حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا موسى بن علي ، عن ابيه ، قال: سمعت عمرو بن العاص ، يقول: بعث إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " خذ عليك ثيابك وسلاحك، ثم ائتني". فاتيته وهو يتوضا، فصعد في النظر ثم طاطاه، فقال:" إني اريد ان ابعثك على جيش فيسلمك الله ويغنمك، وازغب لك من المال زغبة صالحة". قال: قلت: يا رسول الله، ما اسلمت من اجل المال، ولكني اسلمت رغبة في الإسلام، وان اكون مع رسول الله صلى الله عليه وسلم. فقال: يا عمرو، نعما بالمال الصالح للمرء الصالح" . حدثنا عبد الله بن يزيد ، قال: حدثنا موسى ، سمعت ابي ، يقول: سمعت عمرو بن العاص ، يقول: فذكره، وقال: صعد في البصر.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ ، يَقُولُ: بَعَثَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " خُذْ عَلَيْكَ ثِيَابَكَ وَسِلَاحَكَ، ثُمَّ ائْتِنِي". فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ يَتَوَضَّأُ، فَصَعَّدَ فِيَّ النَّظَرَ ثُمَّ طَأْطَأَهُ، فَقَالَ:" إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَبْعَثَكَ عَلَى جَيْشٍ فَيُسَلِّمَكَ اللَّهُ وَيُغْنِمَكَ، وَأَزْغَبُ لَكَ مِنَ الْمَالِ زَغْبَةً صَالِحَةً". قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَسْلَمْتُ مِنْ أَجْلِ الْمَالِ، وَلَكِنِّي أَسْلَمْتُ رَغْبَةً فِي الْإِسْلَامِ، وَأَنْ أَكُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقَالَ: يَا عَمْرُو، نِعِمَّا بِالْمَالُ الصَّالِحُ لِلْمَرْءِ الصَّالِحِ" . حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى ، سَمِعْتُ أَبِي ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ ، يَقُولُ: فَذَكَرَهُ، وَقَالَ: صَعَّدَ فِيَّ البَصَرَ.
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس پیغام بھیجا کہ اپنے کپڑے اور اسلحہ زیب تن کر کے میرے پاس آؤ، میں جس وقت حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرما رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھے نیچے سے اوپر تک دیکھا پھر نظریں جھکا کر فرمایا میرا ارادہ ہے کہ تمہیں ایک لشکر کا امیر بنا کر روانہ کروں، اللہ تمہیں صحیح سالم اور مال غنیمت کے ساتھ واپس لائے گا اور میں تمہارے لئے مال کی اچھی رغبت رکھتا ہوں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم میں نے مال و دولت کی خاطر اسلام قبول نہیں کیا، میں نے دلی رغبت کے ساتھ اسلام قبول کیا ہے اور اس مقصد کے لئے کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت حاصل ہوجائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیک آدمی کے لئے حلال مال کیا ہی خوب ہوتا ہے۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا محمد بن جعفر ، وحجاج ، قالا: حدثنا شعبة ، عن عمرو بن دينار ، عن رجل من اهل مصر يحدث، عن عمرو بن العاص انه، قال: اسر محمد بن ابي بكر، فابى قال: فجعل عمرو يساله يعجبه ان يدعي امانا، قال: فقال عمرو: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يجير على المسلمين ادناهم" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَحَجَّاجٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ مِصْرَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّهُ، قَالَ: أُسِرَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، فَأَبَى قَالَ: فَجَعَلَ عَمْرٌو يَسْأَلُهُ يُعْجِبُهُ أَنْ يَدَّعِيَ أَمَانًا، قَالَ: فَقَالَ عَمْرٌو: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُجِيرُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ أَدْنَاهُمْ" .
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ محمد بن ابی بکر قیدی بنا کر لائے گئے، عمرو نے ان سے سوالات پوچھنا شروع کردیئے، ان کی خواہش تھی کہ وہ ان سے امان طلب کریں، چنانچہ وہ کہنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے تمام مسلمانوں کے سامنے ایک ادنیٰ مسلمان بھی کسی کو پناہ دے سکتا ہے (اور پھر اس کی حفاظت تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہوگی)۔
حكم دارالسلام: المرفوع منه صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة الرجل المصري
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ کچھ لوگوں کو ہدایا اور تحائف بھیجے، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو سب سے زیادہ بڑھا کر پیش کیا، کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے عمار کو ایک باغی گروہ قتل کر دے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة الرجل المصري
حدثنا بهز ، حدثنا شعبة ، قال: اخبرني الحكم ، قال: سمعت ذكوان ابا صالح يحدث، عن مولى لعمرو بن العاص، ان عمرو بن العاص ارسله إلى علي يستاذنه على امراته اسماء بنت عميس، فاذن له، فتكلما في حاجة، فلما خرج ساله المولى عن ذلك، فقال عمرو :" نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نستاذن على النساء إلا بإذن ازواجهن" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْحَكَمُ ، قَالَ: سَمِعْتُ ذَكْوَانَ أَبَا صَالِحٍ يُحَدِّثُ، عَنْ مَوْلًى لِعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ أَرْسَلَهُ إِلَى عَلِيٍّ يَسْتَأْذِنُهُ عَلَى امْرَأَتِهِ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ، فَأَذِنَ لَهُ، فَتَكَلَّمَا فِي حَاجَةٍ، فَلَمَّا خَرَجَ سَأَلَهُ الْمَوْلَى عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ عَمْرٌو :" نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَأْذِنَ عَلَى النِّسَاءِ إِلَّا بِإِذْنِ أَزْوَاجِهِنَّ" .
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنے غلام کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی زوجہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ سے ملنے کی اجازت لینے کے لئے بھیجا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں اجازت دے دی، انہوں نے کسی معاملے میں ان سے بات چیت کی اور واپس آگئے، باہر نکل کر غلام نے ان سے اجازت لینے کی وجہ پوچھی تو حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس بات سے منع فرمایا ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر عورتوں کے پاس نہ جائیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه وشواهده، مولي عمرو بن العاص لم يبين
حدثنا روح ، حدثنا مالك ، عن يزيد بن عبد الله بن الهاد ، عن ابي مرة مولى ام هانئ، انه دخل مع عبد الله بن عمرو على ابيه عمرو بن العاص ، فقرب إليهما طعاما، فقال: كل. قال: إني صائم. قال عمرو: كل، فهذه الايام التي" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يامرنا بفطرها، وينهى عن صيامها" . قال مالك: وهي ايام التشريق.حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ ، عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَى أُمِّ هَانِئٍ، أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَلَى أَبِيهِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، فَقَرَّبَ إِلَيْهِمَا طَعَامًا، فَقَالَ: كُلْ. قَالَ: إِنِّي صَائِمٌ. قَالَ عَمْرٌو: كُلْ، فَهَذِهِ الْأَيَّامُ الَّتِي" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُنَا بِفِطْرِهَا، وَيَنْهَى عَنْ صِيَامِهَا" . قَالَ مَالِكٌ: وَهِيَ أَيَّامُ التَّشْرِيقِ.
ابو مرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے والد حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے یہاں آئے، انہوں نے دونوں کے سامنے کھانا لا کر رکھا اور فرمایا کھائیے، انہوں نے کہا کہ میں روزے سے ہوں، حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا کھاؤ، کہ ان ایام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کھانے پینے کا حکم دیتے تھے اور روزہ رکھنے سے منع فرماتے تھے، مراد ایام تشریق ہیں۔
حدثنا روح ، حدثنا ابن جريج ، اخبرني سعيد بن كثير ، ان جعفر بن المطلب اخبره، ان عبد الله بن عمرو بن العاص دخل على عمرو بن العاص ، فدعاه إلى الغداء، فقال:" إني صائم". ثم الثانية كذلك، ثم الثالثة كذلك، فقال:" لا، إلا ان تكون سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم". فقال: إني سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ كَثِيرٍ ، أَنَّ جَعْفَرَ بْنَ الْمُطَّلِبِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ دَخَلَ عَلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، فَدَعَاهُ إِلَى الْغَدَاءِ، فَقَالَ:" إِنِّي صَائِمٌ". ثُمَّ الثَّانِيَةَ كَذَلِكَ، ثُمَّ الثَّالِثَةَ كَذَلِكَ، فَقَالَ:" لَا، إِلَّا أَنْ تَكُونَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ". فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، انہوں نے اپنے بیٹے کو کھانے کی دعوت دی، لیکن انہوں نے جواب دیا کہ میں روزے سے ہوں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اس حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سنی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن فى المتابعات والشواهد من أجل سعيد بن كثير
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حماد ، قال: حدثنا ابو جعفر الخطمي ، عن عمارة بن خزيمة ، قال: بينا نحن مع عمرو بن العاص في حج او عمرة، فقال: بينما نحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في هذا الشعب إذ قال:" انظروا، هل ترون شيئا؟" فقلنا: نرى غربانا فيها غراب اعصم احمر المنقار والرجلين. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يدخل الجنة من النساء، إلا من كان منهن مثل هذا الغراب في الغربان" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الْخَطْمِيُّ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ مَعَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ، فَقَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الشِّعْبِ إِذْ قَالَ:" انْظُرُوا، هَلْ تَرَوْنَ شَيْئًا؟" فَقُلْنَا: نَرَى غِرْبَانًا فِيهَا غُرَابٌ أَعْصَمُ أَحْمَرُ الْمِنْقَارِ وَالرِّجْلَيْنِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنَ النِّسَاءِ، إِلَّا مَنْ كَانَ مِنْهُنَّ مِثْلَ هَذَا الْغُرَابِ فِي الْغِرْبَانِ" .
عمارہ بن خزیمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حج یا عمرہ کے سفر میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، وہ کہنے لگے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ اسی جگہ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو! تمہیں کچھ دکھائی دے رہا ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ چند کوے نظر آ رہے ہیں جن میں ایک سفید کوا بھی ہے جس کی چونچ اور دونوں پاؤں سرخ رنگ کے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں صرف وہی عورتیں داخل ہو سکیں گی جو کو وں کی اس جماعت میں اس کوے کی طرح ہوں گی۔
حدثنا يزيد ، حدثنا موسى ، قال: سمعت ابي ، يقول: حدثني ابو قيس مولى عمرو بن العاص، ان عمرو بن العاص كان يسرد الصوم، وقلما كان يصيب من العشاء اول الليل، اكثر ما كان يصيب من السحر، قال: وسمعته يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن فصلا بين صيامنا وصيام اهل الكتاب، اكلة السحر" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، حَدَّثَنَا مُوسَى ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي أَبُو قَيْسٍ مَوْلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ كَانَ يَسْرُدُ الصَّوْمَ، وَقَلَّمَا كَانَ يُصِيبُ مِنَ الْعَشَاءِ أَوَّلَ اللَّيْلِ، أَكْثَرَ مَا كَانَ يُصِيبُ مِنَ السَّحَرِ، قَالَ: وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ فَصْلًا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أهل الكتاب، أَكْلَةُ السَّحَرِ" .
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کثرت سے روزے رکھتے تھے اور رات کا کھانا بہت کم کھاتے تھے، البتہ سحری ضرور کھاتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان فرق سحری کھانا ہے۔
حدثنا عبد الله بن يزيد ، قال: حدثنا موسى ، قال: سمعت ابي ، يقول: كنت عند عمرو بن العاص ، فذكروا ما هم فيه من العيش، فقال رجل من الصحابة:" لقد توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وما شبع اهله من الخبز الغليث" . قال موسى: يعني الشعير والسلت إذا خلطا.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي ، يَقُولُ: كُنْتُ عِنْدَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، فَذَكَرُوا مَا هُمْ فِيهِ مِنَ الْعَيْشِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الصَّحَابَةِ:" لَقَدْ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا شَبِعَ أَهْلُهُ مِنَ الْخُبْزِ الْغَلِيثِ" . قَالَ مُوسَى: يَعْنِي الشَّعِيرَ وَالسُّلْتَ إِذَا خُلِطَا.
موسیٰ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اسکندریہ میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، وہاں کچھ لوگ اپنے طرز زندگانی کے متعلق گفتگو کرنے لگے، تو ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال اس حال میں ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ بھوسہ ملے ہوئے جو کی روٹی سے بھی سیراب نہیں ہوتے تھے۔
حدثنا عبد الله بن يزيد ، قال: حدثنا موسى ، قال: سمعت ابي ، يقول: سمعت عمرو بن العاص يخطب الناس بمصر، يقول:" ما ابعد هديكم من هدي نبيكم صلى الله عليه وسلم، اما هو، فكان ازهد الناس في الدنيا، واما انتم فارغب الناس فيها" .حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ يَخْطُبُ النَّاسَ بِمِصْرَ، يَقُولُ:" مَا أَبْعَدَ هَدْيَكُمْ مِنْ هَدْيِ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَمَّا هُوَ، فَكَانَ أَزْهَدَ النَّاسِ فِي الدُّنْيَا، وَأَمَّا أَنْتُمْ فَأَرْغَبُ النَّاسِ فِيهَا" .
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ مصر میں خطبہ دیتے ہوئے لوگوں سے فرمایا کہ تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے کتنے دور چلے گئے ہو؟ وہ دنیا سے انتہائی بےرغبت تھے اور تم دنیا کو انتہائی محبوب و مرغوب رکھتے ہو۔
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کوئی حاکم فیصلہ کرے اور خوب احتیاط اور اجتہاد سے کام لے اور صحیح فیصلہ کرے تو اسے دہرا اجر ملے گا اور اگر احتیاط کے باوجود غلطی ہوجائے تو پھر بھی اسے اکہرا اجر ملے گا۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک مرتبہ خواب میں میرے پاس کچھ فرشتے آئے، انہوں نے میرے تکیے کے نیچے سے کتاب کا ستون اٹھایا اور اسے شام لے گئے، یاد رکھو! جب فتنے رونما ہوں گے تو ایمان شام میں ہوگا۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالعزيز بن عبيد الله
ابو غادیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو حضرت عمرو رضی اللہ عنہ کو اس کی اطلاع دی گئی، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عمار کو قتل کرنے والا اور اس کا سامان چھیننے والا جہنم میں جائے گا، کسی نے حضرت عمرو رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ بھی تو ان سے جنگ ہی کر رہے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قاتل اور سامان چھیننے والے کے بارے فرمایا تھا (جنگ کرنے والے کے بارے نہیں فرمایا تھا)۔
حدثنا يعقوب بن إبراهيم ، قال: حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: حدثني يزيد بن ابي حبيب ، عن راشد مولى حبيب بن ابي اوس الثقفي، عن حبيب بن ابي اوس ، قال: حدثني عمرو بن العاص من فيه، قال: لما انصرفنا من الاحزاب عن الخندق، جمعت رجالا من قريش كانوا يرون مكاني، ويسمعون مني، فقلت لهم: تعلمون، والله إني لارى امر محمد يعلو الامور علوا كبيرا، وإني قد رايت رايا، فما ترون فيه؟ قالوا: وما رايت؟ قال: رايت ان نلحق بالنجاشي فنكون عنده، فإن ظهر محمد على قومنا، كنا عند النجاشي، فإنا ان نكون تحت يديه احب إلينا من ان نكون تحت يدي محمد، وإن ظهر قومنا فنحن من قد عرفوا، فلن ياتينا منهم إلا خير. فقالوا: إن هذا الراي. قال: فقلت لهم: فاجمعوا له ما نهدي له. وكان احب ما يهدى إليه من ارضنا الادم , فجمعنا له ادما كثيرا، فخرجنا حتى قدمنا عليه، فوالله إنا لعنده إذ جاء عمرو بن امية الضمري، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد بعثه إليه في شان جعفر واصحابه قال: فدخل عليه ثم خرج من عنده، قال: فقلت لاصحابي: هذا عمرو بن امية، لو قد دخلت على النجاشي فسالته إياه فاعطانيه، فضربت عنقه، فإذا فعلت ذلك رات قريش اني قد اجزات عنها حين قتلت رسول محمد. قال: فدخلت عليه، فسجدت له كما كنت اصنع، فقال: مرحبا بصديقي، اهديت لي من بلادك شيئا؟ قال: قلت: نعم ايها الملك، قد اهديت لك ادما كثيرا. قال: ثم قدمته إليه، فاعجبه واشتهاه، ثم قلت له: ايها الملك، إني قد رايت رجلا خرج من عندك، وهو رسول رجل عدو لنا، فاعطنيه لاقتله، فإنه قد اصاب من اشرافنا وخيارنا. قال: فغضب، ثم مد يده فضرب بها انفه ضربة ظننت انه قد كسره، فلو انشقت لي الارض لدخلت فيها فرقا منه، ثم قلت: ايها الملك، والله لو ظننت انك تكره هذا ما سالتكه. فقال: اتسالني ان اعطيك رسول رجل ياتيه الناموس الاكبر الذي كان ياتي موسى لتقتله؟! قال: قلت: ايها الملك، اكذاك هو؟ فقال: ويحك يا عمرو، اطعني واتبعه، فإنه والله لعلى الحق، وليظهرن على من خالفه كما ظهر موسى على فرعون وجنوده. قال: قلت: فبايعني له على الإسلام. قال: نعم. فبسط يده وبايعته على الإسلام، ثم خرجت إلى اصحابي وقد حال رايي عما كان عليه، وكتمت اصحابي إسلامي. ثم خرجت عامدا لرسول الله صلى الله عليه وسلم لاسلم، فلقيت خالد بن الوليد، وذلك قبيل الفتح، وهو مقبل من مكة، فقلت اين يا ابا سليمان؟ قال: والله لقد استقام المنسم، وإن الرجل لنبي، اذهب والله اسلم، فحتى متى؟ قال: قلت: والله ما جئت إلا لاسلم. قال: فقدمنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقدم خالد بن الوليد فاسلم وبايع، ثم دنوت، فقلت: يا رسول الله، إني ابايعك على ان تغفر لي ما تقدم من ذنبي. ولا اذكر ما تاخر , قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا عمرو، بايع، فإن الإسلام يجب ما كان قبله، وإن الهجرة تجب ما كان قبلها" قال: فبايعته ثم انصرفت . قال ابن إسحاق: وقد حدثني من لا اتهم ان عثمان بن طلحة بن ابي طلحة كان معهما، اسلم حين اسلما.حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ رَاشِدٍ مَوْلَى حَبِيبِ بْنِ أَبِي أَوْسٍ الثَّقَفِيِّ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي أَوْسٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ مِنْ فِيهِ، قَالَ: لَمَّا انْصَرَفْنَا مِنْ الْأَحْزَابِ عَنْ الْخَنْدَقِ، جَمَعْتُ رِجَالًا مِنْ قُرَيْشٍ كَانُوا يَرَوْنَ مَكَانِي، وَيَسْمَعُونَ مِنِّي، فَقُلْتُ لَهُمْ: تَعْلَمُونَ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَى أَمْرَ مُحَمَّدٍ يَعْلُو الْأُمُورَ عُلُوًّا كَبِيرًا، وَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ رَأْيًا، فَمَا تَرَوْنَ فِيهِ؟ قَالُوا: وَمَا رَأَيْتَ؟ قَالَ: رَأَيْتُ أَنْ نَلْحَقَ بِالنَّجَاشِيِّ فَنَكُونَ عِنْدَهُ، فَإِنْ ظَهَرَ مُحَمَّدٌ عَلَى قَوْمِنَا، كُنَّا عِنْدَ النَّجَاشِيِّ، فَإِنَّا أَنْ نَكُونَ تَحْتَ يَدَيْهِ أَحَبُّ إِلَيْنَا مِنْ أَنْ نَكُونَ تَحْتَ يَدَيْ مُحَمَّدٍ، وَإِنْ ظَهَرَ قَوْمُنَا فَنَحْنُ مَنْ قَدْ عَرَفُوا، فَلَنْ يَأْتِيَنَا مِنْهُمْ إِلَّا خَيْرٌ. فَقَالُوا: إِنَّ هَذَا الرَّأْيُ. قَالَ: فَقُلْتُ لَهُمْ: فَاجْمَعُوا لَهُ مَا نُهْدِي لَهُ. وَكَانَ أَحَبَّ مَا يُهْدَى إِلَيْهِ مِنْ أَرْضِنَا الْأُدُمُ , فَجَمَعْنَا لَهُ أُدُمًا كَثِيرًا، فَخَرَجْنَا حَتَّى قَدِمْنَا عَلَيْهِ، فَوَاللَّهِ إِنَّا لَعِنْدَهُ إِذْ جَاءَ عَمْرُو بْنُ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيُّ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ بَعَثَهُ إِلَيْهِ فِي شَأْنِ جَعْفَرٍ وَأَصْحَابِهِ قَالَ: فَدَخَلَ عَلَيْهِ ثُمَّ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ، قَالَ: فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي: هَذَا عَمْرُو بْنُ أُمَيَّةَ، لَوْ قَدْ دَخَلْتُ عَلَى النَّجَاشِيِّ فَسَأَلْتُهُ إِيَّاهُ فَأَعْطَانِيهِ، فَضَرَبْتُ عُنُقَهُ، فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ رَأَتْ قُرَيْشٌ أَنِّي قَدْ أَجْزَأْتُ عَنْهَا حِينَ قَتَلْتُ رَسُولَ مُحَمَّدٍ. قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَسَجَدْتُ لَهُ كَمَا كُنْتُ أَصْنَعُ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِصَدِيقِي، أَهْدَيْتَ لِي مِنْ بِلَادِكَ شَيْئًا؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ أَيُّهَا الْمَلِكُ، قَدْ أَهْدَيْتُ لَكَ أُدُمًا كَثِيرًا. قَالَ: ثُمَّ قَدَّمْتُهُ إِلَيْهِ، فَأَعْجَبَهُ وَاشْتَهَاهُ، ثُمَّ قُلْتُ لَهُ: أَيُّهَا الْمَلِكُ، إِنِّي قَدْ رَأَيْتُ رَجُلًا خَرَجَ مِنْ عِنْدِكَ، وَهُوَ رَسُولُ رَجُلٍ عَدُوٍّ لَنَا، فَأَعْطِنِيهِ لِأَقْتُلَهُ، فَإِنَّهُ قَدْ أَصَابَ مِنْ أَشْرَافِنَا وَخِيَارِنَا. قَالَ: فَغَضِبَ، ثُمَّ مَدَّ يَدَهُ فَضَرَبَ بِهَا أَنْفَهُ ضَرْبَةً ظَنَنْتُ أَنَّه قَدْ كَسَرَهُ، فَلَوْ انْشَقَّتْ لِي الْأَرْضُ لَدَخَلْتُ فِيهَا فَرَقًا مِنْهُ، ثُمَّ قُلْتُ: أَيُّهَا الْمَلِكُ، وَاللَّهِ لَوْ ظَنَنْتُ أَنَّكَ تَكْرَهُ هَذَا مَا سَأَلْتُكَهُ. فَقَالَ: أَتَسْأَلُنِي أَنْ أُعْطِيَكَ رَسُولَ رَجُلٍ يَأْتِيهِ النَّامُوسُ الْأَكْبَرُ الَّذِي كَانَ يَأْتِي مُوسَى لِتَقْتُلَهُ؟! قَالَ: قُلْتُ: أَيُّهَا الْمَلِكُ، أَكَذَاكَ هُوَ؟ فَقَالَ: وَيْحَكَ يَا عَمْرُو، أَطِعْنِي وَاتَّبِعْهُ، فَإِنَّهُ وَاللَّهِ لَعَلَى الْحَقِّ، وَلَيَظْهَرَنَّ عَلَى مَنْ خَالَفَهُ كَمَا ظَهَرَ مُوسَى عَلَى فِرْعَوْنَ وَجُنُودِهِ. قَالَ: قُلْتُ: فَبَايِعْنِي لَهُ عَلَى الْإِسْلَامِ. قَالَ: نَعَمْ. فَبَسَطَ يَدَهُ وَبَايَعْتُهُ عَلَى الْإِسْلَامِ، ثُمَّ خَرَجْتُ إِلَى أَصْحَابِي وَقَدْ حَالَ رَأْيِي عَمَّا كَانَ عَلَيْهِ، وَكَتَمْتُ أَصْحَابِي إِسْلَامِي. ثُمَّ خَرَجْتُ عَامِدًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُسْلِمَ، فَلَقِيتُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ، وَذَلِكَ قُبَيْلَ الْفَتْحِ، وَهُوَ مُقْبِلٌ مِنْ مَكَّةَ، فَقُلْتُ أَيْنَ يَا أَبَا سُلَيْمَانَ؟ قَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ اسْتَقَامَ الْمَنْسِمُ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَنَبِيٌّ، أَذْهَبُ وَاللَّهِ أُسْلِمُ، فَحَتَّى مَتَى؟ قَالَ: قُلْتُ: وَاللَّهِ مَا جِئْتُ إِلَّا لِأُسْلِمَ. قَالَ: فَقَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدِمَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَأَسْلَمَ وَبَايَعَ، ثُمَّ دَنَوْتُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أُبَايِعُكَ عَلَى أَنْ تَغْفِرَ لِي مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِي. وَلَا أَذْكُرُ مَا تَأَخَّرَ , قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَمْرُو، بَايِعْ، فَإِنَّ الْإِسْلَامَ يَجُبُّ مَا كَانَ قَبْلَهُ، وَإِنَّ الْهِجْرَةَ تَجُبُّ مَا كَانَ قَبْلَهَا" قَالَ: فَبَايَعْتُهُ ثُمَّ انْصَرَفْتُ . قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: وَقَدْ حَدَّثَنِي مَنْ لَا أَتَّهِمُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ طَلْحَةَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ كَانَ مَعَهُمَا، أَسْلَمَ حِينَ أَسْلَمَا.
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ (قبول اسلام سے پہلے) جب ہم لوگ غزوہ خندق سے واپس ہوئے تو میں نے قریش کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کیا جو میرے مرتبے سے واقف اور میری بات سنتے تھے اور ان سے کہا کہ تم جانتے ہو، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسندیدہ طور پر بہت سے معاملات میں غالب آتے جا رہے ہیں، میری ایک رائے ہے، تم اس میں مجھے مشورہ دو، انہوں نے پوچھا کہ آپ کی کیا رائے ہے؟ عمرو نے کہا میری رائے یہ ہے کہ ہم نجاشی کے پاس چلے جائیں اور وہیں رہ پڑیں، اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم پر غالب آگئے تو ہم نجاشی کے پاس ہوں گے اور اس کے زیر نگیں ہونا ہمارے نزدیک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر نگیں ہونے سے زیادہ بہتر ہوگا اور اگر ہماری قوم غالب آگئی تو ہم جانے پہچانے لوگ ہیں لہذا ان سے ہمیں بہتری ہی کی امید ہے، وہ کہنے لگے کہ یہ تو بہت عمدہ رائے ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ پھر نجاشی کو ہدیہ پیش کرنے کے لئے کچھ جمع کرو، اس وقت ہمارے علاقوں میں سب سے زیادہ بہترین ہدیہ چمڑا ہوتا تھا لہذا ہم نے بہت سا چمڑا جمع کرلیا اور روانہ ہوگئے، جب ہم وہاں پہنچے تو ابھی اس کے پاس ہی تھے کہ حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ نجاشی کے پاس آگئے جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر اور ان کے ساتھیوں کے حوالے سے نجاشی کے پاس بھیجا تھا جب وہ واپس چلے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ عمرو بن امیہ ضمری ہے، اگر میں نجاشی کے پاس گیا تو اس سے درخواست کروں گا کہ عمرو کو میرے حوالے کر دے، اگر اس نے اسے میرے حوالے کردیا تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا اور قریش کے لوگ بھی دیکھ لیں گے کہ جب میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو قتل کردیا تو ان کی طرف سے بدلہ چکا دیا۔ چنانچہ میں نے نجاشی کے پاس پہنچ کر اسے سجدہ کیا جیسا کہ پہلے بھی کرتا تھا، نجاشی نے کہا کہ میرے دوست کو خوش آمدید، کیا تم اپنے علاقے سے میرے لئے کچھ ہدیہ لائے ہو؟ میں نے کہا جی، بادشاہ سلامت! میں آپ کے لئے بہت سا چمڑا ہدیئے میں لے کر آیا ہوں، یہ کہہ کر میں نے وہ چمڑا اس کی خدمت میں پیش کردیا، اسے وہ بہت پسند آیا، پھر میں نے اس سے کہا کہ بادشاہ سلامت! میں نے ابھی آپ کے پاس سے ایک آدمی کو نکلتے ہوئے دیکھا جو ہمارے ایک دشمن کا قاصد ہے، آپ اسے میرے حوالے کردیں تاکہ میں اسے قتل کرسکوں، کیونکہ اس نے ہمارے بہت سے معززین اور بہترین لوگوں کو زخم پہنچائے ہیں یہ سن کر نجاشی غضب ناک ہوگیا اور اپنا ہاتھ کھینچ کر اپنی ناک پر اتنی زور سے مارا کہ میں سمجھا کہ اس کی ناک ٹوٹ گئی ہے اس وقت اگر زمین شق ہوجاتی تو میں اس میں اتر جاتا، میں نے کہا بادشاہ سلامت! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ کو یہ بات اتنی ناگوار گذرے گی تو میں آپ سے کبھی اس کی درخواست نہ کرتا۔ نجاشی نے کہا کہ کیا تم مجھ سے اس شخص کا قاصد مانگتے ہو جس کے پاس وہی ناموس اکبر آتا ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آتا تھا تاکہ تم اسے قتل کردو؟ میں نے پوچھا بادشاہ سلامت! کیا واقعی اسی طرح ہے؟ نجاشی نے کہا عمرو! تم پر افسوس ہے، میری بات مانو تو ان کی اتباع کرلو، واللہ وہ حق پر ہیں اور وہ اپنے مخالفین پر ضرور غالب آئیں گے جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون اور اس کے لشکروں پر غالب آئے تھے میں نے کہا کیا آپ ان کی طرف سے مجھے اسلام پر بیعت کرتے ہیں؟ نجاشی نے ہاں میں جواب دے کر اپنا ہاتھ پھیلا دیا اور میں نے اس سے اسلام پر بیعت کرلی۔ پھر میں اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آیا تو میری حالت اور رائے پہلے سے بدل چکی تھی، میں نے اپنے ساتھیوں سے اپنے اسلام کو مخفی رکھا اور کچھ ہی عرصے بعد قبول اسلام کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کے ارادے سے روانہ ہوگیا، راستے میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی، یہ واقعہ فتح مکہ سے پہلے کا ہے، وہ مکہ مکرمہ سے آرہے تھے، میں نے ان سے پوچھا ابو سلیمان! کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! آلات درست ہوچکے، وہ شخص یقینا نبی ہے اور اب میں اسلام قبول کرنے کے لئے جا رہا ہوں، کب تک یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا؟ میں نے کہا کہ واللہ میں بھی اسلام قبول کرنے کے لئے حبشہ سے آرہا ہوں۔ چنانچہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، پہلے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر اسلام قبول کیا اور بیعت کی، پھر میں نے آگے بڑھ کر عرض کیا یا رسول اللہ! میں اس شرط پر آپ سے بیعت کرتا ہوں کہ آپ میری پچھلی خطاؤں کو معاف کردیں، بعد کے گناہوں کا میں تذکرہ نہیں کرتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمرو! بیعت کرلو، کیونکہ اسلام پہلے کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور اس طرح ہجرت بھی پچھلے گناہوں کو ختم کردیتی ہے، چنانچہ میں نے بھی بیعت کرلی اور واپس لوٹ آیا۔ ابن اسحاق ک
حكم دارالسلام: إسناده حسن فى المتابعات والشواهد، حبيب بن أوس مستور
حدثنا عبد الرزاق ، قال: حدثنا معمر ، عن ابن طاوس ، عن ابي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم ، عن ابيه ، قال: لما قتل عمار بن ياسر دخل عمرو بن حزم على عمرو بن العاص ، فقال: قتل عمار، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تقتله الفئة الباغية". فقام عمرو بن العاص فزعا يرجع حتى دخل على معاوية، فقال له معاوية: ما شانك؟ قال: قتل عمار. فقال معاوية: قد قتل عمار، فماذا؟! قال عمرو: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" تقتله الفئة الباغية" . فقال له معاوية: دحضت في بولك، اونحن قتلناه؟ إنما قتله علي واصحابه , جاءوا به حتى القوه بين رماحنا. او قال: بين سيوفنا.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: لَمَّا قُتِلَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ دَخَلَ عَمْرُو بْنُ حَزْمٍ عَلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، فَقَالَ: قُتِلَ عَمَّارٌ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ". فَقَامَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ فَزِعًا يُرَجِّعُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ: مَا شَأْنُكَ؟ قَالَ: قُتِلَ عَمَّارٌ. فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: قَدْ قُتِلَ عَمَّارٌ، فَمَاذَا؟! قَالَ عَمْرٌو: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ" . فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ: دُحِضْتَ فِي بَوْلِكَ، أَوَنَحْنُ قَتَلْنَاهُ؟ إِنَّمَا قَتَلَهُ عَلِيٌّ وَأَصْحَابُهُ , جَاءُوا بِهِ حَتَّى أَلْقَوْهُ بَيْنَ رِمَاحِنَا. أَوْ قَالَ: بَيْنَ سُيُوفِنَا.
محمد بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ، حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور انہیں بتایا کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کر دے گا؟ یہ سن کر حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اناللہ پڑھتے ہوئے گھبرا کر اٹھے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس چلے گئے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے بتایا کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے ہیں، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ تو شہید ہوگئے، لیکن تمہاری یہ حالت؟ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم اپنے پیشاب میں گرتے، کیا ہم نے انہیں قتل کیا ہے؟ انہیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے خود قتل کیا ہے، وہی انہیں لے کر آئے اور ہمارے نیزوں کے درمیان لا ڈالا۔
حدثنا إبراهيم بن خالد ، قال: حدثنا رباح ، عن معمر ، عن عاصم بن سليمان ، عن جعفر بن المطلب ، وكان رجلا من رهط عمرو بن العاص، قال: دعا اعرابيا إلى طعام وذلك بعد النحر بيوم، فقال الاعرابي: إني صائم. فقال له إن عمرو بن العاص : دعا رجلا إلى طعام في هذا اليوم، فقال: إني صائم. فقال عمرو:" إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن صوم هذا اليوم" .حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَبَاحٌ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ سُلَيْمَانَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ ، وَكَانَ رَجُلًا مِنْ رَهْطِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: دَعَا أَعْرَابِيًّا إِلَى طَعَامٍ وَذَلِكَ بَعْدَ النَّحْرِ بِيَوْمٍ، فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ: إِنِّي صَائِمٌ. فَقَالَ لَهُ إِنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ : دَعَا رَجُلًا إِلَى طَعَامٍ فِي هَذَا الْيَوْمِ، فَقَالَ: إِنِّي صَائِمٌ. فَقَالَ عَمْرٌو:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ صَوْمِ هَذَا الْيَوْمِ" .
جعفر بن مطلب جو حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے گروہ میں تھے نے ایک دیہاتی کو کھانے کی دعوت دی، یہ واقعہ گیارہ ذی الحجہ کا ہے، اس دیہاتی نے جواب دیا کہ میں روزے سے ہوں، جعفر نے اس سے کہا کہ ایک مرتبہ اسی دن حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے بھی ایک آدمی کو کھانے کی دعوت دی تھی اور اس نے یہی جواب دیا تھا کہ میں روزے سے ہوں، تو حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ نے اس دن کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔
حدثنا حدثنا علي بن إسحاق ، قال: اخبرنا عبد الله يعني ابن المبارك ، قال: اخبرنا ابن لهيعة ، قال: حدثني يزيد بن ابي حبيب ، ان عبد الرحمن بن شماسة حدثه، قال: لما حضرت عمرو بن العاص الوفاة بكى، فقال له ابنه عبد الله: لم تبكي، اجزعا على الموت؟ فقال:" لا والله، ولكن مما بعد". فقال له: قد كنت على خير. فجعل يذكره صحبة رسول الله صلى الله عليه وسلم وفتوحه الشام. فقال عمرو: " تركت افضل من ذلك كله، شهادة ان لا إله إلا الله، إني كنت على ثلاثة اطباق ليس فيها طبق إلا قد عرفت نفسي فيه كنت اول شيء كافرا، فكنت اشد الناس على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلو مت حينئذ وجبت لي النار، فلما بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم كنت اشد الناس حياء منه، فما ملات عيني من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا راجعته فيما اريد حتى لحق بالله عز وجل حياء منه، فلو مت يومئذ، قال الناس: هنيئا لعمرو، اسلم وكان على خير، فمات فرجي له الجنة. ثم تلبست بعد ذلك بالسلطان واشياء، فلا ادري علي ام لي. فإذا مت فلا تبكين علي ولا تتبعني مادحا ولا نارا، وشدوا علي إزاري فإني مخاصم، وسنوا علي التراب سنا، فإن جنبي الايمن ليس باحق بالتراب من جنبي الايسر، ولا تجعلن في قبري خشبة ولا حجرا، فإذا واريتموني فاقعدوا عندي قدر نحر جزور وتقطيعها، استانس بكم" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ شِمَاسَةَ حَدَّثَهُ، قَالَ: لَمَّا حَضَرَتْ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ الْوَفَاةُ بَكَى، فَقَالَ لَهُ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ: لِمَ تَبْكِي، أَجَزَعًا عَلَى الْمَوْتِ؟ فَقَالَ:" لَا وَاللَّهِ، وَلَكِنْ مِمَّا بَعْدُ". فَقَالَ لَهُ: قَدْ كُنْتَ عَلَى خَيْرٍ. فَجَعَلَ يُذَكِّرُهُ صُحْبَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفُتُوحَهُ الشَّامَ. فَقَالَ عَمْرٌو: " تَرَكْتَ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ، شَهَادَةَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، إِنِّي كُنْتُ عَلَى ثَلَاثَةِ أَطْبَاقٍ لَيْسَ فِيهَا طَبَقٌ إِلَّا قَدْ عَرَفْتُ نَفْسِي فِيهِ كُنْتُ أَوَّلَ شَيْءٍ كَافِرًا، فَكُنْتُ أَشَدَّ النَّاسِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَوْ مِتُّ حِينَئِذٍ وَجَبَتْ لِي النَّارُ، فَلَمَّا بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُنْتُ أَشَدَّ النَّاسِ حَيَاءً مِنْهُ، فَمَا مَلَأْتُ عَيْنِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا رَاجَعْتُهُ فِيمَا أُرِيدُ حَتَّى لَحِقَ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ حَيَاءً مِنْهُ، فَلَوْ مِتُّ يَوْمَئِذٍ، قَالَ النَّاسُ: هَنِيئًا لِعَمْرٍو، أَسْلَمَ وَكَانَ عَلَى خَيْرٍ، فَمَاتَ فَرُجِيَ لَهُ الْجَنَّةُ. ثُمَّ تَلَبَّسْتُ بَعْدَ ذَلِكَ بِالسُّلْطَانِ وَأَشْيَاءَ، فَلَا أَدْرِي عَلَيَّ أَمْ لِي. فَإِذَا مِتُّ فَلَا تَبْكِيَنَّ عَلَيَّ وَلَا تُتْبِعْنِي مَادِحًا وَلَا نَارًا، وَشُدُّوا عَلَيَّ إِزَارِي فَإِنِّي مُخَاصِمٌ، وَسُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ سَنًّا، فَإِنَّ جَنْبِيَ الْأَيْمَنَ لَيْسَ بِأَحَقَّ بِالتُّرَابِ مِنْ جَنْبِي الْأَيْسَرِ، وَلَا تَجْعَلَنَّ فِي قَبْرِي خَشَبَةً وَلَا حَجَرًا، فَإِذَا وَارَيْتُمُونِي فَاقْعُدُوا عِنْدِي قَدْرَ نَحْرِ جَزُورٍ وَتَقْطِيعِهَا، أَسْتَأْنِسْ بِكُمْ" .
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی وفات کا جب وقت آیا تو ان پر گریہ طاری ہوگیا، ان کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ آپ کیوں روتے ہیں؟ کیا موت سے گھبراہٹ محسوس ہو رہی ہے؟ انہوں نے جوابا فرمایا بخدا! موت سے نہیں، بلکہ موت کے بعد پیش آنے والے معاملات سے، صاحبزادے نے کہا کہ آپ تو خیر پر قائم رہے، پھر انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت اور فتوحات شام کا تذکرہ کیا۔ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ تم نے سب سے افضل چیز تو چھوڑ ہی دی یعنی لا الہ الا اللہ کی گواہی میری تین حالتیں رہی ہیں اور ہر حالت میں میں اپنے متعلق جانتا ہوں، سب سے پہلے میں کافر تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تمام لوگوں میں انتہائی سخت تھا، اگر میں اسی حال میں مرجاتا تو میرے لئے جہنم واجب ہوجاتی، جب میں نے نبی سے بیعت کی تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تمام لوگوں کی نسبت زیادہ حیاء کرتا تھا، اسی وجہ سے میں نے نگاہیں بھر کر، کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا اور اپنی خواہشات میں بھی کبھی انہیں جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جا ملے، اگر میں اس زمانے میں فوت ہوجاتا تو لوگ کہتے کہ عمرو کو مبارک ہو، اس نے اسلام قبول کیا، وہ خیر پر تھا، اسی حال میں فوت ہوگیا، امید ہے کہ اسے جنت نصیب ہوگی۔ پھر میں حکومت اور دوسری چیزوں میں ملوث ہوگیا، اب مجھے معلوم نہیں کہ یہ میرے لئے باعث وبال ہے یا باعث ثواب، لیکن جب میں مرجاؤں تو تم مجھ پر مت رونا، کسی تعریف کرنے والے کو یا آگ کو جنازے کے ساتھ نہ لے جانا، میرا تہبند مضبوطی سے باندھ دو کہ مجھ سے جواب طلبی ہوگی، مجھ پر آہستہ آہستہ مٹی ڈالنا اور سب طرف بکھیر دینا کیونکہ دایاں پہلو بائٰیں پہلو سے زیادہ حق نہیں رکھتا، میری قبر پر کوئی لکڑی یا پتھر نہ گاڑنا اور جب تم مجھے قبر کی مٹی میں چھپا کر فارغ ہوجاؤ تو اتنی دیر قبر پر رکنا کہ جس میں ایک اونٹ ذبح کر کے اس کے ٹکڑے بنا لئے جائیں تاکہ میں تم سے انس حاصل کرسکوں۔
حدثنا عفان ، حدثنا الاسود بن شيبان ، قال: حدثنا ابو نوفل بن ابي عقرب ، قال: جزع عمرو بن العاص عند الموت جزعا شديدا، فلما راى ذلك ابنه عبد الله بن عمرو، قال: يا ابا عبد الله، ما هذا الجزع" وقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدنيك ويستعملك؟" قال: اي بني، قد كان ذلك، وساخبرك عن ذلك إني والله ما ادري احبا كان ذلك، ام تالفا يتالفني،" ولكني اشهد على رجلين انه قد فارق الدنيا وهو يحبهما ابن سمية، وابن ام عبد". فلما حدثه وضع يده موضع الغلال من ذقنه، وقال: اللهم امرتنا فتركنا، ونهيتنا فركبنا، ولا يسعنا إلا مغفرتك. وكانت تلك هجيراه حتى مات .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نَوْفَلِ بْنُ أَبِي عَقْرَبٍ ، قَالَ: جَزِعَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ عِنْدَ الْمَوْتِ جَزَعًا شَدِيدًا، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، مَا هَذَا الْجَزَعُ" وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُدْنِيكَ وَيَسْتَعْمِلُكَ؟" قَالَ: أَيْ بُنَيَّ، قَدْ كَانَ ذَلِكَ، وَسَأُخْبِرُكَ عَنْ ذَلِكَ إِنِّي وَاللَّهِ مَا أَدْرِي أَحُبًّا كَانَ ذَلِكَ، أَمْ تَأَلُّفًا يَتَأَلَّفُنِي،" وَلَكِنِّي أَشْهَدُ عَلَى رَجُلَيْنِ أَنَّهُ قَدْ فَارَقَ الدُّنْيَا وَهُوَ يُحِبُّهُمَا ابْنُ سُمَيَّةَ، وَابْنُ أُمِّ عَبْدٍ". فَلَمَّا حَدَّثَهُ وَضَعَ يَدَهُ مَوْضِعَ الْغِلَالِ مِنْ ذَقْنِهِ، وَقَالَ: اللَّهُمَّ أَمَرْتَنَا فَتَرَكْنَا، وَنَهَيْتَنَا فَرَكِبْنَا، وَلَا يَسَعُنَا إِلَّا مَغْفِرَتُكَ. وَكَانَتْ تِلْكَ هِجِّيرَاهُ حَتَّى مَاتَ .
ابو نوفل کہتے ہیں کہ موت کے وقت حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ پر شدید گھبراہٹ طاری ہوگئی، ان کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ کیفیت دیکھی تو پوچھا اے ابو عبداللہ! یہ کیسی گھبراہٹ ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ کو اپنے قریب رکھتے تھے اور آپ کو مختلف ذمہ داریاں سونپتے تھے؟ انہوں نے فرمایا بیٹا! یہ تو واقعی حقیقت ہے، لیکن میں تمہیں بتاؤں، بخدا! میں نہیں جانتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم محبت کی وجہ سے میرے ساتھ یہ معاملہ فرماتے تھے یا تالیف قلب کے لئے، البتہ میں اس بات کی گواہی دے سکتا ہوں کہ دنیا سے رخصت ہونے تک وہ دو آدمیوں سے محبت فرماتے تھے، ایک سمیہ کے بیٹے عمار رضی اللہ عنہ سے اور ایک ام عبد کے بیٹے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے، یہ حدیث بیان کر کے انہوں نے اپنے ہاتھ اپنی ٹھوڑی کے نیچے رکھے اور کہنے لگے اے اللہ! تو نے ہمیں حکم دیا، ہم نے اسے چھوڑ دیا، تو نے ہمیں منع کیا اور ہم وہ کام کرتے رہے اور تیری مغفرت کے علاوہ کوئی چیز ہمارا احاطہ نہیں کرسکتی، آخر دم تک پھر وہ یہی کلمات کہتے رہے، یہاں تک کہ فوت ہوگئے۔