حدثنا ابو المغيرة ، قال: حدثنا حريز ، قال: سمعت سعيد بن مرثد الرحبي ، قال: سمعت عبد الرحمن بن حوشب يحدث، عن ثوبان بن شهر قال: سمعت كريب بن ابرهة وهو جالس مع عبد الملك بدير المران وذكروا الكبر، فقال كريب: سمعت ابا ريحانة ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إنه لا يدخل شيء من الكبر الجنة"، قال: فقال قائل: يا رسول الله، إني احب ان اتجمل بسبق سوطي، وشسع نعلي؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" إن ذلك ليس بالكبر، إن الله عز وجل جميل يحب الجمال، إنما الكبر من سفه الحق، وغمص الناس بعينيه" .حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَرِيزٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ مَرْثَدٍ الرَّحَبِيَّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ حَوْشَبٍ يُحَدِّثُ، عَنْ ثَوْبَانَ بْنِ شَهْرٍ قَالَ: سَمِعْتُ كُرَيْبَ بْنَ أَبْرَهَةَ وَهُوَ جَالِسٌ مَعَ عَبْدِ الْمَلِكِ بِدَيْرِ الْمُرَّانِ وَذَكَرُوا الْكِبْرَ، فَقَالَ كُرَيْبٌ: سَمِعْتُ أَبَا رَيْحَانَةَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّهُ لَا يَدْخُلُ شَيْءٌ مِنَ الْكِبْرِ الْجَنَّةَ"، قَالَ: فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَتَجَمَّلَ بِسَبْقِ سَوْطِي، وَشِسْعِ نَعْلِي؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ ذَلِكَ لَيْسَ بِالْكِبْرِ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، إِنَّمَا الْكِبْرُ مَنْ سَفِهَ الْحَقَّ، وَغَمَصَ النَّاسَ بِعَيْنَيْهِ" .
سیدنا ابوریحانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جنت میں تکبر کا معمولی سا حصہ بھی داخل نہیں ہو گا، کسی شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میری سواری اور جوتے کا تسمہ عمدہ ہو (کیا یہ بھی تکبر ہے؟) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تکبر نہیں، اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے، تکبر یہ ہے کہ انسان حق بات کو قبول نہ کرے اور اپنی نظروں میں لوگوں کو حقیر سمجھے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: «بعينيه» ، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عبدالرحمن بن حوشب، وثوبان ابن شهر
حدثنا عصام بن خالد ، حدثنا حريز بن عثمان ، عن سعيد بن مرثد الرحبي ، قال: سمعت عبد الرحمن بن حوشب يحدث، عن ثوبان بن شهر الاشعري ، قال: سمعت كريب بن ابرهة وهو جالس مع عبد الملك على سريره بدير المران، وذكر الكبر، فقال كريب: سمعت ابا ريحانة ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لا يدخل شيء من الكبر الجنة"، فقال قائل: يا نبي الله، إني احب ان اتجمل بحبلان سوطي، وشسع نعلي، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" إن ذلك ليس بالكبر، إن الله عز وجل جميل يحب الجمال، إنما الكبر من سفه الحق، وغمص الناس بعينيه" ، يعني بالحبلان سير السوط وشسع النعل.حَدَّثَنَا عِصَامُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا حَرِيزُ بْنُ عُثْمَانَ ، عَنْ سَعِيد بْنِ مَرْثَدٍ الرَّحَبِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ حَوْشَبٍ يُحَدِّثُ، عَنْ ثَوْبَانَ بْنِ شَهْرٍ الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ كُرَيْبَ بْنَ أَبْرَهَةَ وَهُوَ جَالِسٌ مَعَ عَبْدِ الْمَلِكِ عَلَى سَرِيرِهِ بِدَيْرِ الْمُرَّانِ، وَذَكَرَ الْكِبْرَ، فَقَالَ كُرَيْبٌ: سَمِعْتُ أَبَا رَيْحَانَةَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا يَدْخُلُ شَيْءٌ مِنَ الْكِبْرِ الْجَنَّةَ"، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَتَجَمَّلَ بِحَبْلَانِ سَوْطِي، وَشِسْعِ نَعْلِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ ذَلِكَ لَيْسَ بِالْكِبْرِ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، إِنَّمَا الْكِبْرُ مَنْ سَفِهَ الْحَقَّ، وَغَمَصَ النَّاسَ بِعَيْنَيْهِ" ، يَعْنِي بِالْحَبْلَانِ سَيْرَ السَّوْطِ وَشِسْعَ النَّعْلِ.
سیدنا ابوریحانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جنت میں تکبر کا معمولی سا حصہ بھی داخل نہیں ہو گا، کسی شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میری سواری اور جوتے کا تسمہ عمدہ ہو (کیا یہ بھی تکبر ہے؟) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تکبر نہیں ہے، اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے، تکبر یہ ہے کہ انسان حق بات کو قبول نہ کرے اور اپنی نظروں میں لوگوں کو حقیر سمجھے۔“
سیدنا ابوریحانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دانتوں کو (خوبصورتی کے لیے) باریک کرنے، جسم گودنے، بال نوچنے، بھاؤ گھٹانے، باہم ایک برتن میں منہ لگانے، بالوں کے ساتھ بال ملانے اور بیع ملامسہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا الإسناد فيه انقطاع، أبو الحسن الحميري إنما سمعه من صاحبه أبى عامر الحجري، وأبو عامر هذا مجهول الحال
حدثنا يحيى بن غيلان ، حدثنا المفضل بن فضالة ، حدثني عياش بن عباس ، عن ابي الحصين الهيثم بن شفي ، انه سمعه يقول: خرجت انا وصاحب لي يسمى ابا عامر رجل من المعافر لنصلي بإيلياء وكان قاصهم رجلا من الازد، يقال له ابو ريحانة من الصحابة، قال ابو الحصين: فسبقني صاحبي إلى المسجد، ثم ادركته، فجلست إلى جنبه، فسالني: هل ادركت قصص ابي ريحانة ؟ فقلت: لا، فقال: سمعته يقول: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن عشرة عن: " الوشر، والوشم، والنتف، وعن مكامعة الرجل الرجل بغير شعار، وعن مكامعة المراة المراة بغير شعار، وان يجعل الرجل في اسفل ثيابه حريرا مثل الاعلام، وان يجعل على منكبيه مثل الاعاجم، وعن النهبى، وركوب النمور، ولبوس الخاتم إلا لذي سلطان" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ غَيْلَانَ ، حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ ، حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ ، عَنْ أَبِي الْحُصَيْنِ الْهَيْثَمِ بْنِ شُفَيٍّ ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: خَرَجْتُ أَنَا وَصَاحِبٌ لِي يُسَمَّى أَبَا عَامِرٍ رَجُلٌ مِنَ الْمَعَافِرِ لِنُصَلِّيَ بِإِيلِيَاءَ وَكَانَ قَاصُّهُمْ رَجُلًا مِنَ الْأَزْدِ، يُقَالُ لَهُ أَبُو رَيْحَانَةَ مِنَ الصَّحَابَةِ، قَالَ أَبُو الْحُصَيْنِ: فَسَبَقَنِي صَاحِبِي إِلَى الْمَسْجِدِ، ثُمَّ أَدْرَكْتُهُ، فَجَلَسْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَسَأَلَنِي: هَلْ أَدْرَكْتَ قَصَصَ أَبِي رَيْحَانَةَ ؟ فَقُلْتُ: لَا، فَقَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَشْرَةٍ عَنْ: " الْوَشْرِ، وَالْوَشْمِ، وَالنَّتْفِ، وَعَنْ مُكَامَعَةِ الرَّجُلِ الرَّجُلَ بِغَيْرِ شِعَارٍ، وَعَنْ مُكَامَعَةِ الْمَرْأَةِ الْمَرْأَةَ بِغَيْرِ شِعَارٍ، وَأَنْ يَجْعَلَ الرَّجُلُ فِي أَسْفَلِ ثِيَابِهِ حَرِيرًا مِثْلَ الْأَعْلَامِ، وَأَنْ يَجْعَلَ عَلَى مَنْكِبَيْهِ مِثْلَ الْأَعَاجِمِ، وَعَنِ النُّهْبَى، وَرُكُوبِ النُّمُورِ، وَلَبُوسِ الْخَاتَمِ إِلَّا لِذِي سُلْطَانٍ" .
ابوالحصین ہیثم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور میرا ایک دوست جس کا نام ابوعامر تھا اور قبیلہ معافر سے اس کا تعلق تھا، بیت المقدس میں نماز پڑھنے کے لیے روانہ ہوئے، وہاں قبیلہ ازد کے ایک صاحب جن کا نام ابوریحانہ تھا اور وہ صحابہ میں سے تھے وعظ کہا کرتے تھے، میرا ساتھی مجھ سے پہلے مسجد پہنچ گیا، تھوڑی دیر میں، مَیں بھی اس کے پاس پہنچ کر اس کے پہلو میں بیٹھ گیا، اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم کبھی ابوریحانہ کی مجلس وعظ میں بیٹھے ہو؟ میں نے کہا: نہیں، اس نے بتایا کہ میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس چیزوں سے منع فرمایا ہے۔ ”دانتوں کو باریک کرنے سے، جسم گودنے سے، بال نوچنے سے، ایک مرد کے دوسرے مرد کے ساتھ بغیر رکاوٹ کے ایک ہی برتن سے منہ لگانے سے، ایک عورت کے دوسری عورت کے ساتھ ایک ہی برتن کے ساتھ منہ لگانے سے، کپڑے کے نچلے حصے میں نقش و نگار کی طرح ریشم لگانے سے، کندھوں پر عجمیوں کی طرح ریشمی کپڑے ڈالنے سے، لوٹ مار سے، چیتوں کی کھال کے پالانوں پر سواری کرنے سے اور بادشاہ کے علاوہ کسی اور کے انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون النهي عن اتخاذ الأعلام من الحرير أسفل الثياب، والنهي عن البوس الخاتم إلا الذى سلطان، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال أبى عامر
سیدنا ابوریحانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس چیزوں سے منع فرمایا ہے۔ ”دانتوں کو باریک کرنے سے، جسم گودنے سے، بال نوچنے سے، ایک مرد کے دوسرے مرد کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے ایک ہی برتن سے منہ لگانے سے، ایک عورت کے دوسری عورت کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے ایک ہی برتن کے ساتھ منہ لگانے سے، کپڑے کے نچلے حصے میں نقش و نگار کی طرح ریشم لگانے سے، کندھوں پر عجمیوں کی طرح ریشمی کپڑے ڈالنے سے، لوٹ مار سے، چیتوں کی کھال کے پالانوں پر سواری کرنے سے اور بادشاہ کے علاوہ کسی اور کے انگوٹھی پہننے سے۔“
سیدنا ابوریحانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص اپنے نو کافر آبا و اجداد کی طرف اپنی نسبت کر کے اپنی عزت و شرافت میں فخر کرتا ہے وہ جہنم میں ان کے ساتھ دسواں فرد بن کر داخل ہو گا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، عبادة بن نسي لم يدرك أبا ريحانة
حدثنا زيد بن الحباب ، قال: حدثني عبد الرحمن بن شريح ، قال: سمعت محمد بن سمير الرعيني ، يقول: سمعت ابا عامر التجيبي ، قال ابي: وقال غيره يعني غير زيد: ابو علي الجنبي، يقول: سمعت ابا ريحانة ، يقول: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة، فاتينا ذات ليلة إلى شرف، فبتنا عليه، فاصابنا برد شديد حتى رايت من يحفر في الارض حفرة يدخل فيها، يلقي عليه الحجفة يعني: الترس فلما راى ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم من الناس نادى:" من يحرسنا في هذه الليلة، وادعو له بدعاء يكون فيه فضل؟" فقال رجل من الانصار: انا يا رسول الله، فقال:" ادنه"، فدنا، فقال:" من انت؟" فتسمى له الانصاري، ففتح رسول الله صلى الله عليه وسلم بالدعاء، فاكثر منه، قال ابو ريحانة: فلما سمعت ما دعا به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: انا رجل آخر، فقال:" ادنه"، فدنوت، فقال:" من انت؟" قال: فقلت: انا ابو ريحانة، فدعا بدعاء هو دون ما دعا للانصاري، ثم قال: " حرمت النار على عين دمعت او بكت من خشية الله، وحرمت النار على عين سهرت في سبيل الله" ، وقال: حرمت النار على عين اخرى ثالثة لم يسمعها محمد بن سمير، قال عبد الله: قال ابي: وقال غيره يعني غير زيد: ابو علي الجنبي.حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شُرَيْحٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ سُمَيْرٍ الرُّعَيْنِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا عَامِرٍ التُّجِيبِيَّ ، قَالَ أَبِي: وَقَالَ غَيْرُهُ يَعْنِي غَيْرَ زَيْدٍ: أَبُو عَلِيٍّ الْجَنَبِيُّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا رَيْحَانَةَ ، يَقُولُ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ، فَأَتَيْنَا ذَاتَ لَيْلَةٍ إِلَى شَرَفٍ، فَبِتْنَا عَلَيْهِ، فَأَصَابَنَا بَرْدٌ شَدِيدٌ حَتَّى رَأَيْتُ مَنْ يَحْفِرُ فِي الْأَرْضِ حُفْرَةً يَدْخُلُ فِيهَا، يُلْقِي عَلَيْهِ الْحَجَفَةَ يَعْنِي: التُّرْسَ فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ النَّاسِ نَادَى:" مَنْ يَحْرُسُنَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ، وَأَدْعُو لَهُ بِدُعَاءٍ يَكُونُ فِيهِ فَضْلٌ؟" فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ:" ادْنُهْ"، فَدَنَا، فَقَالَ:" مَنْ أَنْتَ؟" فَتَسَمَّى لَهُ الْأَنْصَارِيُّ، فَفَتَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالدُّعَاءِ، فَأَكْثَرَ مِنْهُ، قَالَ أَبُو رَيْحَانَةَ: فَلَمَّا سَمِعْتُ مَا دَعَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: أَنَا رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ:" ادْنُهْ"، فَدَنَوْتُ، فَقَالَ:" مَنْ أَنْتَ؟" قَالَ: فَقُلْتُ: أَنَا أَبُو رَيْحَانَةَ، فَدَعَا بِدُعَاءٍ هُوَ دُونَ مَا دَعَا لِلْأَنْصَارِيِّ، ثُمَّ قَالَ: " حُرِّمَتْ النَّارُ عَلَى عَيْنٍ دَمَعَتْ أَوْ بَكَتْ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ، وَحُرِّمَتْ النَّارُ عَلَى عَيْنٍ سَهِرَتْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ" ، وَقَالَ: حُرِّمَتْ النَّارُ عَلَى عَيْنٍ أُخْرَى ثَالِثَةٍ لَمْ يَسْمَعْهَا مُحَمَّدُ بْنُ سُمَيْرٍ، قَالَ عَبْدِ الله: قَالَ أَبِي: وَقَالَ غَيْرُهُ يَعْنِي غَيْرَ زَيْدٍ: أَبُو عَلِيٍّ الْجَنَبِيُّ.
سیدنا ابوریحانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ کسی غزوہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے رات کے وقت کسی ٹیلے پر پہنچے، رات وہاں گزاری تو شدید سردی نے آ لیا حتیٰ کہ میں نے دیکھا بعض لوگ زمین میں گڑھا کھود کر اس میں گھس جاتے ہیں، پھر ان کے اوپر ڈھالیں ڈال دی جاتی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جب اس حال میں دیکھا تو اعلان فرما دیا کہ آج رات کو کون پہرہ داری کرے گا، میں اس کے لیے دعا کروں گا کہ اس میں اللہ کا فضل شامل ہو گا، اس پر ایک انصاری نے اپنے آپ کو پیش کر دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلایا جب وہ قریب آیا تو پوچھا کہ تم کون ہو، اس نے اپنا نام بتایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے دعا شروع کر دی اور خوب دعا کی سیدنا ابوریحانہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں سنیں تو وہ آگے بڑھ کر عرض کر دیا کہ دوسرا آدمی میں ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب آؤ۔“ میں قریب ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم کون ہو؟“ میں نے بتایا کہ ابوریحانہ ہوں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے حق میں بھی دعائیں فرمائیں، جو اس انصاری کے حق میں کی جانے والی دعاؤں سے کچھ کم تھیں، پھر فرمایا: ”اس آنکھ پر جہنم کی آگ حرام ہے، جو اللہ کے خوف سے بہ پڑے اور اس آنکھ پر بھی جہنم کی آگ حرام ہے جو اللہ کے راستے میں جاگتی رہے“، راوی کہتے ہیں کہ ایک تیسری آنکھ کا بھی ذکر کیا تھا لیکن محمد بن سمیر اسے سن نہیں سکے۔
حكم دارالسلام: مرفوعه حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة محمد بن سمير، أبو على الجنبي هو الصواب ، ووهم فيه زيد بن الحباب فقال: أبو عامر التجيبي
حدثنا عتاب ، قال: حد?نا عبد الله يعني ابن المبارك ، قال: حدثنا حيوة بن شريح ، اخبرني عياش بن عباس القتباني ، عن ابي الحصين الحجري انه اخبره، انه وصاحبا له يلزمان ابا ريحانة يتعلمان منه خيرا، قال: فحضر صاحبي يوما ولم احضر، فاخبرني صاحبي انه سمع ابا ريحانة ، يقول: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم حرم عشرة: الوشر، والوشم، والنتف، ومكامعة الرجل الرجل ليس بينهما ثوب، ومكامعة المراة بالمراة ليس بينهما ثوب، وخطي حرير على اسفل الثوب، وخطي حرير على العاتقين، والنمر يعني جلدة النمر، والنهبة، والخاتم إلا لذي سلطان" .حَدَّثَنَا عَتَّابٌ ، قَالَ: حَدَّ?َنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ ، أَخْبَرَنِي عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ الْقِتْبَانِيُّ ، عَنْ أَبِي الْحُصَيْنِ الْحَجْرِيِّ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ وَصَاحِبًا لَهُ يَلْزَمَانِ أَبَا رَيْحَانَةَ يَتَعَلَّمَانِ مِنْهُ خَيْرًا، قَالَ: فَحَضَرَ صَاحِبِي يَوْمًا وَلَمْ أَحْضُرْ، فَأَخْبَرَنِي صَاحِبِي أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا رَيْحَانَةَ ، يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرَّمَ عَشْرَةً: الْوَشْرَ، وَالْوَشْمَ، وَالنَّتْفَ، وَمُكَامَعَةَ الرَّجُلِ الرَّجُلَ لَيْسَ بَيْنَهُمَا ثَوْبٌ، وَمُكَامَعَةَ الْمَرْأَةِ بِالْمَرْأَةِ لَيْسَ بَيْنَهُمَا ثَوْبٌ، وَخَطَّيْ حَرِيرٍ عَلَى أَسْفَلِ الثَّوْبِ، وَخَطَّيْ حَرِيرٍ عَلَى الْعَاتِقَيْنِ، وَالنَّمِرَ يَعْنِي جِلْدَةَ النَّمِرِ، وَالنُّهْبَةَ، وَالْخَاتَمَ إِلَّا لِذِي سُلْطَانٍ" .
ابوالحصین ہیثم کہتے ہیں کہ حضرت میں اور میرا ایک دوست ابوریحانہ کے ساتھ چمٹے رہتے اور ان سے علم حاصل کرتے تھے، ایک دن میرا ساتھی مسجد پہنچ گیا، میں نہیں پہنچ سکا، میرے ساتھی نے بعد میں مجھے بتایا کہ اس نے سیدنا ابوریحانہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس چیزوں سے منع فرمایا ہے۔ دانتوں کو باریک کرنے سے، جسم گودنے سے، بال نوچنے سے، ایک مرد کے دوسرے مرد کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے ایک ہی برتن سے منہ لگانے سے، ایک عورت کے دوسری عورت کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے ایک ہی برتن کے ساتھ منہ لگانے سے، کپڑے کے نچلے حصے میں نقش و نگار کی طرح ریشم لگانے سے، کندھوں پر عجمیوں کی طرح ریشمی کپڑے ڈالنے سے، لوٹ مار سے، چیتوں کی کھال کے پالانوں پر سواری کرنے سے اور بادشاہ کے علاوہ کسی اور کے انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون النهي عن اتخاذ الأعلام من الحرير أسفل الثياب، والنهي عن البوس الخاتم إلا الذى سلطان، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال أبى عامر