حدثنا غندر ، قال: حدثنا عكرمة بن عمار ، قال: حدثني شداد بن عبد الله وكان قد ادرك نفرا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، عن ابي امامة ، عن عمرو بن عبسة ، قال: قلت: يا رسول الله، علمني مما علمك الله عز وجل، قال: " إذا صليت الصبح، فاقصر عن الصلاة حتى تطلع الشمس، فإذا طلعت، فلا تصل حتى ترتفع، فإنها تطلع حين تطلع بين قرني شيطان، وحينئذ يسجد لها الكفار، فإذا ارتفعت قيد رمح او رمحين، فصل، فإن الصلاة مشهودة محضورة حتى يعني يستقل الرمح بالظل، ثم اقصر عن الصلاة، فإنها حينئذ تسجر جهنم، فإذا فاء الفيء فصل، فإن الصلاة مشهودة محضورة حتى تصلي العصر، فإذا صليت العصر فاقصر عن الصلاة حتى تغرب الشمس، فإنها تغرب بين قرني شيطان، فحينئذ يسجد لها الكفار" .حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَدَّادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَكَانَ قَدْ أَدْرَكَ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلِّمْنِي مِمَّا عَلَّمَكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: " إِذَا صَلَّيْتَ الصُّبْحَ، فَأَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَإِذَا طَلَعَتْ، فَلَا تُصَلِّ حَتَّى تَرْتَفِعَ، فَإِنَّهَا تَطْلُعُ حِينَ تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ، فَإِذَا ارْتَفَعَتْ قِيدَ رُمْحٍ أَوْ رُمْحَيْنِ، فَصَلِّ، فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ حَتَّى يَعْنِي يَسْتَقِلَّ الرُّمْحُ بِالظِّلِّ، ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاةِ، فَإِنَّهَا حِينَئِذٍ تُسْجَرُ جَهَنَّمُ، فَإِذَا فَاءَ الْفَيْءُ فَصَلِّ، فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ حَتَّى تُصَلِّيَ الْعَصْرَ، فَإِذَا صَلَّيْتَ الْعَصْرَ فَأَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَإِنَّهَا تَغْرُبُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، فَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ" .
حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! اللّٰہ نے آپ کو جو علم دیا ہے اس میں سے کچھ مجھے بھی سکھا دیجیے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم فجر کی نماز پڑھ چکو تو طلوعِ آفتاب تک نوافل پڑھنے سے رک جاؤ، جب سورج طلوع ہو جائے تب بھی اس وقت تک نہ پڑھو جب تک کہ سورج بلند نہ ہو جائے، کیونکہ جب وہ طلوع ہوتا ہے تو شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے، اور اسی وقت کفار اسے سجدہ کرتے ہیں، البتہ جب وہ ایک یا دو نیزے کے برابر بلند ہو جائے تو پھر نماز پڑھ سکتے ہو، کیونکہ یہ نماز فرشتوں کی حاضری والی ہوتی ہے، یہاں تک کے نیزے کا سایہ پیدا ہونے لگے تو نماز سے رک جاؤ کیونکہ اس وقت جہنم کو دھکایا جاتا ہے، البتہ جب سایہ ڈھل جائے تو تم نماز پڑھ سکتے ہو، کیونکہ اس نماز میں بھی فرشتے حاضر ہوتے ہیں، یہاں تک کہ تم عصر کی نماز پڑھ لو، نمازِ عصر پڑھنے کے بعد غروب آفتاب تک نوافل پڑھنے سے رک جاؤ، کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اور اسے اس وقت کفار سجدہ کرتے ہیں۔“
حدثنا محمد بن جعفر ، قال: حدثنا شعبة ، عن ابي الفيض ، عن سليم بن عامر ، قال: كان معاوية يسير بارض الروم، وكان بينهم وبينه امد، فاراد ان يدنو منهم، فإذا انقضى الامد غزاهم، فإذا شيخ على دابة يقول: الله اكبر، الله اكبر، وفاء لا غدر، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من كان بينه وبين قوم عهد، فلا يحلن عقدة ولا يشدها حتى ينقضي امدها، او ينبذ إليهم على سواء"، فبلغ ذلك معاوية فرجع، وإذا الشيخ عمرو بن عبسة .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي الْفَيْضِ ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ: كَانَ مُعَاوِيَةُ يَسِيرُ بِأَرْضِ الرُّومِ، وَكَانَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَهُ أَمَدٌ، فَأَرَادَ أَنْ يَدْنُوَ مِنْهُمْ، فَإِذَا انْقَضَى الْأَمَدُ غَزَاهُمْ، فَإِذَا شَيْخٌ عَلَى دَابَّةٍ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، وَفَاءٌ لَا غَدْرٌ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ، فَلَا يَحِلَّنَّ عُقْدَةً وَلَا يَشُدَّهَا حَتَّى يَنْقَضِيَ أَمَدُهَا، أَوْ يَنْبِذَ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ"، فَبَلَغَ ذَلِكَ مُعَاوِيَةَ فَرَجَعَ، وَإِذَا الشَّيْخُ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ .
سلیم بن عامر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فوج کو لے کر ارض روم کی طرف چل پڑے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور رومیوں کے درمیان طے شدہ معاہدے کی کچھ مدت ابھی باقی تھی، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے سوچا کہ ان کے قریب پہنچ کر رک جاتے ہیں، جوں ہی مدت ختم ہو گی، ان سے جنگ شروع کر دیں گے، لیکن دیکھا گیا کہ ایک شیخ سواری پر سوار یہ کہتے جا رہے ہیں ”اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر“ وعدہ پورا کیا جاۓ، عہد شکنی نہ کی جائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جس شخص کا کسی قوم کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو تو اسے مدت گزرنے سے پہلے یا ان کی طرف سے عہد شکنی سے پہلے اس کی گرہ کھولنی اور بند نہیں کرنی چاہیے“، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم ہوئی، تو وہ واپس لوٹ گئے اور پتہ چلا کہ وہ شیخ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح بشاهده، وهذا إسناد منقطع بين سليم بن عامر وبين عمرو بن عبسة
حدثنا ابو اليمان ، قال: حدثنا إسماعيل بن عياش ، عن يحيى بن ابي عمرو السيباني ، عن ابي سلام الدمشقي ، وعمرو بن عبد الله ، انهما سمعا ابا امامة الباهلي يحدث، عن حديث عمرو بن عبسة السلمي ، قال: رغبت عن آلهة قومي في الجاهلية، فذكر الحديث، قال: فسالت عنه فوجدته مستخفيا بشانه، فتلطفت له حتى دخلت عليه، فسلمت عليه، فقلت له: ما انت؟ فقال:" نبي"، فقلت: وما النبي؟ فقال:" رسول الله"، فقلت: ومن ارسلك؟ قال:" الله عز وجل"، قلت: بماذا ارسلك؟ فقال: " بان توصل الارحام، وتحقن الدماء، وتؤمن السبل، وتكسر الاوثان، ويعبد الله وحده لا يشرك به شيء"، قلت: نعم ما ارسلك به، واشهدك اني قد آمنت بك وصدقتك، افامكث معك ام ما ترى؟ فقال:" قد ترى كراهة الناس لما جئت به، فامكث في اهلك، فإذا سمعتم بي قد خرجت مخرجي فاتني ، فذكر الحديث.حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي عَمْرٍو السَّيْبَانِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ الدِّمَشْقِيِّ ، وَعَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أنهما سمعا أبا أمامة الباهلي يُحَدِّثُ، عَنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ السُّلَمِيِّ ، قَالَ: رَغِبْتُ عَنْ آلِهَةِ قَوْمِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: فَسَأَلْتُ عَنْهُ فَوَجَدْتُهُ مُسْتَخْفِيًا بِشَأْنِهِ، فَتَلَطَّفْتُ لَهُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ لَهُ: مَا أَنْتَ؟ فَقَالَ:" نَبِيٌّ"، فَقُلْتُ: وَمَا النَّبِيُّ؟ فَقَالَ:" رَسُولُ اللَّهِ"، فَقُلْتُ: وَمَنْ أَرْسَلَكَ؟ قَالَ:" اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ"، قُلْتُ: بِمَاذَا أَرْسَلَكَ؟ فَقَالَ: " بِأَنْ تُوصَلَ الْأَرْحَامُ، وَتُحْقَنَ الدِّمَاءُ، وَتُؤَمَّنَ السُّبُلُ، وَتُكَسَّرَ الْأَوْثَانُ، وَيُعْبَدَ اللَّهُ وَحْدَهُ لَا يُشْرَكُ بِهِ شَيْءٌ"، قُلْتُ: نِعْمَ مَا أَرْسَلَكَ بِهِ، وَأُشْهِدُكَ أَنِّي قَدْ آمَنْتُ بِكَ وَصَدَّقْتُكَ، أَفَأَمْكُثُ مَعَكَ أَمْ مَا تَرَى؟ فَقَالَ:" قَدْ تَرَى كَرَاهَةَ النَّاسِ لِمَا جِئْتُ بِهِ، فَامْكُثْ فِي أَهْلِكَ، فَإِذَا سَمِعْتُمْ بِي قَدْ خَرَجْتُ مَخْرَجِي فَأْتِنِي ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرا دل زمانہ جاہلیت کے اپنے قومی معبودوں سے بیزار ہو گیا۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھا، معلوم ہوا کہ وہ اپنے آپ کو پوشیدہ رکھے ہوئے ہیں، میں بلطائف الحیل وہاں پہنچا، اور سلام کر کے پوچھا کہ آپ کون ہے؟ فرمایا: نبی! میں نے پوچھا: نبی کون ہوتا ہے؟ فرمایا: اللّٰہ کا قاصد، میں نے پوچھا: آپ کو کس نے بھیجا ہے؟ فرمایا: اللّٰہ تعالیٰ نے، میں نے پوچھا کہ اس نے آپ کو کیا پیغام دے کر بھیجا ہے؟ فرمایا: صلہ رحمی کا، جانوں کے تحفظ کا، راستوں میں امن و امان قائم کرنے کا، بتوں کو توڑنے کا اور اللّٰہ کی اس طرح عبادت کرنے کا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرایا جائے، میں نے عرض کیا کہ آپ کو بہترین چیزوں کا داعی بنا کر بھیجا گیا ہے، اور میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں آپ پر ایمان لے آیا اور آپ کی تصدیق کرتا ہوں، کیا میں آپ کے ساتھ ہی رہوں یا کیا راۓ ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی تو تم دیکھ رہے ہو کہ لوگ میری تعلیمات پر کتنی ناپسندیدگی کا اظہار کر رہے ہیں اس لے فی الحال اپنے گھر لوٹ جاؤ اور جب تمہیں میرے نکلنے کی خبر معلوم ہو تو میرے پاس آ جانا۔۔۔ پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی۔
حدثنا بهز ، قال: حدثنا حماد بن سلمة ، حدثنا يعلى بن عطاء ، عن يزيد بن طلق ، عن عبد الرحمن بن البيلماني ، عن عمرو بن عبسة ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، من اسلم معك؟، فقال: " حر وعبد"، يعني ابا بكر، وبلالا . فقلت: يا رسول الله، علمني مما تعلم واجهل، هل من الساعات ساعة افضل من الاخرى؟ قال: " جوف الليل الآخر افضل، فإنها مشهودة متقبلة حتى تصلي الفجر، ثم انهه حتى تطلع الشمس ما دامت كالحجفة حتى تنتشر، فإنها تطلع بين قرني شيطان، ويسجد لها الكفار، ثم تصلي، فإنها مشهودة متقبلة حتى يستوي العمود على ظله، ثم انهه، فإنها ساعة تسجر فيها الجحيم، فإذا زالت فصل، فإنها مشهودة متقبلة حتى تصلي العصر، ثم انهه حتى تغرب الشمس، فإنها تغرب بين قرني شيطان، ويسجد لها الكفار" ، وكان عمرو بن عبسة ، يقول: انا ربع الإسلام، وكان عبد الرحمن يصلي بعد العصر ركعتين.حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ طَلْقٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْبَيْلَمَانِيِّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَسْلَمَ مَعَكَ؟، فَقَالَ: " حُرٌّ وَعَبْدٌ"، يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ، وَبِلَالًا . فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلِّمْنِي مِمَّا تَعْلَمُ وَأَجْهَلُ، هَلْ مِنَ السَّاعَاتِ سَاعَةٌ أَفْضَلُ مِنَ الْأُخْرَى؟ قَالَ: " جَوْفُ اللَّيْلِ الْآخِرُ أَفْضَلُ، فَإِنَّهَا مَشْهُودَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ حَتَّى تُصَلِّيَ الْفَجْرَ، ثُمَّ انْهَهُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مَا دَامَتْ كَالْحَجَفَةِ حَتَّى تَنْتَشِرَ، فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، وَيَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ، ثُمَّ تُصَلِّي، فَإِنَّهَا مَشْهُودَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ حَتَّى يَسْتَوِيَ الْعَمُودُ عَلَى ظِلِّهِ، ثُمَّ انْهَهُ، فَإِنَّهَا سَاعَةٌ تُسْجَرُ فِيهَا الْجَحِيمُ، فَإِذَا زَالَتْ فَصَلِّ، فَإِنَّهَا مَشْهُودَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ حَتَّى تُصَلِّيَ الْعَصْرَ، ثُمَّ انْهَهُ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَإِنَّهَا تَغْرُبُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، وَيَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ" ، وَكَانَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ ، يَقُولُ: أَنَا رُبُعُ الْإِسْلَامِ، وَكَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يُصَلِّي بَعْدَ الْعَصْرِ رَكْعَتَيْنِ.
حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! آپ پر کون لوگ اسلام لائے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آزاد بھی اور غلام بھی“(حضرت ابوبکر اور حضرت بلال رضی اللہ عنہما) میں نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! اللّٰہ نے آپ کو جو علم دیا ہے اس میں سے کچھ مجھے بھی سکھا دیجئے؟ کیا کوئی وقت زیادہ افضل ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کا آخری پہر سب سے زیادہ افضل ہے، اس وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور نماز قبول ہوتی ہے، جب تم فجر کی نماز پڑھ چکو تو طلوع آفتاب تک نوافل پڑھنے سے رُک جاؤ، جب سورج طلوع ہو جائے تب بھی اس وقت تک نہ پڑھو جب تک کے سورج بلند نہ ہو جائے، کیونکہ جب وہ طلوع ہوتا ہے تو شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے، اور اسی وقت کفار اسے سجدہ کرتے ہیں، البتہ جب وہ ایک یا دو نیزے کے برابر بلند ہو جائے تو پھر نماز پڑھ سکتے ہو، کیونکہ یہ نماز فرشتوں کی حاضری والی ہوتی ہے، یہاں تک کے نیزے کا سایہ پیدا ہونے لگے تو نماز سے رُک جاؤ کیونکہ اس وقت جہنم کو دہکایا جاتا ہے، البتہ جب سایہ ڈھل جائے تو نماز پڑھ سکتے ہو، کیونکہ اس نماز میں بھی فرشتے حاضر ہوتے ہیں یہاں تک کے تم عصر کی نماز پڑھ لو، نماز عصر پڑھنے کے بعد غروب آفتاب تک نوافل پڑھنے سے رُک جاؤ، کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اور اسے اس وقت کفار سجدہ کرتے ہیں“ اور حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللّٰہ عنہ فرماتے تھے کہ میں چوتھائی اسلام ہوں، اور عبدالرحمٰن بن بیلمانی عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث ضعيف بهذه السياقة، وهذا إسناد مضطرب، يزيد بن طلق مجهول، وعبدالرحمن بن البيلماني ضعيف
حدثنا عبد الله بن يزيد ابو عبد الرحمن المقري ، حدثنا عكرمة يعني ابن عمار ، حدثنا شداد بن عبد الله الدمشقي وكان قد ادرك نفرا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، قال: قال ابو امامة: يا عمرو بن عبسة صاحب العقل عقل الصدقة رجل من بني سليم! باي شيء تدعي انك ربع الإسلام؟ قال: إني كنت في الجاهلية ارى الناس على ضلالة، ولا ارى الاوثان شيئا، ثم سمعت عن رجل يخبر اخبار مكة ويحدث احاديث، فركبت راحلتي حتى قدمت مكة، فإذا انا برسول الله صلى الله عليه وسلم مستخف، وإذا قومه عليه جرءاء، فتلطفت له، فدخلت عليه، فقلت: ما انت؟ قال:" انا نبي الله"، فقلت: وما نبي الله؟ قال:" رسول الله"، قال: قلت: آلله ارسلك؟ قال:" نعم"، قلت: باي شيء ارسلك؟ قال: " بان يوحد الله ولا يشرك به شيء، وكسر الاوثان، وصلة الرحم"، فقلت له: من معك على هذا؟ قال:" حر وعبد، او عبد وحر"، وإذا معه ابو بكر بن ابي قحافة، وبلال مولى ابي بكر، قلت: إني متبعك، قال:" إنك لا تستطيع ذلك يومك هذا، ولكن ارجع إلى اهلك، فإذا سمعت بي قد ظهرت فالحق بي"، قال: فرجعت إلى اهلي وقد اسلمت، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم مهاجرا إلى المدينة، فجعلت اتخبر الاخبار حتى جاء ركبة من يثرب، فقلت: ما هذا المكي الذي اتاكم؟ قالوا: اراد قومه قتله، فلم يستطيعوا ذلك، وحيل بينهم وبينه، وتركنا الناس سراعا . قال قال عمرو بن عبسة : فركبت راحلتي حتى قدمت عليه المدينة، فدخلت عليه، فقلت: يا رسول الله، اتعرفني؟ قال:" نعم، الست انت الذي اتيتني بمكة؟" قال: قلت: بلى، فقلت: يا رسول الله، علمني مما علمك الله واجهل، قال: " إذا صليت الصبح فاقصر عن الصلاة حتى تطلع الشمس، فإذا طلعت، فلا تصل حتى ترتفع، فإنها تطلع حين تطلع بين قرني شيطان، وحينئذ يسجد لها الكفار، فإذا ارتفعت قيد رمح او رمحين فصل، فإن الصلاة مشهودة محضورة حتى يستقل الرمح بالظل، ثم اقصر عن الصلاة، فإنها حينئذ تسجر جهنم، فإذا فاء الفيء فصل، فإن الصلاة مشهودة محضورة، حتى تصلي العصر، فإذا صليت العصر فاقصر عن الصلاة حتى تغرب الشمس، فإنها تغرب حين تغرب بين قرني شيطان، وحينئذ يسجد لها الكفار" . قلت: يا نبي الله، اخبرني عن الوضوء، قال: " ما منكم من احد يقرب وضوءه ثم يتمضمض ويستنشق وينتثر إلا خرت خطاياه من فمه وخياشيمه مع الماء حين ينتثر، ثم يغسل وجهه كما امره الله تعالى إلا خرت خطايا وجهه من اطراف لحيته مع الماء، ثم يغسل يديه إلى المرفقين إلا خرت خطايا يديه من اطراف انامله، ثم يمسح راسه إلا خرت خطايا راسه من اطراف شعره مع الماء، ثم يغسل قدميه إلى الكعبين كما امره الله عز وجل إلا خرت خطايا قدميه من اطراف اصابعه مع الماء، ثم يقوم فيحمد الله عز وجل ويثني عليه بالذي هو له اهل، ثم يركع ركعتين إلا خرج من ذنوبه كهيئته يوم ولدته امه" ، قال ابو امامة: يا عمرو بن عبسة، انظر ما تقول، اسمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ايعطى هذا الرجل كله في مقامه؟ قال: فقال عمرو بن عبسة : يا ابا امامة، لقد كبرت سني، ورق عظمي، واقترب اجلي، وما بي من حاجة ان اكذب على الله عز وجل وعلى رسوله، لو لم اسمعه من رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا مرة او مرتين او ثلاثا، لقد سمعته سبع مرات او اكثر من ذلك.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ يَعْنِي ابْنَ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا شَدَّادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الدِّمَشْقِيُّ وَكَانَ قَدْ أَدْرَكَ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ أَبُو أُمَامَةَ: يَا عَمْرُو بْنَ عَبَسَةَ صَاحِبَ الْعَقْلِ عَقْلِ الصَّدَقَةِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ! بِأَيِّ شَيْءٍ تَدَّعِي أَنَّكَ رُبُعُ الْإِسْلَامِ؟ قَالَ: إِنِّي كُنْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَرَى النَّاسَ عَلَى ضَلَالَةٍ، وَلَا أَرَى الْأَوْثَانَ شَيْئًا، ثُمَّ سَمِعْتُ عَنْ رَجُلٍ يُخْبِرُ أَخْبَارَ مَكَّةَ وَيُحَدِّثُ أَحَادِيثَ، فَرَكِبْتُ رَاحِلَتِي حَتَّى قَدِمْتُ مَكَّةَ، فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَخْفٍ، وَإِذَا قَوْمُهُ عَلَيْهِ جُرَءَاءُ، فَتَلَطَّفْتُ لَهُ، فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: مَا أَنْتَ؟ قَالَ:" أَنَا نَبِيُّ اللَّهِ"، فَقُلْتُ: وَمَا نَبِيُّ اللَّهِ؟ قَالَ:" رَسُولُ اللَّهِ"، قَالَ: قُلْتُ: آللَّهُ أَرْسَلَكَ؟ قَالَ:" نَعَمْ"، قُلْتُ: بِأَيِّ شَيْءٍ أَرْسَلَكَ؟ قَالَ: " بِأَنْ يُوَحَّدَ اللَّهُ وَلَا يُشْرَكَ بِهِ شَيْءٌ، وَكَسْرِ الْأَوْثَانِ، وَصِلَةِ الرَّحِمِ"، فَقُلْتُ لَهُ: مَنْ مَعَكَ عَلَى هَذَا؟ قَالَ:" حُرٌّ وَعَبْدٌ، أَوْ عَبْدٌ وَحُرٌّ"، وَإِذَا مَعَهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي قُحَافَةَ، وَبِلَالٌ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ، قُلْتُ: إِنِّي مُتَّبِعُكَ، قَالَ:" إِنَّكَ لَا تَسْتَطِيعُ ذَلِكَ يَوْمَكَ هَذَا، وَلَكِنْ ارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ، فَإِذَا سَمِعْتَ بِي قَدْ ظَهَرْتُ فَالْحَقْ بِي"، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى أَهْلِي وَقَدْ أَسْلَمْتُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهَاجِرًا إِلَى الْمَدِينَةِ، فَجَعَلْتُ أَتَخَبَّرُ الْأَخْبَارَ حَتَّى جَاءَ رَكَبَةٌ مِنْ يَثْرِبَ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا الْمَكِّيُّ الَّذِي أَتَاكُمْ؟ قَالُوا: أَرَادَ قَوْمُهُ قَتْلَهُ، فَلَمْ يَسْتَطِيعُوا ذَلِكَ، وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَهُ، وَتَرَكْنَا النَّاسَ سِرَاعًا . قَالَ قَالَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ : فَرَكِبْتُ رَاحِلَتِي حَتَّى قَدِمْتُ عَلَيْهِ الْمَدِينَةَ، فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَعْرِفُنِي؟ قَالَ:" نَعَمْ، أَلَسْتَ أَنْتَ الَّذِي أَتَيْتَنِي بِمَكَّةَ؟" قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلِّمْنِي مِمَّا عَلَّمَكَ اللَّهُ وَأَجْهَلُ، قَالَ: " إِذَا صَلَّيْتَ الصُّبْحَ فَأَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَإِذَا طَلَعَتْ، فَلَا تُصَلِّ حَتَّى تَرْتَفِعَ، فَإِنَّهَا تَطْلُعُ حِينَ تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ، فَإِذَا ارْتَفَعَتْ قِيدَ رُمْحٍ أَوْ رُمْحَيْنِ فَصَلِّ، فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ حَتَّى يَسْتَقِلَّ الرُّمْحُ بِالظِّلِّ، ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاةِ، فَإِنَّهَا حِينَئِذٍ تُسْجَرُ جَهَنَّمُ، فَإِذَا فَاءَ الْفَيْءُ فَصَلِّ، فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ، حَتَّى تُصَلِّيَ الْعَصْرَ، فَإِذَا صَلَّيْتَ الْعَصْرَ فَأَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَإِنَّهَا تَغْرُبُ حِينَ تَغْرُبُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ" . قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَخْبِرْنِي عَنِ الْوُضُوءِ، قَالَ: " مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ يَقْرَبُ وَضُوءَهُ ثُمَّ يَتَمَضْمَضُ وَيَسْتَنْشِقُ وَيَنْتَثِرُ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَاهُ مِنْ فَمِهِ وَخَيَاشِيمِهِ مَعَ الْمَاءِ حِينَ يَنْتَثِرُ، ثُمَّ يَغْسِلُ وَجْهَهُ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ تَعَالَى إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا وَجْهِهِ مِنْ أَطْرَافِ لِحْيَتِهِ مَعَ الْمَاءِ، ثُمَّ يَغْسِلُ يَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا يَدَيْهِ مِنْ أَطْرَافِ أَنَامِلِهِ، ثُمَّ يَمْسَحُ رَأْسَهُ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا رَأْسِهِ مِنْ أَطْرَافِ شَعَرِهِ مَعَ الْمَاءِ، ثُمَّ يَغْسِلُ قَدَمَيْهِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا خَرَّتْ خَطَايَا قَدَمَيْهِ مِنْ أَطْرَافِ أَصَابِعِهِ مَعَ الْمَاءِ، ثُمَّ يَقُومُ فَيَحْمَدُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَيُثْنِي عَلَيْهِ بِالَّذِي هُوَ لَهُ أَهْلٌ، ثُمَّ يَرْكَعُ رَكْعَتَيْنِ إِلَّا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ" ، قَالَ أَبُو أُمَامَةَ: يَا عَمْرُو بْنَ عَبَسَةَ، انْظُرْ مَا تَقُولُ، أَسَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُعْطَى هَذَا الرَّجُلُ كُلَّهُ فِي مَقَامِهِ؟ قَالَ: فَقَالَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ : يَا أَبَا أُمَامَةَ، لَقَدْ كَبِرَتْ سِنِّي، وَرَقَّ عَظْمِي، وَاقْتَرَبَ أَجَلِي، وَمَا بِي مِنْ حَاجَةٍ أَنْ أَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعَلَى رَسُولِهِ، لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، لَقَدْ سَمِعْتُهُ سَبْعَ مَرَّاتٍ أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ.
حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دن پوچھا: اے عمرو بن عبسہ! آپ کیسے یہ دعوی کرتے ہیں کہ آپ ربع اسلام ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں، میں خیال کرتا تھا کہ لوگ گمراہی میں مبتلا ہیں اور وہ کسی راستے پر نہیں ہیں اور وہ سب بتوں کی پوجا پاٹ کرتے ہیں، میں نے ایک آدمی کے بارے میں سنا کہ وہ مکہ میں بہت سی خبریں بیان کرتا ہے تو میں اپنی سواری پر بیٹھا اور ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ چھپ کر رہ رہے ہیں کیونکہ آپ کی قوم آپ پر مسلط تھی۔ پھر میں نے ایک طریقہ اختیار کیا جس کے ذریعہ میں مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گیا۔ اور آپ سے میں عرض کی کہ آپ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نبی ہوں۔ میں نے عرض کی کہ نبی کسے کہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ! مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنا پیغام دے کر بھیجا ہے۔ میں نے عرض کی کہ آپ کو کس چیز کا پیغام دے کر بھیجا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ صلہ رحمی کرنا، بتوں کو توڑنا، اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔ میں نے کہا کہ اس مسلہ میں آپ کے ساتھ اور کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آزاد اور ایک غلام۔ راوی نے کہا کہ اس وقت آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ جو آپ پر ایمان لے آئے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ میں بھی آپ کی پیروی کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس وقت اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ اس وقت تم گھر اپنے جاؤ پھر جب سنو ظاہر (غالب) ہو گیا ہوں تو پھر میرے پاس آ جانا، چنانچہ میں اپنے گھر کی طرف چل دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آ گئے اور میں اپنے گھر والوں میں ہی تھا اور لوگوں سے خبریں لیتا رہتا تھا۔ اور پوچھتا رہتا تھا یہاں تک کہ مدینہ والوں سے میری طرف کچھ آدمی آئے تو میں نے ان سے کہا کہ اس طرح کے جو آدمی مدینہ منورہ میں آئے ہیں وہ کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ لوگ ان کی طرف دوڑ رہے ہیں (اسلام قبول کر رہے ہیں) ان کی قوم کے لوگ انہیں قتل کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ میں مدینہ منورہ آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں تم تو وہی ہو جس نے مجھ سے مکہ میں ملاقات کی تھی۔“ میں نے کہا:! جی ہاں۔ پھر عرض کیا! اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو کچھ سکھایا ہے مجھے اس کی خبر دیجئے میں اس سے جاہل ہوں۔ مجھے نماز کے بارے میں بھی خبر دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صبح کی نماز پڑھو، پھر نماز سے رکے رہو، یہاں تک کہ سورج نکل آئے اور نکل کر بلند ہو جائے کیونکہ سورج نکلتا ھے تو شیطان کے دو سینگوں کے درمیان سے نکلتا ہے اور اس وقت کافر لوگ اس کو سجدہ کرتے ہیں۔ پھر نماز پڑھو کیونکہ اس وقت کی نماز کی گواہی فرشتے دیں گے اور حاضر ہوں گے۔ یہاں تک کہ سایہ نیزے کے برابر ہو جائے، پھر نماز سے رکے رہو کیونکہ اس وقت جہنم دہکائی جاتی ہے، پھر جب سایہ آ جائے تو نماز پڑھو کیونکہ اس وقت کی نماز کی فرشتے گواہی دیں گے اور حاضر کئے جائیں گے یہاں تک کہ تم عصر کی نماز پڑھو پھر سورج کے غروب ہونے تک نماز سے رکے رہو کیونکہ یہ شیطان کے سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اور اس وقت کافر لوگ اسے سجدہ کرتے ہیں۔ میں نے پھر عرض کیا کہ وضو کے بارے میں بھی کچھ بتایئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی بھی شخص ایسا نہیں جو وضو کے پانی سے کلی کرے اور پانی ناک میں ڈالے اور ناک صاف کرے مگر یہ کہ اس کے منہ اور نتھنوں کے سارے گناہ جھڑ جاتے ہیں، پھر جب وہ منہ دھوتا ہے جس طرح اس کے اللہ نے اس کو حکم دیا ہے تو اس کے چہرے کے گناہ ڈاڑھی کے کناروں کے ساتھ لگ کر پانی کے ساتھ گر جاتے اور پھر اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے اور اللہ کی حمد و ثناء اس کی بزرگی اور شایان بیان کرے اور اپنے دل کو خالص اللہ کے لئے فارغ کر لے تو وہ شخص گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جس طرح کہ آج ہی اس کی ماں نے اسے جنا ہے۔ حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اے عمرو بن عبسہ! دیکھو! (غور کرو!)کیا کہہ رہے ہو ایک ہی جگہ میں آدمی کو اتنا ثواب مل سکتا ہے؟ تو حضرت عمرو بن عبسہ کہنے لگے، اے ابوامامہ! میں بڑی عمر والا بوڑھا ہو گیا ہوں اور میری ہڈیاں نرم ہو گئی ہیں اور میری موت بظاہر قریب آ گئی ہے تو اب مجھے کیا ضرورت پڑی ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھوں۔ اگر میں اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ، دو یا تین مرتبہ سنتا تو اس حدیث کو کبھی بیان نہ کرتا میں نے تو اس حدیث کو سات مرتبہ سے بہت زیادہ بار سنا ہے۔
حدثنا الحكم بن نافع ، حدثنا حريز ، عن سليم يعني ابن عامر ، ان شرحبيل بن السمط قال لعمرو بن عبسة: حدثنا حديثا ليس فيه تزيد، ولا نسيان، قال عمرو سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من اعتق رقبة مسلمة، كانت فكاكه من النار عضوا بعضو، ومن شاب شيبة في سبيل الله، كانت له نورا يوم القيامة، ومن رمى بسهم فبلغ فاصاب، او اخطا، كان كمن اعتق رقبة من ولد إسماعيل" .حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ ، حَدَّثَنَا حَرِيزٌ ، عَنْ سُلَيْمٍ يَعْنِي ابْنَ عَامِرٍ ، أَنَّ شُرَحْبِيلَ بْنَ السِّمْطِ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ: حَدِّثْنَا حَدِيثًا لَيْسَ فِيهِ تَزَيُّدٌ، وَلَا نِسْيَانٌ، قَالَ عَمْرٌو سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ أَعْتَقَ رَقَبَةً مُسْلِمَةً، كَانَتْ فِكَاكَهُ مِنَ النَّارِ عُضْوًا بِعُضْوٍ، وَمَنْ شَابَ شَيْبَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، كَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فَبَلَغَ فَأَصَابَ، أَوْ أَخْطَأَ، كَانَ كَمَنْ أَعْتَقَ رَقَبَةً مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ" .
شرجیل بن سمط نے ایک مرتبہ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ ہمیں کوئی ایسی حدیث بتایئے جس میں کوئی اضافہ یا بھول چوک نہ ہو۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی کسی غلام کو آزاد کرائے، اس کے ہر عضو کے بدلے میں وہ اس کے لئے جہنم سے آزادی کا پروانہ بن جائے گا۔ اور جو شخص اللہ کی راہ میں بوڑھا ہو جائے تو وہ بڑھاپا اس کے لئے قیامت کے دن دن باعث نور ہو گا۔ اور جو شخص کوئی تیر پھینکے خواہ وہ نشانے پر لگے یا نشانہ چوک جائے تو یہ۔ ایسے ہی ہے جیسے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کوئی غلام آزاد کرنا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قوله: «من ولد إسماعيل» وهذا إسناد منقطع، سليم بن عامر لم يدرك عمرو بن عبسة
حدثنا اسود بن عامر ، قال: حدثنا ابو بكر يعني ابن عياش ، عن عاصم ، عن شهر بن حوشب ، عن ابي امامة ، قال: اتيناه، فإذا هو جالس يتفلى في جوف المسجد، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا توضا المسلم ذهب الإثم من سمعه، وبصره، ويديه، ورجليه"، قال: فجاء ابو ظبية وهو يحدثنا، فقال: ما حدثكم؟ فذكرنا له الذي حدثنا، قال: فقال: اجل، سمعت عمرو بن عبسة ذكره عن رسول الله صلى الله عليه وسلم . وزاد فيه، قال: وزاد فيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " ما من رجل يبيت على طهر ثم يتعار من الليل، فيذكر ويسال الله عز وجل خيرا من خير الدنيا، والآخرة إلا آتاه الله عز وجل إياه" .حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، قَالَ: أَتَيْنَاهُ، فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ يَتَفَلَّى فِي جَوْفِ الْمَسْجِدِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا تَوَضَّأَ الْمُسْلِمُ ذَهَبَ الْإِثْمُ مِنْ سَمْعِهِ، وَبَصَرِهِ، وَيَدَيْهِ، وَرِجْلَيْهِ"، قَالَ: فَجَاءَ أَبُو ظَبْيَةَ وَهُوَ يُحَدِّثُنَا، فَقَالَ: مَا حَدَّثَكُمْ؟ فَذَكَرْنَا لَهُ الَّذِي حَدَّثَنَا، قَالَ: فَقَالَ: أَجَلْ، سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ عَبَسَةَ ذَكَرَهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . وَزَادَ فِيهِ، قَالَ: وَزَادَ فِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَا مِنْ رَجُلٍ يَبِيتُ عَلَى طُهْرٍ ثُمَّ يَتَعَارَّ مِنَ اللَّيْلِ، فَيَذْكُرُ وَيَسْأَلُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَيْرًا مِنْ خَيْرِ الدُّنْيَا، وَالْآخِرَةِ إِلَّا آتَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِيَّاهُ" .
شہر بن حوشب حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ہم ان کے پاس ایک مرتبہ آئے تو وہ صحن مسجد میں بیٹھے جوئیں نکال رہے تھے، کہنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب کوئی مسلمان وضو کرتا ہے تو اس کے کانوں، آنکھوں، ہاتھوں اور پاؤں کے گناہ مٹ جاتے ہیں۔“ اس دوران ابوظبیہ بھی آ گئے انہوں نے ہم سے پوچھا کہ انہوں نے تم سے کیا حدیث بیان کی ہے؟ ہم نے انہیں وہ حدیث بتا دی تو وہ کہنے لگے صحیح فرمایا، میں نے حضرت عمرو بن عبسہ سے اس حدیث کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے سنا ہے البتہ وہ اس میں یہ اضافہ بھی کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص رات کو وضوکی حالت میں سوئے پھر رات کو بیدار ہو کر اللہ کا ذکر کرے تو وہ دنیا و آخرت کی جو خیر بھی مانگے گا اللہ تعالیٰ اسے وہ ضرور عطا فرمائے گا۔“
حكم دارالسلام: هذان حديثان بإسناد واحد، وهو إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب، والحديثان صحيحان لغيرهما
حدثنا روح ، قال: حدثنا هشام بن ابي عبد الله ، عن قتادة ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن معدان بن ابي طلحة ، عن ابي نجيح السلمي ، قال: حاصرنا مع نبي الله صلى الله عليه وسلم حصن الطائف، فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من بلغ بسهم فله درجة في الجنة"، قال: فبلغت يومئذ ستة عشر سهما . فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من رمى بسهم في سبيل الله عز وجل فهو عدل محرر، ومن شاب شيبة في سبيل الله كانت له نورا يوم القيامة، وايما رجل مسلم اعتق رجلا مسلما فإن الله عز وجل جاعل وفاء كل عظم من عظامه عظما من عظام محرره من النار، وايما امراة مسلمة اعتقت امراة مسلمة، فإن الله عز وجل جاعل وفاء كل عظم من عظامها عظما من عظام محررها من النار" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ أَبِي نَجِيحٍ السُّلَمِيِّ ، قَالَ: حَاصَرْنَا مَعَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِصْنَ الطَّائِفِ، فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ بَلَغَ بِسَهْمٍ فَلَهُ دَرَجَةٌ فِي الْجَنَّةِ"، قَالَ: فَبَلَغْتُ يَوْمَئِذٍ سِتَّةَ عَشَرَ سَهْمًا . فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَهُوَ عِدْلُ مُحَرَّرٍ، وَمَنْ شَابَ شَيْبَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ مُسْلِمٍ أَعْتَقَ رَجُلًا مُسْلِمًا فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ جَاعِلٌ وَفَاءَ كُلِّ عَظْمٍ مِنْ عِظَامِهِ عَظْمًا مِنْ عِظَامِ مُحَرَّرِهِ مِنَ النَّارِ، وَأَيُّمَا امْرَأَةٍ مُسْلِمَةٍ أَعْتَقَتْ امْرَأَةً مُسْلِمَةً، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ جَاعِلٌ وَفَاءَ كُلِّ عَظْمٍ مِنْ عِظَامِهَا عَظْمًا مِنْ عِظَامِ مُحَرَّرِهَا مِنَ النَّارِ" .
حضرت ابونجیح سلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ طائف کے قلعے کا محاصرہ کر لیا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے ایک تیر مارا جنت میں اس کا ایک درجہ ہو گا، چنانچہ میں نے اس دن سولہ تیر پھینکے اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص راہ خدا میں ایک تیر پھینکے تو یہ ایک غلام آزاد کرانے کے برابر ہے جو شخص راہ خدا میں بوڑھا ہو جائے تو وہ بڑھاپا قیامت کے دن اس کے لیے باعث نور ہو گا اور جو شخص کوئی تیر پھینکے ”خواوہ نشانے پر لگے یا چوک جائے“ تو یہ ایسے ہے جیسے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کسی غلام کو آزاد کرنا اور جو شخص کسی مسلمان غلام کو آزاد کرائے اس کے ہر عضو کے بدلے میں وہ اس کے لئے جہنم سے آزادی کا پروانہ بن جائے گا اور عورت کے آزاد کرنے کا بھی یہی حکم ہے۔
حدثنا روح ، قال: حدثنا عبد الحميد بن بهرام ، قال: سمعت شهر بن حوشب ، قال: حدثني ابو ظبية ، قال: قال عمرو بن عبسة: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ايما رجل مسلم رمى بسهم في سبيل الله عز وجل فبلغ مخطئا او مصيبا فله من الاجر كرقبة اعتقها من ولد إسماعيل" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ بَهْرَامَ ، قَالَ: سَمِعْتُ شَهْرَ بْنَ حَوْشَبٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو ظَبْيَةَ ، قَالَ: قَالَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " أَيُّمَا رَجُلٍ مُسْلِمٍ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَبَلَغَ مُخْطِئًا أَوْ مُصِيبًا فَلَهُ مِنَ الْأَجْرِ كَرَقَبَةٍ أَعْتَقَهَا مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ" .
حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ جو شخص کوئی تیر پھینکے خواہ وہ نشانے پر لگے یا چوک جائے تو یہ ایسے ہے جیسے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کسی غلام کو آزاد کرنا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قوله: «من ولد إسماعيل» وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب
حدثنا محمد بن بكر ، حدثنا عبد الحميد يعني ابن جعفر ، قال: حدثني الاسود بن العلاء ، عن حوي مولى سليمان بن عبد الملك، عن رجل ارسل إليه عمر بن عبد العزيز وهو امير المؤمنين، قال: كيف الحديث الذي حدثتني عن الصنابحي؟ قال: اخبرني الصنابحي ، انه لقي عمرو بن عبسة ، فقال: هل من حديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم لا زيادة فيه ولا نقصان؟ قال: نعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من اعتق رقبة اعتق الله بكل عضو منها عضوا منه من النار، ومن رمى بسهم في سبيل الله بلغ او قصر كان عدل رقبة، ومن شاب شيبة في سبيل الله كان له نورا يوم القيامة" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْأَسْوَدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، عَنْ حُوَيٍّ مَوْلَى سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ رَجُلٍ أَرْسَلَ إِلَيْهِ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهُوَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ: كَيْفَ الْحَدِيثُ الَّذِي حَدَّثْتَنِي عَنِ الصُّنَابِحِيِّ؟ قَالَ: أَخْبَرَنِي الصُّنَابِحِيُّ ، أَنَّهُ لَقِيَ عَمْرَو بْنَ عَبَسَةَ ، فَقَالَ: هَلْ مِنْ حَدِيثٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا زِيَادَةَ فِيهِ وَلَا نُقْصَانَ؟ قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ أَعْتَقَ رَقَبَةً أَعْتَقَ اللَّهُ بِكُلِّ عُضْوٍ مِنْهَا عُضْوًا مِنْهُ مِنَ النَّارِ، وَمَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بَلَغَ أَوْ قَصَّرَ كَانَ عِدْلَ رَقَبَةٍ، وَمَنْ شَابَ شَيْبَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَانَ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ" .
صنانجی نے ایک مرتبہ حضرت عمرو بن عبسہ سے عرض کیا کہ ہمیں کوئی ایسی حدیث سنائیے جس میں کوئی اضافہ یا بھول چوک نہ ہو، انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان غلام کو آزاد کرائے اس کے ہر عضو کے بدلے میں وہ اس کے لیے جہنم سے آزادی کا پروانہ بن جائے گا اور جو شخص راہ خدا میں بوڑھا ہو جائے تو وہ بڑھاپا قیامت کے دن اس کے لیے باعث نور ہو گا اور جو شخص کوئی تیر پھینکے خواہ وہ نشانے پر لگے یا چوک جائے،، تو یہ ایسے ہے جیسے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کسی غلام کو آزاد کرنا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لابهام الراوي عن الصنابحي
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، وابن جعفر المعنى، قالا: حدثنا شعبة ، عن ابي الفيض ، قال عبد الرحمن في حديثه: سمعت سليم بن عامر ، يقول: كان بين معاوية وبين الروم عهد، وكان يسير نحو بلادهم حتى ينقضي العهد فيغزوهم، فجعل رجل على دابة، يقول: وفاء لا غدر، وفاء لا غدر، فإذا هو عمرو بن عبسة ، فسالته عن ذلك، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من كان بينه وبين قوم عهد، فلا يحل عقدة، ولا يشدها حتى يمضي امدها او ينبذ إليهم على سواء" ، فرجع معاوية رضي الله تعالى عنه.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، وَابْنُ جَعْفَرٍ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي الْفَيْضِ ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فِي حَدِيثِهِ: سَمِعْتُ سُلَيْمَ بْنَ عَامِرٍ ، يَقُولُ: كَانَ بَيْنَ مُعَاوِيَةَ وَبَيْنَ الرُّومِ عَهْدٌ، وَكَانَ يَسِيرُ نَحْوَ بِلَادِهِمْ حَتَّى يَنْقَضِيَ الْعَهْدُ فَيَغْزُوَهُمْ، فَجَعَلَ رَجُلٌ عَلَى دَابَّةٍ، يَقُولُ: وَفَاءٌ لَا غَدْرٌ، وَفَاءٌ لَا غَدْرٌ، فَإِذَا هُوَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ، فَلَا يَحِلَّ عُقْدَةً، وَلَا يَشُدَّهَا حَتَّى يَمْضِيَ أَمَدُهَا أَوْ يَنْبِذَ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ" ، فَرَجَعَ مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ.
سلیم بن عامر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فوج کو لے کر ارض روم کی طرف چل پڑے , حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور رومیوں کے درمیان طے شدہ معاہدے کی مدت ابھی باقی تھی، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے سوچا کہ ان کے قریب پہنچ کر رک جاتے ہیں, جوں ہی مدت ختم ہو گی، ان سے جنگ شروع کر دیں گے۔ لیکن دیکھا کیا کہ ایک شیخ سواری پر سوار یہ کہتے جا رہے ہیں، وعدہ پورا کیا جائے عہد شکنی نہ کی جائے , نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جس شخص کا کسی قوم کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو تو اسے مدت گزرنے سے پہلے یا ان کی طرف سے عہد شکنی سے پہلے اس کی گرہ کھولنی اور بند نہیں کرنی چاہیے“، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ واپس لوٹ گئے اور پتہ چلا کہ وہ شیخ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بشاهده، وهذا إسناد منقطع بين سليم بن عامر وبين عمرو بن عبسة
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن يعلى بن عطاء ، عن يزيد بن طلق ، عن عبد الرحمن بن البيلماني ، عن عمرو بن عبسة ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: يا رسول الله، من اسلم؟ قال: " حر وعبد" . قال: قال: فقلت: وهل من ساعة اقرب إلى الله تعالى من اخرى؟ قال: " جوف الليل الآخر، صل ما بدا لك حتى تصلي الصبح، ثم انهه حتى تطلع الشمس وما دامت كانها حجفة حتى تنتشر، ثم صل ما بدا لك، حتى يقوم العمود على ظله، ثم انهه حتى تزول الشمس، فإن جهنم تسجر لنصف النهار، ثم صل ما بدا لك حتى تصلي العصر، ثم انهه حتى تغرب الشمس، فإنها تغرب بين قرني شيطان، وتطلع بين قرني شيطان، فإن العبد إذا توضا فغسل يديه، خرت خطاياه من بين يديه، فإذا غسل وجهه، خرت خطاياه من وجهه، فإذا غسل ذراعيه ومسح براسه، خرت خطاياه من بين ذراعيه وراسه، وإذا غسل رجليه، خرت خطاياه من رجليه، فإذا قام إلى الصلاة وكان هو وقلبه ووجهه او كلمة نحو الوجه إلى الله عز وجل، انصرف كما ولدته امه" ، قال: فقيل له: آنت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: لو لم اسمعه مرة، او مرتين، او عشرا، او عشرين ما حدثت به.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ طَلْقٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْبَيْلَمَانِيِّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَسْلَمَ؟ قَالَ: " حُرٌّ وَعَبْدٌ" . قَالَ: قَالَ: فَقُلْتُ: وَهَلْ مِنْ سَاعَةٍ أَقْرَبُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى مِنْ أُخْرَى؟ قَالَ: " جَوْفُ اللَّيْلِ الْآخِرُ، صَلِّ مَا بَدَا لَكَ حَتَّى تُصَلِّيَ الصُّبْحَ، ثُمَّ انْهَهُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَمَا دَامَتْ كَأَنَّهَا حَجَفَةٌ حَتَّى تَنْتَشِرَ، ثُمَّ صَلِّ مَا بَدَا لَك، حَتَّى يَقُومَ الْعَمُودُ عَلَى ظِلِّهِ، ثُمَّ انْهَهُ حَتَّى تَزُولَ الشَّمْسُ، فَإِنَّ جَهَنَّمَ تُسْجَرُ لِنِصْفِ النَّهَارِ، ثُمَّ صَلِّ مَا بَدَا لَكَ حَتَّى تُصَلِّيَ الْعَصْرَ، ثُمَّ انْهَهُ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَإِنَّهَا تَغْرُبُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، وَتَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا تَوَضَّأَ فَغَسَلَ يَدَيْهِ، خَرَّتْ خَطَايَاهُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ، فَإِذَا غَسَلَ وَجْهَهُ، خَرَّتْ خَطَايَاهُ مِنْ وَجْهِهِ، فَإِذَا غَسَلَ ذِرَاعَيْهِ وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ، خَرَّتْ خَطَايَاهُ مِنْ بَيْنِ ذِرَاعَيْهِ وَرَأْسِهِ، وَإِذَا غَسَلَ رِجْلَيْهِ، خَرَّتْ خَطَايَاهُ مِنْ رِجْلَيْهِ، فَإِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ وَكَانَ هُوَ وَقَلْبُهُ وَوَجْهُهُ أَوْ كلمة نَحْوَ الْوَجْهِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، انْصَرَفَ كَمَا وَلَدَتْهُ أُمُّهُ" ، قَالَ: فَقِيلَ لَهُ: آنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ مَرَّةً، أَوْ مَرَّتَيْنِ، أَوْ عَشْرًا، أَوْ عِشْرِينَ مَا حَدَّثْتُ بِهِ.
حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ پر کون لوگ اسلام لائے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آزاد بھی اور غلام بھی“(حضرت ابوبکر اور حضرت بلال رضی اللہ عنہما) میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ نے آپ کو جو علم دیا ہے اس میں سے کچھ بھی سکھا دیجئے؟ کیا کوئی وقت زیادہ افضل ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کا آخری پہر سب سے زیادہ افضل ہے، اس وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور نماز قبول ہوتی ہے، جب تم فجر کی نماز پڑھ چکو تو طلوع آفتاب تک نوافل پڑھنے سے رک جاؤ جب سورج طلوع ہو جائے تب بھی اس وقت تک نہ پڑھو جب تک کہ سورج بلند نہ ہو جائے کیونکہ جب وہ طلوع ہوتا ہے تو شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے اور اسی وقت کفار اسے سجدہ کرتے ہیں البتہ جب وہ ایک یا دو نیزے کے برابر بلند ہو جائے تو پھر نماز پڑھ سکتے ہو کیونکہ یہ نماز فرشتوں کی حاضری والی ہوتی ہے یہاں تک کہ نیزے کا سایہ پیدا ہونے لگے تو نماز سے رک جاؤ کیونکہ اس وقت جہنم کو دہکایا جاتا ہے البتہ جب سایہ ڈھل جائے تو تم نماز پڑھ سکتے ہو کیونکہ اس نماز میں بھی فرشتے حاضر ہوتے ہیں یہاں تک کہ تم عصر کی نماز پڑھ لو نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک نوافل پڑھنے سے رک جاؤ کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اور اسے اس وقت کفار سجدہ کرتے ہیں انسان جب وضو کرتا ہے اور ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں جب چہرہ دھوتا ہے تو چہرے کے گناہ جھڑ جاتے ہیں جب بازو دھوتا ہے اور سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے بازو اور سر کے گناہ جھڑ جاتے ہیں جب پاؤں دھوتا ہے تو پاؤں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں اور جب دل اور چہرے کی مکمل توجہ کے ساتھ نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اس طرح واپس لوٹتا ہے کہ اس کی ماں نے اسے ابھی جنم دیا ہو“، کسی نے ان سے پوچھا کہ کیا واقعی آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دو نہیں, بیس مرتبہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا تو کبھی بیان نہ کرتا۔
حكم دارالسلام: ضعيف بهذه السياقة، وهذا إسناد مضطرب، يزيد بن طلق مجهول، وعبدالرحمن ابن البيلماني ضعيف
حدثنا عبد الرزاق ، قال: حدثنا معمر ، عن ايوب ، عن ابي قلابة ، عن عمرو بن عبسة ، قال: قال رجل: يا رسول الله، ما الإسلام؟ قال: " ان يسلم قلبك لله عز وجل، وان يسلم المسلمون من لسانك ويدك"، قال: فاي الإسلام افضل؟ قال:" الإيمان"، قال: وما الإيمان؟ قال:" تؤمن بالله، وملائكته، وكتبه، ورسله، والبعث بعد الموت"، قال: فاي الإيمان افضل؟ قال:" الهجرة"، قال: فما الهجرة؟ قال:" تهجر السوء"، قال: فاي الهجرة افضل؟ قال:" الجهاد"، قال: وما الجهاد؟ قال:" ان تقاتل الكفار إذا لقيتهم"، قال: فاي الجهاد افضل؟ قال:" من عقر جواده، واهريق دمه" . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ثم عملان هما افضل الاعمال إلا من عمل بمثلهما حجة مبرورة او عمرة" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ: " أَنْ يُسْلِمَ قَلْبُكَ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَنْ يَسْلَمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِكَ وَيَدِكَ"، قَالَ: فَأَيُّ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" الْإِيمَانُ"، قَالَ: وَمَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ:" تُؤْمِنُ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ"، قَالَ: فَأَيُّ الْإِيمَانِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" الْهِجْرَةُ"، قَالَ: فَمَا الْهِجْرَةُ؟ قَالَ:" تَهْجُرُ السُّوءَ"، قَالَ: فَأَيُّ الْهِجْرَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" الْجِهَادُ"، قَالَ: وَمَا الْجِهَادُ؟ قَالَ:" أَنْ تُقَاتِلَ الْكُفَّارَ إِذَا لَقِيتَهُمْ"، قَالَ: فَأَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" مَنْ عُقِرَ جَوَادُهُ، وَأُهْرِيقَ دَمُهُ" . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثُمَّ عَمَلَانِ هُمَا أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ إِلَّا مَنْ عَمِلَ بِمِثْلِهِمَا حَجَّةٌ مَبْرُورَةٌ أَوْ عُمْرَةٌ" .
حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اسلام کیا ہے؟ فرمایا:”تمہارا دل اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور مسلمان تمہاری زبان اور تمہارے ہاتھ سے محفوظ رہیں“، اس نے پوچھا: سب سے افضل اسلام کون سا ہے؟ فرمایا: ”ایمان!“ اس نے پوچھا: ایمان سے کیا مراد ہے؟ فرمایا کہ اللہ پر، اس کے فرشتوں، کتابوں، پیغمبروں اور مرنے کے بعد کی زندگی پر یقین رکھو، اس نے پوچھا کہ سب سے افضل ایمان کیا ہے؟ فرمایا: ”ہجرت“، اس نے پھر پوچھا کہ ہجرت سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: ”گناہ چھوڑ دو“، اس نے پوچھا: سب سے افضل ہجرت کیا ہے؟ فرمایا: ”جہاد“، اس نے پوچھا: جہاد سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: ”کفار سے آمنا سامنا ہونے پر قتال کرنا“، اس نے پوچھا کہ سب سے افضل جہاد کیا ہے؟ فرمایا: ”جس کے گھوڑے کے پاؤں کٹ جائیں اور اس شخص کا اپنا خون بہا دیا جائے“، پھر فرمایا: ”اس کے بعد دو عمل سب سے افضل ہیں الا یہ کہ کوئی شخص وہی عمل کرے ایک حج مقبول اور دوسرا عمرہ۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع بين أبى قلابة وبين عمرو ابن عبسة
حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے ساتھ اس دین پر اور کون لوگ ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آذاد بھی اور غلام بھی“، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی قوم میں واپس چلے جاؤ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو غلبہ عطاء فرما دے“، حضرت عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں نے وہ وقت دیکھا ہے جب میں چوتھائی اسلام تھا، (اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھا فرد)۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد فيه اضطراب، يزيد بن طلق مجهول، وعبدالرحمن بن البيلماني ضعيف