حدثنا وكيع ، حدثنا موسى بن علي بن رباح ، ذاك اللخمي، عن ابيه ، قال: سمعت عمرو بن العاص ، يقول: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا عمرو، اشدد عليك سلاحك وثيابك واتني"، ففعلت فجئته وهو يتوضا، فصعد في البصر وصوبه، وقال:" يا عمرو، إني اريد ان ابعثك وجها، فيسلمك الله ويغنمك، وارعب لك من المال رعبة صالحة"، قال: قلت: يا رسول الله، إني لم اسلم رغبة في المال، إنما اسلمت رغبة في الجهاد والكينونة معك. قال:" يا عمرو، نعما بالمال الصالح للرجل الصالح" . قال كذا في النسخة نعما بنصب النون وكسر العين، قال ابو عبيد بكسر النون والعين.حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ ، ذَاكَ اللَّخْمِيُّ، عَن أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ ، يَقُولُ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَمْرُو، اشْدُدْ عَلَيْكَ سِلَاحَكَ وَثِيَابَكَ وَأْتِنِي"، فَفَعَلْتُ فَجِئْتُهُ وَهُوَ يَتَوَضَّأُ، فَصَعَّدَ فِيَّ الْبَصَرَ وَصَوَّبَهُ، وَقَالَ:" يَا عَمْرُو، إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَبْعَثَكَ وَجْهًا، فَيُسَلِّمَكَ اللَّهُ وَيُغْنِمَكَ، وَأَرْعَبُ لَكَ مِنَ الْمَالِ رَعْبَةً صَالِحَةً"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَمْ أُسْلِمْ رَغْبَةً فِي الْمَالِ، إِنَّمَا أَسْلَمْتُ رَغْبَةً فِي الْجِهَادِ وَالْكَيْنُونَةِ مَعَكَ. قَالَ:" يَا عَمْرُو، نَعِمَّا بِالْمَالِ الصَّالِحِ لِلرَّجُلِ الصَّالِحِ" . قَالَ كَذَا فِي النُّسْخَةِ نَعِمَّا بِنَصْبِ النُّونِ وَكَسْرِ الْعَيْنِ، قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ بِكَسْرِ النُّونِ وَالْعَيْنِ.
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس پیغام بھیجا کہ اپنے کپڑے اور اسلحہ زیب تن کر کے میرے پاس آؤ، میں جس وقت حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرما رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھے نیچے سے اوپر تک دیکھا پھر نظریں جھکا کر فرمایا میرا ارادہ ہے کہ تمہیں ایک لشکر کا امیر بنا کر روانہ کروں، اللہ تمہیں صحیح سالم اور مال غنیمت کے ساتھ واپس لائے گا اور میں تمہارے لئے مال کی اچھی رغبت رکھتا ہوں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم میں نے مال و دولت کی خاطر اسلام قبول نہیں کیا، میں نے دلی رغبت کے ساتھ اسلام قبول کیا ہے اور اس مقصد کے لئے کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت حاصل ہوجائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیک آدمی کے لئے حلال مال کیا ہی خوب ہوتا ہے۔
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تم ہمارے اوپر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں اشتباہ پیدا نہ کرو، ام ولدہ کا آقا اگر فوت ہوجائے تو اس کی عدت چار ماہ دس دن ہوگی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، قبيصة لم يسمع من عمرو
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علانیہ طور پر یہ فرماتے ہوئے سنا ہے آل ابو فلاں میرے ولی نہیں ہیں، میرا ولی تو اللہ اور نیک مومنین ہیں۔
حدثنا محمد بن جعفر ، قال: حدثنا شعبة ، عن الحكم ، قال: سمعت ذكوان يحدث، عن مولى لعمرو بن العاص ، انه ارسله إلى علي يستاذنه على اسماء بنت عميس، فاذن له، حتى إذا فرغ من حاجته، سال المولى عمرا عن ذلك، فقال:" إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهانا او نهى ان ندخل على النساء بغير إذن ازواجهن" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، قَالَ: سَمِعْتُ ذَكْوَانَ يُحَدِّثُ، عَنْ مَوْلًى لِعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، أَنَّهُ أَرْسَلَهُ إِلَى عَلِيٍّ يَسْتَأْذِنُهُ عَلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ، فَأَذِنَ لَهُ، حَتَّى إِذَا فَرَغَ مِنْ حَاجَتِهِ، سَأَلَ الْمَوْلَى عَمْرًا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَانَا أَوْ نَهَى أَنْ نَدْخُلَ عَلَى النِّسَاءِ بِغَيْرِ إِذْنِ أَزْوَاجِهِنَّ" .
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنے ایک غلام کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی زوجہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ سے ملنے کی اجازت لینے کی وجہ پوچھی تو حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس بات سے منع فرمایا ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر عورتوں کے پاس نہ جائیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه وشواهده ، مولي عمرو بن العاص لم يبين
حدثنا اسود بن عامر ، قال: حدثنا جرير يعني ابن حازم ، قال: سمعت الحسن ، قال: قال رجل لعمرو بن العاص ارايت رجلا مات رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يحبه، اليس رجلا صالحا؟ قال: بلى. قال: قد مات رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يحبك وقد استعملك. فقال: قد استعملني، فوالله ما ادري احبا كان لي منه، او استعانة بي، ولكني" ساحدثك برجلين مات رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يحبهما عبد الله بن مسعود، وعمار بن ياسر" .حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ يَعْنِي ابْنَ حَازِمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَرَأَيْتَ رَجُلًا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُحِبُّهُ، أَلَيْسَ رَجُلًا صَالِحًا؟ قَالَ: بَلَى. قَالَ: قَدْ مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُحِبُّكَ وَقَدْ اسْتَعْمَلَكَ. فَقَالَ: قَدْ اسْتَعْمَلَنِي، فَوَاللَّهِ مَا أَدْرِي أَحُبًّا كَانَ لِي مِنْهُ، أَوْ اسْتِعَانَةً بِي، وَلَكِنِّي" سَأُحَدِّثُكَ بِرَجُلَيْنِ مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُحِبُّهُمَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، وَعَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ" .
احسن رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے کہا یہ بتائیے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی آدمی سے محبت کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے ہوں، تو کیا وہ نیک آدمی ہوگا؟ انہوں نے فرمایا کیوں نہیں، اس نے کہا کہ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے محبت کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے ہیں اور وہ آپ کو مختلف ذمہ داریاں سونپتے تھے؟ انہوں نے فرمایا یہ تو واقعی حقیقت ہے، لیکن میں تمہیں بتاؤں، بخدا! میں نہیں جانتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم محبت کی وجہ سے میرے ساتھ یہ معاملہ فرماتے تھے یا تالیف قلب کے لئے، البتہ میں اس بات کی گواہی دے سکتا ہوں کہ دنیا سے رخصت ہونے تک وہ دو آدمیوں سے محبت فرماتے تھے، ایک سمیہ کے بیٹے عمار رضی اللہ عنہ سے اور ایک ام عبد کے بیٹے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے۔
حكم دارالسلام: هذا إسناد منقطع ، الحسن البصري لم يسمع من عمرو بن العاص
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن حبيب بن الزبير ، قال: سمعت عبد الله بن ابي الهذيل ، قال: كان عمرو بن العاص يتخولنا، فقال رجل من بكر بن وائل: لئن لم تنته قريش، ليضعن هذا الامر في جمهور من جماهير العرب سواهم. فقال: عمرو بن العاص كذبت، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " قريش ولاة الناس في الخير والشر إلى يوم القيامة" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ حَبِيْبِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي الْهُذَيْلِ ، قَالَ: كَانَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ يَتَخَوَّلُنَا، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ بَكْرِ بْنِ وَائِلٍ: لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ قُرَيْشٌ، لَيَضَعَنَّ هَذَا الْأَمْرَ فِي جُمْهُورٍ مِنْ جَمَاهِيرِ الْعَرَبِ سِوَاهُمْ. فَقَالَ: عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ كَذَبْتَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " قُرَيْشٌ وُلَاةُ النَّاسِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ" .
عبداللہ بن ابی الہذیل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ہماری رعایت اور خیال فرماتے تھے، ایک مرتبہ بکر بن وائل قبیلے کا ایک آدمی کہنے لگا کہ اگر قریش کے لوگ باز نہ آئے تو حکومت ان کے ہاتھ سے نکل کر جمہور اہل عرب کے ہاتھ میں چلی جائے گی، حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا آپ سے غلطی ہوئی، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قریش ہر نیکی اور برائی کے کاموں میں قیامت تک لوگوں کے سردار ہوں گے۔
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ مصر میں خطبہ دیتے ہوئے لوگوں سے فرمایا کہ تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے کتنے دور چلے گئے ہو؟ وہ دنیا سے انتہائی بےرغبت تھے اور تم دنیا کو انتہائی محبوب و مرغوب رکھتے ہو۔
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، عن موسى ، عن ابيه ، عن عمرو بن العاص ، قال: كان فزع بالمدينة، فاتيت على سالم مولى ابي حذيفة وهو محتب بحمائل سيفه، فاخذت سيفا فاحتبيت بحمائله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ايها الناس، الا كان مفزعكم إلى الله وإلى رسوله؟!" ثم قال:" الا فعلتم كما فعل هذان الرجلان المؤمنان؟!" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَن مُوسَى ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: كَانَ فَزَعٌ بِالْمَدِينَةِ، فَأَتَيْتُ عَلَى سَالِمٍ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ وَهُوَ مُحْتَبٍ بِحَمَائِلِ سَيْفِهِ، فَأَخَذْتُ سَيْفًا فَاحْتَبَيْتُ بِحَمَائِلِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَلَا كَانَ مَفْزَعُكُمْ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ؟!" ثُمَّ قَالَ:" أَلَا فَعَلْتُمْ كَمَا فَعَلَ هَذَانِ الرَّجُلَانِ الْمُؤْمِنَانِ؟!" .
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں خوف وہراس پھیلا ہوا تھا، میں حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام سالم کے پاس آیا تو انہوں نے اپنی تلوار حمائل کر رکھی تھی، میں نے بھی اپنی تلوار پکڑی اور اسے حمائل کرلیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو! گھبراہٹ کے اس وقت میں تم اللہ اور اس کے رسول کے پاس کیوں نہیں آئے؟ پھر فرمایا تم نے اس طرح کیوں نہ کیا جس طرح ان دو مومن مردوں نے کیا ہے۔
حدثنا يحيى بن حماد ، قال: اخبرنا عبد العزيز بن المختار ، عن خالد الحذاء ، عن ابي عثمان ، قال: حدثني عمرو بن العاص ، قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم على جيش ذات السلاسل، قال: فاتيته، قال: قلت: يا رسول الله، اي الناس احب إليك؟ قال: " عائشة". قال: قلت: من الرجال؟ قال:" ابوها إذا". قال: قلت: ثم من؟ قال:" ثم عمر" قال: فعد رجالا .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنِ الْمُخْتَارِ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جَيْشِ ذَاتِ السَّلَاسِلِ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: " عَائِشَةُ". قَالَ: قُلْتُ: مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَ:" أَبُوهَا إِذًا". قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:" ثُمَّ عُمَرُ" قَالَ: فَعَدَّ رِجَالًا .
حضرت عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذات السلاسل کے لشکر پر مجھے امیر بنا کر بھیجا، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ سولم) لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ، میں نے کہا کہ مردوں میں سے؟ فرمایا ان کے والد، میں نے پوچھا کہ پھر کون؟ فرمایا عمر، اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی آدمیوں کے نام لئے۔
حدثنا حسن بن موسى ، قال: حدثنا ابن لهيعة ، قال: حدثنا يزيد بن ابي حبيب ، عن عمران بن ابي انس ، عن عبد الرحمن بن جبير ، عن عمرو بن العاص ، انه قال: لما بعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم عام ذات السلاسل، قال: فاحتلمت في ليلة باردة شديدة البرد، فاشفقت إن اغتسلت ان اهلك، فتيممت ثم صليت باصحابي صلاة الصبح. قال: فلما قدمنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكرت ذلك له، فقال" يا عمرو، صليت باصحابك وانت جنب؟" قال: قلت: نعم يا رسول الله، إني احتلمت في ليلة باردة شديدة البرد، فاشفقت إن اغتسلت ان اهلك، وذكرت قول الله عز وجل: ولا تقتلوا انفسكم إن الله كان بكم رحيما سورة النساء آية 29 فتيممت ثم صليت. فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يقل شيئا .حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَن عِمْرَانَ بْنِ أَبِي أَنَسٍ ، عَن عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَن عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، أَنَّهُ قَالَ: لَمَّا بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ ذَاتِ السَّلَاسِلِ، قَالَ: فَاحْتَلَمْتُ فِي لَيْلَةٍ بَارِدَةٍ شَدِيدَةِ الْبَرْدِ، فَأَشْفَقْتُ إِنْ اغْتَسَلْتُ أَنْ أَهْلَكَ، فَتَيَمَّمْتُ ثُمَّ صَلَّيْتُ بِأَصْحَابِي صَلَاةَ الصُّبْحِ. قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ" يَا عَمْرُو، صَلَّيْتَ بِأَصْحَابِكَ وَأَنْتَ جُنُبٌ؟" قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي احْتَلَمْتُ فِي لَيْلَةٍ بَارِدَةٍ شَدِيدَةِ الْبَرْدِ، فَأَشْفَقْتُ إِنْ اغْتَسَلْتُ أَنْ أَهْلَكَ، وَذَكَرْتُ قَوْلَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَلا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا سورة النساء آية 29 فَتَيَمَّمْتُ ثُمَّ صَلَّيْتُ. فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا .
حضرت عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعے کا ذکر کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمرو! تم نے ناپاکی کی حالت میں اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھا دی؟ میں نے عرض کیا جی یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ سولم) جس رات میں مجھ پر غسل واجب ہوا، وہ انتہائی سرد رات تھی اور مجھے اندیشہ تھا کہ اگر میں نے غسل کیا تو میں ہلاک ہوجاؤں گا، وَذَكَرْتُ قَوْلَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا اور میں نے اللہ کا قول (وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا) اپنی جانوں کو قتل نہ کرو بیشک اللہ تعالیٰ تم پر بہت مہربان ہے، اس لئے میں نے تیمم کر کے نماز پڑھ لی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے اور کچھ کہا نہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، عبدالله بن لهيعة سيئ الحفظ ، لكنه توبع، وقد اختلف فيه على عبدالرحمن بن جبير
حدثنا حسن ، قال: حدثنا ابن لهيعة ، قال: حدثنا يزيد بن ابي حبيب ، قال: اخبرني سويد بن قيس ، عن قيس بن شفي . ان عمرو بن العاص ، قال: قلت: يا رسول الله، ابايعك على ان تغفر لي ما تقدم من ذنبي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الإسلام يجب ما كان قبله، وإن الهجرة تجب ما كان قبلها" . قال عمرو: فوالله إن كنت لاشد الناس حياء من رسول الله صلى الله عليه وسلم فما ملات عيني من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا راجعته بما اريد، حتى لحق بالله عز وجل حياء منه.حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سُوَيْدُ بْنُ قَيْسٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ شُفَيٍّ . أَنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُبَايِعُكَ عَلَى أَنْ تَغْفِرَ لِي مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِي؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْإِسْلَامَ يَجُبُّ مَا كَانَ قَبْلَهُ، وَإِنَّ الْهِجْرَةَ تَجُبُّ مَا كَانَ قَبْلَهَا" . قَالَ عَمْرٌو: فَوَاللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأَشَدَّ النَّاسِ حَيَاءً مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا مَلَأْتُ عَيْنِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا رَاجَعْتُهُ بِمَا أُرِيدُ، حَتَّى لَحِقَ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ حَيَاءً مِنْهُ.
حضرت عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ سے اس شرط پر بیعت کرتا ہوں کہ میرے پچھلے سارے گناہ معاف ہوجائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام اپنے سے پہلے کے تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور ہجرت بھی اپنے سے پہلے کے تمام گناہ مٹا دیتی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں تمام لوگوں سے زیادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حیاء کرتا تھا، اس لئے میں نے انہیں کبھی آنکھیں بھر کر نہیں دیکھا اور نہ ہی کبھی اپنی خواہش میں ان سے کوئی تکرار کیا، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جا ملے۔
حكم دارالسلام: الشطر الأول منه حسن، وهذا الإسناد ضعيف، ابن لهيعة سيئ الحفظ ، وقيس بن سمي- على الصواب- ليس بمشهور
حدثنا يحيى بن غيلان ، قال: حدثنا رشدين ، حدثني موسى بن علي ، عن ابيه ، عن عمرو بن العاص ، قال: قال رجل: يا رسول الله، اي العمل افضل؟ قال: " إيمان بالله وتصديق، وجهاد في سبيل الله، وحج مبرور". قال الرجل: اكثرت يا رسول الله. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فلين الكلام، وبذل الطعام، وسماح وحسن الخلق". قال الرجل: اريد كلمة واحدة. قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اذهب فلا تتهم الله على نفسك" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ غَيْلَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا رِشْدِينُ ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ عَلِيٍّ ، عَن أَبِيهِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: " إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَتَصْدِيقٌ، وَجِهَادٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَحَجٌّ مَبْرُورٌ". قَالَ الرَّجُلُ: أَكْثَرْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَلِينُ الْكَلَامِ، وَبَذْلُ الطَّعَامِ، وَسَمَاحٌ وَحُسْنُ الخُلُقِ". قَالَ الرَّجُلُ: أُرِيدُ كَلِمَةً وَاحِدَةً. قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اذْهَبْ فَلَا تَتَّهِمِ اللَّهَ عَلَى نَفْسِكَ" .
حضرت عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ نے فرمایا اللہ پر ایمان و تصدیق، اللہ کے راستہ میں جہاد اور حج مبرور، اس آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو آپ نے بہت سی چیزیں بیان فرما دی ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کلام میں نرمی، کھانا کھلانا، سہل ہونا اور اچھے اخلاق سب سے افضل عمل ہیں، اس نے کہا کہ میں صرف ایک بات معلوم کرنا چاہتا ہوں، نبی نے فرمایا تو پھر جاؤ اور اپنی ذت پر تہمت نہ لگنے دو۔
حكم دارالسلام: حديث محتمل للتحسين لشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف رشدين بن سعد
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ مصر میں خطبہ دیتے ہوئے لوگوں سے فرمایا کہ تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے کتنے دور چلے گئے ہو؟ وہ دنیا سے انتہائی بےرغبت تھے اور تم دنیا کو انتہائی محبوب و مرغوب رکھتے ہو۔
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کوئی حاکم فیصلہ کرے اور خوب احتیاط و اجتہاد سے کام لے اور صحیح فیصلہ کرے تو اسے دہرا اجر ملے گا اور اگر احتیاط کے باوجود غلطی ہوجائے تو پھر بھی اسے اکہرا اجر ملے گا۔
حدثنا يحيى بن إسحاق ، قال: حدثنا ليث بن سعد ، عن يزيد بن ابي حبيب ، عن علي بن رباح ، قال: سمعت عمرو بن العاص ، يقول:" لقد اصبحتم وامسيتم ترغبون فيما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزهد فيه اصبحتم ترغبون في الدنيا، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزهد فيها، والله ما اتت على رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة من دهره إلا كان الذي عليه اكثر مما له". قال: فقال له بعض اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم: قد راينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يستسلف وقال: غير يحيى: والله ما مر برسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثة من الدهر إلا والذي عليه اكثر من الذي له.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ ، يَقُولُ:" لَقَدْ أَصْبَحْتُمْ وَأَمْسَيْتُمْ تَرْغَبُونَ فِيمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزْهَدُ فِيهِ أَصْبَحْتُمْ تَرْغَبُونَ فِي الدُّنْيَا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزْهَدُ فِيهَا، وَاللَّهِ مَا أَتَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةٌ مِنْ دَهْرِهِ إِلَّا كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ أَكْثَرَ مِمَّا لَهُ". قَالَ: فَقَالَ لَهُ بَعْضُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ رَأَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَسْلِفُ وَقَالَ: غَيْرُ يَحْيَى: وَاللَّهِ مَا مَرَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةٌ مِنَ الدَّهْرِ إِلَّا وَالَّذِي عَلَيْهِ أَكْثَرُ مِنَ الَّذِي لَهُ.
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ مصر میں خطبہ دیتے ہوئے لوگوں سے فرمایا کہ تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے کتنے دور چلے گئے ہو؟ وہ دنیا سے انتہائی بےرغبت تھے اور تم دنیا کو انتہائی محبوب و مرغوب رکھتے ہو، واللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ساری زندگی کوئی رات ایسی نہیں آئی جس میں ان پر مالی بوجھ مالی فراوانی سے زیادہ نہ ہو اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ ہم نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرض لیتے ہوئے دیکھا ہے۔ یحییٰ تین دنوں کا ذکر کرتے ہیں۔
حدثنا حسن بن موسى ، قال: حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا ابو قبيل ، عن مالك بن عبد الله ، عن عمرو بن العاص ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وفي موضع آخر قال مالك بن عبد الله: عن عبد الله بن عمرو ، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " انه استعاذ من سبع موتات: موت الفجاة، ومن لدغ الحية، ومن السبع، ومن الغرق، ومن الحرق، ومن ان يخر على شيء او يخر عليه شيء، ومن القتل عند فرار الزحف" .حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو قَبِيلٍ ، عَن مَالِكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعاصِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِي مَوْضِعٍ آخَرَ قَالَ مَالِكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّهُ اسْتَعَاذَ مِنْ سَبْعِ مَوْتَاتٍ: مَوْتِ الْفَجْأَةِ، وَمِنْ لَدْغِ الْحَيَّةِ، وَمِنْ السَّبُعِ، وَمِنْ الْغَرَقِ، وَمِنْ الْحَرْقِ، وَمِنْ أَنْ يَخِرَّ عَلَى شَيْءٍ أَوْ يَخِرَّ عَلَيْهِ شَيْءٌ، وَمِنْ الْقَتْلِ عِنْدَ فِرَارِ الزَّحْفِ" .
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سات قسم کی موت سے پناہ مانگی ہے، ناگہانی موت، سانپ کے ڈسنے سے، درندے کے حملے سے، ڈوب کر مرنے سے، جل کر مرنے سے، کسی چیز پر گرنے سے، کسی چیز کے گرنے سے اور میدان جنگ سے بھاگتے ہوئے مرنے سے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة سيئ الحفظ، ومالك بن عبدالله مجهول
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن کریم سات حرفوں پر نازل ہوا ہے، لہذا تم جس حرف کے مطابق پڑھو گے، صحیح پڑھو گے، اس لئے تم قرآن کریم میں مت جھگڑا کرو کیونکہ قرآن میں جھگڑنا کفر ہے۔
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کوئی حاکم فیصلہ کرے اور خوب احتیاط و اجتہاد سے کام لے اور صحیح فیصلہ کرے تو اسے دہرا اجر ملے گا اور اگر احتیاط کے باوجود غلطی ہوجائے تو پھر بھی اسے اکہرا اجر ملے گا۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔
حدثنا ابو سلمة الخزاعي ، قال: اخبرنا عبد الله بن جعفر بن عبد الرحمن بن المسور بن مخرمة ، قال: اخبرني يزيد بن عبد الله بن اسامة بن الهاد ، عن بسر بن سعيد ، عن ابي قيس مولى عمرو بن العاص، قال: سمع عمرو بن العاص رجلا يقرا آية من القرآن، فقال: من اقراكها؟ قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال: فقد اقرانيها رسول الله صلى الله عليه وسلم على غير هذا! فذهبا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال احدهما: يا رسول الله، آية كذا وكذا! ثم قراها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هكذا انزلت". فقال الآخر: يا رسول الله! فقراها على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال: اليس هكذا يا رسول الله! قال:" هكذا انزلت". فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن هذا القرآن انزل على سبعة احرف، فاي ذلك قراتم فقد احسنتم، ولا تماروا فيه، فإن المراء فيه كفر، او آية الكفر" .حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ الْخُزَاعِيُّ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ الْهَادِ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ مَوْلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: سَمِعَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ رَجُلًا يَقْرَأُ آيَةً مِنَ الْقُرْآنِ، فَقَالَ: مَنْ أَقْرَأَكَهَا؟ قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: فَقَدْ أَقْرَأَنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى غَيْرِ هَذَا! فَذَهَبَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، آيَةُ كَذَا وَكَذَا! ثُمَّ قَرَأَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَكَذَا أُنْزِلَتْ". فَقَالَ الْآخَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَقَرَأَهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: أَلَيْسَ هَكَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ:" هَكَذَا أُنْزِلَتْ". فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، فَأَيَّ ذَلِكَ قَرَأْتُمْ فَقَدْ أَحْسَنْتُمْ، وَلَا تَمَارَوْا فِيهِ، فَإِنَّ الْمِرَاءَ فِيهِ كُفْرٌ، أَوْ آيَةُ الْكُفْرِ" .
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے ایک آدمی کو قرآن کریم کی ایک آیت پڑھتے ہوئے سنا تو اس سے پوچھا کہ یہ آیت تمہیں کس نے پڑھائی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تو یہ آیت کسی اور طرح پڑھائی ہے، چنانچہ وہ دونوں بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے، ان میں سے ایک نے اس آیت کا حوالہ دے کر اسے پڑھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ آیت اس طرح نازل ہوئی ہے، دوسرے نے اپنے طریقے کے مطابق اس کی تلاوت کی اور کہنے لگا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ آیت اس طرح نازل نہیں ہوئی! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی طرح نازل ہوئی ہے، پھر فرمایا یہ قرآن کریم سات حرفوں پر نازل کیا گیا ہے، جس حرف کے مطابق پڑھو گے، صحیح پڑھو گے، اس لئے تم قرآن کریم میں مت جھگڑا کرو کیونکہ قرآن میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وصورة هذا الحديث صورة المرسل
حضرت عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس قوم میں سود عام ہوجائے، وہ قحط سالی میں مبتلا ہوجاتی ہے اور جس قوم میں رشوت عام ہوجائے، وہ مرعوب ہوجاتی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً، عبدالله بن لهيعة سيئ الحفظ ، ومحمد بن راشد مجهول، ويبدو أنه سقط رجل بين محمد بن راشد وعمرو
حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن ابي صالح ، قال: استاذن عمرو بن العاص على فاطمة، فاذنت له، قال: ثم علي؟ قالوا: لا. قال: فرجع، ثم استاذن عليها مرة اخرى، فقال: ثم علي؟ قالوا: نعم. فدخل عليها، فقال له علي: ما منعك ان تدخل حين لم تجدني هاهنا؟ قال:" إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهانا ان ندخل على المغيبات" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ عَلَى فَاطِمَةَ، فَأَذِنَتْ لَهُ، قَالَ: ثَمَّ عَلِيٌّ؟ قَالُوا: لَا. قَالَ: فَرَجَعَ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عَلَيْهَا مَرَّةً أُخْرَى، فَقَالَ: ثَمَّ عَلِيٌّ؟ قَالُوا: نَعَمْ. فَدَخَلَ عَلَيْهَا، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَدْخُلَ حِينَ لَمْ تَجِدْنِي هَاهُنَا؟ قَالَ:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَانَا أَنْ نَدْخُلَ عَلَى الْمُغِيبَاتِ" .
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سے ملنے کی اجازت مانگی، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے انہیں اجازت دے دی، انہوں پوچھا کہ یہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں؟ انہوں نے کہا نہیں، اس پر وہ چلے گئے، دوسری مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ موجود تھے لہذا وہ اندر چلے گئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے اجازت لینے کی وجہ پوچھی تو حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس بات سے منع فرمایا ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر عورتوں کے پاس نہ جائیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه وشواهده، أبو صالح لم يدرك فاطمة ، ولم يصرح بسماعه لهذا الحديث من عمرو، ولعله رواه عنه بواسطة مولاه، فقد روي عنه قصة بنحو هذه، لكن فى دخوله على أسماء بنت عميس
حدثنا ابو النضر ، قال: حدثنا الفرج ، قال: حدثنا محمد بن عبد الاعلى ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو ، عن عمرو بن العاص ، قال: جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم خصمان يختصمان، فقال لعمرو:" اقض بينهما يا عمرو". فقال: انت اولى بذلك مني يا رسول الله. قال:" وإن كان". قال: فإذا قضيت بينهما فما لي؟ قال: " إن انت قضيت بينهما فاصبت القضاء، فلك عشر حسنات، وإن انت اجتهدت واخطات، فلك حسنة" ..حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفَرَجُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: جَاءَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَصْمَانِ يَخْتَصِمَانِ، فَقَالَ لِعَمْرٍو:" اقْضِ بَيْنَهُمَا يَا عَمْرُو". فَقَالَ: أَنْتَ أَوْلَى بِذَلِكَ مِنِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ:" وَإِنْ كَانَ". قَالَ: فَإِذَا قَضَيْتُ بَيْنَهُمَا فَمَا لِي؟ قَالَ: " إِنْ أَنْتَ قَضَيْتَ بَيْنَهُمَا فَأَصَبْتَ الْقَضَاءَ، فَلَكَ عَشْرُ حَسَنَاتٍ، وَإِنْ أَنْتَ اجْتَهَدْتَ وَأَخْطَأْتَ، فَلَكَ حَسَنَةٌ" ..
حضرت عمرو بن عاص سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمی اپنا جھگڑا لے کر آئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اے عمرو! ان کے درمیان تم فیصلہ کرو، انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے زیادہ آپ اس کے حقدار ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمرو! ان کے درمیان تم فیصلہ کرو، انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے زیادہ آپ اس کے حقدار ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے باوجود میں تمہیں یہی حکم دیتا ہوں، انہوں نے کہا کہ اگر میں ان کے درمیان فیصلہ کر دوں تو مجھے کیا ثواب ملے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم نے ان کے درمیان فیصلہ کیا اور صحیح کیا تو تمہیں دس نیکیاں ملیں گی اور اگر تم نے محنت تو کی لیکن فیصلہ میں غلطی ہوگئی تو تمہیں ایک نیکی ملے گی۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا هاشم ، قال: حدثنا الفرج ، عن ربيعة بن يزيد ، عن عقبة بن عامر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله، غير انه قال:" فإن اجتهدت فاصبت القضاء، فلك عشرة اجور، وإن اجتهدت فاخطات، فلك اجر واحد".حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفَرَجُ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ:" فَإِنْ اجْتَهَدْتَ فَأَصَبْتَ الْقَضَاءَ، فَلَكَ عَشَرَةُ أُجُورٍ، وَإِنْ اجْتَهَدْتَ فَأَخْطَأْتَ، فَلَكَ أَجْرٌ وَاحِدٌ".
حدثنا سليمان بن حرب ، وحسن بن موسى : قالا: حدثنا حماد بن سلمة ، عن ابي جعفر الخطمي ، عن عمارة بن خزيمة بن ثابت ، قال: كنا مع عمرو بن العاص في حج او عمرة حتى إذا كنا بمر الظهران، فإذا امراة في هودجها قد وضعت يدها على هودجها، قال: فمال فدخل الشعب، فدخلنا معه، فقال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في هذا المكان، فإذا نحن بغربان كثيرة، فيها غراب اعصم احمر المنقار والرجلين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يدخل الجنة من النساء إلا مثل هذا الغراب في هذه الغربان" . قال حسن: فإذا امراة في يديها حبائرها وخواتيمها قد وضعت يديها. ولم يقل حسن بمر الظهران.حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، وَحَسَنُ بْنُ مُوسَى : قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْخَطْمِيِّ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِمَرِّ الظَّهْرَانِ، فَإِذَا امْرَأَةٌ فِي هَوْدَجِهَا قَدْ وَضَعَتْ يَدَهَا عَلَى هَوْدَجِهَا، قَالَ: فَمَالَ فَدَخَلَ الشِّعْبَ، فَدَخَلْنَا مَعَهُ، فَقَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَكَانِ، فَإِذَا نَحْنُ بِغِرْبَانٍ كَثِيرَةٍ، فِيهَا غُرَابٌ أَعْصَمُ أَحْمَرُ الْمِنْقَارِ وَالرِّجْلَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مِثْلُ هَذَا الْغُرَابِ فِي هَذِهِ الْغِرْبَانِ" . قَالَ حَسَنٌ: فَإِذَا امْرَأَةٌ فِي يَدَيْهَا حَبَائِرُهَا وَخَوَاتِيمُهَا قَدْ وَضَعَتْ يَدَيْهَا. وَلَمْ يَقُلْ حَسَنٌ بِمَرِّ الظَّهْرَانِ.
عمارہ بن خزیمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حج یا عمرہ کے سفر میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، وہ کہنے لگے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ اسی جگہ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو! تمہیں کچھ دکھائی دے رہا ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ چند کوے نظر آرہے ہیں، جن میں ایک سفید کوا بھی ہے جس کی چونچ اور دونوں پاؤں سرخ رنگ کے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں صرف وہی عورتیں داخل ہو سکیں گی جو کو وں کی اس جماعت میں اس کوے کی طرح ہوں گی۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات، لكن تفرد به حماد بن سلمة
حدثنا يحيى بن إسحاق ، اخبرنا ليث بن سعد ، عن يزيد بن ابي حبيب ، عن ابن شماسة ، ان عمرو بن العاص ، قال: لما القى الله عز وجل في قلبي الإسلام، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم ليبايعني، فبسط يده إلي، فقلت: لا ابايعك يا رسول الله حتى تغفر لي ما تقدم من ذنبي. قال: فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا عمرو، اما علمت ان الهجرة تجب ما قبلها من الذنوب، يا عمرو، اما علمت ان الإسلام يجب ما كان قبله من الذنوب؟" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ ، أَخْبَرَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ ابْنِ شِمَاسَةَ ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ ، قَالَ: لَمَّا أَلْقَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي قَلْبِي الْإِسْلَامَ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُبَايِعَنِي، فَبَسَطَ يَدَهُ إِلَيَّ، فَقُلْتُ: لَا أُبَايِعُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ حَتَّى تَغْفِرَ لِي مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِي. قَالَ: فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَمْرُو، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْهِجْرَةَ تَجُبُّ مَا قَبْلَهَا مِنَ الذُّنُوبِ، يَا عَمْرُو، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ يَجُبُّ مَا كَانَ قَبْلَهُ مِنَ الذُّنُوبِ؟" .
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی حقانیت پیدا فرما دی تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں بیعت کے لئے حاضر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک میری جانب بڑھایا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم میں اس وقت تک آپ سے بیعت نہیں کروں گا جب تک آپ میری گزشتہ لغزشات کو معاف نہیں کردیتے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمرو! کیا تم نہیں جانتے کہ ہجرت اپنے سے پہلے کے تمام گناہ مٹا دیتی ہے؟ اے عمرو! کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام اپنے سے پہلے کے تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے!۔