حدثنا يعقوب بن إبراهيم ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني الحصين بن عبد الرحمن بن عمرو بن سعد بن معاذ اخو بني عبد الاشهل، عن محمود بن لبيد اخي بني عبد الاشهل، قال: لما قدم ابو الحيسر انس بن رافع مكة، ومعه فتية من بني عبد الاشهل فيهم إياس بن معاذ يلتمسون الحلف من قريش على قومهم من الخزرج، سمع بهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فاتاهم فجلس إليهم، فقال لهم: " هل لكم إلى خير مما جئتم له؟" قالوا: وما ذاك، قال:" انا رسول الله، بعثني إلى العباد ادعوهم إلى ان يعبدوا الله لا يشركوا به شيئا، وانزل علي كتاب" ثم ذكر الإسلام، وتلا عليهم القرآن، فقال إياس بن معاذ وكان غلاما حدثا: اي قوم هذا والله خير مما جئتم له، قال: فاخذ ابو حيسر انس بن رافع حفنة من البطحاء، فضرب بها في وجه إياس بن معاذ، وقام رسول الله صلى الله عليه وسلم عنهم وانصرفوا إلى المدينة، فكانت وقعة بعاث بين الاوس والخزرج، قال: ثم لم يلبث إياس بن معاذ ان هلك، قال محمود بن لبيد: فاخبرني من حضره من قومي عند موته انهم لم يزالوا يسمعونه يهلل الله ويكبره ويحمده ويسبحه حتى مات، فما كانوا يشكون ان قد مات مسلما، لقد كان استشعر الإسلام في ذلك المجلس حين سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم ما سمع .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي الْحُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ أَخُو بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ أَخِي بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ أَبُو الحَيْسر أَنَسُ بْنُ رَافِعٍ مَكَّةَ، وَمَعَهُ فِتْيَةٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ فِيهِمْ إِيَاسُ بْنُ مُعَاذٍ يَلْتَمِسُونَ الْحِلْفَ مِنْ قُرَيْشٍ عَلَى قَوْمِهِمْ مِنَ الْخَزْرَجِ، سَمِعَ بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَاهُمْ فَجَلَسَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ لَهُمْ: " هَلْ لَكُمْ إِلَى خَيْرٍ مِمَّا جِئْتُمْ لَهُ؟" قَالُوا: وَمَا ذَاكَ، قَالَ:" أَنَا رَسُولُ اللَّهِ، بَعَثَنِي إِلَى الْعِبَادِ أَدْعُوهُمْ إِلَى أَنْ يَعْبُدُوا اللَّهَ لَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَأُنْزِلَ عَلَيَّ كِتَابٌ" ثُمَّ ذَكَرَ الْإِسْلَامَ، وَتَلَا عَلَيْهِمْ الْقُرْآنَ، فَقَالَ إِيَاسُ بْنُ مُعَاذٍ وَكَانَ غُلَامًا حَدَثًا: أَيْ قَوْمِ هَذَا وَاللَّهِ خَيْرٌ مِمَّا جِئْتُمْ لَهُ، قَالَ: فَأَخَذَ أَبُو حَيْسر أَنَسُ بْنُ رَافِعٍ حَفْنَةً مِنَ الْبَطْحَاءِ، فَضَرَبَ بِهَا فِي وَجْهِ إِيَاسِ بْنِ مُعَاذٍ، وَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُمْ وَانْصَرَفُوا إِلَى الْمَدِينَةِ، فَكَانَتْ وَقْعَةُ بُعَاثٍ بَيْنَ الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ، قَالَ: ثُمَّ لَمْ يَلْبَثْ إِيَاسُ بْنُ مُعَاذٍ أَنْ هَلَكَ، قَالَ مَحْمُودُ بْنُ لَبِيدٍ: فَأَخْبَرَنِي مَنْ حَضَرَهُ مِنْ قَوْمِي عِنْدَ مَوْتِهِ أَنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوا يَسْمَعُونَهُ يُهَلِّلُ اللَّهَ وَيُكَبِّرُهُ وَيَحْمَدُهُ وَيُسَبِّحُهُ حَتَّى مَاتَ، فَمَا كَانُوا يَشُكُّونَ أَنْ قَدْ مَاتَ مُسْلِمًا، لَقَدْ كَانَ اسْتَشْعَرَ الْإِسْلَامَ فِي ذَلِكَ الْمَجْلِسِ حِينَ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا سَمِعَ .
حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ابوالحیسر انس بن رافع مکہ مکرمہ آیا تو اس کے ساتھ بنو عبدالاشہل کے کچھ نوجوان بھی تھے جن میں ایاس بن معاذ بھی شامل تھے ان کی آمد کا مقصد اپنی خزرج کے خلاف قریش سے قسم اور حلف لینا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آمد کی خبر سنی تو ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے پاس بیٹھ کر فرمایا کہ کیا جس مقصد کے لئے تم آئے ہو میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں؟ انہوں نے پوچھا وہ کیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ کا پیغمبر ہوں اس نے مجھے بندوں کے پاس بھیجا ہے تاکہ میں انہیں اس بات کی دعوت دوں کہ وہ اللہ ہی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اس نے مجھ پر اپنی کتاب بھی نازل کی ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت کی جسے سن کر ایاس بن معاذ " جو نو عمر لڑکے تھے " کہنے لگے کہ اے قوم بخدا! یہ اس چیز سے بہت بہتر ہے جس کے لئے تم یہاں آئے ہو تو ابوالحیسر انس بن رافع نے مٹھی بھر کر کنکریاں اٹھائیں اور ایاس کے منہ پردے ماریں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے اٹھ گئے اور وہ لوگ بھی واپس مدینہ چلے گئے اور اوس و خزرج کے درمیان جنگ بعاث ہو کر رہی۔
کچھ عرصہ بعد ہی ایاس بن معاذ فوت ہوگئے حضرت محمود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری قوم کے جو لوگ ان کی موت کے وقت ان کے پاس موجود تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ ہم نے انہیں مستقل طور پر تہلیل وتکبیر اور تسبیح وتحمید کہتے ہوئے دیکھا یہاں تک کہ وہ فوت ہوگئے اور لوگوں کو اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ وہ مسلمان ہو کر فوت ہوئے ہیں اور اسلام تو ان کے دل میں اسی وقت گھر کر گیا تھا جب انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی تھی۔
حضرت محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہیں وہ کلی یاد ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر کی تھی اور پانی اس ڈول سے لیا تھا جو ان کے کنوئیں سے نکالا گیا تھا۔
محمد بن ابراہیم (رح) کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرنے والے ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو احجارالزیت " جو مدینہ منورہ کا ایک دیہات ہے " میں ہاتھ پھیلا کر دعاء کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو جس سے وہ محبت کرتا ہو دنیا سے اسی طرح بچاتا ہے جیسے تم لوگ اپنے مریض کو کھانے پینے سے بچاتے ہو اور کھانے کی صورت میں تمہیں اس کی طبیعت خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
وبهذا الإسناد ان وبهذا الإسناد ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن الله عز وجل إذا احب قوما ابتلاهم، فمن صبر فله الصبر، ومن جزع فله الجزع" .وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ أَنَّ وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلَاهُمْ، فَمَنْ صَبَرَ فَلَهُ الصَّبْرُ، وَمَنْ جَزِعَ فَلَهُ الْجَزَعُ" .
نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انہیں آزمائش میں مبتلا کرتا ہے پھر جو شخص صبر کرتا ہے اسے صبر ملتا ہے اور جو شخص جزع فزع کرتا ہے اس کے لئے جزع فزع ہے۔
حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لائے اور ہماری مسجد میں ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی سلام پھیر کر مغرب کے بعد کی دونوں سنتوں کے متعلق فرمایا کہ یہ دو رکعتیں اپنے گھروں میں پڑھا کرو۔
حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابن آدم دو چیزوں کو ناپسند کرتا ہے (١) موت حالانکہ وہ ایک مومن کے لئے فتنوں سے بہتر ہے۔
حدثنا سليمان بن داود: اخبرنا إسماعيل: اخبرني عمرو ابن ابي عمرو عن عاصم (٤٢٨/٥) عن محمود بن لبيد ان النبي ﷺ قال: فذكر مثله (٤)حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو ابْنُ أَبِي عَمْرٍو عَنْ عَاصِمٍ (٤٢٨/٥) عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: فَذَكَرَ مِثْلَهُ (٤)
حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو جس سے وہ محبت کرتا ہو دنیا سے اسی طرح بچاتا ہے جیسے تم لوگ اپنے مریض کو کھانے پینے سے بچاتے ہو اور کھانے کی صورت میں تمہیں اس کی طبیعت خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
حدثنا ابن ابي عدي ، عن محمد بن إسحاق ، حدثني عاصم بن عمر بن قتادة ، عن محمود بن لبيد ، قال: اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم بني عبد الاشهل فصلى بهم المغرب، فلما سلم، قال: " اركعوا هاتين الركعتين في بيوتكم" ، قال ابو عبد الرحمن: قلت لابي: إن رجلا، قال: من صلى ركعتين بعد المغرب في المسجد لم تجزه إلا ان يصليهما في بيته، لان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" هذه من صلوات البيوت"، قال: من قال هذا؟ قلت: محمد بن عبد الرحمن، قال: ما احسن ما قال، او ما احسن ما انتزع!!.حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ ، قَالَ: أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ فَصَلَّى بِهِمْ الْمَغْرِبَ، فَلَمَّا سَلَّمَ، قَالَ: " ارْكَعُوا هَاتَيْنِ الرَّكْعَتَيْنِ فِي بُيُوتِكُمْ" ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: قُلْتُ لِأَبِي: إِنَّ رَجُلًا، قَالَ: مَنْ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ فِي الْمَسْجِدِ لَمْ تُجْزِهِ إِلَّا أَنْ يُصَلِّيَهُمَا فِي بَيْتِهِ، لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" هَذِهِ مِنْ صَلَوَاتِ الْبُيُوتِ"، قَالَ: مَنْ قَالَ هَذَا؟ قُلْتُ: مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: مَا أَحْسَنَ مَا قَالَ، أَوْ مَا أَحْسَنَ مَا انْتَزَعَ!!.
حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لائے اور ہماری مسجد میں ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی سلام پھیر کر مغرب کے بعد کی دونوں سنتوں کے متعلق فرمایا کہ یہ دو رکعتیں اپنے گھروں میں پڑھا کرو۔ ابو عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد امام احمد (رح) سے عرض کیا کہ ایک کہتا ہے جو شخص مغرب کے بعد مسجد ہی میں دو رکعتیں پڑھتا ہے تو یہ جائز نہیں ہے الاّ یہ کہ وہ گھر میں پڑھے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے یہ گھر کی نمازوں میں سے ہے انہوں نے پوچھا کہ یہ کون کہتا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ محمد بن عبدالرحمن، انہوں نے فرمایا خوب کہا۔
حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا عبد الرحمن بن سليمان بن الغسيل ، عن عاصم بن عمر بن قتادة ، عن محمود بن لبيد ، قال: كسفت الشمس يوم مات إبراهيم ابن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: كسفت الشمس لموت إبراهيم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله عز وجل، الا وإنهما لا ينكسفان لموت احد ولا لحياته، فإذا رايتموهما كذلك فافزعوا إلى المساجد" ثم قام فقرا فيما نرى بعض الر كتاب ثم ركع، ثم اعتدل، ثم سجد سجدتين، ثم قام ففعل مثل ما فعل في الاولى .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ الْغَسِيلِ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ ، قَالَ: كَسَفَتْ الشَّمْسُ يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: كَسَفَتْ الشَّمْسُ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، أَلَا وَإِنَّهُمَا لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا كَذَلِكَ فَافْزَعُوا إِلَى الْمَسَاجِدِ" ثُمَّ قَامَ فَقَرَأَ فِيمَا نَرَى بَعْضَ الر كِتَابٌ ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ اعْتَدَلَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَفَعَلَ مِثْلَ مَا فَعَلَ فِي الْأُولَى .
حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو سورج کو گہن لگ گیا لوگ کہنے لگے کہ ابراہیم کے انتقال کی وجہ سے سورج کو گہن لگ گیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شمس و قمر اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں انہیں کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے گہن نہیں لگتا جب تم انہیں گہن لگتے ہوئے دیکھا کرو تو مساجد کی طرف دوڑا کرو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ہمارے اندازے کے مطابق سورت ابراہیم جتنی تلاوت کی رکوع کیا سیدھے کھڑے رہے دو سجدے کئے اور دوسری رکعت میں بھی وہی کیا جو پہلی رکعت میں کیا تھا۔
حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تمہارے اوپر سب سے زیادہ " شرک اصغر " کا خوف ہے لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! شرک اصغر سے کیا مراد ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ریاکاری اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ریاکاروں سے فرمائے گا " جبکہ لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا " کہ جنہیں دکھانے کے لئے دنیا میں تم اعمال کرتے تھے ان کے پاس جاؤ اور دیکھو کہ کیا ان کے پاس اس کا کوئی بدلہ ہے؟
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد منقطع ، عمرو لم يسمعه من محمود بن لبيد
حدثنا إبراهيم بن ابي العباس حدثنا عبد الرحمن بن ابي الزناد عن عمرو بن ابي عمرو عن عاصم بن عمر الظفري عن محمود بن لبيد ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن اخوف ما اخاف عليكم فذكر معناهحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ الظَّفَرِيِّ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ
حدثنا يونس ، حدثنا ليث ، عن يزيد ، عن عمرو مولى المطلب، عن محمود بن لبيد ، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن الله عز وجل ليحمي عبده الدنيا وهو يحبه، كما تحمون مرضاكم الطعام والشراب تخوفا له عليه" .حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ عَمْرٍو مَوْلَى الْمُطَّلِبِ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَحْمِي عَبْدَهُ الدُّنْيَا وَهُوَ يُحِبُّهُ، كَمَا تَحْمُونَ مَرْضَاكُمْ الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ تَخَوُّفًا لَهُ عَلَيْهِ" .
حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو جس سے وہ محبت کرتا ہو دنیا سے اسی طرح بچاتا ہے جیسے تم لوگ اپنے مریض کو کھانے پینے سے بچاتے ہو اور کھانے کی صورت میں تمہیں اس کی طبیعت خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، عمرو لم يسمعه من محمود بن لبيد
نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انہیں آزمائش میں مبتلا کرتا ہے پھر جو شخص صبر کرتا ہے اسے صبر ملتا ہے اور جو شخص جزع فزع کرتا ہے اس کے لئے جزع فزع ہے۔
حدثنا يعقوب بن إبراهيم ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني الحصين بن عبد الرحمن بن عمرو بن سعد بن معاذ ، عن ابي سفيان مولى ابن ابي احمد، عن ابي هريرة ، قال: كان يقول: حدثوني عن رجل دخل الجنة لم يصل قط، فإذا لم يعرفه الناس سالوه من هو؟ فيقول: اصيرم بني عبد الاشهل عمرو بن ثابت بن وقش، قال الحصين: فقلت لمحمود بن لبيد : كيف كان شان الاصيرم؟ قال: كان يابى الإسلام على قومه، فلما كان يوم احد وخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى احد، بدا له الإسلام فاسلم فاخذ سيفه فغدا حتى اتى القوم فدخل في عرض الناس، فقاتل حتى اثبتته الجراحة، قال: فبينما رجال بني عبد الاشهل يلتمسون قتلاهم في المعركة إذا هم به، فقالوا: والله إن هذا للاصيرم وما جاء؟! لقد تركناه وإنه لمنكر هذا الحديث، فسالوه ما جاء به؟ قالوا: ما جاء بك يا عمرو، احربا على قومك او رغبة في الإسلام؟ قال: بل رغبة في الإسلام، آمنت بالله ورسوله، واسلمت، ثم اخذت سيفي فغدوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فقاتلت حتى اصابني ما اصابني، قال: ثم لم يلبث ان مات في ايديهم، فذكروه لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " إنه لمن اهل الجنة" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي الْحُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ مَوْلَى ابْنِ أَبِي أَحْمَدَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: كَانَ يَقُولُ: حَدِّثُونِي عَنْ رَجُلٍ دَخَلَ الْجَنَّةَ لَمْ يُصَلِّ قَطُّ، فَإِذَا لَمْ يَعْرِفْهُ النَّاسُ سَأَلُوهُ مَنْ هُوَ؟ فَيَقُولُ: أُصَيْرِمُ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ عَمْرُو بْنُ ثَابِتِ بْنِ وَقْشٍ، قَالَ الْحُصَيْنُ: فَقُلْتُ لِمَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ : كَيْفَ كَانَ شَأْنُ الْأُصَيْرِمِ؟ قَالَ: كَانَ يَأْبَى الْإِسْلَامَ عَلَى قَوْمِهِ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ وَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أُحُدٍ، بَدَا لَهُ الْإِسْلَامُ فَأَسْلَمَ فَأَخَذَ سَيْفَهُ فَغَدَا حَتَّى أَتَى الْقَوْمَ فَدَخَلَ فِي عُرْضِ النَّاسِ، فَقَاتَلَ حَتَّى أَثْبَتَتْهُ الْجِرَاحَةُ، قَالَ: فَبَيْنَمَا رِجَالُ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ يَلْتَمِسُونَ قَتْلَاهُمْ فِي الْمَعْرَكَةِ إِذَا هُمْ بِهِ، فَقَالُوا: وَاللَّهِ إِنَّ هَذَا لَلْأُصَيْرِمُ وَمَا جَاءَ؟! لَقَدْ تَرَكْنَاهُ وَإِنَّهُ لَمُنْكِرٌ هَذَا الْحَدِيثَ، فَسَأَلُوهُ مَا جَاءَ بِهِ؟ قَالُوا: مَا جَاءَ بِكَ يَا عَمْرُو، أَحَرْبًا عَلَى قَوْمِكَ أَوْ رَغْبَةً فِي الْإِسْلَامِ؟ قَالَ: بَلْ رَغْبَةً فِي الْإِسْلَامِ، آمَنْتُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، وأَسْلَمْتُ، ثُمَّ أَخَذْتُ سَيْفِي فَغَدَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَاتَلْتُ حَتَّى أَصَابَنِي مَا أَصَابَنِي، قَالَ: ثُمَّ لَمْ يَلْبَثْ أَنْ مَاتَ فِي أَيْدِيهِمْ، فَذَكَرُوهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِنَّهُ لَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ" .
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ لوگوں سے پوچھا کہ ایک ایسے آدمی کے متعلق بتاؤ جو جنت میں داخل ہوگا حالانکہ اس نے نماز بھی نہیں پڑھی لوگ جب اسے شناخت نہ کرسکے تو انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ وہ کون ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ اصیرم جس کا تعلق بنو عبدالاشہل سے تھا اور اس کا نام عمرو بن ثابت بن وقش تھا حصین کہتے ہیں کہ میں نے حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اصیرم کا کیا واقعہ ہوا تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ وہ اپنی قوم کے سامنے اسلام لانے سے انکار کرتا تھا غزوہ احد کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب جبل احد کی طرف ہوئے تو اسے اسلام کی طرف رغبت ہوئی اور اس نے اسلام قبول کرلیا پھر تلوار پکڑی اور روانہ ہوگیا۔ وہ لوگوں کے پاس پہنچا اور لوگوں کی صفوں میں گھس گیا اور اس بےجگری سے لڑا کہ بالآخر زخمی ہو کر گرپڑا بنو عبدالاشہل کے لوگ جب اپنے مقتولوں کو تلاش کر رہے تھے تو انہیں میدان جنگ میں وہ بھی پڑا نظر آیا وہ کہنے لگے کہ واللہ یہ تو اصیرم ہے لیکن یہ یہاں کیسے آگیا؟ جب ہم اسے چھوڑ کر آئے تھے تو اس وقت تک یہ اس دین کا منکر تھا پھر انہوں نے اس سے پوچھا کہ عمرو! تم یہاں کیسے آگئے؟ اپنی قوم کا دفاع کرنے کے لئے یا اسلام کی کشش کی وجہ سے؟ اس نے کہا کہ اسلام کی کشش کی وجہ سے میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آیا اور میں مسلمان ہوگیا پھر اپنی تلوار پکڑی اور روانہ ہوگیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جہاد میں شرکت کی اب جو مجھے زخم لگنے تھے وہ لگ گئے تھوڑی دیر میں وہ ان کے ہاتھوں میں دم توڑ گیا لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اہل جنت میں سے ہے۔
قال قال عبد الله: وجدت هذا الحديث في كتاب ابي بخطه: حدثنا إسحاق بن عيسى ، حدثنا عبد الرحمن بن ابي الزناد ، عن عمرو بن ابي عمرو ، عن عاصم بن عمر بن قتادة ، عن محمود بن لبيد ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن اخوف ما اخاف عليكم الشرك الاصغر، قالوا: يا رسول الله، وما الشرك الاصغر؟ قال: الرياء، إن الله تبارك وتعالى يقول يوم تجازى العباد باعمالهم: " اذهبوا إلى الذين كنتم تراءون باعمالكم في الدنيا، فانظروا هل تجدون عندهم جزاء" .قَالَ قَالَ عَبْد اللَّهِ: وَجَدْتُ هَذَا الْحَدِيثَ فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّهِ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ؟ قَالَ: الرِّيَاءُ، إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَقُولُ يَوْمَ تُجَازَى الْعِبَادُ بِأَعْمَالِهِمْ: " اذْهَبُوا إِلَى الَّذِينَ كُنْتُمْ تُرَاءُونَ بِأَعْمَالِكُمْ فِي الدُّنْيَا، فَانْظُرُوا هَلْ تَجِدُونَ عِنْدَهُمْ جَزَاءً" .
حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تمہارے اوپر سب سے زیادہ " شرک اصغر " کا خوف ہے لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! شرک اصغر سے کیا مراد ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ریاکاری اللہ تعالیٰ قیامت کے ریاکاروں سے فرمائے گا " جبکہ لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا " کہ جنہیں دکھانے کے لئے دنیا میں تم اعمال کرتے تھے ان کے پاس جاؤ اور دیکھو کہ کیا ان کے پاس اس کا کوئی بدلہ ہے؟۔