من كتاب الطهارة وضو اور طہارت کے مسائل 96. باب إِذَا اخْتَلَطَتْ عَلَى الْمَرْأَةِ أَيَّامُ حَيْضِهَا في أَيَّامِ اسْتِحَاضَتِهَا: عورت کے حیض اور استحاضہ کے ایام گڈمڈ ہو جائیں تو کیا کرے؟
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، ان کے پاس ایک عورت نے لکھا کہ میں اتنے اتنے دن سے استحاضہ میں مبتلا ہوں اور مجھے یہ خبر لگی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ ایسی عورت ہر نماز کے وقت غسل کرے گی؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فر مایا: قول علی کے علاوہ ہم تمہارے لئے کوئی رخصت نہیں پاتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 931]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 127/1]، [مصنف عبدالرزاق، 1173، 1178] و [شرح معاني الآثار 199/1 -101] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
یحییٰ بن ابی کثیر نے کہا: ابوسلمہ یا عکرمہ نے مجھ سے بیان کیا کہ ام المومنین سیدہ زینب رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعتکاف کرتی تھیں، اور ان کو (استحاضہ کا) خون جاری رہتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ ہر نماز کے لئے غسل کریں۔
تخریج الحدیث: «إسناده منقطع، [مكتبه الشامله نمبر: 932]»
اس روایت کی سند منقطع ہے۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 117] و [بيهقي 351/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده منقطع
یحییٰ بن ابی کثیر سے مروی ہے کہ سیدنا علی اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ مستحاضہ ہر نماز کے وقت غسل کرے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده منقطع، [مكتبه الشامله نمبر: 933]»
اس روایت کی سند بھی منقطع ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 127/1]، دیگر طرق بھی ضعیف ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده منقطع
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا: میں نے عطاء بن ابی رباح سے سنا کہ (مستحاضہ) ہر دو نمازوں کے لئے ایک غسل اور فجر کے لئے الگ غسل کرے گی۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا: زہری و مکحول رحمہما اللہ کہتے تھے کہ ہر نماز کے لئے غسل کرے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 934]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: آثار رقم (827، 829، 916) و [مصنف عبدالرزاق 1171] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابوسلمہ سے مروی ہے ام حبیبہ نے کہا: وہب نے ذکر کیا کہ ام حبیبہ بنت جحش کو خون آتا رہتا تھا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا، تو آپ نے حکم فرمایا: ”ہر نماز کے وقت غسل کر کے نماز پڑھیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه، [مكتبه الشامله نمبر: 935]»
اس روایت کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 293] و [بيهقي 351/1] وضاحت:
(تشریح احادیث 914 سے 931) امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اس روایت کے تحت لکھا ہے: اگر طاقت ہو تو ہر نماز کے لئے غسل کرے گی، اور اگر مشقت کی وجہ سے پریشان ہو تو وضو کر کے نماز پڑھ لے گی۔ ان مختلف روایات کا یہی حل ہے۔ والله اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه
ابوبشر (جعفر بن ابي وحشيہ) نے کہا: میں نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ کو کہتے سنا: ایک عورت نے سیدنا ابن عباس اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم کے پاس لکھا کہ میں مستحاضہ ہوں، پاک نہیں ہوتی ہوں، اور میں تم دونوں کو اللہ کی یاد دلا کر درخواست کرتی ہوں کہ مجھے فتویٰ دیجئے، میں نے اس بارے میں پوچھا تو لوگوں نے مجھے یہ بتایا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ ایسی عورت ہر نماز کے لیے غسل کرے گی۔ ابوبشر نے کہا: میں نے یہ خط پڑھ کر سنایا اور اپنے ہاتھ سے جواب لکھا کہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے قول کے علاوہ کچھ نہیں پاتا ہوں (یعنی انہوں نے جو کہا وہ صحیح ہے)۔ عرض کیا گیا کہ کوفہ ٹھنڈا مقام ہے، فرمایا: اگر اللہ چاہتا تو اس سے بڑی مصیبت میں انہیں مبتلا کر دیتا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 936]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 1173، 1179]، [شرح معاني الآثار 100/1]، [سنن البيهقي 335/1] و [المحلی لابن حزم 214/3] وضاحت:
(تشریح حدیث 931) عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ سردی میں ہر نماز کے لئے غسل کرنا بہت تکلیف دہ ہوگا، فرمایا: یہ تو کچھ نہیں، اللہ چاہے تو اس سے بڑی مصیبت میں مبتلا کر دے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
مجاہد سے مروی ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا گیا کہ ان کا علاقہ ٹھنڈا علاقہ ہے تو انہوں نے فرمایا: (تب پھر) ظہر کو تاخیر اور عصر کو جلدی پڑھ لے، اور ایک بار غسل کر لے، مغرب دیر سے اور عشاء جلدی ایک غسل سے پڑھ لے، اور فجر کے لئے ایک بار غسل کر لے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 937]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [شرح معاني الآثار 101/1 -102] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدہ زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جحش کی بیٹی عبدالرحمٰن بن عوف کے نکاح میں تھیں اور انہیں خون جاری رہتا تھا، اور جب وہ تسلے یا ٹب سے نکلتیں تو خون پانی کے اوپر آ جاتا تھا، پھر وہ نماز پڑھتی تھیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 938]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 128/1]، [اسد الغابة 69/7 -71]، [الاصابة 191/12] و [الاستذكار 228/3] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا: میں نے امام زہری اور یحییٰ بن ابی کثیر رحمہما اللہ سے سنا: وہ کہتے تھے کہ وہ (مستحاضہ) ہر نماز کے لئے علاحدہ غسل کرے گی۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا: اور مکحول سے بھی مجھے یہی روایت پہنچی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 939]»
یہ سند تو صحیح ہے، لیکن دوسری جگہ کہیں نہیں ملی۔ مکحول کی روایت ضعیف ہے۔ نیز دیکھئے حديث رقم (791)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ مجھے عطاء رحمہ اللہ نے خبر دی کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے تھے: ہر دو نماز کے لئے غسل ہے، صرف نماز فجر ایک غسل سے پڑھے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 940]»
اس اثر کی سند صحیح ہے، اور یہ روایت (930) میں گذر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [بيهقي 89/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ایک عورت نے امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ مجھے خون جاری رہتا ہے۔ تو انہوں نے کہا: پانی چھڑک لیا کرو، وہ تم سے خون کو روک دے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 941]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ حجاج: ابن منہال ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام حسن رحمہ اللہ سے اس مطلقہ کے بارے میں مروی ہے جس کے حیض کا پتہ نہ چل سکے (یعنی آتا ہے یا رک گیا ہے)، انہوں نے کہا: پورے سال وہ انتظار کرے گی، حیض آیا تو ٹھیک ورنہ ایک سال کے بعد تین مہینے عدت گزارے گی، پھر حیض آیا تو ٹھیک ہے، نہیں آیا تو اس کی عدت پوری ہو گئی۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 942]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 11098] وضاحت:
(تشریح احادیث 932 سے 938) مطلب یہ ہے کہ حیض رک گیا ہے اور طلاق ہوگئی تو ایک سال تک حیض کا انتظار کرے گی، اور پھر تین مہینے عدت کے گذارے گی، ان تین مہینوں کے اندر حیض آجائے تو حیض کے حساب سے عدت گذارے گی، اور تین ماہ کے دوران پھر حیض رک جائے تو تین مہینے گزار لے تو اس کی عدت پوری مانی جائے گی۔ جیسا کہ مصنف عبدالرزاق میں تفصیلاً ذکر ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
امام مالک رحمہ اللہ سے مستحاضہ کی طلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے ابن شہاب (زہری) عن سعید بن المسیب رحمہما اللہ سے نقل کیا کہ اس کی عدت ایک سال ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 943]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الموطا الطلاق 71]، [ابن أبى شيبه 158/5]، نیز رقم (944)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عمرو بن دینار نے کہا: جابر بن زید سے ایسی نوجوان لڑکی کی طلاق کے بارے میں دریافت کیا گیا، بنا کبر سنی کے جس کا حیض رک گیا ہو، (اس کی عدت کیا ہو گی؟) تو انہوں نے فرمایا: بنا حیض کے حیض کی طرح کی مدت گزارے گی۔ امام طاؤوس رحمہ اللہ نے (وضاحت کی) فرمایا: تین مہینے عدت گزارے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 944]»
اس روایت کی سند تو صحیح ہے، لیکن جابر کا قول اور کہیں نہیں مل سکا، طاؤوس کا قول البتہ اسی سند سے [مصنف عبدالرزاق 11122] میں موجود ہے جو صحیح ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
معمر سے مروی ہے امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا: جب آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے اور ایک یا دو مرتبہ حیض آنے کے بعد رک جائے، اور یہ رکاوٹ زیادہ عمر کی وجہ سے ہو تو تین مہینے عدت کے پورے کرے گی، اور کم عمر ہے اور شبہ میں پڑ گئی تو شک پڑنے کے بعد ایک سال تک عدت گزارے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 945]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 11097] و [تفسير طبري 140/28] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
قتادہ سے مروی ہے: عکرمہ (مولى سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما) نے کہا: مستحاضہ اور وہ عورت جس کا حیض برقرار نہ رہے، کبھی مہینے میں ایک بار کبھی دو بار حیض آئے، اس کی عدت تین مہینے ہو گی (یعنی طلاق کی عدت)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 946]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 11123] و [تفسير طبري 141/28] و [مصنف ابن أبى شيبه 158/5 -159] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ہشام سے مروی ہے حماد نے کہا: وہ تین قروء (یعنی تین حیض) عدت گزارے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 947]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 158/5] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سعید بن المسيب رحمہ اللہ نے فرمایا: مستحاضہ کی عدت ایک سال ہے۔
تخریج الحدیث: «أثر صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 948]»
یہ اثر صحیح ہے، اور اثر رقم (939) پر گزر چکا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: أثر صحيح
امام حسن رحمہ اللہ نے فرمایا: مستحاضہ حیض کے حساب سے عدت گزارے گی، یعنی اگر اسے طلاق دے دی جائے تو تین قروء عدت ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه هشيم وقد عنعن، [مكتبه الشامله نمبر: 949]»
اس قول کی سند ضعیف ہے۔ ابن ابی شیبہ نے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔ دیکھئے: [المصنف 158/5] و [مسند أبى يعلی الموصلي 3111] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه هشيم وقد عنعن
امام زہری رحمہ اللہ نے کہا: اقراء (یعنی حیض یا طہر کے حساب) سے عدت گزارے گی۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: اہل حجاز ”اقراء“ سے مراد طہر پاکی کی حالت کو لیتے ہیں، اور اہل عراق نے اس سے مراد حیض (کی حالت و مدت) کو لیا ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: اور میرے نزدیک وہ حیض ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 950]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 128/5] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام حسن رحمہ اللہ نے فرمایا: مستحاضہ اقراء کے حساب سے عدت گزارے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 951]»
یعنی تین ماہ عدت گذارے گی، اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [عبدالرزاق 11127]، نیز اثر رقم (945)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام اوزاعی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں نے (ابن شہاب) زہری رحمہ اللہ سے دریافت کیا ایسے آدمی کے بارے میں جس نے اپنی جوان بیوی کو طلاق دی، اسے حیض آتا تھا لیکن طلاق کے وقت حیض کا آنا بند ہو گیا، اور اس نے خون دیکھا ہی نہیں، تو اس کی عدت کتنی ہو گی؟ فرمایا: تین مہینے۔
تخریج الحدیث: «أسانيدها جيده، [مكتبه الشامله نمبر: 952]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ «وانفرد به الدارمي» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: أسانيدها جيده
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا: اور میں نے امام زہری رحمہ اللہ سے یہ بھی پوچھا کہ ایک آدمی نے اپنی عورت کو طلاق دی، اسے دوبار حیض آیا پھر رک گیا تو کتنے دن عدت گزارے گی؟ فرمایا: اس کی عدت ایک سال ہو گی۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 953]»
اس قول کی سند جید مثل سابق ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
نیز فرمایا: میں نے امام زہری رحمہ اللہ سے یہ بھی پوچھا: ایک آدمی نے اپنی عورت کو طلاق دے دی جسے حیض آتا تھا، وہ تین مہینے تک رکی رہی (یعنی حیض نہ آیا) پر ایک بار حیض آ گیا، پھر (ایک بار آ کر) حیض رک گیا اور سات آٹھ مہینے تک وہ بیٹھی رہی (حیض نہ آیا)، پھر دوسری بار حیض آ گیا، پہلی بار جلدی آ گیا، دوسری بار بہت دیر سے حیض آیا، تو وہ عدت کیسے گزارے گی؟ فرمایا: اس کا حیض وقت مقررہ میں الٹ پلٹ کر آیا تو اس کی ایک سال کی عدت ہو گی۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر:]»
اس قول کی سند جید ہے۔ «و انفرد به الدارمي» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا: اگر طلاق ہو جائے اور ہر سال میں ایک بار حیض آئے، تب عدت کتنی ہو گی؟ فرمایا: اگر اس کو وقت مقررہ پر حیض اور طہر ہوتا تھا، تو ہماری رائے میں وہ مدت حیض کی عدت گزارے گی۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 955]»
اس قول کی سند مثل سابق اور جید ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
امام اوزاعی رحمہ اللہ سے مروی ہے: میں نے امام زہری رحمہ اللہ سے دریافت کیا: آدمی نابالغ لونڈی خریدے، جس کے مثل حاملہ نہ ہو سکے تو اس کے استبراء رحم کی مدت کیا ہو گی؟ فرمایا: تین مہینے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 956]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، اور (1212) رقم پر آ رہی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
یحییٰ بن ابی کثیر نے کہا: پینتالیس دن کی مدت ہو گی۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 957]»
اس قول کی سند حسبِ سابق ہے، اور اثر تم (1213) پر آرہی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما مستحاضہ کے بارے میں فرماتے تھے کہ وہ ہر نماز کے لئے غسل کرے گی، پھر نماز پڑھے گی۔
تخریج الحدیث: «أسانيدها صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 958]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ ابن ابی شیبہ نے [ابن أبى شيبه 127/1] میں بسند منقطع اس کو ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: أسانيدها صحيح
حماد نے کہا: مستحاضہ عورت جہل کی وجہ سے کئی مہینے نماز نہ پڑھے، تو وہ ان تمام نمازوں کی قضا کرے گی، عرض کیا گیا: کیسے قضاء کرے گی؟ کہا کہ طاقت ہو تو ایک ہی دن میں ساری نمازیں قضا کی ادا کر لے۔ امام دارمی رحمہ اللہ سے کہا گیا: آپ بھی یہی کہتے ہیں؟ فرمایا: «أي والله» (ہاں والله میں بھی یہی کہتا ہوں)۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 960]»
اس قول کی سند حسبِ سابق صحیح ہے۔ کہیں اور یہ روایت نہ مل سکی۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 938 سے 955) اس باب میں امام دارمی رحمہ اللہ نے اس عورت کے بارے میں جس کے حیض اور استحاضہ کے ایام خلط ملط ہو جائیں اس کے احکام اور مسائل احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اقوالِ ائمہ سے بیان کئے ہیں۔ 931 سے 940 نمبر تک اس کا بیان ہے کہ مستحاضہ عورت ہر نماز کے لیے غسل کرے گی یا نہیں؟ اس مسئلہ میں صحیح یہ ہے کہ مشقت نہ ہو تو ہر نماز کے لئے غسل کر لے، ورنہ ظہر، عصر کے لئے ایک بار، اور مغرب و عشاء کے لئے ایک بار، اور فجر کے لئے ایک بار غسل کرے گی۔ دوسرا مسئلہ ایسی عورت کی عدت کا ہے، مستحاضہ عورت کو اگر طلاق ہو جائے تو اس کی عدت تین حیض ہے، اور اس کا خون رکتا نہ ہو تو عدت کتنی گزارے گی؟ اس بارے میں صحیح یہ ہے کہ ایسی عورت تین مہینے عدت گذارے گی، اور اگر مطلقہ عورت کا حیض رک گیا ہے تو وہ ایک سال کی مدت گذارے گی، نو مہینے استبراء کے اور تین مہینے عدت کے۔ واللہ اعلم۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: [فقه السنة: 331/2] ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
|