حدثنا جرير بن عبد الحميد ، عن يزيد بن ابي زياد ، عن عبد الله بن الحارث ، عن عبد المطلب بن ربيعة ، قال: دخل العباس على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إنا لنخرج فنرى قريشا تحدث، فإذا راونا سكتوا! فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم ودر عرق بين عينيه، ثم قال: " والله لا يدخل قلب امرئ إيمان حتى يحبكم لله عز وجل ولقرابتي" .حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، عن عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ ، قَالَ: دَخَلَ الْعَبَّاسُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا لَنَخْرُجُ فَنَرَى قُرَيْشًا تَحَدَّثُ، فَإِذَا رَأَوْنَا سَكَتُوا! فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَرَّ عِرْقٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " وَاللَّهِ لَا يَدْخُلُ قَلْبَ امْرِئٍ إِيمَانٌ حَتَّى يُحِبَّكُمْ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلِقَرَابَتِي" .
حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگ اپنے گھر سے نکلتے ہیں تو قریش کو باتیں کرتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن جب وہ ہمیں قریب آتے ہوئے دیکھتے ہیں تو خاموش ہوجاتے ہیں؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھوں کے درمیان پیشانی پر موجود رگ پھولنے لگی اور فرمایا اللہ کی قسم! کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہوسکتا جب تک وہ اللہ کی رضاء کے لئے اور میری قرابت داری کی وجہ سے تم سے محبت نہیں کرتا۔
حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا يزيد يعني ابن عطاء ، عن يزيد يعني ابن ابي زياد ، عن عبد الله بن الحارث بن نوفل ، حدثني عبد المطلب بن ربيعة بن الحارث بن عبد المطلب ، قال: دخل العباس على رسول الله صلى الله عليه وسلم مغضبا، فقال له:" ما يغضبك؟" قال: يا رسول الله، ما لنا ولقريش، إذا تلاقوا بينهم تلاقوا بوجوه مبشرة، وإذا لقونا لقونا بغير ذلك! فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى احمر وجهه، وحتى استدر عرق بين عينيه، وكان إذا غضب استدر، فلما سري عنه، قال:" والذي نفسي بيده، او قال: والذي نفس محمد بيده لا يدخل قلب رجل الإيمان حتى يحبكم لله عز وجل ولرسوله"، ثم قال:" يا ايها الناس، من آذى العباس، فقد آذاني، إنما عم الرجل صنو ابيه" .حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ عَطَاءٍ ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ أَبِي زِيَادٍ ، عن عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمُطَّلِبِ بْنُ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، قَالَ: دَخَلَ الْعَبَّاسُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُغْضَبًا، فَقَالَ لَهُ:" مَا يُغْضِبُكَ؟" قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَنَا وَلِقُرَيْشٍ، إِذَا تَلَاقَوْا بَيْنَهُمْ تَلَاقَوْا بِوُجُوهٍ مُبْشِرَةٍ، وَإِذَا لَقُونَا لَقُونَا بِغَيْرِ ذَلِكَ! فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ، وَحَتَّى اسْتَدَرَّ عِرْقٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ، وَكَانَ إِذَا غَضِبَ اسْتَدَرَّ، فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْهُ، قَالَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، أَوْ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَا يَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الْإِيمَانُ حَتَّى يُحِبَّكُمْ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلِرَسُولِهِ"، ثُمَّ قَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، مَنْ آذَى الْعَبَّاسَ، فَقَدْ آذَانِي، إِنَّمَا عَمُّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِيهِ" .
حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ غصے کی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگ اپنے گھر سے نکلتے ہیں تو قریش کو باتیں کرتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن جب وہ ہمیں قریب آتے ہوئے دیکھتے ہیں تو خاموش ہوجاتے ہیں؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھوں کے درمیان پیشانی پر موجود رگ پھولنے لگی اور فرمایا اللہ کی قسم! کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہوسکتا جب تک وہ اللہ کی رضاء کے لئے اور میری قرابت داری کی وجہ سے تم سے محبت نہیں کرتا۔ پھر فرمایا لوگو! جس نے عباس کو ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی، کیونکہ انسان کا چچا اس کے باپ کے قائمقام ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد و يزيد بن عطاء
حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا يزيد بن عطاء ، عن يزيد ، عن عبد الله بن الحارث بن نوفل ، عن عبد المطلب بن ربيعة بن الحارث بن عبد المطلب ، قال: اتى ناس من الانصار النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا: إنا نسمع من قومك حتى يقول القائل منهم: إنما مثل محمد مثل نخلة نبتت في كباء، قال حسين: الكبا: الكناسة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ايها الناس، من انا؟" قالوا: انت رسول الله. قال:" انا محمد بن عبد الله بن عبد المطلب"، قال: فما سمعناه قط ينتمي قبلها." الا إن الله عز وجل خلق خلقه، فجعلني من خير خلقه، ثم فرقهم فرقتين فجعلني من خير الفرقتين، ثم جعلهم قبائل فجعلني من خيرهم قبيلة، ثم جعلهم بيوتا، فجعلني من خيرهم بيتا، وانا خيركم بيتا وخيركم نفسا" .حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَطَاءٍ ، عَنْ يَزِيدَ ، عن عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ ، عن عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، قَالَ: أَتَى نَاسٌ مِنَ الْأَنْصَارِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: إِنَّا نَسْمَعُ مِنْ قَوْمِكَ حَتَّى يَقُولَ الْقَائِلُ مِنْهُمْ: إِنَّمَا مِثْلُ مُحَمَّدٍ مِثْلُ نَخْلَةٍ نَبَتَتْ فِي كِبَاءٍ، قَالَ حُسَيْنٌ: الْكِبَا: الْكُنَاسَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، مَنْ أَنَا؟" قَالُوا: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ. قَالَ:" أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ"، قَالَ: فَمَا سَمِعْنَاهُ قَطُّ يَنْتَمِي قَبْلَهَا." أَلَا إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ خَلْقَهُ، فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِ خَلْقِهِ، ثُمَّ فَرَّقَهُمْ فِرْقَتَيْنِ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِ الْفِرْقَتَيْنِ، ثُمَّ جَعَلَهُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِهِمْ قَبِيلَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ بُيُوتًا، فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِهِمْ بَيْتًا، وَأَنَا خَيْرُكُمْ بَيْتًا وَخَيْرُكُمْ نَفْسًا" .
حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ انصاری لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم آپ کی قوم سے بہت سی باتیں سنتے ہیں، وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال تو اس درخت کی سی ہے جو کوڑا کرکٹ میں اگ آیا ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو! میں کون ہوں؟ انہوں نے کہا کہ آپ اللہ کے پیغمبر ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نسبی طور پر میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں، ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے قبل اس طرح نسبت کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا، اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو جب پیدا کیا تو مجھے سب سے بہترین مخلوق میں رکھا، پھر اسے دو حصوں میں تقسیم کیا اور مجھے ان میں سے بہترین حصے میں رکھا، پھر انہیں قبیلوں میں تقسی کیا اور مجھے سب سے بہترین قبیلے میں رکھا، پھر انہیں خانوادوں میں تقسیم کیا اور مجھے سب سے بہترین گھرانے میں رکھا اور میں گھرانے اور ذات کے اعتبار سے تم سب سے بہتر ہوں۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف راوييه: يزيد بن عطاء ويزيد بن أبى زياد، وقد أضطرب الأخير فى إسناد هذا الحديث
حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا ابن مبارك ، عن يونس ، عن الزهري ، عن عبد الله بن الحارث بن نوفل ، عن عبد المطلب بن ربيعة بن الحارث ، انه هو والفضل اتيا رسول الله صلى الله عليه وسلم ليزوجهما ويستعملهما على الصدقة، فيصيبان من ذلك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن هذه الصدقة إنما هي اوساخ الناس، وإنها لا تحل لمحمد ولا لآل محمد". ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لمحمية الزبيدي:" زوج الفضل"، وقال لنوفل بن الحارث بن عبد المطلب:" زوج عبد المطلب بن ربيعة"، وقال لمحمية بن جزء الزبيدي وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يستعمله على الاخماس، فامره رسول الله صلى الله عليه وسلم يصدق عنهما من الخمس شيئا لم يسمه عبد الله بن الحارث . وفي اول هذا الحديث ان عليا لقيهما فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يستعملكما. فقالا: هذا حسدك. فقال: انا ابو حسن القوم، لا ابرح حتى انظر ما يرد عليكما. فلما كلماه سكت، فجعلت زينب تلوح بثوبها إنه في حاجتكما.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَكِ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ ، عن عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ ، أَنَّهُ هُوَ وَالْفَضْلُ أَتَيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُزَوِّجَهُمَا وَيَسْتَعْمِلَهُمَا عَلَى الصَّدَقَةِ، فَيُصِيبَانِ مِنْ ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ هَذِهِ الصَّدَقَةَ إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ، وَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ وَلَا لِآلِ مُحَمَّدٍ". ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِمَحْمِيَةَ الزُّبَيْدِيِّ:" زَوِّجْ الْفَضْلَ"، وَقَالَ لِنَوْفَلِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ:" زَوِّجْ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِيعَةَ"، وَقَالَ لِمَحْمِيَةَ بْنِ جَزْءٍ الزُّبَيْدِيِّ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَعْمِلُهُ عَلَى الْأَخْمَاسِ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصْدِقُ عَنْهُمَا مِنَ الْخُمُسِ شَيْئًا لَمْ يُسَمِّهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ . وَفِي أَوَّلِ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ عَلِيًّا لَقِيَهُمَا فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَسْتَعْمِلُكُمَا. فَقَالَا: هَذَا حَسَدُكَ. فَقَالَ: أَنَا أَبُو حَسَنِ الْقَوْمِ، لَا أَبْرَحُ حَتَّى أَنْظُرَ مَا يَرُدُّ عَلَيْكُمَا. فَلَمَّا كَلَّمَاهُ سَكَتَ، فَجَعَلَتْ زَيْنَبُ تُلَوِّحُ بِثَوْبِهَا إِنَّهُ فِي حَاجَتِكُمَا.
حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ اور فضل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی شادی بھی کروا دیں اور انہیں زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے مقرر کردیں تاکہ انہیں بھی کچھ مل جائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ صدقات لوگوں کے مال کا میل کچیل ہوتے ہیں اس لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے حلال نہیں ہے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محمیہ زبیدی سے فرمایا کہ اپنی بیٹی کا نکاح فضل سے کردو اور نفول بن حارث سے فرمایا کہ تم اپنی بیٹی کا نکاح عبدالمطلب بن ربیعہ سے کردو، پھر محمیہ جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس پر مقرر فرما رکھا تھا سے فرمایا کہ انہیں خمس میں سے اتنے پیسے دے دو کہ یہ مہر ادا کرسکیں اور اس حدیث کے آغاز میں یہ تفصیل بھی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ان دونوں سے ملاقات ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں کبھی بھی زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے مقرر نہیں فرمائیں گے، وہ کہنے لگے کہ یہ تمہارا حسد ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں ابو حسن ہوں، میری رائے مقدم ہوتی ہے، میں اس وقت تک واپس نہیں جاؤں گا جب تک یہ نہ دیکھ لوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں کیا جواب دیتے ہیں؟ چنانچہ جب ان دونوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے اور حضرت زینت رضی اللہ عنہ اپنے کپڑے کو ہلا کر اشارہ کرنے لگیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہارا کام کردیں گے۔
حدثنا يعقوب ، وسعد ، قالا: حدثنا ابي ، عن صالح ، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله بن الحارث بن نوفل بن الحارث بن عبد المطلب اخبره، ان عبد المطلب بن ربيعة بن الحارث بن عبد المطلب اخبره، انه اجتمع ربيعة بن الحارث، وعباس بن عبد المطلب , فقالا: والله لو بعثنا هذين الغلامين فقال لي وللفضل بن عباس إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فامرهما على هذه الصدقات، فاديا ما يؤدي الناس، واصابا ما يصيب الناس من المنفعة، فبينما هما في ذلك، جاء علي بن ابي طالب فقال: ماذا تريدان؟ فاخبراه بالذي ارادا، قال: فلا تفعلا , فوالله ما هو بفاعل، فقال: لم تصنع هذا؟ فما هذا منك إلا نفاسة علينا، لقد صحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ونلت صهره، فما نفسنا ذلك عليك. قال: فقال: انا ابو حسن، ارسلوهما، ثم اضطجع، قال: فلما صلى الظهر، سبقناه إلى الحجرة، فقمنا عندها حتى مر بنا، فاخذ بايدينا، ثم قال:" اخرجا ما تصرران"، ودخل فدخلنا معه، وهو حينئذ في بيت زينب بنت جحش، قال: فكلمناه، فقلنا: يا رسول الله، جئناك لتؤمرنا على هذه الصدقات فنصيب ما يصيب الناس من المنفعة، ونؤدي إليك ما يؤدي الناس. قال: فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم ورفع راسه إلى سقف البيت حتى اردنا ان نكلمه، قال: فاشارت إلينا زينب من وراء حجابها كانها تنهانا عن كلامه، واقبل فقال: " الا إن الصدقة لا تنبغي لمحمد ولا لآل محمد، إنما هي اوساخ الناس. ادعوا لي محمية بن جزء وكان على العشر، وابا سفيان بن الحارث" فاتيا، فقال لمحمية:" اصدق عنهما من الخمس" . حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن محمد بن إسحاق ، قال: حدثنا الزهري ، عن محمد بن عبد الله بن نوفل بن الحارث ، عن عبد المطلب بن ربيعة بن الحارث قال: اجتمع العباس بن عبد المطلب، وابن ربيعة بن الحارث في المسجد، فذكر الحديث.حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، وَسَعْدٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبِي ، عن صَالِحٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ اجْتَمَعَ رَبِيعَةُ بْنُ الْحَارِثِ، وَعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ , فَقَالَا: وَاللَّهِ لَوْ بَعَثْنَا هَذَيْنِ الْغُلَامَيْنِ فَقَالَ لِي وَلِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَّرَهُمَا عَلَى هَذِهِ الصَّدَقَاتِ، فَأَدَّيَا مَا يُؤَدِّي النَّاسُ، وَأَصَابَا مَا يُصِيبُ النَّاسُ مِنَ الْمَنْفَعَةِ، فَبَيْنَمَا هُمَا فِي ذَلِكَ، جَاءَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ: مَاذَا تُرِيدَانِ؟ فَأَخْبَرَاهُ بِالَّذِي أَرَادَا، قَالَ: فَلَا تَفْعَلَا , فَوَاللَّهِ مَا هُوَ بِفَاعِلٍ، فَقَالَ: لِمَ تَصْنَعُ هَذَا؟ فَمَا هَذَا مِنْكَ إِلَّا نَفَاسَةً عَلَيْنَا، لَقَدْ صَحِبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنِلْتَ صِهْرَهُ، فَمَا نَفِسْنَا ذَلِكَ عَلَيْكَ. قَالَ: فَقَالَ: أَنَا أَبُو حَسَنٍ، أَرْسِلُوهُمَا، ثُمَّ اضْطَجَعَ، قَالَ: فَلَمَّا صَلَّى الظُّهْرَ، سَبَقْنَاهُ إِلَى الْحُجْرَةِ، فَقُمْنَا عِنْدَهَا حَتَّى مَرَّ بِنَا، فَأَخَذَ بِأَيْدِينَا، ثُمَّ قَالَ:" أَخْرِجَا مَا تُصَرِّرَانِ"، وَدَخَلَ فَدَخَلْنَا مَعَهُ، وَهُوَ حِينَئِذٍ فِي بَيْتِ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، قَالَ: فَكَلَّمْنَاهُ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، جِئْنَاكَ لِتُؤَمِّرَنَا عَلَى هَذِهِ الصَّدَقَاتِ فَنُصِيبَ مَا يُصِيبُ النَّاسُ مِنَ الْمَنْفَعَةِ، وَنُؤَدِّي إِلَيْكَ مَا يُؤَدِّي النَّاسُ. قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى سَقْفِ الْبَيْتِ حَتَّى أَرَدْنَا أَنْ نُكَلِّمَهُ، قَالَ: فَأَشَارَتْ إِلَيْنَا زَيْنَبُ مِنْ وَرَاءِ حِجَابِهَا كَأَنَّهَا تَنْهَانَا عَنْ كَلَامِهِ، وَأَقْبَلَ فَقَالَ: " أَلَا إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَنْبَغِي لِمُحَمَّدٍ وَلَا لِآلِ مُحَمَّدٍ، إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ. ادْعُوا لِي مَحْمِيَةَ بْنَ جَزْءٍ وَكَانَ عَلَى الْعُشْرِ، وَأَبَا سُفْيَانَ بْنَ الْحَارِثِ" فَأَتَيَا، فَقَالَ لِمَحْمِيَةَ:" أَصْدِقْ عَنْهُمَا مِنَ الْخُمُسِ" . حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ الْحَارِثِ ، عن عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ: اجْتَمَعَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَابْنُ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ فِي الْمَسْجِدِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا محمیہ جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس پر مقرر فرما رکھا تھا اور ابو سفیان بن حارث کو بلا کر ان سے فرمایا کہ انہیں خمس سے اتنے پیسے دے دو کہ یہ مہر ادا کرسکیں۔ ایک مرتبہ ربیعہ بن حارث اور عباس بن عبدالمطلب جمع ہوئے اور کہنے لگے کہ ان دونوں لڑکوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجنا چاہئے، چنانچہ انہوں نے مجھے اور فضل کو بلا کر کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے جاؤ، وہ تمہیں زکوٰۃ کی وصولی پر مقرر کردیں گے، تم لوگوں کی طرح ذمہ داری ادا کردو اور لوگوں کی منفعت حاصل کرو، اسی دوران حضرت علی رضی اللہ عنہ آگئے، انہوں نے پوچھا کہ تمہارا کیا ارادہ ہے؟ انہوں نے اپنا ارادہ بتایا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایسا نہ کرو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں کبھی بھی زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے مقرر نہیں فرمائیں گے، وہ کہنے لگے کہ یہ تمہارا حسد ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں ابو حسن ہوں، میری رائے مقدم ہوتی ہے، میں اس وقت تک واپس نہیں جاؤں گا جب تک یہ نہ دیکھ لوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں کیا جواب دیتے ہیں؟ چنانچہ جب ان دونوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے اور حضرت زینب رضی اللہ عنہ اپنے کپڑے کو ہلا کر اشارہ کرنے لگیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہارا کام کردیں گے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ صدقات لوگوں کے مال کا میل کچیل ہوتے ہیں، اس لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے حلال نہیں ہیں۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا يعقوب حدثنا ابي عن محمد بن إسحاق قال: حدثنا الزهري عن محمد بن عبد الله بن نوفل بن الحارث عن عبد المطلب بن ربيعة بن الحارث قال: اجتمع العباس بن عبد المطلب، وابن ربيعة بن الحارث في المسجد، فذكر الحديثحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ الْحَارِثِ عن عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ: اجْتَمَعَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَابْنُ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ فِي الْمَسْجِدِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ