حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، اخبرنا هشام الدستوائي ، قال ابي: وابو عامر العقدي ، قال: حدثنا هشام ، عن يحيى بن ابي كثير، عن محمد بن إبراهيم ، عن عيسى بن طلحة ، قال ابو عامر في حديثه: قال: حدثني عيسى بن طلحة، قال: دخلنا على معاوية، فنادى المنادي بالصلاة، فقال: الله اكبر، الله اكبر، فقال معاوية : الله اكبر، الله اكبر، فقال: اشهد ان لا إله إلا الله، قال معاوية: وانا اشهد قال ابو عامر: ان لا إله إلا الله، قال: اشهد ان محمدا رسول الله، قال معاوية: وانا اشهد، قال ابو عامر: ان محمدا رسول الله، قال يحيى: فحدثنا رجل، انه لما قال: حي على الصلاة، قال: " لا حول ولا قوة إلا بالله"، قال معاوية: هكذا سمعت نبيكم صلى الله عليه وسلم يقول حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ ، قَالَ أَبِي: وَأَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ ، قَالَ أَبُو عَامِرٍ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ: حَدَّثَنِي عِيسَى بْنُ طَلْحَةَ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَنَادَى الْمُنَادِي بِالصَّلَاةِ، فَقَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ : اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ مُعَاوِيَةُ: وَأَنَا أَشْهَدُ قَالَ أَبُو عَامِرٍ: أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ مُعَاوِيَةُ: وَأَنَا أَشْهَدُ، قَالَ أَبُو عَامِرٍ: أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ يَحْيَى: فَحَدَّثَنَا رَجُلٌ، أَنَّهُ لَمَّا قَالَ: حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: " لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ"، قَالَ مُعَاوِيَةُ: هَكَذَا سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ
عیسیٰ بن طلحہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، اسی اثناء میں مؤذن نے اذان دینا شروع کردی، جب اس نے «الله اكبر، الله اكبر» کہا تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی «الله اكبر، الله اكبر» کہا، جب اس نے «اشهد ان لا اله الا الله» کہا تو انہوں نے کہا «وانا اشهد» جب اس نے «اشهد ان محمد رسول الله» کہا تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی «وانا اشهد» کہا، جب اس نے «حي على الصلاة» کہا تو انہوں نے کہا «لا حول ولاقوة الا بالله» اور فرمایا کہ میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح اذان کا جواب دیتے ہوئے سنا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده إلى قوله: وأنا أشهد أن محمدا رسول الله صحيح، خ: 912، وباقيه صحيح لغيره لابهام شيخ يحيى بن أبى كثير
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن سعيد بن المسيب ، قال: قدم معاوية المدينة، فخطبنا، واخرج كبة من شعر، فقال: ما كنت ارى ان احدا يفعله إلا اليهود، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم بلغه فسماه الزور، او الزير ، شك محمد بن جعفرحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، قَالَ: قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْمَدِينَةَ، فَخَطَبَنَا، وَأَخْرَجَ كُبَّةً مِنْ شَعَرٍ، فَقَالَ: مَا كُنْتُ أَرَى أَنَّ أَحَدًا يَفْعَلُهُ إِلَّا الْيَهُودَ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلَغَهُ فَسَمَّاهُ الزُّورَ، أَوْ الزِّيرَ ، شَكَّ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ
سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور ہمیں خطبہ دیا، جس میں بالوں کا ایک گچھا نکال کر دکھایا اور فرمایا میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح تو صرف یہودی کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات معلوم ہوئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جھوٹ کا نام دیا تھا۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن حبيب بن الشهيد ، قال: سمعت ابا مجلز ، قال: دخل معاوية على عبد الله بن الزبير، وابن عامر، قال: فقام ابن عامر، ولم يقم ابن الزبير، قال: وكان الشيخ اوزنهما، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من احب ان يمثل له عباد الله قياما، فليتبوا مقعده من النار" حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مِجْلَزٍ ، قَالَ: دَخَلَ مُعَاوِيَةُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَابْنِ عَامِرٍ، قَالَ: فَقَامَ ابْنُ عَامِرٍ، وَلَمْ يَقُمْ ابْنُ الزُّبَيْرِ، قَالَ: وَكَانَ الشَّيْخُ أَوْزَنَهُمَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَمْثُلَ لَهُ عِبَادُ اللَّهِ قِيَامًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ"
ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور ابن عامر کے یہاں گئے، ابن عامر تو ان کے احترام میں کھڑے ہوگئے لیکن ابن زبیر رضی اللہ عنہ کھڑے نہیں ہوئے اور شیخ ان دونوں پر بھاری تھے، وہ کہنے لگے کہ رک جاؤ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ اللہ کے بندے اس کے سامنے کھڑے رہیں اسے جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لینا چاہیے۔
قال عبد الله بن احمد: وجدت هذا الحديث في كتاب ابي بخط يده، قال: حدثنا محمد بن بكر وهو البرساني ، قال: انبانا ابن جريج، قال: حدثني عمرو بن يحيى ، ان عيسى بن عمر اخبره، عن عبد الله بن علقمة بن وقاص ، عن علقمة بن وقاص ، قال: إني لعند معاوية إذ اذن مؤذنه، فقال معاوية : كما قال المؤذن، حتى إذا قال: حي على الصلاة، قال: " لا حول ولا قوة إلا بالله"، فلما قال: حي على الفلاح، قال:" لا حول ولا قوة إلا بالله"، وقال بعد ذلك ما قال المؤذن، ثم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ذلك قَالَ عَبْد اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ: وَجَدْتُ هَذَا الْحَدِيثَ فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ وَهُوَ البُرْسَانِي ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ يَحْيَى ، أَنَّ عِيسَى بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ ، قَالَ: إِنِّي لَعِنْدَ مُعَاوِيَةَ إِذْ أَذَّنَ مُؤَذِّنُهُ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ : كَمَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ، حَتَّى إِذَا قَالَ: حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: " لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ"، فَلَمَّا قَالَ: حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَالَ:" لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ"، وَقَالَ بَعْدَ ذَلِكَ مَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَلِكَ
علقمہ بن وقاص رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا کہ مؤذن اذان دینے لگا، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی وہی کلمات دہرانے لگے، جب اس نے حی علی الصلاۃ کہا تو انہوں نے لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہا، حی علی الفلاح کے جواب میں بھی یہی کہا، اس کے بعد مؤذن کے کلمات دہراتے رہے، پھر فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی فرماتے ہوئے سنا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، عيسي بن عمر مجهول، وعبدالله بن علقمة بن وقاص مجهول الحال، لكنه توبع
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، قال: اخبرنا علي بن زيد ، عن سعيد بن المسيب ، ان معاوية دخل على عائشة، فقالت له: اما خفت ان اقعد لك رجلا فيقتلك؟ فقال: ما كنت لتفعلي وانا في بيت امان، وقد سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول يعني: " الإيمان قيد الفتك" ، كيف انا في الذي بيني وبينك، وفي حوائجك؟ قالت: صالح، قال: فدعينا وإياهم حتى نلقى ربنا عز وجلحَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، أَنَّ مُعَاوِيَةَ دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ، فَقَالَتْ لَهُ: أَمَا خِفْتَ أَنْ أُقْعِدَ لَكَ رَجُلًا فَيَقْتُلَكَ؟ فَقَالَ: مَا كُنْتِ لِتَفْعَلِيِ وَأَنَا فِي بَيْتِ أَمَانٍ، وَقَدْ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ يَعْنِي: " الْإِيمَانُ قَيَّدَ الْفَتْكِ" ، كَيْفَ أَنَا فِي الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَكِ، وَفِي حَوَائِجِكِ؟ قَالَتْ: صَالِحٌ، قَالَ: فَدَعِينَا وَإِيَّاهُمْ حَتَّى نَلْقَى رَبَّنَا عَزَّ وَجَلَّ
ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں حاضر ہوئے، انہوں نے فرمایا کیا تمہیں اس بات کا خطرہ نہ ہوا کہ میں ایک آدمی کو بٹھا دوں گی اور وہ تمہیں قتل کر دے گا؟ وہ کہنے لگے کہ آپ ایسا نہیں کر سکتیں، کیونکہ میں امن و امان والے گھر میں ہوں اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایمان بہادری کو بیڑی ڈال دیتا ہے، آپ یہ بتائیے کہ میرا آپ کے ساتھ اور آپ کی ضروریات کے حوالے سے رویہ کیسا ہے؟ انہوں نے فرمایا صحیح ہے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا تو پھر ہمیں اور انہیں چھوڑ دیجئے تاآنکہ ہم اپنے پروردگار سے جا ملیں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد اختلف فيه على حماد بن سلمة، مدار الإسناد على على بن زيد بن جدعان، وحديثه حسن فى الشواهد، وهذا منها
حدثنا عفان ، قال: حدثنا همام ، قال: حدثنا قتادة ، عن ابي شيخ الهنائي ، قال: كنت في ملإ من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم عند معاوية، فقال معاوية : انشدكم الله، اتعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " نهى عن لبس الحرير"؟ قالوا: اللهم نعم، قال: وانا اشهد قال: انشدكم الله، اتعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " نهى عن لبس الذهب إلا مقطعا"؟ قالوا: اللهم نعم، قال وانا اشهد قال: انشدكم الله، اتعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " نهى عن ركوب النمور"؟ قالوا: اللهم نعم، قال: وانا اشهد قال: انشدكم الله، اتعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " نهى عن الشرب في آنية الفضة"؟ قالوا: اللهم نعم، قال: وانا اشهد قال: انشدكم الله، اتعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " نهى عن جمع بين حج وعمرة"؟ قالوا: اما هذا، فلا، قال: اما إنها معهن حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَبِي شَيْخٍ الْهُنَائِيِّ ، قَالَ: كُنْتُ فِي مَلَإٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ : أَنْشُدُكُمْ اللَّهَ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى عَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ"؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: وَأَنَا أَشْهَدُ قَالَ: أَنْشُدُكُمْ اللَّهَ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى عَنْ لُبْسِ الذَّهَبِ إِلَّا مُقَطَّعًا"؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ وَأَنَا أَشْهَدُ قَالَ: أَنْشُدُكُمْ اللَّهَ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى عَنْ رُكُوبِ النُّمُورِ"؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: وَأَنَا أَشْهَدُ قَالَ: أَنْشُدُكُمْ اللَّهَ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى عَنِ الشُّرْبِ فِي آنِيَةِ الْفِضَّةِ"؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: وَأَنَا أَشْهَدُ قَالَ: أَنْشُدُكُمْ اللَّهَ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى عَنْ جَمْعٍ بَيْنَ حَجٍّ وَعُمْرَةٍ"؟ قَالُوا: أَمَّا هَذَا، فَلَا، قَالَ: أَمَا إِنَّهَا مَعَهُنَّ
ابوشیخ ہنائی کہتے ہیں کہ میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مجلس میں ایک مرتبہ بیٹھا ہوا تھا۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم پہننے سے منع فرمایا ہے؟ انہوں نے جواب دیا، جی ہاں! سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں بھی اس کی گواہی دیتا ہوں۔ پھر فرمایا: میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو سونا پہننے سے منع فرمایا ہے الا یہ کہ معمولی سا ہو؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں! سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں بھی اس کی گواہی دیتا ہوں۔ پھر فرمایا: میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چیتے کی سواری سے منع فرمایا ہے؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں! فرمایا: میں بھی اس کی گواہی دیتا ہوں۔ پھر فرمایا: میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کے برتن میں پانی پینے سے منع فرمایا ہے؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں! فرمایا: میں بھی اس کی گواہی دیتا ہوں۔ پھر فرمایا: میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرے کو ایک سفر میں جمع کرنے سے منع فرمایا ہے؟ انہوں نے جواب دیا یہ بات ہم نہیں جانتے، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ بات بھی ثابت شدہ ہے اور پہلی باتوں کے ساتھ ہے۔
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔“
حدثنا علي بن بحر ، قال: حدثني مرحوم بن عبد العزيز ، قال: حدثني ابو نعامة السعدي ، عن ابي عثمان النهدي ، عن ابي سعيد الخدري ، قال: خرج معاوية على حلقة في المسجد، فقال: ما اجلسكم؟ قالوا: جلسنا نذكر الله عز وجل، قال: آلله ما اجلسكم إلا ذاك؟ قالوا: آلله ما اجلسنا إلا ذاك، قال: اما إني لم استحلفكم تهمة لكم، وما كان احد بمنزلتي من رسول الله صلى الله عليه وسلم اقل عنه حديثا مني، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج على حلقة من اصحابه، فقال:" ما اجلسكم؟" قالوا: جلسنا نذكر الله عز وجل، ونحمده على ما هدانا للإسلام ومن علينا بك، قال:" آلله ما اجلسكم إلا ذلك؟" قالوا: آلله ما اجلسنا إلا ذلك، قال: " اما إني لم استحلفكم تهمة لكم، وإنه اتاني جبريل عليه السلام فاخبرني ان الله عز وجل يباهي بكم الملائكة" حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو نَعَامَةَ السَّعْدِيُّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: خَرَجَ مُعَاوِيَةُ عَلَى حَلْقَةٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: مَا أَجْلَسَكُمْ؟ قَالُوا: جَلَسْنَا نَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: آللَّهِ مَا أَجْلَسَكُمْ إِلَّا ذَاكَ؟ قَالُوا: آللَّهِ مَا أَجْلَسَنَا إِلَّا ذَاكَ، قَالَ: أَمَا إِنِّي لَمْ أَسْتَحْلِفْكُمْ تُهْمَةً لَكُمْ، وَمَا كَانَ أَحَدٌ بِمَنْزِلَتِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَلَّ عَنْهُ حَدِيثًا مِنِّي، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلَى حَلْقَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ:" مَا أَجْلَسَكُمْ؟" قَالُوا: جَلَسْنَا نَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَنَحْمَدُهُ عَلَى مَا هَدَانَا لِلْإِسْلَامِ وَمَنَّ عَلَيْنَا بِكَ، قَالَ:" آللَّهِ مَا أَجْلَسَكُمْ إِلَّا ذَلِكَ؟" قَالُوا: آللَّهِ مَا أَجْلَسَنَا إِلَّا ذَلِكَ، قَالَ: " أَمَا إِنِّي لَمْ أَسْتَحْلِفْكُمْ تُهْمَةً لَكُمْ، وَإِنَّهُ أَتَانِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فَأَخْبَرَنِي أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُبَاهِي بِكُمْ الْمَلَائِكَةَ"
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ مسجد میں ایک حلقہ ذکر کے پاس آئے، اور ان سے پوچھا کہ آپ لوگوں کو کس چیز نے یہاں بٹھا رکھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا، ہم لوگ بیٹھتے اللہ کا ذکر کر رہے ہیں۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں قسم دے کر پوچھا: کیا واقعی آپ لوگوں کو یہاں اسی چیز نے بٹھا رکھا ہے؟ انہوں نے قسم کھا کر جواب دیا کہ ہم صرف اسی مقصد کے لیے بیٹھے ہیں، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے آپ لوگوں کو قسم کھانے پر اس لئے مجبور نہیں کیا کہ میں آپ کو جھوٹا سمجھتا ہوں، مجھ سے زیادہ کم احادیث نبویہ بیان کرنے والا کوئی نہ ہو گا، بات دراصل یہ ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے صحابہ کے ایک حلقے میں تشریف لے گئے اور انہوں نے بھی اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے یہی سوال و جواب کیے تھے اور ان سے قسم لی تھی اور بعد میں فرمایا تھا کہ میں نے تمہیں قسم کھانے پر اس لئے مجبور نہیں کیا کہ میں تمہیں جھوٹا سمجھتا ہوں، بلکہ میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے تھے اور انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ اس وقت اللہ اپنے فرشتوں کے سامنے تم پر فخر فرما رہا ہے۔
عطا کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بال اپنے پاس موجود قینچی سے کاٹے تھے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم حالت احرام میں تھے (اس سے نکلنے کے لیے بال کٹوانا ضروری ہوتا ہے) یہ ایام عشر کی بات ہے، لیکن کچھ لوگ اس کا انکار کرتے ہیں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: فى أيام العشر، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، عطاء بن أبى رباح لم يسمع هذا الحديث من معاوية
حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، قال: انباني سعد بن إبراهيم ، عن معبد الجهني ، قال: كان معاوية قلما يحدث، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا، ويقول هؤلاء الكلمات قلما يدعهن، او يحدث بهن في الجمع، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من يرد الله به خيرا يفقه في الدين، وإن هذا المال حلو خضر، فمن ياخذه بحقه يبارك له فيه، وإياكم والتمادح، فإنه الذبح" حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: أَنْبَأَنِي سَعْدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ مَعْبَدٍ الْجُهَنِيِّ ، قَالَ: كَانَ مُعَاوِيَةُ قَلَّمَا يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، وَيَقُولُ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ قَلَّمَا يَدَعُهُنَّ، أَوْ يُحَدِّثُ بِهِنَّ فِي الْجُمَعِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهُّ فِي الدِّينِ، وَإِنَّ هَذَا الْمَالَ حُلْوٌ خَضِرٌ، فَمَنْ يَأْخُذْهُ بِحَقِّهِ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَإِيَّاكُمْ وَالتَّمَادُحَ، فَإِنَّهُ الذَّبْحُ"
معبد جہنی کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بہت کم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے حدیث بیان کرتے تھے، البتہ یہ کلمات اکثر جگہوں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ذکر کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ خیر کا ارادہ فرما لیتے ہیں تو اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتے ہیں، اور یہ دنیا کا مال بڑا شیریں اور سرسبز و شاداب ہوتا ہے، سو جو شخص اسے اس کے حق کے ساتھ لیتا ہے، اس کے لیے اس میں برکت ڈال دی جاتی ہے، اور منہ پر تعریف کرنے سے بچو، کیونکہ یہ اس شخص کو ذبح کر دینا ہے۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھ سے پہلے رکوع سجدہ نہ کیا کرو، کیونکہ جب میں تم سے پہلے رکوع کروں گا تو میرے سر اٹھانے سے پہلے تم بھی مجھے رکوع میں پالو گے اور جب تم سے پہلے سجدہ کروں گا تو میرے سر اٹھانے سے پہلے تم بھی مجھے سجدہ میں پا لو گے، یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اب میرا جسم بھاری ہو گیا ہے۔“
حدثنا وكيع ، حدثنا اسامة بن زيد ، عن محمد بن كعب القرظي ، قال: قال معاوية على المنبر " اللهم لا مانع لما اعطيت، ولا معطي لما منعت، ولا ينفع ذا الجد منك الجد، من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين" سمعت هؤلاء الكلمات من رسول الله صلى الله عليه وسلم على هذا المنبر حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ ، قَالَ: قَالَ مُعَاوِيَةُ عَلَى الْمِنْبَرِ " اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ، مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُّ فِي الدِّينِ" سَمِعْتُ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى هَذَا الْمِنْبَرِ
سیدنا ماویہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ منبر پر یہ کلمات کہے: «اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهُّ فِي الدِّينِ» اے ﷲ! جسے آپ دیں، اس سے کوئی روک نہیں سکتا، اور جس سے آپ روک لیں اسے کوئی دے نہیں سکتا اور ذی عزت کو آپ کے سامنے اس کی عزت نفع نہیں پہنچا سکتی، اﷲ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرما لیتا ہے، اسے دین کی سمجھ عطاء فرما دیتا ہے، میں نے یہ کلمات اسی منبر پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے ہیں۔
حدثنا وكيع ، حدثنا ابو المعتمر ، عن ابن سيرين ، عن معاوية ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " لا تركبوا الخز ولا النمار" ، قال ابن سيرين: وكان معاوية لا يتهم في الحديث عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال ابو عبد الرحمن: يقال له: الحيري، يعني ابا المعتمر، ويزيد بن طهمان ابو المعتمر هذاحَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُعْتَمِرِ ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " لَا تَرْكَبُوا الْخَزَّ وَلَا النِّمَارَ" ، قَالَ ابْنُ سِيرِينَ: وَكَانَ مُعَاوِيَةُ لَا يُتَّهَمُ فِي الْحَدِيثِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: يُقَالُ لَهُ: الْحِيْرِيُّ، يَعْنِي أَبَا الْمُعْتَمِرِ، وَيَزِيدُ بْنُ طَهْمَانَ أَبُو الْمُعْتَمِرِ هَذَا
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ریشم یا چیتے کی کھال کسی جانور پر بچھا کر سواری نہ کیا کرو۔“
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ھے تو اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔“
حدثنا عبد الملك بن عمرو ، وعبد الصمد ، قالا: حدثنا هشام ، عن قتادة ، عن سعيد ، قال: قال معاوية ذات يوم: إنكم قد احدثتم زي سوء، " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الزور" ، وقال عبد الصمد: الزور، قال: وجاء رجل بعصا على راسها خرقة، فقال: الا وهذا الزور، قال ابو عامر: قال قتادة: هو ما يكثر به النساء اشعارهن من الخرقحَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلَكِ بْنُ عَمْرٍو ، وَعَبْدُ الصَّمَدِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ سَعِيدٍ ، قَالَ: قَالَ مُعَاوِيَةُ ذَاتَ يَوْمٍ: إِنَّكُمْ قَدْ أَحْدَثْتُمْ زِيَّ سُوءٍ، " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الزُّورِ" ، وَقَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ: الزُّورُ، قَالَ: وَجَاءَ رَجُلٌ بِعَصًا عَلَى رَأْسِهَا خِرْقَةٌ، فَقَالَ: أَلَا وَهَذَا الزُّورُ، قَالَ أَبُو عَامِرٍ: قَالَ قَتَادَةُ: هُوَ مَا يُكَثِّرُ بِهِ النِّسَاءُ أَشْعَارَهُنَّ مِنَ الْخِرَقِ
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم نے برا طریقہ ایجاد کیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے «زور» سے منع فرمایا ھے۔ اسی دوران ایک آدمی آیا جس کے ہاتھ میں لاٹھی تھی اور سر پر عورتوں جیسا کپڑا تھا، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: یہ ہے «زور» ۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چیتیے کی سواری سے اور سونے پہننے سے منع فرمایا، الّا یہ کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو (معمولی مقدار ہو)۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، ميمون القناد حديثه عن أبى قلابة مرسل، وأبو قلابة لم يسمع من معاوية
حدثنا إسماعيل ، حدثنا حبيب بن الشهيد ، عن ابي مجلز ، ان معاوية دخل بيتا فيه ابن عامر، وابن الزبير، فقام ابن عامر، وجلس ابن الزبير، فقال معاوية : اجلس، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من سره ان يمثل له العباد قياما، فليتبوا بيتا في النار" حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ الشَّهِيدِ ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ ، أَنَّ مُعَاوِيَةَ دَخَلَ بَيْتًا فِيهِ ابْنُ عَامِرٍ، وَابْنُ الزُّبَيْرِ، فَقَامَ ابْنُ عَامِرٍ، وَجَلَسَ ابْنُ الزُّبَيْرِ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ : اجْلِسْ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَمْثُلَ لَهُ الْعِبَادُ قِيَامًا، فَلْيَتَبَوَّأْ بَيْتًا فِي النَّارِ"
ایک مرتبہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور ابن عامر کے یہاں گئے، ابن عامر تو ان کے احترام میں کھڑے ہو گئے، لیکن ابن زبیر رضی اللہ عنہ کھڑے نہیں ہوئے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ بیٹھ جاؤ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ اللہ کے بندے اس کے سامنے کھڑے رہیں اسے جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لینا چاہیے۔“
حدثنا محمد بن جعفر ، قال: حدثنا شعبة . وحجاج ، قال: اخبرنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم ، عن معبد الجهني ، قال: كان معاوية قلما يحدث، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: فكان قلما يكاد ان يدع يوم الجمعة هؤلاء الكلمات ان يحدث بهن، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين، وإن هذا المال حلو خضر، فمن ياخذه بحقه يبارك له فيه، وإياكم والتمادح فإنه الذبح" حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . وَحَجَّاجٌ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ مَعْبَدٍ الْجُهَنِيِّ ، قَالَ: كَانَ مُعَاوِيَةُ قَلَّمَا يُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَكَانَ قَلَّمَا يَكَادُ أَنْ يَدَعَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ أَنْ يُحَدِّثَ بِهِنَّ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّ هَذَا الْمَالَ حُلْوٌ خَضِرٌ، فَمَنْ يَأْخُذْهُ بِحَقِّهِ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَإِيَّاكُمْ وَالتَّمَادُحَ فَإِنَّهُ الذَّبْحُ"
معبد جہنی کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بہت کم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کرتے تھے، البتہ یہ کلمات اکثر جگہوں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ذکر کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ خیر کا ارادہ فرما لیتے ہیں تو اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتے ہیں اور یہ دنیا کا مال بڑا شیریں اور سرسبز و شاداب ہوتا ہے، سو جو شخص اسے اس کے حق کے ساتھ لیتا ہے، اس کے لیے اس میں برکت ڈال دی جاتی ہے اور منہ پر تعریف کرنے سے بچو کیونکہ یہ اس شخص کو ذبح کر دینا ہے۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص شراب پیے تو اسے کوڑے مارے جائیں، اگر دوبارہ پیے تو دوبارہ کوڑے مارو، حتیٰ کہ اگر چوتھی مرتبہ پیے تو اسے قتل کر دو۔“
حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا حريز ، عن عبد الرحمن ابن ابي عوف الجرشي ، عن معاوية ، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يمص لسانه او قال شفته، يعني الحسن بن علي صلوات الله عليه وإنه لن يعذب لسان، او شفتان مصهما رسول الله صلى الله عليه وسلم حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا حَرِيزٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ أَبِي عَوْفٍ الْجُرَشِيِّ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمُصُّ لِسَانَهُ أَوْ قَالَ شَفَتَهُ، يَعْنِي الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَنْ يُعَذَّبَ لِسَانٌ، أَوْ شَفَتَانِ مَصَّهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو امام حسن رضی اللہ عنہ کی زبان یا ہونٹ چوستے ہوئے دیکھا ہے اور اس زبان یا ہونٹ کو عذاب نہیں دیا جائے گا جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چوسا ہو۔
حدثنا كثير بن هشام ، قال: حدثنا جعفر ، حدثنا يزيد بن الاصم ، قال: سمعت معاوية بن ابي سفيان ذكر حديثا رواه، عن النبي صلى الله عليه وسلم لم اسمعه روى عن النبي صلى الله عليه وسلم حديثا غيره، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين، ولا تزال عصابة من المسلمين، يقاتلون على الحق ظاهرين على من ناواهم إلى يوم القيامة" حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ الْأَصَمِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ ذَكَرَ حَدِيثًا رَوَاهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ أَسْمَعْهُ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا غَيْرَهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُّ فِي الدِّينِ، وَلَا تَزَالُ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ عَلَى مَنْ نَاوَأَهُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ"
یزید بن اصم کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بہت کم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کرتے تھے، البتہ یہ حدیث میں نے ان سے سنی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ خیر کا ارادہ فرما لیتے ہیں تو اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتے ہیں اور مسلمانوں کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قتال کرتا رہے گا، یہ لوگ قیامت تک اپنی مخالفت کرنے والوں پر غالب رہیں گے۔
حدثنا شجاع بن الوليد ، قال: ذكر عثمان بن حكيم ، عن زياد بن ابي زياد ، عن معاوية ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول على هذه الاعواد: " اللهم لا مانع لما اعطيت، ولا معطي لما منعت، ولا ينفع ذا الجد منك الجد، من يرد الله به الخير يفقهه في الدين" حَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِيدِ ، قَالَ: ذَكَرَ عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ عَلَى هَذِهِ الْأَعْوَادِ: " اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ، مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ الْخَيْرَ يُفَقِّهْهُّ فِي الدِّينِ"
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اس منبر پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: «اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ» کہ اے ﷲ! جسے آپ دیں اس سے کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے آپ روک لیں اسے کوئی دے نہیں سکتا اور ذی عزت کو آپ کے سامنے اس کی عزت نفع نہیں پہنچا سکتی، اللہ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرما لیتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على عثمان بن حكيم
حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، قال: اخبرني عمرو بن مرة ، قال: سمعت سعيد بن المسيب ، قال: خطب معاوية على منبر النبي صلى الله عليه وسلم، او منبر المدينة، فاخرج كبة من شعر، قال: ما كنت ارى ان احدا يفعل هذا غير اليهود، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم سماه الزور حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ ، قَالَ: خَطَبَ مُعَاوِيَةُ عَلَى مِنْبَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ مِنْبَرِ الْمَدِينَةِ، فَأَخْرَجَ كُبَّةً مِنْ شَعَرٍ، قَالَ: مَا كُنْتُ أَرَى أَنَّ أَحَدًا يَفْعَلُ هَذَا غَيْرَ الْيَهُودِ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمَّاهُ الزُّورَ
سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور ہمیں خطبہ دیا جس میں بالوں کا ایک گچھا نکال کر دکھایا اور فرمایا: میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح تو صرف یہودی کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات معلوم ہوئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ”جھوٹ“ کا نام دیا تھا۔
حدثنا بشر بن شعيب بن ابي حمزة ، قال: حدثني ابي ، عن الزهري ، قال: كان محمد بن جبير بن مطعم يحدث، انه بلغ معاوية وهو عنده في وفد من قريش، ان عبد الله بن عمرو بن العاص يحدث، انه سيكون ملك من قحطان، فغضب معاوية ، فقام، فاثنى على الله عز وجل بما هو اهله، ثم قال: اما بعد، فإنه بلغني ان رجالا منكم يحدثون احاديث ليست في كتاب الله، ولا تؤثر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، اولئك جهالكم، فإياكم والاماني التي تضل اهلها، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن هذا الامر في قريش، لا ينازعهم احد إلا اكبه الله على وجهه، ما اقاموا الدين" حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ يُحَدِّثُ، أَنَّهُ بَلَغَ مُعَاوِيَةَ وَهُوَ عِنْدَهُ فِي وَفْدٍ مِنْ قُرَيْشٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ يُحَدِّثُ، أَنَّهُ سَيَكُونُ مَلِكٌ مِنْ قَحْطَانَ، فَغَضِبَ مُعَاوِيَةُ ، فَقَامَ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ رِجَالًا مِنْكُمْ يُحَدِّثُونَ أَحَادِيثَ لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَلَا تُؤْثَرُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أُولَئِكَ جُهَّالُكُمْ، فَإِيَّاكُمْ وَالْأَمَانِيَّ الَّتِي تُضِلُّ أَهْلَهَا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ فِي قُرَيْشٍ، لَا يُنَازِعُهُمْ أَحَدٌ إِلَّا أَكَبَّهُ اللَّهُ عَلَى وَجْهِهِ، مَا أَقَامُوا الدِّينَ"
محمد بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک مرتبہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو جبکہ محمد قریش کے ایک وفد میں ان کے پاس ہی تھے۔ یہ اطلاع ملی کہ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ عنقریب قحطان میں ایک بادشاہ ہو گا تو وہ غضب ناک ہو کر کھڑے ہوئے، اللہ کی حمد و ثناء جو اس کے شان شایاں ہے، بیان کی اور «اما بعد» کہہ کر فرمایا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے کچھ لوگ ایسی احادیث بیان کر رہے ہیں جو کتاب اللہ میں ہیں اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں، یہ لوگ نادان ہیں، تم ایسی امیدوں اور خواہشات سے اپنے آپ کو بچاؤ جو انسان کو گمراہ کر دیتی ہیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے، یہ حکومت قریش میں ہی رہے گی، اس معاملے میں ان سے جو بھی جھگڑا کرے گا، اللہ اسے اوندھے منہ گرا دے گا، جب تک قریش کے لوگ دین پر قائم رہیں گے۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک دن منبر پر ارشاد فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، دنیا میں صرف امتحانات اور آزمائشیں ہی رہ گئی ہیں اور تمہارے اعمال کی مثال برتن کی سی ہے کہ اگر اس کا اوپر والا حصہ عمدہ ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کا نچلا حصہ بھی عمدہ ہے اور اگر اوپر والا حصہ خراب ہو تو اس کا نچلا حصہ بھی خراب ہو گا۔
حدثنا علي بن بحر ، حدثنا الوليد بن مسلم ، قال: حدثنا عبد الله بن العلاء ، عن ابي الازهر ، عن معاوية ، انه ذكر لهم وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم، وانه مسح راسه بغرفة من ماء حتى يقطر الماء من راسه او كاد يقطر، وانه اراهم وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم، " فلما بلغ مسح راسه، وضع كفيه على مقدم راسه، ثم مر بهما حتى بلغ القفا، ثم ردهما حتى بلغ المكان الذي بدا منه" حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلَاءِ ، عَنْ أَبِي الْأَزْهَرِ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ ، أَنَّهُ ذَكَرَ لَهُمْ وُضُوءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَّهُ مَسَحَ رَأْسَهُ بِغَرْفَةٍ مِنْ مَاءٍ حَتَّى يَقْطُرَ الْمَاءُ مِنْ رَأْسِهِ أَوْ كَادَ يَقْطُرُ، وَأَنَّهُ أَرَاهُمْ وُضُوءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " فَلَمَّا بَلَغَ مَسْحَ رَأْسِهِ، وَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى مُقَدَّمِ رَأْسِهِ، ثُمَّ مَرَّ بِهِمَا حَتَّى بَلَغَ الْقَفَا، ثُمَّ رَدَّهُمَا حَتَّى بَلَغَ الْمَكَانَ الَّذِي بَدَأَ مِنْهُ"
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح وضو کر کے دکھایا، سر کا مسح کرتے ہوئے انہوں نے پانی کا ایک چلو لے کر مسح کیا یہاں تک کہ ان کے سر سے پانی کے قطرے ٹپکنے لگے، انہوں نے اپنی ہتھیلیاں سر کے اگلے حصے پر رکھیں اور مسح کرتے ہوئے ان کو گدی تک کھینچ لائے، پھر واپس اس جگہ پر لے گئے جہاں سے مسح کا آغاز کیا تھا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، الوليد بن مسلم يدلس ويسوي، ولم يصرح بسماع أبى الأزهر من معاوية ، وأبو الأزهر مقبول
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح وضو کر کے دکھایا اور عضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھویا، اور پاؤں کو تعداد کا لحاظ کیے بغیر دھو لیا۔
حدثنا يعقوب ، وسعد ، قالا: حدثنا ابي ، عن محمد بن إسحاق ، قال: حدثني عبد الرحمن بن هرمز الاعرج ، ان العباس بن عبد الله بن عباس انكح عبد الرحمن بن الحكم ابنته، وانكحه عبد الرحمن ابنته، وقد كانا جعلا صداقا، فكتب معاوية بن ابي سفيان وهو خليفة إلى مروان يامره بالتفريق بينهما، وقال في كتابه: هذا الشغار الذي نهى عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، وَسَعْدٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ هُرْمُزَ الْأَعْرَجُ ، أَنَّ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنْكَحَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْحَكَمِ ابْنَتَهُ، وَأَنْكَحَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ ابْنَتَهُ، وَقَدْ كَانَا جَعَلَا صَدَاقًا، فَكَتَبَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ وَهُوَ خَلِيفَةٌ إِلَى مَرْوَانَ يَأْمُرُهُ بِالتَّفْرِيقِ بَيْنَهُمَا، وَقَالَ فِي كِتَابِهِ: هَذَا الشِّغَارُ الَّذِي نَهَى عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اعرج کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عباس بن عبداللہ نے اپنی بیٹی کا نکاح عبدالرحمن بن حکم سے اور عبدالرحمن نے اپنی بیٹی کا نکاح عباس سے کر دیا اور اس تبادلے ہی کو مہر قرار دے دیا، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے معلوم ہونے پر مروان کی طرف ”خلیفہ ہونے کی وجہ سے“ خط لکھا اور حکم دیا کہ ان دونوں کے درمیان تفریق کرا دے اور فرمایا کہ یہ وہی نکاح شغار ہے، جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثنا يحيى ابن عباد بن عبد الله بن الزبير ، عن ابيه عباد ، قال: لما قدم علينا معاوية حاجا قدمنا معه مكة، قال: فصلى بنا الظهر ركعتين، ثم انصرف إلى دار الندوة، قال: وكان عثمان حين اتم الصلاة إذا قدم مكة صلى بها الظهر، والعصر، والعشاء الآخرة اربعا اربعا، فإذا خرج إلى منى، وعرفات قصر الصلاة، فإذا فرغ من الحج، واقام بمنى اتم الصلاة حتى يخرج من مكة، فلما صلى بنا معاوية الظهر ركعتين نهض إليه مروان بن الحكم، وعمرو بن عثمان، فقالا له: ما عاب احد ابن عمك باقبح ما عبته به، فقال لهما: وما ذاك؟ قال: فقالا له: الم تعلم انه اتم الصلاة بمكة، قال: فقال لهما: ويحكما، وهل كان غير ما صنعت؟! قد صليتهما مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ومع ابي بكر، وعمر رضي الله عنهما، قالا: فإن ابن عمك قد كان اتمها، وإن خلافك إياه له عيب، قال: فخرج معاوية إلى العصر فصلاها بنا اربعا حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاق ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ابْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ أَبِيهِ عَبَّادٍ ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ عَلَيْنَا مُعَاوِيَةُ حَاجًّا قَدِمْنَا مَعَهُ مَكَّةَ، قَالَ: فَصَلَّى بِنَا الظُّهْرَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى دَارِ النَّدْوَةِ، قَالَ: وَكَانَ عُثْمَانُ حِينَ أَتَمَّ الصَّلَاةَ إِذَا قَدِمَ مَكَّةَ صَلَّى بِهَا الظُّهْرَ، وَالْعَصْرَ، وَالْعِشَاءَ الْآخِرَةَ أَرْبَعًا أَرْبَعًا، فَإِذَا خَرَجَ إِلَى مِنًى، وَعَرَفَاتٍ قَصَرَ الصَّلَاةَ، فَإِذَا فَرَغَ مِنَ الْحَجِّ، وَأَقَامَ بِمِنًى أَتَمَّ الصَّلَاةَ حَتَّى يَخْرُجَ مِنْ مَكَّةَ، فَلَمَّا صَلَّى بِنَا مُعَاويةُ الظُّهْرَ رَكْعَتَيْنِ نَهَضَ إِلَيْهِ مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ، وَعَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، فَقَالَا لَهُ: مَا عَابَ أَحَدٌ ابْنَ عَمِّكَ بِأَقْبَحِ مَا عِبْتَهُ بِهِ، فَقَالَ لَهُمَا: وَمَا ذَاكَ؟ قَالَ: فَقَالَا لَهُ: أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّهُ أَتَمَّ الصَّلَاةَ بِمَكَّةَ، قَالَ: فَقَالَ لَهُمَا: وَيْحَكُمَا، وَهَلْ كَانَ غَيْرُ مَا صَنَعْتُ؟! قَدْ صَلَّيْتُهُمَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَا: فَإِنَّ ابْنَ عَمِّكَ قَدْ كَانَ أَتَمَّهَا، وَإِنَّ خِلَافَكَ إِيَّاهُ لَهُ عَيْبٌ، قَالَ: فَخَرَجَ مُعَاوِيَةُ إِلَى الْعَصْرِ فَصَلَّاهَا بِنَا أَرْبَعًا
عباد کہتے ہیں جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہمارے یہاں حج کے لیے آئے تو ہم بھی ان کے ساتھ مکہ مکرمہ آ گئے، انہوں نے ہمیں ظہر کی دو رکعتیں پڑھائیں اور دارالندوہ میں چلے گئے، جبکہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جس وقت سے نماز میں اتمام شروع کیا تھا، وہ جب بھی مکہ مکرمہ آتے تو ظہر، عصر اور عشاء کی چار چار رکعتیں ہی پڑھتے تھے، منیٰ اور عرفات میں قصر پڑھتے اور جب حج سے فارغ ہو کر منٰی میں ٹھہر جاتے تو مکہ سے روانگی تک پوری نماز پڑھتے تھے۔ جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے (اس کے برعکس) ہمیں ظہر کی دو رکعتیں پڑھائیں تو مروان بن حکم اور عمرو بن عثمان کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ آپ نے اپنے ابن عم پر جیسا عیب لگایا، کسی نے اس سے بدترین عیب نہیں لگایا، انہوں نے پوچھا: وہ کیسے؟ تو دونوں نے کہا: کیا آپ کے علم میں نہیں ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں مکمل نماز پڑھتے تھے؟ سیدنا ماویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: افسوس! میں سمجھا کہ پتہ نہیں میں نے ایسا کون سا کام کر دیا ہے؟ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات شیخین کے ساتھ دو رکعتیں ہی پڑھی ہیں، ان دونوں نے کہا کہ آپ کے ابن عم نے تو مکمل چار رکعتیں پڑھیں ہیں، آپ کا ان کی خلاف ورزی کرنا معیوب بات ہے چنانچہ جب وہ عصر کی نماز پڑھانے کے لیے آئے تو چار رکعتیں ہی پڑھائیں۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة . وحجاج ، قال: حدثني شعبة ، قال: سمعت قتادة يحدث، عن ابي الطفيل ، قال: حجاج في حديثه: قال: سمعت ابا الطفيل، قال: قدم معاوية، وابن عباس، فطاف ابن عباس، فاستلم الاركان كلها، فقال له معاوية : إنما استلم رسول الله صلى الله عليه وسلم الركنين اليمانيين، قال ابن عباس: ليس من اركانه شيء مهجور ، قال حجاج: قال شعبة: الناس يختلفون في هذا الحديث، يقولون: معاوية هو الذي قال: ليس من البيت شيء مهجور، ولكنه حفظه من قتادة هكذاحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . وَحَجَّاجٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، قَالَ: حَجَّاجٌ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ، قَالَ: قَدِمَ مُعَاوِيَةُ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، فَطَافَ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَاسْتَلَمَ الْأَرْكَانَ كُلَّهَا، فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ : إِنَّمَا اسْتَلَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرُّكْنَيْنِ الْيَمَانِيَّيْنِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَيْسَ مِنْ أَرْكَانِهِ شَيْءٌ مَهْجُورٌ ، قَالَ حَجَّاجٌ: قَالَ شُعْبَةُ: النَّاسُ يَخْتَلِفُونَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، يَقُولُونَ: مُعَاوِيَةُ هُوَ الَّذِي قَالَ: لَيْسَ مِنَ الْبَيْتِ شَيْءٌ مَهْجُورٌ، وَلَكِنَّهُ حَفِظَهُ مِنْ قَتَادَةَ هَكَذَا
ابوالطفیل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما حرم مکی میں آئے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے طواف کیا تو خانہ کعبہ کے سارے کونوں کا استلام کیا، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو صرف دو کونوں کا استلام کیا ہے؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ خانہ کعبہ کا کوئی کونا بھی متروک نہیں ہے۔ شعبہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ یہ حدیث مختلف انداز سے بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ آخری جملہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا ہے۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات على قلب فى متنه، فالمحفوظ أن القائل: ليس من البيت شيئ مهجورة هو معاوية، وأن ابن عباس هوالذي أنكر عليه
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، انه سمع عاصم بن بهدلة يحدث، عن ابي صالح ، عن معاوية ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا شربوا الخمر فاجلدوهم، ثم إذا شربوا فاجلدوهم، ثم إذا شربوا فاجلدوهم، ثم إذا شربوها الرابعة، فاقتلوهم" حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَاصِمَ بْنَ بَهْدَلَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا شَرِبُوا الْخَمْرَ فَاجْلِدُوهُمْ، ثُمَّ إِذَا شَرِبُوا فَاجْلِدُوهُمْ، ثُمَّ إِذَا شَرِبُوا فَاجْلِدُوهُمْ، ثُمَّ إِذَا شَرِبُوهَا الرَّابِعَةَ، فَاقْتُلُوهُمْ"
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص شراب پیے تو اسے کوڑے مارے جائیں، اگر دبارہ پیے تو دبارہ کوڑے مارو، حتی کہ اگر چوتھی مرتبہ پیے تو اسے قتل کر دو۔“
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اس منبر پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوۓ سنا ہے کہ اے اللّٰہ! جسے آپ دیں، اس سے کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے آپ روک لیں، اسے کوئی دے نہیں سکتا اور ذی عزت کو آپ کے سامنے اس کی عزت نفع نہیں پہنچا سکتی، اللہ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرما لیتا ہے، اسے دین کی سمجھ عطاء فرما دیتا ہے۔
حدثنا يعلى ، ويزيد بن هارون ، قالا: حدثنا مجمع بن يحيى الانصاري ، قال: كنت إلى جنب ابي امامة بن سهل ، وهو مستقبل المؤذن، وكبر المؤذن اثنتين، فكبر ابو امامة اثنتين، وشهد ان لا إله إلا الله، اثنتين، فشهد ابو امامة اثنتين، وشهد المؤذن ان محمدا رسول الله، اثنتين، وشهد ابو امامة اثنتين، ثم التفت إلي، فقال: هكذا حدثني معاوية بن ابي سفيان، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حَدَّثَنَا يَعْلَى ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُجَمِّعُ بْنُ يَحْيَى الْأَنْصَارِيُّ ، قَالَ: كُنْتُ إِلَى جَنْبِ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ ، وَهُوَ مُسْتَقْبِلُ الْمُؤَذِّنِ، وَكَبَّرَ الْمُؤَذِّنُ اثْنَتَيْنِ، فَكَبَّرَ أَبُو أُمَامَةَ اثْنَتَيْنِ، وَشَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، اثْنَتَيْنِ، فَشَهِدَ أَبُو أُمَامَةَ اثْنَتَيْنِ، وَشَهِدَ الْمُؤَذِّنُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، اثْنَتَيْنِ، وَشَهِدَ أَبُو أُمَامَةَ اثْنَتَيْنِ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ، فَقَالَ: هَكَذَا حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم
مجمع بن یحییٰ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ابوامامہ بن سہل کے پہلو میں تھا، جو مؤذن کے سامنے تھے، مؤذن نے دو مرتبہ «اللہ اكࣿبر» کہا: تو ابوامامہ نے بھی دو مرتبہ «الله اكࣿبر» کہا: مؤذن نے دو مرتبہ «ا شهد انࣿ لا اله الا اللہ» کہا: تو اُنہوں نے بھی دو مرتبہ کہا، مؤذن نے دو مرتبہ «اشهد ان محمدا رسول اللہ» کہا: تو انہوں نے بھی کہا، پھر میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے میرے سامنے اسی طرح بیان فرمایا ہے۔
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن قتادة ، عن ابي شيخ الهنائي ، ان معاوية قال لنفر من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم: اتعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " نهى عن جلود النمور ان يركب عليها"؟ قالوا: اللهم نعم قال: قال: وتعلمون انه " نهى عن لباس الذهب إلا مقطعا"؟ قالوا: اللهم نعم قال: قال: وتعلمون انه " نهى عن الشرب في آنية الذهب والفضة"؟ قالوا: اللهم نعم قال: قال: وتعلمون انه " نهى عن المتعة يعني متعة الحج"؟ قالوا: اللهم لا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي شَيْخٍ الْهُنَائِيِّ ، أَنَّ مُعَاوِيَةَ قَالَ لِنَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى عَنْ جُلُودِ النُّمُورِ أَنْ يُرْكَبَ عَلَيْهَا"؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ: قَالَ: وَتَعْلَمُونَ أَنَّهُ " نَهَى عَنْ لِبَاسِ الذَّهَبِ إِلَّا مُقَطَّعًا"؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ: قَالَ: وَتَعْلَمُونَ أَنَّهُ " نَهَى عَنِ الشُّرْبِ فِي آنِيَةِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ"؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ: قَالَ: وَتَعْلَمُونَ أَنَّهُ " نَهَى عَنِ الْمُتْعَةِ يَعْنِي مُتْعَةَ الْحَجِّ"؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ لَا
ابوشیخ ہنائی کہتے ہیں کہ (میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مجلس میں ایک مرتبہ بیٹھا ہوا تھا) سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چیتے کی کھال پر سواری سے منع فرمایا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! پھر پوچھا کہ کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو سونا پہننے سے منع فرمایا ہے الا یہ کہ معمولی سا ہو؟ انہوں نے جواب دیا، جی ہاں! پھر پوچھا: کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے چاندی کے برتن میں پانی پینے سے منع فرمایا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! پھر پوچھا: کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرے کو ایک سفر میں جمع کرنے سے منع فرمایا ہے؟ انہوں نے جواب دیا یہ بات ہم نہیں جانتے۔
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن حميد بن عبد الرحمن ، انه راى معاوية يخطب على المنبر وفي يده قصة من شعر، قال: فسمعته يقول: اين علماؤكم يا اهل المدينة؟ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عن مثل هذه، وقال: " إنما عذب بنو إسرائيل حين اتخذت هذه نساؤهم" حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهُ رَأَى مُعَاوِيَةَ يَخْطُبُ عَلَى الْمِنْبَرِ وَفِي يَدِهِ قُصَّةٌ مِنْ شَعَرٍ، قَالَ: فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْ مِثْلِ هَذَه، وَقَالَ: " إِنَّمَا عُذِّبَ بَنُو إِسْرَائِيلَ حِينَ اتَّخَذَتْ هَذِهِ نِسَاؤُهُمْ"
حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو ہاتھوں میں بالوں کا ایک گچھا لے کر منبر پر یہ خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ اے اہل مدینہ! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کی چیزوں سے منع کرتے ہوئے سنا ہے، اور فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل پر عذاب اسی وقت آیا تھا جب ان کی عورتوں نے اسی کو اپنا مشغلہ بنا لیا تھا۔
حدثنا عبد الرزاق ، وابن بكر ، قالا: اخبرنا ابن جريج ، قال: اخبرني عمر بن عطاء بن ابي الخوار ، ان نافع بن جبير ارسله إلى السائب بن يزيد ابن اخت نمر يساله عن شيء رآه منه معاوية في الصلاة، فقال: نعم، صليت معه الجمعة في المقصورة، فلما سلم قمت في مقامي، فصليت، فلما دخل ارسل إلي، فقال: لا تعد لما فعلت، إذا صليت الجمعة، فلا تصلها بصلاة حتى تتكلم او تخرج، فإن نبي الله صلى الله عليه وسلم امر بذلك، لا توصل صلاة بصلاة حتى تخرج او تتكلم حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، وَابْنُ بَكْرٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ عَطَاءِ بْنِ أَبِي الْخُوَارِ ، أَنَّ نَافِعَ بْنَ جُبَيْرٍ أَرْسَلَهُ إِلَى السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ ابْنِ أُخْتِ نَمِرٍ يَسْأَلُهُ عَنْ شَيْءٍ رَآهُ مِنْهُ مُعَاوِيَةُ فِي الصَّلَاةِ، فَقَالَ: نَعَمْ، صَلَّيْتُ مَعَهُ الْجُمُعَةَ فِي الْمَقْصُورَةِ، فَلَمَّا سَلَّمَ قُمْتُ فِي مَقَامِي، فَصَلَّيْتُ، فَلَمَّا دَخَلَ أَرْسَلَ إِلَيَّ، فَقَالَ: لَا تَعُدْ لِمَا فَعَلْتَ، إِذَا صَلَّيْتَ الْجُمُعَةَ، فَلَا تَصِلْهَا بِصَلَاةٍ حَتَّى تَتَكَلَّمَ أَوْ تَخْرُجَ، فَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِذَلِكَ، لَا تُوصَلُ صَلاةٌ بِصَلَاةٍ حَتَّى تَخْرُجَ أَوْ تَتَكَلَّمَ
عمر بن عطاء کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے نافع بن جبیر نے سائب بن یزید کے پاس یہ پوچھنے کے لیے بھیجا کہ انہوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا، جی ہاں! ایک مرتبہ میں نے ان کے ساتھ ”مقصورہ“ میں جمعہ پڑھا تھا، جب انہوں نے نماز کا سلام پھیرا تو میں اپنی جگہ پر ہی کھڑے ہو کر سنتیں پڑھنے لگا، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ جب اندر چلے گئے تو مجھے بلا کر فرمایا: آج کے بعد دوبارہ اس طرح نہ کرنا جیسے ابھی کیا، جب تم جمعہ کی نماز پڑھو تو اس سے متصل ہی دوسری نماز نہ پڑھو جب تک کوئی بات نہ کر لو یا وہاں سے ہٹ نہ جاؤ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہے کہ کسی نماز کے متصل بعد ہی دوسری نماز نہ پڑھی جائے جب تک کہ کوئی بات نہ کر لو یا وہاں سے ہٹ نہ جاؤ۔
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، قال: حدثني حميد بن عبد الرحمن بن عوف ، انه سمع معاوية يخطب بالمدينة، يقول: يا اهل المدينة، اين علماؤكم؟ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " هذا يوم عاشوراء، ولم يفرض علينا صيامه، فمن شاء منكم ان يصوم فليصم، فإني صائم" ، فصام الناس.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ يَخْطُبُ بِالْمَدِينَةِ، يَقُولُ: يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ، أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " هَذَا يَوْمُ عَاشُورَاءَ، وَلَمْ يُفْرَضْ عَلَيْنَا صِيَامُهُ، فَمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَصُومَ فَلْيَصُمْ، فَإِنِّي صَائِمٌ" ، فَصَامَ النَّاسُ.
حمید کہتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں دوران خطبہ یہ کہتے ہوئے سنا کہ اے اہل مدینہ تمہارے علماء کہاں چلے گئے؟ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے یہ عاشورا کا دن ہے , اس کا روزہ رکھنا ہم پر فرض نہیں ہے، لہٰذا تم میں سے جو روزہ رکھنا چاہے وہ روزہ رکھ لے اور میں تو روزے سے ہوں، اس پر لوگوں نے بھی روزہ رکھ لیا۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص شراب پیے تو اسے کوڑے مارے جائیں، اگر دوبارہ پیے تو دوبارہ کوڑے مارو، حتیٰ کہ اگر چوتھی مرتبہ پیے تو اسے قتل کر دو۔“
حدثنا يزيد بن هارون ، قال: حدثنا يحيى بن سعيد ، ان سعد بن إبراهيم اخبره، عن الحكم بن ميناء ، ان يزيد بن جارية الانصاري اخبره، انه كان جالسا في نفر من الانصار، فخرج عليهم معاوية، فسالهم عن حديثهم، فقالوا: كنا في حديث من حديث الانصار، فقال معاوية : الا ازيدكم حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالوا: بلى يا امير المؤمنين، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من احب الانصار، احبه الله عز وجل، ومن ابغض الانصار، ابغضه الله عز وجل" حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، أَنَّ سَعْدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَهُ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ مِينَاءَ ، أَنَّ يَزِيدَ بْنَ جَارِيَةَ الْأَنْصَارِيَّ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا فِي نَفَرٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ مُعَاوِيَةُ، فَسَأَلَهُمْ عَنْ حَدِيثِهِمْ، فَقَالُوا: كُنَّا فِي حَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ : أَلَا أَزِيدُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالُوا: بَلَى يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ أَحَبَّ الْأَنْصَارَ، أَحَبَّهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَنْ أَبْغَضَ الْأَنْصَارَ، أَبْغَضَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ"
یزید بن جاریہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں ایک مرتبہ وہ کچھ انصاری لوگوں کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور موضوع بحث پوچھنے لگے، لوگوں نے بتایا کہ ہم انصار کے حوالے سے گفتگو کر رہے ہیں، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا میں بھی تمہاری معلومات میں اضافہ کے لیے ایک حدیث نہ سناؤں جو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں، امیر المؤمنین! انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو انصار سے محبت کرتا ہے اللہ اس سے محبت کرتا ہے اور جو انصار سے بغض رکھتا ہے اللہ اس سے بغض رکھتا ہے۔
عبداللہ بن علی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے مکہ مکرمہ میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو برسر منبر یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو سونا اور ریشم پہننے سے منع فرمایا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذان إسنادان و هم روح فى أحدهما ، فقال: على بن على رجل من بني عبد شمس، والصواب: على بن عبدالله بن على العدوي، عن أبيه عبدالله بن علي ، علي بن عبدالله، وأبوه مجهولان
حدثنا روح ، حدثنا شعبة ، قال: حدثنا ابو إسحاق ، قال: سمعت عامر بن سعد ، يقول: سمعت جرير بن عبد الله ، يقول: سمعت معاوية بن ابي سفيان ، يقول وهو يخطب: توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو ابن ثلاث وستين ، وتوفي ابو بكر رضي الله تعالى عنه وهو ابن ثلاث وستين، وتوفي عمر وهو ابن ثلاث وستين، قال معاوية: وانا اليوم ابن ثلاث وستينحَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَامِرَ بْنَ سَعْدٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ ، يَقُولُ وَهُوَ يَخْطُبُ: تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ ، وَتُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ، وَتُوُفِّيَ عُمَرُ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ، قَالَ مُعَاوِيَةُ: وَأَنَا الْيَوْمَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ
جریر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو دوران خطبہ یہ کہتے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تریسٹھ سال تھی، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی عمر بھی تریسٹھ سال تھی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی عمر بھی تریسٹھ سال تھی، اور میں بھی اب تریسٹھ سال کا ہو گیا ہوں۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب اللّٰہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطاء فرما دیتا ہے۔“
قال قال عبد الله: وجدت هذا الكلام في آخر هذا الحديث، في كتاب ابي بخط يده متصلا به، وقد خط عليه، فلا ادري اقراه علي ام لا: " وإن السامع المطيع لا حجة عليه، وإن السامع العاصي لا حجة له" قَالَ قَالَ عَبْدِ اللَّهِ: وَجَدْتُ هَذَا الْكَلَامَ فِي آخِرِ هَذَا الْحَدِيثِ، فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ مُتَّصِلًا بِهِ، وَقَدْ خَطَّ عَلَيْهِ، فَلَا أَدْرِي أَقَرَأَهُ عَلَيَّ أَمْ لَا: " وَإِنَّ السَّامِعَ الْمُطِيعَ لَا حُجَّةَ عَلَيْهِ، وَإِنَّ السَّامِعَ الْعَاصِي لَا حُجَّةَ لَهُ"
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص امام (کی بیعت) کے بغیر ہی فوت ہو جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔“
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حرب يعني ابن شداد ، قال: حدثني يحيى يعني ابن ابي كثير ، قال: حدثني ابو شيخ الهنائي ، عن اخيه حمان ، ان معاوية عام حج جمع نفرا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم في الكعبة، فقال: اسالكم عن اشياء فاخبروني، انشدكم الله، هل نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن لبس الحرير؟ قالوا: نعم، قال: وانا اشهد ثم قال: ثم قال: انشدكم بالله، انهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن لبس الذهب؟ قالوا: نعم، قال: وانا اشهد قال: قال: انشدكم بالله، انهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن لبس صفف النمور؟ قالوا: نعم، قال: وانا اشهد .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حَرْبٌ يَعْنِي ابْنَ شَدَّادٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى يَعَنِي ابْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو شَيْخٍ الْهُنَائِيُّ ، عَنْ أَخِيهِ حِمَّانَ ، أَنَّ مُعَاوِيَةَ عَامَ حَجَّ جَمَعَ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْكَعْبَةِ، فَقَالَ: أَسْأَلُكُمْ عَنْ أَشْيَاءَ فَأَخْبِرُونِي، أَنْشُدُكُمْ اللَّهَ، هَلْ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: وَأَنَا أَشْهَدُ ثُمَّ قَالَ: ثُمَّ قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ، أَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لُبْسِ الذَّهَبِ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: وَأَنَا أَشْهَدُ قَالَ: قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ، أَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لُبْسِ صُفَفِ النُّمُورِ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: وَأَنَا أَشْهَدُ .
ابوشیخ ہنائی کہتے ہیں کہ حج کے سال سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بیت اللّٰہ میں جمع کیا اور فرمایا میں آپ لوگوں سے کچھ چیزوں کے متعلق سوال کرتا ہوں، آپ مجھے ان کا جواب دیجیئے، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ میں آپ لوگوں کو اللّٰہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم پہننے سے منع فرمایا ہے؟ انہوں نے جواب دیا، جی ہاں! سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں بھی اس کی گواہی دیتا ہوں، پھر فرمایا: میں آپ لوگوں کو اللّٰہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو سونا پہننے سے منع فرمایا ہے الایہ کہ معمولی سا ہو؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں بھی اس کی گواہی دیتا ہوں۔ پھر فرمایا: میں آپ کو اللّٰہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چیتے کی سواری سے منع فرمایا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! فرمایا: میں بھی اس کی گواہی دیتا ہوں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، وهذا إسناد ضعيف لاضطراب يحيى بن أبى كثير فيه، وحمان مجهول
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب اللّٰہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطاء فرما دیتا ہے۔“
قال عبد الله بن احمد: وجدت هذا الحديث في كتاب ابي بخط يده: حدثنا بكر بن يزيد واظني قد سمعته منه في المذاكرة فلم اكتبه، وكان بكر ينزل المدينة، اظنه كان في المحنة كان قد ضرب على هذا الحديث في كتابه: قال: حدثنا بكر بن يزيد ، قال: اخبرنا ابو بكر يعني ابن ابي مريم ، عن عطية بن قيس الكلابي ، ان معاوية بن ابي سفيان ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن العينين وكاء السه، فإذا نامت العينان استطلق الوكاء" قَالَ عَبْدِ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ: وَجَدْتُ هَذَا الْحَدِيثَ فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ: حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ يَزِيدَ وَأَظُنُّي قَدْ سَمِعْتُهُ مِنْهُ فِي الْمُذَاكَرَةِ فَلَمْ أَكْتُبْهُ، وَكَانَ بَكْرٌ يَنْزِلُ الْمَدِينَةَ، أَظُنُّهُ كَانَ فِي الْمِحْنَةِ كَانَ قَدْ ضُرِبَ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ فِي كِتَابِهِ: قَالَ: حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ يَزِيدَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ يَعْنِي ابْنَ أَبِي مَرْيَمَ ، عَنْ عَطِيَّةَ بْنِ قَيْسٍ الْكِلَابِيِّ ، أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْعَيْنَيْنِ وِكَاءُ السَّهِ، فَإِذَا نَامَتْ الْعَيْنَانِ اسْتُطْلِقَ الْوِكَاءُ"
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آنکھیں شرمگاہ کا بندھن ہیں، جب آنکھیں سو جاتی ہیں تو بندھن کھل جاتا ہے (اور انسان کو پتہ نہیں چلتا کہ کب اس کی ہوا خارج ہوئی)۔“
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ھے تو اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1037، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر رہے گا وہ اپنی مخالفت کرنے والوں اور بے یار و مددگار چھوڑ دینے والوں کی پرواہ نہیں کرے گا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة
حدثنا ابو نعيم ، حدثنا يونس ، عن ابي السفر ، عن عامر ، عن جرير ، قال: كنت عند معاوية ، فقال: توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو ابن ثلاث وستين، وتوفي ابو بكر رضي الله عنه وهو ابن ثلاث وستين، وتوفي عمر رضي الله عنه وهو ابن ثلاث وستين حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ ، عَنْ أَبِي السَّفَرِ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ جَرِيرٍ ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ مُعَاوِيَةَ ، فَقَالَ: تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ، وَتُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ، وَتُوُفِّيَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ
جریر کہتے ہیں کہ میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تریسٹھ سال تھی، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی عمر بھی تریسٹھ سال تھی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی عمر بھی تریسٹھ سال تھی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 2352، وهذا إسناد اضطرب فيه يونس، وقد خالف شعبة
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے اس شخص کے حق میں ”عمریٰ“ جائز ہوتا ہے جس کے لیے وہ کیا گیا ہو۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھ سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بال اپنے پاس موجود قینچی سے کاٹے تھے، میں نے ان سے کہا ہے کہ میں تو اسے آپ پر حجت سمجھتا ہوں۔
حكم دارالسلام: صحيح، خ: 1730، م: 1246، هشام ضعيف، لكنه توبع
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں مجھ سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بال اپنے پاس موجود قینچی سے کاٹے تھے، میں نے ان سے کہا: میں تو اسے آپ پہ حجت سمجھتا ہوں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، خ: 1730، م: 1246، هشام ضعيف، لكنه توبع
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص شراب پیے اسے کوڑے مارے جائیں، اگر دوبارہ پیے تو دوبارہ کوڑے مارو حتیٰ کہ اگر چوتھی مرتبہ پیے تو اسے قتل کر دو۔“
حدثنا محمد بن فضيل ، قال: حدثنا عثمان بن حكيم ، قال: سمعت محمد بن كعب القرظي ، قال: سمعت معاوية ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول إذا انصرف من الصلاة: " اللهم لا مانع لما اعطيت، ولا معطي لما منعت، ولا ينفع ذا الجد منك الجد" حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ كَعْبٍ الْقُرَظِيَّ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ إِذَا انْصَرَفَ مِنَ الصَّلَاةِ: " اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ"
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نماز سے فراغت کے بعد میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کلمات کہتے ہوئے سنا ہے کہ جسے آپ دیں، اس سے کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے آپ روک لیں اسے کوئی دے نہیں سکتا اور ذی عزت کو آپ کے سامنے اس کی عزت نفع نہیں پہنچا سکتی۔
جریر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو دوران خطبہ یہ کہتے ہوۓ سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تریسٹھ سال تھی، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی عمر بھی تریسٹھ سال تھی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی عمر بھی تریسٹھ سال تھی، اور میں اب تریسٹھ سال کا ہو گیا ہوں۔
حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن حميد بن عبد الرحمن ، سمع معاوية ، يقول بالمدينة على منبر رسول الله صلى الله عليه وسلم: اين علماؤكم يا اهل المدينة؟ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم في هذا اليوم يوم عاشوراء، وهو يقول: " من شاء منكم ان يصومه فليصمه" حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، سَمِعَ مُعَاوِيَةَ ، يَقُولُ بِالْمَدِينَةِ عَلَى مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْيَوْمِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، وَهُوَ يَقُولُ: " مَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَصُومَهُ فَلْيَصُمْهُ"
حمید کہتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں دوران خطبہ یہ کہتے ہوۓ سنا کہ اے اہل مدینہ! تمہارے علماء کہاں چلے گئے؟ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، یہ عاشوراء کا دن ہے، اس کا روزہ رکھنا ہم پر فرض نہیں ہے، لہٰذا تم میں سے جو روزہ رکھنا چاہے وہ رکھ لے، اور میں تو روزے سے ہوں، اس پر لوگوں نے بھی روزہ رکھ لیا۔ پھر انہوں نے ہاتھوں میں بالوں کا ایک گچھا لے کر فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کی چیزوں سے منع کرتے ہوئے سنا ہے اور فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل پر عذاب اسی وقت آیا تھا جب ان کی عورتوں نے اسی کو اپنا مشغلہ بنا لیا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3468، م: 1129، 2127
وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عن مثل هذا، واخرج قصة من شعر من كمه، فقال:" إنما هلكت بنو إسرائيل حين اتخذتها نساؤهم" وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْ مِثْلِ هَذَا، وَأَخْرَجَ قُصَّةً مِنْ شَعَرٍ مِنْ كُمِّهِ، فَقَالَ:" إِنَّمَا هَلَكَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ حِينَ اتَّخَذَتْهَا نِسَاؤُهُمْ"
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3468، م: 1129، 2127
حدثنا سفيان ، عن ابن عجلان ، عن محمد بن يحيى بن حبان ، عن ابن محيريز ، عن معاوية ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تبادروني في الركوع والسجود، فإني قد بدنت، ومهما اسبقكم به إذا ركعت تدركوني إذا رفعت، ومهما اسبقكم به إذا سجدت تدركوني إذا رفعت" حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ ، عَنِ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُبَادِرُونِي فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ، فَإِنِّي قَدْ بَدَّنْتُ، وَمَهْمَا أَسْبِقْكُمْ بِهِ إِذَا رَكَعْتُ تُدْرِكُونِي إِذَا رَفَعْتُ، وَمَهْمَا أَسْبِقْكُمْ بِهِ إِذَا سَجَدْتُ تُدْرِكُونِي إِذَا رَفَعْتُ"
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھ سے پہلے رکوع سجدہ نہ کیا کرو، کیونکہ جب میں تم سے پہلے رکوع کروں گا تو میرے سر اٹھانے سے پہلے تم بھی مجھے رکوع میں پالو گے اور جب تم سے پہلے سجدہ کروں گا تو میرے سر اٹھانے سے پہلے تم بھی مجھے سجدہ میں پا لو گے، یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اب میرا جسم بھاری ہو گیا ہے۔“
حدثنا سفيان ، عن عمرو ، عن ابن منبه ، عن اخيه ، عن معاوية ، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لا تلحفوا في المسالة، فوالله لا يسالني احد شيئا، فتخرج له مسالته، فيبارك له فيه" حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ ابْنِ مُنَبِّهٍ ، عَنْ أَخِيهِ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا تُلْحِفُوا فِي الْمَسْأَلَةِ، فَوَاللَّهِ لَا يَسْأَلُنِي أَحَدٌ شَيْئًا، فَتَخْرُجَ لَهُ مَسْأَلَتُهُ، فَيُبَارَكَ لَهُ فِيهِ"
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کسی سے سوال کرتے ہوئے اس سے چمٹ نہ جایا کرو (کہ اس کی جان ہی نہ چھوڑو) بخدا! مجھ سے جو آدمی بھی کچھ مانگے گا اور ضرورت نے اسے مانگنے پر مجبور کیا ہو گا تو اسے (میری طرف سے ملنے والی بخشش میں) برکت عطاء کی جائے گی۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن ابن عجلان ، قال: حدثني محمد ابن كعب يعني القرظي ، قال: سمعت معاوية يخطب على هذا المنبر، يقول: تعلمن انه " لا مانع لما اعطى، ولا معطي لما منع الله، ولا ينفع ذا الجد منه الجد، من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين" سمعت هذه الاحرف من رسول الله صلى الله عليه وسلم على هذه الاعواد حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ ابْنُ كَعْبٍ يَعْنِي الْقُرَظِيَّ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ يَخْطُبُ عَلَى هَذَا الْمِنْبَرِ، يَقُولُ: تَعَلَّمُنَّ أَنَّهُ " لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَى، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعَ اللَّهُ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْهُ الْجَدُّ، مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُّ فِي الدِّينِ" سَمِعْتُ هَذِهِ الْأَحْرُفَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى هَذِهِ الْأَعْوَادِ
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ منبر پر یہ کلمات کہے، اے اللّٰہ! جسے آپ دیں، اس سے کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے آپ روک لیں، اسے کوئی دے نہیں سکتا اور ذی عزت کو آپ کے سامنے اس کی عزت نفع نہیں پہنچا سکتی، اللّٰہ پاک جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرما لیتا ہے، اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے، میں نے یہ کلمات اسی منبر پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے ہیں۔
حدثنا يحيى ، عن محمد بن عمرو ، قال: حدثني ابي ، عن جدي ، قال: كنا عند معاوية، فقال المؤذن: الله اكبر، الله اكبر، فقال معاوية : " الله اكبر، الله اكبر"، فقال: اشهد ان لا إله إلا الله، فقال:" اشهد ان لا إله إلا الله"، فقال: اشهد ان محمدا رسول الله، فقال:" اشهد ان محمدا رسول الله"، فقال: حي على الصلاة، فقال:" لا حول ولا قوة إلا بالله"، فقال: حي على الفلاح، فقال:" لا حول ولا قوة إلا بالله"، فقال: الله اكبر، الله اكبر، فقال:" الله اكبر، الله اكبر"، فقال: لا إله إلا الله، قال:" لا إله إلا الله"، قال: هكذا كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول او نبيكم إذا اذن المؤذن حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ الْمُؤَذِّنُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ : " اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ"، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَقَالَ:" أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ"، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ:" أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ"، فَقَالَ: حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، فَقَالَ:" لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ"، فَقَالَ: حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، فَقَالَ:" لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ"، فَقَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، فَقَالَ:" اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ"، فَقَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ:" لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ"، قَالَ: هَكَذَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَوْ نَبِيُّكُمْ إِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ
علقمہ بن وقاص رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کے مؤذن اذان دینے لگا، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بھی وہی کلمات دہرانے لگے، جب انہوں نے «حي على الصلوة» کہا: تو انہوں نے «لا حول ولا قوة الا بالله» کہا، «حي على الفلاح» کے جواب میں بھی یہی کہا، اس کے بعد مؤذن کے کلمات دہراتے رہے، پھر فرمایا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہی فرماتے تھے جب مؤذن اذان دیتا۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن شعبة ، قال: حدثني قتادة ، عن ابي الطفيل ، قال: حج ابن عباس، ومعاوية، فجعل ابن عباس يستلم الاركان كلها، فقال معاوية : إنما استلم رسول الله صلى الله عليه وسلم هذين الركنين اليمانيين ، فقال ابن عباس: ليس من اركانه مهجورحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَتَادَةُ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، قَالَ: حَجَّ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَمُعَاوِيَةُ، فَجَعَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَسْتَلِمُ الْأَرْكَانَ كُلَّهَا، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ : إِنَّمَا اسْتَلَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَيْنِ الرُّكْنَيْنِ الْيَمَانِيَّيْنِ ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَيْسَ مِنْ أَرْكَانِهِ مَهْجُورٌ
ابوالطفیل رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما حرم مکی میں آئے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے طواف کیا تو خانہ کعبہ کے سارے کونوں کا استلام کیا، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو صرف دو کونوں کا استلام کیا ہے؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ خانہ کعبہ کا کوئی کونا بھی متروک نہیں ہے۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات على قلب فى متنه، فالمحفوظ أن القائل: ليس من أركانه مهجور هو معاوية، وأن ابن عباس هو الذى أنكر عليه
حدثنا ابن نمير ، حدثنا طلحة بن يحيى ، عن عيسى بن طلحة ، قال: سمعت معاوية ، يقول إذا اتاه المؤذن يؤذنه بالصلاة: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن المؤذنين اطول الناس اعناقا يوم القيامة" حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ ، يَقُولُ إِذَا أَتَاهُ الْمُؤَذِّنُ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلَاةِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ الْمُؤَذِّنِينَ أَطْوَلُ النَّاسِ أَعْنَاقًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ"
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ قیامت والے دن موذنین سب سے لمبی گردنوں والے ہوں گے۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ مسلمان کو اس کے جسم میں جو بھی تکلیف پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اس کے گناہوں کا کفارہ فرما دیتا ہے۔
حدثنا يزيد ، قال: اخبرنا إبراهيم بن سعد ، عن ابيه ، عن معبد الجهني ، قال: سمعت معاوية وكان قليل الحديث عن النبي صلى الله عليه وسلم، وكان قلما خطب إلا ذكر هذا الحديث في خطبته سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن هذا المال حلو خضر، فمن اخذه بحقه، بارك الله عز وجل له فيه، ومن يرد الله به خيرا، يفقهه في الدين، وإياكم والمدح فإنه الذبح" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ مَعْبَدٍ الْجُهَنِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ وَكَانَ قَلِيلَ الْحَدِيثِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ قَلَّمَا خَطَبَ إِلَّا ذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ فِي خُطْبَتِهِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ هَذَا الْمَالَ حُلْوٌ خَضِرٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِحَقِّهِ، بَارِكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا، يُفَقِّهِْهُّ فِي الدِّينِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْمَدْحَ فَإِنَّهُ الذَّبْحُ" .
معبد جہنی کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بہت کم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کرتے تھے، البتہ یہ کلمات اکثر جگہوں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ذکر کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ خیر کا ارادہ فرما لیتے ہیں تو اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتے ہیں اور یہ دنیا کا مال بڑا شیریں اور سرسبز و شاداب ہوتا ہے، سو جو شخص اسے اس کے حق کے ساتھ لیتا ہے، اس کے لیے اس میں برکت ڈال دی جاتی ہے اور منہ پر تعریف کرنے سے بچو کیونکہ یہ اس شخص کو ذبح کر دینا ہے۔
حدثنا يعقوب ، قال فيه:" وإياكم والتمادح فإنه الذبح".حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، قَالَ فِيهِ:" وَإِيَّاكُمْ وَالتَّمَادُحَ فَإِنَّهُ الذَّبْحُ".
گزشتہ حدیث یعقوب سے بھی مروی ہے (اور اس میں «مدح» کے بجائے «تمادح» کا لفظ ہے مطلب دونوں کا ایک ہی ہے یعنی) منہ پر تعریف کرنے سے بچو کیونکہ یہ اس شخص کو ذبح کر دینا ہے۔
حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا حريز بن عثمان ، قال: حدثنا عبد الرحمن بن ابي عوف الجرشي ، عن ابي هند البجلي ، قال: كنا عند معاوية وهو على سريره وقد غمض عينيه، فتذاكرنا الهجرة، والقائل منا يقول: قد انقطعت، والقائل منا يقول: لم تنقطع، فاستنبه معاوية ، فقال: ما كنتم فيه؟ فاخبرناه، وكان قليل الرد على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: تذاكرنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " لا تنقطع الهجرة حتى تنقطع التوبة، ولا تنقطع التوبة حتى تطلع الشمس من مغربها" حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَرِيزُ بْنُ عُثْمَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَوْفٍ الْجُرَشِيُّ ، عَنْ أَبِي هِنْدٍ الْبَجَلِيِّ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ مُعَاوِيَةَ وَهُوَ عَلَى سَرِيرِهِ وَقَدْ غَمَّضَ عَيْنَيْهِ، فَتَذَاكَرْنَا الْهِجْرَةَ، وَالْقَائِلُ مِنَّا يَقُولُ: قَد انْقَطَعَتْ، وَالْقَائِلُ مِنَّا يَقُولُ: لَمْ تَنْقَطِعْ، فَاسْتَنْبَهَ مُعَاوِيَةُ ، فَقَالَ: مَا كُنْتُمْ فِيهِ؟ فَأَخْبَرْنَاهُ، وَكَانَ قَلِيلَ الرَّدِّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: تَذَاكَرْنَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " لَا تَنْقَطِعُ الْهِجْرَةُ حَتَّى تَنْقَطِعَ التَّوْبَةُ، وَلَا تَنْقَطِعُ التَّوْبَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا"
ابوہند بجلی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، جو اپنے تخت پر آنکھیں بند کیے بیٹھے تھے، ہم نے ہجرت کا تذکرہ شروع کر دیا، ہم میں سے کسی کی رائے تھی کہ ہجرت منقطع ہو گئی ہے اور کسی کی رائے تھی کہ ہجرت منقطع نہیں ہوئی، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہوشیار ہو گئے اور فرمایا: تم کیا باتیں کر رہے ہو؟ ہم نے انہیں بتا دیا، وہ کسی بات کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بہت کم کرتے تھے، کہنے لگے کہ ایک مرتبہ ہم نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہی مذاکرہ کیا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہجرت اس وقت تک منقطع نہیں ہو گی جب تک توبہ منقطع نہ ہو جائے اور توبہ اس وقت تک منقطع نہیں ہو گی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو جائے۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى هند البجلي
حدثنا صفوان بن عيسى ، قال: اخبرنا ثور بن يزيد ، عن ابي عون ، عن ابي إدريس ، قال: سمعت معاوية وكان قليل الحديث، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقول: " كل ذنب عسى الله ان يغفره، إلا الرجل يموت كافرا، او الرجل يقتل مؤمنا متعمدا" حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي عَوْنٍ ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ وَكَانَ قَلِيلَ الْحَدِيثِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ: " كُلُّ ذَنْبٍ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَغْفِرَهُ، إِلَّا الرَّجُلُ يَمُوتُ كَافِرًا، أَوْ الرَّجُلُ يَقْتُلُ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا"
ابوادریس کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو ”جو بہت کم احادیث بیان کرتے تھے“ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ امید ہے اللہ تعالیٰ ہر گناہ معاف فرما دے گا، سوائے اس کے کہ کوئی شخص کفر کی حالت میں مر جائے یا وہ آدمی جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تم لوگ ایک ایسی نماز پڑہتے ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کے باوجود ہم نے انہیں یہ نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا، بلکہ وہ اس سے منع کرتے تھے، مراد عصر کے بعد دو سنتیں (نفل) ہیں (جو انہوں نے کچھ لوگوں کو پڑھتے ہوئے دیکھا تھا)۔
حدثنا محمد بن جعفر ، قال: حدثنا سعيد ، عن قتادة ، عن ابي شيخ الهنائي ، انه شهد معاوية وعنده جمع من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فقال لهم معاوية : اتعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " نهى عن ركوب جلود النمور"؟ قالوا: نعم قال: قال: اتعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " نهى عن لبس الحرير"؟ قالوا: اللهم نعم قال: قال: اتعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " نهى ان يشرب في آنية الفضة"؟ قالوا: اللهم نعم قال: قال: اتعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " نهى عن لبس الذهب إلا مقطعا"؟ قالوا: اللهم نعم قال: قال: اتعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " نهى عن جمع بين حج وعمرة"؟ قالوا: اللهم لا، قال: فوالله إنها لمعهن .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي شَيْخٍ الْهُنَائِيِّ ، أَنَّهُ شَهِدَ مُعَاوِيَةَ وَعِنْدَهُ جَمْعٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُمْ مُعَاوِيَةُ : أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى عَنْ رُكُوبِ جُلُودِ النُّمُورِ"؟ قَالُوا: نَعَمْ قَالَ: قَالَ: أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى عَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ"؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ: قَالَ: أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى أَنْ يُشْرَبَ فِي آنِيَةِ الْفِضَّةِ"؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ: قَالَ: أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى عَنْ لُبْسِ الذَّهَبِ إِلَّا مُقَطَّعًا"؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ: قَالَ: أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى عَنْ جَمْعٍ بَيْنَ حَجٍّ وَعُمْرَةٍ"؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ لَا، قَالَ: فَوَاللَّهِ إِنَّهَا لَمَعَهُنَّ .
ابوشیخ ہنائی کہتے ہیں میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مجلس میں ایک مرتبہ بیٹھا ہوا تھا، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: میں اللہ کی قسم دے کر تمہیں پوچھتا ہوں کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم پہننے سے منع فرمایا ہے؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں! سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں بھی اس کی گواہی دیتا ہوں۔ پھر فرمایا: میں آپ لوگوں کو قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو سونا پہننے سے منع فرمایا ہے الا یہ کہ معمولی سا ہو؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں بھی اس کی گواہی دیتا ہوں۔ پھر فرمایا: میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا اپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چیتے کی سواری کرنے سے منع فرمایا ہے؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں! فرمایا: میں بھی اس کی گواہی دیتا ہوں۔ پھر فرمایا: میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کے برتن میں پانی پینے سے منع فرمایا ہے؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں! فرمایا: میں بھی اس کی گواہی دیتا ہوں۔ پھر فرمایا: میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ جانتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم حج اور عمرے کو ایک سفر میں جمع کرنے سے منع فرمایا ہے؟ انہوں نے جواب دیا یہ بات ہم نہیں جانتے، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ بات بھی ثابت شدہ ہے اور پہلی باتوں کے ساتھ ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، سعيد بن أبى عروبة مختلط، وسماع محمد بن جعفر منه بعد الاختلاط، لكنه توبع، وقتادة مدلس، وقد عنعن، لكنه توبع
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کثرت کے ساتھ احادیث بیان کرنے سے بچو سوائے ان احادیث کے جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں زبان زد عام تھیں کیونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو اللہ کے معاملات میں ڈراتے تھے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔
وسمعته، يقول: " إنما انا خازن، وإنما يعطي الله عز وجل، فمن اعطيته عطاء عن طيب نفس، فهو ان يبارك لاحدكم، ومن اعطيته عطاء عن شره، وشره مسالة، فهو كالآكل ولا يشبع" وَسَمِعْتُهُ، يَقُولُ: " إِنَّمَا أَنَا خَازِنٌ، وَإِنَّمَا يُعْطِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَمَنْ أَعْطَيْتُهُ عَطَاءً عَنْ طِيبِ نَفْسٍ، فَهُوَ أَنْ يُبَارَكَ لِأَحَدِكُمْ، وَمَنْ أَعْطَيْتُهُ عَطَاءً عَنْ شَرَهٍ، وَشَرَهِ مَسْأَلَةٍ، فَهُوَ كَالْآكِلِ وَلَا يَشْبَعُ"
اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں تو صرف خزانچی ہوں، اصل دینے والا اللہ ہے، اس لئے میں جس شخص کو دل کی خوشی کے ساتھ بخشش دوں تو اسے اس کے لیے مبارک کر دیا جائے گا اور جسے اس کے شر سے بچنے کے لئے یا اس کے سوال میں اصرار کی وجہ سے کچھ دوں، وہ اس شخص کی طرح ہے جو کھاتا رہے اور سیراب نہ ہو۔
وسمعته، يقول: " لا تزال امة من امتي ظاهرين على الحق لا يضرهم من خالفهم حتى ياتي امر الله وهم ظاهرون على الناس" وَسَمِعْتُهُ، يَقُولُ: " لَا تَزَالُ أُمَّةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلى الْحَقِّ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ عَلَى النَّاسِ"
اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ حق پر رہے گا، وہ اپنی مخالفت کرنے والوں کی پرواہ نہیں کرے گا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے۔“
حدثنا محمد بن بكر ، قال: اخبرنا ابن جريج ، قال: اخبرني عمر بن عطاء بن ابي الخوار ، ان نافع بن جبير ارسله إلى السائب بن يزيد ابن اخت نمر يساله عن شيء رآه منه معاوية في الصلاة، قال: نعم، صليت معه الجمعة في المقصورة، فلما سلم قمت في مقامي، فصليت، فلما دخل ارسل إلي، فقال: لا تعد لما فعلت، إذا صليت الجمعة، فلا تصلها بصلاة حتى تخرج او تكلم، فإن نبي الله صلى الله عليه وسلم امر بذلك، " ان لا توصل صلاة بصلاة حتى تخرج او تكلم" حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ عَطَاءِ بْنِ أَبِي الْخُوَارِ ، أَنَّ نَافِعَ بْنَ جُبَيْرٍ أَرْسَلَهُ إِلَى السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ ابْنِ أُخْتِ نَمِرٍ يَسْأَلُهُ عَنْ شَيْءٍ رَآهُ مِنْهُ مُعَاوِيَةُ فِي الصَّلَاةِ، قَالَ: نَعَمْ، صَلَّيْتُ مَعَهُ الْجُمُعَةَ فِي الْمَقْصُورَةِ، فَلَمَّا سَلَّمَ قُمْتُ فِي مَقَامِي، فَصَلَّيْتُ، فَلَمَّا دَخَلَ أَرْسَلَ إِلَيَّ، فَقَالَ: لَا تَعُدْ لِمَا فَعَلْتَ، إِذَا صَلَّيْتَ الْجُمُعَةَ، فَلَا تَصِلْهَا بِصَلَاةٍ حَتَّى تَخْرُجَ أَوْ تَكَلَّمَ، فَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِذَلِكَ، " أَنْ لَا تُوصَلَ صَلَاةٌ بِصَلَاةٍ حَتَّى تَخْرُجَ أَوْ تَكَلَّمَ"
سیدنا عمر بن عطاء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے نافع بن جبیر نے سائب بن یزید کے پاس یہ پوچھنے کے لیے بھیجا کہ انہوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا، جی ہاں! ایک مرتبہ میں ان کے ساتھ ”مقصورہ“ میں جمعہ پڑھا تھا، جب انہوں نے نماز کا سلام پھیرا تو میں اپنی جگہ پر ہی کھڑے ہو کر سنتیں پڑھنے لگا، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ جب اندر چلے گئے، تو مجھے بلا کر فرمایا: آج کے بعد دوبارہ اس طرح نہ کرنا جیسے ابھی کیا ہے، جب تم جمعہ کی نماز پڑھو، تو اس سے متصل ہی دوسری نماز نہ پڑھو جب تک کوئی بات نہ کر لو، یا وہاں سے ہٹ نا جاؤ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ کسی نماز سے متصل ہی دوسری نماز نہ پڑھی جائے جب تک کہ بات نہ کر لو یا وہاں سے ہٹ نہ جاؤ۔
حدثنا حجاج ، قال: حدثنا شعبة ، عن ابي التياح ، قال: سمعت حمران بن ابان يحدث، عن معاوية ، انه راى اناسا يصلون بعد العصر، فقال: إنكم لتصلون صلاة قد صحبنا النبي صلى الله عليه وسلم، فما رايناه يصليها، ولقد نهى عنها، يعني الركعتين بعد العصر حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ ، قَالَ: سَمِعْتُ حُمْرَانَ بْنَ أَبَانَ يُحَدِّثُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ ، أَنَّهُ رَأَى أُنَاسًا يُصَلُّونَ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَقَالَ: إِنَّكُمْ لَتُصَلُّونَ صَلَاةً قَدْ صَحِبْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا رَأَيْنَاهُ يُصَلِّيهَا، وَلَقَدْ نَهَى عَنْهَا، يَعْنِي الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تم لوگ ایک ایسی نماز پڑھتے ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کے باوجود ہم نے انہیں یہ نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا بلکہ وہ اس سے منع فرماتے تھے، مراد عصر کے بعد کی دو سنتیں (نفل) ہیں جو انہوں نے کچھ لوگوں کو پڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص نماز میں کچھ بھول جائے تو اسے چاہیے کہ بیٹھ کر دو سجدے کر لے۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص جان بوجھ کر میری طرف کسی جھوٹی بات کی نسبت کرے، اسے چاہیے کہ جہنم میں اپنا ٹھکانا بنا لے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد وهم فيه روح ابن عبادة، عن شعبة، عن أبى الفيض، والراجح: عن شعبة، عن رجل من بني عذرة، عن أبى الفيض، أى بزيادة واسطة: رجل من بني عذرة ، وهذا الإسناد ضعيف لجهالة رجل، ثم إن فى رواية أبى الفيض عن معاوية وقفة
حدثنا يونس ، حدثنا ليث يعني ابن سعد ، عن محمد يعني ابن عجلان ، عن محمد بن يوسف مولى عثمان، عن ابيه يوسف ، عن معاوية بن ابي سفيان ، انه صلى امامهم فقام في الصلاة وعليه جلوس، فسبح الناس، فتم على قيامه، ثم سجد بنا سجدتين وهو جالس بعد ان اتم الصلاة، ثم قعد على المنبر، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من نسي من صلاته شيئا فليسجد مثل هاتين السجدتين" حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ عَجْلَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ مَوْلَى عُثْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ يُوسُفَ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ ، أَنَّهُ صَلَّى أَمَامَهُمْ فَقَامَ فِي الصَّلَاةِ وَعَلَيْهِ جُلُوسٌ، فَسَبَّحَ النَّاسُ، فَتَمَّ عَلَى قِيَامِهِ، ثُمَّ سَجَدْ بِنَا سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَ أَنْ أَتَمَّ الصَّلَاةَ، ثُمَّ قَعَدَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ نَسِيَ مِنْ صَلَاتِهِ شَيْئًا فَلْيَسْجُدْ مِثْلَ هَاتَيْنِ السَّجْدَتَيْنِ"
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے امام بن کر نماز پڑھائی اور بیٹھنے کی بجاۓ کھڑے ہو گئے، لوگوں نے «سبحان اللہ» بھی کہا، لیکن انہوں نے اپنا قیام مکمل کیا، پھر نماز مکمل ہونے کے بعد بیٹھے بیٹھے سہو کے دو سجدے کر لیے اور منبر پر رونق افروز ہو کر فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص نماز میں کچھ بھول جائے تو اسے چاہیے کہ بیٹھ کر اس طرح دو سجدے کر لے۔
ایک مرتبہ سیدنا معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کہیں تشریف لے گئے لوگ ان کے احترام میں کھڑے ہو گئے لیکن سیدنا معاویہ رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ اللّٰہ کے بندے اس کے سامنے کھڑے رہیں، اسے جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لینا چاہئے۔
حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا يحيى بن سعيد ، ان سعد بن إبراهيم اخبره، عن الحكم بن ميناء ، ان يزيد بن جارية اخبره، انه كان جالسا في نفر من الانصار، فخرج عليهم معاوية، فسالهم عن حديثهم، فقالوا: كنا في حديث من حديث الانصار، فقال معاوية : الا ازيدكم حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقالوا: بلى يا امير المؤمنين، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من احب الانصار احبه الله عز وجل، ومن ابغض الانصار ابغضه الله عز وجل" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، أَنَّ سَعْدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَهُ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ مِينَاءَ ، أَنَّ يَزِيدَ بْنَ جَارِيَةَ أخْبَرَهُ، أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا فِي نَفَرٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ مُعَاوِيَةُ، فَسَأَلَهُمْ عَنْ حَدِيثِهِمْ، فَقَالُوا: كُنَّا فِي حَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ : أَلَا أَزِيدُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالُوا: بَلَى يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ أَحَبَّ الْأَنْصَارَ أَحَبَّهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَنْ أَبْغَضَ الْأَنْصَارَ أَبْغَضَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ" .
یزید بن جاریہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ کچھ انصاری لوگوں کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، کہ سیدنا معاویہ رضی اللّٰہ عنہ تشریف لے آئے اور موضوعِ بحث پوچھنے لگے، لوگوں نے بتایا کہ ہم انصار کے حوالے سے گفتگو کر رہے ہیں، سیدنا معاویہ رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا: کیا میں بھی تمہاری معلومات میں اضافے کے لیے ایک حدیث نہ سناؤں جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں، امیر المؤمنین! انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو انصار سے محبت کرتا ہے اللّٰہ اس سے محبت کرتا ہے اور جو انصار سے بغض رکھتا ہے، اللّٰہ اُس سے بغض رکھتا ہے۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں تو صرف خزانچی ہوں، اصل دینے والا اللّٰہ ہے، اس لیے میں جس شخص کو دل کی خوشی کے ساتھ کوئی بخشش دوں تو اسے اس کے لیے مبارک کر دیا جائے گا اور جسے اس کے شر سے بچنے کے لیے یا اس کے سوال میں اصرار کی وجہ سے کچھ دوں، وہ اس شخص کی طرف ہے جو کھاتا رہے اور سیراب نہ ہو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، ابن لهيعة ضعيف، لكنه توبع
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مؤذن کی اذان جب سنتے تو وہی جملے دہراتے جو وہ کہہ رہا ہوتا تھا۔
عبداللہ بن علی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے مکہ مکرمہ میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو خانہ کعبہ کے سائے میں برسر منبر یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو سونا اور ریشم پہننے سے منع فرمایا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف الجهالة على بن عبدالله، وأبيه
حدثنا يونس ، حدثنا حماد ، عن عاصم بن بهدلة ، عن ابي صالح ، عن معاوية بن ابي سفيان ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا سمع المؤذن يقول: الله اكبر، الله اكبر، قال مثل قوله، وإذا قال: اشهد ان لا إله إلا الله، قال مثل قوله، وإذا قال: اشهد ان محمدا رسول الله، قال مثل قوله حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا سَمِعَ الْمُؤَذِّنَ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، قَالَ مِثْلَ قَوْلِهِ، وَإِذَا قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ مِثْلَ قَوْلِهِ، وَإِذَا قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ مِثْلَ قَوْلِهِ
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مؤذن کی اذان جب سنتے تو وہی جملے دہراتے جو وہ کہہ رہا ہوتا تھا۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت ابا إسحاق يحدث، عن عامر بن سعد البجلي ، عن جرير ، انه سمع معاوية يخطب، يقول: مات رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو ابن ثلاث وستين، وابو بكر رضي الله عنه وهو ابن ثلاث وستين، وعمر وهو ابن ثلاث وستين، وانا ابن ثلاث وستين حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ الْبَجَلِيِّ ، عَنْ جَرِيرٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ يَخْطُبُ، يَقُولُ: مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ، وَأَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ، وَعُمَرُ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ، وَأَنَا ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ
جریر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو دوران خطبہ یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تریسٹھ سال تھی، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی عمر بھی تریسٹھ سال تھی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی عمر بھی تریسٹھ سال تھی اور میں بھی اب تریسٹھ سال کا ہو گیا ہوں۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ج”و شخص شراب پیے اسے کوڑے مارے جائیں اگر دوبارہ پئے تو دوبارہ مارو حتی کہ چوتھی مرتبہ پئے تو اسے قتل کر دو۔“
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو عورت اپنے بالوں میں کسی غیر کے بال داخل کرتی ہے (تاکہ انہیں لمبا ظاہر کر سکے) وہ اسے غلط طور پر داخل کرتی ہے۔“
قال: قال: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الناس تبع لقريش في هذا الامر، خيارهم في الجاهلية خيارهم في الإسلام إذا فقهوا، والله لولا ان تبطر قريش لاخبرتها ما لخيارها عند الله عز وجل قَالَ: قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " النَّاسُ تَبَعٌ لِقُرَيْشٍ فِي هَذَا الْأَمْرِ، خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقِهُوا، وَاللَّهِ لَوْلَا أَنْ تَبْطَرَ قُرَيْشٌ لَأَخْبَرْتُهَا مَا لِخِيَارِهَا عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس معاملے (حکومت) میں لوگ قریش کے تابع ہیں، زمانہ جاہلیت میں ان میں سے جو بہترین لوگ تھے وہ زمانہ اسلام میں بھی بہترین ہیں جبکہ وہ فقاہت حاصل کر لیں، بخدا! اگر قریش فخر میں مبتلا نہ ہو جاتے تو میں انہیں بتا دیتا کہ ان کے بہترین لوگوں کا اللہ کے یہاں کیا مقام ہے؟“
قال: قال: وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " اللهم لا مانع لما اعطيت، ولا معطي لما منعت، ولا ينفع ذا الجد منك الجد، من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين . " وخير نسوة ركبن الإبل، صالح نساء قريش، ارعاه على زوج في ذات يده، واحناه على ولد في صغره" .قَالَ: قَالَ: وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ، مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقَّهِْهُّ فِي الدِّينِ . " وَخَيْرُ نِسْوَةٍ رَكِبْنَ الْإِبِلَ، صَالِحُ نِسَاءِ قُرَيْشٍ، أَرْعَاهُ عَلَى زَوْجٍ فِي ذَاتِ يَدِهِ، وَأَحْنَاهُ عَلَى وَلَدٍ فِي صِغَرِهِ" .
اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اے اللہ، جسے آپ دیں، اس سے کوئی روک نہیں سکتا، اور جس سے آپ روک لیں، اسے کوئی دے نہیں سکتا اور ذی عزت کو آپ کے سامنے اس کی عزت نفع نہیں پہنچا سکتی، اللہ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرما لیتا ہے، اسے دین کی سمجھ عطاء فرما دیتا ہے، اور اونٹ پر سواری کرنے والی بہترین عورتیں قریش کی نیک عورتیں ہیں، جو اپنی ذات میں شوہر کی سب سے زیادہ محافظ ہوتی ہیں اور بچپن میں اپنے بچے پر انتہائی مہربان۔
عبداللہ بن علی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے مکہ مکرمہ میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو برسر منبریہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو سونا اور ریشم پہننے سے منع فرمایا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة على بن عبدالله، وأبيه
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے اور میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ حق پر رہے گا، وہ اپنی مخالفت کرنے والوں کی پرواہ نہیں کرے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے اور وہ لوگوں پر غالب ہو گا، اس پر مالک بن یخامر سکسکی کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: اے امیر المؤمنین! میں نے سیدنا معاذ جبل رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس سے مراد اہل شام ہیں، تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی آواز بلند کرتے ہوئے فرمایا: مالک کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس سے مراد اہل شام ہیں۔
حدثنا إسحاق بن عيسى ، قال: حدثنا يحيى بن حمزة ، عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر ، ان عمير بن هانئ حدثه، قال: سمعت معاوية بن ابي سفيان على هذا المنبر، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: لا تزال طائفة من امتي قائمة بامر الله لا يضرهم من خذلهم، او خالفهم حتى ياتي امر الله عز وجل وهم ظاهرون على الناس" ، فقام مالك بن يخامر السكسكي فقال: يا امير المؤمنين، سمعت معاذ بن جبل يقول:" وهم اهل الشام"، فقال معاوية ورفع صوته: هذا مالك يزعم انه سمع معاذا، يقول:" وهم اهل الشام"حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ ، أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ هَانِئٍ حَدَّثَهُ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ عَلَى هَذَا الْمِنْبَرِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي قَائِمَةً بِأَمْرِ اللَّهِ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، أَوْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَهُمْ ظَاهِرُونَ عَلَى النَّاسِ" ، فَقَامَ مَالِكُ بْنُ يَخَامِرٍ السَّكْسَكِيُّ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، سَمِعْتُ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ يَقُولُ:" وَهُمْ أَهْلُ الشَّامِ"، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ وَرَفَعَ صَوْتَهُ: هَذَا مَالِكٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاذًا، يَقُولُ:" وَهُمْ أَهْلُ الشَّامِ"
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ حق پر رہے گا، وہ اپنی مخالفت کرنے والوں یا بے یار و مددگار چھوڑ دینے والوں کی پرواہ نہیں کرے گا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے اور وہ لوگوں پر غالب ہو گا“، اس پر مالک بن یخامر سکسکی کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: اے امیر المؤمنین! میں سیدنا معاذ جبل رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس سے مراد اہل شام ہیں، تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی آواز کو بلند کرتے ہوئے فرمایا: مالک کہہ رہے ہیں انہوں نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس سے مراد اہل شام ہیں۔
حدثنا روح ، قال: حدثنا ابو امية عمرو بن يحيى بن سعيد ، قال: سمعت جدي يحدث، ان معاوية اخذ الإداوة بعد ابي هريرة يتبع رسول الله صلى الله عليه وسلم بها، واشتكى ابو هريرة، فبينا هو يوضئ رسول الله صلى الله عليه وسلم رفع راسه إليه مرة، او مرتين وهو يتوضا، فقال:" يا معاوية إن وليت امرا فاتق الله عز وجل، واعدل"، قال: فما زلت اظن اني مبتلى بعمل لقول النبي صلى الله عليه وسلم حتى ابتليت حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ جَدِّي يُحَدِّثُ، أَنَّ مُعَاوِيَةَ أَخَذَ الْإِدَاوَةَ بَعْدَ أَبِي هُرَيْرَةَ يَتْبَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَا، وَاشْتَكَى أَبُو هُرَيْرَةَ، فَبَيْنَا هُوَ يُوَضِّئُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيْهِ مَرَّةً، أَوْ مَرَّتَيْنِ وَهُو يَتَوَضَأ، فَقَالَ:" يَا مُعَاوِيَةُ إِنْ وُلِّيتَ أَمْرًا فَاتَّقِ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَاعْدِلْ"، قَالَ: فَمَا زِلْتُ أَظُنُّ أَنِّي مُبْتَلًى بِعَمَلٍ لِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى ابْتُلِيتُ
مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے تو ان کے پیچھے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے (ان کی خدمت سنبھالی اور) برتن لیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلے گئے، ابھی وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرا رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دو مرتبہ ان کی طرف سر اٹھا کر دیکھا اور فرمایا: معاویہ! اگر تمہیں حکو مت ملے تو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور عدل کرنا، وہ کہتے ہیں کہ مجھے اسی وقت یقین ہو گیا کہ مجھے کوئی ذمہ داری سونپی جائے گی چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات، لم يتبين لنا سماع جد عمرو بن يحيى من معاوية
حدثنا هاشم ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، قال: سمعت سعيد بن المسيب ، قال: قدم معاوية بن ابي سفيان المدينة، وكانت آخر قدمة قدمها، فاخرج كبة من شعر، فقال: ما كنت ارى ان احدا يصنع هذا غير اليهود، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم سماه الزور، قال: كانه يعني الوصال حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ ، قَالَ: قَدِمَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ الْمَدِينَةَ، وَكَانَتْ آخِرَ قَدْمَةٍ قَدِمَهَا، فَأَخْرَجَ كُبَّةً مِنْ شَعَرٍ، فَقَالَ: مَا كُنْتُ أَرَى أَنَّ أَحَدًا يَصْنَعُ هَذَا غَيْرَ الْيَهُودِ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمَّاهُ الزُّورَ، قَالَ: كَأَنَّهُ يَعْنِي الْوِصَالَ
سعید بن مسیّب رحمتہ اللّٰہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور ہمیں خطبہ دیا، جس میں بالوں کا ایک گچھا نکال کر دکھایا اور فرمایا: میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح تو صرف یہودی کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات معلوم ہوئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ”جھوٹ“ کا نام دیا تھا۔
حدثنا خلف بن الوليد ، قال: حدثنا ابن عياش يعني إسماعيل ، عن عبد الله بن دينار ، وغيره، عن ابي حريز مولى معاوية، قال: خطب الناس معاوية بحمص، فذكر في خطبته: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " حرم سبعة اشياء، وإني ابلغكم ذلك وانهاكم عنه، منهن: النوح، والشعر، والتصاوير، والتبرج، وجلود السباع، والذهب، والحرير" حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ الْوَلِيدِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ يَعْنِي إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، وَغَيْرِهِ، عَنْ أَبِي حَرِيزٍ مَوْلَى مُعَاوِيَةَ، قَالَ: خَطَبَ النَّاسَ مُعَاوِيَةُ بِحِمْصَ، فَذَكَرَ فِي خُطْبَتِهِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " حَرَّمَ سَبْعَةَ أَشْيَاءَ، وَإِنِّي أُبْلِغُكُمْ ذَلِكَ وَأَنْهَاكُمْ عَنْهُ، مِنْهُنَّ: النَّوْحُ، وَالشِّعْرُ، وَالتَّصَاوِيرُ، وَالتَّبَرُّجُ، وَجُلُودُ السِّبَاعِ، وَالذَّهَبُ، وَالْحَرِيرُ"
ایک مرتبہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ”حمیص“ میں لوگوں کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے اپنی گفتگو کے دوران ذکر کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سات چیزوں کو حرام قرار دیا تھا، میں تم تک وہ پیغام پہنچا رہا ہوں اور میں بھی تمہیں اس سے منع کرتا ہوں، نوحہ، شعر، تصویر، خواتین کا حد سے زیادہ بناؤ سنگھار، درندوں کی کھالیں، سونا اور ریشم۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، وعبدالله بن دينار ضعيف، وأبو حريز مجهول
حدثنا ابو المغيرة ، قال: حدثنا صفوان ، قال: حدثنا ابو الزاهرية ، عن معاوية بن ابي سفيان ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إنما انا مبلغ والله يهدي، وقاسم والله يعطي، فمن بلغه مني شيء بحسن رغبة، وحسن هدى، فإن ذلك الذي يبارك له فيه، ومن بلغه مني شيء بسوء رغبة، وسوء هدي، فذاك الذي ياكل ولا يشبع" حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الزَّاهِرِيَّةِ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّمَا أَنَا مُبَلِّغٌ وَاللَّهُ يَهْدِي، وَقَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي، فَمَنْ بَلَغَهُ مِنِّي شَيْءٌ بِحُسْنِ رَغْبَةٍ، وَحُسْنِ هُدًى، فَإِنَّ ذَلِكَ الَّذِي يُبَارَكُ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ بَلَغَهُ منِّي شَيْءٌ بِسُوءِ رَغْبَةٍ، وَسُوءِ هَدْيٍ، فَذَاكَ الَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ"
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تو صرف خزانچی ہوں، اصل دینے والا اللہ ہے، اس لیے میں جس شخص کو دل کی خوشی کے ساتھ کوئی بخشش دوں تو اسے اس کے لیے مبارک کر دیا جائے گا اور جسے اس کے شر سے بچنے کے لیے یا اس کے سوال میں اصرار کی وجہ سے کچھ دوں، وہ اس شخص کی طرح ہے جو کھاتا رہے اور سیراب نہ ہو۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، أبو الزاهرية لم يسمع من معاوية
حدثنا ابو المغيرة ، قال: حدثنا صفوان ، قال: حدثني ازهر بن عبد الله الهوزني قال ابو المغيرة في موضع آخر: الحرازي، عن ابي عامر عبد الله بن لحي ، قال: حججنا مع معاوية بن ابي سفيان ، فلما قدمنا مكة قام حين صلى صلاة الظهر، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إن اهل الكتابين افترقوا في دينهم على ثنتين وسبعين ملة، وإن هذه الامة ستفترق على ثلاث وسبعين ملة يعني الاهواء، كلها في النار إلا واحدة، وهي الجماعة، وإنه سيخرج في امتي اقوام تجارى بهم تلك الاهواء كما يتجارى الكلب بصاحبه، لا يبقى منه عرق ولا مفصل إلا دخله" ، والله يا معشر العرب لئن لم تقوموا بما جاء به نبيكم صلى الله عليه وسلم، لغيركم من الناس احرى ان لا يقوم بهحَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَزْهَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَوْزَنِيُّ قَالَ أَبُو الْمُغِيرَةِ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ: الْحَرَازِيُّ، عَنْ أَبِي عَامِرٍ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ لُحَيٍّ ، قَالَ: حَجَجْنَا مَعَ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ قَامَ حِينَ صَلَّى صَلَاةَ الظُّهْرِ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابَيْنِ افْتَرَقُوا فِي دِينِهِمْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَإِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ سَتَفْتَرِقُ عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً يَعْنِي الْأَهْوَاءَ، كُلُّهَا فِي النَّارِ إِلَّا وَاحِدَةً، وَهِيَ الْجَمَاعَةُ، وَإِنَّهُ سَيَخْرُجُ فِي أُمَّتِي أَقْوَامٌ تَجَارَى بِهِمْ تِلْكَ الْأَهْوَاءُ كَمَا يَتَجَارَى الْكَلْبُ بِصَاحِبِهِ، لَا يَبْقَى مِنْهُ عِرْقٌ وَلَا مَفْصِلٌ إِلَّا دَخَلَهُ" ، وَاللَّهِ يَا مَعْشَرَ الْعَرَبِ لَئِنْ لَمْ تَقُومُوا بِمَا جَاءَ بِهِ نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَغَيْرُكُمْ مِنَ النَّاسِ أَحْرَى أَنْ لَا يَقُومَ بِهِ
ابوعامر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا، جب ہم مکہ مکرمہ پہنچے تو وہ ظہر کی نماز پڑھ کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”یہود و نصاریٰ اپنے دین میں بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے، جبکہ یہ امت تہتر فرقوں میں میں تقسیم ہو جائے گی، وہ سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے اور وہ ایک فرقہ جماعت صحابہ کے نقش قدم پر ہو گا اور میری امت میں کچھ ایسی اقوام بھی آئیں گی جن پر یہ فرقے (اور خواہشات) اس طرح غالب آجائیں گی جیسے کتا کسی پر چڑھ دوڑتا ہے اور اس شخص کی کوئی رگ اور کوئی جوڑ ایسا نہیں رہتا جس میں زہر سرایت نہ کر جائے، اللّٰہ کی قسم! اے گروہ عرب! اگر تم اپنے نبی کی لائی ہوئی شریعت پر قائم نہ رہے تو دوسرے لوگ تو زیادہ ہی اس پر قائم نہ رہیں گے۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن، وحديث افتراق الأمة منه صحيح بشواهده
حدثنا مروان بن شجاع ، قال: حدثني خصيف ، عن مجاهد ، وعطاء ، عن ابن عباس ، ان معاوية اخبره، انه راى رسول الله صلى الله عليه وسلم " قصر من شعره بمشقص" ، فقلت لابن عباس: ما بلغنا هذا الامر إلا عن معاوية؟ فقال: ما كان معاوية على رسول الله صلى الله عليه وسلم متهماحَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ شُجَاعٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي خُصَيْفٌ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، وَعَطَاءٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ مُعَاوِيَةَ أخْبَرَهُ، أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَصَّرَ مِنْ شَعَرِهِ بِمِشْقَصٍ" ، فَقُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: مَا بَلَغَنَا هَذَا الْأَمْرُ إِلَّا عَنْ مُعَاوِيَةَ؟ فَقَالَ: مَا كَانَ مُعَاوِيَةُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّهَمًا
سیدنا ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بال اپنے پاس موجود قینچی سے کاٹے تھے۔