من كتاب الطهارة وضو اور طہارت کے مسائل 94. باب الْكُدْرَةِ إِذَا كَانَتْ بَعْدَ الْحَيْضِ: مٹیالا رنگ حیض کے بعد آئے تو اس کا بیان
امام حسن رحمہ اللہ نے اس عورت کے بارے میں کہا جو طہر کے ایام میں خون دیکھے، فرمایا: میری رائے میں غسل کر کے نماز پڑھے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 894]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 94/1] وضاحت:
(تشریح حدیث 889) یعنی یہ استحاضہ کا خون شمار ہوگا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام ابن سیرین رحمہ اللہ نے کہا: صفرۃ و کدرۃ میں لوگ کوئی برائی سمجھتے نہ تھے۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 895]»
اس قول کی یہ سند صحیح ہے۔ حوالہ گذر چکا ہے۔ نیز دیکھئے: [مصنف 93/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
محمد بن الحنفيۃ نے اس عورت کے بارے میں کہا جس کو طہر (پاکی) کے بعد زردی دکھائی دے کہ یہ تریہ (یعنی تری، رطوبت) ہے، اس کو وہ دھو لے وضو کرے اور نماز پڑھ لے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 896]»
اس قول کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 93/1] وضاحت:
(تشریح احادیث 890 سے 892) «ترية» غالباً اردو کی تری سے ہے یعنی رطوبت۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
امام حسن رحمہ اللہ نے فرمایا: غسل کے بعد تریہ میں طہور کے سوا کچھ نہیں۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: تریہ سے مراد: صفرۃ و کدرة ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 897]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ ابونعیم کا نام فضل بن دکین اور حجاج: ابن منہال ہیں، دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 94/1] و [بيهقي 336/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہانے کے ایک یا دو دن کے بعد عورت تری محسوس کرے تو وہ صفائی کر کے نماز پڑھے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف حجاج هو: ابن أرطاة وهو ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 898]»
حجاج بن ارطاة کی وجہ سے اس کی سند ضعیف ہے، نیز حارث الاعور بھی متکلم فیہ ہے۔ عبدالرزاق نے [مصنف 1161] میں لمبے سیاق سے یہ روایت نقل کی ہے، اسی طرح ابن ابی شیبہ نے بھی [المصنف 93/1] میں اس روایت کو نقل کیا ہے اور اس کی سند بھی ضعیف ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف حجاج هو: ابن أرطاة وهو ضعيف
عطاء نے فرمایا: غسل کے بعد تری میں سوائے صفائی کے اور کچھ نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 899]»
اس قول کی یہ سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 94/1]۔ نیز آگے آنے والی اثر رقم (901)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت بھی کی تھی، انہوں نے کہا: غسل کے بعد ہم صفرۃ و کدرۃ کی کچھ پرواہ نہیں کرتی تھیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 900]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ حماد: ابن سلمہ اور ام ہذیل: حفصہ بنت سیرین ہیں، حوالہ دیکھئے: [المستدرك 174/1]، [أبوداؤد 307]، نیز یہ حدیث (889) پر گزر چکی ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 892 سے 896) صحابی یا صحابیہ جب یہ کہیں کہ ہم ایسا کیا کرتے تھے تو یہ قواعدِ حدیث کے مطابق مرفوع مانا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہوا حیض رک جانے اور غسل کر لینے کے بعد جو رطوبت خارج ہو وہ مانع صلاۃ نہ ہوگی، عورت وضو کر کے نماز پڑھے گی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام حسن رحمہ اللہ نے فرمایا: حیض والی عورت نہانے کے ایک یا دو دن بعد اگر جما ہوا تازہ خون دیکھے تو ایک دن اور نماز نہ پڑھے، اس کے بعد وہ مستحاضہ مانی جائے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 901]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ حجاج: ابن منہال اور حماد: ابن سلمہ و یونس: ابن عبید ہیں، کہیں اور یہ روایت نہ مل سکی۔ بعض نسخ میں «تريا غليظا» کی جگہ «دما عبيطا» ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عورت جب حیض سے پاک ہو جائے، پھر پاکی کے بعد ایسی چیز دیکھے جو اسے شک میں ڈال دے، تو یہ رحم میں شیطان کی حرکت ہے، پس جب نکسیر کی طرح کا یا خون کا دھبہ یا گوشت کی دھوون جیسی کوئی چیز دیکھے تو نماز کا وضو کر لے اور نماز پڑھ لے، اور اگر تازہ خون دیکھے جس میں شک و شبہ نہ ہو تو نماز ترک کر دے (یعنی اسے حیض کا خون شمار کرے)۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے یزید بن ہارون کو کہتے سنا: اگر عورت کی مدت حیض سات دن ہو اور وہ طہر کی سفیدی دیکھ لے پھر شادی کر لے، اور پھر اس 7 یوم کی مدت سے دس دن کے اندر خون دیکھے تو اس کا نکاح جائز و صحیح ہے۔ اور اگر سات دن سے کم میں پاک ہو گئی اور شادی کر لی، پھر خون آ گیا تو اس کا نکاح صحیح و جائز نہیں، وہ حیض کا خون ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: آپ بھی یہی کہتے ہیں؟ فرمایا: ہاں۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل الحارث الأعور، [مكتبه الشامله نمبر: 902]»
حارث الاعور کی وجہ سے یہ حدیث حسن ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 93/1] وضاحت:
(تشریح احادیث 896 سے 898) یعنی آخری حیض کے سات دن پورے ہونے پر اس کی عدت پوری ہوگئی، لہٰذا نکاح جائز ہے اور خونِ استحاضہ مانا جائے گا، اور سات دن سے کم مدت میں خون رک کر پھر آ گیا تو وہ حیض کا خون ہے، لہٰذا عدت پوری نہیں ہوئی اس لئے نکاح جائز نہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل الحارث الأعور
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ایسی عورت کے بارے میں مروی ہے جس کی مدت حیض چھ یا سات دن ہو، پھر وہ صفرہ یا کدرہ یا ایک قطره یا دو قطرے خون کے دیکھے تو یہ بے کار ہے اور اس میں کوئی مضرت نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف شريك متأخر السماع من أبي إسحاق، [مكتبه الشامله نمبر: 903]»
اس اثر کی سند ضعیف ہے، کیونکہ شریک کا سماع ابواسحاق سے بہت تاخیر سے ہوا۔ نیز دیکھئے: اثر رقم (894)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف شريك متأخر السماع من أبي إسحاق
عبدالکریم نے کہا: میں نے عطاء سے اس عورت کے بارے میں پوچھا جو حیض سے فارغ ہو کر غسل کر لے، پھر زردی آ جائے، انہوں نے کہا: وہ وضو کر کے چھینٹے مار لے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل شريك، [مكتبه الشامله نمبر: 904]»
اس اثر کی سند بھی شریک کی وجہ سے قابلِ غور ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 94/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل شريك
عطاء نے مستحاضہ کے بارے میں فرمایا: وہ ایام حیض کے بعد ایک دو دن اور نماز نہ پڑھے گی، بعدہ غسل کرے گی، پھر اگر تری دیکھے تو وضو کر کے نماز پڑھے گی، اور اگر خون دیکھے تو ظہر میں دیر کر کے عصر جلدی پڑھے اور دونوں نمازوں کے لئے ایک مرتبہ غسل کرے گی۔ جب سورج غروب ہو جائے اور تری دیکھے تو وضو کر کے نماز پڑھے گی، اور اگر وہ خون ہو تو مغرب مؤخر کر کے عشاء جلدی پڑھے گی اور دونوں نمازوں کو ایک غسل سے پڑھے گی، اور طلوع فجر کے وقت اگر تری دیکھے تو وضو کر کے نماز پڑھ لے اور اگر اس وقت بھی خون نظر آئے تو ایک دن رات میں تین مرتبہ غسل کر کے نماز پڑھے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: اقراء سے مراد میرے نزدیک حیض ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 905]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ یعلی: ابن عبید اور عبدالملک: ابن ابی میسرہ ہیں۔ تخریج دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 1161، 1171]، نیز دیکھئے پچھلی اثر رقم (890، 903)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کیا، آپ کے ساتھ آپ کی بعض ازواج نے بھی اعتکاف کیا، حالانکہ وہ مستحاضہ تھیں اور خون آ رہا تھا، اور خون کی وجہ سے وہ نیچے طست رکھ لیتی تھیں۔ عکرمہ نے کہا: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے زرد رنگ کا پانی دیکھا تو فرمایا: اس طرح کا پانی فلاں صاحبہ کو آتا تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 906]»
اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 309، 310، 2027]، [مسند أحمد 131/6]، [أبوداؤد 2476]، [ابن ماجه 1780]، [بيهقي 329/1] وضاحت:
(تشریح احادیث 898 سے 902) اس سے معلوم ہوا کہ مستحاضہ اعتکاف بھی کر سکتی ہے اور زردی نماز، روزے اور اعتکاف میں حائل نہیں ہوگی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حجاج بن ارطاۃ نے کہا: میں نے عطا ء سے اس عورت کے بارے میں پوچھا جو حیض سے پاک ہو گئی پھر زردی دیکھے، تو انہوں نے کہا: وضو کر لے۔
تخریج الحدیث: «إلى نهاية الحديث الشريف " قال: توضأ " إسناده ضعيف لضعف الحجاج وهو: ابن أرطاة. وإلى نهاية الحديث الشريف " تستطهر بثلاثة أيام " إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 907]»
حجاج کی وجہ سے اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ حوالہ گزر چکا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إلى نهاية الحديث الشريف " قال: توضأ " إسناده ضعيف لضعف الحجاج وهو: ابن أرطاة. وإلى نهاية الحديث الشريف " تستطهر بثلاثة أيام " إسناده صحيح
امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: میں نے زید بن یحییٰ پر مالک بن انس کی روایت پڑھی اور ان سے اس عورت کے بارے میں پوچھا جس کی مدت حیض سات دن ہو اور خون جاری رہے، تو انہوں نے فرمایا: تین دن مزید انتظار کرے گی۔ (یعنی دس دن تک حائضہ شمار ہو گی، پھر مستحاضہ کے حکم میں داخل ہو گی۔)
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 908]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 76/16]، (818) پر یہ مسئلہ گذر چکا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
|