حدثنا عفان ، حدثنا الاسود بن شيبان ، قال: حدثنا ابو نوفل بن ابي عقرب ، قال: جزع عمرو بن العاص عند الموت جزعا شديدا، فلما راى ذلك ابنه عبد الله بن عمرو، قال: يا ابا عبد الله، ما هذا الجزع" وقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدنيك ويستعملك؟" قال: اي بني، قد كان ذلك، وساخبرك عن ذلك إني والله ما ادري احبا كان ذلك، ام تالفا يتالفني،" ولكني اشهد على رجلين انه قد فارق الدنيا وهو يحبهما ابن سمية، وابن ام عبد". فلما حدثه وضع يده موضع الغلال من ذقنه، وقال: اللهم امرتنا فتركنا، ونهيتنا فركبنا، ولا يسعنا إلا مغفرتك. وكانت تلك هجيراه حتى مات .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نَوْفَلِ بْنُ أَبِي عَقْرَبٍ ، قَالَ: جَزِعَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ عِنْدَ الْمَوْتِ جَزَعًا شَدِيدًا، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، مَا هَذَا الْجَزَعُ" وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُدْنِيكَ وَيَسْتَعْمِلُكَ؟" قَالَ: أَيْ بُنَيَّ، قَدْ كَانَ ذَلِكَ، وَسَأُخْبِرُكَ عَنْ ذَلِكَ إِنِّي وَاللَّهِ مَا أَدْرِي أَحُبًّا كَانَ ذَلِكَ، أَمْ تَأَلُّفًا يَتَأَلَّفُنِي،" وَلَكِنِّي أَشْهَدُ عَلَى رَجُلَيْنِ أَنَّهُ قَدْ فَارَقَ الدُّنْيَا وَهُوَ يُحِبُّهُمَا ابْنُ سُمَيَّةَ، وَابْنُ أُمِّ عَبْدٍ". فَلَمَّا حَدَّثَهُ وَضَعَ يَدَهُ مَوْضِعَ الْغِلَالِ مِنْ ذَقْنِهِ، وَقَالَ: اللَّهُمَّ أَمَرْتَنَا فَتَرَكْنَا، وَنَهَيْتَنَا فَرَكِبْنَا، وَلَا يَسَعُنَا إِلَّا مَغْفِرَتُكَ. وَكَانَتْ تِلْكَ هِجِّيرَاهُ حَتَّى مَاتَ .
ابو نوفل کہتے ہیں کہ موت کے وقت حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ پر شدید گھبراہٹ طاری ہوگئی، ان کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ کیفیت دیکھی تو پوچھا اے ابو عبداللہ! یہ کیسی گھبراہٹ ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ کو اپنے قریب رکھتے تھے اور آپ کو مختلف ذمہ داریاں سونپتے تھے؟ انہوں نے فرمایا بیٹا! یہ تو واقعی حقیقت ہے، لیکن میں تمہیں بتاؤں، بخدا! میں نہیں جانتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم محبت کی وجہ سے میرے ساتھ یہ معاملہ فرماتے تھے یا تالیف قلب کے لئے، البتہ میں اس بات کی گواہی دے سکتا ہوں کہ دنیا سے رخصت ہونے تک وہ دو آدمیوں سے محبت فرماتے تھے، ایک سمیہ کے بیٹے عمار رضی اللہ عنہ سے اور ایک ام عبد کے بیٹے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے، یہ حدیث بیان کر کے انہوں نے اپنے ہاتھ اپنی ٹھوڑی کے نیچے رکھے اور کہنے لگے اے اللہ! تو نے ہمیں حکم دیا، ہم نے اسے چھوڑ دیا، تو نے ہمیں منع کیا اور ہم وہ کام کرتے رہے اور تیری مغفرت کے علاوہ کوئی چیز ہمارا احاطہ نہیں کرسکتی، آخر دم تک پھر وہ یہی کلمات کہتے رہے، یہاں تک کہ فوت ہوگئے۔