من كتاب الطهارة وضو اور طہارت کے مسائل 113. باب إِتْيَانِ النِّسَاءِ في أَدْبَارِهِنَّ: عورتوں کے دبر میں جماع کرنے کا بیان
ابن سابط نے کہا: میں نے حفصہ بنت عبدالرحمٰن سے پوچھا، عبدالرحمٰن جو ابوبکر کے بیٹے تھے۔ میں نے حفصہ سے پوچھا: میں آپ سے ایک چیز کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں، لیکن مجھے شرم آتی ہے۔ انہوں نے کہا: (بیٹے) بھتیجے پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو، عرض کیا: عورتوں کے دبر میں جماع کرنے کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں، انہوں نے جواب دیا کہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے بیان کیا، کہا کہ انصار بیوی کو منہ یا پیٹ کے بل لٹا کر جماع نہیں کرتے تھے (یعنی اوندھی کر کے)، اور مہاجرین ایسا کرتے تھے، مہاجرین میں سے ایک شخص نے ایک انصاری عورت سے شادی کی اور اوندھا کر کے جماع کرنا چاہا تو اس نے انکار کر دیا، اور وہ عورت سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی اور ماجرا بیان کیا، پس جب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو وہ عورت شرم کی وجہ سے باہر چلی گئی، لہٰذا سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اس کا ماجرا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے میرے پاس بلاؤ“، اسے بلایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت شریفہ کو تلاوت فرمایا: «﴿نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ﴾» [بقره: 223/2] یعنی ”تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہے، سو جس طرح چاہو اپنی کھیتی میں آؤ“، فرمایا: ”ایک ہی سوراخ یا راستے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1159]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 305/6، 318]، [تفسير الطبري 92/2، 96]، [ترمذي 2982] اختصار کے ساتھ۔ نیز [مصنف ابن أبى شيبه 230/4]، [عبدالرزاق 20959] و [بيهقي 195/7] وضاحت:
(تشریح حدیث 1154) مطلب یہ ہے کہ جماع جس طرح بھی چاہیں چٹ لٹا کر کریں یا اوندھی لٹا کر کریں، لیکن دخول فرج میں ہی ہونا ضروری ہے، دوسری جگہ نہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
مجاہد رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو تین بار قرآن پڑھ کر سنایا اس طرح کہ ہر آیت پر رک کر پوچھتا کہ کس بارے میں وہ آیت نازل ہوئی، اس کا مطلب کیا تھا؟ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا کہ «﴿فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ﴾» [البقرة: 222/2] کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا: اس کا مطلب ہے ( «من حيت امركم ان تعتزلوهن») آیت کا مطلب ہے کہ جب وہ پاک ہو جائیں تو جیسا الله کا حکم ہے اس طرح ان کے پاس جاؤ، تو انہوں نے کہا: جس طرح کا حکم سے مراد ہے ان سے علاحدگی اختیار کرنا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1160]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2164]، [المعجم الكبير 11097]، [المستدرك 159/1 وصححه]، [تفسير طبري 395/2]، و [أسباب النزول للواحدي ص: 52] وضاحت:
(تشریح حدیث 1155) یعنی حالتِ حیض میں جس جگہ سے دور رہو جب پاک ہو جائیں غسل کر لیں تو اسی جگہ سے اپنی حاجت ان سے پوری کرو۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے: «﴿فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ﴾» [بقره: 222/2] کا مطلب ہے ان کو حکم دیا گیا ہے کہ جس جگہ سے روکا گیا تھا طہارت کے بعد اسی جگہ وہ حاجت پوری کر لو۔ (یعنی جماع کر سکتے ہو اور دبر سے بچو)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1161]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 232/4]، [تفسير طبري 388/2] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابورزین نے آیت شریفہ «﴿فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ﴾» کا مطلب یہ بتایا کہ طہارت کی جگہ سے جماع کرو، یعنی دبر میں نہیں بلکہ قبل (فرج) میں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1162]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابورزین کا نام مسعود بن مالک ہے۔ دیکھئے: [تفسير طبري 388/2]، [مصنف ابن أبى شيبه 233/4] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے: «﴿وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ ......﴾» [الشعراء: 166/26] یعنی: ”اللہ تعالیٰ نے تمہاری بیویوں کی صورت میں جو چیز تمہارے لئے پیدا فرمائی اسے چھوڑ دیتے ہو۔“ مجاہد رحمہ اللہ نے فرمایا: اللہ کی قسم اس سے مراد عورت کی شرمگاہ فرج ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1163]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 232/4] وضاحت:
(تشریح احادیث 1156 سے 1159) اس آیت میں قومِ لوط کی عادتِ قبیحہ کا ذکر ہے کہ وہ اپنی عورتوں سے صحیح جگہ کو چھوڑ کر غلط جگہ میں بدفعلی کرتے تھے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
عکرمہ رحمہ اللہ سے مروی ہے: آیت شریفہ «﴿نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ﴾» [البقرة: 223/2] ”تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، جہاں سے چاہو آؤ۔“ فرمایا: اس سے مراد شرم گاہ فرج ہے (یعنی قبل میں جماع کرو، دبر میں نہیں)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1164]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 229/4] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
علی بن علی رفاعی نے بیان کیا کہ میں نے حسن رحمہ اللہ کو سنا، وہ فرماتے تھے: یہودی مسلمانوں کو ستانے میں کسر نہ چھوڑتے تھے، وہ کہتے تھے: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیو! تمہارے اللہ کی قسم بس یہی حلال ہے کہ اپنی بیویوں سے ایک طرف سے جماع کرو۔ فرمایا: اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «﴿نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ﴾» ”تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، جس طرف سے چاہو جماع کرو۔“ [البقره 2: 223] اس طرح اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کی حاجت روائی فرمائی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1165]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 234/4]۔ ابونعیم: فضل بن دکین ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت شریفہ: «﴿فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ﴾» کے بارے میں مروی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ آگے پیچھے کہیں سے بھی آؤ (جماع کرو) جبکہ دخول صرف مخصوص مقام میں ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف خالد بن عبد الله متأخر السماع من عطاء، [مكتبه الشامله نمبر: 1166]»
اس اثر کی سند ضعیف ہے، لیکن معنی صحیح ہے۔ دیکھئے: [تفسير طبري 392/2] و [البيهقي 196/7] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف خالد بن عبد الله متأخر السماع من عطاء
عکرمہ رحمہ اللہ نے کہا: اہل جاہلیت حیض والی عورت کے ساتھ مجوس جیسا سلوک کرتے تھے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا گیا تو یہ آیت شریفہ نازل ہوئی: «﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ﴾» [البقرة: 222/2] اور حیض والی عورتوں کے بارے میں مزید شدت آ گئی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1167]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابن ابی شیبہ نے اس کو مختصراً [مصنف 229/4] میں ذکر کیا ہے۔ عبدالوہاب: ابن عبدالمجید الثقفی ہیں اور خالد: ابن مہران ہیں۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 1159 سے 1163) یعنی ان سے طہر سے پہلے جماع نہ کرنے کے بارے میں اور شدت آ گئی، اور مجوس و یہود کا حائضہ کے ساتھ جو سلوک ہوتا تھا اس کا ذکر پچھلے آثار و احادیث میں گذر چکا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
مجاہد رحمہ اللہ سے «﴿قُلْ هُوَ أَذًى﴾» کے بارے میں مروی ہے کہ وہ خون ہے۔ (یعنی حیض کا خون گندگی ہے۔) اور قتادہ رحمہ اللہ نے کہا: وہ گندگی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف مؤمل وهو ابن إسماعيل وابن أبي نجيح هو: عبد الله، [مكتبه الشامله نمبر: 1168]»
تخريج مومل بن اسماعیل کی وجہ سے اس اثر کی سند میں ضعف ہے، اور بعض نسخ میں ہے: «أخبرنا محمد بن الصلت حدثنا ابن المبارك عن معمر عن قتادة: (قُلْ هُوَ أَذًى) قال: قَذِرُ» ۔ دیکھئے: [تفسير طبري 381/2] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف مؤمل وهو ابن إسماعيل وابن أبي نجيح هو: عبد الله
سعید بن المسيب رحمہ اللہ سے «﴿نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ﴾» [بقره: 223/2] کے بارے میں مروی ہے، فرمایا: چاہو تو عزل کرو یا چاہو تو عزل نہ کرو۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ليث هو: ابن أبي سليم وهو ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 1170]»
لیث بن ابی سلیم کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔ دیکھئے: [تفسير طبري 395/2]، [أسباب النزول للواحدي ص: 54] و [مصنف ابن أبى شيبه 232/4] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ليث هو: ابن أبي سليم وهو ضعيف
حسن بصری رحمہ اللہ سے مروی ہے: جس طرح چاہو کرو، بس جماع مخصوص جگہ میں ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1171]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الدر المنثور 262/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا جابر بن عبدالله انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہود نے مسلمانوں سے کہا کہ جو اپنی بیوی سے پیچھے کی طرف سے جماع کرے تو اس کا بچہ بھینگا پیدا ہوگا، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے یہ آیت شریفہ نازل فرمائی: «﴿نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ﴾» [بقره: 223/2] ”عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں جس طرح چاہو انہیں پانی دو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1172]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4527]، [مسلم 1435]، [ابويعلی 2024]، [ابن حبان 4166]، [الحميدي 1300] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عکرمہ رحمہ اللہ سے «﴿فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ ...﴾» [البقرة: 223/2] کے بارے میں مروی ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ کھڑے بیٹھے سامنے یا پیچھے جدھر سے چاہے اپنی بیوی سے جماع کرے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1173]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 229/4] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے فرمایا: «﴿فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ...﴾» [بقرة: 222/2] سے مراد ہے کہ (جماع) فرج میں ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1174]»
اس قول کی سند بھی صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 232/4] و [تفسير طبري 388/2]۔ ابن ادریس: عبداللہ بن ادریس بن یزید ہیں۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 1163 سے 1169) ان تمام روایات سے واضح ہوا کہ شوہر اپنی بیوی سے جس طرح چاہے استمتاع کر سکتا ہے، کھڑے سے، بیٹھے سے، آگے سے یا پیچھے سے، لیکن مقامِ مخصوص سے تجاوز نہ کرے، جماع جماع ہی کی جگہ میں کرے اور دبر سے شدت کے ساتھ اجتناب کرے، کیونکہ یہ فعل حرام ہے، اور جو ایسا کرے اس کو حدیث میں ملعون قرار دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: [زاد المعاد 311/3 ”فصل“ بعد فصل اما الجماع و الباه] ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|