حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا محمد بن مطرف ، عن زيد بن اسلم ، عن عطاء بن يسار ، عن عبد الله الصنابحي ، قال: زعم ابو محمد ان الوتر واجب! فقال عبادة بن الصامت : كذب ابو محمد، اشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " خمس صلوات افترضهن الله على عباده، من احسن وضوءهن، وصلاتهن لوقتهن، فاتم ركوعهن وسجودهن وخشوعهن، كان له عند الله عهد ان يغفر له، ومن لم يفعل، فليس له عند الله عهد، إن شاء غفر له، وإن شاء عذبه" .حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُطَرِّفٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الصُّنَابِحِيِّ ، قَالَ: زَعَمَ أَبُو مُحَمَّدٍ أَنَّ الْوَتْرَ وَاجِبٌ! فَقَالَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ : كَذَبَ أَبُو مُحَمَّدٍ، أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللَّهُ عَلَى عِبَادِهِ، مَنْ أَحْسَنَ وُضُوءَهُنَّ، وَصَلَاتَهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ، فَأَتَمَّ رُكُوعَهُنَّ وَسُجُودَهُنَّ وَخُشُوعَهُنَّ، كَانَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ، فَلَيْسَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ، وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ" .
مخدجی " جن کا تعلق بنو کنانہ سے تھا کہتے ہیں کہ شام میں ایک انصاری آدمی تھا جس کی کنیت ابو محمد تھی اس کا یہ کہنا تھا کہ وتر واجب (فرض) ہیں وہ " مخدجی " حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ابو محمد وتر کو واجب قرار دیتے ہیں حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابو محمد سے غلطی ہوئی میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کردی ہیں جو شخص انہیں اس طرح ادا کرے کہ ان میں سے کسی چیز کو ضائع نہ کرے اور ان میں کا حق معمولی نہ سمجھے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے گا اور جو انہیں اس طرح ادا نہ کرے تو اللہ کا اس سے کوئی وعدہ نہیں چاہے تو اسے سزا دے اور چاہے تو اسے معاف فرما دے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، عبدالله الصنابحي هو أبو عبدالله الصنابحي على الراجح