عبیداللہ بن عبداللہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عید میں کہاں سے تلاوت فرماتے تھے؟ انہوں نے فرمایا سورت ق اور سورت قمر سے۔
حدثنا حجاج , حدثنا ليث يعني ابن سعد , حدثني عقيل بن خالد , عن ابن شهاب , عن سنان بن ابي سنان الدؤلي , ثم الجندعي , عن ابي واقد الليثي , انهم خرجوا عن مكة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى حنين , قال: وكان للكفار سدرة يعكفون عندها , ويعلقون بها اسلحتهم , يقال لها: ذات انواط , قال: فمررنا بسدرة خضراء عظيمة , قال: فقلنا: يا رسول الله , اجعل لنا ذات انواط , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قلتم: والذي نفسي بيده , كما قال قوم موسى: اجعل لنا إلها كما لهم آلهة قال إنكم قوم تجهلون سورة الاعراف آية 138 إنها لسنن , لتركبن سنن من كان قبلكم سنة سنة" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , حَدَّثَنَا لَيْثٌ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ , حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ , عَنِ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ سِنَانِ بْنِ أَبِي سِنَانٍ الدُّؤَلِيِّ , ثُمَّ الْجُنْدَعِيِّ , عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ , أَنَّهُمْ خَرَجُوا عَنْ مَكَّةَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى حُنَيْنٍ , قَالَ: وَكَانَ لِلْكُفَّارِ سِدْرَةٌ يَعْكُفُونَ عِنْدَهَا , وَيُعَلِّقُونَ بِهَا أَسْلِحَتَهُمْ , يُقَالُ لَهَا: ذَاتُ أَنْوَاطٍ , قَالَ: فَمَرَرْنَا بِسِدْرَةٍ خَضْرَاءَ عَظِيمَةٍ , قَالَ: فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , اجْعَلْ لَنَا ذَاتَ أَنْوَاطٍ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قُلْتُمْ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , كَمَا قَالَ قَوْمُ مُوسَى: اجْعَلْ لَنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ سورة الأعراف آية 138 إِنَّهَا لَسُنَنٌ , لَتَرْكَبُنَّ سُنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ سُنَّةً سُنَّةً" .
حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے حنین کے لئے نکلے کفار کی ایک بیری تھی جہاں وہ جا کر رکتے تھے اور اس سے اپنا اسلحہ لٹکایا کرتے تھے، اسے " ذات انواط " کہا جاتا تھا راستے میں ہم لوگ ایک سرسبز و شاداب بیری کے عظیم باغ سے گذرے تو ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہمارے لئے بھی اسی طرح کوئی " ذات انواط " مقرر کر دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے تم نے وہی بات کہی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہی تھی کہ جیسے ان کے معبود ہیں، اسی طرح ہمارا بھی کوئی معبود مقرر کر دیجئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تم ایک جاہل قوم ہو، یاد رکھو! تم لوگ پہلے لوگوں کے نقش قدم پر چلو گے اور ان کی ایک ایک عادت اختیار کر کے رہو گے۔
حضرت ابو واقد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! ہم جس علاقے میں رہتے ہیں، وہاں ہمیں اضطراری حالت پیش آتی رہتی ہے تو ہمارے لئے مردار میں سے کتنا حلال ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہیں صبح اور شام کسی بھی وقت کوئی بھی سبزی توڑنے کو نہ ملے تو تمہیں اس کی اجازت ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف جدا لأجل أبى إبراهيم محمد بن القاسم
نافع بن سرجس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت واقد رضی اللہ عنہ کے مرض الوفات میں ان کی بیمار پرسی کے لئے حاضر ہوئے تو میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھاتے وقت سب سے ہلکی نماز پڑھاتے تھے اور خود نماز پڑھتے وقت سب سے لمبی نماز پڑھتے تھے۔ صلی اللہ علیہ وسلم
حدثنا عبد الرزاق , اخبرنا معمر , عن الزهري , عن سنان بن ابي سنان الديلي , عن ابي واقد الليثي , قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل حنين , فمررنا بسدرة , فقلت: يا نبي الله , اجعل لنا هذه ذات انواط كما للكفار ذات انواط , وكان الكفار ينوطون بسلاحهم بسدرة , ويعكفون حولها , فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " الله اكبر , هذا كما قالت بنو إسرائيل لموسى: اجعل لنا إلها كما لهم آلهة سورة الاعراف آية 138 إنكم تركبون سنن الذين من قبلكم" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أخبرَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ سِنَانِ بْنِ أَبِي سِنَانٍ الدِّيْلِيِّ , عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ , قَالَ: خَرَجَنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ حُنَيْنٍ , فَمَرَرْنَا بِسِدْرَةٍ , فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , اجْعَلْ لَنَا هَذِهِ ذَاتَ أَنْوَاطٍ كَمَا لِلْكُفَّارِ ذَاتُ أَنْوَاطٍ , وَكَانَ الْكُفَّارُ يَنُوطُونَ بِسِلَاحِهِمْ بِسِدْرَةٍ , وَيَعْكُفُونَ حَوْلَهَا , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُ أَكْبَرُ , هَذَا كَمَا قَالَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ لِمُوسَى: اجْعَلْ لَنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ سورة الأعراف آية 138 إِنَّكُمْ تَرْكَبُونَ سُنَنَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ" .
حضرت ابو واقدلیثی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے حنین کے لئے نکلے کفار کی ایک بیری تھی جہاں وہ جا کر رکتے تھے اور اس سے اپنا اسلحہ لٹکایا کرتے تھے، اسے " ذات انواط " کہا جاتا تھا راستے میں ہم لوگ ایک سرسبز و شاداب بیری کے عظیم باغ سے گذرے تو ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہمارے لئے بھی اسی طرح کوئی " ذات انواط " مقرر کر دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے تم نے وہی بات کہی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہی تھی کہ جیسے ان کے معبود ہیں، اسی طرح ہمارا بھی کوئی معبود مقرر کر دیجئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تم ایک جاہل قوم ہو، یاد رکھو! تم لوگ پہلے لوگوں کے نقش قدم پر چلو گے اور ان کی ایک ایک عادت اختیار کر کے رہو گے۔
حضرت ابو واقد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! ہم جس علاقے میں رہتے ہیں، وہاں ہمیں اضطراری حالت پیش آتی رہتی ہے تو ہمارے لئے مردار میں سے کتنا حلال ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہیں صبح اور شام کسی بھی وقت کوئی بھی سبزی توڑنے کو نہ ملے تو تمہیں اس کی اجازت ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لاضطرابه
حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو بکری کی سرین اور اونٹوں کے کوہان کاٹ لیا کرتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جانور کے جسم کا جو حصہ بھی زندہ جانور سے کاٹا جائے وہ مردار ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد لأجل عبدالرحمن بن عبدالله
حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو بکری کی سرین اور اونٹوں کے کوہان کاٹ لیا کرتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جانور کے جسم کا جو حصہ بھی زندہ جانور سے کاٹاجائے وہ مردار ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد لأجل عبدالرحمن بن عبدالله
حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ازواج مطہرات سے فرمایا یہ حج تم میرے ساتھ کر رہی ہو، اس کے بعد تمہیں گھروں میں بیٹھنا ہوگا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد لأجل واقد بن أبى واقد
حدثنا حدثنا ابو عامر , حدثنا هشام بن سعد , عن زيد بن اسلم , عن عطاء بن يسار , عن ابي واقد الليثي , قال: كنا ناتي النبي صلى الله عليه وسلم إذا انزل عليه فيحدثنا , فقال لنا ذات يوم:" إن الله عز وجل قال: إنا انزلنا المال لإقام الصلاة , وإيتاء الزكاة , ولو كان لابن آدم واد , لاحب ان يكون إليه ثان , ولو كان له واديان , لاحب ان يكون إليهما ثالث , ولا يملا جوف ابن آدم إلا التراب , ثم يتوب الله على من تاب" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ , حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ , قَالَ: كُنَّا نَأْتِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ فَيُحَدِّثُنَا , فَقَالَ لَنَا ذَاتَ يَوْمٍ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ: إِنَّا أَنْزَلْنَا الْمَالَ لِإِقَامِ الصَّلَاةِ , وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ , وَلَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادٍ , لَأَحَبَّ أَنْ يَكُونَ إِلَيْهِ ثَانٍ , وَلَوْ كَانَ لَهُ وَادِيَانِ , لَأَحَبَّ أَنْ يَكُونَ إِلَيْهِمَا ثَالِثٌ , وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ , ثُمَّ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ" .
حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہوتی تو ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے وہ آیت بیان فرما دیتے، چانچہ ایک دن ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ہم نے مال اس لئے اتارا ہے کہ نماز قائم کی جائے اور زکوٰۃ ادا کی جائے اور اگر ابن آدم کے پاس سونے چاندی کی دو وادیاں بھی ہوں تو وہ ایک اور کی تمنا کرے گا اور ابن آدم کا پیٹ مٹی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھر سکتی، البتہ جو توبہ کرلیتا ہے اللہ اس پر متوجہ ہوجاتا ہے۔
حدثنا عبد الصمد , حدثنا حرب يعني ابن شداد , حدثنا يحيى يعني ابن ابي كثير , حدثني إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة , عن حديث ابي مرة , ان ابا واقد الليثي حدثه , قال: بينما نحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ مر ثلاثة نفر , فجاء احدهم فوجد فرجة في الحلقة فجلس , وجلس الآخر من ورائهم , وانطلق الثالث , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الا اخبركم بخبر هؤلاء النفر" , قالوا: بلى يا رسول الله , قال:" اما الذي جاء فجلس , فاوى فآواه الله , والذي جلس من ورائكم فاستحى , فاستحى الله منه , واما الذي انطلق رجل اعرض , فاعرض الله عنه" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , حَدَّثَنَا حَرْبٌ يَعْنِي ابْنَ شَدَّادٍ , حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ أَبِي كَثِيرٍ , حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ , عَنْ حَدِيثِ أَبِي مُرَّةَ , أَنَّ أَبَا وَاقِدٍ اللَّيْثِيَّ حَدَّثَهُ , قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ مَرَّ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ , فَجَاءَ أَحَدُهُمْ فَوَجَدَ فُرْجَةً فِي الْحَلْقَةِ فَجَلَسَ , وَجَلَسَ الْآخَرُ مِنْ وَرَائِهِمْ , وَانْطَلَقَ الثَّالِثُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَبَرِ هَؤُلَاءِ النَّفَرِ" , قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" أَمَّا الَّذِي جَاءَ فَجَلَسَ , فَأَوَى فَآوَاهُ اللَّهُ , وَالَّذِي جَلَسَ مِنْ وَرَائِكُمْ فَاسْتَحَى , فَاسْتَحَى اللَّهُ مِنْهُ , وَأَمَّا الَّذِي انْطَلَقَ رَجُلٌ أَعْرَضَ , فَأَعْرَضَ اللَّهُ عَنْهُ" .
حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ تین آدمیوں کا وہاں سے گذر ہوا، ان میں سے ایک آدمی آیا، اسے لوگوں کے حلقے میں تھوڑی سی جگہ نظر آئی، وہ وہیں بیٹھ گیا دوسرا سب سے پیچھے بیٹھ گیا اور تیسرا آدمی واپس چلا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں ان لوگوں کے متعلق نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شخص جو یہاں آکر بیٹھ گیا، اس نے ٹھکانہ پکڑا اور اللہ نے اسے ٹھکانہ دے دیا اور جو تمہارے آخر میں بیٹھا، اس نے حیاء کھائی سو اللہ نے بھی اس سے حیاء کھائی اور جو شخص چلا گیا تو اس نے اعراض کیا سو اللہ نے بھی اس سے اعراض کیا۔
نافع بن سرجس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت واقد رضی اللہ عنہ کے مرض الوفات میں ان کی بیمار پرسی کے لئے حاضر ہوئے تو میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھاتے وقت سب سے ہلکی نماز پڑھاتے تھے اور خود نماز پڑھتے وقت سب سے لمبی نماز پڑھتے تھے۔ صلی اللہ علیہ وسلم
حدثنا يزيد بن هارون ويعلى قالا: حدثنا عبد الملك عن ابي الزبير عن صفوان قال يزيد بن عبد الله فذكرهحَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ وَيَعْلَى قَالَا: حدثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ صَفْوَانَ قَالَ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ فَذَكَرَهُ
حضرت ابو واقد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر ازواج مطہرات سے فرمایا یہ حج تم میرے ساتھ کر رہی ہو، اس کے بعد تمہیں گھروں میں بیٹھنا ہوگا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد
عبید اللہ بن عبداللہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عید میں کہاں سے تلاوت فرماتے تھے؟ انہوں نے فرمایا سورت ق اور سورت قمر سے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 891، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل فليح
نافع بن سرجس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت واقد رضی اللہ عنہ کے مرض الوفات میں ان کی بیمار پرسی کے لئے حاضر ہوئے تو میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھاتے وقت سب سے ہلکی نماز پڑھاتے تھے اور خود نماز پڑھتے وقت سب سے لمبی نماز پڑھتے تھے۔ صلی اللہ علیہ وسلم