حدثنا ابو النضر ، حدثنا حريز ، عن يزيد بن صليح ، عن ذي مخمر وكان رجلا من الحبشة يخدم النبي صلى الله عليه وسلم، قال: كنا معه في سفر، فاسرع السير حين انصرف، وكان يفعل ذلك لقلة الزاد، فقال له قائل: يا رسول الله، قد انقطع الناس وراءك، فحبس وحبس الناس معه حتى تكاملوا إليه، فقال لهم: " هل لكم ان نهجع هجعة؟ او قال له قائل فنزل ونزلوا، فقال:" من يكلؤنا الليلة؟" فقلت: انا، جعلني الله فداءك، فاعطاني خطام ناقته، فقال:" هاك لا تكونن لكع"، قال: فاخذت بخطام ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم وبخطام ناقتي، فتنحيت غير بعيد، فخليت سبيلهما يرعيان، فإني كذاك انظر إليهما حتى اخذني النوم، فلم اشعر بشيء حتى وجدت حر الشمس على وجهي، فاستيقظت، فنظرت يمينا وشمالا فإذا انا بالراحلتين مني غير بعيد، فاخذت بخطام ناقة النبي صلى الله عليه وسلم، وبخطام ناقتي، فاتيت ادنى القوم فايقظته، فقلت له: اصليتم؟ قال: لا، فايقظ الناس بعضهم بعضا، حتى استيقظ النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" يا بلال، هل في الميضاة ماء؟" يعني الإداوة قال: نعم، جعلني الله فداك، فاتاه بوضوء، فتوضا، لم يلت منه التراب، فامر بلالا فاذن، ثم قام النبي صلى الله عليه وسلم، فصلى الركعتين قبل الصبح وهو غير عجل، ثم امره، فاقام الصلاة، فصلى وهو غير عجل، فقال له قائل: يا نبي الله فرطنا، قال:" لا، قبض الله عز وجل ارواحنا وقد ردها إلينا، وقد صلينا" حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا حَرِيزٌ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ صُلَيْحٍ ، عَنْ ذِي مِخْمَرٍ وَكَانَ رَجُلًا مِنَ الْحَبَشَةِ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: كُنَّا مَعَهُ فِي سَفَرٍ، فَأَسْرَعَ السَّيْرَ حِينَ انْصَرَفَ، وَكَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ لِقِلَّةِ الزَّادِ، فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ انْقَطَعَ النَّاسُ وَرَاءَكَ، فَحَبَسَ وَحَبَسَ النَّاسُ مَعَهُ حَتَّى تَكَامَلُوا إِلَيْهِ، فَقَالَ لَهُمْ: " هَلْ لَكُمْ أَنْ نَهْجَعَ هَجْعَةً؟ أَوْ قَالَ لَهُ قَائِلٌ فَنَزَلَ وَنَزَلُوا، فَقَالَ:" مَنْ يَكْلَؤُنَا اللَّيْلَةَ؟" فَقُلْتُ: أَنَا، جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ، فَأَعْطَانِي خِطَامَ نَاقَتِهِ، فَقَالَ:" هَاكَ لَا تَكُونُنَّ لُكَعَ"، قَالَ: فَأَخَذْتُ بِخِطَامِ نَاقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِخِطَامِ نَاقَتِي، فَتَنَحَّيْتُ غَيْرَ بَعِيدٍ، فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُمَا يَرْعَيَانِ، فَإِنِّي كَذَاكَ أَنْظُرُ إِلَيْهِمَا حَتَّى أَخَذَنِي النَّوْمُ، فَلَمْ أَشْعُرْ بِشَيْءٍ حَتَّى وَجَدْتُ حَرَّ الشَّمْسِ عَلَى وَجْهِي، فَاسْتَيْقَظْتُ، فَنَظَرْتُ يَمِينًا وَشِمَالًا فَإِذَا أَنَا بِالرَّاحِلَتَيْنِ مِنِّي غَيْرُ بَعِيدٍ، فَأَخَذْتُ بِخِطَامِ نَاقَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِخِطَامِ نَاقَتِي، فَأَتَيْتُ أَدْنَى الْقَوْمِ فَأَيْقَظْتُهُ، فَقُلْتُ لَهُ: أَصَلَّيْتُمْ؟ قَالَ: لَا، فَأَيْقَظَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، حَتَّى اسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَا بِلَالُ، هَلْ فِي الْمِيضَأَةِ مَاءٌ؟" يَعْنِي الْإِدَاوَةَ قَالَ: نَعَمْ، جَعَلَنِي اللَّهُ فَدَاكَ، فَأَتَاهُ بِوَضُوءٍ، فَتَوَضَّأَ، لَمْ يَلُتَّ مِنْهُ التُّرَابَ، فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ، ثُمَّ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الصُّبْحِ وَهُوَ غَيْرُ عَجِلٍ، ثُمَّ أَمَرَهُ، فَأَقَامَ الصَّلَاةَ، فَصَلَّى وَهُوَ غَيْرُ عَجِلٍ، فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ فْرَطْنَا، قَالَ:" لَا، قَبَضَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَرْوَاحَنَا وَقَدْ رَدَّهَا إِلَيْنَا، وَقَدْ صَلَّيْنَا"
حضرت ذومخمر (جنہیں ذومخبر بھی کہا جاتا ہے) جو ایک حبشی آدمی تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتے تھے کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے، واپسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رفتار تیز کردی، عام طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم زاد راہ کی قلت کی وجہ سے ایسا کرتے تھے، کسی آدمی نے کہا یا رسول اللہ! لوگ بہت پیچھے رہ گئے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے اور آپ کے ہمراہی بھی رک گئے، یہاں تک کہ سب لوگ پورے ہوگئے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور نے مشورہ دیا کہ یہیں پڑاؤ کرلیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اتر گئے اور سب لوگوں نے پڑاؤ ڈال لیا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا آج رات ہماری پہرہ داری کون کرے گا؟ میں نے اپنے آپ کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں کروں گا، اللہ مجھے آپ پر نثار کرے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی کی لگام مجھے پکڑا دی اور فرمایا غافل نہ ہوجانا، میں نے اپنی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی لگام پکڑی اور کچھ فاصلے پر جا کر ان دونوں کو چرنے کے لئے چھوڑ دیا، میں انہیں اسی طرح دیکھتا رہا کہ اچانک مجھے نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا اور مجھے کسی چیز کا شعور نہیں رہا یہاں تک کہ مجھے اپنے چہرے پر سورج کی تپش محسوس ہوئی تو میری آنکھ کھلی، میں نے دائیں بائیں دیکھا تو دونوں سواریاں مجھ سے زیادہ دور نہیں تھیں، میں نے ان دونوں کی لگام پکڑی اور قریب کے لوگوں کے پاس پہنچ کر انہیں جگایا اور پوچھا کہ تم لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ انہوں نے جواب دیا نہیں، پھر لوگ ایک دوسرے کو جگانے لگے، حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بیدار ہوگئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا بلال! کیا برتن میں وضو کے لئے پانی ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں! اللہ مجھے آپ پر نثار کرے، پھر وہ وضو کا پانی لے کر آئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، تیمم نہیں فرمایا: پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انہوں نے نے اذان دی، پھر نبی نے کھڑے ہو کر فجر سے پہلے کی دو سنتیں پڑھیں، اور اس مین جلدی نہیں کی، پھر حکم دیا تو انہوں نے اقامت کہی اور نبی نے اطمینان سے فجر کی نماز پڑھائی، نماز کے بعد کسی شخص نے عرض کیا، اے اللہ کے نبی! ہم سے کوتاہی ہوئی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں! اللہ ہی نے ہماری روحوں کو قبض کیا اور اسی نے ہماری روحوں کو واپس فرمایا اور ہم نے نماز پڑھی۔
حدثنا روح ، حدثنا الاوزاعي ، عن حسان بن عطية ، عن خالد بن معدان ، عن ذي مخمر رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ستصالحكم الروم صلحا آمنا، ثم تغزون وهم عدوا، فتنصرون، وتسلمون، وتغنمون، ثم تنصرفون حتى تنزلوا بمرج ذي تلول، فيرفع رجل من النصرانية صليبا، فيقول: غلب الصليب، فيغضب رجل من المسلمين، فيقوم إليه فيدقه، فعند ذلك يغدر الروم، ويجمعون للملحمة" حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، عَنْ ذِي مِخْمَرٍ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " سَتُصَالِحُكُمْ الرُّومُ صُلْحًا آمِنًا، ثُمَّ تَغْزُونَ وَهُمْ عَدُوًّا، فَتُنْصَرُونَ، وَتَسْلَمُونَ، وَتَغْنَمُونَ، ثُمَّ تَنْصُرِفُونَ حَتَّى تَنْزِلُوا بِمَرْجٍ ذِي تُلُولٍ، فَيَرْفَعُ رَجُلٌ مِنْ النَّصْرَانِيَّةِ صَلِيبًا، فَيَقُولُ: غَلَبَ الصَّلِيبُ، فَيَغْضَبُ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَيَقُومُ إِلَيْهِ فَيَدُقُّهُ، فَعِنْدَ ذَلِكَ يَغْدِرُ الرُّومُ، وَيَجْمَعُونَ لِلْمَلْحَمَةِ"
حضرت ذومخمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب رومی تم سے امن وامان کی صلح کرلیں گے، پھر تم ان کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ دشمن سے جنگ کرو گے، تم اس میں کامیاب ہو کر صحیح سالم، مال غنیمت کے ساتھ واپس آؤگے، جب تم ذی تلول نامی جگہ پر پہنچو گے تو ایک عیسائی صلیب بلند کر کے کہے گا کہ صلیب غالب آ گئی، اس پر ایک مسلمان کو غصہ آئے گا اور وہ کھڑا ہو کر اسے جواب دے گا، وہیں سے رومی عہد شکنی کر کے جنگ کی تیاری کرنے لگیں گے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، خالد بن معدان سمع هذا الحديث من ذي مخمر بواسطة جبير بن نفير
حدثنا محمد بن مصعب هو القرقساني ، قال: حدثنا الاوزاعي ، عن حسان بن عطية ، عن خالد بن معدان ، عن جبير بن نفير ، عن ذي مخمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " تصالحون الروم صلحا آمنا، وتغزون انتم وهم عدوا من ورائهم، فتسلمون، وتغنمون، ثم تنزلون بمرج ذي تلول، فيقوم رجل من الروم، فيرفع الصليب، ويقول: الا غلب الصليب، فيقوم إليه رجل من المسلمين فيقتله، فعند ذلك تغدر الروم وتكون الملاحم، فيجتمعون إليكم، فياتونكم في ثمانين غاية، مع كل غاية عشرة آلاف" حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ هُوَ القَرْقَسَانيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ ذِي مِخْمَرٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " تُصَالِحُونَ الرُّومَ صُلْحًا آمِنًا، وَتَغْزُونَ أَنْتُمْ وَهُمْ عَدُوًّا مِنْ وَرَائِهِمْ، فَتَسْلَمُونَ، وَتَغْنَمُونَ، ثُمَّ تَنْزِلُونَ بِمَرْجٍ ذِي تُلُولٍ، فَيَقُومُ رَجُلٌ مِنَ الرُّومِ، فَيَرْفَعُ الصَّلِيبَ، وَيَقُولُ: أَلَا غَلَبَ الصَّلِيبُ، فَيَقُومُ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَيَقْتُلُهُ، فَعِنْدَ ذَلِكَ تَغْدِرُ الرُّومُ وَتَكُونُ الْمَلَاحِمُ، فَيَجْتَمِعُونَ إِلَيْكُمْ، فَيَأْتُونَكُمْ فِي ثَمَانِينَ غَايَةً، مَعَ كُلِّ غَايَةٍ عَشْرَةُ آلَافٍ"
حضرت ذومخمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب رومی تم سے امن وامان کی صلح کرلیں گے، پھر تم ان کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ دشمن سے جنگ کرو گے، تم اس میں کامیاب ہو کر صحیح سالم، مال غنیمت کے ساتھ واپس آؤ گے، جب تم ذی تلول نامی جگہ پر پہنچو گے تو ایک عیسائی صلیب بلند کر کے کہے گا کہ صلیب غالب آگئی، اس پر ایک مسلمان کو غصہ آئے گا اور وہ کھڑا ہو کر اسے جواب دے گا، وہیں سے رومی عہد شکنی کر کے جنگ کی تیاری کرنے لگیں گے، وہ اکٹھے ہو کر تم پر حملہ کردیں گے اور اسی جھنڈوں کے نیچے جن میں سے ہر جھنڈے کے تحت دس ہزار سوار ہوں گے آئیں گے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، محمد بن المصعب فيه ضعف، وحديثه عن الأوزاعي مقارب، وقد توبع
حضرت ذومخمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا پہلے حکومت قبیلہ حمیر کے پاس تھی، پھر اللہ نے ان سے چھین کر اسے قریش میں رکھ دیا اور عنقریب وہ ان ہی کے پاس لوٹ آئے گی۔