حدثنا ابو سلمة الخزاعي ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن عاصم بن بهدلة ، عن حبيب بن ابي جبيرة ، عن يعلى بن سيابة ، قال: كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في مسير له، فاراد ان يقضي حاجة، " فامر وديتين، فانضمت إحداهما إلى الاخرى، ثم امرهما فرجعتا إلى منابتهما . وجاء بعير فضرب بجرانه إلى الارض، ثم جرجر حتى ابتل ما حوله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " اتدرون ما يقول البعير؟ إنه يزعم ان صاحبه يريد نحره" فبعث إليه النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" اواهبه انت لي؟" فقال: يا رسول الله، ما لي مال احب إلي منه. قال:" استوص به معروفا" فقال: لا جرم، لا اكرم مالا لي كرامته يا رسول الله. واتى على قبر يعذب صاحبه، فقال: " إنه يعذب في غير كبير" فامر بجريدة، فوضعت على قبره , فقال:" عسى ان يخفف عنه ما دامت رطبة" .حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ الْخُزَاعِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي جُبَيْرَةَ ، عن يَعْلَى بْنِ سِيَابَةَ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسِيرٍ لَهُ، فَأَرَادَ أَنْ يَقْضِيَ حَاجَةً، " فَأَمَرَ وَدْيَتَيْنِ، فَانْضَمَّتْ إِحْدَاهُمَا إِلَى الْأُخْرَى، ثُمَّ أَمَرَهُمَا فَرَجَعَتَا إِلَى مَنَابِتِهِمَا . وَجَاءَ بَعِيرٌ فَضَرَبَ بِجِرَانِهِ إِلَى الْأَرْضِ، ثُمَّ جَرْجَرَ حَتَّى ابْتَلَّ مَا حَوْلَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَدْرُونَ مَا يَقُولُ الْبَعِيرُ؟ إِنَّهُ يَزْعُمُ أَنَّ صَاحِبَهُ يُرِيدُ نَحْرَهُ" فَبَعَثَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَوَاهِبُهُ أَنْتَ لِي؟" فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لِي مَالٌ أَحَبًّ إِلَيَّ مِنْهُ. قَالَ:" اسْتَوْصِ بِهِ مَعْرُوفًا" فَقَالَ: لَا جَرَمَ، لَا أُكْرِمُ مَالًا لِي كَرَامَتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ. وَأَتَى عَلَى قَبْرٍ يُعَذَّبُ صَاحِبُهُ، فَقَالَ: " إِنَّهُ يُعَذَّبُ فِي غَيْرِ كَبِيرٍ" فَأَمَرَ بِجَرِيدَةٍ، فَوُضِعَتْ عَلَى قَبْرِهِ , فَقَالَ:" عَسَى أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُ مَا دَامَتْ رَطْبَةً" .
حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر پر نکلا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قضاء حاجت کا ارادہ کیا تو دو درختوں کو حکم دیا، وہ مل گئے پھر حکم دیا تو اپنی اپنی جگہ پر واپس چلے گئے، اسی طرح ایک دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اونٹ دوڑتا ہوا آیا اور آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی گردن ڈال دی اور پھر اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ یہ اونٹ کیا کہہ رہا ہے؟ یہ کہہ رہا ہے کہ اس کا مالک اسے ذبح کرنا چاہتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مالک کو بلایا اور فرمایا کیا تم اسے مجھے ہبہ کرتے ہو؟ اس نے کہا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ مجھے بہت محبوب ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، اس نے کہا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم اب میں اپنے کسی مال کا اتنا خیال نہیں رکھو گا جتنا اس کا رکھوں گا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ایک قبر پر ہوا جس میں مردے کو عذاب ہو رہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے کسی بڑی وجہ سے عذاب نہیں ہو رہا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قبر پر ایک ٹہنی گاڑنے کا حکم دے دیا اور فرمایا ہوسکتا ہے کہ جب تک یہ تر رہے، اس کے عذاب میں تخفیف رہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف الجهالة حبيب بن أبى جبيرة