من كتاب الطهارة وضو اور طہارت کے مسائل 107. باب مُبَاشَرَةِ الْحَائِضِ: حیض والی عورت سے مباشرت کرنے کا بیان
زید بن اسلم سے مروی ہے: ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میری بیوی کے حالت حیض میں میرے لئے کیا چیز حلال ہے؟ فرمایا: وہ اپنے کپڑے (ازار کو) مضبوطی سے کس لے، پھر اوپر اوپر تم مباشرت کر سکتے ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده معضل، [مكتبه الشامله نمبر: 1072]»
اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [المؤطا 95]، [بيهقي 191/7]، [المعجم الكبير 10765]، لیکن سب کی سند ضعیف ہے، مگر اس معنی کی روایات صحیح سند سے بھی مروی ہیں۔ «كما سيأتي» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده معضل
نافع رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ عبداللہ بن عبداللہ بن عمر نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس قاصد بھیجا کہ وہ ان سے دریافت کرے کہ کیا آدمی اپنی بیوی سے حیض کی حالت میں مباشرت کر سکتا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: وہ (حائضہ عورت) نیچے تک اچھی طرح ازار کس لے، پھر شوہر اس سے مباشرت کر لے۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 1073]»
اس روایت کے سب رجال ثقات ہیں۔ دیکھئے: [المؤطا 97]، [مصنف عبدالرزاق 1241]، [مصنف ابن أبى شيبه 254/4] و [بيهقي 190/7-191] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات
امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے کہا: حائضہ عورت سے اس کا شوہر ملائم جگہ اور رانوں کے درمیان مباشرت کر سکتا ہے، اگر منی نکل جائے تو وہ اس جگہ کو دھو لے گی اور مرد غسل کرے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1074]»
اس قول کی سند صحیح ہے، لیکن کہیں اور نہ مل سکی۔ اس کے ہم معنی روایت [مصنف عبدالرزاق 971] میں ہے۔ نیز ابن ابی زائده: یحییٰ بن زکریا اور حماد: ابن ابی سلیمان ہیں۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 1067 سے 1070) «مراق»: نرم جگہ کو کہتے ہیں جو پیڑو کے نیچے ہوتی ہے اور «دفق» بمعنی انزل یعنی انزال ہو جائے۔ اور مباشرت جسم سے جسم لگانے اور چمٹانے کو کہتے ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: ام عمران کو معلوم ہے کہ میں حالت حیض میں ان کی سرین میں ٹھوکر لگاتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1075]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ کہیں اور یہ روایت نہیں ملی۔ عبدالکریم: ابن مالک الجزری ہیں۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 1070) اس سے معلوم ہوا حائضہ عورت سے استمتاع جائز ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
مالک بن مغول نے کہا: ایک آدمی نے عطاء رحمہ اللہ سے حائضہ عورت (سے استمتاع) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے خون کی جگہ کے علاوہ میں کوئی حرج نہیں بتایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده منقطع مالك بن مغول لم يسمع من عطاء بن أبي رباح، [مكتبه الشامله نمبر: 1076]»
مالک بن مغول کا عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے سماع ثابت نہیں، لہذا یہ روایت منقطع ہے، کہیں اور ملی بھی نہیں۔ اس کے ہم معنی [مصنف عبدالرزاق 1242] میں ہے اور معنی تو صحیح ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده منقطع مالك بن مغول لم يسمع من عطاء بن أبي رباح
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جب مجھے حیض آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے حکم فرماتے، میں ازار کس لیتی، پھر آپ مجھ سے مباشرت فرماتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1077]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 300]، [مسلم 293] و [مسند أبى يعلي 4810] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
میمون بن مہران نے بیان کیا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا: حالت حیض میں مرد کے لئے اس کی بیوی سے کیا چیز حلال ہے؟ جواب دیا: جو ازار کے اوپر ہے۔ یعنی صرف اوپر ہی اوپر استمتاع کر سکتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1078]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 255/4] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
مسروق نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ عورت جب حالت حیض میں ہو تو شوہر کے لئے کیا جائز ہے؟ جواب دیا: جماع کے علاوہ ہر چیز جائز ہے۔ عرض کیا: اور جب دونوں احرام میں ہوں تو کیا چیز حرام ہے؟ جواب دیا: ہر چیز حرام ہے سوائے کلام و گفتگو کے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1079]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ طرفِ اول اوپر گذر چکی ہے۔ «انفرد به الدارمي» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک آدمی سے کہا: خون کی جگہ سے پرہیز کرو۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف والجلد بن أيوب ضعيف والراوي عن عائشة مجهول، [مكتبه الشامله نمبر: 1080]»
جلد بن ایوب ضعیف اور رجل مجہول ہیں، اس لئے اس قول کی سند ضعیف ہے، لیکن معنی صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 1240، 1241] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف والجلد بن أيوب ضعيف والراوي عن عائشة مجهول
عامر شعبی نے کہا: جب گندگی رک جائے۔۔۔ دوسری روایت ہے جب خون رک جائے تو جو چاہو کرو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1081]»
اس قول کی سند صحیح ہے، اور طبرانی نے [تفسير 284/2] میں ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 255/4 بسند صحيح] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
مجاہد نے کہا: حیض والی عورت کی رانوں اور سرة (ناف، ٹنڈی) سے کھیلنے میں کوئی حرج نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 1082]»
لیث بن ابی سلیم کی وجہ سے اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اس کا شاہد [مصنف ابن ابي شيبه 256/4] میں موجود ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن أبي سليم
مجاہد نے کہا: دبر اور حیض کی جگہ کے علاوہ آگے پیچھے کہیں سے آؤ۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 1083]»
لیث بن ابی سلیم کی وجہ سے اس کی سند بھی ضعیف ہے۔ اور کہیں یہ روایت نہیں ملی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن أبي سليم
ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک لحاف میں تھی کہ مجھے حیض آ گیا، میں کھڑی ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا ہوا؟“ عرض کیا: وہی ہو گیا جو عورتوں کو ہو جاتا ہے، فرمایا: ”یہ چیز بنات آدم کے لئے اللہ تعالیٰ نے مقدر کر دی ہے“، ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: پس میں اٹھ کھڑی ہوئی اور میں نے اپنی حالت درست کی، پھر (آپ کے پاک) واپس آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لحاف کے اندر آ جاؤ“، لہذا میں داخل ہو گئی۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1084]»
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 294/6]، [ابن ماجه 637]، [مسند أبى يعلی 426/12]، [مصنف ابن أبى شيبه 254/4] و [مصنف عبدالرزاق 1235] وضاحت:
(تشریح احادیث 1071 سے 1080) اس حدیث سے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی حسنِ معاشرت پر روشنی پڑتی ہے، اور اس میں اُمت کے لئے تعلیم ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کی خاطر ہی ایسا فرمایا: « ﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى . إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى﴾ [النجم: 3، 4] » یعنی: ”آپ وہی چیز بتاتے ہیں جس کی آپ کے اوپر وحی کی جاتی ہے، آپ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ حائضہ عورت کے ساتھ ایک کپڑے اور لحاف میں لیٹنے میں کوئی حرج نہیں، یہ اُمت کے لئے آسانی اور بہت بڑی رخصت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اے نبی! ہم نے آپ کو سارے عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ “ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک چادر میں تھی کہ مجھے حیض آ گیا، میں اپنے کپڑے سنبھال کر چپکے سے نکل آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا حیض آ گیا؟“ عرض کیا: جی ہاں، سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ آپ نے مجھے بلایا اور میں آپ کے ساتھ اسی چادر میں لیٹ گئی۔ نیز انہوں نے کہا کہ وہ اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ایک تسلے سے باہم غسل جنابت کرتے، اور آپ انہیں روزے کی حالت میں بوسہ دیتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1085]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے، اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 298]، [مسلم 296]، [مسند أبى يعلی 6691] و [صحيح ابن حبان 1363] وضاحت:
(تشریح حدیث 1080) حیض والی عورت کو اپنے ساتھ لٹانا، ایک ساتھ غسل کرنا اور روزے میں بوسہ دینا، یہ ساری چیزیں بیانِ جواز کے لئے تھیں تاکہ اُمّت کو صحیح تعلیم ملے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں میں سے کسی کے بھی ساتھ حالت حیض میں ازار کے اوپر سے مباشرت فرما لیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1086]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند الموصلي 7082]، [صحيح ابن حبان 1368] و [بيهقي 191/7] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ: ہم میں سے کسی کو جب حیض آتا تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کس کے ازار باندھنے کا حکم فرماتے، پھر ان سے مباشرت فرماتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1087]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ تخریج (1073) پرگذر چکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابومیسرہ سے مروی ہے ام المومنین رضی اللہ عنہا نے کہا: میں حالت حیض میں ازار کستی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لحاف میں گھس جاتی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1088]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بيهقي 314/1]۔ نیز دیکھئے پچھلی اور آنے والی تخریج (1093)۔ ابومیسرة کا نام عمرو بن شرحبیل ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
یزید بن ابی زیاد سے مروی ہے: ابن جبیر سے پوچھا گیا: جب عورت حالت حیض میں ہو تو مرد کے لئے کیا کچھ حلال ہے؟ فرمایا: ازار کے اوپر اوپر حلال ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبي زياد، [مكتبه الشامله نمبر: 1089]»
یزید بن ابی زیاد کی وجہ سے اس کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 254/4] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبي زياد
عبیده (السلمانی) سے حائضہ کے بارے میں مروی ہے کہ بستر چاہے ایک ہو لیکن لحاف الگ ہونا چاہے، اگر لحاف نہ ہو تو مرد اپنا لحاف اس پر ڈال دے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1090]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تفسير طبري 382/2] و [تفسير قرطبي 83/3 فى تفسير قوله تعالىٰ: «﴿فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ﴾» بقرة: 222/2] وضاحت:
(تشریح احادیث 1081 سے 1086) اس روایت میں ہے کہ حائضہ کو مرد کے لحاف سے دور رہنا واجب ہے۔ لیکن یہ قول مرجوح اور شاذ ہے، صحیح حدیث میں ایک ساتھ سونے اور مباشرت یعنی صرف لپٹنے اور چپٹنے کی اجازت ہے، جیسا کہ اگلی روایت نمبر (1088) پر آ رہا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
شریح (القاضی) نے فرمایا: مرد کے لئے سُرہ سے اوپر کا حصہ ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1091]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 1239]، [تفسير طبري 384/2] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے حیض کی حالت میں معانقہ کرتے (چمٹا لیتے) تھے، میرے سر کو چھوتے، مگر ہمارے درمیان کپڑ ا حائل رہتا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1092]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد الطيالسي 238]، [مسند أبى يعلی 4487]، [بيهقي 312/1]۔ نیز دیکھئے: اثر رقم (1073)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہود میں جب کوئی عورت حائضہ ہوتی تو نہ اس کے ساتھ کھاتے نہ پیتے، اسے کمرے سے نکال دیتے، وہ لوگوں کے ساتھ گھر میں بھی نہ رہ پاتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى» [2-البقرة:222] ”وہ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ وہ گندگی ہے۔“ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مسلمانوں کو) حکم دیا کہ وہ ان کے ساتھ کھائیں پئیں، گھر میں رہیں، ان کے ساتھ سوائے جماع کے کچھ بھی کریں، (جب یہود کو خبر لگی تو) انہوں نے کہا: یہ شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) چاہتا ہے کہ ہر چیز میں ہماری مخالفت کرے۔ (یہ سنا تو) سیدنا عباد بن بشر اور سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہما رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ یہود ایسا ایسا کہتے ہیں، تو کیا ہم حائضہ عورتوں سے جماع نہ کر لیا کریں؟ (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ شدت سے بدل گیا، ہم سمجھے آپ ان سے ناراض ہو گئے، ہم دونوں اٹھے اور چل دیئے، اتنے میں دودھ کا ہدیہ آیا تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلا بھیجا (واپس آئے تو) ان دونوں کو دودھ پلایا، لہٰذا ہم کو معلوم ہو گیا کہ آپ ان سے غصہ نہیں ہوئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1093]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 302]، [أبوداؤد 2165]، [ترمذي 2977]، [نسائي 287]، [ابن ماجه 644]، [مسند الموصلي 3533]، [صحيح ابن حبان 1362] وضاحت:
(تشریح احادیث 1086 سے 1089) اس طویل حدیث سے حائضہ عورت کے ساتھ کھانا پینا، رہن سہن کا پتہ چلا۔ حیض کی حالت میں جماع کرنا خلافِ شرع تھا اس لئے آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا کیونکہ یہ چیز حرام ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
شیبہ بن ہشام راسبی نے کہا: میں نے سالم بن عبداللہ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا جو ایک لحاف میں بحالت حیض اپنی بیوی کے ساتھ لیٹے؟ (تو انہوں نے کہا) ہم آل عمر عورتوں کو حالت حیض میں چھوڑ دیتے ہیں (یعنی پاس نہیں لٹاتے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1094]»
ابوہلال محمد سلیم راسبی کی وجہ سے یہ روایت حسن کے درجہ کو پہنچتی ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 255/4 عن طريق أبى نعيم فضل بن دكين]، سند حسن ہونے کے باوجود یہ ان کا فعل تھا جو صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ اور شاید یہ ان کے شدتِ احتیاط کی وجہ سے تھا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: عورت اگر جنبی یا حائضہ نہ ہو تو اس کے بچے ہوئے پانی کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1095]»
اس روایت کے رواۃ ثقہ ہیں، صرف ابن اسحاق مدلس ہیں اور انہوں نے عنعنہ سے روایت کیا ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 33/1] و [مصنف عبدالرزاق 394] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حکم بن عتبہ رحمہ اللہ نے کہا: ایسی صورت میں وہ شرم گاہ پر (کپڑا) رکھ لے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1096]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ام المومنین زوجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں میں سے کسی سے بھی بحالت حیض ازار کے اوپر سے مباشرت فرما لیتے تھے، جو ازار کہ آدھی ران یا گھٹنے تک بندھا رہتا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1097]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 267]، [نسائي 286، 374]، [مسند أبى يعلی 7082، 7089] و [صحيح ابن حبان 1365] وضاحت:
(تشریح احادیث 1089 سے 1093) ان تمام روایات سے حالتِ حیض میں عورت سے مباشرت کرنے، ساتھ لیٹنے اور ساتھ کھانے پینے کا ثبوت ملا، اس حالت میں صرف جماع کرنے کی ممانعت ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح
|