حدثنا عفان ، حدثنا وهيب ، حدثنا عبد الله بن عثمان بن خثيم ، عن عبد الرحمن بن سابط ، قال: دخلت على حفصة ابنة عبد الرحمن ، فقلت: إني سائلك عن امر , وانا استحيي ان اسالك عنه، فقالت: لا تستحيي يا ابن اخي، قال: عن إتيان النساء في ادبارهن؟ قالت: حدثتني ام سلمة ان الانصار كانوا لا يجبون النساء، وكانت اليهود تقول: إنه من جبى امراته، كان ولده احول، فلما قدم المهاجرون المدينة، نكحوا في نساء الانصار، فجبوهن، فابت امراة ان تطيع زوجها، فقالت لزوجها: لن تفعل ذلك حتى آتي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدخلت على ام سلمة، فذكرت ذلك لها، فقالت: اجلسي حتى ياتي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم استحت الانصارية ان تساله، فخرجت، فحدثت ام سلمة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " ادعي الانصارية"، فدعيت، فتلا عليها هذه الآية: نساؤكم حرث لكم فاتوا حرثكم انى شئتم سورة البقرة آية 223 صماما واحدا.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ ابْنَةِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، فَقُلْتُ: إِنِّي سَائِلُكِ عَنْ أَمْرٍ , وَأَنَا أَسْتَحْيِي أَنْ أَسْأَلَكِ عَنْهُ، فَقَالَتْ: لَا تَسْتَحْيِي يَا ابْنَ أَخِي، قَالَ: عَنْ إِتْيَانِ النِّسَاءِ فِي أَدْبَارِهِنَّ؟ قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ سَلَمَةَ أَنَّ الْأَنْصَارَ كَانُوا لَا يُجِبُّونَ النِّسَاءَ، وَكَانَتْ الْيَهُودُ تَقُولُ: إِنَّهُ مَنْ جَبَّى امْرَأَتَهُ، كَانَ وَلَدُهُ أَحْوَلَ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمُهَاجِرُونَ الْمَدِينَةَ، نَكَحُوا فِي نِسَاءِ الْأَنْصَارِ، فَجَبُّوهُنَّ، فَأَبَتْ امْرَأَةٌ أَنْ تُطِيعَ زَوْجَهَا، فَقَالَتْ لِزَوْجِهَا: لَنْ تَفْعَلَ ذَلِكَ حَتَّى آتِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَتْ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهَا، فَقَالَتْ: اجْلِسِي حَتَّى يَأْتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَحَتْ الْأَنْصَارِيَّةُ أَنْ تَسْأَلَهُ، فَخَرَجَتْ، فَحَدَّثَتْ أُمُّ سَلَمَةَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " ادْعِي الْأَنْصَارِيَّةَ"، فَدُعِيَتْ، فَتَلَا عَلَيْهَا هَذِهِ الْآيَةَ: نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ سورة البقرة آية 223 صِمَامًا وَاحِدًا.
عبد الرحمن بن سابط کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میرے یہاں حفصہ بنت عبدالرحمن آئی ہوئی تھیں میں نے ان سے کہا میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں لیکن پوچھتے ہوئے شرم آرہی ہے، انہوں نے کہا بھتیجے شرم نہ کرو میں نے کہا کہ عورتوں کے پاس پچھلے حصے میں آنے کا کیا حکم ہے، انہوں نے بتایا کہ مجھے حضرت ام سلمہ نے بتایا ہے کہ انصار کے مرد اپنی عورتوں کے پاس پچھلے حصے سے نہیں آتے تھے، کیونکہ یہودی کہا کرتے تھے کہ جو شخص اپنی بیوی کے پاس پچھلی جانب سے آتا ہے اس کی اولاد بھینگی ہوتی ہے، جب مہاجرین مدینہ منورہ آئے تو انہوں نے انصاری عورتوں سے بھی نکاح کیا اور پچھلی جانب سے ان کے پاس آتے، لیکن ایک عورت نے اس معاملے میں اپنے شوہر کی بات ماننے سے انکار کردیا اور کہنے لگی کہ جب تک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم نہ پوچھ لوں اس وقت تک تم یہ کام نہیں کرسکتے۔ چنانچہ وہ عورت حضرت ام سلمہ کے پاس آئی اور ان سے اس کا ذکر کیا، حضرت ام سلمہ نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم آتے ہی ہوں گے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو اس عورت کو یہ سوال پوچھتے ہوئے شرم آئی لہذا وہ یوں ہی واپس چلی گئی، بعد میں حضرت ام سلمہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس انصاریہ کو بلاؤ! چنانچہ اسے بلایا گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سامنے یہ آیت تلاوت فرمائی " تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں سو تم اپنے کھیت میں جس طرح آنا چاہو، آسکتے ہو " اور فرمایا کہ اگلے سوراخ میں ہو (خواہ مرد پیچھے سے آئے یا آگے سے)۔