من كتاب الطهارة وضو اور طہارت کے مسائل 67. باب في الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ: غسل جنابت کا بیان
ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے (غسل) کے لئے پانی رکھا تو آپ نے اپنے ہاتھوں پر انڈیلا، پھر شرمگاہ کو دھویا، اس کے بعد اس ہاتھ کو زمین پر یا دیوار پر (یہ سلیمان کا شک ہے) رگڑا، پھر کلی کی، ناک جھاڑی، چہرے اور ہاتھ کہنی تک دھوئے، اور اپنے سر و جسد مبارک کے اوپر پانی ڈالا، غسل سے فارغ ہوئے تو دور ہٹ کر دونوں پیر دھوئے۔ میں نے آپ کو چادر پیش کی لیکن آپ نے انکار کر دیا اور ہاتھ سے ہی پانی سونتنے لگے۔ سلیمان سے مروی ہے سالم نے کہا: یہ آپ کا غسل جنابت تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 774]»
اس حدیث کی سند صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 249]، [مسلم 317]، [أبوداؤد 245]، [ترمذي 103]، [نسائي 253]، [ابن ماجه 467]، [أبويعلی 7101]، [ابن حبان 1190] وضاحت:
(تشریح حدیث 769) اس حدیث سے غسلِ جنابت کا طریقہ معلوم ہوا، پہلے نجاست دور کی جائے، پھر وضو کر کے سارے بدن پر پانی بہایا جائے، پیر اس جگہ سے دور ہٹ کر دھوئے جائیں، تولیہ سے بدن پونچھنا اس حدیث سے ثابت نہیں ہوتا، اگر تولیہ سے بدن پونچھا جائے تو کوئی حرج بھی نہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی وقت انکار کیا تو کسی وقت استعمال بھی کیا ہے۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل شروع کرتے تو پہلے ہاتھ دھوتے، پھر جیسے نماز کے لئے وضو کرتے ویسا ہی وضو کرتے، پھر ہاتھ میں پانی لے کر بالوں کی جڑوں میں خلال کرتے، اور جب اطمینان ہو جاتا کہ جڑوں تک پانی پہنچ گیا ہے تو تین بار چلو بھر کر اپنے سر پر پانی ڈالتے، پھر غسل فرماتے۔ امام دارمی ابومحمد رحمہ اللہ نے کہا: یہ طریقہ میرے نزدیک سالم بن ابی الجعد کی روایت سے زیادہ محبوب ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 775]»
یہ حدیث بھی صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 248]، [مسلم 316]، [أبوداؤد 242]، [ترمذي 104]، [أبويعلی 4482]، [ابن حبان 1191] و [مسند الحميدي 163] وضاحت:
(تشریح حدیث 770) یہ روایت بھی صحیح ہے اور اس میں صرف وضو کامل کا بیان ہے، یعنی وضو کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیر بھی دھو لیا کرتے تھے، دونوں روایات صحیح ہیں اس لئے کوئی سا بھی طریقہ اختیار کیا جائے صحیح ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|