حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص سورت اخلاص پڑھ لے یہ ایسے ہے جیسے اس نے ایک تہائی قرآن کی تلاوت کی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وقد اختلف فى هذا الإسناد على هلال بن يساف
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنا سنت سے ثابت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں ہم اس طرح کرتے تھے لیکن کوئی ہمیں اس پر طعنہ نہیں دیتا تھا یہ سن کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ حکم اس وقت تھا جب لوگوں کے پاس کپڑوں کی قلت ہوتی تھی اب جب اللہ نے وسعت دے دی ہے تو دو کپڑوں میں نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح، أبو نضرة لم يدرك هذه القصة ، و إنما سمعها من أبى سعيد الخدري
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول مبارک تھا کہ ماہ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے ایک سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر تھے اس لئے اعتکاف نہیں کرسکے چنانچہ جب اگلا سال آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ان سے پوچھا کہ قرآن کریم میں سب سے عظیم آیت کون سی ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سوال کئی مرتبہ دہرایا تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہہ دیا آیت الکرسی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا ابوالمنذر! تمہیں علم مبارک ہو، اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے عرش کے پائے کے پاس یہ اللہ کی پاکیزگی بیان کرتی ہوگی اور اس کی ایک زبان اور دو ہونٹ ہوں گے۔
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن محمد بن إسحاق ، حدثني عبد الله بن ابي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم ، عن يحيى بن عبد الله بن عبد الرحمن بن سعد بن زرارة ، عن عمارة بن عمرو بن حزم ، عن ابي بن كعب ، قال:" بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم مصدقا على بلي وعذرة وجميع بني سعد بن هذيم بن قضاعة، وقال يعقوب في موضع آخر من قضاعة، قال: فصدقتهم، حتى مررت بآخر رجل منهم، وكان منزله وبلده من اقرب منازلهم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة، قال: فلما جمع إلي ماله لم اجد عليه فيها إلا ابنة مخاض يعني فاخبرته انها صدقته، قال: فقال: ذاك ما لا لبن فيه ولا ظهر، وايم الله ما قام في مالي رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا رسول له قط قبلك، وما كنت لاقرض الله تبارك وتعالى من مالي ما لا لبن فيه ولا ظهر، ولكن هذه ناقة فتية سمينة فخذها"، قال: فقلت له: ما انا بآخذ ما لم اومر به، فهذا رسول الله صلى الله عليه وسلم منك قريب، فإن احببت ان تاتيه فتعرض عليه ما عرضت علي فافعل، فإن قبله منك قبله، وإن رده عليك رده، قال: فإني فاعل، قال: فخرج معي وخرج بالناقة التي عرض علي حتى قدمنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فقال له: يا نبي الله اتاني رسولك لياخذ مني صدقة مالي، وايم الله ما قام في مالي رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا رسول له قط قبله، فجمعت له مالي، فزعم ان ما علي فيه ابنة مخاض، وذلك ما لا لبن فيه ولا ظهر، وقد عرضت عليه ناقة فتية سمينة لياخذها فابى علي ذلك، وقال: ها هي هذه قد جئتك بها يا رسول الله خذها، قال: فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ذلك الذي عليك، فإن تطوعت بخير قبلناه منك، وآجرك الله فيه"، قال: فها هي ذه يا رسول الله قد جئتك بها فخذها، قال: فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقبضها، ودعا له في ماله بالبركة ..حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ:" بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُصَدِّقًا عَلَى بَلِيٍّ وَعُذْرَةَ وَجَمِيعِ بَنِي سَعْدٍ بْنِ هُذَيْمِ بْنِ قُضَاعَةَ، وَقَالَ يَعْقُوبُ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ مِنْ قُضَاعَةَ، قَالَ: فَصَدَّقْتُهُمْ، حَتَّى مَرَرْتُ بِآخِرِ رَجُلٍ مِنْهُمْ، وَكَانَ مَنْزِلُهُ وَبَلَدُهُ مِنْ أَقْرَبِ مَنَازِلِهِمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ، قَالَ: فَلَمَّا جَمَعَ إِلَيَّ مَالَهُ لَمْ أَجِدْ عَلَيْهِ فِيهَا إِلَّا ابْنَةَ مَخَاضٍ يَعْنِي فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّهَا صَدَقَتُهُ، قَالَ: فَقَالَ: ذَاكَ مَا لَا لَبَنَ فِيهِ وَلَا ظَهْرَ، وَايْمُ اللَّهِ مَا قَامَ فِي مَالِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا رَسُولٌ لَهُ قَطُّ قَبْلَكَ، وَمَا كُنْتُ لِأُقْرِضَ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مِنْ مَالِي مَا لَا لَبَنَ فِيهِ وَلَا ظَهْرَ، وَلَكِنْ هَذِهِ نَاقَةٌ فَتِيَّةٌ سَمِينَةٌ فَخُذْهَا"، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: مَا أَنَا بِآخِذٍ مَا لَمْ أُومَرْ بِهِ، فَهَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكَ قَرِيبٌ، فَإِنْ أَحْبَبْتَ أَنْ تَأْتِيَهُ فَتَعْرِضَ عَلَيْهِ مَا عَرَضْتَ عَلَيَّ فَافْعَلْ، فَإِنْ قَبِلَهُ مِنْكَ قَبِلَهُ، وَإِنْ رَدَّهُ عَلَيْكَ رَدَّهُ، قَالَ: فَإِنِّي فَاعِلٌ، قَالَ: فَخَرَجَ مَعِي وَخَرَجَ بِالنَّاقَةِ الَّتِي عَرَضَ عَلَيَّ حَتَّى قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَتَانِي رَسُولُكَ لِيَأْخُذَ مِنِّي صَدَقَةَ مَالِي، وَايْمُ اللَّهِ مَا قَامَ فِي مَالِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا رَسُولٌ لَهُ قَطُّ قَبْلَهُ، فَجَمَعْتُ لَهُ مَالِي، فَزَعَمَ أَنَّ مَا عَلَيَّ فِيهِ ابْنَةَ مَخَاضٍ، وَذَلِكَ مَا لَا لَبَنَ فِيهِ وَلَا ظَهْرَ، وَقَدْ عَرَضْتُ عَلَيْهِ نَاقَةً فَتِيَّةً سَمِينَةً لِيَأْخُذَهَا فَأَبَى عَلَيَّ ذَلِكَ، وَقَالَ: هَا هِيَ هَذِهِ قَدْ جِئْتُكَ بِهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ خُذْهَا، قَالَ: فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ذَلِكَ الَّذِي عَلَيْكَ، فَإِنْ تَطَوَّعْتَ بِخَيْرٍ قَبِلْنَاهُ مِنْكَ، وَآجَرَكَ اللَّهُ فِيهِ"، قَالَ: فَهَا هِيَ ذِهْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ جِئْتُكَ بِهَا فَخُذْهَا، قَالَ: فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْضِهَا، وَدَعَا لَهُ فِي مَالِهِ بِالْبَرَكَةِ ..
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلی، عذرہ اور تمام بنو سعد بن ہذیم کی طرف زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا میں نے ان سے زکوٰۃ وصول کی اور سب سے آخری آدمی کے پاس آگیا اس کا گھر اور علاقہ مدینہ منورہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے دوسروں کی نسبت سب سے زیادہ قریب تھا جب اس نے اپنا سارا مال میرے سامنے پیش کیا تو اس کی زکوٰۃ صرف ایک بنت مخاض بنتی تھی میں نے اسے بتادیا کہ اس کی زکوٰۃ اتنی بنتی ہے اس نے کہا کہ اس اونٹنی میں تو دودھ ہے اور نہ ہی یہ سواری کے قابل ہے بخدا! اس سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا ان کا کوئی قاصد کبھی میرے مال میں آکر کھڑا نہیں ہوا اب میں اپنے مال میں سے اللہ تعالیٰ کو ایسا جانور قرض نہیں دے سکتا جس میں دودھ ہو اور نہ ہی وہ سواری کے قابل ہو البتہ یہ جوان اور صحت مند اونٹنی موجود ہے اسے لے لو میں نے کہا کہ میں تو ایسی چیز نہیں لے سکتا جس کی مجھے اجازت نہ ہو البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے قریب ہی ہیں اگر تم چاہو تو ان کے پاس چل کر وہی پیش کش کردو جو تم نے میرے سامنے رکھی ہے اگر انہوں نے قبول کرلیا تو بہت اچھا ورنہ وہ تمہیں واپس کردیں گے اس نے کہا کہ میں ایسا ہی کروں گا۔
چنانچہ وہ میرے ساتھ نکل پڑا اور اپنے ساتھ وہ اونٹنی بھی لے لی جو اس نے مجھے پیش کی تھی یہاں تک کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے اس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی! میرے پاس آپ کا قاصد میرے مال کی زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے آیا اللہ کی قسم اس سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا ان کا کوئی قاصد کبھی میرے مال میں آکر کھڑا نہیں ہوا سو میں نے اپنا سارا مال اکٹھا کیا قاصد کا خیال یہ تھا کہ اس مال میں مجھ پر ایک بنت مخاض واجب ہوتی ہے لیکن وہ اونٹنی ایسی تھی کہ جس میں دودھ تھا اور نہ ہی وہ سواری کے قابل تھی اس لئے میں نے اس کے سامنے ایک جوان اور صحت مند اونٹنی پیش کی لیکن انہوں نے لینے سے انکار کردیا اب یا رسول اللہ! یہ سب آپ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا ہوں آپ اسے قبول فرما لیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم پر زکوٰۃ تو اتنی ہی بنتی تھی البتہ اگر تم خود سے نیکی کرنا چاہتے ہو تو ہم قبول کرلیتے ہیں اللہ تمہیں اس کا اجر دے گا اس نے وہ اونٹنی پیش کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے لینے کا حکم دیا اور اس کے مال میں برکت کی دعاء فرمائی۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ لوگوں کو نماز پڑھاتے ہوئے دوران تلاوت ایک آیت چھوڑ دی نماز کے بعد فرمایا تم میں سے کس نے میری قرأت میں نئی چیز محسوس کی ہے؟ حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے فلاں فلاں آیت چھوڑ دی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے معلوم تھا کہ اگر کسی نے اس چیز کو محسوس کیا ہوگا تو وہ تم ہی ہوگے۔
حدثنا سفيان بن عيينة ، عن إسماعيل بن امية ، عمن حدثه، عن ام ولد ابي بن كعب ، عن ابي بن كعب ، انه دخل على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" متى عهدك بام ملدم؟" وهو حر بين الجلد واللحم، قال: إن ذلك لوجع ما اصابني قط، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " مثل المؤمن مثل الخامة تحمر مرة وتصفر اخرى" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ ، عَمَّنْ حَدَّثَهُ، عَنْ أُمِّ وَلَدِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَتَى عَهْدُكَ بِأُمِّ مِلْدَمٍ؟" وَهُوَ حَرٌّ بَيْنَ الْجِلْدِ وَاللَّحْمِ، قَالَ: إِنَّ ذَلِكَ لَوَجَعٌ مَا أَصَابَنِي قَطُّ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَثَلُ الْمُؤْمِنِ مَثَلُ الْخَامَةِ تَحْمَرُّ مَرَّةً وَتَصْفَرُّ أُخْرَى" .
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا ام ملدم (بخار) کو ختم ہوئے کتنا عرصہ ہوا ہے؟ اس نے کہا کہ مجھے یہ تکلیف کبھی نہیں ہوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان کی مثال اس دانے کی سی ہے جو کبھی سرخ ہوتا ہے اور کبھی زرد۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام الرجل الذى حدث عنه إسماعيل بن أمية ولابهام أم ولد أبى بن كعب
حدثنا هشيم ، انبانا يونس ، عن الحسن ، ان عمر اراد ان ينهى عن متعة الحج، فقال له ابي : ليس ذاك لك، قد تمتعنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم ينهنا عن ذلك، فاضرب عن ذلك عمر، واراد ان ينهى عن حلل الحبرة، لانها تصبغ بالبول، فقال له ابي: ليس ذلك لك قد لبسهن النبي صلى الله عليه وسلم ولبسناهن في عهده .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَنْبَأَنَا يُونُسُ ، عَنْ الْحَسَنِ ، أَنَّ عُمَرَ أَرَادَ أَنْ يَنْهَى عَنْ مُتْعَةِ الْحَجِّ، فَقَالَ لَهُ أُبَيٌّ : لَيْسَ ذَاكَ لَكَ، قَدْ تَمَتَّعْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَنْهَنَا عَنْ ذَلِكَ، فَأَضْرَبَ عَنْ ذَلِكَ عُمَرُ، وَأَرَادَ أَنْ يَنْهَى عَنْ حُلَلِ الْحِبَرَةِ، لِأَنَّهَا تُصْبَغُ بِالْبَوْلِ، فَقَالَ لَهُ أُبَيٌّ: لَيْسَ ذَلِكَ لَكَ قَدْ لَبِسَهُنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَبِسْنَاهُنَّ فِي عَهْدِهِ .
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ارادہ کیا کہ حج تمتع کی ممانعت کردیں تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا آپ ایسا نہیں کرسکتے ہم نے خو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج تمتع کیا ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع نہیں فرمایا چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس ارادے سے رک گئے پھر ان کا ارادہ ہوا کہ دھاری دار یمنی چادروں اور حلوں سے منع کردیں کہ ان پر پیشاب کا رنگ چڑھایا جاتا ہے تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ آپ یہ بھی نہیں کرسکتے اس لئے کہ یہ چادریں تو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زیب تن فرمائیں اور ہم نے بھی ان کے دور باسعادت میں پہنی ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، الحسن لم يلق عمر و لا أبيا، لكن قد صح نهي عمر عن متعة الحج، وأما شطره الثاني فقد جاء من عدة طرق منقطعة، لكن بمجموعها تدل على أن لها أصلا عن عمر
صعصعہ بن صوحان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ چند لوگوں کے ساتھ روانہ ہوئے راستے میں انہیں ایک درہ گرا پڑا ملا ان کے ایک ساتھی نے اسے اٹھالیا لوگوں نے اسے منع کیا اور نہ حکم دیا، مدینہ منورہ پہنچ کر میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے اس واقعے کا تذکرہ کیا انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک سال تک اس کی تشہیر کرو تین سال تک اس طرح ہوا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، عمارة ابن غزية غلط فى إسناده، والصواب: عن سلمة بن كهيل، عن سويد بن غفلة ، وله فيه قصة مع زيد بن صوحان، لا مع أخيه صعصعة، ثم إن تعريفها ثلاثة أحوال خطأ من سلمة
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا بلال! اپنی اذان اور اقامت کے درمیان کچھ وقفہ کرلیا کرو تاکہ اس وقفے میں جو شخص کھانا کھا رہا ہو وہ اس سے فارغ ہوجائے اور جس نے وضو کرنا ہو وہ قضاء حاجت سے فارغ ہوجائے۔
حدثنا عبد الله، حدثني مصعب بن عبد الله الزبيري ، حدثنا عبد العزيز بن محمد ، عن شريك بن عبد الله بن ابي نمر ، عن عطاء بن يسار ، عن ابي بن كعب ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" قرا يوم الجمعة براءة، وهو قائم يذكر بايام الله، وابي بن كعب وجاه النبي صلى الله عليه وسلم وابو الدرداء وابو ذر، فغمز ابي بن كعب احدهما فقال: متى انزلت هذه السورة يا ابي؟ فإني لم اسمعها إلا الآن! فاشار إليه، ان اسكت، فلما انصرفوا، قال: سالتك متى انزلت هذه السورة فلم تخبرني، قال ابي: ليس لك من صلاتك اليوم إلا ما لغوت، فذهبت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، واخبرته بالذي قال ابي، فقال:" صدق ابي" .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي مُصْعَبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الزُّبَيْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" قَرَأَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بَرَاءَةٌ، وَهُوَ قَائِمٌ يُذَكِّرُ بِأَيَّامِ اللَّهِ، وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ وِجَاهَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو الدَّرْدَاءِ وَأَبُو ذَرٍّ، فَغَمَزَ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ أَحَدُهُمَا فَقَالَ: مَتَى أُنْزِلَتْ هَذِهِ السُّورَةُ يَا أُبَيُّ؟ فَإِنِّي لَمْ أَسْمَعْهَا إِلَّا الْآنَ! فَأَشَارَ إِلَيْهِ، أَنْ اسْكُتْ، فَلَمَّا انْصَرَفُوا، قَالَ: سَأَلْتُكَ مَتَى أُنْزِلَتْ هَذِهِ السُّورَةُ فَلَمْ تُخْبِرْنِي، قَالَ أُبَيٌّ: لَيْسَ لَكَ مِنْ صَلَاتِكَ الْيَوْمَ إِلَّا مَا لَغَوْتَ، فَذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، وَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي قَالَ أُبَيٌّ، فَقَالَ:" صَدَقَ أُبَيٌّ" .
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ جمعہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے برسر منبر سورت برأت کی تلاوت فرمائی اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر اللہ کے احسانات کا تذکرہ فرما رہے تھے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے ان کے ہمراہ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ اور ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے ایک نے حضرت ابی رضی اللہ عنہ کو چٹکی بھری اور کہا کہ ابی! یہ سورت کب نازل ہوئی ہے؟ یہ تو میں ابھی سن رہا ہوں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے انہیں اشارے سے خاموش رہنے کا حکم دیا۔
نماز سے فارغ ہو کر انہوں نے کہا کہ میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ یہ سورت کب نازل ہوئی تو آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟ حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا آج تو تمہاری نماز صرف اتنی ہی ہوئی ہے جتنا تم نے اس میں یہ لغو کام کیا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے گئے اور حضرت ابی رضی اللہ عنہ کی یہ بات ذکر کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابی نے سچ کہا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد قوي إن ثبت سماع عطاء بن يسار من أبى بن كعب
حدثنا عبد الله، حدثنا محمد بن إسحاق بن محمد المسيبي ، حدثنا انس بن عياض ، عن يونس بن يزيد ، قال: قال ابن شهاب ، قال انس بن مالك كان ابي بن كعب يحدث، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " فرج سقف بيتي وانا بمكة، فنزل جبريل، ففرج صدري ثم غسله من ماء زمزم، ثم جاء بطست من ذهب ممتلئ حكمة وإيمانا، فافرغها في صدري ثم اطبقه، ثم اخذ بيدي فعرج بي إلى السماء، فلما جاء السماء الدنيا فافتتح، فقال: من هذا؟ قال جبريل، قال: هل معك احد؟ قال: نعم، معي محمد، قال: ارسل إليه؟ قال: نعم، فافتح، فلما علونا السماء الدنيا إذا رجل عن يمينه اسودة، وعن يساره اسودة، وإذا نظر قبل يمينه تبسم، وإذا نظر قبل يساره بكى، قال: مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح، قال: قلت لجبريل: من هذا؟ قال: هذا آدم وهذه الاسودة عن يمينه وشماله نسم بنيه فاهل اليمين هم اهل الجنة، والاسودة التي عن شماله اهل النار، فإذا نظر قبل يمينه ضحك، وإذا نظر قبل شماله بكى، قال: ثم عرج بي جبريل حتى جاء السماء الثانية، فقال: لخازنها افتح، فقال له خازنها: مثل ما قال خازن السماء الدنيا، ففتح له"، قال انس بن مالك، فذكر انه وجد في السموات آدم وإدريس وموسى وعيسى وإبراهيم، ولم يثبت لي كيف منازلهم، غير انه ذكر انه وجد آدم في السماء الدنيا، وإبراهيم في السماء السادسة، قال انس: فلما مر جبريل ورسول الله صلى الله عليه وسلم بإدريس، قال مرحبا بالنبي الصالح والاخ الصالح، قال: فقلت: من هذا؟ قال: هذا إدريس، قال: ثم مررت بموسى، فقال مرحبا بالنبي الصالح والاخ الصالح، قلت: من هذا؟ قال هذا: موسى، ثم مررت بعيسى، فقال مرحبا بالنبي الصالح والاخ الصالح، قلت: من هذا؟ قال هذا: عيسى ابن مريم، قال: ثم مررت بإبراهيم، فقال: مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح، قلت من هذا؟ قال هذا: إبراهيم"، قال ابن شهاب، واخبرني ابن حزم، ان ابن عباس، وابا حبة الانصاري، يقولان: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ثم عرج بي حتى ظهرت بمستوى اسمع صريف الاقلام" قال ابن حزم ، وانس بن مالك ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فرض الله على امتي خمسين صلاة، قال: فرجعت بذلك حتى امر على موسى، فقال: ماذا فرض ربك على امتك؟ قلت: فرض عليهم خمسين صلاة، فقال لي موسى راجع ربك، فإن امتك لا تطيق ذلك، قال: فراجعت ربي فوضع شطرها، فرجعت إلى موسى فاخبرته، فقال: راجع ربك، فإن امتك لا تطيق ذلك، قال: فراجعت ربي، فقال: هي خمس وهي خمسون لا يبدل القول لدي، قال: فرجعت إلى موسى، فقال: راجع ربك، فقلت: قد استحييت من ربي، قال: ثم انطلق بي حتى اتى بي سدرة المنتهى، قال: فغشيها الوان ما ادري ما هي! قال: ثم ادخلت الجنة، فإذا فيها جنابذ اللؤلؤ، وإذا ترابها المسك"..حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْمُسَيَّبِيُّ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ ، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ كَانَ أُبَيِّ بْنَ كَعْبٍ يُحَدِّثُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " فُرِجَ سَقْفُ بَيْتِي وَأَنَا بِمَكَّةَ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ، فَفَرَجَ صَدْرِي ثُمَّ غَسَلَهُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُمْتَلِئٍ حِكْمَةً وَإِيمَانًا، فَأَفْرَغَهَا فِي صَدْرِي ثُمَّ أَطْبَقَهُ، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَعَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ، فَلَمَّا جَاءَ السَّمَاءَ الدُّنْيَا فَافْتَتَحَ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ جِبْرِيلُ، قَالَ: هَلْ مَعَكَ أَحَدٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، مَعِي مُحَمَّدٌ، قَالَ: أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَافْتَحْ، فَلَمَّا عَلَوْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا إِذَا رَجُلٌ عَنْ يَمِينِهِ أَسْوِدَةٌ، وَعَنْ يَسَارِهِ أَسْوِدَةٌ، وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَمِينِهِ تَبَسَّمَ، وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَسَارِهِ بَكَى، قَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالِابْنِ الصَّالِحِ، قَالَ: قُلْتُ لِجِبْرِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا آدَمُ وَهَذِهِ الْأَسْوِدَةُ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ نَسَمُ بَنِيهِ فَأَهْلُ الْيَمِينِ هُمْ أَهْلُ الْجَنَّةِ، وَالْأَسْوِدَةُ الَّتِي عَنْ شِمَالِهِ أَهْلُ النَّارِ، فَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَمِينِهِ ضَحِكَ، وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شِمَالِهِ بَكَى، قَالَ: ثُمَّ عَرَجَ بِي جِبْرِيلُ حَتَّى جَاءَ السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ، فَقَالَ: لِخَازِنِهَا افْتَحْ، فَقَالَ لَهُ خَازِنُهَا: مِثْلَ مَا قَالَ خَازِنُ السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَفَتَحَ لَهُ"، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، فَذَكَرَ أَنَّهُ وَجَدَ فِي السَّمَوَاتِ آدَمَ وَإِدْرِيسَ وَمُوسَى وعِيسَى وَإِبْرَاهِيمَ، وَلَمْ يُثْبِتْ لِي كَيْفَ مَنَازِلُهُمْ، غَيْرَ أَنَّهُ ذَكَرَ أَنَّهُ وَجَدَ آدَمَ فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا، وَإِبْرَاهِيمَ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، قَالَ أَنَسٌ: فَلَمَّا مَرَّ جِبْرِيلُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِدْرِيسَ، قَالَ مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالْأَخِ الصَّالِحِ، قَالَ: فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا إِدْرِيسُ، قَالَ: ثُمَّ مَرَرْتُ بِمُوسَى، فَقَالَ مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالْأَخِ الصَّالِحِ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ هَذَا: مُوسَى، ثُمَّ مَرَرْتُ بِعِيسَى، فَقَالَ مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالْأَخِ الصَّالِحِ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ هَذَا: عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ، قَالَ: ثُمَّ مَرَرْتُ بِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالِابْنِ الصَّالِحِ، قُلْتُ مَنْ هَذَا؟ قَالَ هَذَا: إِبْرَاهِيمُ"، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ، وَأَخْبَرَنِي ابْنُ حَزْمٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَأَبَا حَبَّةَ الْأَنْصَارِيَّ، يَقُولَانِ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ثُمَّ عُرِجَ بِي حَتَّى ظَهَرْتُ بِمُسْتَوًى أَسْمَعُ صَرِيفَ الْأَقْلَامِ" قَالَ ابْنُ حَزْمٍ ، وَأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَرَضَ اللَّهُ عَلَى أُمَّتِي خَمْسِينَ صَلَاةً، قَالَ: فَرَجَعْتُ بِذَلِكَ حَتَّى أَمُرَّ عَلَى مُوسَى، فَقَالَ: مَاذَا فَرَضَ رَبُّكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسِينَ صَلَاةً، فَقَالَ لِي مُوسَى رَاجِعْ رَبَّكَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ، قَالَ: فَرَاجَعْتُ رَبِّي فَوَضَعَ شَطْرَهَا، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ، قَالَ: فَرَاجَعْتُ رَبِّي، فَقَالَ: هِيَ خَمْسٌ وَهِيَ خَمْسُونَ لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ، فَقُلْتُ: قَدْ اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ بِي حَتَّى أَتَى بِي سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى، قَالَ: فَغَشِيَهَا أَلْوَانٌ مَا أَدْرِي مَا هِيَ! قَالَ: ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ، فَإِذَا فِيهَا جَنَابِذُ اللُّؤْلُؤِ، وَإِذَا تُرَابُهَا الْمِسْكُ"..
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ معراج بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جس زمانے میں میں مکہ مکرمہ میں تھا ایک رات میرے گھر کی چھت کھل گئی اور حضرت جبرائیل علیہ السلام نیچے اترے انہوں نے میرا سینہ چاک کیا اسے آب زمزم سے دھویا پھر سونے کی ایک طشتری لائے جو ایمان و حکمت سے بھرپور تھی اور اسے میرے سینے میں انڈیل کر اسے بند کردیا پھر میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے آسمانوں پر لے گئے اور آسمان دنیا پر پہنچ کر دروازہ بجایا اندر سے کسی نے پوچھا کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا جبرائیل ہوں، اس نے پوچھا کیا آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہاں! میرے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اس نے پوچھا کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہاں دروازہ کھولو جب ہم وہاں پہنچے تو ایک آدمی نظر آیا جس کے دائیں بائیں کچھ لوگ بھی تھے دائیں طرف جب وہ دیکھتا تو مسکراتا اور بائیں طرف دیکھتا تو رونے لگتا، اس نے مجھے دیکھ کر "" خوش آمدید "" نیک نبی اور نیک بیٹے کو "" کہا میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور یہ جو دائیں بائیں لوگ نظر آرہے ہیں، وہ ان کی اولاد کی روحیں ہیں دائیں ہاتھ والے جنتی ہیں اور بائیں ہاتھ والے جہنمی ہیں۔ پھر جبرائیل علیہ السلام مجھے دوسرے آسمان پر لے گئے اور اس کے دربان سے دروازے کھولنے کے لئے کہا اور یہاں بھی حسب سابق سوال و جواب ہوئے حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ آسمانوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت آدم، ادریس، موسیٰ، عیسیٰ اور ابراہیم (علیہم السلام) سے ملاقات کی لیکن انہوں نے آسمانوں کی تعین نہیں کی صرف اتنا ہی ذکر کیا کہ آسمان دنیا میں حضرت آدم علیہ السلام کو پایا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو چھٹے آسمان پر پایا۔ جب حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر حضرت ادریس علیہ السلام کے پاس سے گذرے تو انہوں نے کہا "" نیک نبی اور نیک بھائی کو خوش آمدید "" میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا یہ حضرت ادریس علیہ السلام ہیں پھر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گذرا تو انہوں نے کہا "" نیک نبی اور نیک بھائی خوش آمدید "" میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں پھر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گذرا تو انہوں نے کہا "" نیک نبی اور نیک بھائی کو خوش آمدید "" میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں پھر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے گذرا تو انہوں نے کہا "" نیک نبی اور نیک بیٹے کو خوش آمدید "" میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں پھر مجھے مزید اوپر لے جایا گیا یہاں تک کہ میں ایسے مقام پر پہنچ گیا جہاں میں قلموں کے چلنے کی آواز سن رہا تھا۔" اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں میں اس تحفے کو لے کر واپس ہوا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گذر ہوا انہوں نے پوچھا کہ آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا؟ میں نے انہیں بتایا کہ پچاس نمازیں فرض کی ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مجھ سے کہا کہ اپنے رب کے پاس واپس جائیے آپ کی امت میں اتنی نمازیں ادا کرنے کی طاقت نہیں ہوگی چنانچہ میں نے اپنے رب کے پاس واپس جا کر اس سے درخواست کی تو اس نے اس کا کچھ حصہ معاف کردیا (جو بالآخر ہوتے ہوتے پانچ نمازوں پر رک گیا) لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر واپس جانے کا مشورہ دیا اس مرتبہ ارشاد ہوا کہ نمازیں پانچ ہیں اور ان پر ثواب پچاس کا ہے میرے یہاں بات بدلا نہیں کرتی واپسی پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مجھے پھر تخفیف کرانے کا مشورہ دیا لیکن میں نے ان سے کہہ دیا کہ اب مجھے اپنے رب سے شرم آتی ہے پھر مجھے سدرۃ المنتہی پر لے جایا گیا جیسے ایسے رنگوں نے ڈھانپ رکھا تھا جن کی حقیقت مجھے معلوم نہیں پھر مجھے جنت میں داخل کیا گیا تو وہاں موتیوں کے خیمے نظر آئے اور وہاں کی مٹی مشک تھی۔