حدثنا حماد بن خالد ، حدثنا عبد الله يعني ابن عمر ، عن العباس بن سهل الساعدي ، عن ابيه , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يستند إلى جذع، فقال:" قد كثر الناس ولو كان لي شيء" , يعني: اقعد عليه , قال عباس: فذهب ابي فقطع عيدان المنبر من الغابة، قال: فما ادري عملها ابي او استعملها؟.حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ سَهْلٍ السَّاعِدِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَسْتَنِدُ إِلَى جِذْعٍ، فَقَالَ:" قَدْ كَثُرَ النَّاسُ وَلَوْ كَانَ لِي شَيْءٌ" , يَعْنِي: أَقْعُدُ عَلَيْهِ , قَالَ عَبَّاسٌ: فَذَهَبَ أَبِي فَقَطَعَ عِيدَانَ الْمِنْبَرِ مِنَ الْغَابَةِ، قَالَ: فَمَا أَدْرِي عَمِلَهَا أَبِي أَوْ اسْتَعْمَلَهَا؟.
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لئے ایک تنے کے ساتھ ٹیک لگایا کرتے تھے ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کی تعداد اب زیادہ ہوگئی ہے اگر کوئی چیز ہوتی تو میں اس پر بیٹھ جایا کرتا حضرت سہل رضی اللہ عنہ کے بیٹھے عباس کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب گئے اور غابہ نامی جگہ سے منبر کے لئے لکڑیاں کاٹیں اب مجھے یاد نہیں کہ اسے والد صاحب نے خود بنایا تھا یا کسی سے مزدوری پر بنوایا تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالله بن عمر العمري