حدثنا حجاج ، قال: حدثنا شريك ، عن عاصم ، عن ابي وائل ، عن مسروق ، قال: دخل عبد الرحمن على ام سلمة ، فقالت: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " إن من اصحابي لمن لا يراني بعد ان اموت ابدا" , قال: فخرج عبد الرحمن من عندها مذعورا حتى دخل على عمر، فقال له: اسمع ما تقول امك، فقام عمر حتى اتاها، فدخل عليها، فسالها، ثم قال: انشدك بالله، امنهم انا؟ فقالت: لا، ولن ابرئ بعدك احدا.حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: دَخَلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ ، فَقَالَتْ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ مِنْ أَصْحَابِي لَمَنْ لَا يَرَانِي بَعْدَ أَنْ أَمُوتَ أَبَدًا" , قَالَ: فَخَرَجَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ مِنْ عِنْدِهَا مَذْعُورًا حَتَّى دَخَلَ عَلَى عُمَرَ، فَقَالَ لَهُ: اسْمَعْ مَا تَقُولُ أُمُّكَ، فَقَامَ عُمَرُ حَتَّى أَتَاهَا، فَدَخَلَ عَلَيْهَا، فَسَأَلَهَا، ثُمَّ قَالَ: أَنْشُدُكِ بِاللَّهِ، أَمِنْهُمْ أَنَا؟ فَقَالَتْ: لَا، وَلَنْ أُبَرِّئَ بَعْدَكَ أَحَدًا.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ان کے پاس آئے اور کہنے لگے اماں جان مجھے اندیشہ ہے کہ مال کی کثرت مجھے ہلاک نہ کردے۔ کیونکہ میں قریش میں سب سے زیادہ مالدار ہوں انہوں نے جواب دیا کہ بیٹا اسے خرچ کرو کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے بعض ساتھی ایسے بھی ہوں گے کہ میری ان سے جدائی ہونے کے بعد وہ مجھے دوبارہ کبھی نہ دیکھ سکیں گے، حضرت عبدالرحمن بن عوف جب باہر نکلے تو راستے میں حضرت عمر سے ملاقات ہوگئی انہوں نے حضرت عمر کو یہ بات بتائی حضرت عمر خود حضرت ام سلمہ کے پاس پہنچے اور گھر میں داخل ہو کر فرمایا اللہ کی قسم کھا کر بتائیے کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ انہوں نے فرمایا نہیں لیکن آپ کے بعد میں کسی کے متعلق یہ بات نہیں کہہ سکتی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد خالف فيه عاصم الأعمش، وشريك سييء الحفظ، وقد توبع