مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر

مسند احمد
1176. حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حدیث نمبر: 26669
Save to word اعراب
حدثنا عفان ، قال: حدثنا حماد بن سلمة ، حدثنا ثابت ، قال: حدثني ابن عمر بن ابي سلمة بمنى، عن ابيه ، ان ام سلمة ، قالت: قال: ابو سلمة : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا اصاب احدكم مصيبة، فليقل إنا لله وإنا إليه راجعون، عندك احتسبت مصيبتي واجرني فيها، وابدلني ما هو خير منها" , فلما احتضر ابو سلمة، قال: اللهم اخلفني في اهلي بخير، فلما قبض، قلت: إنا لله وإنا إليه راجعون، اللهم عندك احتسب مصيبتي، فاجرني فيها , قالت: واردت ان اقول: وابدلني خيرا منها، فقلت: ومن خير من ابي سلمة، فما زلت حتى قلتها، فلما انقضت عدتها خطبها ابو بكر فردته، ثم خطبها عمر فردته، فبعث إليها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: مرحبا برسول الله صلى الله عليه وسلم، وبرسوله، اخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم اني امراة غيرى، واني مصبية، وانه ليس احد من اوليائي شاهدا، فبعث إليها رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما قولك: إني مصبية، فإن الله سيكفيك صبيانك، واما قولك: إني غيرى، فسادعو الله ان يذهب غيرتك، واما الاولياء: فليس احد منهم شاهد ولا غائب إلا سيرضاني" , قلت: يا عمر، قم فزوج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما إني لا انقصك شيئا مما اعطيت اختك فلانة رحيين وجرتين، ووسادة من ادم، حشوها ليف" . قال: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم ياتيها، فإذا جاء اخذت زينب، فوضعتها في حجرها لترضعها، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم حييا كريما، يستحيي، فرجع، ففعل ذلك مرارا، ففطن عمار بن ياسر لما تصنع، فاقبل ذات يوم وجاء عمار، وكان اخاها لامها، فدخل عليها، فانتشطها من حجرها، وقال: دعي هذه المقبوحة المشقوحة التي آذيت بها رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فدخل، فجعل يقلب بصره في البيت , ويقول:" اين زناب؟ ما فعلت زناب؟" , قالت: جاء عمار، فذهب بها، قال: فبنى باهله، ثم قال: " إن شئت ان اسبع لك، سبعت للنساء" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ بِمِنًى، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: قَالَ: أَبُو سَلَمَةَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَصَابَ أَحَدَكُمْ مُصِيبَةٌ، فَلْيَقُلْ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، عِنْدَكَ احْتَسَبْتُ مُصِيبَتِي وَأْجُرْنِي فِيهَا، وَأَبْدِلْنِي مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْهَا" , فَلَمَّا احْتُضِرَ أَبُو سَلَمَةَ، قَالَ: اللَّهُمَّ اخْلُفْنِي فِي أَهْلِي بِخَيْرٍ، فَلَمَّا قُبِضَ، قُلْتُ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، اللَّهُمَّ عِنْدَكَ أَحْتَسِبُ مُصِيبَتِي، فَأْجُرْنِي فِيهَا , قَالَتْ: وَأَرَدْتُ أَنْ أَقُولَ: وَأَبْدِلْنِي خَيْرًا مِنْهَا، فَقُلْتُ: وَمَنْ خَيْرٌ مِنْ أَبِي سَلَمَةَ، فَمَا زِلْتُ حَتَّى قُلْتُهَا، فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا خَطَبَهَا أَبُو بَكْرٍ فَرَدَّتْهُ، ثُمَّ خَطَبَهَا عُمَرُ فَرَدَّتْهُ، فَبَعَثَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: مَرْحَبًا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِرَسُولِهِ، أَخْبِرْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي امْرَأَةٌ غَيْرَى، وَأَنِّي مُصْبِيَةٌ، وَأَنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَوْلِيَائِي شَاهِدًا، فَبَعَثَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا قَوْلُكِ: إِنِّي مُصْبِيَةٌ، فَإِنَّ اللَّهَ سَيَكْفِيكِ صِبْيَانَكِ، وَأَمَّا قَوْلُكِ: إِنِّي غَيْرَى، فَسَأَدْعُو اللَّهَ أَنْ يُذْهِبَ غَيْرَتَكِ، وَأَمَّا الْأَوْلِيَاءُ: فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْهُمْ شَاهِدٌ وَلَا غَائِبٌ إِلَّا سَيَرْضَانِي" , قُلْتُ: يَا عُمَرُ، قُمْ فَزَوِّجْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَا إِنِّي لَا أَنْقُصُكِ شَيْئًا مِمَّا أَعْطَيْتُ أُخْتَكِ فُلَانَةَ رَحَيَيْنِ وَجَرَّتَيْنِ، وَوِسَادَةً مِنْ أَدَمٍ، حَشْوُهَا لِيفٌ" . قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِيهَا، فَإِذَا جَاءَ أَخَذَتْ زَيْنَبَ، فَوَضَعَتْهَا فِي حِجْرِهَا لِتُرْضِعَهَا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيِيًّا كَرِيمًا، يَسْتَحْيِي، فَرَجَعَ، فَفَعَلَ ذَلِكَ مِرَارًا، فَفَطِنَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ لِمَا تَصْنَعُ، فَأَقْبَلَ ذَاتَ يَوْمٍ وَجَاءَ عَمَّارٌ، وَكَانَ أَخَاهَا لِأُمِّهَا، فَدَخَلَ عَلَيْهَا، فَانْتَشَطَهَا مِنْ حِجْرِهَا، وَقَالَ: دَعِي هَذِهِ الْمَقْبُوحَةَ الْمَشْقُوحَةَ الَّتِي آذَيْتِ بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ، فَجَعَلَ يُقَلِّبُ بَصَرَهُ فِي الْبَيْتِ , وَيَقُولُ:" أَيْنَ زَنَابُ؟ مَا فَعَلَتْ زَنَابُ؟" , قَالَتْ: جَاءَ عَمَّارٌ، فَذَهَبَ بِهَا، قَالَ: فَبَنَى بِأَهْلِهِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنْ شِئْتِ أَنْ أُسَبِّعَ لَكِ، سَبَّعْتُ لِلنِّسَاءِ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابوسلمہ مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو کوئی مصیبت پہنچے تو اسے انا للہ وانا الیہ راجعون کہہ کریوں کہنا چاہئے اے اللہ میں تیرے سامنے اس مصیبت پر ثواب کی نیت کرتا ہوں تو مجھے اس پر اجرعطاء فرما اور اس کا نعم البدل عطاء فرمایا جب حضرت ابوسلمہ مرض الوفات میں مبتلا ہوئے تو میں نے دعاء کی کہ اے اللہ میرے شوہر کے ساتھ خیر کا فیصلہ فرما جب وہ فوت ہوگئے تو میں نے مذکورہ دعاء پڑھی اور جب میں نے یہ کہنا چاہا کہ مجھے اس کا نعم البدل عطاء فرما تو میرے ذہن میں خیال آیا کہ ابوسلمہ سے بہتر کون ہوسکتا ہے؟ لیکن پھر بھی میں یہ کہتی رہی، جب عدت گزر گئی تو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے پے درپے پیغام نکاح بھیجے لیکن انہوں نے اسے رد کردیا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پیغام نکاح بھیجا انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میرا تو کوئی والی یہاں موجود نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے اولیاء میں سے کوئی بھی خواہ وہ غائب ہو یا حاضر اسے ناپسند نہیں کرے گا انہوں نے اپنے بیٹے عمربن ابی سلمہ سے کہا کہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح کرادو چنانچہ انہوں نے حضرت ام سلمہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں دیدیا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ میں نے تمہاری بہنوں (اپنی بیویوں) کو جو کچھ دیا ہے تمہیں بھی اس سے کم نہیں دوں گا، دو چکیاں، ایک مشکیزہ اور چمڑے کا ایک تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی ان کے پاس خلوت کے لئے آتے تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی اپنی بیٹی زینب کو پکڑ کر اسے اپنی گود میں بٹھالیتی تھیں اور بالآخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوں ہی واپس چلے جاتے تھے، حضرت عماربن یاسر جو کہ حضرت ام سلمہ کے رضاعی بھائی تھے، کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ حضرت ام سلمہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ یہ گندی بچی کہاں ہے جس کے ذریعے تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دے رکھی ہے اور اسے پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ اس مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور گھر میں داخل ہوئے تو اس کمرے کے چاروں کونوں میں نظریں دوڑا کر دیکھنے لگے پھر بچی کے متعلق پوچھا کہ زناب (زینب) کہاں گئی؟ انہوں نے بتایا کہ حضرت عمار آئے تھے وہ اسے اپنے ساتھ لے گئے ہیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ خلوت کی اور فرمایا اگر تم چاہو تو میں تمہارے پاس سات دن گزارتا ہوں لیکن پھر اپنی دوسری بیویوں میں سے ہر ایک کے پاس بھی سات سات دن گزاروں گا۔

حكم دارالسلام: بعضه صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال ابن عمر بن أبى سلمة


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.