من كتاب الطهارة وضو اور طہارت کے مسائل 91. باب في الْكَبِيرَةِ تَرَى الدَّمَ: بوڑھی عورت کا بیان جس کو خون آ جائے
عطاء نے بوڑھی عورت کے بارے میں جسے خون آ جائے کہا: ہم اسے حیض نہیں سمجھتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف وليث هو: ابن أبي سليم وهو ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 877]»
لیث بن ابی سلیم کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے، اور اس کو صرف امام دارمی نے نقل کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف وليث هو: ابن أبي سليم وهو ضعيف
عطاء سے ایسی عورت کے بارے میں مروی ہے، جس کو تیس سال سے حیض نہیں آیا، پھر وہ خون دیکھے، تو انہوں نے (اس بوڑھی کو) مستحاضہ کی طرح کا حکم دیا۔ (یعنی وہ مستحاضہ کے حکم میں ہے، غسل و وضو کر کے نماز پڑھے گی۔)
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن جريج، [مكتبه الشامله نمبر: 878]»
ابن جریج کے عنعنہ کی وجہ سے یہ روایت بھی ضعیف ہے۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 1181] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن جريج
عطاء نے کہا: عمر رسیدہ عورت کو خون آ جائے تو وہ مستحاضہ کے حکم میں ہے، اور ویسا ہی کرے گی جیسے مستحاضہ کرتی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 879]»
اس قول کی سند بھی ضعیف ہے، «كما مر آنفا» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
عطاء اور حکم بن عتیبہ سے ایسی بوڑھی عورت کے بارے میں منقول ہے جس کا حیض رک گیا ہو اور اسے خون آ جائے، تو وہ وضو کر کے نماز پڑھے گی، غسل نہیں کرے گی۔ امام دارمی رحمہ اللہ سے ایسی عورت کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: وضو کر کے نماز پڑھ لے گی اور طلاق دی جائے تو مہینے کے حساب سے عدت گزارے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه حجاج بن أرطاة وما وقعت عليه بهذا اللفظ، [مكتبه الشامله نمبر: 880]»
حجاج بن ارطاة کی وجہ سے اس روایت کی سند بھی ضعیف ہے، کسی اور محدث نے بھی اسے ذکر نہیں کیا۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 871 سے 876) بوڑھی عمر رسیدہ عورت کو حیض منقطع ہونے کے بعد اگر کبھی حیض آجائے تو یہ دمِ حیض شمار ہوگا یا دمِ استحاضہ؟ اس باب میں امام دارمی رحمہ اللہ نے عطاء بن أبی رباح اور حکم بن عتیبہ کے اقوال ذکر کئے ہیں اور اپنی رائے بھی یہ ہی ظاہر کی ہے کہ یہ دمِ استحاضہ مانا جائے گا اور ایسی بوڑھی عورت پر حیض کے احکام جاری نہ ہوں گے۔ فقہ السنہ میں سید سابق نے کہا ہے: آخر عمر تک جب بھی خون آئے وہ حیض کا ہی خون شمار کیا جائے گا کیونکہ اس کے مستحاضہ ہونے کی کوئی دلیل حدیث میں نہیں ہے۔ والله اعلم۔ دیکھئے: [فقه السنة 82/1-83] ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه حجاج بن أرطاة وما وقعت عليه بهذا اللفظ
|