " يا زيد، تعلم لي كتاب يهود، فإني والله ما آمن يهود على كتابي" قال زيد: فتعلمت كتابهم، ما مرت بي خمس عشرة ليلة حتى حذقته وكنت اقرا له كتبهم إذا كتبوا إليه، واجيب عنه إذا كتب" ..حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ ، أَنَّ أَبَاهُ زَيْدًا أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، قَالَ زَيْدٌ: ذُهِبَ بِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُعْجِبَ بِي، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا غُلَامٌ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ، مَعَهُ مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ بِضْعَ عَشْرَةَ سُورَةً، فَأَعْجَبَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: " يَا زَيْدُ، تَعَلَّمْ لِي كِتَابَ يَهُودَ، فَإِنِّي وَاللَّهِ مَا آمَنُ يَهُودَ عَلَى كِتَابِي" قَالَ زَيْدٌ: فَتَعَلَّمْتُ كِتَابَهُمْ، مَا مَرَّتْ بِي خَمْسَ عَشْرَةَ لَيْلَةً حَتَّى حَذَقْتُهُ وَكُنْتُ أَقْرَأُ لَهُ كُتُبَهُمْ إِذَا كَتَبُوا إِلَيْهِ، وَأُجِيبُ عَنْهُ إِذَا كَتَبَ" ..
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ کر خوش ہوئے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! بنو نجار کے اس لڑکے کو آپ پر نازل ہونے والی قرآن کی کئی سورتیں یاد ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تعجب ہوا اور فرمایا زید! یہودیوں کا طرز تحریر سیکھ لو، کیونکہ اپنے خطوط کے حوالے سے واللہ مجھے یہودیوں پر اعتماد نہیں ہے چنانچہ میں نے ان کی لکھائی سیکھنا شروع کردی اور ابھی پندرہ دن بھی نہیں گذرنے پائے تھے کہ میں اس میں مہارت حاصل کرچکا تھا اور میں ہی ان کے خطوط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ کر سناتا تھا اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیتے تھے تو میں ہی اسے لکھا کرتا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن، خ: 7195 تعليقا بصيغة الجزم
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سحری کھائی، پھر ہم مسجد کی طرف نکلے تو نماز کھڑی ہوگئی، راوی نے پوچھا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا وقفہ تھا؟ انہوں نے بتایا کہ جتنی دیر میں آدمی پچاس آیتیں پڑھ لیتا ہے۔
حدثنا وكيع ، حدثنا الدستوائي ، عن قتادة ، عن انس ، عن زيد بن ثابت ، قال: تسحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فخرجنا إلى المسجد، فاقيمت الصلاة، قلت: كم كان بينهما؟ قال:" قدر ما يقرا الرجل خمسين آية" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الدَّسْتَوَائِيُّ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ: تَسَحَّرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجْنَا إِلَى الْمَسْجِدِ، فَأُقِيمَتْ الصَّلَاةُ، قُلْتُ: كَمْ كَانَ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ:" قَدْرُ مَا يَقْرَأُ الرَّجُلُ خَمْسِينَ آيَةً" .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سحری کھائی، پھر ہم مسجد کی طرف نکلے تو نماز کھڑی ہوگئی، راوی نے پوچھا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا وقفہ تھا؟ انہوں نے بتایا کہ جتنی دیر میں آدمی پچاس آیتیں پڑھ لیتا ہے۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے کسی نے ظہر اور عصر کی نماز میں قرأت کے متعلق سوال پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان میں قیام لمبا فرماتے تھے اور اپنے ہونٹوں کو حرکت دیتے تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد منقطع، المطلب بن عبدالله لم يسمعه من زيد بن ثابت
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورت نجم کی تلاوت کی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ نہیں کیا۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فرض نمازوں کو چھوڑ کر دوسری نمازیں گھر میں پڑھنا انسان کے لئے سب سے افضل ہے۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہودیوں پر اللہ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عقبة بن عبدالرحمن
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے " عمری " (وہ مکان جسے عمر بھر کے لئے کسی کے حوالے کردیا جائے) وارث کا حق قرار دیا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد صحيح، الرجل المبهم هو حجر المدري، فهو ثقة
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے " بیع عرایا " میں اس بات کی اجازت دی ہے کہ اسے اندازے سے ناپ کر بیچ دیا جائے۔
فائدہ۔ بیع عرایا کی وضاحت کے لئے حدیث نمبر (٤٤٩٠) ملاحظہ کیجئے۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے، بخدا! ان سے زیادہ اس حدیث کو میں جانتا ہوں دراصل ایک مرتبہ دو آدمی لڑتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہاری حالت یہی ہونی ہے تو تم زمین کو کرائے پر نہ دیا کرو جس میں سے رافع رضی اللہ عنہ نے صرف اتنی بات سن لی کہ زمین کو کرائے پر مت دیا کرو۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن ابي البختري الطائي ، عن ابي سعيد الخدري ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال: لما نزلت هذه الآية إذا جاء نصر الله والفتح سورة النصر آية 1، قال: قراها رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى ختمها، وقال: " الناس حيز، وانا واصحابي حيز"، وقال:" لا هجرة بعد الفتح، ولكن جهاد ونية" ، فقال له مروان كذبت، وعنده رافع بن خديج ، وزيد بن ثابت ، وهما قاعدان معه على السرير، فقال ابو سعيد الخدري: لو شاء هذان لحدثاك، فرفع عليه مروان الدرة ليضربه، فلما رايا ذلك قالا: صدق.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ الطَّائِيِّ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ سورة النصر آية 1، قَالَ: قَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى خَتَمَهَا، وَقَالَ: " النَّاسُ حَيِّزٌ، وَأَنَا وَأَصْحَابِي حَيِّزٌ"، وَقَالَ:" لَا هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ، وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ" ، فَقَالَ لَهُ مَرْوَانُ كَذَبْتَ، وَعِنْدَهُ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ ، وَهُمَا قَاعِدَانِ مَعَهُ عَلَى السَّرِيرِ، فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ: لَوْ شَاءَ هَذَانِ لَحَدَّثَاكَ، فَرَفَعَ عَلَيْهِ مَرْوَانُ الدِّرَّةَ لِيَضْرِبَهُ، فَلَمَّا رَأَيَا ذَلِكَ قَالَا: صَدَقَ.
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سورت نصر نازل ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مکمل سنائی اور فرمایا تمام لوگ ایک طرف ہیں اور میں اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہ ایک پلڑے میں ہیں اور فرمایا کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت فرض نہیں رہی البتہ جہاد اور نیت کا ثواب باقی ہے یہ حدیث سن کر مروان نے ان کی تکذیب کی اس وقت وہاں حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے جو مروان کے ساتھ اس کے تخت پر بیٹھے ہوئے تھے، حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ اگر یہ دونوں چاہیں تو تم سے یہ حدیث بیان کرسکتے ہیں لیکن ان میں سے ایک کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ تم ان سے ان کی قوم کی چوہدارہٹ چھین لو گے اور دوسرے کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ تم ان سے صدقات روک لو گے اس پر وہ دونوں حضرات خاموش رہے اور مروان نے حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کو مارنے کے لئے کوڑا اٹھا لیا یہ دیکھ کر ان دونوں حضرات نے فرمایا یہ سچ کہہ رہے ہیں۔
فائدہ۔ اس روایت کی صحت پر راقم الحروف کو شرح صدر نہیں ہو پارہا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: الناس حيز وأنا وأصحابي حيز، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، أبو البختري لم يسمع من أبى سعيد
حدثنا بهز ، حدثنا شعبة ، قال عدي بن ثابت : اخبرني، عن عبد الله بن يزيد ، عن زيد بن ثابت ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى احد فرجع اناس خرجوا معه، فكان اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فيهم فرقتان، فرقة تقول بقتلهم، وفرقة تقول لا، وقال ابن جعفر: فكان الناس فيهم فرقتين، فريقا يقولون: بقتلهم، وفريقا يقولون: لا، قال بهز: فانزل الله عز وجل فما لكم في المنافقين فئتين سورة النساء آية 88، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنها طيبة، وإنها تنفي الخبث، كما تنفي النار خبث الفضة"، حدثناه عفان، وقال: فيه سمعت عبد الله بن يزيد، فذكر معنى حديث بهز .حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ : أَخْبَرَنِي، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى أُحُدٍ فَرَجَعَ أُنَاسٌ خَرَجُوا مَعَهُ، فَكَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمْ فِرْقَتَانِ، فِرْقَةٌ تَقُولُ بِقَتْلِهِمْ، وَفِرْقَةٌ تَقُولُ لَا، وَقَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ: فَكَانَ النَّاسُ فِيهِمْ فِرْقَتَيْنِ، فَرِيقًا يَقُولُونَ: بِقَتْلِهِمْ، وَفَرِيقًا يَقُولُونَ: لَا، قَالَ بَهْزٌ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ سورة النساء آية 88، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّهَا طَيْبَةُ، وَإِنَّهَا تَنْفِي الْخَبَثَ، كَمَا تَنْفِي النَّارُ خَبَثَ الْفِضَّةِ"، حَدَّثَنَاه عَفَّانُ، وَقَالَ: فِيهِ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ يَزِيدَ، فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ بَهْزٍ .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد کے لئے روانہ ہوئے تو لشکر کے کچھ لوگ راستے ہی سے واپس آگئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے بارے میں دو گروہ ہوگئے، ایک گروہ کی رائے یہ تھی کہ انہیں قتل کردیا جائے اور گروہ ثانی کہتا تھا نہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ " تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ ہوگئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ طیبہ ہے یہ گندگی کو اسی طرح دور کردیتا ہے جیسے آگ چاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔
حدثنا كثير ، حدثنا جعفر ، عن ثابت بن الحجاج ، قال: قال زيد بن ثابت نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن المخابرة، قلت: وما المخابرة؟ قال تاجر الارض: بنصف، او بثلث، او بربع .حَدَّثَنَا كَثِيرٌ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٍ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ الْحَجَّاجِ ، قَالَ: قَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُخَابَرَةِ، قُلْتُ: وَمَا الْمُخَابَرَةُ؟ قَالَ تَأْجُرُ الْأَرْضَ: بِنِصْفٍ، أَوْ بِثُلُثٍ، أَوْ بِرُبُعٍ .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں " مخابرہ " سے منع فرمایا ہے، میں نے " مخابرہ " کا معنی پوچھا تو فرمایا زمین کو نصف، تہائی یا چوتھائی پیداوار کے عوض بٹائی پر لینا۔
حدثنا مكي ، حدثنا عبد الله بن سعيد بن ابي هند ، عن ابي النضر ، عن بسر بن سعيد ، عن زيد بن ثابت الانصاري ، قال: احتجر رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد حجرة، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج من الليل، فيصلي فيها، فصلوا معه بصلاته يعني رجالا، وكانوا ياتونه كل ليلة، حتى إذا كان ليلة من الليالي، لم يخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فتنحنحوا ورفعوا اصواتهم، قال فخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم مغضبا، قال: فقال لهم: " ايها الناس، ما زال بكم صنيعكم حتى ظننت ان سيكتب عليكم، فعليكم بالصلاة في بيوتكم، فإن خير صلاة المرء في بيته إلا الصلاة المكتوبة" .حَدَّثَنَا مَكِّيٌّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ زَيْد بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيِّ ، قَالَ: احْتَجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ حُجْرَةً، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ مِنَ اللَّيْلِ، فَيُصَلِّي فِيهَا، فَصَلَّوْا مَعَهُ بِصَلَاتِهِ يَعْنِي رِجَالًا، وَكَانُوا يَأْتُونَهُ كُلَّ لَيْلَةٍ، حَتَّى إِذَا كَانَ لَيْلَةٌ مِنَ اللَّيَالِي، لَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَنَحْنَحُوا وَرَفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ، قَالَ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُغْضَبًا، قَالَ: فَقَالَ لَهُمْ: " أَيُّهَا النَّاسُ، مَا زَالَ بِكُمْ صَنِيعُكُمْ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنْ سَيُكْتَبُ عَلَيْكُمْ، فَعَلَيْكُمْ بِالصَّلَاةِ فِي بُيُوتِكُمْ، فَإِنَّ خَيْرَ صَلَاةِ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ" .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں چٹائی سے ایک خیمہ بنایا اور اس میں کئی راتیں نماز پڑھتے رہے حتٰی کہ لوگ بھی جمع ہونے لگے کچھ دنوں کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز نہیں آئی تو لوگوں کا خیال ہوا کہ شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوگئے اس لئے کچھ لوگ اس کے قریب جا کر کھانسنے لگے تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر آجائیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں مسلسل تمہارا یہ عمل دیکھ رہا تھا حتٰی کہ مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ کہیں تم پر یہ نماز (تہجد) فرض نہ ہوجائے، کیونکہ اگر یہ نماز تم پر فرض ہوگئی تو تم اس کی پابندی نہ کرسکو گے اس لئے لوگو! اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو کیونکہ فرض نمازوں کو چھوڑ کر دوسری نمازیں گھر میں پڑھنا انسان کے لئے سب سے افضل ہے۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مروان سے فرمایا میں دیکھ رہاہوں کہ تم نے مغرب کی نماز بہت ہی مختصر پڑھائی ہے، اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز مغرب میں سورت اعراف کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے۔
حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، قال عدي بن ثابت : اخبرني، قال: سمعت عبد الله بن يزيد ، عن زيد بن ثابت ، قال: لما خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى احد، رجع اناس خرجوا معه، فكان اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فرقتين فرقة تقول: نقتلهم، وفرقة تقول: لا، قال ابن جعفر فكان فريق يقولون: قتلهم، وفريق يقولون: لا، قال بهز فانزل الله فما لكم في المنافقين فئتين سورة النساء آية 88، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنها طيبة، وإنها تنفي الخبث كما تنفي النار خبث الفضة" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ : أَخْبَرَنِي، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ يَزِيدَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ: لَمَّا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أُحُدٍ، رَجَعَ أُنَاسٌ خَرَجُوا مَعَهُ، فَكَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِرْقَتَيْنِ فِرْقَةٌ تَقُولُ: نَقْتُلُهُمْ، وَفِرْقَةٌ تَقُولُ: لَا، قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ فَكَانَ فَرِيقٌ يَقُولُونَ: قَتْلَهُمْ، وَفَرِيقٌ يَقُولُونَ: لَا، قَالَ بَهْزٌ فَأَنْزَلَ اللَّهُ فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ سورة النساء آية 88، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّهَا طَيْبَةُ، وَإِنَّهَا تَنْفِي الْخَبَثَ كَمَا تَنْفِي النَّارُ خَبَثَ الْفِضَّةِ" .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد کے لئے روانہ ہوئے تو لشکر کے کچھ لوگ راستے ہی سے واپس آگئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے بارے میں دو گروہ ہوگئے، ایک گروہ کی رائے یہ تھی کہ انہیں قتل کردیا جائے اور گروہ ثانی کہتا تھا نہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ " تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ ہوگئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ طیبہ ہے یہ گندگی کو اسی طرح دور کردیتا ہے جیسے آگ چاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں " مخابرہ " سے منع فرمایا ہے، میں نے " مخابرہ " کا معنی پوچھا تو فرمایا زمین کو نصف، تہائی یا چوتھائی پیداوار کے عوض بٹائی پر لینا۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عدي بن ثابت ، عن عبد الله بن يزيد يحدث، عن زيد بن ثابت ، انه قال: في هذه الآية فما لكم في المنافقين فئتين والله اركسهم بما كسبوا سورة النساء آية 88، قال: رجع اناس من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فكان الناس فيهم فرقتين، فريق يقولون: قتلهم، وفريق يقولون: لا، قال: فنزلت هذه الآية فما لكم في المنافقين فئتين سورة النساء آية 88 وقال: " إنها طيبة، وإنها تنفي الخبث، كما تنفي النار خبث الفضة" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ يُحَدِّثُ، عَنْ زَيد بْنِ ثَابِتٍ ، أَنَّهُ قَالَ: فِي هَذِهِ الْآيَةِ فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَاللَّهُ أَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوا سورة النساء آية 88، قَالَ: رَجَعَ أُنَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَ النَّاسُ فِيهِمْ فِرْقَتَيْنِ، فَرِيقٌ يَقُولُونَ: قَتْلَهُمْ، وَفَرِيقٌ يَقُولُونَ: لَا، قالَ: فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ سورة النساء آية 88 وَقَالَ: " إِنَّهَا طَيْبَةُ، وَإِنَّهَا تَنْفِي الْخَبَثَ، كَمَا تَنْفِي النَّارُ خَبَثَ الْفِضَّةِ" .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد کے لئے روانہ ہوئے تو لشکر کے کچھ لوگ راستے ہی سے واپس آگئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے بارے میں دو گروہ ہوگئے، ایک گروہ کی رائے یہ تھی کہ انہیں قتل کردیا جائے اور گروہ ثانی کہتا تھا نہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ " تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ ہوگئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ طیبہ ہے یہ گندگی کو اسی طرح دور کردیتا ہے جیسے آگ چاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔
حدثنا بهز بن اسد ابو الاسود ، حدثنا همام ، عن قتادة ، عن انس ، عن زيد بن ثابت ، انه تسحر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: ثم خرجنا حتى اتينا الصلاة، قال انس: فقلت لزيد: كم كان بين ذلك؟ قال: قدر قراءة خمسين آية، او ستين آية .حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ أَبُو الْأَسْوَدِ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، أَنَّهُ تَسَحَّرَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْنَا حَتَّى أَتَيْنَا الصَّلَاةَ، قَالَ أَنَسٌ: فَقُلْتُ لِزَيْدٍ: كَمْ كَانَ بَيْنَ ذَلِكَ؟ قَالَ: قَدْرُ قِرَاءَةِ خَمْسِينَ آيَةً، أَوْ سِتِّينَ آيَةً .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سحری کھائی، پھر ہم مسجد کی طرف نکلے تو نماز کھڑی ہوگئی، راوی نے پوچھا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا وقفہ تھا؟ انہوں نے بتایا کہ جتنی دیر میں آدمی پچاس آیتیں پڑھ لیتا ہے۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے " بیع عرایا " میں اس بات کی اجازت دی ہے کہ اسے اندازے سے ناپ کر بیچ دیا جائے۔
فائدہ۔ بیع عرایا کی وضاحت کے لئے حدیث نمبر (٤٤٩٠) ملاحظہ کیجئے۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے وراثت کا مسئلہ پوچھا گیا کہ ایک عورت فوت ہوئی جس کے ورثاء میں ایک شوہر اور ایک حقیقی بہن ہے تو انہوں نے نصف مال شوہر کو دے دیا اور دوسرا نصف بہن کو، کسی نے ان سے اس کے متعلق بات کی تو انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، انہوں نے بھی یہی فیصلہ فرمایا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبى بكر بن عبد الله ولانقطاعه، فإن مكحولا وعطية وضمرة وراشدا لم يسمع واحد منهم من زيد بن ثابت. ومع ضعف هذا الاسناد فان الفتوي فى هذه المسئلة صحيحة
حدثنا عبد الله، قال: وجدت هذا الحديث في كتاب ابي بخط يده حدثنا الحكم بن نافع ، انا شعيب ، عن الزهري ، اخبرني خارجة بن زيد ، ان زيد بن ثابت ، قال:" لما نسخنا المصاحف فقدت آية من سورة الاحزاب، قد كنت اسمع النبي صلى الله عليه وسلم يقرا بها، فالتمستها، فلم اجدها مع احد إلا مع خزيمة بن ثابت الانصاري، الذي جعل رسول الله صلى الله عليه وسلم شهادته شهادة رجلين، قول الله عز وجل من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه سورة الاحزاب آية 23" .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، قَالَ: وَجَدْتُ هَذَا الْحَدِيثَ فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ ، أَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدٍ ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ ، قَالَ:" لَمَّا نَسَخْنَا الْمَصَاحِفَ فُقِدَتْ آيَةٌ مِنْ سُورَةِ الْأَحْزَابِ، قَدْ كُنْتُ أَسْمَعُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ بِهَا، فَالْتَمَسْتُهَا، فَلَمْ أَجِدْهَا مَعَ أَحَدٍ إِلَّا مَعَ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيِّ، الَّذِي جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهَادَتَهُ شَهَادَةَ رَجُلَيْنِ، قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ سورة الأحزاب آية 23" .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ہم لوگ مصاحف کے نسخے تیار کر رہے تھے تو مجھے ان میں سورت احزاب کی ایک آیت نظر نہ آئی جو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھتے ہوئے سنتا تھا میں نے اسے تلاش کیا تو وہ مجھے صرف حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس ملی جن کی شہادت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کی شہادت کے برابر قرار دیا تھا اور وہ آیت یہ تھی من المؤمنین رجال صدقواماعاھدو اللہ علیہ۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ یا حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ مروان سے فرمایا میں دیکھ رہاہوں کہ تم نے مغرب کی نماز بہت ہی مختصر پڑھائی ہے، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز مغرب میں سورت اعراف کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد تازہ وضو کیا کرو۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 351، وهذا الحديث منسوخ
حدثنا ابو كامل ، حدثنا إبراهيم ، حدثنا ابن شهاب ، اخبرني خارجة بن زيد ، انه سمع زيد بن ثابت ، يقول: فقدت آية من سورة الاحزاب حين نسخنا المصاحف، قد كنت اسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرا بها رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه سورة الاحزاب آية 23 فوجدتها مع خزيمة بن ثابت، فالحقتها في سورتها في المصحف .حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ ، يَقُولُ: فُقِدَتْ آيَةٌ مِنْ سُورَةِ الْأَحْزَابِ حِينَ نَسَخْنَا الْمَصَاحِفَ، قَدْ كُنْتُ أَسْمَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ بِهَا رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ سورة الأحزاب آية 23 فَوَجَدْتُهَا مَعَ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، فَأَلْحَقْتُهَا فِي سُورَتِهَا فِي الْمُصْحَفِ .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ہم لوگ مصاحف کے نسخے تیار کر رہے تھے تو مجھے ان میں سورت احزاب کی ایک آیت نظر نہ آئی جو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھتے ہوئے سنتا تھا میں نے اسے تلاش کیا تو وہ مجھے صرف حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس ملی جن کی شہادت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کی شہادت کے برابر قرار دیا تھا اور وہ آیت یہ تھی " من المؤمنین رجال صدقوا ماعاھدوا اللہ علیہ "۔ پھر میں نے اس کی سورت میں مصحف کا حصہ بنادیا۔
حدثنا حدثنا ابو كامل ، حدثنا إبراهيم بن سعد ، حدثنا ابن شهاب ، عن عبيد بن السباق ، عن زيد بن ثابت ، قال: ارسل إلي ابو بكر مقتل اليمامة، فإذا عمر عنده جالس، قال ابو بكر:" يا زيد بن ثابت، إنك غلام شاب عاقل، لا نتهمك، قد كنت تكتب الوحي لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فتتبع القرآن، فاجمعه"، قال زيد فوالله لو كلفوني نقل جبل من الجبال، ما كان اثقل علي مما امرني به من جمع القرآن، فقلت: اتفعلان شيئا لم يفعله رسول الله صلى الله عليه وسلم! قال: " هو والله خير، فلم يزل ابو بكر يراجعني حتى شرح الله صدري بالذي شرح له صدر ابي بكر، وعمر رضي الله عنهما" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ مَقْتَلَ الْيَمَامَةِ، فَإِذَا عُمَرُ عِنْدَهُ جَالِسٌ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ:" يَا زَيْدُ بْنَ ثَابِتٍ، إِنَّكَ غُلَامٌ شَابٌّ عَاقِلٌ، لَا نَتَّهِمُكَ، قَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَتَبَّعْ الْقُرْآنَ، فَاجْمَعْهُ"، قَالَ زَيْدٌ فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ، مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ، فَقُلْتُ: أَتَفْعَلَانِ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ! قَالَ: " هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ، فَلَمْ يَزَلْ أَبُو بَكْرٍ يُرَاجِعُنِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي بِالَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا" .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے میرے پاس یمامہ کے موقع پر ایک قاصد کو بھیج کر مجھے بلایا، میں حاضر ہوا تو وہاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا اے زید بن ثابت! آپ ایک سمجھدار نوجوان ہو، ہم آپ پر کوئی تہمت نہیں لگاتے، آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں وحی لکھا کرتے تھے، آپ قرآن کریم کو تلاش کر کے ایک جگہ اکٹھا کردو زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بخدا! اگر یہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے ہٹانے کا حکم دیتے تو وہ میرے لئے جمع قرآن کے اس حکم سے زیادہ وزنی نہ ہوتا، میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ حضرات وہ کام کرنا چاہتے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا؟ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا بخدا! اسی میں خیر ہے پھر وہ مجھے مسلسل کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے مجھے بھی اس کام پر شرح صدر عطاء فرما دیا جس پر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو شرح صدر ہوا تھا۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے " عمری " اور " رقبی " (وہ مکان جسے عمر بھر کے لئے کسی کے حوالے کردیا جائے) وارث کا حق قرار دیا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد صحيح، الرجل المبهم هو حجر المدري، فهو ثقة
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ یا حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ مروان سے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں کہ تم نے مغرب کی نماز بہت ہی مختصر پڑھائی ہے، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز مغرب میں سورت اعراف کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے " عمری " اور (وہ مکان جسے عمربھر کے لئے کسی کے حوالے کردیا جائے) وارث کا حق قرار دیا ہے۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے " عمری " اور (وہ مکان جسے عمر بھر کے لئے کسی کے حوالے کردیا جائے) وارث کا حق قرار دیا ہے۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی جائداد کو موت پر موقوف مت کیا کرو (کہ جو مرگیا اس کی ملکیت بھی ختم) اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو اس میں وراثت کے احکام جاری ہوں گے۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی کو عمر بھر کے لئے جائداد دے دے وہ زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی دینے والے کی ہوگی، کسی جائداد کو موت پر موقوف مت کیا کرو (کہ جو مرگیا اس کی ملکیت بھی ختم) اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو اس میں وراثت کے احکام جاری ہوں گے۔
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن خارجة بن زيد او غيره، ان زيد بن ثابت ، قال:" لما كتبت المصاحف فقدت آية كنت اسمعها من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فوجدتها عند خزيمة الانصاري من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه إلى تبديلا سورة الاحزاب آية 23، قال فكان خزيمة يدعى ذا الشهادتين، اجاز رسول الله صلى الله عليه وسلم شهادته بشهادة رجلين"، قال الزهري وقتل يوم صفين مع علي رضي الله عنهما .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ أَوْ غَيْرِهِ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ ، قَالَ:" لَمَّا كُتِبَتْ الْمَصَاحِفُ فَقَدْتُ آيَةً كُنْتُ أَسْمَعُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَجَدْتُهَا عِنْدَ خُزَيْمَةَ الْأَنْصَارِيِّ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ إِلَى تَبْدِيلا سورة الأحزاب آية 23، قَالَ فَكَانَ خُزَيْمَةُ يُدْعَى ذَا الشَّهَادَتَيْنِ، أَجَازَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهَادَتَهُ بِشَهَادَةِ رَجُلَيْنِ"، قَالَ الزُّهْرِيُّ وَقُتِلَ يَوْمَ صِفِّينَ مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ہم لوگ مصاحف کے نسخے تیار کر رہے تھے تو مجھے ان میں سورت احزاب کی ایک آیت نظر نہ آئی جو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھتے ہوئے سنتا تھا میں نے اسے تلاش کیا تو وہ مجھے صرف حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس ملی جن کی شہادت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کی شہادت کے برابر قرار دیا تھا اور وہ آیت یہ تھی " من المؤمنین رجال صدقوا ماعاھدوا اللہ علیہ "۔
حدثنا قران بن تمام ، عن ابي سنان الشيباني ، عن وهب الحمصي ، عن ابن الديلمي ، قال: اتيت ابي بن كعب ، فقلت له: إنه قد وقع في نفسي من القدر شيء، فاحب ان تحدثني بحديث لعل الله ان يذهب عني ما اجد، قال: " لو ان الله عذب اهل السماوات واهل الارض عذبهم وهو غير ظالم لهم، ولو رحمهم كانت رحمته لهم خيرا من اعمالهم، ولو كان احد لك ذهبا فانفقته في سبيل الله ثم لم تؤمن بالقدر وتعلم ان ما اصابك لم يكن ليخطئك وان ما اخطاك لم يكن ليصيبك، ما تقبل منك، ولو مت على غير ذلك دخلت النار" ولا عليك ان تلقى اخي عبد الله بن مسعود فتساله، فلقي عبد الله ، فقال له: مثل ذلك، ثم لقي حذيفة بن اليمان ، فقال له: مثل ذلك، ثم لقي زيد بن ثابت ، فقال له: مثل ذلك، إلا انه حدثه عن نبي الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا قُرَّانُ بْنُ تَمَّامٍ ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ الشَّيْبَانِيِّ ، عَنْ وَهْبٍ الْحِمْصِيِّ ، عَنِ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ ، قَالَ: أَتَيْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّهُ قَدْ وَقَعَ فِي نَفْسِي مِنَ الْقَدَرِ شَيْءٌ، فَأُحِبُّ أَنْ تُحَدِّثَنِي بِحَدِيثٍ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُذْهِبَ عَنِّي مَا أَجِدُ، قَالَ: " لَوْ أَنَّ اللَّهَ عَذَّبَ أَهْلَ السَّمَاوَاتِ وَأَهْلَ الْأَرْضِ عَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ، وَلَوْ رَحِمَهُمْ كَانَتْ رَحْمَتُهُ لَهُمْ خَيْرًا مِنْ أَعْمَالِهِمْ، وَلَوْ كَانَ أُحُدٌ لَكَ ذَهَبًا فَأَنْفَقْتَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَمْ تُؤْمِنْ بِالْقَدَرِ وَتَعْلَمْ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ وَأَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، مَا تُقُبِّلَ مِنْكَ، وَلَوْ مِتَّ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ دَخَلْتَ النَّارَ" وَلَا عَلَيْكَ أَنْ تَلْقَى أَخِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ فَتَسْأَلَهُ، فَلَقِيَ عَبْدَ اللَّهِ ، فَقَالَ لَهُ: مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ لَقِيَ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ ، فَقَالَ لَهُ: مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ لَقِيَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ ، فَقَالَ لَهُ: مِثْلَ ذَلِكَ، إِلَّا أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَنْ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابن دیلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لئے گیا اور عرض کیا کہ اے ابوالمنذر؟ میرے دل میں تقدیر کے متعلق کچھ وسوسے پیدا ہو رہے ہیں آپ مجھے کوئی ایسی حدیث سنائیے جس کی برکت سے میرے دل سے یہ وسوسے دور ہوجائیں انہوں نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ تمام آسمان و زمین والوں کو عذاب میں مبتلا کردیں تو اللہ تعالیٰ پھر بھی ان پر ظلم کرنے والے نہیں ہوں گے اور اگر ان پر رحم کردیں تو یہ رحمت ان کے اعمال سے بڑھ کر ہوگی اور اگر تم اللہ کے راستہ میں احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر دوگے تو اللہ تعالیٰ اسے اس وقت تک تمہاری طرف سے قبول نہیں فرمائے گا جب تک تم تقدیر پر کامل ایمان نہ لے آؤ اور یہ یقین نہ کرلو کہ تمہیں جو چیز پیش آئی ہے وہ تم سے چوک نہیں سکتی تھی اور جو چیز تم سے چوک گئی ہے وہ تم پر آ نہیں سکتی تھی، اگر تمہاری موت اس کے علاوہ کسی اور عقیدے پر ہوئی تو تم جہنم میں داخل ہوگے۔
پھر میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے بھی مجھے یہی جواب دیا۔
پھر میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے بھی مجھے یہ جواب دیا۔
پھر میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے بھی مجھے یہی جواب دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کیا۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں تم میں اپنے دو نائب چھوڑ کر جا رہا ہوں، ایک تو کتاب اللہ ہے جو کہ آسمان و زمین کے درمیان لٹکی ہوئی رسی ہے اور دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں اور یہ دونوں چیزیں کبھی جدا نہیں ہوں گی یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر آپہنچیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بشواهده دون قوله: و إنهما لن يتفرقا حتى يردا على الحوض جميعا، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے " بیع عرایا " میں اس بات کی اجازت دی ہے کہ اسے اندازے سے ناپ کر بیچ دیا جائے۔
فائدہ۔ بیع عرایا کی وضاحت کے لئے حدیث نمبر (٤٤٩٠) ملاحظہ کیجئے۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے " بیع عرایا " میں اس بات کی اجازت دی ہے کہ اسے اندازے سے ناپ کر بیچ دیا جائے۔
فائدہ۔ بیع عرایا کی وضاحت کے لئے حدیث نمبر (٤٤٩٠) ملاحظہ کیجئے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وقد تفرد ابن إسحاق بأن جعل النهي عن المزابنة من حديث زيد بن ثابت، والصواب: أنه من حديث ابن عمر
حدثنا يزيد بن هارون ، انا ابو مسعود الجريري ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد الخدري ، عن زيد بن ثابت ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حائط من حيطان المدينة، فيه اقبر، وهو على بغلته، فحادت به، وكادت ان تلقيه، فقال: " من يعرف اصحاب هذه الاقبر؟" فقال رجل: يا رسول الله، قوم هلكوا في الجاهلية، فقال:" لولا ان لا تدافنوا، لدعوت الله ان يسمعكم عذاب القبر"، ثم قال لنا:" تعوذوا بالله من عذاب جهنم"، قلنا: نعوذ بالله من عذاب جهنم، ثم قال:" تعوذوا بالله من فتنة المسيح الدجال"، فقلنا: نعوذ بالله من فتنة المسيح الدجال، ثم قال:" تعوذوا بالله من عذاب القبر"، فقلنا: نعوذ بالله من عذاب القبر، ثم قال:" تعوذوا بالله من فتنة المحيا والممات"، قلنا: نعوذ بالله من فتنة المحيا والممات .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنَا أَبُو مَسْعُودٍ الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ مِنْ حِيطَانِ الْمَدِينَةِ، فِيهِ أَقْبُرٌ، وَهُوَ عَلَى بَغْلَتِهِ، فَحَادَتْ بِهِ، وَكَادَتْ أَنْ تُلْقِيَهُ، فَقَالَ: " مَنْ يَعْرِفُ أَصْحَابَ هَذِهِ الْأَقْبُرِ؟" فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَوْمٌ هَلَكُوا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَالَ:" لَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا، لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ عَذَابَ الْقَبْرِ"، ثُمَّ قَالَ لَنَا:" تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ"، قُلْنَا: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ، ثُمَّ قَالَ:" تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ"، فَقُلْنَا: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، ثُمَّ قَالَ:" تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ"، فَقُلْنَا: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، ثُمَّ قَالَ:" تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ"، قُلْنَا: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ کی کسی جگہ میں تھے جہاں کچھ قبریں بھی تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ایک خچر پر سوار تھے، اچانک وہ خچر بدکنے لگا اور قریب تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گرا دیتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کسی کو معلوم ہے کہ یہ کن لوگوں کی قبریں ہیں؟ ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ لوگ زمانہ جاہلیت میں فوت ہوگئے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ تم اپنے مردوں کو دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعاء کرتا کہ تمہیں کچھ عذاب قبر سنا دیتا، پھر ہم سے فرمایا عذاب جہنم سے اللہ کی پناہ مانگا کرو، ہم نے عرض کیا کہ ہم عذاب جہنم سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، پھر فرمایا مسیح دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگا کرو ہم نے عرض کیا کہ ہم مسیح دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں پھر فرمایا عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگا کرو ہم نے عرض کیا کہ ہم عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں پھر فرمایا زندگی اور موت کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگا کرو ہم نے عرض کیا کہ ہم زندگی اور موت کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
حدثنا روح ، حدثنا هشام ، عن محمد ، عن كثير بن افلح ، عن زيد بن ثابت ، قال: " امرنا ان نسبح في دبر كل صلاة ثلاثا وثلاثين تسبيحة، ونحمد ثلاثا وثلاثين تحميدة، ونكبر اربعا وثلاثين تكبيرة"، قال فراى رجل في المنام، فقال:" امرتم بثلاث وثلاثين تسبيحة، وثلاث وثلاثين تحميدة، واربع وثلاثين تكبيرة، فلو جعلتم فيها التهليل، فجعلتموها خمسا وعشرين"، فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، قال:" قد رايتم فافعلوا"، او نحو ذلك .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ: " أُمِرْنَا أَنْ نُسَبِّحَ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَسْبِيحَةً، وَنَحْمَدَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَحْمِيدَةً، وَنُكَبِّرَ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ تَكْبِيرَةً"، قَالَ فَرَأَى رَجُلٌ فِي الْمَنَامِ، فَقَالَ:" أُمِرْتُمْ بِثَلَاثٍ وَثَلَاثِينَ تَسْبِيحَةً، وَثَلَاثٍ وَثَلَاثِينَ تَحْمِيدَةً، وَأَرْبَعٍ وَثَلَاثِينَ تَكْبِيرَةً، فَلَوْ جَعَلْتُمْ فِيهَا التَّهْلِيلَ، فَجَعَلْتُمُوهَا خَمْسًا وَعِشْرِينَ"، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" قَدْ رَأَيْتُمْ فَافْعَلُوا"، أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہر فرض نماز کے بعد ٣٣ مرتبہ سبحان اللہ ٣٣ مرتبہ الحمدللہ اور ٣٤ مرتبہ اللہ اکبر کہہ لیا کریں پھر ایک انصاری نے ایک خواب دیکھا جس میں کسی نے اس سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نماز کے بعد تمہیں اس طرح تسبیحات پڑھنے کا حکم دیا ہے؟ اس نے کہا جی ہاں! اس نے کہا کہ انہیں ٢٥، ٢٥ مرتبہ پڑھا کرو اور ان میں ٢٥ مرتبہ لا الہ الا اللہ کا اضافہ کرلو جب صبح ہوئی تو اس نے اپنا یہ خواب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی طرح کیا کرو۔
حدثنا عفان ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن ابن سيرين ، عن زيد بن ثابت ، ان النبي صلى الله عليه وسلم" نهى ان يصلى إذا طلع قرن الشمس او غاب قرنها"، وقال:" إنها تطلع بين قرني شيطان"، او" من بين قرني شيطان" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى أَنْ يُصَلَّى إِذَا طَلَعَ قَرْنُ الشَّمْسِ أَوْ غَابَ قَرْنُهَا"، وَقَالَ:" إِنَّهَا تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ"، أَوْ" مِنْ بَيْنِ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ" .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طلوع و غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔
حدثنا يونس بن محمد ، حدثنا عبد الرحمن بن عبد الله بن ابي الزناد ، عن ابيه ، عن خارجة بن زيد ، قال: قال زيد بن ثابت قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة ونحن نتبايع الثمار قبل ان يبدو صلاحها، فسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم خصومة، فقال:" ما هذا؟" فقيل له: هؤلاء ابتاعوا الثمار، يقولون: اصابنا الدمان والقشام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فلا تبايعوها حتى يبدو صلاحها" ، حدثنا سريج ، وقال: الادمان والقشام.حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ: قَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَنَحْنُ نَتَبَايَعُ الثِّمَارَ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلَاحُهَا، فَسَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُصُومَةً، فَقَالَ:" مَا هَذَا؟" فَقِيلَ لَهُ: هَؤُلَاءِ ابْتَاعُوا الثِّمَارَ، يَقُولُونَ: أَصَابَنَا الدُّمَانُ وَالْقُشَامُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَلَا تَبَايَعُوهَا حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهَا" ، حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ ، وَقَالَ: الْأُدْمَانُ وَالْقُشَامُ.
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو ہم لوگ اس وقت پھلوں کے پکنے سے پہلے ہی ان کی خریدوفروخت کرلیا کرتے تھے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سماعت کے لئے اس کا کوئی مقدمہ پیش ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے؟ بتایا گیا کہ ان لوگوں نے پھل خریدا تھا اب کہہ رہے ہیں کہ ہمارے حصے میں تو بوسیدہ اور بےکار پھل آگیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک پھل پک نہ جایا کرے اس وقت تک اس کی خریدوفروخت نہ کیا کرو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2193، تعليقا، وهذا إسناد حسن
شرحبیل کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے بازار میں لٹورے کی طرح کا ایک پرندہ پکڑ لیا حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو اسے میرے ہاتھ سے لے کر چھوڑ دیا (اور وہ اڑ گیا) اور فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے دونوں کناروں کے درمیان کی جگہ کو حرام قرار دیا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شرحبيل بن سعد
حدثنا سليمان بن داود ، اخبرنا عبد الرحمن بن ابي الزناد ، عن خارجة بن زيد ، قال: قال زيد بن ثابت ، إني قاعد إلى جنب النبي صلى الله عليه وسلم يوما إذ اوحي إليه، قال: وغشيته السكينة، ووقع فخذه على فخذي حين غشيته السكينة، قال زيد فلا والله ما وجدت شيئا قط اثقل من فخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم سري عنه، فقال:" اكتب يا زيد" فاخذت كتفا، فقال: " اكتب" لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون الآية كلها إلى قوله اجرا عظيما" فكتبت ذلك في كتف، فقام حين سمعها ابن ام مكتوم، وكان رجلا اعمى، فقام حين سمع فضيلة المجاهدين، قال: يا رسول الله، فكيف بمن لا يستطيع الجهاد ممن هو اعمى واشباه ذلك؟ قال زيد فوالله ما مضى كلامه او ما هو إلا ان قضى كلامه، غشيت النبي صلى الله عليه وسلم السكينة، فوقعت فخذه على فخذي، فوجدت من ثقلها كما وجدت في المرة الاولى، ثم سري عنه، فقال:" اقرا" فقرات عليه" لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون" فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" غير اولي الضرر سورة النساء آية 95" فالحقتها، فوالله لكاني انظر إلى ملحقها عند صدع كان في الكتف" ..حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ: قَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ ، إِنِّي قَاعِدٌ إِلَى جَنْبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا إِذْ أُوحِيَ إِلَيْهِ، قَالَ: وَغَشِيَتْهُ السَّكِينَةُ، وَوَقَعَ فَخِذُهُ عَلَى فَخِذِي حِينَ غَشِيَتْهُ السَّكِينَةُ، قَالَ زَيْدٌ فَلَا وَاللَّهِ مَا وَجَدْتُ شَيْئًا قَطُّ أَثْقَلَ مِنْ فَخِذِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ، فَقَالَ:" اكْتُبْ يَا زَيْدُ" فَأَخَذْتُ كَتِفًا، فَقَالَ: " اكْتُبْ" لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ الْآيَةَ كُلَّهَا إِلَى قَوْلِهِ أَجْرًا عَظِيمًا" فَكَتَبْتُ ذَلِكَ فِي كَتِفٍ، فَقَامَ حِينَ سَمِعَهَا ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، وَكَانَ رَجُلًا أَعْمَى، فَقَامَ حِينَ سَمِعَ فَضِيلَةَ الْمُجَاهِدِينَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَكَيْفَ بِمَنْ لَا يَسْتَطِيعُ الْجِهَادَ مِمَّنْ هُوَ أَعْمَى وَأَشْبَاهِ ذَلِكَ؟ قَالَ زَيْدٌ فَوَاللَّهِ مَا مَضَى كَلَامُهُ أَوْ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ قَضَى كَلَامَهُ، غَشِيَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّكِينَةُ، فَوَقَعَتْ فَخِذُهُ عَلَى فَخِذِي، فَوَجَدْتُ مِنْ ثِقَلِهَا كَمَا وَجَدْتُ فِي الْمَرَّةِ الْأُولَى، ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ، فَقَالَ:" اقْرَأْ" فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ" لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ" فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95" فَأَلْحَقْتُهَا، فَوَاللَّهِ لَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مُلْحَقِهَا عِنْدَ صَدْعٍ كَانَ فِي الْكَتِفِ" ..
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان پر وحی نازل ہونے لگی اور انہیں سکینہ نے ڈھانپ لیا اسی اثناء میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران میری ران پر گئی، بخدا! میں نے اس حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے زیادہ بوجھل کوئی چیز نہیں پائی پھر وہ کیفیت دور ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زید! لکھو میں نے شانے کی ایک ہڈی پکڑی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لکھو " لایستوی القاعدون۔۔۔۔۔۔ أجراعظیما " میں نے اسے لکھ لیا، یہ آیت اور مجاہدین کی فضیلت سن کر حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ جو نابینا تھے " کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کا کیا حکم ہے جو جہاد نہیں کرسکتا مثلاً نابینا وغیرہ؟ واللہ ابھی ان کی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دوبارہ سکینہ چھانے لگا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران میری ران پر آگئی اور پہلے کی طرح بوجھ محسوس ہوا پھر وہ کیفیت دور ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ وہ آیت پڑھو، چنانچہ میں نے وہ پڑھ کر سنا دی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں " غیر اولی الضرر " کا لفظ شامل کردیا جسے میں نے اس کے ساتھ ملا دیا اور وہ اب تک میری نگاہوں کے سامنے گویا موجود ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2832، م: 1898، وهذا إسناد حسن
حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا ابو بكر ، حدثنا ضمرة بن حبيب بن صهيب ، عن ابي الدرداء ، عن زيد بن ثابت ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم علمه دعاء، وامره ان يتعاهد به اهله كل يوم، قال: " قل كل يوم حين تصبح لبيك اللهم لبيك وسعديك، والخير في يديك ومنك وبك وإليك، اللهم ما قلت من قول، او نذرت من نذر، او حلفت من حلف، فمشيئتك بين يديه، ما شئت كان، وما لم تشا لم يكن، ولا حول ولا قوة إلا بك، إنك على كل شيء قدير، اللهم وما صليت من صلاة، فعلى من صليت، وما لعنت من لعنة، فعلى من لعنت، إنك انت وليي في الدنيا والآخرة، توفني مسلما والحقني بالصالحين، اسالك اللهم الرضا بعد القضاء، وبرد العيش بعد الممات، ولذة نظر إلى وجهك، وشوقا إلى لقائك، من غير ضراء مضرة، ولا فتنة مضلة، اعوذ بك اللهم ان اظلم او اظلم، او اعتدي او يعتدى علي، او اكتسب خطيئة محبطة، او ذنبا لا يغفر، اللهم فاطر السموات والارض، عالم الغيب والشهادة، ذا الجلال والإكرام، فإني اعهد إليك في هذه الحياة الدنيا، واشهدك وكفى بك شهيدا، اني اشهد ان لا إله إلا انت وحدك لا شريك لك، لك الملك، ولك الحمد، وانت على كل شيء قدير، واشهد ان محمدا عبدك ورسولك، واشهد ان وعدك حق، ولقاءك حق، والجنة حق، والساعة آتية لا ريب فيها، وانت تبعث من في القبور، واشهد انك إن تكلني إلى نفسي، تكلني إلى ضيعة وعورة وذنب وخطيئة، وإني لا اثق إلا برحمتك، فاغفر لي ذنبي كله، إنه لا يغفر الذنوب إلا انت، وتب علي، إنك انت التواب الرحيم" ..حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ بْنُ حَبِيبِ بْنِ صُهَيْبٍ ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، عَن زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَهُ دُعَاءً، وَأَمَرَهُ أَنْ يَتَعَاهَدَ بِهِ أَهْلَهُ كُلَّ يَوْمٍ، قَالَ: " قُلْ كُلَّ يَوْمٍ حِينَ تُصْبِحُ لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ وَمِنْكَ وَبِكَ وَإِلَيْكَ، اللَّهُمَّ مَا قُلْتُ مِنْ قَوْلٍ، أَوْ نَذَرْتُ مِنْ نَذْرٍ، أَوْ حَلَفْتُ مِنْ حَلِفٍ، فَمَشِيئَتُكَ بَيْنَ يَدَيْهِ، مَا شِئْتَ كَانَ، وَمَا لَمْ تَشَأْ لَمْ يَكُنْ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ، إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، اللَّهُمَّ وَمَا صَلَّيْتُ مِنْ صَلَاةٍ، فَعَلَى مَنْ صَلَّيْتَ، وَمَا لَعَنْتُ مِنْ لَعْنَةٍ، فَعَلَى مَنْ لَعَنْتَ، إِنَّكَ أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ، أَسْأَلُكَ اللَّهُمَّ الرِّضَا بَعْدَ الْقَضَاءِ، وَبَرْدَ الْعَيْشِ بَعْدَ الْمَمَاتِ، وَلَذَّةَ نَظَرٍ إِلَى وَجْهِكَ، وَشَوْقًا إِلَى لِقَائِكَ، مِنْ غَيْرِ ضَرَّاءَ مُضِرَّةٍ، وَلَا فِتْنَةٍ مُضِلَّةٍ، أَعُوذُ بِكَ اللَّهُمَّ أَنْ أَظْلِمَ أَوْ أُظْلَمَ، أَوْ أَعْتَدِيَ أَوْ يُعْتَدَى عَلَيَّ، أَوْ أَكْتَسِبَ خَطِيئَةً مُحْبِطَةً، أَوْ ذَنْبًا لَا يُغْفَرُ، اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ، فَإِنِّي أَعْهَدُ إِلَيْكَ فِي هَذِهِ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا، وَأُشْهِدُكَ وَكَفَى بِكَ شَهِيدًا، أَنِّي أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ وَحْدَكَ لَا شَرِيكَ لَكَ، لَكَ الْمُلْكُ، وَلَكَ الْحَمْدُ، وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ، وَأَشْهَدُ أَنَّ وَعْدَكَ حَقٌّ، وَلِقَاءَكَ حَقٌّ، وَالْجَنَّةَ حَقٌّ، وَالسَّاعَةَ آتِيَةٌ لَا رَيْبَ فِيهَا، وَأَنْتَ تَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِ، وَأَشْهَدُ أَنَّكَ إِنْ تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي، تَكِلْنِي إِلَى ضَيْعَةٍ وَعَوْرَةٍ وَذَنْبٍ وَخَطِيئَةٍ، وَإِنِّي لَا أَثِقُ إِلَّا بِرَحْمَتِكَ، فَاغْفِرْ لِي ذَنْبِي كُلَّهُ، إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، وَتُبْ عَلَيَّ، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ" ..
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دعاء سکھائی اور حکم دیا کہ اپنے اہل خانہ کو بھی روزانہ یہ دعاء پڑھنے کی تلقین کریں اور خود بھی صبح کے وقت یوں کہا کریں۔ اے اللہ میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں تیری خدمت کے لئے ہر خیر تیرے ہاتھ میں ہے تجھ سے ملتی ہے تیری مدد سے ملتی ہے اور تیری ہی طرف لوٹتی ہے، اے اللہ! میں نے جو بات منہ سے نکالی، جو منت مانی، یا جو قسم کھائی تیری مشیت اس سے بھی آگے ہے تو جو چاہتا ہے وہ ہوجاتا ہے اور تو جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا اور تیری توفیق کے بغیر نیکی کرنے اور گناہ سے بچنے کی ہم میں کوئی طاقت نہیں تو ہر چیز پر یقینا قادر ہے۔ اے اللہ! میں نے جس کے لئے دعاء کی اس کا حقدار وہی ہے جسے آپ اپنی رحمت سے نوازیں اور جس پر میں نے لعنت کی ہے، اس کا حقدار بھی وہی ہے جس پر آپ نے لعنت کی ہو، آپ ہی دنیا و آخرت میں میرے کار ساز ہیں مجھے اسلام کی حالت میں دنیا سے رخصتی عطاء فرما اور نیکوکاروں میں شامل فرما۔ اے اللہ میں تجھ سے فیصلے کے بعد رضامندی، موت کے بعد زندگی کی ٹھنڈک، تیرے رخ زیبا کے دیدار کی لذت اور تجھ سے ملنے کا شوق مانگتا ہوں بغیر کسی تکلیف کے اور بغیر کسی گمراہ کن آزمائش کے، اے اللہ! میں اس بات سے تیری پناہ میں آتا ہوں کہ کسی پر میں ظلم کروں یا کوئی مجھ پر ظلم کرے، میں کسی پر زیادتی کروں یا کوئی مجھ پر زیادتی کرے یا میں ایسا گناہ کر بیٹھوں جو تمام اعمال کو ضائع کر دے یا ناقابل معافی ہو۔ اے زمین و آسمان کو پیدا کرنے والے اللہ! ڈھکی چھپی اور ظاہر سب باتوں کو جاننے والے! عزت و بزرگی والے! میں اس دنیوی زندگی میں زندگی میں تجھ سے عہد کرتا ہوں اور تجھے گواہ بناتا ہوں "" اور تو گواہ بننے کے لئے کافی ہے "" میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں تو اکیلا ہے، تیرا کوئی شریک نہیں، حکومت بھی تیری ہے اور ہر طرح کی تعریف بھی تیری ہے تو ہر چیز پر قادر ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیرے بندے اور رسول ہیں نیز میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا وعدہ برحق ہے تجھ سے ملاقات یقینی ہے، جنت برحق ہے، قیامت برحق ہے، قیامت آکر رہے گی اور اس میں کوئی شک نہیں اور تو قبروں کے مردوں کو زندہ کر دے گا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اگر تو نے مجھے میرے نفس کے حوالے کردیا تو گویا مجھے ضائع ہونے کے لئے چھوڑ دیا اور مجھے میرے عیوب گناہوں اور لغزشات کے سپرد کردیا اور میں تو صرف تیری رحمت پر ہی اعتماد کرسکتا ہوں، لہٰذا میرے سارے گناہوں کو معاف فرما، کیونکہ یہ بات یقینی ہے کہ تیرے علاوہ گناہوں کو کوئی بھی معاف نہیں کرسکتا اور میری توبہ قبول فرما بیشک تو توبہ قبول کرنے والا رحم والا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، ضمرة بن حبيب لم يسمع من أبى الدرداء ، وأبو بكر ضعيف
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني ابو الزناد ، عن عبيد بن حنين ، عن عبد الله بن عمر ، قال:" قدم رجل من اهل الشام بزيت فساومته فيمن ساومه من التجار، حتى ابتعته منه، حتى قال: فقام إلي رجل فربحني فيه حتى ارضاني، قال: فاخذت بيده لاضرب عليها، فاخذ رجل بذراعي من خلفي، فالتفت إليه، فإذا زيد بن ثابت ، فقال: لا تبعه حيث ابتعته حتى تحوزه إلى رحلك، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد نهى عن ذلك، فامسكت يدي" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي أَبُو الزِّنَادِ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" قَدِمَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ بِزَيْتٍ فَسَاوَمْتُهُ فِيمَنْ سَاوَمَهُ مِنَ التُّجَّارِ، حَتَّى ابْتَعْتُهُ مِنْهُ، حَتَّى قَالَ: فَقَامَ إِلَيَّ رَجُلٌ فَرَبَّحَنِي فِيهِ حَتَّى أَرْضَانِي، قَالَ: فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ لِأَضْرِبَ عَلَيْهَا، فَأَخَذَ رَجُلٌ بِذِرَاعِي مِنْ خَلْفِي، فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ، فَإِذَا زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ ، فَقَالَ: لَا تَبِعْهُ حَيْثُ ابْتَعْتَهُ حَتَّى تَحُوزَهُ إِلَى رَحْلِكَ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ نَهَى عَنْ ذَلِكَ، فَأَمْسَكْتُ يَدِي" .
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ شام کا ایک آدمی زیتون لے کر آیا، تاجروں کے ساتھ میں بھی بھاؤ تاؤ کرنے والوں میں شامل تھا حتیٰ کہ میں نے اسے خرید لیا، اس کے بعد ایک آدمی میرے پاس آیا اور مجھے میری مرضی کے مطابق نفع دینے کے لئے تیار ہوگیا، میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر معاملہ مضبوط کرنا چاہا تو پیچھے سے کسی آدمی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے انہوں نے فرمایا جس جگہ تم نے اسے خریدا ہے اسی جگہ اسے فروخت مت کرو بلکہ پہلے اپنے خیمے میں لے جاؤ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے چنانچہ میں نے اپنا ہاتھ روک لیا۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد تازہ وضو کیا کرو۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 351، هذا حديث منسوخ
شرحبیل کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے بازار میں لٹورے کی طرح کا ایک پرندہ پکڑ لیا حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو اسے میرے ہاتھ سے لے کر چھوڑ دیا (اور وہ اڑ گیا) اور فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے دونوں کناروں کے درمیان کی جگہ کو حرام قرار دیا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شرحبيل بن سعد
حدثنا حسن بن موسى ، حدثنا ابو هلال ، حدثنا قتادة ، عن انس بن مالك ، عن زيد بن ثابت ، قال:" مررت بنبي الله صلى الله عليه وسلم وهو يتسحر ياكل تمرا، فقال: تعال فكل، فقلت: إني اريد الصوم، فقال: وانا اريد ما تريد، فاكلنا ثم قمنا إلى الصلاة، فكان بين ما اكلنا وبين ان قمنا إلى الصلاة قدر ما يقرا الرجل خمسين آية" .حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا أَبُو هِلَالٍ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ:" مَرَرْتُ بِنَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَسَحَّرُ يَأْكُلُ تَمْرًا، فَقَالَ: تَعَالَ فَكُلْ، فَقُلْتُ: إِنِّي أُرِيدُ الصَّوْمَ، فَقَالَ: وَأَنَا أُرِيدُ مَا تُرِيدُ، فَأَكَلْنَا ثُمَّ قُمْنَا إِلَى الصَّلَاةِ، فَكَانَ بَيْنَ مَا أَكَلْنَا وَبَيْنَ أَنْ قُمْنَا إِلَى الصَّلَاةِ قَدْرُ مَا يَقْرَأُ الرَّجُلُ خَمْسِينَ آيَةً" .
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سحری کھائی پھر ہم مسجد کی طرف نکلے تو نماز کھڑی ہوگئی، راوی نے پوچھا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا وقفہ تھا؟ انہوں نے بتایا کہ جتنی دیر میں آدمی پچاس آیتیں پڑھ لیتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1921، م: 1539، وهذا إسناد ضعيف، سفيان بن حسين ضعيف فى الزهري لكنه توبع
حدثنا محمد بن يزيد ، انبانا سفيان بن حسين ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا تباع ثمرة بثمرة، ولا تباع ثمرة حتى يبدو صلاحها"، قال: فلقي زيد بن ثابت، عبد الله بن عمر، فقال: رخص رسول الله صلى الله عليه وسلم في عرايا، قال سفيان: العرايا نخل كانت توهب للمساكين فلا يستطيعون ان ينتظروا بها، فيبيعونها بما شاءوا من ثمره .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَينٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تُبَاعُ ثَمَرَةٌ بِثَمْرَةٍ، وَلَا تُبَاعُ ثَمَرَةٌ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهَا"، قَالَ: فَلَقِيَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، فَقَالَ: رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَرَايَا، قَالَ سُفْيَانُ: الْعَرَايَا نَخْلٌ كَانَتْ تُوهَبُ لِلْمَسَاكِينِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يَنْتَظِرُوا بِهَا، فَيَبِيعُونَهَا بِمَا شَاءُوا مِنْ ثَمَرِهِ .
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے درختوں پر لگی ہوئی کھجور کو کٹی ہوئی کھجور کے عوض بیچنے سے منع فرمایا ہے تو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے " عرایا " میں اس کی اجازت دے دی ہے۔