مسنَد الشَّامِیِّینَ 500. حَدِیث اَبِی رِمثَةَ التَّیمِیِّ وَیقَال: التَّمِیمِیِّ رَضِیَ اللَّه تَعَالَى عَنه
حضرت ابو رمثہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا یہ تمہارا بیٹا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! میں اس کی گواہی دیتا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے کسی جرم کا ذمہ دار تمہیں یا تمہارے کسی جرم کا ذمہ دار اسے نہیں بنایا جائے گا، راوی کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سرخ وسفید بال دیکھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، رجاله ثقات، لكن فى هذه الرواية: أن أبا رمثة جاء إلى النبى صلى الله عليه وسلم مع ابنه، والصواب: أنه جاء مع أبيه
حضرت ابو رمثہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں اپنے والد کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک پشت پر انہوں نے جب مہر نبوت دیکھی تو کہنے لگے یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں آپ کا علاج نہ کروں؟ کہ میں طبیب ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم تو رفیق ہو، طبیب، اللہ ہے، پھر فرمایا یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے بتایا کہ میرا بیٹا ہے اور میں اس پر گواہ ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یاد رکھو! یہ تمہارے کسی جرم کا اور تم اس کے کسی جرم کے ذمہ دار نہیں ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حضرت ابورمثہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں اپنے والد کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر مہندی کا اثر دیکھا اور کندھے پر کبوتری کے انڈے کے برابر مہر نبوت دیکھی تو میرے والد کہنے لگے یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں آپ کا علاج نہ کروں کہ میں طبیب ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کا طبیب اللہ ہے، جس نے اسے بنایا ہے، پھر فرمایا یہ تمہارے ساتھ تمہارا بیٹا ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یاد رکھو! یہ تمہارے کسی جرم کا اور تم اس کے کسی جرم کے ذمہ دار نہیں ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حضرت ابو رمثہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے والد کے ساتھ حاضر ہوا، ہم نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سبز چادریں زیب تن فرما رکھی ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حضرت ابورمثہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دیتے ہوئے فرما رہے تھے کہ دینے والے کا ہاتھ اوپر ہوتا ہے، اپنی والدہ، والد، بہن بھائی اور درجہ بدرجہ قریبی رشتہ داروں کو دیتے رہا کرو، اسی اثناء میں بنو ثعلبہ بن یربوع کے کچھ لوگ آگئے، جنہیں دیکھ کر ایک انصاری کہنے لگا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ وہی یربوعی لوگ ہیں جنہوں نے فلاں آدمی کو قتل کیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا یاد رکھو! کسی شخص کے جرم کا ذمہ دار کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، المسعودي مختلط، وسماع البصريين من قبل اختلاطه
حضرت ابورمثہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے والد کے ساتھ حاضر ہوا، ہم نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سبز چادریں زیب تن فرما رکھی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال گھنے اور سر پر مہندی کا اثر تھا، میرے والد نے پوچھا کیا تم انہیں جانتے ہو؟ میں نے کہا نہیں، انہوں نے بتایا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف قيس بن الربيع
حضرت ابورمثہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مہندی اور وسمہ سے خضاب لگاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک کندھوں تک آتے تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف الضحاك
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حضرت ابورمثہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا یہ تمہارا بیٹا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں (میں اس کی گواہی دیتا ہوں) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے کسی جرم کا ذمہ دار تمہیں یا تمہارے کسی جرم کا ذمہ دار اسے نہیں بنایا جائے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، لكن الصواب: أن أبا رمثة جاء مع أبيه لا ابنه
حضرت ابورمثہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مہندی اور وسمہ سے خضاب لگاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک کندھوں تک آتے تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف الضحاك
|