من كتاب الطهارة وضو اور طہارت کے مسائل 84. باب في غُسْلِ الْمُسْتَحَاضَةِ: زائد حیض والی (مستحاضہ) عورت کے غسل کا بیان
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ایک انصاری عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حیض کے غسل کے بارے میں دریافت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیری کے پتوں کا پانی لو، خون کے مقام کو اچھی طرح صاف کرو، پھر سر پر پانی ڈالو تا آنکہ بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچ جائے (اس طرح غسل کرو)، پھر مشک لگا ہوا ایک روئی کا پھایا لے کر لگالو“، انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! کیسے پھایا لگاؤں؟ آپ خاموش رہے، انہوں نے پھر عرض کیا: پھایا کیسے لگاؤں؟ پھر آپ خاموش رہے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سرگوشی کی کہ روئی کا پھایا مشک لگا ہوا لے کر خون کے مقام پر لگا لو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیا اور اس کا انکار نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 800]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 314]، [مسلم 332]، [أبوداؤد 315]، [ابن ماجه 642]، [مسند أبى يعلی 4733]، [صحيح ابن حبان 1199]، [مسند الحميدي 167] وضاحت:
(تشریح حدیث 795) اس حدیث سے دینی معاملات میں شرم نہ کرنے کی تعلیم ملتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شدتِ حيا کا پتہ چلتا ہے، کیوں نہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف ہی پہلی کتابوں میں یہ ہے کہ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکواس کرنے والے ہیں اور نہ بے حیائی کرنے والے، نہ فحش گو ہیں، بار بار پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف سبحان اللہ کہتے ہیں اور سکوت فرماتے ہیں۔ ایک روایت میں ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان صحابیہ کو اپنی طرف کھینچا اور طریقہ سکھلایا، «صلى اللّٰه على نبينا وقدوتنا محمد بن عبداللّٰه وسلم تسليما كثيرا» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سیدہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں مستحاضہ عورت ہوں، خون رکتا نہیں ہے تو کیا میں نماز چھوڑے رکھوں؟ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ایک رگ کا خون ہے (حیض نہیں) اس لئے جب حیض آئے تو نماز چھوڑ دو، اور جب مدت حیض ختم ہو جائے تو خون کو دھو ڈالو اور نماز پڑھ لو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 801]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 228]، [مسلم 333]، [ترمذي 125]، [نسائي 357]، [ابن ماجه 621]، [مسند أبى يعلی 4486]، [صحيح ابن حبان 1350]، [مسند الحميدي 193] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جحش کی بیٹی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں استحاضہ کی بیماری لاحق ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہر نماز کے وقت غسل کرنے کا حکم دیا۔ وہ جب پانی سے بھرے ہوئے (مرکن) ٹب میں بیٹھتیں ڈبکی لگاتیں اور پانی سے نکلتیں تو خون پانی کے اوپر چھا جاتا، پھر وہ نماز پڑھ لیتیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه عنعنة محمد بن إسحاق، [مكتبه الشامله نمبر: 802]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن دوسری اسانید صحیحہ کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، بلکہ متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 327]، [مسلم 333]، [أبوداؤد 285]، [نسائي 203، 204، 205]، [ابن ماجه 626] وضاحت:
(تشریح احادیث 796 سے 798) اس حدیث سے بیماری کی حالت میں خون جاری رہے تو ہر نماز کے لئے غسل کرنا اور نماز پڑھنا ثابت ہوا۔ تفصیل آگے آ رہی ہے اور اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اگر کسی کو سلسل البول، ریاح یا ہوا یا مذی وغیرہ کی بیماری ہو تو وہ بھی اس مقام پر کپڑا لگا کر نماز کے وقت صفائی اور وضو کر کے نماز پڑھ لے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه عنعنة محمد بن إسحاق
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: وہ فلاں عورت ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نماز کے لئے غسل کا حکم دیا تھا، اور جب ہر نماز کے وقت نہانا ان کے لئے مشکل ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ظہر عصر ملا کر ایک غسل سے پڑھ لیں، اور مغرب و عشاء ایک غسل سے، اور فجر کے لئے علاحدہ غسل کریں۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: وہ خاتون لوگ کہتے ہیں سہلہ بنت سہیل تھیں، اور یزید بن ہارون نے کہا وہ سہیلہ بنت سہل تھیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن إسحاق، [مكتبه الشامله نمبر: 803]»
اس سند سے یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن اس کے متابع اور شاہد موجود ہیں، لہٰذا متن صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 295] و [نسائي 213]، آگے (812) میں بھی یہ حدیث آرہی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن إسحاق
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ایک خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مرض استحاضہ میں مبتلا ہوئیں تو انہیں حکم دیا گیا۔۔۔ شعبہ نے کہا: میں نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا؟ عبدالرحمٰن نے کہا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان نہیں کر رہا ہوں، انہیں حکم دیا گیا کہ وہ ظہر کی نماز میں تاخیر کر کے عصر جلدی پڑھ لیں، اور دونوں نمازوں کے لئے ایک غسل کر لیں، (اس طرح) مغرب میں تاخیر کر کے عشاء جلدی پڑھ لیں، اور دونوں نمازوں کے لئے ایک غسل کریں، اور نماز فجر کے لئے ایک بار غسل علاحدہ کریں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 804]»
اس کی تخریج اوپر گزر چکی ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 798 سے 800) اسلاف کرام کے اقوال و افعال میں گزر چکا ہے کہ وہ کسی بات کو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے میں بہت احتیاط کرتے تھے۔ عبدالرحمٰن بن قاسم کا بھی اس امر کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ کرنا غالباً اسی قبیل سے ہے، اوپر حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں صراحت سے مذکور ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کا حکم دیا تھا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
اس حدیث کا ترجمہ اور تخریج بھی حدیث نمبر (797) میں گزر چکی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 805]»
مزید حوالے کے لئے دیکھئے: [مسند أحمد 83/6]، [مسند أبى 4405]، نیز حديث رقم (808)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے فاطمہ بنت ابی حبیش نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں ایسی عورت ہوں کہ استحاضہ کے خون میں مبتلا رہتی ہوں، تو کیا ایسی حالت میں نماز ترک کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، یہ تو ایک رگ ہے حیض کا خون نہیں، لہٰذا جب ایام حیض شروع ہوں تو نماز چھوڑ دو، اور جب حیض کی مدت پوری ہو جائے تو خون دھو کر وضو کرو، اور نماز پڑھ لو۔“ ہشام نے کہا: میرے والد (عروة) فرماتے تھے: حیض کی مدت پوری ہونے پر عورت پہلا غسل کرے گی اور اس کے بعد صفائی کر کے نماز پڑھے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 806]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج رقم (۸۰۱) میں گزر چکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے: ایک عورت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خون بہتا رہتا تھا، سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بیماری سے پہلے ہر ماہ جتنے رات و دن انہیں حیض آتا تھا اس کو شمار کر لیں، اور اتنے دن نماز ترک کر دیں، پھر جب اتنے دن گزر جائیں اور نماز کا وقت آ جائے تو غسل کریں، فرج پر روئی کا پھایا رکھیں، پھر نماز پڑھ لیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده فيه جهالة ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 807]»
اس روایت کی سند میں ایک راوی مجہول ہے، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أبى يعلی 6894] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده فيه جهالة ولكن الحديث صحيح
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: یا رسول اللہ! خون مجھ پر غالب آ گیا ہے (یعنی رکتا نہیں ہے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غسل کرو اور نماز پڑھ لو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 808]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 141/6]، نیز پچھلی حدیث (804)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عمرة بنت عبدالرحمٰن نے کہا: میں نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا کہ سیدہ ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، انہیں سات سال سے استحاضہ کی شکایت تھی، انہوں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اور فتویٰ پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”یہ حیض کا خون نہیں ہے، یہ ایک رگ ہے، پس تم غسل کرو اور نماز پڑھو۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: چنانچہ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ہر نماز کے لئے غسل کرتی تھیں اور نماز پڑھ لیتیں، اور ٹب میں بیٹھ جاتیں تو خون کی سرخی پانی کے اوپر آ جاتی، پھر (غسل کے بعد) وہ نماز پڑھ لیتیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 809]»
یہ روایت صحیح ہے، اور (805) پر اس کی تخریج ملاحظہ کیجئے۔ نیز مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: [مسند أبى يعلي 4410]، [صحيح ابن حبان 1351]، [مسند أبى عوانه 320/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سیدہ ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں استحاضہ کی بیماری لگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ ہر نماز کے لئے غسل کریں، چنانچہ وہ پانی سے بھرے ٹب میں غوطہ لگاتیں، پھر اس سے نکلتیں تو خون پانی کے اوپر آ جاتا، پھر وہ نماز پڑھتیں۔
تخریج الحدیث: «في إسناده عنعنة ابن إسحاق، [مكتبه الشامله نمبر: 810]»
اس روایت کی سند میں کچھ کلام ہے، اور اس معنی کی حدیث (802، 805) میں تخریج گزر چکی ہے۔ مزید دیکھئے: [مسند أحمد 237/6] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده عنعنة ابن إسحاق
قاسم نے کہا: جس خاتون کو استحاضہ کی بیماری ہوئی وہ بادیہ بنت غيلان الثقفیہ تھیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 811]»
اس روایت کی یہ سند ضعیف ہے، کیونکہ محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور انہوں نے عنعنہ سے روایت کی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: بیشک وہ خاتون سہلہ بنت سہل بن عمرو ہی تھیں جنہیں استحاضہ کی شکایت ہوئی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہر نماز کے لئے غسل کرنے کا حکم دیا تھا، اور جب یہ ان کے لئے مشکل ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ ظہر و عصر ایک غسل سے پڑھ لیا کریں اور مغرب و عشاء ایک غسل سے، اور صبح کی نماز کے لئے غسل کر لیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف غير أن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 812]»
اس حدیث کی سند ضعیف ہے، لیکن حدیث صحیح ہے، کیونکہ دوسرے طرق سے بھی مروی ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 295]، [شرح معاني الآثار 101/1]۔ نیز دیکھئے رقم (803)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف غير أن الحديث صحيح
سعد بن ابراہیم نے کہا: ان خاتون کے نام میں اختلاف اس لئے رونما ہوا کہ تینوں عورتیں (جنہیں یہ شکایت ہوئی) سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے عقد میں تھیں، اس لئے کسی نے کہا وہ ام حبیبہ تھیں، کسی نے کہا بادیہ تھیں اور کسی نے کہا کہ وہ سہلہ بنت سہیل تھیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 813]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [اسد الغابة 34/7، 154] و [الإصابة 112، 115] اور سابقہ تخریج (803)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
قعقاع بن حکیم نے سعید (ابن المسيب) سے مستحاضہ کا مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے کہا: بھتیجے! اس مسئلہ کو مجھ سے زیادہ جاننے والا کوئی باقی نہیں رہا؟ جب حیض کے دن ہوں تو مستحاضہ نماز چھوڑ دے اور جب اس کی مدت ختم ہو جائے تو غسل کرے اور نماز پڑھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى سعيد، [مكتبه الشامله نمبر: 814]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 1352]، لیکن اس میں ہے کہ پہلے غسل کے بعد وضو کر کے نماز پڑھے گی۔ نیز دیکھئے: [البيهقي 330/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى سعيد
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مستحاضہ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ حیض کے دنوں میں نماز ترک کرے گی، پھر غسل کر کے روئی کا پھایا لگائے گی، پھر نماز پڑھے گی، کسی نے پوچھا: اگر خون بہتا ہی رہے تو؟ فرمایا: چاہے اس پر نالے ہی کی طرح کیوں نہ بہتا رہے۔ یعنی مقام مخصوص پر روئی بھر کر نماز پڑھے چاہے جتنا خون نکلے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 815]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المحلی لابن حزم 252/1]۔ نیز آگے بھی یہ روایت آرہی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عمار بن ابی عمار نے کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما مستحاضہ کے بارے میں سب سے زیادہ سخت موقف رکھتے تھے، لیکن پھر نرمی اختیار کر لی، ایک خاتون ان کے پاس آئیں اور دریافت کیا کہ میں مستحاضہ ہوں، کعبہ میں داخل ہو سکتی ہوں؟ فرمایا: ہاں، چاہے کتنا ہی خون بہتا ہو تم کعبہ میں داخل ہو سکتی ہو، اچھی طرح روئی باندھو اور اندر چلی جاؤ۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 816]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ کہیں اور ان الفاظ میں یہ روایت نہیں مل سکی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول حدیث کے مطابق ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
قمیر (بنت عمران زوجہ مسروق) نے کہا: میں نے مستحاضہ کے بارے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ (حیض کے) جن دنوں میں (اس سے پہلے) نماز چھوڑ دیا کرتی تھی، اتنے میں انتظار کرے (یعنی نماز چھوڑ دے)، اور جب (طہر) پاکی کا دن آئے جس میں وہ پاک ہوتی تھیں، تو غسل کر لے پھر ہر نماز کے وقت وضو کرے اور نماز پڑھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف مجالد بن سعيد، [مكتبه الشامله نمبر: 817]»
یہ روایت مجالد بن سعید کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن دوسرے طرق سے بھی ایسا ہی مروی ہے، اس لئے یہ اثر صحیح ہے۔ دیکھئے: [شرح معاني الآثار 105/1]، [ابن أبى شيبه 1351]، [مصنف عبدالرزاق 1170]، [البيهقي 346/1] و [أبوداؤد 210/1 بعدحديث 300] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف مجالد بن سعيد
ابوجعفر نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مذکورہ بالا قول روایت کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه جهالة، [مكتبه الشامله نمبر: 818]»
اس سند میں رجل مجہول ہے، لیکن صحیح سند سے بھی مروی ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 1349]۔ نیز (825) میں بھی یہ روایت آرہی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه جهالة
قمیر نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا۔۔۔ اس حدیث کا ترجمہ (813) میں گزر چکا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 819]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 300] وحديث رقم (817) و (836)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عدی بن ثابت سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے ان کے دادا سے سنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”مستحاضہ ہر مہینے کے ایام حیض میں نماز چھوڑ دے، اور مدت ختم ہونے پر غسل کرے اور نماز پڑھے، روزہ رکھے، اور ہر نماز کے وقت وضو کرے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح بشواهده، [مكتبه الشامله نمبر: 820]»
اس حدیث کی سند ضعیف ہے، لیکن اس معنی کے شواہد صحیحہ موجود ہیں۔ دیکھئے: [أبوداؤد 297]، [ترمذي 126، 127]، [ابن ماجه 625]، [شرح معاني الآثار 102/1] و [بيهقي 347/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح بشواهده
امام حسن بصری رحمہ اللہ سے اس مستحاضہ عورت کے بارے میں مروی ہے جس کو اپنے ایام ماہواری کا علم ہو، جب اسے طلاق ہو جائے اور خون جاری رہے تو انہیں ایام کے مطابق تین حیض کی مدت گزارے گی۔ اور اس کی نماز کے بارے میں ان سے مروی ہے کہ ہر مہینے میں اس کے جو حیض کے دن ہوتے ہیں ان میں وہ نماز نہیں پڑھے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 821]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 18714] و [مصنف عبدالرزاق 345/6] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
معتمر (بن سلیمان) سے مروی ہے ان کے والد نے قتادہ سے پوچھا: وہ عورت جس کو اپنے حیض کے ایام معلوم ہوں، اور پانچ چار یا تین دن مزید خون جاری رہے تو وہ کیا کرے گی؟ فرمایا: نماز پڑھے گی، سلیمان نے کہا: اگر دو دن خون جاری رہے؟ فرمایا: یہ حیض کا ہی خون ہے۔ انہوں نے کہا: اور میں نے امام ابن سیرین رحمہ اللہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا: عورتیں اس بات کو بہتر جانتی ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 822]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 538/2، 8864]، [أبوداؤد 286]، [المحلي 203/2] و [التمهيد 75/16] وضاحت:
(تشریح احادیث 800 سے 818) مقصد یہ کہ حیض اور استحاضہ کے خون میں فرق ہوتا ہے اور عورت اس میں تمیز کرسکتی ہے کہ کب حیض کا خون ختم ہوا، اس لئے جب حیض کا خون ہو تو نماز ترک کر دے، ورنہ غسل اور وضو کر کے نماز پڑھ لے۔ واضح رہے کہ حیض کے ایام کبھی کم اور کبھی زیادہ ہو جاتے ہیں، لہٰذا دو ایک دن بڑھ جائیں اور خون حیض کا ہی ہو تو اس پر حیض کے احکام جاری ہوں گے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام حسن بصری رحمہ اللہ سے مروی ہے: وہ عورت جس کو ایام طہر میں خون آ جائے، میری رائے میں وہ غسل کرے اور نماز پڑھے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 823]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 94/1]۔ نیز آگے (890) میں بھی یہ روایت آرہی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحسن
شہر بن حوشب سے مروی ہے: مستحاضہ عورت کے بارے میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: ماہواری کے ایام کے بقدر انتظار کر کے نماز چھوڑے گی، پھر غسل کرے اور نماز پڑھے، یہاں تک کہ اس کے حیض کے ایام آ جائیں، تو پھر نماز ترک کر دے پھر غسل کرے، یہ خون کا جاری رہنا شیطان کی طرف سے ہے، وہ چاہتا ہے کہ ان میں سے کوئی عورت نماز ترک کر کے کفر میں مبتلا ہو جائے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل شهر بن حوشب، [مكتبه الشامله نمبر: 824]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [مسند أبى يعلی 6370] واثر رقم (815)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل شهر بن حوشب
ابوجعفر محمد بن علی نے مستحاضہ کے بارے میں فرمایا: حیض کے ایام میں وہ نماز چھوڑ دے، پھر غسل کر کے روئی کا پھایا لگائے گی اور ہر نماز کے وقت وضو کرے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 825]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، اور ایسی ہی روایت (818) میں گذر چکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: مستحاضہ ایام ماہواری میں بیٹھی رہے گی (یعنی نماز نہ پڑھے گی)، پھر ایک غسل کرے گی اور ہر نماز کے لئے وضو کرے گی (یعنی نہانا ضروری نہیں)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 826]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، اور اثر رقم (815) میں تخریج گذر چکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
انس بن سیرین نے کہا: آل انس میں سے ایک عورت کو استحاضہ کی بیماری لگی تو انہوں نے مجھے حکم دیا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مسئلہ دریافت کروں۔ انہوں نے جواب دیا کہ جب وہ بہت زیادہ سرخ خون دیکھے تو نماز نہ پڑھے اور جب دن کی کسی گھٹری میں طہر دیکھے تو غسل کرے گی اور نماز پڑھے گی۔ (یعنی تھوڑی سی دیر کو ہی حیض رک جائے تو غسل کر کے نماز پڑھے گی)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 827]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 286]، [ابن أبى شيبة 128/1]، [سنن البيهقي 340/1] و [المحلی لابن حزم 167/3] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
انس بن سیرین نے کہا: انس بن مالک کی لونڈی (ام ولد) مستحاضہ ہوئیں تو لوگوں نے مجھ سے کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فتویٰ پوچھوں، لہٰذا میں نے ان سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ جب بہت زیادہ خون دیکھے تو نماز نہ پڑھے اور جب پاکی محسوس کرے تو غسل کر کے نماز پڑھے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 828]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ضحاک سے مروی ہے ایک عورت نے ان سے پوچھا: مجھے استحاضہ کی بیماری ہے، تو انہوں نے کہا: جب تازہ خون دیکھو تو حیض کے ایام میں تم نماز سے رکی رہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف حجاج بن نصير، [مكتبه الشامله نمبر: 829]»
یہ روایت حجاج بن نصیر کی وجہ سے ضعیف ہے، اور اسے صرف امام دارمی نے روایت کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف حجاج بن نصير
ابراہیم نے کہا: مستحاضہ مدت حیض میں بیٹھی رہے گی (یعنی نماز نہ پڑھے گی اور پاک ہو کر) ظہر عصر کے لئے ایک مرتبہ غسل کرے گی، مغرب کو مؤخر کر کے عشاء کے اول وقت میں نماز پڑھے گی اور فجر کے لئے ایک مرتبہ غسل کرے گی، اور وہ نہ روزہ رکھے گی نہ شوہر کے ساتھ صحبت کرے گی اور نہ قرآن پاک کو ہاتھ لگائے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 830]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 1172] و [المحلي 214/2] وضاحت:
(تشریح احادیث 818 سے 826) روزہ رکھنا، نماز نہ پڑھنا، جماع سے پرہیز کرنا اور مصحف کو ہاتھ نہ لگانا یہ سب حائضہ کے احکام ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عطاء نے کہا: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما مستحاضہ کے بارے میں فرماتے تھے کہ وہ ظہر و عصر کے لئے ایک بار غسل کرے گی اور ایک بار مغرب و عشاء کے لئے، نیز وہ فرماتے تھے کہ ظہر کو مؤخر کر کے عصر جلدی پڑھے گی، اور مغرب کو مؤخر کر کے عشاء جلدی پڑھے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 831]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 208/1، 286]، [ابن أبى شيبه 127/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
مجاہد سے مستحاضہ کے بارے میں مروی ہے کہ جب اس کا حیض کا خون گڑ بڑ ہو جائے تو عصر کے وقت اگر یہ گڑ بڑی ہو تو وضو کر کے کپڑا لے کر روئی سے باندھ لے، پھر ظہر و عصر ملا کر پڑھ لے، اور اسی طرح کرتی رہے، پھر مغرب عشاء ملا کر پڑھے، اور ایسا ہی کرتی رہے، پھر صبح کی نماز پڑھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى مجاهد، [مكتبه الشامله نمبر: 832]»
مجاہد تک اس روایت کی سند صحیح ہے، اور صرف امام دارمی نے اس قول کو روایت کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 826 سے 828) «قروء» «قرء» کی جمع ہے «اقراء» بھی «قرء» کی جمع ہے، اہلِ حجاز میں «قرء» (طہر) پاکی کے ایام کے لئے بولا جاتا ہے اور اہلِ عراق کے نزدیک ایامِ حیض کے لئے بولا جاتا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى مجاهد
عطاء، سعید، عکرمہ رحمہم اللہ مستحاضہ کے بارے میں فرماتے تھے کہ وہ پہلی نماز (ظہر) اور عصر کے لئے روزانہ ایک مرتبہ غسل کرے گی، اور مغرب عشاء کے لئے ایک بار غسل کر کے دونوں نماز پڑھے گی اور صبح کی نماز کے لئے ایک بار غسل کرے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 833]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 1171] و [المحلي لابن حزم 214/2] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عبداللہ بن شداد نے کہا: زائد حیض والی عورت غسل کرے گی، پھر ظہر عصر ایک ساتھ ملا کر پڑھے گی، اگر کوئی چیز دیکھے تو پھر غسل کرے گی اور مغرب عشاء ملا کر پڑھے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 834]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 296] وضاحت:
(تشریح احادیث 828 سے 830) ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ عورت جس کو اپنے حیض کے ایام معلوم ہیں، 5 یا 6 یا 7 دن، اس کے بعد بھی خون جاری رہے تو وہ حیض کے دنوں میں نماز چھوڑ دے گی، باقی دنوں میں غسل کر کے نماز پڑھے گی۔ کچھ روایات میں صرف ایک بار شروع میں غسل کر لے، اور جب تک بھی یہ عارضہ ہے، صفائی اور وضو کر کے نماز پڑھے گی، روزہ بھی رکھ سکتی ہے، اور شوہر کے لئے حلال ہوگی۔ بعض روایات میں ہے کہ دن میں ایک بار غسل کر لے۔ بعض روایات میں ہے ظہر اور عصر کے لئے ایک غسل، مغرب و عشاء کے لئے ایک غسل اور فجر کے لئے ایک بار غسل کرے گی۔ مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|