من كتاب الطهارة وضو اور طہارت کے مسائل 2. باب مَا جَاءَ في الطُّهُورِ: طہارت (پاکیزگی) کا بیان
سیدنا ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”طہارت آدھا ایمان ہے اور الحمد للہ بھر دے گا میزان کو اور «(لا إله إلا الله والله أكبر)» دونوں بھر دیں گے آسمان اور زمین کے بیچ کی جگہ کو اور نماز نور ہے، صدقہ دلیل ہے، اور وضو روشنی ہے، اور قرآن تمہارے لیے یا تمہارے خلاف حجت ہے، اور ہر آدمی صبح کو اٹھتا ہے یا تو اپنے آپ کو آزاد کرتا ہے یا اپنے آپ کو برباد کرتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 679]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ ابومالک کا نام حارث یا عبید ہے اور زید: ابن سلام اور ابوسلام: ممطور الحبشی ہیں۔ تخریج کے لئے دیکھئے: [صحيح مسلم 223]، [ترمذي 3517]، [ابن ماجه 280]، [صحيح ابن حبان 844] و [معرفة السنن والآثار للبيهقي 590] وضاحت:
(تشریح احادیث 673 سے 676) یعنی اچھے کام کر کے اپنے آپ کو اللہ کے عذاب سے آزاد کرتا ہے یا برے کام کر کے اپنے آپ کو ہلاک و برباد کرتا ہے۔ «”حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ“» کا مطلب ہے کہ سمجھ کر پڑھا اور عمل کیا تو تمہارے لئے حجت، اور عمل نہ کیا تو تمہارے خلاف حجت ہے۔ نیز اس حدیث سے «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰهُ أَكْبَرُ» کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ بعض علماء نے کہا تلاوتِ قرآن کے بعد سب سے بہتر ذکر یہی کلمہ ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
بنوسلیم کے ایک آدمی نے کہا کہ ان تسبیحات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ہاتھ پر گنا، ایک روایت میں ہے کہ انہیں اپنے ہاتھ پر گنا اور آپ کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا۔ «سبحان الله» آدھی میزان بھر دیتا ہے اور «الحمد لله» ساری میزان بھر دیتا ہے اور «الله أكبر» آسمان و زمین کے درمیان کی جگہ بھر دیتا ہے، اور وضو نصف ایمان ہے، اور روزہ نصف صبر ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 680]»
اس حدیث کی سند جید ہے۔ جری: ابن کلیب النہدی ہیں۔ دیکھئے: [مسند أحمد أ 260/4، 370/5]، و [شعب الايمان 3575] و [ترمذي 3514]۔ نیز [امام أحمد 365/5] نے مسند میں بسند حسن یہ حدیث ذکر کی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سیدھے اور مضبوط رہو، اور سب نیکیوں کو نہ گھیر سکو گے، اور جان لو کہ تمہارے بہتر اعمال میں سے نماز ہے اور وضو کی حفاظت صرف مومن ہی کرتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 681]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الموطأ فى الطهارة 37]، [ابن ماجه 277، 278، 279 اس كي اسانيد ضعيفه هيں] و [صحيح ابن حبان 1037] و [تاريخ الخطيب 293/1] و [المستدرك 448 وقال صحيح على شرطهما] وضاحت:
(تشریح احادیث 676 سے 678) علامہ وحیدالزماں اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: «اسْتَقِيْمُوا» کا مطلب ہے کہ عقائد و اعمال میں اتباعِ حق اور صراطِ مستقیم پر قائم رہو اور توحید و سنّت سے میل کر کے شرک و بدعت کی طرف نہ جھکو، اور «لَنْ تُحْصُوا» کا مطلب ہے: تمام نیکیاں تم پوری طرح ادا نہ کر سکو گے اس لئے نماز جو سب سے عمدہ اور افضل ہے اس کی زیادہ احتیاط کرو، اور وضو کی حفاظت یہ ہے کہ اکثر اوقات با وضو رہو اور اس کے سنن و مستحبات اور فرائض کو بخوبی ادا کرو، تکلیفوں اور سردیوں میں پوری طرح سے اعضائے وضو کو دھونا، اور حقیقت میں وضو بڑی نعمت ہے اور ایمان کو تازہ کرتا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابوکبشہ سلولی نے بیان کیا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”متوسط طریقہ اختیار کرو اور صواب کے قریب ہوتے جاؤ۔ اور تمہارے اعمال میں سب سے بہتر نماز ہے، اور وضو پر سوائے مومن کے اور کوئی محافظت نہیں کرتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 682]»
اس حدیث کی سند حسن ہے، لیکن حدیث صحیح ہے، جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔ نیز دیکھئے: [المسند 282/5]، [ابن حبان 1037]، [المعجم الكبير 101/2، 1444] وضاحت:
(تشریح حدیث 678) ان احادیث میں وضو اور طہارت کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ یہ مومن بندوں کی صفات میں سے ہے کہ وہ طہارت کا خیال رکھتے ہیں اور باوضو رہتے ہیں۔ اور پچھلی احادیث میں وضو اور طہارت کو ایمان کے نصف حصے کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
|