حدثنا يزيد ، قال: اخبرنا حماد بن سلمة ، عن الازرق بن قيس ، عن ذكوان ، عن ام سلمة ، قالت: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم العصر، ثم دخل بيتي، فصلى ركعتين، فقلت: يا رسول الله، صليت صلاة لم تكن تصليها، فقال: " قدم علي مال، فشغلني عن الركعتين كنت اركعهما بعد الظهر، فصليتهما الآن" , فقلت: يا رسول الله، افنقضيهما إذا فاتتا، قال:" لا" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ الْأَزْرَقِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ ذَكْوَانَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ، ثُمَّ دَخَلَ بَيْتِي، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صَلَّيْتَ صَلَاةً لَمْ تَكُنْ تُصَلِّيهَا، فَقَالَ: " قَدِمَ عَلَيَّ مَالٌ، فَشَغَلَنِي عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ كُنْتُ أَرْكَعُهُمَا بَعْدَ الظُّهْرِ، فَصَلَّيْتُهُمَا الْآنَ" , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَنَقْضِيهِمَا إِذَا فَاتَتَا، قَالَ:" لَا" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی اس دن کہیں سے مال آیا ہوا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے تقسیم کرنے کے لئے بیٹھ گئے حتی کہ مؤذن عصر کی اذان دینے لگا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی اور میرے ہاں تشریف لے آئے کیونکہ اس دن میری باری تھی اور میرے یہاں دو مختصر رکعتیں پڑھیں اس پر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ دو رکعتیں کیسی ہیں جن کا آپ کو حکم دیا گیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ یہ وہ رکعتیں ہیں جو میں ظہر کے بعد پڑھا کرتا تھا لیکن مال کی تقسم میں ایسا مشغول ہوا کہ مؤذن میرے پاس عصر کی نماز کی اطلاع لے کر آگیا، میں نے انہیں چھوڑنا مناسب نہ سمجھا (اس لئے اب پڑھ لیا) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا ہم بھی ان کی قضاء کرسکتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔
حكم دارالسلام: صلاة النبى ﷺ بعد العصر ركعتين صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه