مسنَد الشَّامِیِّینَ 519. حَدِیث یَعلَى بنِ مرَّةَ الثَّقَفِیِّ، عن النَّبِیِّ صَلَّى اللَّه عَلَیهِ وَسَلَّمَ
حضرت یعلی بن مروہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تین ایسے معجزے دیکھے ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نے نہیں دیکھے اور نہ بعد میں کوئی دیکھ سکے گا، چنانچہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر پر نکلا، دوران سفر ہمارا گذر ایک عورت کے پاس سے ہوا جس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا، وہ کہنے لگی یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم اس بچے کو کوئی تکلیف ہے جس کی وجہ سے ہم پریشان ہوتے رہتے ہیں، دن میں نجانے کتنی مرتبہ اس پر اثر ہوتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے مجھے پکڑا دو، اس نے پکڑا دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو اپنے اور کجاوے کے درمیان بٹھا لیا، پھر اس کا منہ کھول کر اس میں تین مرتبہ اپنا لعاب دہن ڈالا اور فرمایا بسم اللہ! میں اللہ کا بندہ ہوں، اے دشمن خدا! دور ہو، یہ کہہ کر وہ بچہ اس کی ماں کے حوالے کیا اور فرمایا جب ہم اس جگہ سے واپس گذریں تو ہمارے پاس اسے دوبارہ لانا اور بتانا کہ اب اس کی حالت کیسے رہی؟ پھر ہم آگے چل پڑے، واپسی پر جب ہم دوبارہ وہاں پہنچے تو ہمیں اس جگہ پر اس عورت کے ساتھ تین بکریاں بھی نظر آئیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تمہارا بچہ کیسا رہا؟ اس نے جواب دیا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اب تک ہمیں اس کی بیماری محسوس نہیں ہوئی ہے (اور یہ صحیح ہے) یہ بکریاں آپ لے جائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیچے اتر کر اس میں سے صرف ایک بکری لے لو اور باقی اسے واپس لوٹا دو۔ اسی طرح ایک دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحراء کی طرف نکلا، وہاں پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ارے بھئی! دیکھو، تمہیں کوئی جگہ نہیں دکھائی دے رہی اور بظاہر یہ درخت بھی آڑ نہیں بن سکتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اس کے قریب کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اسی جیسا یا اس کے قریب قریب ہی ایک اور درخت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ان دونوں درختوں کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اللہ کے اذن سے اکٹھے ہوجاؤ، چنانچہ وہ دونوں اکٹھے ہوگئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قضاء حاجت فرمائی، پھر واپس آکر فرمایا ان سے جا کر کہہ دو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اپنی اپنی جگہ چلے جاؤ، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اسی طرح ایک دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اونٹ دوڑتا ہوا آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکر اپنی گردن ڈال دی اور پھر اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ارے بھئی! دیکھو، یہ اونٹ کس کا ہے؟ اس کا معاملہ عجیب محسوس ہوتا ہے، چنانچہ میں اس کے مالک کی تلاش میں نکلا، مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک انصاری آدمی کا ہے، میں نے اسے بلایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ اس اونٹ کا کیا معاملہ ہے؟ اس نے کہا کہ واللہ مجھے اور تو کچھ معلوم نہیں، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ ہم اس پر کام کرتے تھے اور اس پر پانی لاد کر لاتے تھے، لیکن اب یہ پانی لانے سے عاجز آگیا تھا، اس لئے ہم نے آج رات یہ مشورہ کیا کہ اسے ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کردیتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا مت کرو، یہ ہدیۃ مجھے دے دو، یا قیمۃ دے دو، اس نے کہا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ کا ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر صدقہ کی علامت لگائی اور اسے ان کے ساتھ بھیج دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عبدالرحمن بن عبدالعزيز
حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا ایک بچہ لے کر آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم اس بچے کو کوئی تکلیف ہے جس کی وجہ سے ہم پریشان ہوتے رہتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا منہ کھول کر اس میں تین مرتبہ اپنا لعاب دہن ڈالا اور فرمایا: بسم اللہ! میں اللہ کا بندہ ہوں، اے دشمن خدا! دور ہو، وہ بچہ اسی وقت ٹھیک ہوگیا، اس کی ماں نے دو مینڈھے، کچھ پنیر اور کچھ گھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پنیر گھی اور ایک مینڈھا لے لو اور دوسرا واپس کردو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، المنهال بن عمرو لم يسمع يعلى بن مرة
حضرت یعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو تکبیر سے پہلے اپنے ساتھیوں کے چہروں پر ہاتھ پھیرتے تھے، میں نے خلوق نامی خوشبو لگا رکھی تھی لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کے چہروں پر تو ہاتھ پھیرا لیکن مجھے چھوڑ دیا، میں نے واپس جا کر اسے دھویا اور دوسری نماز کے وقت حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے چہرے پر ہاتھ پھیر کر فرمایا اچھے دین کے ساتھ واپس آئے، علا (یعلی) نے توبہ کرلی اور ان کی آواز آسمان تک پہنچی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عمرو ابن يعلى مجهول، ولا تعرف له رواية عن جده يعلى، فهو منقطع
حضرت یعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو تکبیر سے پہلے اپنے ساتھیوں کے چہروں پر ہاتھ پھیرتے تھے، میں نے خلوق نامی خوشبو لگا رکھی تھی لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کے چہروں پر تو ہاتھ پھیرا لیکن مجھے چھوڑ دیا، میں نے واپس جا کر اسے دھویا اور دوسری نماز کے وقت حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے چہرے پر ہاتھ پھیر کر فرمایا اچھے دین کے ساتھ واپس آئے، علا (یعلی) نے توبہ کرلی اور ان کی آواز آسمان تک پہنچی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن يعلى: إما أن يكون عبدالله وإما عثمان، فعبدالله ضعيف، وعثمان مجهول
حضرت یعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر خلوق نامی خوشبو لگی ہوئی دیکھی تو پوچھا کہ کیا تمہاری شادی ہوئی ہے؟ میں نے عرض کیا نہیں، فرمایا تو جا کر اسے دھو اور دوبارہ مت لگانا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى عمرو بن حفص
حضرت یعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر زعفران کے نشان دیکھے تو فرمایا جا کر اسے تین مرتبہ دھو لو اور دوبارہ مت لگانا چنانچہ میں نے اسے دھولیا اور دوبارہ نہیں لگایا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حفص بن عبدالله
حضرت یعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر زعفران کے نشان دیکھے تو فرمایا جا کر اسے تین مرتبہ دھو لو اور دوبارہ مت لگانا چنانچہ میں نے اسے دھولیا اور دوبارہ نہیں لگایا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حفص بن عبدالله
حضرت یعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو تکبیر سے پہلے اپنے ساتھیوں کے چہروں پر ہاتھ پھیرتے تھے، میں نے خلوق نامی خوشبو لگا رکھی تھی لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کے چہروں پر تو ہاتھ پھیرا لیکن مجھے چھوڑ دیا، میں نے واپس جا کر اسے دھویا اور دوسری نماز کے وقت حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے چہرے پر ہاتھ پھیر کر فرمایا اچھے دین کے ساتھ واپس آئے، علا (یعلی) نے توبہ کرلی اور ان کی آواز آسمان تک پہنچی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عمر بن عبدالله وأبو ضعيفان
حضرت یعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک آدمی حاضر ہوا جس نے سونے کی بہت بڑی (بھاری) انگوٹھی پہن رکھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ کیا تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتے ہو؟ اس نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی زکوٰۃ کیا ہے؟ جب وہ واپس چلا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اس کے لئے ایک بہت بڑی چنگاڑی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً ، إبراهيم بن أبى الليث كذبه غير واحد
حضرت یعلی رضی اللہ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ ایک مرتبہ زیاد کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، زیاد کے پاس ایک آدمی کو لایا گیا جس نے کوئی شہادت دی، زیاد نے اس کی گواہی کو بدل دیا اور کہنے لگا کہ میں تیری زبان کاٹ ڈالوں گا، حضرت یعلی رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا کیا میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی ایک حدیث نہ سناؤں؟ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندوں کا مثلہ مت کرو، اس پر زیاد نے اسے چھوڑ دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عبدالله بن حفص، وعطاء مختلط ، ورواه بعد الاختلاط
حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص ناحق زمین کا کوئی حصہ لیتا ہے، اس شخص کو قیامت کے دن اس بات پر مجبور کیا جائے گا کہ وہ اس کی مٹی اٹھا کر میدان حشر میں لے آئے۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن
حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر پر نکلا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قضاء حاجت کا ارادہ کیا تو دو درختوں کو حکم دیا، وہ مل گئے پھر حکم دیا تو اپنی اپنی جگہ پر واپس چلے گئے، اسی طرح ایک دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اونٹ دوڑتا ہوا آیا اور آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی گردن ڈال دی اور پھر اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ یہ اونٹ کیا کہہ رہا ہے؟ یہ کہہ رہا ہے کہ اس کا مالک اسے ذبح کرنا چاہتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مالک کو بلایا اور فرمایا کیا تم اسے مجھے ہبہ کرتے ہو؟ اس نے کہا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ مجھے بہت محبوب ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، اس نے کہا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم اب میں اپنے کسی مال کا اتنا خیال نہیں رکھو گا جتنا اس کا رکھوں گا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ایک قبر پر ہوا جس میں مردے کو عذاب ہو رہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے کسی بڑی وجہ سے عذاب نہیں ہو رہا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قبر پر ایک ٹہنی گاڑنے کا حکم دے دیا اور فرمایا ہوسکتا ہے کہ جب تک یہ تر رہے، اس کے عذاب میں تخفیف رہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف الجهالة حبيب بن أبى جبيرة
حضرت یعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس سے گذرے تو فرمایا کہ اس قبر والے کو عذاب ہو رہا ہے، لیکن وہ کسی بڑی وجہ سے نہی ہیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ٹہنی منگوائی اور اسے اس قبر پر رکھ دیا اور فرمایا جب تک یہ تر رہے گی، ممکن ہے کہ اس کے عذاب میں اس وقت تک تخفیف رہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حبيب بن أبى جبيرة
حضرت یعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی دعوت میں کھانے پر تشریف لے گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب ان لوگوں کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پکڑنے کے لئے آگے بڑھے تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کبھی ادھر بھاگ جاتے اور کبھی ادھر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ہنسانے لگے، یہاں تک کہ انہیں پکڑ لیا، پھر ایک ہاتھ ان کی گدی کے نیچے رکھا اور دوسرا ٹھوڑی کے نیچے اور ان کے منہ پر اپنا مبارک منہ رکھا اور فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، اللہ اس شخص سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرتا ہے حسین ایک پورا گروہ اور قبیلہ ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة سعيد بن أبى راشد
حضرت یعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرات حسنین رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دوڑتے ہوئے آئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سینے سے لگا لیا اور فرمایا اولاد بخل اور بزدلی کا سبب بن جاتی ہے اور وہ آخری پکڑ جو رحمان نے کفار کی فرمائی، وہ مقام وج میں تھی۔
فائدہ: وج طائف کے ایک علاقے کا نام تھا جس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی غزوہ نہیں فرمایا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة سعيد بن أبى راشد
حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا ایک بچہ لے کر آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم اس بچے کو کوئی تکلیف ہے جس کی وجہ سے ہم پریشان ہوتے رہتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا منہ کھول کر اس میں تین مرتبہ اپنا لعاب دہن ڈالا اور فرمایا: بسم اللہ! میں اللہ کا بندہ ہوں، اے دشمن خدا! دور ہو، وہ بچہ اسی وقت ٹھیک ہوگیا، اس کی ماں نے دومینڈھے، کچھ پنیر اور کچھ گھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے یعلی! پنیر، گھی اور ایک مینڈھا لے لو اور دوسرا واپس کردو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، المنهال بن عمرو لم يسمع من يعلى بن مرة
حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحراء کی طرف نکلا، ایک مقام پر پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ان دونوں درختوں کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اللہ کے اذن سے اکٹھے ہوجاؤ، چنانچہ میں ان کے پاس گیا اور کہا تو وہ دونوں اکٹھے ہوگئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قضاء حاجت فرمائی، پھر واپس آکر فرمایا ان سے جا کر کہہ دو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اپنی اپنی جگہ چلے جاؤ، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف كسابقه
حضرت یعلی بن مروہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تین ایسے معجزے دیکھے ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نے نہیں دیکھے اور نہ بعد میں کوئی دیکھ سکے گا، ایک دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اونٹ دوڑتا ہوا آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکر اپنی گردن ڈال دی اور پھر اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ارے بھئی! دیکھو، یہ اونٹ کس کا ہے؟ اس کا معاملہ عجیب محسوس ہوتا ہے، چنانچہ میں اس کے مالک کی تلاش میں نکلا، مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک انصاری آدمی ہے، میں نے اسے بلایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ اس اونٹ کا کیا معاملہ ہے؟ اس نے کہا کہ واللہ مجھے اور تو کچھ معلوم نہیں، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ ہم اس پر کام کرتے تھے اور اس پر پانی لاد کر لاتے تھے، لیکن اب یہ پانی لانے سے عاجز آگیا تھا، اس لئے ہم نے آج رات یہ مشورہ کیا کہ اسے ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کردیتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا مت کرو، یہ ہدیۃ مجھے دے دو، یا قیمۃ دے دو، اس نے کہا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ کا ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر صدقہ کی علامت لگائی اور اسے ان کے ساتھ بھیج دیا۔ پھر ہم روانہ ہوئے ایک مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، ایک درخت زمین کو چیرتا ہوا نکلا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کرلیا، تھوڑی دیر بعد واپس چلا گیا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو میں نے اس کا تذکرہ کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس درخت نے اپنے رب سے مجھے سلام کرنے کی اجازت مانگی تھی۔ جو اللہ نے اسے دے دی۔ دوران سفر ہمارا گذر ایک عورت کے پاس سے ہوا جس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا، وہ کہنے لگی یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم اس بچے کو کوئی تکلیف ہے جس کی وجہ سے ہم پریشان ہوتے رہتے ہیں، دن میں نجانے کتنی مرتبہ اس پر اثر ہوتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے مجھے پکڑا دو، اس نے پکڑا دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو اپنے اور کجاوے کے درمیان بٹھا لیا، پھر اس کا منہ کھول کر اس میں تین مرتبہ اپنا لعاب دہن ڈالا اور فرمایا بسم اللہ! میں اللہ کا بندہ ہوں، اے دشمن خدا! دور ہو، یہ کہہ کر وہ بچہ اس کی ماں کے حوالے کیا اور فرمایا جب ہم اس جگہ سے واپس گذریں تو ہمارے پاس اسے دوبارہ لانا اور بتانا کہ اب اس کی حالت کیسے رہی؟ پھر ہم آگے چل پڑے، واپسی پر جب ہم دوبارہ وہاں پہنچے تو ہمیں اس جگہ پر اس عورت کے ساتھ تین بکریاں بھی نظر آئیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تمہارا بچہ کیسا رہا؟ اس نے جواب دیا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اب تک ہمیں اس کی بیماری محسوس نہیں ہوئی ہے (اور یہ صحیح ہے)۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عبدالله بن حفص، وعطاء مختلط
حضرت یعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کوئی گری پڑی چیز جو مقدار میں تھوڑی ہو مثلا درہم یا رسی وغیرہ پائے تو تین تک اس کا اعلان کرے اس سے مزید اضافہ کرنا چاہے تو چھ دن تک اعلان کرے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عمرو بن عبد الله ، وجدته حكمة لا تعرف
حضرت یعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ کسی شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے معجزات دیکھے ہوں جو میں نے دیکھے ہیں، پھر انہوں نے بچے درختوں اور اونٹ کے واقعات بیان کئے، البتہ اس میں یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہے تمہارا اونٹ تمہاری شکایت کر رہا ہے کہ تم پہلے اس پر پانی لاد کر لاتے تھے، جب یہ بوڑھا ہوگیا تو اب تم اسے ذبح کرنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا کہ آپ صحیح فرما رہے ہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی بنا کر بھیجا ہے، میرا یہی ارادہ تھا لیکن اب میں ایسا نہیں کروں گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، المنهال بن عمرو لم يسمع من يعلى بن مرة
حضرت یعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہے میرے بندوں کا مثلہ مت کرو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه ، عطاء بن السائب لم يسمع من يعلى بن مرة
حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص ناحق زمین کا کوئی حصہ لیتا ہے اس شخص کو قیامت کے دن اس بات پر مجبور کیا جائے گا کہ وہ اس کی مٹی اٹھا کر میدان حشر میں لے کر آئے۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن
حضرت یعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر خلوق نامی خوشبو لگی ہوئی دیکھی تو پوچھا کہ کیا تمہاری شادی ہوئی ہے؟ میں نے عرض کیا نہیں، فرمایا تو جا کر اسے تین مرتبہ دھو لو اور دوبارہ مت لگانا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عبدالله بن حفص
حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص ناحق زمین کا کوئی حصہ بالشت برابر بھی لیتا ہے، اس شخص کو قیامت کے دن اس بات پر مجبور کیا جائے گا کہ وہ اسے ساتویں زمین تک کھودے، پھر وہ اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہوجائے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة الربيع بن عبدالله
حضرت یعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر خلوق نامی خوشبو لگی ہوئی دیکھی تو پوچھا کہ کیا تمہاری شادی ہوئی ہے؟ میں نے عرض کیا نہیں، فرمایا تو جا کر اسے تین مرتبہ دھو لو اور دوبارہ مت لگانا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى حفص بن عمر
حضرت یعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک تنگ جگہ میں تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر سوار تھے، اوپر سے آسمان برس رہا تھا اور نیچے سے ساری زمین گیلی تھی، نماز کا وقت آگیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کو حکم دیا، اس نے اذان دی اور اقامت کہی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری کو آگے کرلیا اور اسی حالت میں اشارے کے ساتھ نماز پڑھا دی اور سجدے کو رکوع کی نسبت زیادہ جھکتا ہوا کیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عمرو بن عثمان وأبوه مجهولان
|