حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کریم میں گیارہ سجدے کئے ہیں جن میں سورت نجم کی آیت سجدہ بھی شامل ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عمر الدمشقي، وهو منقطع بينه وبين أم الدرداء
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن تم لوگ اپنے اور اپنے باپ کے نام سے پکارے جاؤ گے لہٰذا اچھے نام رکھا کرو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، فإن عبدالله بن أبى زكريا لم يسمع من أبى الدرداء
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا انسان کی سمجھداری کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے معاشی معاملات میں میانہ روی سے چلے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبى بكر بن أبى مريم
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کسی سفر میں تھے اور گرمی کی شدت سے اپنے سر پر اپنا ہاتھ رکھتے جاتے تھے اور اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ ہم میں سے کسی کا روزہ نہ تھا۔
حدثنا وكيع , حدثنا سفيان , عن الاعمش , عن ثابت , او عن ابي ثابت , ان رجلا دخل مسجد دمشق , فقال: اللهم آنس وحشتي , وارحم غربتي , وارزقني جليسا صالحا , فسمعه ابو الدرداء , فقال: لئن كنت صادقا لانا اسعد بما قلت منك , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " فمنهم ظالم لنفسه سورة فاطر آية 32 يعني الظالم يؤخذ منه في مقامه ذلك , فذلك الهم والحزن ومنهم مقتصد سورة فاطر آية 32 قال: يحاسب حسابا يسيرا ومنهم سابق بالخيرات بإذن الله سورة فاطر آية 32 قال: الذين يدخلون الجنة بغير حساب" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنِ الْأَعْمَشِ , عَنْ ثَابِتٍ , أَوْ عَنْ أَبِي ثَابِتٍ , أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ مَسْجِدَ دِمَشْقَ , فَقَالَ: اللَّهُمَّ آنِسْ وَحْشَتِي , وَارْحَمْ غُرْبَتِي , وَارْزُقْنِي جَلِيسًا صَالِحًا , فَسَمِعَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ , فَقَالَ: لَئِنْ كُنْتَ صَادِقًا لَأَنَا أَسْعَدُ بِمَا قُلْتَ مِنْكَ , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِه سورة فاطر آية 32 يَعْنِي الظَّالِمَ يُؤْخَذُ مِنْهُ فِي مَقَامِهِ ذَلِكَ , فَذَلِكَ الْهَمُّ وَالْحَزَنُ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِد سورة فاطر آية 32 قَالَ: يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ سورة فاطر آية 32 قَال: الَّذِينَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ" .
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی مسجد دمشق میں داخل ہوا اور یہ دعا کی کہ اے اللہ! مجھے تنہائی میں کوئی مونس عطاء فرما میری اجنبیت پر ترس کھا اور مجھے اچھا رفیق عطاء فرما، حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے اس کی یہ دعاء سن لی اور فرمایا کہ تم یہ دعاء صدق دل سے کر رہے ہو تو اس دعاء کا میں تم سے زیادہ سعادت یافتہ ہوں، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم کی اس آیت " فمن ہم ظالم لنفسہ " کی تفسیر میں یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ظالم سے اس کے اعمال کا حساب کتاب اسی کے مقام پر لیا جائے گا اور یہی غم اندوہ ہوگا منہم مقتصد یعنی کچھ لوگ درمیانے درجے کے ہوں گے، ان کا آسان حساب لیا جائے گا " ومنہم سابق بالخیرات باذن اللہ " یہ وہ لوگ ہوں گے جو جنت میں بلا حساب کتاب داخل ہوجائیں گے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ثابت أو أبو ثابت مجهول، وقد اختلف فى إسناده على الأعمش
حدثنا ابو عامر , حدثنا هشام يعني ابن سعد , عن عثمان بن حيان الدمشقي , اخبرتني ام الدرداء , عن ابي الدرداء , قال:" لقد رايتنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض اسفاره في اليوم الحار الشديد الحر , حتى إن الرجل ليضع يده على راسه من شدة الحر , وما في القوم صائم إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم , وعبد الله بن رواحة" .حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ , حَدَّثَنَا هِشَامٌ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ , عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حَيَّانَ الدِّمَشْقِيِّ , أَخْبَرَتْنِي أُمُّ الدَّرْدَاءِ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , قَالَ:" لَقَدْ رَأَيْتُنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ فِي الْيَوْمِ الْحَارِّ الشَّدِيدِ الْحَرِّ , حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ لَيَضَعُ يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ من شِدَّةِ الْحَر , وَمَا فِي الْقَوْمِ صَائِمٌ إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ" .
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شدید گرمی کے سفر میں تھے اور گرمی کی شدت سے اپنے سر پر اپنا ہاتھ رکھتے جاتے تھے اور اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ ہم میں سے کسی کا روزہ نہ تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1945، م: 1122، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من اجل هشام و عثمان
حدثنا ابو معاوية , حدثنا هشام بن حسان القردوسي , عن قيس بن سعد , عن رجل حدثه , عن ابي الدرداء قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن إعطاء السلطان , قال: " ما آتاك الله منه من غير مسالة ولا إشراف , فخذه وتموله" , قال: وقال الحسن رحمه الله: لا باس بها ما لم ترحل إليها , او تشرف لها.حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ الْقُرْدُوسِيُّ , عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ , عَنْ رَجُلٍ حَدَّثَهُ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ إِعْطَاءِ السُّلْطَانِ , قَالَ: " مَا آتَاكَ اللَّهُ مِنْهُ مِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ وَلَا إِشْرَافٍ , فَخُذْهُ وَتَمَوَّلْهُ" , قَالَ: وَقَالَ الْحَسَنُ رَحِمَهُ اللَّهُ: لَا بَأْسَ بِهَا مَا لَمْ تَرْحَلْ إِلَيْهَا , أَوْ تَشَرَّفْ لَهَا.
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کسی شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ بادشاہ کی عطاء و بخشش لینے کا کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بن مانگے اور بن خواہش اللہ تعالیٰ تمہیں جو کچھ عطاء فرما دے اسے لے لیا کرو اور اس سے تم مول حاصل کیا کرو؟
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الرجل عن أبى الدرداء
حدثنا حدثنا ابو معاوية , حدثنا الاعمش , عن سالم , عن ام الدرداء , قالت: دخل عليها يوما ابو الدرداء مغضبا , فقالت: ما لك؟ فقال: " والله ما اعرف فيهم شيئا من امر محمد صلى الله عليه وسلم إلا انهم يصلون جميعا" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ سَالِمٍ , عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ , قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيْهَا يَوْمًا أَبُو الدَّرْدَاءِ مُغْضَبًا , فَقَالَتْ: مَا لَكَ؟ فقَال: " وَاللَّهِ مَا أَعْرِفُ فِيهِمْ شَيْئًا مِنْ أَمْرِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا أَنَّهُمْ يُصَلُّونَ جَمِيعًا" .
حضرت ام درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے تو نہایت غصے کی حالت میں تھے انہوں نے وجہ پوچھی تو فرمانے لگے کہ بخدا! میں لوگوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی تعلیم نہیں دیکھ رہا، اب تو صرف اتنی بات رہ گئی ہے کہ وہ اکٹھے ہو کر نماز پڑھ لیتے ہیں۔
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قے آگئی جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا روزہ ختم کردیا راوی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوگئی تو میں نے ان سے بھی اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وضو کا پانی ڈال رہا تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وقد اختلف فى إسناده، والخلاف كله يدور على الثقات
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں تمہارے مالک کی نگاہوں میں سب سے بہتر عمل " جو درجات میں سب سے زیادہ بلندی کا سبب ہو تمہارے لئے سونے چاندی خرچ کرنے سے بہتر ہو اور اس سے بہتر ہو کہ میدان جنگ میں دشمن سے تمہارا آمنا سامنا ہو اور تم ان کی گردنیں اڑاؤ اور وہ تمہاری گردنیں اڑائیں " نہ بتادو؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ! وہ کون سا عمل ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ذکر۔
حكم دارالسلام: رفعه لا يصح، والصحيح وقفه على ابي الدرداء، فقد اختلف فى رفعه ووقفه، وفي ارساله ووصله
حدثنا يحيى , عن شعبة , عن يزيد بن خمير , عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير , عن ابيه , عن ابي الدرداء , ان النبي صلى الله عليه وسلم راى امراة مجحا على باب فسطاط , او طرف فسطاط , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لعل صاحبها يلم بها" , قالوا: نعم , قال:" لقد هممت ان العنه لعنة تدخل معه في قبره , كيف يورثه وهو لا يحل له؟! وكيف يستخدمها وهو لا يحل له؟! .حَدَّثَنَا يَحْيَى , عَنْ شُعْبَةَ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُمَيْرٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى امْرَأَةً مُجِحًّا عَلَى بَابِ فُسْطَاطٍ , أَوْ طَرَفِ فُسْطَاطٍ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَعَلَّ صَاحِبَهَا يُلِمُّ بِهَا" , قَالُوا: نَعَمْ , قَالَ:" لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَلْعَنَهُ لَعْنَةً تَدْخُلُ مَعَهُ فِي قَبْرِهِ , كَيْفَ يُوَرِّثُهُ وَهُوَ لَا يَحِلُّ لَهُ؟! وَكَيْفَ يَسْتَخْدِمُهَا وَهُوَ لَا يَحِلُّ لَهُ؟! .
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خیمے کے باہر ایک عورت کو دیکھا جس کے یہاں بچے کی پیدائش کا زمانہ قریب آچکا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لگتا ہے کہ اس کا مالک اس کے "" قریب "" جانا چاہتا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا جی ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا دل چاہتا ہے کہ اس پر ایسی لعنت کروں جو اس کے ساتھ اس کی قبر تک جائے یہ اسے کیسے اپنا وارث بنا سکتا ہے جب کہ یہ اس کے لئے حلال ہی نہیں اور کیسے اس سے خدمت لے سکتا ہے جبکہ یہ اس کے لئے حلال ہی نہیں۔
حدثنا عفان , حدثنا وهيب , حدثنا موسى بن عقبة , حدثني زياد بن ابي زياد , حديثا يرفعه إلى ابي الدرداء , يرفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الا انبئكم بخير اعمالكم" فذكر الحديث يعني حديث يحيى بن سعيد , ومكي , عن عبد الله بن سعيد , عن زياد بن ابي زياد.حَدَّثَنَا عَفَّانُ , حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ , حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ , حَدَّثَنِي زِيَادُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ , حَدِيثًا يَرْفَعُهُ إِلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ , يَرْفَعُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرِ أَعْمَالِكُمْ" فَذَكَرَ الْحَدِيث يَعْنِي حَدِيثَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ , وَمَكِّيٍّ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ , عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، زياد بن أبى زياد لم يسمع من أبى الدرداء
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کیا تم ایک رات میں تہائی قرآن پڑہنے سے عاجز ہو؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ بات بہت مشکل معلوم ہوئی اور وہ کہنے لگے کہ اس کی طاقت کس کے پاس ہوگی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورت اخلاص پڑھ لیا کرو (کہ وہ ایک تہائی قرآن کے برابر ہے)
عبداللہ بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے گوہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اسے مکروہ قرار دیا، میں نے ان سے کہا کہ آپ کی قوم تو اسے کھاتی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ انہیں معلوم نہیں ہوگا اس پر وہاں موجود ایک آدمی نے کہا کہ میں نے حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سنی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس جانور سے منع فرمایا ہے جو لوٹ مار سے حاصل ہو جسے اچک لیا گیا ہو یا ہر وہ درندہ جو اپنے کچلی والے دانتوں سے شکار کرتا ہو حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے اس کی تصدیق فرمائی۔
حكم دارالسلام: المرفوع منه صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عبدالله بن يزيد وإبهام الرجل الذى روى الحديث عن أبى الدرداء
حدثنا ابن نمير , حدثنا عبد الملك , عن عطاء , عن صفوان بن عبد الله بن صفوان , قال: وكانت تحته الدرداء , قال: اتيت الشام , فدخلت على ابي الدرداء فلم اجده , ووجدت ام الدرداء , فقالت: تريد الحج العام؟ قال: قلت: نعم , فقالت: فادع لنا بخير , فإن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقول: " إن دعوة المسلم مستجابة لاخيه بظهر الغيب , عند راسه ملك موكل , كلما دعا لاخيه بخير قال: آمين , ولك بمثل" , فخرجت إلى السوق , فالقى ابا الدرداء , فقال لي مثل ذلك ياثره عن النبي صلى الله عليه وسلم. حدثنا يزيد بن هارون , ويعلى , قالا: حدثنا عبد الملك , عن ابي الزبير , عن صفوان , قال يزيد بن عبد الله فذكره.حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ , عَنْ عَطَاءٍ , عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ , قَالَ: وَكَانَتْ تَحْتَهُ الدَّرْدَاءُ , قَالَ: أَتَيْتُ الشَّامَ , فَدَخَلْتُ عَلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ فَلَمْ أَجِدْهُ , وَوَجَدْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ , فَقَالَتْ: تُرِيدُ الْحَجَّ الْعَامَ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ , فَقَالَتْ: فَادْعُ لَنَا بِخَيْرٍ , فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: " إِنَّ دَعْوَةَ الْمُسْلِمِ مُسْتَجَابَةٌ لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ , عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ , كُلَّمَا دَعَا لِأَخِيهِ بِخَيْرٍ قَالَ: آمِينَ , وَلَكَ بِمِثْل" , فَخَرَجْتُ إِلَى السُّوقِ , فَأَلْقَى أَبَا الدَّرْدَاءِ , فَقَالَ لِي مِثْلَ ذَلِكَ يَأْثُرُهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , وَيَعْلَى , قَالَا: حدثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ , عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ , عَنْ صَفْوَانَ , قَالَ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ فَذَكَرَهُ.
صفوان بن عبداللہ " جن کے نکاح میں " درداء تھیں " کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں شام آیا اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا لیکن وہ گھر پر نہیں ملے البتہ ان کی اہلیہ موجود تھیں، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا اس سال تمہارا حج کا ارادہ ہے؟ میں نے اثبات میں جواب دیا، انہوں نے فرمایا کہ ہمارے لئے بھی خیر کی دعاء کرنا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ مسلمان اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اس کی پیٹھ پیچھے جو دعاء کرتا ہے وہ قبول ہوتی ہے اور اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ اس مقصد کے لئے مقرر ہوتا ہے کہ جب بھی وہ اپنے بھائی کے لئے خیر کی دعاء مانگے تو وہ اس پر آمین کہتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ تمہیں بھی یہی نصیب ہو۔
پھر میں بازار کی طرف نکلا تو حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے بھی ملاقات ہوگئی انہوں نے بھی مجھ سے یہی کہا اور یہی حدیث انہوں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے سنائی۔
حدثنا يزيد بن هارون ويعلى قالا: حدثنا عبد الملك عن ابي الزبير عن صفوان قال يزيد بن عبد الله فذكرهحَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ وَيَعْلَى قَالَا: حدثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ صَفْوَانَ قَالَ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ فَذَكَرَهُ
حدثنا ابن نمير , حدثنا مالك يعني ابن مغول , عن الحكم , عن ابي عمر , عن ابي الدرداء , قال: نزل بابي الدرداء رجل , فقال ابو الدرداء: مقيم فنسرح , ام ظاعن فنعلف؟ قال: بل ظاعن , قال: فإني سازودك زادا لو اجد ما هو افضل منه لزودتك , اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقلت: يا رسول الله , ذهب الاغنياء بالدنيا والآخرة , نصلي ويصلون , ونصوم ويصومون , ويتصدقون ولا نتصدق , قال: " الا ادلك على شيء إن انت فعلته , لم يسبقك احد كان قبلك , ولم يدركك احد بعدك , إلا من فعل الذي تفعل: دبر كل صلاة ثلاثا وثلاثين تسبيحة , وثلاثا وثلاثين تحميدة , واربعا وثلاثين تكبيرة" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا مَالِك يَعْنِي ابْنَ مِغْوَلٍ , عَنِ الْحَكَمِ , عَنْ أَبِي عُمَرَ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , قَالَ: نَزَلَ بِأَبِي الدَّرْدَاءِ رَجُلٌ , فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: مُقِيمٌ فَنَسْرَحَ , أَمْ ظَاعِنٌ فَنَعْلِفَ؟ قَالَ: بَلْ ظَاعِنٌ , قَالَ: فَإِنِّي سَأُزَوِّدُكَ زَادًا لَوْ أَجِدُ مَا هُوَ أَفْضَلُ مِنْهُ لَزَوَّدْتُكَ , أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , ذَهَبَ الْأَغْنِيَاءُ بِالدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ , نُصَلِّي وَيُصَلُّونَ , وَنَصُومُ وَيَصُومُونَ , وَيَتَصَدَّقُونَ وَلَا نَتَصَدَّقُ , قَالَ: " أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى شَيْءٍ إِنْ أَنْتَ فَعَلْتَهُ , لَمْ يَسْبِقْكَ أَحَدٌ كَانَ قَبْلَكَ , وَلَمْ يُدْرِكْكَ أَحَدٌ بَعْدَكَ , إِلَّا مَنْ فَعَلَ الَّذِي تَفْعَلُ: دُبُرَ كُلِّ صَلَاةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَسْبِيحَةً , وَثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَحْمِيدَةً , وَأَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ تَكْبِيرَةً" .
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی ان کے یہاں آیا انہوں نے پوچھا کہ تم مقیم ہو کہ ہم تمہارے ساتھ اچھا سلوک کریں یا مسافر ہو کہ تمہیں زاد راہ دیں؟ اس نے کہا کہ میں مسافر ہوں، انہوں نے فرمایا میں تمہیں ایک ایسی چیز زاد راہ کے طور پر دیتا ہوں جس سے افضل اگر کوئی چیز مجھے ملتی تو میں تمہیں وہی دیتا، ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! مالدار تو دنیا و آخرت دونوں لے گئے ہم بھی نماز پڑھتے ہیں اور وہ بھی پڑھتے ہیں، ہم بھی روزے رکھتے ہیں اور وہ بھی رکھتے ہیں، البتہ وہ صدقہ کرتے ہیں اور ہم صدقہ نہیں کرسکتے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتادوں کہ اگر تم اس پر عمل کرلو تو تم سے پہلے والا کوئی تم سے آگے نہ بڑھ سکے اور پیچھے والا تمہیں پا نہ سکے الاّ یہ کہ کوئی آدمی تمہاری ہی طرح عمل کرنے لگے ہر نماز کے بعد ٣٣ مرتبہ سبحان اللہ، ٣٣ مرتبہ الحمد اور ٣٤ مرتبہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو۔
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف، أبو عمر مستور، وروايته
معدان بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے مجھ سے پوچھا کہ تمہاری رہائش کہاں ہے؟ میں نے بتایا کہ حمص سے پیچھے ایک بستی میں انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس بستی میں تین آدمی ہوں اور وہاں اذان اور اقامت نماز نہ ہوتی ہو تو ان پر شیطان غالب آجاتا ہے، لہٰذا تم جماعت مسلمین کو اپنے اوپر لازم پکڑو کیونکہ اکیلی بکری کو بھیڑیا کھا جاتا ہے۔
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص سورت کہف کی ابتدائی دس آیات یاد کرلے وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔
حدثنا محمد بن يزيد , اخبرنا عاصم بن رجاء بن حيوة , عن قيس بن كثير , قال: قدم رجل من المدينة إلى ابي الدرداء وهو بدمشق , فقال: ما اقدمك اي اخي؟ قال: حديث بلغني انك تحدث به عن رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: اما قدمت لتجارة؟ قال: لا , قال: اما قدمت لحاجة؟ قال: لا , قال: ما قدمت إلا في طلب هذا الحديث؟ قال: نعم , قال: فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من سلك طريقا يطلب فيه علما سلك الله به طريقا إلى الجنة , وإن الملائكة لتضع اجنحتها رضا لطالب العلم , وإنه ليستغفر للعالم من في السموات والارض , حتى الحيتان في الماء , وفضل العالم على العابد , كفضل القمر على سائر الكواكب , إن العلماء هم ورثة الانبياء , لم يرثوا دينارا ولا درهما , وإنما ورثوا العلم , فمن اخذ به , اخذ بحظ وافر" ..حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ , أخبرنا عَاصِمُ بْنُ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ , عَنْ قَيْسِ بْنِ كَثِيرٍ , قَالَ: قَدِمَ رَجُلٌ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ وَهُوَ بِدِمَشْقَ , فَقَالَ: مَا أَقْدَمَكَ أَيْ أَخِي؟ قَالَ: حَدِيثٌ بَلَغَنِي أَنَّكَ تُحَدِّثُ بِهِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: أَمَا قَدِمْتَ لِتِجَارَةٍ؟ قَالَ: لَا , قَالَ: أَمَا قَدِمْتَ لِحَاجَةٍ؟ قَالَ: لَا , قَالَ: مَا قَدِمْتَ إِلَّا فِي طَلَبِ هَذَا الْحَدِيثِ؟ قَالَ: نَعَمْ , قَالَ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ , وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ , وَإِنَّهُ لَيَسْتَغْفِرُ لِلْعَالِمِ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ , حَتَّى الْحِيتَانُ فِي الْمَاءِ , وَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ , كَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ , إِنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ , لَمْ يَرِثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا , وَإِنَّمَا وَرِثُوا الْعِلْمَ , فَمَنْ أَخَذ به , أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ" ..
قیس بن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ سے ایک آدمی حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کے پاس دمشق میں آیا انہوں نے آنے والے سے پوچھا کہ بھائی! کیسے آنا ہوا؟ اس نے کہا کہ ایک حدیث معلوم کرنے کے لئے جس کے متعلق مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ وہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے پوچھا کیا آپ کسی تجارت کے سلسلے میں نہیں آئے؟ اس نے کہا نہیں انہوں نے پوچھا کسی اور کام کے لئے؟ اس نے کہا نہیں، انہوں نے پوچھا کیا آپ صرف اسی حدیث کے طلب میں آئے ہیں؟ اس نے کہا جی ہاں، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص طلب علم کے لئے کسی راستے میں چلتا ہے اللہ اسے جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے اور فرشتے اس طالب علم کی خوشنودی کے لئے اپنے پر بچھا دیتے ہیں اور عالم کے لئے زمین و آسمان کی ساری مخلوقات بخشش کی دعائیں کرتی ہیں اور عالم کی عابد پر فضیلت ایسے ہی ہے جیسے چاند کی دوسرے ستاروں پر، بیشک علماء انبیاء کرام کے وارث ہوتے ہیں جو وراثت میں دینار و درہم نہیں چھوڑتے، بلکہ وہ تو وراثت میں علم چھوڑ کر جاتے ہیں، سو جو اسے حاصل کرلیتا ہے وہ اس کا بہت سا حصہ حاصل کرلیتا ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف قيس بن كثير ، وعاصم بن رجاء لم سمعه من قيس
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن عطاء بن السائب , قال: سمعت ابا عبد الرحمن السلمي يحدث ان رجلا امرته امه , او ابوه , او كلاهما , قال: شعبة يقول ذلك ان يطلق امراته , فجعل عليه مائة محرر , فاتى ابا الدرداء , فإذا هو يصلي الضحى يطيلها , وصلى ما بين الظهر والعصر , فساله , فقال له ابو الدرداء : اوف نذرك , وبر والديك , إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " الوالد اوسط باب الجنة" فحافظ على الوالد , او اترك.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيَّ يُحَدِّثُ أَنَّ رَجُلًا أَمَرَتْهُ أُمُّهُ , أَوْ أَبُوهُ , أَوْ كِلَاهُمَا , قَالَ: شُعْبَةُ يَقُولُ ذَلِكَ أَنْ يُطَلِّقَ امْرَأَتَهُ , فَجَعَلَ عَلَيْهِ مِائَةَ مُحَرَّر , فَأَتَى أَبَا الدَّرْدَاءِ , فَإِذَا هُوَ يُصَلِّي الضُّحَى يطيلها , وَصَلَّى مَا بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ , فَسَأَلَهُ , فَقَالَ لَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ : أَوْفِ نَذْرَكَ , وَبَرَّ وَالِدَيْكَ , إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الْوَالِدُ أَوْسَطُ بَابِ الْجَنَّةِ" فَحَافِظْ عَلَى الْوَالِدِ , أَوْ اتْرُكْ.
ایک آدمی کو اس کی ماں یا باپ یا دونوں نے حکم دیا کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے (اس نے انکار کردیا اور) کہا کہ اگر اس نے اپنی بیوی کو طلاق دی تو اس پر سو غلام آزاد کرنا واجب ہوں گے، پھر وہ آدمی حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو وہ چاشت کی لمبی نماز پڑھ رہے تھے پھر انہوں نے ظہر اور عصر کے درمیان نماز پڑھی پھر اس شخص نے ان سے یہ مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا اپنی منت پوری کرلو (سو غلام آزاد کردو) اور اپنے والدین کی بات مانو کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ باپ جنت کا درمیانہ دروازہ ہے اب تمہاری مرضی ہے کہ اس کی حفاظت کرو یا اسے چھوڑ دو۔
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن عطاء بن السائب , قال: سمعت ابا إسحاق يحدث , انه سمع ابا حبيبة , قال: اوصى رجل بدنانير في سبيل الله , فسئل ابو الدرداء , فحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: " مثل الذي يعتق او يتصدق عند موته , مثل الذي يهدي بعدما يشبع" , قال ابو حبيبة: فاصابني من ذلك شيء.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عن عطاء بن السائب , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ يُحَدِّثُ , أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا حَبِيبَةَ , قَالَ: أَوْصَى رَجُلٌ بِدَنَانِيرَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ , فَسُئِلَ أَبُو الدَّرْدَاءِ , فَحَدَّثَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " مَثَلُ الَّذِي يُعْتِقُ أَوْ يَتَصَدَّقُ عِنْدَ مَوْتِهِ , مَثَلُ الَّذِي يُهْدِي بَعْدَمَا يَشْبَعُ" , قَالَ أَبُو حَبِيبَةَ: فَأَصَابَنِي مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ.
ابو حبیبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے مرتے وقت اپنے مال میں سے کچھ دینا اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کی وصیت کی حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ جو شخص مرتے وقت کسی غلام کو آزاد کرتا یا صدقہ خیرات کرتا ہے اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو خوب سیراب ہونے کے بعد بچ جانے والی چیز کو ہدیہ کر دے۔
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي , عن سفيان , عن ابي إسحاق , عن ابي حبيبة الطائي , قال: اوصى إلي اخي بطائفة من ماله , قال: فلقيت ابا الدرداء , فقلت: إن اخي اوصاني بطائفة من ماله , فاين اضعه , في الفقراء , او في المجاهدين , او في المساكين؟ قال: اما انا فلو كنت لم اعدل بالمجاهدين , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " مثل الذي يعتق عند الموت مثل الذي يهدي إذا شبع" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ , عَنْ سُفْيَانَ , عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ , عَنْ أَبِي حَبِيبَةَ الطَّائِيِّ , قَالَ: أَوْصَى إِلَيَّ أَخِي بِطَائِفَةٍ مِنْ مَالِهِ , قَالَ: فَلَقِيتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ , فَقُلْتُ: إِنَّ أَخِي أَوْصَانِي بِطَائِفَةٍ مِنْ مَالِهِ , فَأَيْنَ أَضَعُهُ , فِي الْفُقَرَاءِ , أَوْ فِي الْمُجَاهِدِينَ , أَوْ فِي الْمَسَاكِينَ؟ قَالَ: أَمَّا أَنَا فَلَوْ كُنْتُ لَمْ أَعْدِلْ بِالْمُجَاهِدِينَ , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَثَلُ الَّذِي يُعْتِقُ عِنْدَ الْمَوْتِ مَثَلُ الَّذِي يُهْدِي إِذَا شَبِعَ" .
ابو حبیبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے مرتے وقت اپنے مال میں سے کچھ دینار اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کی وصیت کی حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ جو شخص مرتے وقت کسی غلام کو آزاد کرتا یا صدقہ خیرات کرتا ہے اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو خوب سیراب ہونے کے بعد بچ جانے والی چیز کو ہدیہ کر دے۔
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! کیا ہر نماز میں قرأت ہوتی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! تو ایک انصاری نے کہا کہ یہ تو واجب ہوگئی۔
حدثنا عبد الرحمن , حدثنا همام , عن قتادة , عن خليد العصري , عن ابي الدرداء , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما طلعت شمس قط إلا بعث بجنبتيها ملكان يناديان , يسمعان اهل الارض إلا الثقلين: يا ايها الناس هلموا إلى ربكم , فإن ما قل وكفى خير مما كثر والهى , ولا آبت شمس قط إلا بعث بجنبتيها ملكان يناديان , يسمعان اهل الارض إلا الثقلين: اللهم اعط منفقا خلفا , واعط ممسكا مالا تلفا" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ , حَدَّثَنَا هِمامٌ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ خُلَيْدٍ الْعَصَرِيِّ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا طَلَعَتْ شَمْسٌ قَطُّ إِلَّا بُعِثَ بِجَنْبَتَيْهَا مَلَكَانِ يُنَادِيَانِ , يُسْمِعَانِ أَهْلَ الْأَرْضِ إِلَّا الثَّقَلَيْنِ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ هَلُمُّوا إِلَى رَبِّكُمْ , فَإِنَّ مَا قَلَّ وَكَفَى خَيْرٌ مِمَّا كَثُرَ وَأَلْهَى , وَلَا آبَتْ شَمْسٌ قَطُّ إِلَّا بُعِثَ بِجَنْبَتَيْهَا مَلَكَانِ يُنَادِيَانِ , يُسْمِعَانِ أَهْلَ الْأَرْضِ إِلَّا الثَّقَلَيْنِ: اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا , وَأَعْطِ مُمْسِكًا مَالًا تَلَفًا" .
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب بھی سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کے دونوں پہلوؤں میں دو فرشتے بھیجے جاتے ہیں جو یہ منادی کرتے ہیں " اور اس منادی کو جن وانس کے علاوہ تمام اہل زمین سنتے ہیں " کہ اے لوگو! اپنے رب کی طرف آؤ کیونکہ وہ تھوڑا جو کافی ہوجائے، اس زیادہ سے بہتر ہے جو غفلت میں ڈال دے اسی طرح جب بھی سورج غروب ہوتا ہے تو اس کے دونوں پہلوؤں میں دو فرشتے بھیجے جاتے ہیں جو یہ منادی کرتے ہیں اور اس منادی کو بھی جن وانس کے علاوہ تمام اہل زمین سنتے ہیں " کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا نعم البدل عطاء فرما اور اے اللہ! روک کر رکھنے والے کے مال کو ہلاک فرما۔
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ ہر بندے کی تخلیق میں پانچ چیزیں لکھ چکا ہے اس کی عمر، عمل، ٹھکانہ اثر اور اس کا رزق۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف الفرج بن فضالة، وقد توبع
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر بندے کی تخلیق میں پانچ چیزیں لکھ چکا ہے اس کی عمر، عمل، اثر اور اس کا رزق اور یہ کہ وہ شقی ہوگا یا سعید۔
حدثنا ابو النضر , حدثنا عبد الحميد بن بهرام , حدثنا شهر بن حوشب , حدثنا عبد الرحمن بن غنم , انه زار ابا الدرداء بحمص , فمكث عنده ليالي , فامر بحماره فاوكف , فقال ابو الدرداء: ما اراني إلا متبعك , فامر بحماره , فاسرج فسارا جميعا على حماريهما , فلقيا رجلا شهد الجمعة بالامس عند معاوية بالجابية , فعرفهما الرجل ولم يعرفاه , فاخبرهما خبر الناس , ثم إن الرجل قال: وخبر آخر كرهت ان اخبركما , اراكما تكرهانه , فقال ابو الدرداء: فلعل ابا ذر نفي , قال: نعم , والله فاسترجع ابو الدرداء وصاحبه قريبا من عشر مرات , ثم قال ابو الدرداء : ارتقبهم واصطبر كما قيل لاصحاب الناقة , اللهم إن كذبوا ابا ذر فإني لا اكذبه , اللهم وإن اتهموه فإني لا اتهمه , اللهم وإن استغشوه فإني لا استغشه , فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ياتمنه حين لا ياتمن احدا , ويسر إليه حين لا يسر إلى احد , اما والذي نفس ابي الدرداء بيده , لو ان ابا ذر قطع يميني ما ابغضته بعد الذي سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ما اظلت الخضراء , ولا اقلت الغبراء من ذي لهجة اصدق من ابي ذر" .حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ بَهْرَامٍ , حَدَّثَنَا شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ غَنْمٍ , أَنَّهُ زَارَ أَبَا الدَّرْدَاءِ بِحِمْصَ , فَمَكَثَ عِنْدَهُ لَيَالِيَ , فأَمَرَ بِحِمَارِهِ فَأُوكِفَ , فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: مَا أَرَانِي إِلَّا مُتَّبِعَكَ , فَأَمَرَ بِحِمَارِهِ , فَأُسْرِجَ فَسَارَا جَمِيعًا عَلَى حِمَارَيْهِمَا , فَلَقِيَا رَجُلًا شَهِدَ الْجُمُعَةَ بِالْأَمْسِ عِنْدَ مُعَاوِيَةَ بِالْجَابِيَةِ , فَعَرَفَهُمَا الرَّجُلُ وَلَمْ يَعْرِفَاهُ , فَأَخْبَرَهُمَا خَبَرَ النَّاسِ , ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ قَالَ: وَخَبَرٌ آخَرُ كَرِهْتُ أَنْ أُخْبِرَكُمَا , أُرَاكُمَا تَكْرَهَانِهِ , فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: فَلَعَلَّ أَبَا ذَرٍّ نُفِيَ , قَالَ: نَعَمْ , وَاللَّهِ فَاسْتَرْجَعَ أَبُو الدَّرْدَاءِ وَصَاحِبُهُ قَرِيبًا مِنْ عَشْرِ مَرَّاتٍ , ثُمَّ قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ : ارْتَقِبْهُمْ وَاصْطَبِرْ كَمَا قِيلَ لِأَصْحَابِ النَّاقَةِ , اللَّهُمَّ إِنْ كَذَّبُوا أَبَا ذَرٍّ فَإِنِّي لَا أُكَذِّبُهُ , اللَّهُمَّ وَإِنْ اتَّهَمُوهُ فَإِنِّي لَا أَتَّهِمُهُ , اللَّهُمَّ وَإِنْ اسْتَغَشُّوهُ فَإِنِّي لَا أَسْتَغِشُّهُ , فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْتَمِنُهُ حِينَ لَا يَأْتَمِنُ أَحَدًا , وَيُسِرُّ إِلَيْهِ حِينَ لَا يُسِرُّ إِلَى أَحَدٍ , أَمَا وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي الدَّرْدَاءِ بِيَدِهِ , لَوْ أَنَّ أَبَا ذَرٍّ قَطَعَ يَمِينِي مَا أَبْغَضْتُهُ بَعْدَ الَّذِي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَا أَظَلَّتْ الْخَضْرَاءُ , وَلَا أَقَلَّتْ الْغَبْرَاءُ مِنْ ذِي لَهْجَةٍ أَصْدَقَ مِنْ أَبِي ذَرٍّ" .
عبدالرحمن بن غنم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لئے " حمص " گئے اور چند دن تک ان کے یہاں قیام کیا پھر حکم دیا تو ان کے گدھے پر پلان لگا دیا گیا، حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں بھی تمہارے ساتھ ہی چلوں گا، چنانچہ ان کے حکم پر ان کے گدھے پر بھی زین کس دی گئی اور وہ دونوں اپنی اپنی سواری پر سوار ہو کر چل پڑے، راستے میں انہیں ایک آدمی ملا جس نے گزشتہ دن جمعے کی نماز حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جابیہ میں پڑھی تھی، اس نے ان دونوں کو پہچان لیا لیکن وہ دونوں اسے نہ پہچان سکے، اس نے انہیں وہاں کے لوگوں کے حالات بتائے پھر کہنے لگا کہ ایک خبر اور بھی ہے لیکن وہ آپ کو بتانا مجھے اچھا محسوس نہیں ہو رہا ہے کیونکہ میرا خیال ہے کہ اس سے آپ کی طبیعت پر بوجھ ہوگا حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا شاید حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو جلا وطن کردیا گیا ہو؟ اس نے کہا جی ہاں! یہی خبر ہے۔
اس پر حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی نے تقریباً دس مرتبہ " انا للہ " پڑھا پھر حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم اسی طرح انتظار اور صبر کرو جیسے اونٹنی والوں (قوم ثمود) سے کہا گیا تھا اے اللہ! اگر یہ لوگ ابوذر کو جھٹلا رہے ہیں تو میں ابوذر کو جھٹلانے والوں میں شامل نہیں ہوں، اے اللہ! اگر وہ تہمت لگا رہے ہیں تو میں انہیں متہم نہیں کرتا، اے اللہ اگر وہ ان پر چھا رہے ہیں تو میں ایسا نہیں کر رہا، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت انہیں امین قرار دیتے تھے جب کسی کو امین قرار نہیں دیتے تھے اس وقت ان کے پاس خود چل کر جاتے تھے جب کسی کے پاس نہیں جاتے تھے اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں ابودرداء رضی اللہ عنہ کی جان ہے اگر ابوذر میرا داہنا ہاتھ بھی کاٹ دیں تو میں ان سے کبھی بغض نہیں کروں گا کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے آسمان کے سایہ تلے اور روئے زمین پر ابوذر رضی اللہ عنہ زیادہ سچا آدمی کوئی نہیں ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شهر بن حوشب، والمرفوع فى آخره حسن لغيره
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا شہر غوطہ میں جنگ کے موقع پر مسلمانوں کا خیمہ (مرکز) " دمشق " نامی شہر کے پہلو میں ہوگا۔
حدثنا حسين بن محمد , حدثنا شريك , عن عطاء , عن ابي عبد الرحمن السلمي , قال: اتى رجل ابا الدرداء , فقال: إن امراتي بنت عمي وانا احبها , وإن والدتي تامرني ان اطلقها , فقال: لا آمرك ان تطلقها , ولا آمرك ان تعصي والدتك , ولكن احدثك حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إن الوالدة اوسط ابواب الجنة" فإن شئت فامسك , وإن شئت فدع.حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا شَرِيكٌ , عَنْ عَطَاءٍ , عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ , قَالَ: أَتَى رَجُلٌ أَبَا الدَّرْدَاءِ , فَقَالَ: إِنَّ امْرَأَتِي بِنْتُ عَمِّي وَأَنَا أُحِبُّهَا , وَإِنَّ وَالِدَتِي تَأْمُرُنِي أَنْ أُطَلِّقَهَا , فَقَالَ: لَا آمُرُكَ أَنْ تُطَلِّقَهَا , وَلَا آمُرُكَ أَنْ تَعْصِيَ وَالِدَتَكَ , وَلَكِنْ أُحَدِّثُكَ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ الْوَالِدَةَ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ" فَإِنْ شِئْتَ فَأَمْسِكْ , وَإِنْ شِئْتَ فَدَعْ.
ابوعبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میری بیوی میرے چچا کی بیٹی ہے مجھے اس سے بڑی محبت ہے لیکن میری والدہ مجھے حکم دیتی ہے کہ میں اسے طلاق دے دوں؟ انہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں اس کا حکم دیتا ہوں کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو اور نہ یہ کہ اپنی والدہ کی نافرمانی کرو البتہ میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے کہ والدہ جنت کا درمیانہ دروازہ ہے اب تم چاہو تو اسے روک کر رکھو اور چاہو تو چھوڑ دو۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك، وقد توبع
حدثنا إسحاق بن عيسى , حدثني انس بن عياض الليثي ابو ضمرة , عن موسى بن عقبة , عن علي بن عبد الله الازدي , عن ابي الدرداء , قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " قال الله عز وجل: ثم اورثنا الكتاب الذين اصطفينا من عبادنا فمنهم ظالم لنفسه ومنهم مقتصد ومنهم سابق بالخيرات بإذن الله سورة فاطر آية 32 فاما الذين سبقوا بالخيرات , فاولئك الذين يدخلون الجنة بغير حساب , واما الذين اقتصدوا , فاولئك يحاسبون حسابا يسيرا , واما الذين ظلموا انفسهم , فاولئك الذين يحاسبون في طول المحشر , ثم هم الذين تلافاهم الله برحمته , فهم الذين يقولون: الحمد لله الذي اذهب عنا الحزن إن ربنا لغفور شكور إلى قوله لغوب سورة فاطر آية 34 - 35" .حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى , حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ اللَّيْثِيُّ أَبُو ضَمْرَةَ , عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ , عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَزْدِيِّ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ سورة فاطر آية 32 فَأَمَّا الَّذِينَ سَبَقُوا بِالْخَيْرَاتِ , فَأُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ , وَأَمَّا الَّذِينَ اقْتَصَدُوا , فَأُولَئِكَ يُحَاسَبُونَ حِسَابًا يَسِيرًا , وَأَمَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ , فَأُولَئِكَ الَّذِينَ يُحاَسبُونَ فِي طُولِ الْمَحْشَرِ , ثُمَّ هُمْ الَّذِينَ تَلَافَاهُمْ اللَّهُ بِرَحْمَتِهِ , فَهُمْ الَّذِينَ يَقُولُونَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌ إِلَى قَوْلِهِ لُغُوبٌ سورة فاطر آية 34 - 35" .
ثابت یا ابوثابت سے مروی ہے کہ ایک آدمی مسجد دمشق میں داخل ہوا اور یہ دعاء کی کہ اے اللہ! مجھے تنہائی میں کوئی مونس عطاء فرما میری اجنبیت پر ترس کھا اور مجھے اچھا رفیق عطاء فرما، حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے اس کی یہ دعاء سن لی اور فرمایا کہ تم یہ دعاء صدق دل سے کر رہے ہو تو اس دعاء کا میں تم سے زیادہ سعادت یافتہ ہوں، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم کی اس آیت فمنہم ظالم لنفسہ کی تفسیر میں یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ظالم سے اس کے اعمال کا حساب کتاب اسی کے مقام پر لیا جائے گا اور یہی غم اندوہ ہوگا منہم مقتصد یعنی کچھ لوگ درمیانے درجے کے ہوں گے، ان کا آسان حساب لیا جائے گا ومنہم سابق بالخیرات باذن اللہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو جنت میں بلاحساب کتاب داخل ہوجائیں گے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه بين على بن عبدالله وأبي الدرداء
حضرت انس جہنی رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کے یہاں آئے تو انہیں دعاء دی کہ اللہ آپ کو ہر مرض سے بچا کر صحت کے ساتھ رکھے حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مسلمان آدمی سر درد اور دیگر بیماریوں میں مسلسل مبتلا ہوتا رہتا ہے اور اس کے گناہ احد پہاڑ کے برابر ہوتے ہیں لیکن یہ بیماریاں اسے اس وقت چھوڑتی ہیں جب اس پر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی گناہ نہیں رہتے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة سيئ الحفظ، وقد انقلب عليه اسم الراوي معاذ بن سهل، ثم زاد فيه: عن جده، وهو خطأ، وصوابه: سهل بن معاذ، عن أبيه
حدثنا مكي بن إبراهيم , حدثنا عبد الله بن سعيد , عن حرب بن قيس , عن ابي الدرداء , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من اغتسل يوم الجمعة , ولبس ثيابه , ومس طيبا إن كان عنده , ثم مشى إلى الجمعة وعليه السكينة , ولم يتخط احدا , ولم يؤذه , وركع ما قضي له , ثم انتظر حتى ينصرف الإمام , غفر له ما بين الجمعتين" .حَدَّثَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ حَرْبِ بْنِ قَيْسٍ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ , وَلَبِسَ ثِيَابَهُ , وَمَسَّ طِيبًا إِنْ كَانَ عِنْدَهُ , ثُمَّ مَشَى إِلَى الْجُمُعَةِ وَعَلَيْهِ السَّكِينَةُ , وَلَمْ يَتَخَطَّ أَحَدًا , وَلَمْ يُؤْذِهِ , وَرَكَعَ مَا قُضِيَ لَهُ , ثُمَّ انْتَظَرَ حَتَّى يَنْصَرِفَ الْإِمَامُ , غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَ الْجُمُعَتَيْنِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص غسل کرے یا طہارت حاصل کرے اور خوب اچھی طرح کرے عمدہ کپڑے پہنے، خوشبو یا تیل لگائے، پھر جمعہ کے لئے آئے کوئی لغو حرکت نہ کرے کسی دو آدمیوں کے درمیان نہ گھسے اس کے اگلے جمعہ تک سارے گناہ معاف ہوجائیں گے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، حرب بن قيس لم يسمع من أبى الدرداء
حدثنا مكي , حدثنا عبد الله بن سعيد , عن حرب بن قيس , عن ابي الدرداء , قال: جلس رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما على المنبر , فخطب الناس وتلا آية , وإلى جنبي ابي بن كعب , فقلت له: يا ابي , متى انزلت هذه الآية؟ قال: فابى ان يكلمني , ثم سالته , فابى ان يكلمني , حتى نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال لي ابي: ما لك من جمعتك إلا ما لغيت , فلما انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم جئته فاخبرته , فقلت: اي رسول الله , إنك تلوت آية وإلى جنبي ابي بن كعب , فسالته متى انزلت هذه الآية؟ فابى ان يكلمني حتى إذا نزلت زعم ابي , انه ليس لي من جمعتي إلا ما لغيت؟ فقال: " صدق ابي , فإذا سمعت إمامك يتكلم فانصت حتى يفرغ" .حَدَّثَنَا مَكِّيٌّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ حَرْبِ بْنِ قَيْسٍ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , قَالَ: جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا عَلَى الْمِنْبَرِ , فَخَطَبَ النَّاسَ وَتَلَا آيَةً , وَإِلَى جَنْبِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ , فَقُلْتُ لَهُ: يَا أُبَيُّ , مَتَى أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ؟ قَالَ: فَأَبَى أَنْ يُكَلِّمَنِي , ثُمَّ سَأَلْتُهُ , فَأَبَى أَنْ يُكَلِّمَنِي , حَتَّى نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَال لِي أُبَيٌّ: مَا لَكَ مِنْ جُمُعَتِكَ إِلَّا مَا لَغَيْتَ , فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِئْتُهُ فَأَخْبَرْتُهُ , فَقُلْتُ: أَيْ رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّكَ تَلَوْتَ آيَةً وَإِلَى جَنْبِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ , فَسَأَلْتُهُ مَتَى أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ؟ فَأَبَى أَنْ يُكَلِّمَنِي حَتَّى إِذَا نَزَلْتَ زَعَمَ أُبَيٌّ , أَنَّهُ لَيْسَ لِي مِنْ جُمُعَتِي إِلَّا مَا لَغَيْتُ؟ فَقَالَ: " صَدَقَ أُبَيٌّ , فَإِذَا سَمِعْتَ إِمَامَكَ يَتَكَلَّمُ فَأَنْصِتْ حَتَّى يَفْرُغَ" .
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ جمعہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے برسر منبر سورت برأت کی تلاوت فرمائی اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر اللہ کے احسانات کا تذکرہ فرما رہے تھے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے ان کے ہمراہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ اور ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے ایک نے حضرت ابی رضی اللہ عنہ کو چٹکی بھری اور کہا کہ ابی! یہ سورت کب نازل ہوئی ہے؟ یہ تو میں ابھی سن رہا ہوں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے انہیں اشارے سے خاموش رہنے کا حکم دیا۔
نماز سے فارغ ہو کر انہوں نے کہا کہ میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ یہ سورت کب نازل ہوئی تو آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟ حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا آج تو تمہاری نماز صرف اتنی ہی ہوئی ہے جتنا تم نے اس میں یہ لغو کام کیا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے گئے اور حضرت ابی رضی اللہ عنہ کی یہ بات ذکر کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابی نے سچ کہا۔ جب تم امام کو گفتگو کرتے ہوئے دیکھو تو خاموش ہوجایا کرو یہاں تک کہ وہ فارغ ہوجائے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، حرب بن قيس لم يسمع من أبى الدرداء
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اپنے کمزوروں کو تلاش کر کے میرے پاس لایا کرو کیونکہ تمہیں رزق اور فتح ونصرت تمہارے کمزوروں کی برکت سے ملتی ہے۔
حضرت ام درداء رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ جب بھی کوئی حدیث سناتے تو مسکرایا کرتے تھے میں نے ان سے ایک مرتبہ کہا کہ کہیں لوگ آپ کو " احمق " نہ کہنے لگیں، انہوں نے فرمایا کہ میں نے تو نبی کریم کو کوئی حدیث بیان کرتے ہوئے جب بھی دیکھا یا سنا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے ہوتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، بقية بن الوليد ضعيف و مدلس، وقد عنعن، وحبيب بن عمر وأبو عبدالصمد مجهولان
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مرتبہ میں سو رہا تھا کہ خواب میں میں نے کتاب کے ستونوں کو دیکھا کہ انہیں میرے سر کے نیچے سے اٹھایا گیا، میں سمجھ گیا کہ اسے لیجایا جارہا ہے چنانچہ میری نگاہیں اس کا پیچھا کرتی رہیں پھر اسے شام پہنچا دیا گیا یاد رکھو! جس زمانے میں فتنے رونما ہوں گے اس وقت ایمان شام میں ہوگا۔
حضرت ام درداء رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ جب بھی کوئی حدیث سناتے تو مسکرایا کرتے تھے میں نے ان سے ایک مرتبہ کہا کہ کہیں لوگ آپ کو " احمق " نہ کہنے لگیں، انہوں نے فرمایا کہ میں نے تو نبی کریم کو کوئی حدیث بیان کرتے ہوئے جب بھی دیکھا یا سنا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے ہوتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، بقية بن الوليد ضعيف و مدلس، وقد عنعن، وحبيب بن عمر وأبو عبدالصمد مجهولان
حدثنا حسن , حدثنا ابن لهيعة , حدثنا زبان , عن سهل بن معاذ , عن ابيه , عن ابي الدرداء , انه اتاه عائدا , فقال ابو الدرداء لابي بعد ان سلم عليه: بالصحة لا بالوجع , ثلاث مرات يقول ذلك ثم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ما يزال المرء المسلم به المليلة والصداع , وإن عليه من الخطايا لاعظم من احد , حتى يتركه , وما عليه من الخطايا مثقال حبة من خردل" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ , حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ , حَدَّثَنَا زَبَّانُ , عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , أَنَّهُ أَتَاهُ عَائِدًا , فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ لِأَبِي بَعْدَ أَنْ سَلَّمَ عَلَيْهِ: بِالصِّحَّةِ لَا بِالْوَجَعِ , ثَلَاثَ مَرَّاتٍ يَقُولُ ذَلِكَ ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَا يَزَالُ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ بِهِ الْمَلِيلَةُ وَالصُّدَاعُ , وَإِنَّ عَلَيْهِ مِنَ الْخَطَايَا لَأَعْظَمَ مِنْ أُحُدٍ , حَتَّى يَتْرُكَهُ , وَمَا عَلَيْهِ مِنَ الْخَطَايَا مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ" .
حضرت انس جہنی رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کے یہاں آئے تو انہیں دعاء دی کہ اللہ آپ کو ہر مرض سے بچا کر صحت کے ساتھ رکھے حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مسلمان آدمی سر درد اور دیگر بیماریوں میں مسلسل مبتلا ہوتا رہتا ہے اور اس کے گناہ احد پہاڑ کے برابر ہوتے ہیں لیکن یہ بیماریاں اسے اس وقت چھوڑتی ہیں جب اس پر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی گناہ نہیں رہتے۔
حكم دارالسلام: إسناده مسلسل بالضعفاء، ابن لهيعة وزبان وسهل كلهم ضعفاء
حدثنا حسن , حدثنا ابن لهيعة , حدثنا يزيد بن ابي حبيب , عن عبد الرحمن بن جبير , عن ابي الدرداء , قال: قال رسول صلى الله عليه وسلم: " انا اول من يؤذن له بالسجود يوم القيامة , وانا اول من يؤذن له ان يرفع راسه , فانظر إلى بين يدي , فاعرف امتي من بين الامم , ومن خلفي مثل ذلك , وعن يميني مثل ذلك , وعن شمالي مثل ذلك" , فقال له رجل: يا رسول الله , كيف تعرف امتك من بين الامم فيما بين نوح إلى امتك؟ قال:" هم غر محجلون من اثر الوضوء , ليس احد كذلك غيرهم , واعرفهم انهم يؤتون كتبهم بايمانهم , واعرفهم يسعى بين ايديهم ذريتهم" ..حَدَّثَنَا حَسَنٌ , حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَا أَوَّلُ مَنْ يُؤْذَنُ لَهُ بِالسُّجُودِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ , وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يُؤْذَنُ لَهُ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ , فَأَنْظُرَ إِلَى بَيْنِ يَدَيَّ , فَأَعْرِفَ أُمَّتِي مِنْ بَيْنِ الْأُمَمِ , وَمِنْ خَلْفِي مِثْلُ ذَلِكَ , وَعَنْ يَمِينِي مِثْلُ ذَلِكَ , وَعَنْ شِمَالِي مِثْلُ ذَلِكَ" , فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , كَيْفَ تَعْرِفُ أُمَّتَكَ مِنْ بَيْنِ الْأُمَمِ فِيمَا بَيْنَ نُوحٍ إِلَى أُمَّتِكَ؟ قَالَ:" هُمْ غُرٌّ مُحَجَّلُونَ مِنْ أَثَرِ الْوُضُوءِ , لَيْسَ أَحَدٌ كَذَلِكَ غَيْرَهُمْ , وَأَعْرِفُهُمْ أَنَّهُمْ يُؤْتَوْنَ كُتُبَهُمْ بِأَيْمَانِهِمْ , وَأَعْرِفُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ ذُرِّيَّتُهُمْ" ..
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن سب سے پہلے جس شخص کو سجدہ ریز ہونے کی اجازت ملے گی وہ میں ہوں گا اور مجھے ہی سب سے پہلے سر اٹھانے کی اجازت ملے گی، چنانچہ میں اپنے سامنے دیکھوں گا تو دوسری امتوں میں سے اپنی امت کو پہچان لوں گا اسی طرح پیچھے سے اور دائیں بائیں سے بھی اپنی امت کو پہچان لوں گا ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ! حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر آپ تک جتنی امتیں آئی ہیں ان میں سے آپ اپنی امت کو کیسے پہچانیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کے لوگوں کی پیشانیاں آثار وضو سے چمک دار اور روشن ہوں گی، یہ کیفیت کسی اور کی نہیں ہوگی اور میں اس طرح بھی انہیں شناخت کرسکوں گا کہ ان کے نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں ہوں گے اور یہ کہ ان کے نابالغ اولاد ان کے آگے دوڑ رہی ہوگی۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره دون قوله: وأعرفهم أنهم يؤتون كتبهم.... ابن لهيعة سيئ الحفظ، لكن رواية ابن المبارك وقتيبة عنه صالحة، ثم هو منقطع، عبدالرحمن لم يسمع ابا الدرادء.
حدثنا قتيبة بن سعيد , حدثنا ابن لهيعة , عن يزيد بن ابي حبيب , عن عبد الرحمن بن جبير , انه سمع من ابا ذر وابا الدرداء , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إني لاعرف امتي يوم القيامة من بين الامم" , قالوا: يا نبي الله , وكيف تعرف امتك؟ قال:" اعرفهم يؤتون كتبهم بايمانهم , واعرفهم بسيماهم في وجوههم من اثر السجود , واعرفهم بنورهم يسعى بين ايديهم" .حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ , أَنَّهُ سَمِعَ مِنْ أَبا ذَرٍّ وَأَبِا الدَّرْدَاءِ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنِّي لَأَعْرِفُ أُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ بَيْنِ الْأُمَمِ" , قَالُوا: يَا نبي اللَّهِ , وَكَيْفَ تَعْرِفُ أُمَّتَكَ؟ قَالَ:" أَعْرِفُهُمْ يُؤْتَوْنَ كُتُبَهُمْ بِأَيْمَانِهِمْ , وَأَعْرِفُهُمْ بِسِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ , وَأَعْرِفُهُمْ بِنُورِهِمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ اور ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن دوسری امتوں میں سے اپنی امت کو پہچان لوں گا لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر آپ تک جتنی امتیں آئی ہیں ان میں سے آپ اپنی امت کو کیسے پہچانیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کے لوگوں کی پیشانیاں آثار وضو سے چمک دار اور روشن ہوں گی، یہ کیفیت کسی اور کی نہیں ہوگی اور میں اس طرح بھی انہیں شناخت کرسکوں گا کہ ان کے نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں ہوں گے اور یہ کہ ان کا نور ان کے آگے دوڑ رہا ہوگا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف ، عبدالرحمن بن جبير لم يسمع أبا الدرداء، وقوله: "وأعرفهم بسيماهم.... السجود" صحيح لغيره
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی شخص روزانہ صبح کے وقت اللہ کی رضا کے لئے ایک ہزار نیکیاں نہ چھوڑا کر سو مرتبہ سبحان اللہ وبحمدہ کہہ لیا کرے، اس کا ثواب ایک ہزار نیکیوں کے برابر ہے اور وہ شخص ان شاء اللہ اس دن اتنے گناہ نہیں کرسکے گا اور اس کے علاوہ جو نیکی کے کام کرے گا وہ اس سے زیادہ ہوں گے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبى بكر بن أبى مريم