من كتاب الطهارة وضو اور طہارت کے مسائل 86. باب مَنْ قَالَ الْمُسْتَحَاضَةُ يُجَامِعُهَا زَوْجُهَا: جن علماء نے مستحاضہ سے جماع کرنے کو جائز کہا ان کا بیان
عکرمہ سے مروی ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا مستحاضہ سے اس کے شوہر کے جماع کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 844]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے [مصنف عبدالرزاق 1188، 1189] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سالم الافطس نے کہا: سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: کیا مستحاضہ سے جماع کیا جا سکتا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: نماز جماع سے زیادہ بڑی چیز ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 845]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 1187] و [مصنف ابن أبى شيبه 279/4] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سمی سے مروی ہے، سعید بن المسيب رحمہ اللہ نے فرمایا: اس کا شوہر جماع کر سکتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 846]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ [مصنف عبدالرزاق 1186] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
یونس سے مروی ہے، امام حسن رحمہ اللہ نے مستحاضہ کے بارے میں فرمایا: اس کا شوہر جماع کر سکتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 847]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 1186] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عبداللہ بن مسلمہ سے مروی ہے، سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے مستحاضہ کے بارے میں فرمایا: اس کا شوہر اس سے جماع کر سکتا ہے، چاہے خون چٹائی پر ہی کیوں نہ آ جائے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن مسلم، [مكتبه الشامله نمبر: 848]»
اس قول کی نسبت صحیح نہیں۔ دیکھئے رقم (841، 846)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن مسلم
حمید سے مروی ہے، بکر بن عبداللہ سے کہا گیا کہ حجاج بن یوسف کہتے ہیں کہ مستحاضہ عورت سے اس کا شوہر جماع نہیں کر سکتا ہے، بکر بن عبدالله المزنی نے فرمایا: نماز اس سے زیادہ حرمت والی ہے، شوہر جماع کر سکتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده منقطع، [مكتبه الشامله نمبر: 849]»
اس روایت کی سند میں انقطاع ہے۔ نسبت صحیح نہیں لیکن معنی صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 279/4] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده منقطع
حمید سے مروی ہے، امام حسن رحمہ اللہ نے فرمایا: شوہر جماع کر سکتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 850]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ اور رقم (843) میں گذر چکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عطاء نے مستحاضہ کے بارے میں فرمایا: اس کا شوہر جماع کر سکتا ہے، وہ ایام حیض میں نماز ترک کر دے گی، جب نماز اس کے لئے جائز ہو گی، جماع بھی جائز ہو گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف خالد بن عبد الله متأخر السماع من عطاء، [مكتبه الشامله نمبر: 851]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 279/4] و رقم (836)۔ لیکن معنی صحیح ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف خالد بن عبد الله متأخر السماع من عطاء
امام شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مستحاضہ سے اس کا شوہر جماع کر سکتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف محمد بن سالم هو: الهمداني وهو ضعيف وعمر بن زرعة الخارفي قال البخاري في الكبير 157/ 6: " فيه نظر "، [مكتبه الشامله نمبر: 852]»
اس روایت کی سند بھی نسبت کے لحاظ سے ضعیف ہے، لیکن مطلب صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 279/4] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف محمد بن سالم هو: الهمداني وهو ضعيف وعمر بن زرعة الخارفي قال البخاري في الكبير 157/ 6: " فيه نظر "
قتادہ سے مروی ہے: سعید بن المسيب، حسن و عطاء نے مستحاضہ کے بارے میں فرمایا: غسل کر کے نماز پڑھے گی، رمضان کے روزے رکھے گی، اور اس کا شوہر اس سے جماع کر سکتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 853]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 279/4]۔ نیز دیکھئے رقم (835)۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 831 سے 849) ان تمام آثار سے معلوم ہوا کہ مستحاضہ مدتِ حیض گذر جانے کے بعد غسل کر کے نماز بھی پڑھے گی، روزے بھی رکھے گی اور اس کا شوہر اس سے جماع بھی کر سکتا ہے۔ یہی راجح مسلک ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|