سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب الطهارة
وضو اور طہارت کے مسائل
76. باب في الْمَرْأَةِ تَرَى في مَنَامِهَا مَا يَرَى الرَّجُلُ:
عورت کے احتلام کا بیان
حدیث نمبر: 785
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، عن عطاء الخراساني، قال: سمعت سعيد بن المسيب، يقول: سالت خالتي خولة بنت حكيم السلمية رضي الله عنها رسول الله صلى الله عليه وسلم: عن المراة تحتلم، "فامرها ان تغتسل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَطَاءٍ الْخُرَاسَانِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ: سَأَلَتْ خَالَتِي خَوْلَةُ بِنْتُ حَكِيمٍ الْسُلَمِيَّةُ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَنْ الْمَرْأَةِ تَحْتَلِمُ، "فَأَمَرَهَا أَنْ تَغْتَسِلَ".
سعید بن المسیّب نے کہا میری خالہ (خولہ بنت حکیم السلمیہ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عورت کے بارے میں دریافت کیا جب اسے احتلام ہو جائے (یعنی وہ کیا کرے)، تو آپ نے اسے غسل کرنے کا حکم دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 789]»
سعيد بن المسیب اس سوال کے وقت موجود نہ تھے، یہ اس روایت کی علت ہے، لیکن دوسری کتب میں بسند صحیح بھی مروی ہے۔ دیکھئے: [مسند الامام أحمد 409/6]، [نسائي 198]، [ابن ماجه 603]، [المعجم الكبير 240/24، 610، 613]، [حلية الأولياء 206/5]

وضاحت:
(تشریح حدیث 784)
یعنی احتلام ہو جانے پر جس طرح مرد پر غسل واجب ہے عورت بھی غسل کرے گی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 786
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني عقيل، عن ابن شهاب، حدثني عروة بن الزبير، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم رضي الله عنها، انها اخبرته ان ام سليم ام بني ابي طلحة رضي الله عنه دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن الله لا يستحيي من الحق، ارايت المراة ترى في النوم ما يرى الرجل، اتغتسل؟، قال:"نعم"، فقالت عائشة: فقلت: اف لك، اترى المراة ذلك؟ فالتفت إليها رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: "تربت يمينك، فمن اين يكون الشبه؟".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ أُمَّ بَنِي أَبِي طَلْحَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ دَخَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي مِنْ الْحَقِّ، أَرَأَيْتَ الْمَرْأَةَ تَرَى فِي النَّوْمِ مَا يَرَى الرَّجُلُ، أَتَغْتَسِلُ؟، قَالَ:"نَعَمْ"، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: أُفٍّ لَكِ، أَتَرَى الْمَرْأَةُ ذَلِكَ؟ فَالْتَفَتَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "تَرِبَتْ يَمِينُكِ، فَمِنْ أَيْنَ يَكُونُ الشَّبَهُ؟".
عروہ بن زبیر سے مروی ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا زوجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا: بنو ابوطلحۃ کی ماں سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس داخل ہوئیں، عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ حق بات سے نہیں شرماتا ہے، عورت مرد کی طرح سوتے میں تری دیکھے تو غسل کرے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، غسل کرے گی، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تف ہے تمہارے اوپر، کیا عورت کو احتلام ہوتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: مٹی لگے تمہارے ہاتھ کو، پھر کہاں سے مشابہت ہوتی ہے؟ «تربت يمينك»: یہ عربی محاورہ ہے جو عموماً بددعا کے لئے استعال ہوتا ہے، مطلب ہے تم پر محتاجی و فقیری آئے، لیکن یہاں بددعا مقصد نہیں بلکہ تعجب کے لئے ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح كاتب الليث ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 790]»
یہ روایت سنداً ضعیف ہے، لیکن متن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 282]، [مسلم 314]، [أبوداؤد 236، 237]، [ترمذي 113]، [نسائي 196]، [ابن ماجه 600]، [مسند أحمد 121/3]، [مسند ابي يعلی 4395] و [صحيح ابن حبان 1166]

وضاحت:
(تشریح حدیث 785)
یعنی مرد و عورت دونوں کی منی سے بچے کی مشابہت ہوتی ہے، کبھی باپ کے ساتھ اور کبھی ماں کے ساتھ، اور جب یہ معلوم ہوا کہ عورت کی بھی منی ہوتی ہے تو اسے مرد کی طرح احتلام بھی ہو سکتا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح كاتب الليث ولكن الحديث صحيح
حدیث نمبر: 787
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن كثير، عن الاوزاعي، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، عن انس رضي الله عنه، قال: دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم ام سليم وعنده ام سلمة، فقالت: المراة ترى في منامها ما يرى الرجل؟، فقالت ام سلمة: تربت يداك يا ام سليم فضحت النساء، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "منتصرا لام سليم بل انت تربت يداك، إن خيركن التي تسال عما يعنيها، إذا رات الماء فلتغتسل"، قالت ام سلمة: وللنساء ماء؟، قال:"نعم، فانى يشبههن الولد؟ إنما هن شقائق الرجال".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: دَخَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمُّ سُلَيْمٍ وَعِنْدَهُ أُمُّ سَلَمَةَ، فَقَالَتْ: الْمَرْأَةُ تَرَى فِي مَنَامِهَا مَا يَرَى الرَّجُلُ؟، فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: تَرِبَتْ يَدَاكِ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ فَضَحْتِ النِّسَاءَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مُنْتَصِرًا لِأُمِّ سُلَيْمٍ بَلْ أَنْتِ تَرِبَتْ يَدَاكِ، إِنَّ خَيْرَكُنَّ الَّتِي تَسْأَلُ عَمَّا يَعْنِيهَا، إِذَا رَأَتْ الْمَاءَ فَلْتَغْتَسِلْ"، قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: وَلِلنِّسَاءِ مَاءٌ؟، قَالَ:"نَعَمْ، فَأَنَّى يُشْبِهُهُنَّ الْوَلَدُ؟ إِنَّمَا هُنَّ شَقَائِقُ الرِّجَالِ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی تھیں کہ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا داخل ہوئیں اور پوچھا: اگر عورت خواب میں وہ دیکھے جو مرد یکھتا ہے (یعنی احتلام ہوجائے) تو کیا کرے؟ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں، تم نے تو عورتوں کو رسوا کر دیا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کی طرف داری کرتے ہوئے فرمایا: بلکہ (اے بیوی) تمہارے ہی ہاتھ خاک آلود ہوں، تم عورتوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی ضرورت کے مطابق مسئلہ پوچھے۔ پھر فرمایا: جب عورت تری (پانی) دیکھے تو غسل کرے گی۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کیا عورتوں کا بھی پانی ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، پھر بچہ ان کے مشابہ کیسے ہوتا ہے؟ وہ (یعنی عورتیں) مردوں کے مثل ہیں (طبیعت و عادات میں) یا عورتیں مردوں کا جوڑا ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف محمد بن كثير هو: الصنعاني وهو ضعيف. ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 791]»
یہ حدیث اس سند سے ضعیف ہے، لیکن متن و معنی صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 310، 314]، [أحمد 199/3]، [مسند الموصلي 3495]، [صحيح ابن حبان 1166]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف محمد بن كثير هو: الصنعاني وهو ضعيف. ولكن الحديث صحيح

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.