حدثنا معاوية بن عمرو ، حدثنا ابو إسحاق ، عن عبد الرحمن بن عياش بن ابي ربيعة ، عن سليمان بن موسى ، عن ابي سلام، عن ابي امامة ، عن عبادة بن الصامت ، قال: خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم فشهدت معه بدرا، فالتقى الناس فهزم الله تبارك وتعالى العدو، فانطلقت طائفة في آثارهم يهزمون ويقتلون، فاكبت طائفة على العسكر يحوونه ويجمعونه، واحدقت طائفة برسول الله صلى الله عليه وسلم لا يصيب العدو منه غرة، حتى إذا كان الليل، وفاء الناس بعضهم إلى بعض، قال الذين جمعوا الغنائم: نحن حويناها وجمعناها، فليس لاحد فيها نصيب، وقال الذين خرجوا في طلب العدو: لستم باحق بها منا، نحن نفينا عنها العدو وهزمناهم، وقال الذين احدقوا برسول الله صلى الله عليه وسلم: لستم باحق بها منا، نحن احدقنا برسول الله صلى الله عليه وسلم , وخفنا ان يصيب العدو منه غرة واشتغلنا به، فنزلت: يسالونك عن الانفال قل الانفال لله والرسول فاتقوا الله واصلحوا ذات بينكم سورة الانفال آية 1 , فقسمها رسول الله صلى الله عليه وسلم على فواق بين المسلمين، قال:" وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اغار في ارض العدو نفل الربع، وإذا اقبل راجعا وكل الناس، نفل الثلث، وكان يكره الانفال، ويقول:" ليرد قوي المؤمنين على ضعيفهم" .حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَهِدْتُ مَعَهُ بَدْرًا، فَالْتَقَى النَّاسُ فَهَزَمَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى الْعَدُوَّ، فَانْطَلَقَتْ طَائِفَةٌ فِي آثَارِهِمْ يَهْزِمُونَ وَيَقْتُلُونَ، فَأَكَبَّتْ طَائِفَةٌ عَلَى الْعَسْكَرِ يَحْوُونَهُ وَيَجْمَعُونَهُ، وَأَحْدَقَتْ طَائِفَةٌ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُصِيبُ الْعَدُوُّ مِنْهُ غِرَّةً، حَتَّى إِذَا كَانَ اللَّيْلُ، وَفَاءَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، قَالَ الَّذِينَ جَمَعُوا الْغَنَائِمَ: نَحْنُ حَوَيْنَاهَا وَجَمَعْنَاهَا، فَلَيْسَ لِأَحَدٍ فِيهَا نَصِيبٌ، وَقَالَ الَّذِينَ خَرَجُوا فِي طَلَبِ الْعَدُوِّ: لَسْتُمْ بِأَحَقَّ بِهَا مِنَّا، نَحْنُ نَفَيْنَا عَنْهَا الْعَدُوَّ وَهَزَمْنَاهُمْ، وَقَالَ الَّذِينَ أَحْدَقُوا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَسْتُمْ بِأَحَقَّ بِهَا مِنَّا، نَحْنُ أَحْدَقْنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَخِفْنَا أَنْ يُصِيبَ الْعَدُوُّ مِنْهُ غِرَّةً وَاشْتَغَلْنَا بِهِ، فَنَزَلَتْ: يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ قُلِ الأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ سورة الأنفال آية 1 , فَقَسَمَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَوَاقٍ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ، قَالَ:" وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَغَارَ فِي أَرْضِ الْعَدُوِّ نَفَلَ الرُّبُعَ، وَإِذَا أَقْبَلَ رَاجِعًا وَكُلَّ النَّاسِ، نَفَلَ الثُّلُثَ، وَكَانَ يَكْرَهُ الْأَنْفَالَ، وَيَقُولُ:" لِيَرُدَّ قَوِيُّ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى ضَعِيفِهِمْ" .
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے میں غزوہ بدر میں شریک تھا فریقین کا آمنا سامنا ہوا تو اللہ نے دشمن کو شکت سے دوچار کردیا مسلمانوں کا ایک دستہ انہیں شکت دیتا ہوا قتل کرتا ہوا ان کے تعاقب میں چلا گیا اور ایک گروہ ان کے کیمپوں کی طرف متوجہ ہوا اور مال غنیمت جمع کرنے لگا اور ایک گروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتا رہا تاکہ دشمن اچانک حملہ کر کے انہیں نقصان نہ پہنچا سکے۔
جب رات ہوئی اور لوگ واپس آنے لگے تو مال غنیمت جمع کرنے والے کہنے لگے کہ یہ تو ہم نے جمع کیا ہے لہٰذا اس میں کسی کا حصہ نہیں ہے دشمن کی تلاش میں جانے والے کہنے لگے کہ تمہارا اس پر ہم سے زیادہ حق نہیں ہے ہم نے دشمن کو بھگا کر شکست سے دوچار کیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرنے والے کہنے لگے کہ تمہارا اس پر ہم سے زیادہ حق نہیں ہے ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی ہے کیونکہ ہمیں اندیشہ تھا کہ کہیں دشمن اچانک دھوکے سے ان پر حملہ نہ کر دے اور ہم غفلت میں پڑے رہ جائیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی، " یسألونک عن الأنفال۔۔۔۔ " چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تمام مسلمانوں کے درمیان برابر برابر تقسیم کردیا۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب دشمن کے علاقے پر حملہ فرماتے تھے تو چوتھائی حصہ انعام میں دے دیتے تھے اور جب وہاں سے واپس ہوتے تو تمام لوگوں میں ایک تہائی حصہ انعام میں تقسیم کردیتے تھے اس کے علاوہ انفال کو آپ نامناسب سمجھتے تھے اور فرماتے تھے طاقتور مسلمان کو کمزور کی مدد کرنی چاہیے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وإسناد هذا الحديث قد اختلف فيه على عبدالرحمن بن الحارث، وهذا ليس بذاك القوي