من كتاب الطهارة وضو اور طہارت کے مسائل 5. باب التَّسَتُّرِ عِنْدَ الْحَاجَةِ: قضائے حاجت کے وقت پردہ پوشی کا بیان
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو سرمہ لگائے تو طاق بار لگائے، جو کرے تو بہتر ہے نہ کرے تو کوئی حرج نہیں، اور جو ڈھیلے سے استنجا کرے تو طاق بار کرے، جو کرے تو بہتر ہے نہ کرے تو کوئی حرج نہیں، اور جو شخص کھانا کھائے تو خلال کرے، پھر خلال سے کچھ نکلے تو اسے پھینک دے، اور جو زبان سے لگا رہے اسے نگل جائے، جو ایسا کرے تو بہتر ہے نہ کرے تو کوئی حرج نہیں، اور جو شخص پائخانہ کو جائے تو آڑ میں ہو جائے، اگر کچھ بھی آڑ نہ ہو ریت کے ایک ڈھیر کے سوا تو اس کی آڑ میں بیٹھ جائے اس لئے کہ شیاطین آدمی کی شرم گاہ سے کھیلتے ہیں، جو شخص ایسا کرے گا تو بہتر، نہ کرے تو کوئی حرج نہیں۔“
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 689]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [صحيح ابن حبان 1410]، [موارد الظمآن 132]، [العلل للدارقطني 1570] و [مشكل الآثار 41/1]۔ نیز دیکھئے: [أبوداؤد 25] و [ابن ماجه 327] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاجت کے وقت ٹیلے یا کھجور کے درختوں کی آڑ بہت پسند تھی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 690]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 342] و [مسند أبويعلی 6787] و [البيهقي 94/1]، نیز دیکھئے حدیث رقم (783)۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 682 سے 686) ان احادیث شریفہ میں سرمہ لگانے، ڈھیلے سے استنجاء کرنے اور دانتوں کا خلال کرنے کی اجازت اور قضائے حاجت پردے اور آڑ میں کرنے کا حکم ہے، نیز شیطان کے تلاعب سے بچنے کی تلقین ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|