مسنَد الشَّامِیِّینَ 522. حَدِیث سرَاقَةَ بنِ مَالِكِ بنِ جعشم رَضِیَ اللَّه تَعَالَى عَنه
حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان بھٹکے ہوئے اونٹوں کا مسئلہ پوچھا جو میرے حوض پر آئیں تو کیا مجھے ان کو پانی پلانے پر اجروثواب ملے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! ہر تر جگر رکھنے والے میں اجروثواب ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن
حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وادی میں خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا یاد رکھو! قیامت تک کے لئے عمرہ، حج میں داخل ہوگیا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا الإسناد منقطع، طاؤوس لم يسمعه من سراقة
حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت تک کے لئے عمرہ، حج میں داخل ہوگیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں حج قرآن فرمایا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف داود، لكنه توبع
حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان بھٹکے ہوئے اونٹوں کا مسئلہ پوچھا جو میرے حوض پر آئیں تو کیا مجھے ان کو پانی پلانے پر اجروثواب ملے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! ہر تر جگر رکھنے والے میں اجروثواب ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن
حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سراقہ! کیا میں تمہیں اہل جنت اور اہل جہنم کے بارے نہ بتاؤں؟ عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہنمی تو ہر وہ شخص ہوگا جو سخت دل، تند خو اور متکبر ہو اور جنتی وہ لوگ ہوں گے جو کمزور اور مغلوب ہوں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا الإسناد منقطع، على بن رباح لم يسمعه من سراقة
حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا سراقہ! کیا میں تمہیں سب سے عظیم صدقہ نہ بتاؤں؟ عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری وہ بیٹی جو اپنے شوہر کی وفات یا طلاق کی وجہ سے تمہارے پاس واپس جائے اور تمہارے علاوہ اس کا کوئی کمانے والا نہ ہو۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات غير أن على بن رباح لم يسمعه من سراقة
حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات میں حاضر خدمت ہوا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات پوچھنا شروع کردیئے، حتی کہ میرے پاس سوالات ختم ہوگئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کچھ اور یاد کرلو، ان سوالات میں سے ایک سوال میں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ! وہ بھٹکے ہوئے اونٹ جو میرے حوض پر آئیں تو کیا مجھے ان کو پانی پلانے پر اجروثواب ملے گا؟ جبکہ میں نے وہ پانی اپنے اونٹوں کے لئے بھرا ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! ہر تر جگر رکھنے والے میں اجروثواب ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد مرسل، عبدالرحمن بن مالك لم يشهد القصة ، فهو تابعي
حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات میں حاضر خدمت ہوا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات پوچھنا شروع کردیئے، حتی کہ میرے پاس سوالات ختم ہوگئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کچھ اور یاد کرلو، ان سوالات میں سے ایک سوال میں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم وہ بھٹکے ہوئے اونٹ جو میرے حوض پر آئیں تو کیا مجھے ان کو پانی پلانے پر اجروثواب ملے گا؟ جبکہ میں نے وہ پانی اپنے اونٹوں کے لئے بھرا ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! ہر تر جگر رکھنے والے میں اجروثواب ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ بتائیے! کیا سفر حج میں عمرہ کا یہ حکم صرف ہمارے لئے ہے یا ہمیشہ کے لئے ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمیشہ کے لئے ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا الإسناد منقطع، طاؤوس لم يسمعه من سراقة
حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! یہ بتائیے! کیا سفر حج میں عمرہ کا یہ حکم صرف ہمارے لئے ہے یا ہمیشہ کے لئے ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمیشہ کے لئے ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا الإسناد منقطع، طاؤوس لم يسمعه من سراقة
حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے (میرے قبول اسلام سے پہلے ہجرت کے موقع پر) کفار قریش کے کچھ قاصد ہمارے پاس آئے اور بتایا کہ قریش نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو شہید یا قید کرنے والے کے لئے پوری پوری دیت (سو اونٹوں) کا اعلان کیا ہے، ابھی میں اپنی قوم بنو مدلج کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی آیا اور ہمارے پاس کھڑے ہو کر کہنے لگا اے سراقہ! میں نے ابھی ساحل کی طرف کچھ لوگوں کو جاتے ہوئے دیکھا ہے، میرا خیال ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی ہیں، سراقہ کہتے ہیں کہ میں سمجھ گیا یہ وہی لوگ ہیں لیکن میں نے ان سے کہہ دیا کہ یہ وہ لوگ نہیں ہیں، تم نے فلاں فلاں شخص کو دیکھا ہوگا جو ابھی ابھی یہاں سے گذر کر گئے ہیں۔ پھر میں تھوڑی دیر تک اس مجلس میں بیٹھا رہا، اس کے بعد میں کھڑا ہوا اور گھر چلا گیا اور اپنی باندی کو حکم دیا کہ ٹیلے کے پیچھے میرا گھوڑا لے جائے اور میرا انتظار کرے، پھر میں نے اپنا نیزہ سنبھالا اور گھر سے نکل پڑا، میں اپنے نیزے سے زمین پر لکیر کھینچتا چلا جا رہا تھا کہ اپنے گھوڑے کے پاس پہنچ گیا، میں اس پر سوار ہوا اور اسے سرپٹ دوڑا دیا، میں ان کے اتنا قریب پہنچ گیا کہ ان کا جسم مجھے نظر آنے لگا۔ جب میں ان دونوں کے اتنا قریب ہوا کہ ان کی آواز سنی جاسکتی تھی تو میرا گھوڑا ٹھوکر کھا کر گرپڑا اور میں بھی اس سے نیچے آپڑا، میں زمین سے اٹھا اور اپنے ترکش سے تیر نکالے اور فال نکالنے لگا کہ انہیں نقصان پہنچاؤں یا نہیں؟ فال میں وہ تیر نکل آیا جو مجھے ناپسد تھا یعنی انہیں نقصان نہ پہنچاؤں، لیکن میں نے تیر کی بات کو ہوا میں اڑا دیا اور دوبارہ گھوڑے پر سوار ہوگیا، لیکن دوسری مرتبہ پھر اسی طرح ہوا، تیسری مرتبہ جب میں قریب پہنچا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت سنائی دینے لگی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم دائیں بائیں نہیں دیکھ رہے تھے لیکن حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بار بار ادھر ادھر دیکھتے تھے تو میرے گھوڑے کے اگلے دونوں پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے اور میں گرپڑا۔ میں نے ڈانٹ کر اپنے گھوڑے کو اٹھایا، وہ اٹھ تو گیا لیکن اس کے پاؤں باہر نہیں نکل سکے اور جب وہ سیدھا کھڑا ہوا تو وہاں سے دھوئیں کا ایک بادل آسمان تک چھا گیا، میں نے ایک مرتبہ پھر تیروں سے فال نکالی تو حسب سابق وہی تیر نکلا جو مجھے ناپسند تھا، یعنی انہیں نقصان نہ پہنچاؤں، چنانچہ میں نے ان دونوں کو آواز دے کر اپنی طرف سے اطمینان دلایا اور وہ رک گئے میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ان کے پاس پہنچ گیا۔
جب میرے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا تو اسی وقت میرے دل میں یہ بات جاگزیں ہوگئی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دین غالب آکر رہے گا، چنانچہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ کی قوم نے آپ کے لئے دیت کا اعلان کردیا ہے اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے سفر پر نکل پڑنے اور لوگوں کی جاسوسی کے متعلق سب کچھ بتادیا، پھر میں نے انہیں زاد راہ اور سامان سفر کی پیشکش کی، لیکن انہوں نے مجھ سے کچھ نہیں لیا اور مجھ سے یہی مطالبہ کیا کہ میں ان کے متعلق ان تمام حالات کو مخفی رکھوں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ میرے لئے پروانہ امن لکھ دیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عامر بن فہیرہ کو حکم دیا اور انہوں نے چمڑے کے ایک رقعے میں میرے لئے پروانہ امن لکھ دیا اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے روانہ ہوگئے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن
|