حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن منصور ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن مرة بن كعب او كعب بن مرة السلمي ، قال: شعبة، قال: قد حدثني به منصور، وذكر ثلاثة بينه وبين مرة بن كعب، ثم قال بعد: عن منصور، عن سالم، عن مرة، او عن كعب، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم اي الليل اسمع؟ قال: " جوف الليل الآخر، ثم قال: الصلاة مقبولة حتى تصلي الصبح، ثم لا صلاة حتى تطلع الشمس وتكون قيد رمح او رمحين، ثم الصلاة مقبولة حتى يقوم الظل قيام الرمح، ثم لا صلاة حتى تزول الشمس، ثم الصلاة مقبولة حتى تصلي العصر، ثم لا صلاة حتى تغيب الشمس. وإذا توضا العبد فغسل يديه، خرت خطاياه من بين يديه، فإذا غسل وجهه خرت خطاياه من وجهه، وإذا غسل ذراعيه خرت خطاياه من ذراعيه، وإذا غسل رجليه خرت خطاياه من رجليه. قال شعبة: ولم يذكر مسح الراس. وايما رجل اعتق رجلا مسلما، كان فكاكه من النار , يجزى بكل عضو من اعضائه عضوا من اعضائه، وايما رجل مسلم اعتق امراتين مسلمتين، كانتا فكاكه من النار، يجزى بكل عضوين من اعضائهما عضوا من اعضائه، وايما امراة مسلمة اعتقت امراة مسلمة، كانت فكاكها من النار، تجزى بكل عضو من اعضائها عضوا من اعضائها" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ مُرَّةَ بْنِ كَعْبٍ أَوْ كَعْبِ بْنِ مُرَّةَ السُّلَمِيِّ ، قَالَ: شُعْبَةُ، قَالَ: قَدْ حَدَّثَنِي بِهِ مَنْصُورٌ، وَذَكَرَ ثَلَاثَةً بَيْنَهُ وَبَيْنَ مُرَّةَ بْنِ كَعْبٍ، ثُمَّ قَالَ بَعْدُ: عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ مُرَّةَ، أَوْ عَنْ كَعْبٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ اللَّيْلِ أَسْمَعُ؟ قَالَ: " جَوْفُ اللَّيْلِ الْآخِرِ، ثُمَّ قَالَ: الصَّلَاةُ مَقْبُولَةٌ حَتَّى تُصَلِّيَ الصُّبْحَ، ثُمَّ لَا صَلَاةَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَتَكُونَ قِيدَ رُمْحٍ أَوْ رُمْحَيْنِ، ثُمَّ الصَّلَاةُ مَقْبُولَةٌ حَتَّى يَقُومَ الظِّلُّ قِيَامَ الرُّمْحِ، ثُمَّ لَا صَلَاةَ حَتَّى تَزُولَ الشَّمْسُ، ثُمَّ الصَّلَاةُ مَقْبُولَةٌ حَتَّى تُصَلِّيَ الْعَصْرَ، ثُمَّ لَا صَلَاةَ حَتَّى تَغِيبَ الشَّمْسُ. وَإِذَا تَوَضَّأَ الْعَبْدُ فَغَسَلَ يَدَيْهِ، خَرَّتْ خَطَايَاهُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ، فَإِذَا غَسَلَ وَجْهَهُ خَرَّتْ خَطَايَاهُ مِنْ وَجْهِهِ، وَإِذَا غَسَلَ ذِرَاعَيْهِ خَرَّتْ خَطَايَاهُ مِنْ ذِرَاعَيْهِ، وَإِذَا غَسَلَ رِجْلَيْهِ خَرَّتْ خَطَايَاهُ مِنْ رِجْلَيْهِ. قَالَ شُعْبَةُ: وَلَمْ يَذْكُرْ مَسْحَ الرَّأْسِ. وَأَيُّمَا رَجُلٍ أَعْتَقَ رَجُلًا مُسْلِمًا، كَانَ فِكَاكَهُ مِنَ النَّارِ , يُجْزَى بِكُلِّ عُضْوٍ مِنْ أَعْضَائِهِ عُضْوًا مِنْ أَعْضَائِهِ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ مُسْلِمٍ أَعْتَقَ امْرَأَتَيْنِ مُسْلِمَتَيْنِ، كَانَتَا فِكَاكَهُ مِنَ النَّارِ، يُجْزَى بِكُلِّ عُضْوَيْنِ مِنْ أَعْضَائِهِمَا عُضْوًا مِنْ أَعْضَائِهِ، وَأَيُّمَا امْرَأَةٍ مُسْلِمَةٍ أَعْتَقَتْ امْرَأَةً مُسْلِمَةً، كَانَتْ فِكَاكَهَا مِنَ النَّارِ، تُجْزَى بِكُلِّ عُضْوٍ مِنْ أَعْضَائِهَا عُضْوًا مِنْ أَعْضَائِهَا" .
حضرت کعب بن مرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ رات کے کس حصے میں کی جانے والی دعاء زیادہ قبول ہوتی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رات کے آخری پہر میں۔
پھر فرمایا نماز قبول ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ تم فجر کی نماز پڑھ لو، پھر طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہیں ہے یہاں تک کہ سورج ایک دو نیزے کے برابر آجائے، پھر نماز قبول ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ سورج کا سایہ ایک نیزے کے برابر ہوجائے، اس کے بعد زوال تک کوئی نماز نہیں ہے، پھر نماز قبول ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ تم عصر کی نماز پڑھ لو، پھر غروب آفتاب تک کوئی نماز نہیں ہے۔
اور جب کوئی شخص وضو کرتا ہے اور ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں، جب چہرہ دھوتا ہے تو چہرے کے گناہ جھڑ جاتے ہیں، جب بازوؤں کو دھوتا ہے تو ان کے گناہ جھڑ جاتے ہیں اور جب پاؤں دھوتا ہے تو پاؤں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں، شعبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ راوی نے مسح سر کا ذکر نہیں کیا۔
جو شخص کسی مسلمان کو آزاد کرتا ہے وہ اس کے لئے جہنم سے رہائی کا ذریعہ بن جاتا ہے اور غلام کے ہر عضو کے بدلے میں آزاد کرنے والے کا ہر عضو آزاد کردیا جاتا ہے اور جو شخص دو مسلمان عورتوں کو آزاد کرتا ہے، وہ دونوں جہنم سے اس کی رہائی کا ذریعہ بن جاتی ہیں اور ان کے ہر عضو کے بدلے آزاد کرنے والے کا ہر عضو جہنم سے آزاد کردیا جاتا ہے اور جو عورت کسی مسلمان عورت کو آزاد کرے تو وہ اس کے لئے جہنم سے رہائی کا ذریعہ بن جاتی ہے اور باندی کے ہر عضو کے بدلے میں اس کا ہر عضو جہنم سے آزاد کردیا جاتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: «أيما رجل مسلم أعتق امرأتين مسلمتين…..من أعضائه» ، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، سالم بن أبى الجعد لم يسمع من كعب بن مرة
حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، حدثنا ايوب ، عن ابي قلابة ، قال: لما قتل عثمان رضي الله عنه، قام خطباء بإيلياء، فقام من آخرهم رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، يقال له: مرة بن كعب ، فقال: لولا حديث سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم ما قمت، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر فتنة، واحسبه قال: فقربها، شك إسماعيل فمر رجل متقنع، فقال: " هذا واصحابه يومئذ على الحق". فانطلقت فاخذت بمنكبه، واقبلت بوجهه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: هذا؟ قال:" نعم"، قال: فإذا هو عثمان رضي الله تعالى عنه .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، قَالَ: لَمَّا قُتِلَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَامَ خُطَبَاءُ بِإِيلِيَاءَ، فَقَامَ مِنْ آخِرِهِمْ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُقَالُ لَهُ: مُرَّةُ بْنُ كَعْبٍ ، فَقَالَ: لَوْلَا حَدِيثٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قُمْتُ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ فِتْنَةً، وَأَحْسَبُهُ قَالَ: فَقَرَّبَهَا، شَكَّ إِسْمَاعِيلُ فَمَرَّ رَجُلٌ مُتَقَنِّعٌ، فَقَالَ: " هَذَا وَأَصْحَابُهُ يَوْمَئِذٍ عَلَى الْحَقِّ". فَانْطَلَقْتُ فَأَخَذْتُ بِمَنْكِبِهِ، وَأَقْبَلْتُ بِوَجْهِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: هَذَا؟ قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ: فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ .
ابو قلابہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا تو ایلیاء میں کئی خطباء کھڑے ہوگئے، ان کے آخر میں مرہ بن کعب نامی ایک صحابی کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ اگر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث نہ سنی ہوتی تو کبھی کھڑا نہ ہوتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فتنہ کا ذکر فرمایا: اسی دوران وہاں سے ایک نقاب پوش آدمی گذرا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ اس دن یہ اور اس کے ساتھی حق پر ہوں گے، میں اس کے پیچھے چلا گیا، اس کا مونڈھا پکڑا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کا رخ کر کے پوچھا یہ آدمی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! دیکھا تو وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، أبو قلابة لم يسمع من مرة بن كعب
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن شرحبيل بن السمط ، قال: قال رجل لكعب بن مرة او مرة بن كعب حدثنا حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم لله ابوك واحذر. قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ايما رجل اعتق رجلا مسلما، كان فكاكه من النار، يجزى بكل عظم من عظامه عظما من عظامه، وايما رجل مسلم اعتق امراتين مسلمتين، كانتا فكاكه من النار، يجزى بكل عظمين من عظامهما عظما من عظامه، وايما امراة مسلمة اعتقت امراة مسلمة، كانت فكاكها من النار تجزى بكل عظم من عظامها عظما من عظامها" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ السِّمْطِ ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِكَعْبِ بْنِ مُرَّةَ أَوْ مُرَّةَ بْنِ كَعْبٍ حَدِّثْنَا حَدِيثًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلَّهِ أَبُوكَ وَاحْذَرْ. قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " أَيُّمَا رَجُلٍ أَعْتَقَ رَجُلًا مُسْلِمًا، كَانَ فِكَاكَهُ مِنَ النَّارِ، يُجْزَى بِكُلِّ عَظْمٍ مِنْ عِظَامِهِ عَظْمًا مِنْ عِظَامِهِ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ مُسْلِمٍ أَعْتَقَ امْرَأَتَيْنِ مُسْلِمَتَيْنِ، كَانَتَا فِكَاكَهُ مِنَ النَّارِ، يُجْزَى بِكُلِّ عَظْمَيْنِ مِنْ عِظَامِهِمَا عَظْمًا مِنْ عِظَامِهِ، وَأَيُّمَا امْرَأَةٍ مُسْلِمَةٍ أَعْتَقَتْ امْرَأَةً مُسْلِمَةً، كَانَتْ فِكَاكَهَا مِنَ النَّارِ تُجْزَى بِكُلِّ عَظْمٍ مِنْ عِظَامِهَا عَظْمًا مِنْ عِظَامِهَا" .
حضرت کعب بن مرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو آزاد کرتا ہے وہ اس کے لئے جہنم سے رہائی کا ذریعہ بن جاتا ہے اور غلام کے ہر عضو کے بدلے میں آزاد کرنے والے کا ہر عضو آزاد کردیا جاتا ہے اور جو شخص دو مسلمان عورتوں کو آزاد کرتا ہے، وہ دونوں جہنم سے اس کی رہائی کا ذریعہ بن جاتی ہیں اور ان کے ہر عضو کے بدلے آزاد کرنے والے کا ہر عضو جہنم سے آزاد کردیا جاتا ہے اور جو عورت کسی مسلمان عورت کو آزاد کرے تو وہ اس کے لئے جہنم سے رہائی کا ذریعہ بن جاتی ہے اور باندی کے ہر عضو کے بدلے میں اس کا ہر عضو جہنم سے آزاد کردیا جاتا ہے۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ مضر کے خلاف بددعا فرمائی، میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدد کی، آپ کو عطاء فرمایا: آپ کی دعاء قبول فرمائی، آپ کی قوم ہلاک ہو رہی ہے، ان کے حق میں اللہ سے دعاء کر دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ پھیرلیا، میں نے پھر اپنی بات دہرائی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! ہمیں خوب برسنے والی بارش سے سیراب فرمایا جو زمین کو پانی سے بھر دے، خوب برسنے والی ہو، دیر سے نہ برسے، نفع بخش ہو، زخمت نہ بنے، اس دعاء کے بعد نماز جمعہ نہیں ہونے پائی تھی کہ بارش شروع ہوگئی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه ، سالم بن أبى الجعد لم يسمع من شرحبيل
قال: ودعا رسول الله صلى الله عليه وسلم على مضر، قال: فاتيته، فقلت: يا رسول الله، إن الله عز وجل قد نصرك واعطاك واستجاب لك، وإن قومك قد هلكوا، فادع الله لهم. فاعرض عنه، قال: فقلت له: يا رسول الله، إن الله عز وجل قد نصرك واعطاك واستجاب لك، وإن قومك قد هلكوا، فادع الله لهم. فقال: " اللهم اسقنا غيثا مغيثا، مريعا طبقا غدقا غير رائث، نافعا غير ضار" فما كانت إلا جمعة او نحوها حتى مطروا . قال شعبة: في الدعاء كلمة سمعتها من حبيب بن ابي ثابت، عن سالم في الاستسقاء , وفي حديث حبيب، او عمرو، عن سالم، قال: جئتك من عند قوم ما يخطر لهم فحل، ولا يتزود لهم راع.قَالَ: وَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مُضَرَ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ نَصَرَكَ وَأَعْطَاكَ وَاسْتَجَابَ لَكَ، وَإِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا، فَادْعُ اللَّهَ لَهُمْ. فَأَعْرَضَ عَنْهُ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ نَصَرَكَ وَأَعْطَاكَ وَاسْتَجَابَ لَكَ، وَإِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا، فَادْعُ اللَّهَ لَهُمْ. فَقَالَ: " اللَّهُمَّ اسْقِنَا غَيْثًا مُغِيثًا، مَرِيعًا طَبَقًا غَدَقًا غَيْرَ رَائِثٍ، نَافِعًا غَيْرَ ضَارٍّ" فَمَا كَانَتْ إِلَّا جُمُعَةً أَوْ نَحْوَهَا حَتَّى مُطِرُوا . قَالَ شُعْبَةُ: فِي الدُّعَاءِ كَلِمَةٌ سَمِعْتُهَا مِنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ سَالِمٍ فِي الِاسْتِسْقَاءِ , وَفِي حَدِيث حَبِيبٍ، أَوْ عَمْرٍو، عَنْ سَالِمٍ، قَالَ: جِئْتُكَ مِنْ عِنْدِ قَوْمٍ مَا يَخْطِرُ لَهُمْ فَحْلٌ، وَلَا يُتَزَوَّدُ لَهُمْ رَاعٍ.
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، سالم بن أبى الجعد لم يسمع من شرحبيل بن السمط
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن عمرو بن مرة ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن شرحبيل بن السمط ، قال: قال لكعب بن مرة : يا كعب بن مرة حدثنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم واحذر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ارموا اهل صنع، من بلغ العدو بسهم، رفعه الله به درجة". قال: فقال عبد الرحمن بن ابي النحام: يا رسول الله، وما الدرجة؟ قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما إنها ليست بعتبة امك، ولكنها بين الدرجتين مئة عام" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ السِّمْطِ ، قَالَ: قَالَ لِكَعْبِ بْنِ مُرَّةَ : يَا كَعْبُ بْنَ مُرَّةَ حَدِّثْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاحْذَرْ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " ارْمُوا أَهْلَ صِنْعٍ، مَنْ بَلَغَ الْعَدُوَّ بِسَهْمٍ، رَفَعَهُ اللَّهُ بِهِ دَرَجَةً". قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي النَّحَّامِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الدَّرَجَةُ؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَا إِنَّهَا لَيْسَتْ بِعَتَبَةِ أُمِّكَ، وَلَكِنَّهَا بَيْنَ الدَّرَجَتَيْنِ مِئَةُ عَامٍ" .
شرحبیل بن سمط رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت کعب بن مرہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ اے کعب بن مروہ! ہمیں احتیاط سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث سنائیے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اے اہل صنع! تیر اندازی کیا کرو، جس شخص کا تیر دشمن کو لگ جائے، اللہ اس کا ایک درجہ بلند فرما دیتا ہے، عبدالرحمن بن ابی النحام نے پوچھا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم درجہ سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری والدہ کے گھر کی چوکھٹ جتنا چھوٹا درجہ مراد نہیں ہے، جنت کے دو درجوں کے درمیان سو سال کا فاصلہ ہوگا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه بين سالم وشرحبيل
قال: يا كعب بن مرة، حدثنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم واحذر. قال: قال: يا كعب بن مرة، حدثنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم واحذر. قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من اعتق امرا مسلما، كان فكاكه من النار، يجزى بكل عظم منه عظما منه، ومن اعتق امراتين مسلمتين، كانتا فكاكه من النار، يجزى بكل عظمين منهما عظما منه، ومن شاب شيبة في سبيل الله، كانت له نورا يوم القيامة" .قَالَ: يَا كَعْبُ بْنَ مُرَّةَ، حَدِّثْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاحْذَرْ. قَالَ: قَالَ: يَا كَعْبُ بْنَ مُرَّةَ، حَدِّثْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاحْذَرْ. قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ أَعْتَقَ امْرَأً مُسْلِمًا، كَانَ فِكَاكَهُ مِنَ النَّارِ، يُجْزَى بِكُلِّ عَظْمٍ مِنْهُ عَظْمًا مِنْهُ، وَمَنْ أَعْتَقَ امْرَأَتَيْنِ مُسْلِمَتَيْنِ، كَانَتَا فِكَاكَهُ مِنَ النَّارِ، يُجْزَى بِكُلِّ عَظْمَيْنِ مِنْهُمَا عَظْمًا مِنْهُ، وَمَنْ شَابَ شَيْبَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، كَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ" .
انہوں نے پھر عرض کیا کہ اے کعب بن مرہ! ہمیں احتیاط سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث سنائیے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو آزاد کرتا ہے وہ اس کے لئے جہنم سے رہائی کا ذریعہ بن جاتا ہے اور غلام کے ہر عضو کے بدلے میں آزاد کرنے والے کا ہر عضو آزاد کردیا جاتا ہے اور جو شخص دو مسلمان عورتوں کو آزاد کرتا ہے، وہ دونوں جہنم سے اس کی رہائی کا ذریعہ بن جاتی ہیں اور ان کے ہر عضو کے بدلے آزاد کرانے والے کا ہر عضو جہنم سے آزاد کردیا جاتا ہے۔
اور شخص اللہ کی راہ میں بوڑھا ہو، اس کے بالوں کی وہ سفیدی قیامت کے دن روشنی کا سبب ہوگی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: ومن أعتق امرأتين مسلمتين…..، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، سالم لم يسمع من شرحبيل
قال: يا كعب بن مرة، حدثنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم واحذر، قال: قال: يا كعب بن مرة، حدثنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم واحذر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من رمى بسهم في سبيل الله عز وجل، كان كمن اعتق رقبة" .قَالَ: يَا كَعْبُ بْنَ مُرَّةَ، حَدِّثْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاحْذَرْ، قَالَ: قَالَ: يَا كَعْبُ بْنَ مُرَّةَ، حَدِّثْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاحْذَرْ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، كَانَ كَمَنْ أَعْتَقَ رَقَبَةً" .
شرحبیل رحمہ اللہ نے کہا اے کعب بن مر! ہمیں احتیاط سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث سنائیے، انہوں نے جواب دیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں ایک تیر چلاتا ہے، تو یہ ایسے ہے جیسے اس نے ایک غلام کو آزاد کردیا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، سالم لم يسمع من شرحبيل
وقال: وقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول، وجاءه رجل، فقال: استسق الله لمضر، قال: فقال:" إنك لجريء، المضر؟" قال: يا رسول الله، استنصرت الله عز وجل فنصرك، ودعوت الله عز وجل فاجابك. قال: فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يديه، يقول: " اللهم اسقنا غيثا مغيثا، مريعا مريئا، طبقا غدقا، عاجلا غير رائث، نافعا غير ضار". قال: فاحيوا. قال: فما لبثوا ان اتوه، فشكوا إليه كثرة المطر، فقالوا: قد تهدمت البيوت. قال: فرفع يديه وقال:" اللهم حوالينا ولا علينا" قال: فجعل السحاب يتقطع يمينا وشمالا .وَقَالَ: وَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ، وَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: اسْتَسْقِ اللَّهَ لِمُضَرَ، قَالَ: فَقَالَ:" إِنَّكَ لَجَرِيءٌ، أَلِمُضَرَ؟" قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَنْصَرْتَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَنَصَرَكَ، وَدَعَوْتَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَأَجَابَكَ. قَالَ: فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ، يَقُولُ: " اللَّهُمَّ اسْقِنَا غَيْثًا مُغِيثًا، مَرِيعًا مَرِيئًا، طَبَقًا غَدَقًا، عَاجِلًا غَيْرَ رَائِثٍ، نَافِعًا غَيْرَ ضَارٍّ". قَالَ: فَأُحْيُوا. قَالَ: فَمَا لَبِثُوا أَنْ أَتَوْهُ، فَشَكَوْا إِلَيْهِ كَثْرَةَ الْمَطَرِ، فَقَالُوا: قَدْ تَهَدَّمَتْ الْبُيُوتُ. قَالَ: فَرَفَعَ يَدَيْهِ وَقَالَ:" اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا" قَالَ: فَجَعَلَ السَّحَابُ يَتَقَطَّعُ يَمِينًا وَشِمَالًا .
اور ایک آدمی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ قبیلہ مضر کے لئے اللہ سے بارش کی دعاء کر دیجئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم بڑے جری ہو، کیا مضر والوں کے لئے دعا کروں؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدد کی، آپ کو عطاء فرمایا: آپ کی دعاء قبول فرمائی، (آپ کی قوم ہلاک ہو رہی ہے، ان کے حق میں اللہ سے دعاء کر دیجئے) تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر فرمایا اے اللہ! ہمیں خوب برسنے والی بارش سے سیراب فرما جو زمین کو پانی سے بھر دے، خوب برسنے والی ہو، دیر سے نہ برسے، نفع بخش ہو، زحمت نہ بنے، اس دعاء کے بعد نماز جمعہ نہیں ہونے پائی تھی، کہ بارش شروع ہوگئی، کچھ عرصے بعد وہ لوگ بارش کی کثرت کی شکایت لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ گھر منہدم ہوگئے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک بلند کئے اور فرمایا اے اللہ! ہمارے ارد گرد بارش برسا، ہمارے اوپر نہ برسا، چنانچہ بادل دائیں بائیں بکھر گئے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، سالم بن أبى الجعد لم يسمع من شرحبيل
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا معاوية ، عن سليم بن عامر ، عن جبير بن نفير ، قال: كنا معسكرين مع معاوية بعد قتل عثمان رضي الله عنه، فقام كعب بن مرة البهزي ، فقال: لولا شيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم ما قمت هذا المقام، فلما سمع بذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم اجلس الناس، فقال: بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ مر عثمان بن عفان رضي الله تعالى عنه مرجلا، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لتخرجن فتنة من تحت قدمي او من بين رجلي، هذا يومئذ ومن اتبعه على الهدى" . قال: فقام ابن حوالة الازدي من عند المنبر، فقال: إنك لصاحب هذا؟ قال: نعم. قال: والله إني لحاضر ذلك المجلس، ولو علمت ان لي في الجيش مصدقا، كنت اول من تكلم به.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، قَالَ: كُنَّا مُعَسْكِرِينَ مَعَ مُعَاوِيَةَ بَعْدَ قَتْلِ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَامَ كَعْبُ بْنُ مُرَّةَ الْبَهْزِيُّ ، فَقَالَ: لَوْلَا شَيْءٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قُمْتُ هَذَا الْمَقَامَ، فَلَمَّا سَمِعَ بِذِكْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْلَسَ النَّاسَ، فَقَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ مَرَّ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ مُرَجِّلًا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَتَخْرُجَنَّ فِتْنَةٌ مِنْ تَحْتِ قَدَمَيْ أَوْ مِنْ بَيْنِ رِجْلَيْ، هَذَا يَوْمَئِذٍ وَمَنْ اتَّبَعَهُ عَلَى الْهُدَى" . قَالَ: فَقَامَ ابْنُ حَوَالَةَ الْأَزْدِيُّ مِنْ عِنْدِ الْمِنْبَرِ، فَقَالَ: إِنَّكَ لَصَاحِبُ هَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَحَاضِرٌ ذَلِكَ الْمَجْلِسَ، وَلَوْ عَلِمْتُ أَنَّ لِي فِي الْجَيْشِ مُصَدِّقًا، كُنْتُ أَوَّلَ مَنْ تَكَلَّمَ بِهِ.
ابوقلابہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا تو ایلیاء میں کئی خطباء کھڑے ہوگئے، ان کے آخر میں مرہ بن کعب نامی ایک صحابی کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ اگر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث نہ سنی ہوتی تو کبھی کھڑا نہ ہوتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فتنہ کا ذکر فرمایا: اسی دوران وہاں سے ایک نقاب پوش آدمی گذرا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ اس دن یہ اور اس کے ساتھی حق پر ہوں گے، میں اس کے پیچھے چلا گیا، اس کا مونڈھا پکڑا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کا رخ کر کے پوچھا یہ آدمی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! دیکھا تو وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ تھے۔
حدثنا محمد بن بكر يعني البرساني ، اخبرنا وهيب بن خالد ، حدثنا ايوب ، عن ابي قلابة ، عن ابي الاشعث ، قال: قامت خطباء بإيلياء في إمارة معاوية رضي الله تعالى عنه فتكلموا، وكان آخر من تكلم مرة بن كعب ، فقال: لولا حديث سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم ما قمت، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر فتنة، فقربها، فمر رجل متقنع. فقال: " هذا يومئذ واصحابه على الحق والهدى". فقلت: هذا يا رسول الله؟ واقبلت بوجهه إليه، فقال:" هذا". فإذا هو عثمان رضي الله عنه .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ يَعْنِي البُرْسَانِيَّ ، أَخْبَرَنَا وُهَيْبُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ ، قَالَ: قَامَتْ خُطَبَاءُ بِإِيلِيَاءَ فِي إِمَارَةِ مُعَاوِيَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ فَتَكَلَّمُوا، وَكَانَ آخِرَ مَنْ تَكَلَّمَ مُرَّةُ بْنُ كَعْبٍ ، فَقَالَ: لَوْلَا حَدِيثٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قُمْتُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ فِتْنَةً، فَقَرَّبَهَا، فَمَرَّ رَجُلٌ مُتَقَنَّعٌ. فَقَالَ: " هَذَا يَوْمَئِذٍ وَأَصْحَابُهُ عَلَى الْحَقِّ وَالْهُدَى". فَقُلْتُ: هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ وَأَقْبَلْتُ بِوَجْهِهِ إِلَيْهِ، فَقَالَ:" هَذَا". فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ .
ابوقلابہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا تو ایلیاء میں کئی خطباء کھڑے ہوگئے، ان کے آخر میں مرہ بن کعب نامی ایک صحابی کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ اگر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث نہ سنی ہوتی تو کبھی کھڑا نہ ہوتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فتنہ کا ذکر فرمایا: اسی دوران وہاں سے ایک نقاب پوش آدمی گذرا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ اس دن یہ اور اس کے ساتھی حق پر ہوں گے، میں اس کے پیچھے چلا گیا، اس کا مونڈھا پکڑا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کا رخ کر کے پوچھا یہ آدمی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! دیکھا تو وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ تھے۔