من كتاب الطهارة وضو اور طہارت کے مسائل 106. باب في عَرَقِ الْجُنُبِ وَالْحَائِضِ: جنبی اور حائضہ کے پسینے کا بیان
عبداللہ بن عثمان بن خثیم نے کہا: میں نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے پوچھا: جنبی کو پسینہ آئے اور وہ کپڑے سے پسینہ پونچھ لے، کہا: کوئی حرج نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1062]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 191/1]۔ نیز عبدالوہاب: ابن عبدالمجید ہیں۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 1057) اس روایت سے معلوم ہوا وہ کپڑے جو حالتِ جنابت میں پہن لئے ان کو استعمال کرنے اور ان میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عبدالله بن عثمان نے کہا: سعید بن جبیر رحمہ اللہ جنبی کے کپڑے میں پسینہ لگ جانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1063]»
اس قول کی سند حسبِ سابق صحیح ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام شعبی رحمہ اللہ بھی اس میں حرج نہیں سمجھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1064]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 191/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام حسن رحمہ اللہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب ہی اصحاب دو کپڑے یا چادر نہیں رکھتے تھے، انہوں نے کہا: جب دھو لو گے تو کیا تم اس کو پہنو گے نہیں، یہ بالکل اسی طرح ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1065]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
قاسم بن محمد سے مروی ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو عورت سے جماع کرے پھر کپڑا پہن لے، اور اس میں اسے پسینہ بھی آئے، تو انہوں نے اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1066]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 191/1]، [مصنف عبدالرزاق 1431] و [بيهقي 409/2] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عطاء رحمہ اللہ نے کہا: جنبی یا حائضہ کو جس کپڑے میں پسینہ آئے اس میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فقد صرح ابن جريج بالتحديث عن عبد الرازق، [مكتبه الشامله نمبر: 1067]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن [مصنف ابن أبى شيبه 191/1] و [مصنف عبدالرزاق ميں 143/6] میں بسند صحیح موجود ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فقد صرح ابن جريج بالتحديث عن عبد الرازق
امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے جنبی کے بارے میں مروی ہے کہ اس کے کپڑے میں پسینہ لگ جائے، کہا: کوئی حرج نہیں، اور اس پر پانی چھڑکنے کی بھی ضرورت نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف أبي حمزة وهو: ميمون الراعي الأعور، [مكتبه الشامله نمبر: 1068]»
اس قول کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 191/1]۔ نیز ابوحمزہ کا نام میمون الراعی الاعور ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف أبي حمزة وهو: ميمون الراعي الأعور
امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے مروی ہے: حائضہ کو کپڑے میں پسینہ آئے تو اس پر پانی کے چھینٹے مارنا کافی ہو گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1069]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ ہشام: الدستوائی ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
نافع رحمہ اللہ سے مروی ہے: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو حالت جنابت میں کپڑے میں پسینہ آتا، پھر وہ اسی کپڑے میں نماز پڑھ لیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1070]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المؤطا 89]، [ابن أبى شيبه 191/1] و [مصنف عبدالرزاق 1428] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عکرمہ رحمہ اللہ سے مروی ہے: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما حائضہ اور جنبی کے پسینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1071]»
اس روایت میں ہشیم مدلس ہیں اور انہوں نے عنعنہ سے روایت کیا ہے، لیکن عبدالرزاق نے [مصنف 1430] میں بسند صحیح ذکر کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 1058 سے 1067) ان تمام روایات سے یہ ثابت ہوا کہ حیض اور جنابت کی حالت میں کپڑوں میں اگر پسینہ لگ جائے تو کپڑے ناپاک نہیں ہوتے، لہٰذا ان کپڑوں میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، نہ انہیں دھونے کی ضرورت ہے، ہاں منی یا اور کوئی نجاست کپڑے پر لگ جائے تو اس جگہ یا کپڑے کو دھو لینا چاہے۔ واللہ علم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|