حدثنا يعقوب بن إبراهيم ، قال: حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: حدثني يزيد بن ابي حبيب ، عن راشد مولى حبيب بن ابي اوس الثقفي، عن حبيب بن ابي اوس ، قال: حدثني عمرو بن العاص من فيه، قال: لما انصرفنا من الاحزاب عن الخندق، جمعت رجالا من قريش كانوا يرون مكاني، ويسمعون مني، فقلت لهم: تعلمون، والله إني لارى امر محمد يعلو الامور علوا كبيرا، وإني قد رايت رايا، فما ترون فيه؟ قالوا: وما رايت؟ قال: رايت ان نلحق بالنجاشي فنكون عنده، فإن ظهر محمد على قومنا، كنا عند النجاشي، فإنا ان نكون تحت يديه احب إلينا من ان نكون تحت يدي محمد، وإن ظهر قومنا فنحن من قد عرفوا، فلن ياتينا منهم إلا خير. فقالوا: إن هذا الراي. قال: فقلت لهم: فاجمعوا له ما نهدي له. وكان احب ما يهدى إليه من ارضنا الادم , فجمعنا له ادما كثيرا، فخرجنا حتى قدمنا عليه، فوالله إنا لعنده إذ جاء عمرو بن امية الضمري، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد بعثه إليه في شان جعفر واصحابه قال: فدخل عليه ثم خرج من عنده، قال: فقلت لاصحابي: هذا عمرو بن امية، لو قد دخلت على النجاشي فسالته إياه فاعطانيه، فضربت عنقه، فإذا فعلت ذلك رات قريش اني قد اجزات عنها حين قتلت رسول محمد. قال: فدخلت عليه، فسجدت له كما كنت اصنع، فقال: مرحبا بصديقي، اهديت لي من بلادك شيئا؟ قال: قلت: نعم ايها الملك، قد اهديت لك ادما كثيرا. قال: ثم قدمته إليه، فاعجبه واشتهاه، ثم قلت له: ايها الملك، إني قد رايت رجلا خرج من عندك، وهو رسول رجل عدو لنا، فاعطنيه لاقتله، فإنه قد اصاب من اشرافنا وخيارنا. قال: فغضب، ثم مد يده فضرب بها انفه ضربة ظننت انه قد كسره، فلو انشقت لي الارض لدخلت فيها فرقا منه، ثم قلت: ايها الملك، والله لو ظننت انك تكره هذا ما سالتكه. فقال: اتسالني ان اعطيك رسول رجل ياتيه الناموس الاكبر الذي كان ياتي موسى لتقتله؟! قال: قلت: ايها الملك، اكذاك هو؟ فقال: ويحك يا عمرو، اطعني واتبعه، فإنه والله لعلى الحق، وليظهرن على من خالفه كما ظهر موسى على فرعون وجنوده. قال: قلت: فبايعني له على الإسلام. قال: نعم. فبسط يده وبايعته على الإسلام، ثم خرجت إلى اصحابي وقد حال رايي عما كان عليه، وكتمت اصحابي إسلامي. ثم خرجت عامدا لرسول الله صلى الله عليه وسلم لاسلم، فلقيت خالد بن الوليد، وذلك قبيل الفتح، وهو مقبل من مكة، فقلت اين يا ابا سليمان؟ قال: والله لقد استقام المنسم، وإن الرجل لنبي، اذهب والله اسلم، فحتى متى؟ قال: قلت: والله ما جئت إلا لاسلم. قال: فقدمنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقدم خالد بن الوليد فاسلم وبايع، ثم دنوت، فقلت: يا رسول الله، إني ابايعك على ان تغفر لي ما تقدم من ذنبي. ولا اذكر ما تاخر , قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا عمرو، بايع، فإن الإسلام يجب ما كان قبله، وإن الهجرة تجب ما كان قبلها" قال: فبايعته ثم انصرفت . قال ابن إسحاق: وقد حدثني من لا اتهم ان عثمان بن طلحة بن ابي طلحة كان معهما، اسلم حين اسلما.حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ رَاشِدٍ مَوْلَى حَبِيبِ بْنِ أَبِي أَوْسٍ الثَّقَفِيِّ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي أَوْسٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ مِنْ فِيهِ، قَالَ: لَمَّا انْصَرَفْنَا مِنْ الْأَحْزَابِ عَنْ الْخَنْدَقِ، جَمَعْتُ رِجَالًا مِنْ قُرَيْشٍ كَانُوا يَرَوْنَ مَكَانِي، وَيَسْمَعُونَ مِنِّي، فَقُلْتُ لَهُمْ: تَعْلَمُونَ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَى أَمْرَ مُحَمَّدٍ يَعْلُو الْأُمُورَ عُلُوًّا كَبِيرًا، وَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ رَأْيًا، فَمَا تَرَوْنَ فِيهِ؟ قَالُوا: وَمَا رَأَيْتَ؟ قَالَ: رَأَيْتُ أَنْ نَلْحَقَ بِالنَّجَاشِيِّ فَنَكُونَ عِنْدَهُ، فَإِنْ ظَهَرَ مُحَمَّدٌ عَلَى قَوْمِنَا، كُنَّا عِنْدَ النَّجَاشِيِّ، فَإِنَّا أَنْ نَكُونَ تَحْتَ يَدَيْهِ أَحَبُّ إِلَيْنَا مِنْ أَنْ نَكُونَ تَحْتَ يَدَيْ مُحَمَّدٍ، وَإِنْ ظَهَرَ قَوْمُنَا فَنَحْنُ مَنْ قَدْ عَرَفُوا، فَلَنْ يَأْتِيَنَا مِنْهُمْ إِلَّا خَيْرٌ. فَقَالُوا: إِنَّ هَذَا الرَّأْيُ. قَالَ: فَقُلْتُ لَهُمْ: فَاجْمَعُوا لَهُ مَا نُهْدِي لَهُ. وَكَانَ أَحَبَّ مَا يُهْدَى إِلَيْهِ مِنْ أَرْضِنَا الْأُدُمُ , فَجَمَعْنَا لَهُ أُدُمًا كَثِيرًا، فَخَرَجْنَا حَتَّى قَدِمْنَا عَلَيْهِ، فَوَاللَّهِ إِنَّا لَعِنْدَهُ إِذْ جَاءَ عَمْرُو بْنُ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيُّ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ بَعَثَهُ إِلَيْهِ فِي شَأْنِ جَعْفَرٍ وَأَصْحَابِهِ قَالَ: فَدَخَلَ عَلَيْهِ ثُمَّ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ، قَالَ: فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي: هَذَا عَمْرُو بْنُ أُمَيَّةَ، لَوْ قَدْ دَخَلْتُ عَلَى النَّجَاشِيِّ فَسَأَلْتُهُ إِيَّاهُ فَأَعْطَانِيهِ، فَضَرَبْتُ عُنُقَهُ، فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ رَأَتْ قُرَيْشٌ أَنِّي قَدْ أَجْزَأْتُ عَنْهَا حِينَ قَتَلْتُ رَسُولَ مُحَمَّدٍ. قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَسَجَدْتُ لَهُ كَمَا كُنْتُ أَصْنَعُ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِصَدِيقِي، أَهْدَيْتَ لِي مِنْ بِلَادِكَ شَيْئًا؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ أَيُّهَا الْمَلِكُ، قَدْ أَهْدَيْتُ لَكَ أُدُمًا كَثِيرًا. قَالَ: ثُمَّ قَدَّمْتُهُ إِلَيْهِ، فَأَعْجَبَهُ وَاشْتَهَاهُ، ثُمَّ قُلْتُ لَهُ: أَيُّهَا الْمَلِكُ، إِنِّي قَدْ رَأَيْتُ رَجُلًا خَرَجَ مِنْ عِنْدِكَ، وَهُوَ رَسُولُ رَجُلٍ عَدُوٍّ لَنَا، فَأَعْطِنِيهِ لِأَقْتُلَهُ، فَإِنَّهُ قَدْ أَصَابَ مِنْ أَشْرَافِنَا وَخِيَارِنَا. قَالَ: فَغَضِبَ، ثُمَّ مَدَّ يَدَهُ فَضَرَبَ بِهَا أَنْفَهُ ضَرْبَةً ظَنَنْتُ أَنَّه قَدْ كَسَرَهُ، فَلَوْ انْشَقَّتْ لِي الْأَرْضُ لَدَخَلْتُ فِيهَا فَرَقًا مِنْهُ، ثُمَّ قُلْتُ: أَيُّهَا الْمَلِكُ، وَاللَّهِ لَوْ ظَنَنْتُ أَنَّكَ تَكْرَهُ هَذَا مَا سَأَلْتُكَهُ. فَقَالَ: أَتَسْأَلُنِي أَنْ أُعْطِيَكَ رَسُولَ رَجُلٍ يَأْتِيهِ النَّامُوسُ الْأَكْبَرُ الَّذِي كَانَ يَأْتِي مُوسَى لِتَقْتُلَهُ؟! قَالَ: قُلْتُ: أَيُّهَا الْمَلِكُ، أَكَذَاكَ هُوَ؟ فَقَالَ: وَيْحَكَ يَا عَمْرُو، أَطِعْنِي وَاتَّبِعْهُ، فَإِنَّهُ وَاللَّهِ لَعَلَى الْحَقِّ، وَلَيَظْهَرَنَّ عَلَى مَنْ خَالَفَهُ كَمَا ظَهَرَ مُوسَى عَلَى فِرْعَوْنَ وَجُنُودِهِ. قَالَ: قُلْتُ: فَبَايِعْنِي لَهُ عَلَى الْإِسْلَامِ. قَالَ: نَعَمْ. فَبَسَطَ يَدَهُ وَبَايَعْتُهُ عَلَى الْإِسْلَامِ، ثُمَّ خَرَجْتُ إِلَى أَصْحَابِي وَقَدْ حَالَ رَأْيِي عَمَّا كَانَ عَلَيْهِ، وَكَتَمْتُ أَصْحَابِي إِسْلَامِي. ثُمَّ خَرَجْتُ عَامِدًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُسْلِمَ، فَلَقِيتُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ، وَذَلِكَ قُبَيْلَ الْفَتْحِ، وَهُوَ مُقْبِلٌ مِنْ مَكَّةَ، فَقُلْتُ أَيْنَ يَا أَبَا سُلَيْمَانَ؟ قَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ اسْتَقَامَ الْمَنْسِمُ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَنَبِيٌّ، أَذْهَبُ وَاللَّهِ أُسْلِمُ، فَحَتَّى مَتَى؟ قَالَ: قُلْتُ: وَاللَّهِ مَا جِئْتُ إِلَّا لِأُسْلِمَ. قَالَ: فَقَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدِمَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَأَسْلَمَ وَبَايَعَ، ثُمَّ دَنَوْتُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أُبَايِعُكَ عَلَى أَنْ تَغْفِرَ لِي مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِي. وَلَا أَذْكُرُ مَا تَأَخَّرَ , قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَمْرُو، بَايِعْ، فَإِنَّ الْإِسْلَامَ يَجُبُّ مَا كَانَ قَبْلَهُ، وَإِنَّ الْهِجْرَةَ تَجُبُّ مَا كَانَ قَبْلَهَا" قَالَ: فَبَايَعْتُهُ ثُمَّ انْصَرَفْتُ . قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: وَقَدْ حَدَّثَنِي مَنْ لَا أَتَّهِمُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ طَلْحَةَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ كَانَ مَعَهُمَا، أَسْلَمَ حِينَ أَسْلَمَا.
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ (قبول اسلام سے پہلے) جب ہم لوگ غزوہ خندق سے واپس ہوئے تو میں نے قریش کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کیا جو میرے مرتبے سے واقف اور میری بات سنتے تھے اور ان سے کہا کہ تم جانتے ہو، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسندیدہ طور پر بہت سے معاملات میں غالب آتے جا رہے ہیں، میری ایک رائے ہے، تم اس میں مجھے مشورہ دو، انہوں نے پوچھا کہ آپ کی کیا رائے ہے؟ عمرو نے کہا میری رائے یہ ہے کہ ہم نجاشی کے پاس چلے جائیں اور وہیں رہ پڑیں، اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم پر غالب آگئے تو ہم نجاشی کے پاس ہوں گے اور اس کے زیر نگیں ہونا ہمارے نزدیک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر نگیں ہونے سے زیادہ بہتر ہوگا اور اگر ہماری قوم غالب آگئی تو ہم جانے پہچانے لوگ ہیں لہذا ان سے ہمیں بہتری ہی کی امید ہے، وہ کہنے لگے کہ یہ تو بہت عمدہ رائے ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ پھر نجاشی کو ہدیہ پیش کرنے کے لئے کچھ جمع کرو، اس وقت ہمارے علاقوں میں سب سے زیادہ بہترین ہدیہ چمڑا ہوتا تھا لہذا ہم نے بہت سا چمڑا جمع کرلیا اور روانہ ہوگئے، جب ہم وہاں پہنچے تو ابھی اس کے پاس ہی تھے کہ حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ نجاشی کے پاس آگئے جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر اور ان کے ساتھیوں کے حوالے سے نجاشی کے پاس بھیجا تھا جب وہ واپس چلے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ عمرو بن امیہ ضمری ہے، اگر میں نجاشی کے پاس گیا تو اس سے درخواست کروں گا کہ عمرو کو میرے حوالے کر دے، اگر اس نے اسے میرے حوالے کردیا تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا اور قریش کے لوگ بھی دیکھ لیں گے کہ جب میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو قتل کردیا تو ان کی طرف سے بدلہ چکا دیا۔ چنانچہ میں نے نجاشی کے پاس پہنچ کر اسے سجدہ کیا جیسا کہ پہلے بھی کرتا تھا، نجاشی نے کہا کہ میرے دوست کو خوش آمدید، کیا تم اپنے علاقے سے میرے لئے کچھ ہدیہ لائے ہو؟ میں نے کہا جی، بادشاہ سلامت! میں آپ کے لئے بہت سا چمڑا ہدیئے میں لے کر آیا ہوں، یہ کہہ کر میں نے وہ چمڑا اس کی خدمت میں پیش کردیا، اسے وہ بہت پسند آیا، پھر میں نے اس سے کہا کہ بادشاہ سلامت! میں نے ابھی آپ کے پاس سے ایک آدمی کو نکلتے ہوئے دیکھا جو ہمارے ایک دشمن کا قاصد ہے، آپ اسے میرے حوالے کردیں تاکہ میں اسے قتل کرسکوں، کیونکہ اس نے ہمارے بہت سے معززین اور بہترین لوگوں کو زخم پہنچائے ہیں یہ سن کر نجاشی غضب ناک ہوگیا اور اپنا ہاتھ کھینچ کر اپنی ناک پر اتنی زور سے مارا کہ میں سمجھا کہ اس کی ناک ٹوٹ گئی ہے اس وقت اگر زمین شق ہوجاتی تو میں اس میں اتر جاتا، میں نے کہا بادشاہ سلامت! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ کو یہ بات اتنی ناگوار گذرے گی تو میں آپ سے کبھی اس کی درخواست نہ کرتا۔ نجاشی نے کہا کہ کیا تم مجھ سے اس شخص کا قاصد مانگتے ہو جس کے پاس وہی ناموس اکبر آتا ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آتا تھا تاکہ تم اسے قتل کردو؟ میں نے پوچھا بادشاہ سلامت! کیا واقعی اسی طرح ہے؟ نجاشی نے کہا عمرو! تم پر افسوس ہے، میری بات مانو تو ان کی اتباع کرلو، واللہ وہ حق پر ہیں اور وہ اپنے مخالفین پر ضرور غالب آئیں گے جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون اور اس کے لشکروں پر غالب آئے تھے میں نے کہا کیا آپ ان کی طرف سے مجھے اسلام پر بیعت کرتے ہیں؟ نجاشی نے ہاں میں جواب دے کر اپنا ہاتھ پھیلا دیا اور میں نے اس سے اسلام پر بیعت کرلی۔ پھر میں اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آیا تو میری حالت اور رائے پہلے سے بدل چکی تھی، میں نے اپنے ساتھیوں سے اپنے اسلام کو مخفی رکھا اور کچھ ہی عرصے بعد قبول اسلام کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کے ارادے سے روانہ ہوگیا، راستے میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی، یہ واقعہ فتح مکہ سے پہلے کا ہے، وہ مکہ مکرمہ سے آرہے تھے، میں نے ان سے پوچھا ابو سلیمان! کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! آلات درست ہوچکے، وہ شخص یقینا نبی ہے اور اب میں اسلام قبول کرنے کے لئے جا رہا ہوں، کب تک یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا؟ میں نے کہا کہ واللہ میں بھی اسلام قبول کرنے کے لئے حبشہ سے آرہا ہوں۔ چنانچہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، پہلے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر اسلام قبول کیا اور بیعت کی، پھر میں نے آگے بڑھ کر عرض کیا یا رسول اللہ! میں اس شرط پر آپ سے بیعت کرتا ہوں کہ آپ میری پچھلی خطاؤں کو معاف کردیں، بعد کے گناہوں کا میں تذکرہ نہیں کرتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمرو! بیعت کرلو، کیونکہ اسلام پہلے کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور اس طرح ہجرت بھی پچھلے گناہوں کو ختم کردیتی ہے، چنانچہ میں نے بھی بیعت کرلی اور واپس لوٹ آیا۔ ابن اسحاق ک
حكم دارالسلام: إسناده حسن فى المتابعات والشواهد، حبيب بن أوس مستور