حدثنا عبد الله بن نمير ، عن عثمان بن حكيم ، قال: اخبرني عبد الرحمن بن عبد العزيز ، عن يعلى بن مرة ، قال: لقد رايت من رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثا، ما رآها احد قبلي، ولا يراها احد بعدي، لقد خرجت معه في سفر حتى إذا كنا ببعض الطريق مررنا بامراة جالسة، معها صبي لها، فقالت: يا رسول الله، هذا صبي، اصابه بلاء، واصابنا منه بلاء، يؤخذ في اليوم، ما ادري كم مرة، قال:" ناولينيه". فرفعته إليه، فجعلته بينه وبين واسطة الرحل، ثم فغر فاه، فنفث فيه ثلاثا، وقال: " بسم الله، انا عبد الله، اخسا عدو الله". ثم ناولها إياه، فقال:" القينا في الرجعة في هذا المكان، فاخبرينا ما فعل". قال: فذهبنا ورجعنا، فوجدناها في ذلك المكان، معها شياه ثلاث، فقال: ما فعل صبيك؟ فقالت: والذي بعثك بالحق، ما حسسنا منه شيئا حتى الساعة، فاجترر هذه الغنم. قال:" انزل فخذ منها واحدة، ورد البقية". قال: وخرجنا ذات يوم إلى الجبانة، حتى إذا برزنا قال:" انظر ويحك، هل ترى من شيء يواريني؟" قلت: ما ارى شيئا يواريك إلا شجرة ما اراها تواريك. قال:" فما قربها؟" قلت: شجرة مثلها، او قريب منها. قال:" فاذهب إليهما، فقل: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يامركما ان تجتمعا بإذن الله". قال: فاجتمعتا، فبرز لحاجته، ثم رجع، فقال:" اذهب إليهما، فقل لهما: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يامركما ان ترجع كل واحدة منكما إلى مكانها". قال: وكنت معه جالسا ذات يوم إذ جاء جمل يخبب، حتى ضرب بجرانه بين يديه، ثم ذرفت عيناه، فقال:" ويحك، انظر لمن هذا الجمل، إن له لشانا". قال: فخرجت التمس صاحبه، فوجدته لرجل من الانصار، فدعوته إليه، فقال:" ما شان جملك هذا؟" فقال: وما شانه؟ قال: لا ادري والله ما شانه، عملنا عليه، ونضحنا عليه، حتى عجز، عن السقاية، فاتمرنا البارحة ان ننحره، ونقسم لحمه. قال:" فلا تفعل، هبه لي، او بعنيه" فقال: بل هو لك يا رسول الله. قال: فوسمه بسمة الصدقة، ثم بعث به .حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، عن يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ ، قَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا، مَا رَآهَا أَحَدٌ قَبْلِي، وَلَا يَرَاهَا أَحَدٌ بَعْدِي، لَقَدْ خَرَجْتُ مَعَهُ فِي سَفَرٍ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ مَرَرْنَا بِامْرَأَةٍ جَالِسَةٍ، مَعَهَا صَبِيٌّ لَهَا، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا صَبِيٌّ، أَصَابَهُ بَلَاءٌ، وَأَصَابَنَا مِنْهُ بَلَاءٌ، يُؤْخَذُ فِي الْيَوْمِ، مَا أَدْرِي كَمْ مَرَّةً، قَالَ:" نَاوِلِينِيهِ". فَرَفَعَتْهُ إِلَيْهِ، فَجَعَلتْهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ وَاسِطَةِ الرَّحْلِ، ثُمَّ فَغَرَ فَاهُ، فَنَفَثَ فِيهِ ثَلَاثًا، وَقَالَ: " بِسْمِ اللَّهِ، أَنَا عَبْدُ اللَّهِ، اخْسَأْ عَدُوَّ اللَّهِ". ثُمَّ نَاوَلَهَا إِيَّاهُ، فَقَالَ:" الْقَيْنَا فِي الرَّجْعَةِ فِي هَذَا الْمَكَانِ، فَأَخْبِرِينَا مَا فَعَلَ". قَالَ: فَذَهَبْنَا وَرَجَعْنَا، فَوَجَدْنَاهَا فِي ذَلِكَ الْمَكَانِ، مَعَهَا شِيَاهٌ ثَلَاثٌ، فَقَالَ: مَا فَعَلَ صَبِيُّكِ؟ فَقَالَتْ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، مَا حَسَسْنَا مِنْهُ شَيْئًا حَتَّى السَّاعَةِ، فَاجْتَرِرْ هَذِهِ الْغَنَمَ. قَالَ:" انْزِلْ فَخُذْ مِنْهَا وَاحِدَةً، وَرُدَّ الْبَقِيَّةَ". قَالَ: وَخَرَجْنَا ذَاتَ يَوْمٍ إِلَى الْجَبَّانَةِ، حَتَّى إِذَا بَرَزْنَا قَالَ:" انْظُرْ وَيْحَكَ، هَلْ تَرَى مِنْ شَيْءٍ يُوَارِينِي؟" قُلْتُ: مَا أَرَى شَيْئًا يُوَارِيكَ إِلَّا شَجَرَةً مَا أُرَاهَا تُوَارِيكَ. قَالَ:" فَمَا قُرْبُهَا؟" قُلْتُ: شَجَرَةٌ مِثْلُهَا، أَوْ قَرِيبٌ مِنْهَا. قَالَ:" فَاذْهَبْ إِلَيْهِمَا، فَقُلْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكُمَا أَنْ تَجْتَمِعَا بِإِذْنِ اللَّهِ". قَالَ: فَاجْتَمَعَتَا، فَبَرَزَ لِحَاجَتِهِ، ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ:" اذْهَبْ إِلَيْهِمَا، فَقُلْ لَهُمَا: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكُمَا أَنْ تَرْجِعَ كُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْكُمَا إِلَى مَكَانِهَا". قَالَ: وَكُنْتُ مَعَهُ جَالِسًا ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ جَاءَ جَمَلٌ يُخَبِّبُ، حَتَّى ضَرَبَ بِجِرَانِهِ بَيْنَ يَدَيْهِ، ثُمَّ ذَرَفَتْ عَيْنَاهُ، فَقَالَ:" وَيْحَكَ، انْظُرْ لِمَنْ هَذَا الْجَمَلُ، إِنَّ لَهُ لَشَأْنًا". قَالَ: فَخَرَجْتُ أَلْتَمِسُ صَاحِبَهُ، فَوَجَدْتُهُ لِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَدَعَوْتُهُ إِلَيْهِ، فَقَالَ:" مَا شَأْنُ جَمَلِكَ هَذَا؟" فَقَالَ: وَمَا شَأْنُهُ؟ قَالَ: لَا أَدْرِي وَاللَّهِ مَا شَأْنُهُ، عَمِلْنَا عَلَيْهِ، وَنَضَحْنَا عَلَيْهِ، حَتَّى عَجَزَ، عن السِّقَايَةِ، فَأْتَمَرْنَا الْبَارِحَةَ أَنْ نَنْحَرَهُ، وَنُقَسِّمَ لَحْمَهُ. قَالَ:" فَلَا تَفْعَلْ، هَبْهُ لِي، أَوْ بِعْنِيهِ" فَقَالَ: بَلْ هُوَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: فَوَسَمَهُ بِسِمَةِ الصَّدَقَةِ، ثُمَّ بَعَثَ بِهِ .
حضرت یعلی بن مروہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تین ایسے معجزے دیکھے ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نے نہیں دیکھے اور نہ بعد میں کوئی دیکھ سکے گا، چنانچہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر پر نکلا، دوران سفر ہمارا گذر ایک عورت کے پاس سے ہوا جس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا، وہ کہنے لگی یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم اس بچے کو کوئی تکلیف ہے جس کی وجہ سے ہم پریشان ہوتے رہتے ہیں، دن میں نجانے کتنی مرتبہ اس پر اثر ہوتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے مجھے پکڑا دو، اس نے پکڑا دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو اپنے اور کجاوے کے درمیان بٹھا لیا، پھر اس کا منہ کھول کر اس میں تین مرتبہ اپنا لعاب دہن ڈالا اور فرمایا بسم اللہ! میں اللہ کا بندہ ہوں، اے دشمن خدا! دور ہو، یہ کہہ کر وہ بچہ اس کی ماں کے حوالے کیا اور فرمایا جب ہم اس جگہ سے واپس گذریں تو ہمارے پاس اسے دوبارہ لانا اور بتانا کہ اب اس کی حالت کیسے رہی؟ پھر ہم آگے چل پڑے، واپسی پر جب ہم دوبارہ وہاں پہنچے تو ہمیں اس جگہ پر اس عورت کے ساتھ تین بکریاں بھی نظر آئیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تمہارا بچہ کیسا رہا؟ اس نے جواب دیا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اب تک ہمیں اس کی بیماری محسوس نہیں ہوئی ہے (اور یہ صحیح ہے) یہ بکریاں آپ لے جائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیچے اتر کر اس میں سے صرف ایک بکری لے لو اور باقی اسے واپس لوٹا دو۔ اسی طرح ایک دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحراء کی طرف نکلا، وہاں پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ارے بھئی! دیکھو، تمہیں کوئی جگہ نہیں دکھائی دے رہی اور بظاہر یہ درخت بھی آڑ نہیں بن سکتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اس کے قریب کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اسی جیسا یا اس کے قریب قریب ہی ایک اور درخت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ان دونوں درختوں کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اللہ کے اذن سے اکٹھے ہوجاؤ، چنانچہ وہ دونوں اکٹھے ہوگئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قضاء حاجت فرمائی، پھر واپس آکر فرمایا ان سے جا کر کہہ دو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اپنی اپنی جگہ چلے جاؤ، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اسی طرح ایک دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اونٹ دوڑتا ہوا آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکر اپنی گردن ڈال دی اور پھر اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ارے بھئی! دیکھو، یہ اونٹ کس کا ہے؟ اس کا معاملہ عجیب محسوس ہوتا ہے، چنانچہ میں اس کے مالک کی تلاش میں نکلا، مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک انصاری آدمی کا ہے، میں نے اسے بلایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ اس اونٹ کا کیا معاملہ ہے؟ اس نے کہا کہ واللہ مجھے اور تو کچھ معلوم نہیں، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ ہم اس پر کام کرتے تھے اور اس پر پانی لاد کر لاتے تھے، لیکن اب یہ پانی لانے سے عاجز آگیا تھا، اس لئے ہم نے آج رات یہ مشورہ کیا کہ اسے ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کردیتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا مت کرو، یہ ہدیۃ مجھے دے دو، یا قیمۃ دے دو، اس نے کہا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ کا ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر صدقہ کی علامت لگائی اور اسے ان کے ساتھ بھیج دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عبدالرحمن بن عبدالعزيز