من كتاب الطهارة وضو اور طہارت کے مسائل 3. باب: {إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاَةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ} الآيَةَ: اللہ تعالیٰ کا فرمان: «إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ» کابیان
عکرمہ سے مروی ہے کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ پانچوں نمازیں ایک وضو سے پڑھ لیا کرتے تھے، لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہر نماز کے لئے وضو کرتے تھے، اور انہوں نے یہ آیت پڑھی: «إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ» [5-المائدة:6] ”جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اپنے منہ ہاتھ دھو لو۔“
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات ولكنه منقطع قال أبو حاتم: " عكرمة لم يسمع من سعد بن أبي وقاص "، [مكتبه الشامله نمبر: 683]»
اس روایت کے رجال ثقات ہیں، لیکن منقطع ہے کیونکہ عکرمہ کا سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے لقا ثابت نہیں ہے۔ تخریج کے لئے دیکھئے: [تفسير طبري 112/7] و [الدر المنثور 262/2 فى تفسير الآية المذكورة] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات ولكنه منقطع قال أبو حاتم: " عكرمة لم يسمع من سعد بن أبي وقاص "
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بیٹے عبید اللہ نے کہا: میں نے سوچا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ہر نماز کے لئے چاہے وہ طاہر رہے ہوں یا غیر طاہر، وضو کرنے کے بارے میں کیا رائے ہے، ایسا کیوں کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: اسماء بنت زید بن الخطاب نے ان سے بیان کیا تھا کہ عبداللہ بن حنظلہ بن ابی عامر نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہر نماز کے لئے وضو کرنے کا حکم دیا، باوضو طاہر ہوں یا بےوضو، پھر جب ایسا کرنا ان کے لئے مشکل ہو گیا تو ہر نماز کے لئے مسواک کا حکم فرمایا، اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا خیال تھا کہ وہ ہر نماز کے لئے وضو کی طاقت رکھتے ہیں، اس لئے وہ کسی نماز کے لئے وضو ترک نہیں کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 684]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المسند 225/5]، [أبوداؤد 48]، [البيهقي 37/1] و [المستدرك 155/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابن بریدہ نے اپنے باپ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے لئے وضو کرتے تھے، حتی کہ جب مکہ فتح ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نمازیں ایک وضو سے پڑھیں، اور خفین پر مسح فرمایا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں نے دیکھا آپ نے ایسا کام کیا ہے جو پہلے کبھی نہ کرتے تھے؟ فرمایا: میں نے عمداً ایسا کیا ہے۔
ابومحمد امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: پس رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل دال ہے اس بات پر کہ اس آیت «﴿إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ﴾» [مائده: 6/5] کا مطلب ہے کہ ہر حدث والے پر ہر نماز کے لئے وضو ہے، اور باوضو کے لئے نہیں، اور اسی قبیل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ”وضو صرف حدث سے ہے۔“ واللہ اعلم تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 685]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المسند350/5]، [مسلم 277]، [أبوداؤد 172]، [ترمذي 61]، [نسائي 6/1] وغيرهم۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 679 سے 682) ان احادیثِ صحیحہ سے معلوم ہوا کہ وضو نہ ٹوٹے تو ایک وضو سے کئی وقت کی نمازیں ادا کی جا سکتی ہیں، اور وضو ہوتے ہوئے ہر نماز کے لئے نیا وضو کرنا بھی درست ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا بیان جواز ہی کے لئے کیا تھا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|