حدثنا يونس ، وسريج ، قالا: حدثنا فليح ، عن سعيد بن الحارث ، عن ابي سلمة ، قال: كان ابو هريرة يحدث، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه قال:" إن في الجمعة ساعة"، فذكر الحديث، قلت: والله لو جئت ابا سعيد فسالته، فذكر الحديث، ثم خرجت من عنده، فدخلت على عبد الله بن سلام ، فسالت عنها، فقال: خلق الله آدم يوم الجمعة، واهبط إلى الارض يوم الجمعة، وقبضه يوم الجمعة، وفيه تقوم الساعة، فهي آخر ساعة، وقال سريج: فهي آخر ساعته، فقلت: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" في صلاة" وليست بساعة صلاة! قال: اولم تعلم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " منتظر الصلاة في صلاة؟" ، قلت: بلى، قال: هي والله هي.حَدَّثَنَا يُونُسُ ، وَسُرَيْجٌ ، قَالا: حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، قَالَ: كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:" إِنَّ فِي الْجُمُعَةِ سَاعَةً"، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قُلْتُ: وَاللَّهِ لَوْ جِئْتُ أَبَا سَعِيدٍ فَسَأَلْتُهُ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، ثُمَّ خَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهِ، فَدَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ ، فَسَأَلْتُ عَنْهَا، فَقَالَ: خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَأُهْبِطَ إِلَى الْأَرْضِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَقَبَضَهُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَفِيهِ تَقُومُ السَّاعَةُ، فَهِيَ آخِرُ سَاعَةٍ، وَقَالَ سُرَيْجٌ: فَهِيَ آخِرُ سَاعَتِهِ، فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" فِي صَلَاةٍ" وَلَيْسَتْ بِسَاعَةِ صَلَاةٍ! قَالَ: أَوَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مُنْتَظِرُ الصَّلَاةِ فِي صَلَاةٍ؟" ، قُلْتُ: بَلَى، قال: هِيَ وَاللَّهِ هِيَ.
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ جمعہ میں ایک ساعت آتی ہے۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا کہ میں نے سوچا واللہ اگر میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان سے یہ سوال ضرور پوچھوں گا چناچہ میں وہاں سے نکلا اور حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے یہاں حاضر ہوا اور ان سے اس کے متعلق پوچھا انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے دن حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اس دن انہیں زمین پر اتارا گیا اسی دن ان کی روح قبض ہوئی اسی دن قیامت قائم ہوگی لہٰذا یہ آخری ساعت ہوئی میں نے عرض کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ساعت نماز کے وقت ہوتی ہے اور عصر کے بعد نماز کا وقت نہیں ہوتا؟ انہوں نے فرمایا کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز کا انتظار کرنے والا نماز میں ہی شمار ہوتا ہے؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں واللہ وہی ہے۔
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس جگہ یعنی کداء سے لے کر احد تک کی جگہ " حرم " ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم قرار دیا ہے لہٰذا میں یہاں کوئی درخت کاٹ سکتا ہوں اور نہ کسی پرندے کو مار سکتا ہوں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عبيدالله بن خنيس، وفضيل بن سليمان ضعيف يعتبر به
حدثنا عبد الله بن الحارث ، حدثني الضحاك ، عن ابي النضر ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن ، عن عبد الله بن سلام ، قال: قلت ورسول الله صلى الله عليه وسلم جالس: إنا " نجد في كتاب الله في يوم الجمعة ساعة لا يوافقها عبد مسلم وهو في الصلاة، فيسال الله عز وجل شيئا، إلا اعطاه ما ساله، فاشار رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: بعض ساعة" ، قال: فقلت: صدق رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال ابو النضر: قال ابو سلمة: سالته: اية ساعة هي؟ قال: آخر ساعات النهار، فقلت: إنها ليست بساعة صلاة! فقال: بلى، إن العبد المسلم في صلاته إذا صلى ثم قعد في مصلاه لا يحبسه إلا انتظار الصلاة.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنِي الضَّحَّاكُ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ ، قَالَ: قُلْتُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ: إِنَّا " نَجِدُ فِي كِتَابِ اللَّهِ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ سَاعَةً لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ، فَيَسْأَلَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ شَيْئًا، إِلَّا أَعْطَاهُ مَا سَأَلَهُ، فَأَشَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: بَعْضُ سَاعَةٍ" ، قَالَ: فَقُلْتُ: صَدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو النَّضْرِ: قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: سَأَلْتُهُ: أَيَّةَ سَاعَةٍ هِيَ؟ قَالَ: آخِرُ سَاعَاتِ النَّهَارِ، فَقُلْتُ: إِنَّهَا لَيْسَتْ بِسَاعَةِ صَلَاةٍ! فَقَالَ: بَلَى، إِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ فِي صَلَاتِهِ إِذَا صَلَّى ثُمَّ قَعَدَ فِي مُصَلَّاهُ لَا يَحْبِسُهُ إِلَّا انْتِظَارُ الصَّلَاةِ.
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں میں نے کہا کہ ہم کتاب اللہ میں یہ پاتے ہیں کہ جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ اگر وہ بندہ مسلم کو مل جائے اور وہ نماز پڑھ رہا ہو تو وہ اللہ سے جو سوال بھی کرے گا اسے وہ ضرور عطا فرمائے گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے فرمایا کہ وہ ساعت بہت مختصر ہوتی ہے میں نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔ ابوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ وہ ساعت کون سی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ دن کی آخری ساعت میں نے عرض کیا کہ کیا وہ نماز کی ساعت نہیں ہوتی؟ انہوں نے فرمایا کیوں نہیں بندہ مسلم جب نماز پڑھ کر اسی جگہ پر بیٹھ کر اگلی نماز کا انتظار کرتا ہے تو وہ نماز ہی میں شمارہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرا نام عبداللہ بن سلام نہیں تھا میرا نام عبداللہ بن سلام تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة ابن أخي عبدالله بن سلام
حدثنا هارون بن معروف ، حدثنا ابن وهب ، حدثنا عمرو بن الحارث ، عن سعيد بن ابي هلال ، ان يحيى بن عبد الرحمن حدثه، عن عون بن عبد الله ، عن يوسف بن عبد الله بن سلام ، عن ابيه ، قال: بينما نحن نسير مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ سمع القوم وهم يقولون: اي الاعمال افضل يا رسول الله؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إيمان بالله ورسوله، وجهاد في سبيل الله، وحج مبرور"، ثم سمع نداء في الوادي، يقول: اشهد ان لا إله إلا الله، وان محمدا رسول الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" وانا اشهد، واشهد ان لا يشهد بها احد إلا برئ من الشرك" ، قال عبد الله: وسمعته انا من هارون..حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ ، أَنَّ يَحْيَى بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَهُ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ نَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ سَمِعَ الْقَوْمَ وَهُمْ يَقُولُونَ: أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَجِهَادٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَحَجٌّ مَبْرُورٌ"، ثُمَّ سَمِعَ نِدَاءً فِي الْوَادِي، يَقُولُ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَأَنَا أَشْهَدُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا يَشْهَدَ بِهَا أَحَدٌ إِلَّا بَرِئَ مِنَ الشِّرْكِ" ، قَالَ عَبْد اللَّهِ: وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْ هَارُونَ..
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة يحيى بن عبدالرحمن
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن عوف ، حدثنا زرارة ، قال: قال عبد الله بن سلام . ح وحدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا عوف ، عن زرارة ، عن عبد الله بن سلام ، قال: لما قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة انجفل الناس عليه، فكنت فيمن انجفل، فلما تبينت وجهه عرفت ان وجهه ليس بوجه كذاب، فكان اول شيء سمعته، يقول: " افشوا السلام، واطعموا الطعام، وصلوا الارحام، وصلوا والناس نيام، تدخلوا الجنة بسلام" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عَوْفٍ ، حَدَّثَنَا زُرَارَةُ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ زُرَارَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ انْجَفَلَ النَّاسُ عَلَيْهِ، فَكُنْتُ فِيمَنْ انْجَفَلَ، فَلَمَّا تَبَيَّنْتُ وَجْهَهُ عَرَفْتُ أَنَّ وَجْهَهُ لَيْسَ بِوَجْهِ كَذَّابٍ، فَكَانَ أَوَّلُ شَيْءٍ سَمِعْتُهُ، يَقُولُ: " أَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصِلُوا الْأَرْحَامَ، وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِيَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ" .
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ جوق در جوق ان کی خدمت میں حاضر ہونے لگے میں بھی ان میں شامل ہوگیا میں نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کو دیکھا تو میں سمجھ گیا کہ یہ کسی جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ہوسکتا اور وہ سب سے پہلا کلام جو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا وہ یہ تھا کہ سلام کو پھیلاؤ، صلہ رحمی کرو اور جس وقت لوگ سو رہے ہوں تم نماز پڑھو اس طرح سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ۔
حدثنا يزيد بن هارون ، حدثنا محمد بن إسحاق ، عن محمد بن إبراهيم ، عن ابي سلمة ، عن ابي هريرة ، قال: فلقيت عبد الله بن سلام ، فحدثته حديثي، وحديث كعب في قوله في كل سنة، قال: كذب كعب، وهو كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" في كل يوم جمعة"، قلت: إنه قد رجع، قال: اما والذي نفس عبد الله بن سلام بيده، إني لاعرف تلك الساعة، قال: قلت: يا عبد الله فاخبرني بها، قال: هي آخر ساعة من يوم الجمعة، قال: قلت: قال:" لا يوافق مؤمن وهو يصلي"! قال: اما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من انتظر صلاة، فهو في صلاة حتى يصلي؟" ، قلت: بلى، قال: فهو كذلك.حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: فَلَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ ، فَحَدَّثْتُهُ حَدِيثِي، وَحَدِيثَ كَعْبٍ فِي قَوْلِهِ فِي كُلِّ سَنَةٍ، قَالَ: كَذَبَ كَعْبٌ، وهُوَ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فِي كُلِّ يَوْمِ جُمُعَةٍ"، قُلْتُ: إِنَّهُ قَدْ رَجَعَ، قَالَ: أَمَا وَالَّذِي نَفْسُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ بِيَدِهِ، إِنِّي لَأَعْرِفُ تِلْكَ السَّاعَةَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ فَأَخْبِرْنِي بِهَا، قَالَ: هِيَ آخِرُ سَاعَةٍ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ، قَالَ: قُلْتُ: قَالَ:" لَا يُوَافِقُ مُؤْمِنٌ وَهُوَ يُصَلِّي"! قَالَ: أَمَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ انْتَظَرَ صَلَاةً، فَهُوَ فِي صَلَاةٍ حَتَّى يُصَلِّيَ؟" ، قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَهُوَ كَذَلِكَ.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں کوہ طور کی طرف روانہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میری ملاقات حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو میں نے انہیں کعب کے ساتھ اپنی نشست کے متعلق بتایا اور جمعہ کے دن کے حوالے سے اپنی بیان کردہ حدیث بھی بتائی اور کہا کہ کعب کہنے لگے ایسا سال بھر میں صرف ایک مرتبہ ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا کعب سے غلطی ہوئی ایسا ہر جمعہ میں ہوتا ہے حضرت ابن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں عبداللہ بن سلام کی جان ہے میں وہ گھڑی جانتا ہوں میں نے ان سے کہا کہ اے عبداللہ! مجھے بھی اس کے متعلق بتا دیجئے انہوں نے فرمایا وہ جمعہ کے دن کی آخری ساعت ہوتی ہے میں نے کہا کہ دوران نماز تو وہ کسی شخص کو نہیں مل سکتی (کیونکہ اس وقت ممنوع ہوتے ہیں) انہوں نے فرمایا کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص نماز کا انتظار کرتا رہتا ہے وہ نماز پڑھنے تک نماز ہی میں شمار ہوتا ہے؟ میں نے کہا کیوں نہیں، انہوں نے فرمایا پھر وہ یہی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لعنعنة ابن إسحاق، وقد توبع
حدثنا إسحاق بن يوسف ، حدثنا ابن عون ، عن محمد ، عن قيس بن عباد ، قال: كنت في المسجد فجاء رجل في وجهه اثر من خشوع، فدخل فصلى ركعتين فاوجز فيهما، فقال القوم: هذا رجل من اهل الجنة، فلما خرج اتبعته حتى دخل منزله فدخلت معه، فحدثته فلما استانس، قلت له: إن القوم لما دخلت قبل المسجد، قالوا: كذا وكذا، قال: سبحان الله، ما ينبغي لاحد ان يقول ما لا يعلم، وساحدثك لم؟ إني رايت رؤيا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فقصصتها عليه، رايت كاني في روضة خضراء، قال ابن عون: فذكر من خضرتها وسعتها، وسطها عمود حديد اسفله في الارض واعلاه في السماء، في اعلاه عروة، فقيل لي: اصعد عليه، فقلت: لا استطيع، فجاءني منصف، قال ابن عون: هو الوصيف، فرفع ثيابي من خلفي، فقال: اصعد عليه، فصعدت حتى اخذت بالعروة، فقال: استمسك بالعروة، فاستيقظت وإنها لفي يدي، قال: فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقصصتها عليه، فقال: " اما الروضة فروضة الإسلام، واما العمود فعمود الإسلام، واما العروة فهي العروة الوثقى، انت على الإسلام حتى تموت" ، قال: وهو عبد الله بن سلام .حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ ، قَالَ: كُنْتُ فِي الْمَسْجِدِ فَجَاءَ رَجُلٌ فِي وَجْهِهِ أَثَرٌ مِنْ خُشُوعٍ، فَدَخَلَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَأَوْجَزَ فِيهمَا، فَقَالَ الْقَوْمُ: هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَلَمَّا خَرَجَ اتَّبَعْتُهُ حَتَّى دَخَلَ مَنْزِلَهُ فَدَخَلْتُ مَعَهُ، فَحَدَّثْتُهُ فَلَمَّا اسْتَأْنَسَ، قُلْتُ لَهُ: إِنَّ الْقَوْمَ لَمَّا دَخَلْتَ قَبْلُ الْمَسْجِدَ، قَالُوا: كَذَا وَكَذَا، قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَقُولَ مَا لَا يَعْلَمُ، وَسَأُحَدِّثُكَ لِمَ؟ إِنِّي رَأَيْتُ رُؤْيَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَصَصْتُهَا عَلَيْهِ، رَأَيْتُ كَأَنِّي فِي رَوْضَةٍ خَضْرَاءَ، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: فَذَكَرَ مِنْ خُضْرَتِهَا وَسَعَتِهَا، وَسْطُهَا عَمُودُ حَدِيدٍ أَسْفَلُهُ فِي الْأَرْضِ وَأَعْلَاهُ فِي السَّمَاءِ، فِي أَعْلَاهُ عُرْوَةٌ، فَقِيلَ لِيَ: اصْعَدْ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: لَا أَسْتَطِيعُ، فَجَاءَنِي مِنْصَفٌ، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: هُوَ الْوَصِيفُ، فَرَفَعَ ثِيَابِي مِنْ خَلْفِي، فَقَالَ: اصْعَدْ عَلَيْهِ، فَصَعِدْتُ حَتَّى أَخَذْتُ بِالْعُرْوَةِ، فَقَالَ: اسْتَمْسِكْ بِالْعُرْوَةِ، فَاسْتَيْقَظْتُ وَإِنَّهَا لَفِي يَدِي، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَصَصْتُهَا عَلَيْهِ، فَقَالَ: " أَمَّا الرَّوْضَةُ فَرَوْضَةُ الْإِسْلَامِ، وَأَمَّا الْعَمُودُ فَعَمُودُ الْإِسْلَامِ، وَأَمَّا الْعُرْوَةُ فَهِيَ الْعُرْوَةُ الْوُثْقَى، أَنْتَ عَلَى الْإِسْلَامِ حَتَّى تَمُوتَ" ، قَالَ: وَهُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ .
قیس بن عباد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مسجد میں تھا کہ ایک آدمی آیا جس کے چہرے پر خشوع کے آثار واضح تھے اس نے مختصر طور پر دو رکعتیں پڑھیں لوگ کہنے لگے کہ یہ شخص اہل جنت میں سے ہے جب وہ چلا گیا تو میں بھی اس کے پیچھے روانہ ہوگیا حتیٰ کہ وہ آدمی اپنے گھر میں داخل ہوگیا میں بھی اس کے ساتھ اس کے گھر میں چلا گیا اور اس سے باتیں کرتا رہا جب وہ مجھ سے مانوس ہوگیا تو میں نے اس سے کہا کہ جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تھے تو لوگوں نے آپ کے متعلق اس اس طرح کہا تھا اس نے کہا سبحان اللہ! انسان کو ایسی بات نہیں کہنی چاہئے جو وہ جانتا نہ ہو اور میں تمہیں اس کی وجہ بتاتا ہوں۔
میں نے عہد نبوت میں ایک خواب دیکھا تھا جو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کردیا اس خواب میں میں نے دیکھا کہ میں ایک سرسبز و شاداب باغ میں ہوں جس کے درمیان میں لوہے کا ایک ستون ہے جس کا نچلا سرا زمین میں ہے اور اوپر والا سرا آسمان میں ہے اور اس کے اوپر ایک رسی ہے مجھے کسی نے کہا کہ اس پر چڑھ جاؤ میں نے کہا کہ اب چڑھو میں اس پر چڑھنے لگا حتیٰ کہ اس رسی کو پکڑ لیا اس نے مجھ سے کہا کہ اس رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا میں جب بیدار ہوا تو یوں محسوس ہوا کہ وہ رسی اب تک میرے ہاتھ میں ہے پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ خواب بیان کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ باغ اسلام کا تھا ستون اسلام کا تھا اور وہ رسی مضبوط رسی تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ تم مسلمان ہو اور موت تک اس پر قائم رہو گے قیس کہتے ہیں کہ پھر معلوم ہوا کہ وہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تھے۔
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ مذاکرہ کر رہے تھے کہ تم میں سے کون آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ سوال کرے گا کہ اللہ کی نظروں میں سب سے پسندیدہ عمل کون سا ہے؟ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت کی وجہ سے ہم میں سے کوئی کھڑا نہ ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قاصد بھیج کر ایک ایک کر کے ہم سب کو اپنے پاس جمع کرلیا اور ہمارے سامنے سورت صف مکمل تلاوت فرمائی۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح من حديث يحيي بن أبى كثير عن أبى سلمة بن عبدالرحمن، وأما رواية يحيى بن أبى كثير عن عطاء ففيها انقطاع
حدثنا يعمر ، حدثنا عبد الله بن المبارك ، انبانا الاوزاعي ، حدثنا يحيى بن ابي كثير ، حدثني هلال بن ابي ميمونة ، ان عطاء بن يسار حدثه، ان عبد الله بن سلام حدثه، او قال: حدثني ابو سلمة بن عبد الرحمن ، عن عبد الله بن سلام ، قال:" تذاكرنا بيننا، فقلنا: ايكم ياتي رسول الله صلى الله عليه وسلم فيساله: اي الاعمال احب إلى الله؟ وهبنا ان يقوم منا احد، " فارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلينا رجلا رجلا حتى جمعنا، فجعل بعضنا يشير إلى بعض، فقرا علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم سبح لله ما في السموات وما في الارض سورة الحشر آية 1 إلى قوله كبر مقتا عند الله سورة الصف آية 3، قال: فتلاها من اولها إلى آخرها" ، قال: فتلاها علينا ابن سلام من اولها إلى آخرها، قال: فتلاها علينا عطاء بن يسار من اولها إلى آخرها، قال يحيى: فتلاها علينا هلال من اولها إلى آخرها، قال الاوزاعي: فتلاها علينا يحيى من اولها إلى آخرها.حَدَّثَنَا يَعْمَرُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ ، أَنْبَأَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، حَدَّثَنِي هِلَالُ بْنُ أَبِي مَيْمُونَةَ ، أَنَّ عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ حَدَّثَهُ، أَوْ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ ، قَالَ:" تَذَاكَرْنَا بَيْنَنَا، فَقُلْنَا: أَيُّكُمْ يَأْتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَسْأَلَهُ: أَيُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ؟ وَهِبْنَا أَنْ يَقُومَ مِنَّا أَحَدٌ، " فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْنَا رَجُلًا رَجُلًا حَتَّى جَمَعَنَا، فَجَعَلَ بَعْضُنَا يُشِيرُ إِلَى بَعْضٍ، فَقَرَأَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ سورة الحشر آية 1 إِلَى قَوْلِهِ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ سورة الصف آية 3، قَالَ: فَتَلَاهَا مِنْ أَوَّلِهَا إِلَى آخِرِهَا" ، قَالَ: فَتَلَاهَا عَلَيْنَا ابْنُ سَلَامٍ مِنْ أَوَّلِهَا إِلَى آخِرِهَا، قَالَ: فَتَلَاهَا عَلَيْنَا عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ مِنْ أَوَّلِهَا إِلَى آخِرِهَا، قَالَ يَحْيَى: فَتَلَاهَا عَلَيْنَا هِلَالٌ مِنْ أَوَّلِهَا إِلَى آخِرِهَا، قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: فَتَلَاهَا عَلَيْنَا يَحْيَى مِنْ أَوَّلِهَا إِلَى آخِرِهَا.
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ مذاکرہ کر رہے تھے کہ تم میں سے کون آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ سوال کرے گا کہ اللہ کی نظروں میں سب سے پسندیدہ عمل کون سا ہے؟ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت کی وجہ سے ہم میں سے کوئی کھڑا نہ ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قاصد بھیج کر ایک ایک کر کے ہم سب کو اپنے پاس جمع کرلیا اور ہمارے سامنے سورت صف مکمل تلاوت فرمائی تلاوت کا یہ سلسلہ تمام راویوں نے اپنے شاگردوں تک جاری رکھا۔
حدثنا حسن بن موسى ، وعفان ، قالا: حدثنا حماد بن سلمة ، عن عاصم بن بهدلة ، عن المسيب بن رافع ، عن خرشة بن الحر، قال: قدمت المدينة فجلست إلى شيخة في مسجد النبي صلى الله عليه وسلم، فجاء شيخ يتوكا على عصا له، فقال القوم: من سره ان ينظر إلى رجل من اهل الجنة فلينظر إلى هذا، فقام خلف سارية، فصلى ركعتين، فقمت إليه، فقلت له: قال بعض القوم: كذا وكذا، فقال: الجنة لله عز وجل يدخلها من يشاء، وإني رايت على عهد النبي صلى الله عليه وسلم رؤيا، رايت كان رجلا اتاني، فقال: انطلق فذهبت معه، فسلك بي منهجا عظيما، فعرضت لي طريق عن يساري، فاردت ان اسلكها، فقال: إنك لست من اهلها، ثم عرضت لي طريق عن يميني، فسلكتها حتى انتهيت إلى جبل زلق، فاخذ بيدي فزجل بي، فإذا انا على ذروته، فلم اتقار ولم اتماسك، فإذا عمود من حديد في ذروته حلقة من ذهب، فاخذ بيدي فزجل بي حتى اخذت بالعروة، فقال: استمسك، فقلت: نعم، فضرب العمود برجله فاستمسكت بالعروة، فقصصتها على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " رايت خيرا، اما المنهج العظيم فالمحشر، واما الطريق التي عرضت عن يسارك، فطريق اهل النار، ولست من اهلها، واما الطريق التي عرضت عن يمينك، فطريق اهل الجنة، واما الجبل الزلق فمنزل الشهداء، واما العروة التي استمسكت بها، فعروة الإسلام، فاستمسك بها حتى تموت" ، قال: فانا ارجو ان اكون من اهل الجنة، قال: وإذا هو عبد الله بن سلام .حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَجَلَسْتُ إِلَى شِيَخَةٍ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ شَيْخٌ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَصًا لَهُ، فَقَالَ الْقَوْمُ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا، فَقَامَ خَلْفَ سَارِيَةٍ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَقُمْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ لَهُ: قَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ: الْجَنَّةُ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ يُدْخِلُهَا مَنْ يَشَاءُ، وَإِنِّي رَأَيْتُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُؤْيَا، رَأَيْتُ كَأَنَّ رَجُلًا أَتَانِي، فَقَالَ: انْطَلِقْ فَذَهَبْتُ مَعَهُ، فَسَلَكَ بِي مَنْهَجًا عَظِيمًا، فَعَرَضَتْ لِي طَرِيقٌ عَنْ يَسَارِي، فَأَرَدْتُ أَنْ أَسْلُكَهَا، فَقَالَ: إِنَّكَ لَسْتَ مِنْ أَهْلِهَا، ثُمَّ عَرَضَتْ لِي طَرِيقٌ عَنْ يَمِينِي، فَسَلَكْتُهَا حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى جَبَلٍ زَلِقٍ، فَأَخَذَ بِيَدِي فَزَجَلَ بِي، فَإِذَا أَنَا عَلَى ذُرْوَتِهِ، فَلَمْ أَتَقَارَّ ولم أَتَمَاسَكْ، فَإِذَا عَمُودٌ مِنْ حَدِيدٍ فِي ذُرْوَتِهِ حَلْقَةٌ مِنْ ذَهَبٍ، فَأَخَذَ بِيَدِي فَزَجَلَ بِي حَتَّى أَخَذْتُ بِالْعُرْوَةِ، فَقَالَ: اسْتَمْسِكْ، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَضَرَبَ الْعَمُودَ بِرِجْلِهِ فَاسْتَمْسَكْتُ بِالْعُرْوَةِ، فَقَصَصْتُهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " رَأَيْتَ خَيْرًا، أَمَّا الْمَنْهَجُ الْعَظِيمُ فَالْمَحْشَرُ، وَأَمَّا الطَّرِيقُ الَّتِي عَرَضَتْ عَنْ يَسَارِكَ، فَطَرِيقُ أَهْلِ النَّارِ، وَلَسْتَ مِنْ أَهْلِهَا، وَأَمَّا الطَّرِيقُ الَّتِي عَرَضَتْ عَنْ يَمِينِكَ، فَطَرِيقُ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَأَمَّا الْجَبَلُ الزَّلِقُ فَمَنْزِلُ الشُّهَدَاءِ، وَأَمَّا الْعُرْوَةُ الَّتِي اسْتَمْسَكْتَ بِهَا، فَعُرْوَةُ الْإِسْلَامِ، فَاسْتَمْسِكْ بِهَا حَتَّى تَمُوتَ" ، قَالَ: فَأَنَا أَرْجُو أَنْ أَكُونَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، قَالَ: وَإِذَا هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ .
قیس بن عباد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مسجد میں تھا کہ ایک آدمی آیا جس کے چہرے پر خشوع کے آثار واضح تھے اس نے مختصر طور پر دو رکعتیں پڑھیں لوگ کہنے لگے کہ یہ شخص اہل جنت میں سے ہے جب وہ چلا گیا تو میں بھی اس کے پیچھے روانہ ہوگیا حتیٰ کہ وہ آدمی اپنے گھر میں داخل ہوگیا میں بھی اس کے ساتھ اس کے گھر میں چلا گیا اور اس سے باتیں کرتا رہا جب وہ مجھ سے مانوس ہوگیا تو میں نے اس سے کہا کہ جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تھے تو لوگوں نے آپ کے متعلق اس اس طرح کہا تھا اس نے کہا سبحان اللہ! انسان کو ایسی بات نہیں کہنی چاہئے جو وہ جانتا نہ ہو اور میں تمہیں اس کی وجہ بتاتا ہوں۔
میں نے عہد نبوت میں ایک خواب دیکھا تھا جو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کردیا اس خواب میں میں نے دیکھا کہ میں ایک سرسبز و شاداب باغ میں ہوں جس کے درمیان میں لوہے کا ایک ستون ہے جس کا نچلا سرا زمین میں ہے اور اوپر والا سرا آسمان میں ہے اور اس کے اوپر ایک رسی ہے مجھے کسی نے کہا کہ اس پر چڑھ جاؤ میں نے کہا کہ اب چڑھو میں اس پر چڑھنے لگا حتیٰ کہ اس رسی کو پکڑ لیا اس نے مجھ سے کہا کہ اس رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا میں جب بیدار ہوا تو یوں محسوس ہوا کہ وہ رسی اب تک میرے ہاتھ میں ہے پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ خواب بیان کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ باغ اسلام کا تھا ستون اسلام کا تھا اور وہ رسی مضبوط رسی تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ تم مسلمان ہو اور موت تک اس پر قائم رہو گے قیس کہتے ہیں کہ پھر معلوم ہوا کہ وہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3813، م: 2484، وهذا إسناد حسن
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن قيس بن سعد ، عن محمد بن إبراهيم التيمي ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن ، عن ابي هريرة ، قال: قدمت الشام، فلقيت كعبا، فكان يحدثني عن التوراة، واحدثه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى اتينا على ذكر يوم الجمعة، فحدثته ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن في الجمعة ساعة لا يوافقها مسلم يسال الله فيها خيرا، إلا اعطاه إياه"، فقال كعب: صدق الله ورسوله، هي في كل سنة مرة، قلت: لا، فنظر كعب ساعة، ثم قال: صدق الله ورسوله، هي في كل شهر مرة، قلت: لا، فنظر ساعة، فقال: صدق الله ورسوله، في كل جمعة مرة، قلت: نعم، فقال كعب: اتدري اي يوم هو؟ قلت: واي يوم هو؟ قال: فيه خلق الله آدم، وفيه تقوم الساعة، والخلائق فيه مصيخة إلا الثقلين الجن والإنس، خشية القيامة، فقدمت المدينة، فاخبرت عبد الله بن سلام بقول كعب، فقال: كذب كعب، قلت: إنه قد رجع إلى قولي، فقال: اتدري اي ساعة هي؟ قلت: لا، وتهالكت عليه: اخبرني اخبرني، فقال: هي فيما بين العصر والمغرب، قلت: كيف ولا صلاة؟ قال: اما سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:" لا يزال العبد في صلاة ما كان في مصلاه ينتظر الصلاة؟" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَدِمْتُ الشَّامَ، فَلَقِيتُ كَعْبًا، فَكَانَ يُحَدِّثُنِي عَنِ التَّوْرَاةِ، وَأُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى ذِكْرِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ، فَحَدَّثْتُهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ فِي الْجُمُعَةِ سَاعَةً لَا يُوَافِقُهَا مُسْلِمٌ يَسْأَلُ اللَّهَ فِيهَا خَيْرًا، إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ"، فَقَالَ كَعْبٌ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، هِيَ فِي كُلِّ سَنَةٍ مَرَّةٌ، قُلْتُ: لَا، فَنَظَرَ كَعْبٌ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، هِيَ فِي كُلِّ شَهْرٍ مَرَّةٌ، قُلْتُ: لَا، فَنَظَرَ سَاعَةً، فَقَالَ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، فِي كُلِّ جُمُعَةٍ مَرَّةٌ، قُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ كَعْبٌ: أَتَدْرِي أَيُّ يَوْمٍ هُوَ؟ قُلْتُ: وَأَيُّ يَوْمٍ هُوَ؟ قَالَ: فِيهِ خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ، وَفِيهِ تَقُومُ السَّاعَةُ، وَالْخَلَائِقُ فِيهِ مُصِيخَةٌ إِلَّا الثَّقَلَيْنِ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ، خَشْيَةَ الْقِيَامَةِ، فَقَدِمْتُ الْمَدِينَةَ، فَأَخْبَرْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ بِقَوْلِ كَعْبٍ، فَقَالَ: كَذَبَ كَعْبٌ، قُلْتُ: إِنَّهُ قَدْ رَجَعَ إِلَى قَوْلِي، فَقَالَ: أَتَدْرِي أَيُّ سَاعَةٍ هِيَ؟ قُلْتُ: لَا، وَتَهَالَكْتُ عَلَيْهِ: أَخْبِرْنِي أَخْبِرْنِي، فَقَالَ: هِيَ فِيمَا بَيْنَ الْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ، قُلْتُ: كَيْفَ وَلَا صَلَاةَ؟ قَالَ: أَمَا سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا يَزَالُ الْعَبْدُ فِي صَلَاةٍ مَا كَانَ فِي مُصَلَّاهُ يَنْتَظِرُ الصَّلَاةَ؟" .
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں کوہ طور کی طرف روانہ ہوا راستے میں میری ملاقات کعب احبار (رح) سے ہوگئی میں ان کے ساتھ بیٹھ گیا انہوں نے مجھے تورات کی باتیں اور میں نے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنانا شروع کردیں اسی دوران میں نے ان سے یہ حدیث بھی بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے سب سے بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے وہ جمعہ کا دن ہے جس میں حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا اسی دن انہیں جنت سے اتارا گیا اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئی اسی دن وہ فوت ہوئے اور اسی دن قیامت قائم ہوگی اور زمین پر چلنے والا ہر جانور جمعہ کے دن طلوع آفتاب کے وقت خوفزدہ ہوجاتا ہے کہ کہیں آج ہی قیامت قائم نہ ہوجائے سوائے جن و انس کے اور اس دن میں ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے جو اگر کسی نماز پڑھتے ہوئے بندہ مسلم کو مل جائے اور وہ اس میں اللہ سے کچھ بھی مانگ لے اللہ اسے وہ ضرورعطاء فرماتا ہے۔
کعب (رح) کہنے لگے کہ یہ ہر سال میں مرتبہ ہوتا ہے میں نے کہا کہ نہیں ہر جمعہ میں ہوتا ہے اس پر کعب نے تورات کو کھول کر پڑھا پھر کہنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میری ملاقات حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو میں نے انہیں کعب کے ساتھ اپنی اس نشست کے متعلق بتایا اور جمعہ کے دن کے حوالے سے اپنی بیان کردہ حدیث بھی بتائی اور کہا کہ کعب کہنے لگے ایسا سال بھر میں ایک مرتبہ ہوتا ہے حضرت عبداللہ بن سلام سے ہوئی میں نے کہا کہ پھر کعب نے تورات پڑھ کر کہا کہ نہیں ایسا ہر جمعہ میں ہوتا ہے حضرت ابن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ وہ گھڑی کون سی ہے میں نے کہا نہیں میں تو ہلاک ہوگیا آپ مجھے بتا دیجئے انہوں نے فرمایا وہ عصر اور مغرب کے درمیان ہوتی ہے میں نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے جبکہ اس وقت کوئی نماز نہیں ہوتی؟ انہوں نے فرمایا کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص نماز کا انتظار کرتا رہتا ہے وہ نماز پڑھنے تک نماز ہی میں شمار ہوتا ہے؟ میں نے کہا کیوں نہیں، انہوں نے فرمایا پھر وہ یہی ہے۔